نئی دہلی:مرکزی وزارتِ داخلہ کے تحت سائبر کوآرڈینیشن سینٹر ( سائیکورڈ ) نے پرائیویٹ افراد کے ذریعے زْوم میٹنگ پلیٹ فارم کے محفوظ استعمال کے لیے ایک مشارت جاری کی ہے۔ اس ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ یہ پلیٹ فارم سرکاری عہدیداروں / افسران کے ذریعے سرکاری مقاصدکے استعمال کے لیے نہیں ہے۔ اس ایڈوائزری میں انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی ریسپونس ٹیم ( سرٹ – اِن ) کے ذریعے جاری کردہ پہلی ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ زْوم ایک محفوظ پلیٹ فارم نہیں ہے۔ اس میں پرائیویٹ افراد کے تحفظ کے لیے رہنما خطوط جاری کئے گئے ہیں ،جوپرائیویٹ مقاصدکے لیے،اِس پلیٹ فارم کو اب بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔اس ایڈوائزری کا مقصد زْوم کانفرنس روم میں کسی غیرمجاز شخص کے داخلے کو روکنا اور کانفرنس میں شامل دوسرے یوزرس کے ٹرمنلس پر ہونے والے حملوں کو روکنا ہے۔
Home Minister
نئی دہلی:وزیراعظم نریندر مودی نے کل ملک سے اپنے خطاب کے دوران اعلان کیا تھا کہ بھارت میں لاک ڈاؤن کو 3 مئی 2020 تک بڑھانا ہوگا،تاکہ ملک میں کووڈ-19 کے پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے۔ وزیراعظم نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ملک کے شناخت شدہ علاقوں میں 20 اپریل 2020 سے چند ضروری سرگرمیوں کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے۔وزیراعظم کے مذکورہ اعلانات کے مطابق ، وزارت داخلہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے، جس کی رو سے بھارت میں لاک ڈاؤن کی مدت 3 مئی 2020 تک بڑھا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وزارت داخلہ نے ایک دوسرا حکم نامہ مورخہ 15 اپریل 2020 کو بھی جاری کیا ہے، جس کے ذریعے جامع نظر ثانی شدہ رہنما خطوط منظر عام پر لائے گئے ہیں ۔اس کی روسے ماسک لگانالازمی ہوگا،عوامی مقامات پرتھوکنے پرجرمانہ ہوگا۔ملک بھر میں ممانعت والی سرگرمیوں،جن زونوں میں مخصوص پابندیاں عائد ہیں،ان سے متعلق سرگرمیوں اور 20 اپریل 2020 سے ملک کے بقیہ حصے میں چند اجازت شدہ سرگرمیوں کی تفصیلات شامل ہیں۔نظر ثانی شدہ رہنما خطوط کے اجرا کا مقصد یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلے کے دوران حاصل شدہ فوائد کو مستحکم بنایا جائے اور کووڈ-19 کے مزید پھیلاؤ پر قابو حاصل کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ کاشتکاروں، مزدوروں اور یومیہ اجرت پر گزارا کرنے والوں کو بھی راحت فراہم کی جائے۔ملک بھر میں جن سرگرمیوں کی ممانعت ہے، ان میں ہوائی، ریل اور سڑک کے سفر پر پابندی، تعلیمی اور تربیتی اداروں کو بند رکھا جانا، صنعتی اورکاروباری سرگرمیوں کو بند رکھا جانا، میزبانی خدمات کو معطل رکھا جانا، تمام سنیما ہالوں، شاپنگ کمپلیکسوں، تھیٹروں وغیرہ کوبند رکھا جانا، تمام تر سماجی، سیاسی اور دیگر اجتماعات سے پرہیز، نیز تمام مذہبی مقامات، تمام عبادت کے مقامات کو عوام الناس کے لیے بند رکھنا، مذہبی اجتماعات کی ممانعت وغیرہ شامل ہیں۔کچھ قومی رہنما خطوط مثلا کام کاج کے مقام پر گھروں میں بنے ہوئے فیس کوور پہننا، عوامی مقامات پر فیس کوور لگاکر جانا، مضبوط حفظان صحت اور صحتی نگہداشت کے اقدامات مثلا سینی ٹائزروں کے استعمال کی تجویز، جہاں شفٹوں میں کام ہوتاہے، وہاں الگ الگ شفٹوں کی تقسیم، رسائی پر بندش، تھرمل اسکریننگ اور یہاں وہاں تھوکنے پر جرمانہ عائدکرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام اصولوں کی خلاف ورزی پر جرمانہ عاید کیا جائے گا۔