محمد طارق اعظم قاسمى
فتنہ کا مادہ فَتْنٌ ہے، اس کے لغوی معنی ہیں: سونے کو آگ میں تپا کر کھرا کھوٹا معلوم کرنا،ل۔ اصل الفتن : ادخال الذھب النار لتظھر جودتہ من ردائہ (راغب) پھر فتنہ کے معنی آزمائش کے ہو گئے، اور آزمائش میں چونکہ تکلیف دی جاتی ہے اس لیے ایذارسانی اور اس کی مختلف شکلوں کے لیے اور آزمائش میں جو کھوٹا ثابت ہو اس کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے ان سب کے لیے قرآن و حدیث میں لفظ فتنہ اور اس کے مشتقات استعمال کیے گئے ہیں، پس فتنہ کے معنی ہیں آزمائش، آفت، دنگا فساد، ہنگامہ، دکھ دینا اور تختہ مشق بنانا وغیرہ۔
فتنوں کی چھ قسمیں ہیں:
پہلی قسم: آدمی کے اندر کا فتنہ اور وہ یہ ہے کہ آدمی کے احوال بگڑ جائیں، اس کا دل سخت ہو جائے اور اس کو عبادت میں حلاوت اور مناجات میں لذت محسوس نہ ہو۔
دوسری قسم: گھر میں فتنہ، اور وہ نظام خانہ داری کا بگاڑ ہے۔ حدیث میں ہے؛ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے یعنی دربار لگاتا ہے، پھر وہ لشکر کی ٹکڑیاں بھیجتا ہے، ان میں سے اس کے نزدیک مرتبہ میں قریب تر وہ ہوتا ہے جو ان میں سب سے بڑا فتنہ بپا کرے۔ ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے: میں نے یہ کیا وہ کیا، شیطان کہتا ہے تو نے کچھ نہیں کیا! پھر ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے میں ایک شخص کے پیچھے لگا رہا، یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کرادی۔ شیطان اس کو قریب کرتا ہے اور کہتا ہے: پٹھے! تو نے اچھا کام کیا۔ (مسلم17: 107 مصری)
تیسری قسم: وہ فتنہ جو سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے اور وہ نظام مملکت کا بگاڑ اور لوگوں کا ناحق حکومت کی آرزو کرنا ہے۔ حدیث میں ہے: شیطان اس سے تو مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرۃ العرب میں نمازی بندے اس کی پرستش کریں، البتہ وہ ان کو آپس میں لڑانے میں لگا ہوا ہے۔ (مسلم 17: 156مصری)
چوتھی قسم : ملی فتنہ اور وہ یہ ہے کہ مخصوص صحابہ وفات پا جائیں اور دین کا معاملہ نااہلوں کے ہاتھ میں پہنچ جائے، پس اولیاء اور علماء دین میں غلو کریں اور بادشاہ اور عوام دین میں سستی برتیں، نہ اچھے کاموں کا حکم دیں اور نہ برے کاموں سے روکیں، پس زمانہ زمانہ جاہلیت ہو کر رہ جائے۔
پانچویں قسم: عالمگیر فتنہ یہ بد دینی کا فتنہ ہے، جب یہ فتنہ رونما ہوتا ہے تو لوگ انسانیت اور اس کے تقاضوں سے نکل جاتے ہیں اور لوگ تین طرح کے ہو جاتے ہیں؛ ایک جو سب سے زیادہ ستھرے اور سب سے زیادہ دنیا سے بے رغبت ہوتے ہیں، وہ دو کام کرتے ہیں: ایک طبیعت کی تقاضوں کو بالکل چھوڑ کر دنیا اور بیوی بچوں سے بےتعلق ہو کر سنیاسی بن جاتے ہیں، حالانکہ شریعت کی یہ تعلیم نہیں، شریعت نے طبیعت کی اصلاح کا حکم دیا ہے اور اس کی صورتیں تجویز کی ہیں۔ دوم: مجردات، یعنی فرشتوں کی مشابہت اور ان کا اشتیاق پیدا کرتے ہیں اور اس کی وہ کوئی نہ کوئی صورت اختیار کرتے ہیں، مثلاً شب بیداری کرنا یا کثرت سے روزے رکھنا وغیرہ۔ دوسرے عام لوگ ہوتے ہیں جو خالص حیوانیت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور حیوانیت کو شرمندہ کرنے والے کام کرنے لگتے ہیں۔ تیسرے بیچ کے لوگ ہوتے ہیں جو نہ پوری طرح ان کی طرف مائل ہوتے ہیں نہ ان کی طرف۔
چھٹی قسم: فضائی حادثات کا فتنہ۔۔۔۔۔ بڑے بڑے طوفان اٹھتے ہیں، وبائیں پھیلتی ہیں، زمین دھنستی ہے اور بڑے علاقہ میں آگ لگتی ہے اور عام تباہی مچتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان حادثات کے ذریعے مخلوق کو ڈراتے ہیں تاکہ وہ اپنی بداعمالیوں سے باز آجائیں۔ (تحفۃ الالمعی جلد 5 صفحہ 523)
فتن ملاحم اور علامات قیامت کی روایتوں کا انداز:
فتن ملاحم اور علامات قیامت کی روایات اہم ہیں۔ ان کا خاص مقصد ملت کو زندگی کے نشیب و فراز سے واقف کرانا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی میں فتنوں کا شکار ہو کر متاعِ زندگی لٹا نہ دیں۔ اور چونکہ یہ تینوں باتیں آئندہ پیش آنے والی ہیں اس لیے ان کی روایات میں مجازی تعبیرات ہیں، یعنی آگے جو کچھ پیش آئے گا اس کو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے تعبیرات میں ادا فرمایا ہے۔مثلا یاجوج ماجوج جب لوگوں سے نمٹ جائیں گے تو کہیں گے آؤ اب آسمان والوں کو قتل کریں، چنانچہ وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے جو خون آلود ہو کر واپس لوٹیں گے وہ خوش ہوں گے کہ ہم نے ایک فرشتہ مارا۔ اس کی کیا صورت ہوگی اور ان کے تیروں کی کیا نوعیت ہوگی وہ وقت بتلائے گا اسی طرح ان روایات میں وقت کی تحدید بھی نہیں کی جاتی۔ اس لیے آئندہ جو واقعات پیش آئیں گے ان میں سے متعدد واقعات پیش خبری کا مصداق ہوسکتے ہیں، پس قطعیت کے ساتھ کسی ایک واقعہ کو ان روایات کا مصداق قرار دینا درست نہیں، یہ روایات ایک اجمالی رہنمائی ہیں جس سے مومنین آنے والے فتنوں میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ (ایضاً)
حدیث میں فتن پر کلام کی حکمتیں:
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر تفصیل کے ساتھ فتن پر کلام اس لیے فرمایا ہے کہ
۱- بعض فتنوں کے جاننے سے ان سے حفاظت کا سامان کیا جاسکتا ہے کیو ں کہ بہت سے فتنے وہ بھی ہیں، جو بند وں کے اختیار سے متعلق ہیں مثلاً :ایک حدیث میں ہے کہ فحش و تفحش کی زیادتی ہوجائے گی۔ اور ظاہر ہے کہ یہ اختیاری کام ہے اور جو کام اختیاری ہو، اس میں فعل وترک کی دونوں جہتیں اختیاری ہوتی ہیں، ایسا نہیں کہ اس کا کرنا تو اختیاری ہو اور چھوڑنا اور ترک کرنا غیر اختیاری ہو؛ لہٰذا اس قسم کے فتنوں کا جاننا ،ان سے حفاظت کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔
۲- بعض فتنے غیر اختیاری ہیں، جیسے: دجال کا آنا وغیرہ، ان کے بتلانے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے شر سے آدمی واقف ہو جائے اور ان سے بچنا اس کے لیے آسان ہوجائے، ظاہر ہے کہ دجال کے آنے کا فتنہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور نہ یہ اختیار میں ہے کہ اس کو کوئی روک دے ، ہاں! یہ ہوسکتا ہے کہ اس فتنے سے پیدا ہونے والے شر سے حفاظت کا سامان کیا جائے؛ اس لیے علامہ سفارینی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ
’’ہر عالم پر ضروری ہے کہ وہ دجال کے سلسلے کی احادیث کو بچوں ،مردوں، عورتوں سب کے درمیان پھیلائے، خصوصاً ہمارے زمانے میں،جس میں فتنوں کی بھرمار اور ابتلاؤں کی کثرت ہے اور سنت وشریعت کے راستے مٹ گئے ہیں‘‘۔(لوامع الانوار البہیۃ 2: 106)
مطلب یہ کہ اس قسم کے فتنوں سے امت کے ہرہر فرد کو واقف کرانا چاہیے تاکہ وہ ان سے نمٹنے اور ان سے محفوظ رہنے کی سبیلیں تلاش کرلیں۔ اور دجال کے شروفتنے سے حفاظت کے لیے حدیث میں سورہ کہف کی ابتدائی تین یادس آیات کی تلاوت کو مفید بتایاگیا ہے۔
۳-بعض فتنوں کے بارے میں خود حدیث نبوی نے وضاحت کردی ہے کہ ان سے بچنے اور محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے، جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا ،ایک وجہ فتنوں پر کلام کرنے کی یہ بھی ہے۔
۴- اور بعض فتنوں کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتادیاکہ ان سے دور رہو یا ان کو نہ لو؛ جیسے فرمایا کہ’’ دریائے فرات سوکھ جائے گا اور اس میں سونے کا خزانہ ظاہر ہوگا ، تم اس سے کچھ نہ لینا‘‘ ۔
ظاہر ہے کہ اس فتنے کا سدِباب اس طرح تو ہو نہیں سکتا تھا کہ فرات کا پانی نہ سوکھے یا سونے کا خزانہ ظاہر نہ ہو؛ البتہ یہ اِمکان واختیار میں تھا کہ اس سونے سے کچھ نہ حاصل کیاجائے۔