20 اپریل 2020 سے نظر ثانی شدہ رہنما خطوط کے تحت جن سرگرمیوں کی اجازت ہوگی،وہ سرگرمیاں صحت وکنبہ بہبودکی وزارت کے رہنما خطوط کے مطابق ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں/ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نشان زد کیے گئے پابند شدہ زونوں میں انجام دینے کی اجازت نہ ہوگی۔ ان زونوں میں کسی بھی صورت میں عوام کا بغیر معقول جانچ پڑتال کے اندر آنا یا باہر جانا قطعاً منع ہوگا۔ صرف لازمی خدمات مثلا طبی ہنگامی حالات اور قانون وانتظام سے متعلق ڈیوٹیاں ہی انجام دی جاسکیں گی اور سرکاری کام کاج جاری رکھا جاسکے گا۔ہاٹ اسپاٹ اضلاع میں، جہا ں بڑی تعداد میں کووڈ-19 کے معاملات نظر میں آئے ہیں، وہاں سخت بندشیں عائد کرنے کانفاذ جاری رہے گا۔ ایسے مخصوص زونوں کو الگ تھلگ کرنے کے سلسلے میں تفصیلی رہنما خطوط اور انہیں الگ تھلگ کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی تفصیلات بھی جاری کی گئی ہیں۔ ان زونوں میں صرف لازمی خدمات ہی انجام دی جاسکیں گی اور آنے جانے پر سخت کنٹرول ہوگا اور سخت بندشیں عائدرہیں گی۔20 اپریل 2020 سے جن سرگرمیوں کو انجام دینے کی رعایت دی جارہی ہے، ان کا مقصد یہ ہے کہ زرعی اورمتعلقہ سرگرمیاں پوری طورپر جاری رہیں، دیہی معیشت پوری اثر انگیزی کے ساتھ کام کرتی رہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کے لیے روزگار کے مواقع دستیاب رہیں۔ اس کے علاوہ لیبر فورس کے دیگر اراکین بھی اپنی منتخبہ سرگرمیاں جاری رکھ سکیں یا اپنے کام ازسر نو شروع کرسکیں۔ تاہم ان سب کو وافر احتیاطی اقدامات اور لازمی معیارات کے اصولوں کی پابندی کرنی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ملک میں کووڈ-19 کے پھیلاؤ کی روک تھام کی اشد ضرورت کے پیش نظر کووڈ-19 سے متعلق قومی ہدایات بھی طے کی گئی ہیں، جن کا نفاذ ضلع مجسٹریٹوں کے ذریعے جرمانہ عاید کرنے اور تباہ کاری انتظامات ایکٹ 2005 میں متذکرہ تادیبی کارروائی کے مطابق کیا جائے گا۔ضروری اشیا کا نقل وحمل کرنے کی اجازت لازمی یا غیرلازمی اشیا کی تشخیص کے بغیر ہوگی، زرعی پیداوار کی حصولیابی سمیت فارمنگ آپریشن، مشتہر کردہ منڈیوں کے توسط سے زرعی مارکیٹنگ اور براہ راست اور لامرکزی مارکیٹینگ ، مینوفیکچر، تقسیم اور کیمیاوی کھادوں، کیڑے کش ادویہ اور بیجوں کا خوردہ کاروبار، بحری اور اندرون ملک ماہی گیری کی سرگرمیاں، مویشی پالن سے متعلق سرگرمیاں، دودھ اور دودھ سے تیار اشیا کی سپلائی کا سلسلہ برقرار رکھنا، مرغ، بطخ اور مویشیوں کا پالن، چائے، کافی اور ربڑ کی پودھ کاری کا کام جاری رہے گا۔دیہی معیشت کو رفتار عطا کرنے کی غرض سے دیہی علاقوں میں کام کرنے والی صنعتیں ، جن میں خوراک ڈبہ بندی صنعتیں، سڑک کی تعمیر، آبپاشی کی پروجیکٹ، دیہی علاقوں میں عمارتوں اور صنعتی پروجیکٹوں کا سلسلہ، ایم این آر ای جی اے کے تحت کیا جانے والا کام، آبپاشی کو ترجیح اور آبی تحفظ اور دیہی مشترکہ خدمت مراکز بھی شامل ہیں، یہ تمام امور انجام دیے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ سرگرمیاں نقل مکانی کرکے آئے ہوئے مزدورں سمیت دیہی مزدورں کے لیے روزگار فراہم کریں گی۔خصوصی اقتصادی زون، ای او یو، صنعتی علاقوں اور صنعتی ٹاؤن شپ میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے ایس او پی کے نفاذ کے بعد محدود رسائی کے ساتھ مینوفیکچرنگ اور دیگر صنعتی اداروں کو کام شروع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ضروری سازوسامان کے لیے آئی ٹی ہارڈویئر کا مینوفیکچر بھی کیا جاسکے گا۔ کوئلہ، معدنیاتی اور تیل پیداوار کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ صنعتی اور مینوفیکچرنگ شعبے ان اقدامات کے نتیجے میں احیا سے ہمکنار ہوسکیں گے اور سلامتی پروٹوکول اور سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے روزگار کے مواقع فراہم کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مالی شعبے کے اہم عناصر یعنی آربی آئی بینک، اے ٹی ایم، پونجی اور قرض کی منڈیاں، جن کا ذکر ایس بی آئی کی مشتہری میں ہے اور بیمہ کمپنیاں بھی مصروف عمل رہیں گی، تاکہ صنعتی شعبوں کے لیے وافر لیکویڈیٹی اور قرض تعاون فراہم ہوسکے۔خدمات کے شعبے، نیز قومی شرح ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے ڈیجیٹل معیشت ازحد اہم چیز ہے۔ لہذا ای-کامرس آپریشن، آئی ٹی اور آئی ٹی سے مالا مال خدمات، سرکاری سرگرمیوں سے متعلق اعداد وشمار اور کال سینٹر اور آن لائن تدریس اور دوردراز تعلیم کا سلسلہ اور ان سے متعلق سرگرمیاں بھی جاری ہوجائیں گی۔نظرثانی شدہ رہنما خطوط میں تمام تر صحتی خدمات جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور سماجی شعبہ بھی مصروف عمل رہے گا۔ عوامی افادیت والی خدمات بلاروک ٹوک جاری رہیں گی۔ ضروری اشیا کی سپلائی چین کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے گی۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے اہم دفاتر اور مقامی اداروں کے دفاتر درکار تعداد میں عملے کے ساتھ کھلے رہیں گے۔ مختصر طور پر جامع رہنما خطوط کا مقصد معیشت کے ان شعبوں کو جاری رکھنا ہے، جو دیہی و زرعی ترقیات کے تناظر کے لحاظ سے اہم ہیں اور روزگار فراہم کرتے ہیں، جن علاقوں میں کووڈ-19 کے ملک میں پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے سلامتی اصولوں پر عمل کرنا اولین ترجیح ہے، وہاں سختی سے اصول وضوابط پر عمل کیا جائے گا۔کابینہ سکریٹری ، ریاستوں کے چیف سکریٹری حضرات اور ڈی جی پی کے ساتھ میٹنگ کا اہتمام کررہے ہیں، تاکہ نظرثانی شدہ رہنما خطوط کے موثر نفاذ کو ممکن بنایا جاسکے۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری، مرکزی داخلہ سکریٹری اور مرکزی صحت سکریٹری بھی موجودہیں۔تمام تر کلکٹر حضرات، ایس پی حضرات، میونسپل کمشنر حضرات اور سول سرجن حضرات بھی کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔
احمد نور عینی
کل وزیر داخلہ نے سی اے اے اور این پی آر کے تعلق سے راجیہ سبھا میں جو بیان دیا ہے اسے لے کر کچھ لوگ کچھ زیادہ ہی خوش ہورہے ہیں، یہ بات تو سچ ہے کہ کل اس کا فرعون وقت کا لہجہ بہت حد تک بدلا ہوا تھا، اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، اس کے آواز کی گرج بھی کہیں غائب ہوچکی تھی، آمرانہ طمطراق بھی نظر نہیں آرہا تھا، اور جس طبقہ کو انتہائی حقارت کے ساتھ گھس پیٹھیا کہتے نہیں تھکتا تھا، کل اسی طبقے کو ایک سے زائد بار اس نے پیار بھرے انداز میں مسلمان بھائی بہن کہا، تانا شاہ کے الفاظ اور لہجے کی یہ تبدیلیاں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے اٹھنے والی آواز بے اثر نہیں گئی۔ ہماری تحریک نے فرعون وقت کا غرور کسی حد تک توڑا ہے۔ اس مثبت پہلو کے باوجود ہمیں یہ بات سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وزارت داخلہ کا پارلیمنٹ میں دیا ہوا یہ زبانی بیان نہ این پی آر کے نفاذ میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے اور نہ این پی آر کے خطرات کو ختم کرسکتا ہے۔