۵- ایک وجہ ان فتنوں سے آگا ہ کرنے کی یہ بھی ہے کہ اہلِ علم ا صلاحِ امت میں ان اختیاری فتنوں کے درآنے سے امت کو متنبہ کرتے رہیں اور اصلاحِ احوال کی کوشش کی جائے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شروفتنوں کے بارے میں سوالات کیا کر تے تھے، جب کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی باتیں پوچھتے تھے ،تاکہ شر ان کو نہ پہنچے۔
معلوم ہواکہ فتنوں سے آگہی امت میں فتنوں کے درآنے سے روکنے کا سبب ہوتی ہے؛ چناں چہ ا نھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہم تک پہنچایا اور ہم ان کو پڑھ کر، سن کر، ان سے بچنے کا سامان پید اکرسکتے ہیں۔
۶-اور سب سے بڑی وجہ ان فتنوں کے بیان کرنے کی یہ ہے کہ فتنے جیسا کہ عرض کرچکا ہوں، علاماتِ قیامت میں سے ہیں ،ان کے بیان کرنے سے یہ علم ہوگا کہ قیامت قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے اور جس قدر ان فتنوں کی کثرت ہوگی، اسی قدر قیامت کی قربت کی طر ف اشارہ ملتا رہے گا، اس سے آدمی کو قیامت وآخرت کے دن کے لیے تیاری اور ایمان واعمال میں چستی اور قلب میں نیکی واطاعت کے لیے بیداری کا جذبہ پیدا ہوگا۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو لکھا ہے کہ
’’الحکمۃ في تقدم الإشراط إیقاظ الغافلین وحثہم علی التوبۃ والاستعداد‘‘۔ (فتح الباری 11: 350) (یعنی علاماتِ قیامت کے مقدم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ غفلت زدہ لوگوں کو بیدارکیا جائے اور ان کو توبہ اور آخرت کے لیے تیاری پر ابھارا جا ئے ۔ )
تو جس طرح خود علامات کا ظاہر ہونا توبہ وتیاری وبیداری کا سبب ہے ،اسی طرح ان علامات کا جاننا بھی اس کے لیے مفید ہوتا ہے۔
(حدیث نبوی اور دور حاضر کے فتنے 27-28)
اور سب سے اہم فائدہ: مخلص اور غیر مخلص کو جدا کرنا ہے، جیسے امتحان اسی مقصد سے لیا جاتا ہے کہ کس نے پڑھا ہوا یاد کیا ہے اور کس نے یاد نہیں کیا، اسی طرح مومن کا بھی وقتاً فوقتاً امتحان ہوتا ہے کہ کون ایمان کے دعوے میں کھرا ہے اور کون کھوٹا، چنانچہ صرف مدنی زندگی میں صحابہ کرام کا کم ازکم دس مرتبہ امتحان لیا گیا۔ اب یہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی غایت درجہ شفقت ہے کہ امت کو وہ کمزور پوائنٹ بتا دیے جہاں ایک مومن فیل ہو سکتا ہے۔
ایک عوامی شبہے کا جواب
غرض یہ کہ مختلف وجوہات سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے براہِ شفقت ومہربانی ،امت کو ان فتنوں سے آگا ہ فرمایا، ہماری اس تقریر سے وہ عوامی شبہ دور ہوگیا، جس کو بعض لوگ پیش کیا کرتے ہیں کہ جب ان فتنوں کا آنا اور ظاہر ہونا حق ہے اور ضرور ہونا ہے، تو ان کو بتانے کا کیا فائدہ اور ہم کیسے بچ سکتے ہیں؟ اس کا جواب اوپر کی تفصیل سے بحمد اللہ اچھی طرح واضح ہوگیا اور اس کی مختلف حکمتیں اور وجوہات سامنے آگئیں۔
اس امت میں فتنوں کی زیادتی:
فیض الباری (4: 495) میں ہے کہ فتنہ وہ چیز ہے جس سے مخلص اور غیر مخلص میں امتیاز ہوتا ہے اور حدیث میں ہے کہ امت محمدیہ میں فتنے زیادہ آئیں گے۔ حضرت شاہ صاحب علامہ کشمیری قدس سرہ اس کی وجہ سوچتے رہے تو آپ کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ گزشتہ امتوں پر عذاب آتا تھا اور وہ نیست و نابود کر دی جاتی تھیں، اور اس امت کے لیے بقا مقدر ہے اس لیے بدکار اور نیکو کار میں امتیاز ضروری ہے۔ اس لیے اس امت کے لیے فتنے مقدر کیےگئے ہیں تاکہ ان سے امتیاز حاصل ہو۔ (شاہ صاحب کی بات پوری ہوئی) پس فتنہ ہر شخص کے لیے نقصان دہ نہیں آگ میل کو بھسم کرتی ہے اور سونے کو نکھارتی ہے، اسی طرح فتنے مومنین کی پرواز بڑھاتے ہیں، ان کے لیے فتنوں میں بھی خیر کا پہلو ہوتا ہے۔ (تحفۃ الالمعی جلد 5: 524)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)