وزیر داخلہ نے کل سی اے اے اور این پی آر کے تعلق سے بات کی، این آر سی کا کوئی ذکر نہیں کیا، سی اے اے کے بارے میں ان کی بات کوئی نئی نہیں ہے، یہ بات برسر اقتدار طبقہ اور نیشنل میڈیا شروع ہی سے کہتا ہوا آرہا ہے، وہ یہ کہ سی اے اے شہریت دینے کا قانون ہے نہ کہ لینے کا ، اور اس سے مسلمانوں کا کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس بات کا جواب مستقل تین مہینوں سے دیا جارہا ہے، اس لیے ہم اسے چھوڑتے ہیں۔ این پی آر کے تعلق سے وزیر داخلہ نے بالترتیبب تین باتیں کہیں:
1۔ این پی آر میں ڈاکومنٹس نہیں مانگے جائیں گے۔
2۔ این پی آر میں تمام سوالوں کا جواب دینا ضروری نہیں ہوگا۔
3۔ این پی آر میں کسی کے فارم پر ڈی D نہیں لکھا جائے گا۔
سب سے پہلےہم آخری بات کو لیتے ہیں، وزیر داخلہ نے یہ بات کہی کہ کسی کے آگے ڈی نہیں لکھا جائے گا، یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ڈی لکھنا یا نہ لکھنا اہم نہیں ہے، کسی کو مشتبہ شہری بتانا یہ اہم ہے، مشتبہ شہری بتانے کے لیے چاہےڈی لکھا جائے یا کوئی اور علامت ڈالی جائے، این پی آر کے لیے 2003 میں جو رولز بنائے گئے ہیں اس میں مشتبہ شہری پر مناسب علامت ؤ لگانے کی بات واضح طور پر لکھی ہوئی ہے؛ چناں چہ رول 4 کی شق 4 کہتی ہے:
‘‘During the verification process, particulars of such individuals, whose Citizenship is doubtful, shall be entered by the local Register with appropriate remark in the Population Register for further enquiry and in case of doubtful Citizenship, the individual or the family shall be informed in a specified proforma immediately after the verification process is over’’.
اس میں یہ بات واضح ہے کہ جس پر شک ہوگا اس پر سرکاری آفیسر مشتبہ شہری کی کوئی علامت لگا دے گا۔ اس لیے وزیر داخلہ کی بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ اور مان لیجیے کہ وزیر داخلہ نے ڈی سے لفظ نہیں بل کہ اس کا مفہوم مراد لیا ہے، یعنی کہ کسی کو ڈاوٹ فل سیٹیزن نہیں بنایا جائے گا، تب بھی 2003 کے رولز میں سرکاری کارکنان کو جو ڈاوٹ فل سیٹیزن بنانے کا اختیار دیا گیا ہے وہ وزیر داخلہ کے زبانی بیان سے ختم نہیں ہوسکتا۔
وزیر داخلہ نے دوسری بات یہ کہی کہ تمام سوالوں کا جواب دینا ضروری نہیں ہے، بل کہ اسے اختیار ہوگا، جس کا جواب چاہے دے اور جس کا چاہے نہ دے۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے، کیوں کہ این پی آر کے 2003 والے رولز میں یہ بات کہیں نہیں ملتی کہ اسے اختیار ہوگا، بل کہ اس میں اس کے برعکس بات ملتی ہے:
‘‘it shall be the responsibility of the head of every family, during the period specified for preparation of the Population Register, to give the correct details of name and number of members and other particulars’’.
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ این پی آر میں ڈاکومنٹس نہیں مانگے جائیں گے تو یہ بات سچ ہے، مگر یہ آدھا سچ ہے، اس سچی بات سے ایک اور سچی بات جڑی ہوئی ہے جسے وزیر داخلہ نےعمدا بیان نہیں کیا، وہ یہ کہ جب ایک تعداد کا مشتبہ شہریوں کی لسٹ میں نام آجائے گا تو پھر اسے کورٹ کچہری میں اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی، اور ظاہر سی بات ہے کہ اس کے لیے ڈاکومنٹس دکھانے ہوں گے، جیسا کہ آسام میں ہوا۔ اور اس پوری کاروائی کا طریقہ 2003 کے رولز میں تفصیل سے موجود ہے۔ گویا این آر سی کا جو پہلا قدم این پی آر ہے اس میں ڈاکومنٹس بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی؛ لیکن این پی آر کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد جب این آر سی کا مرحلہ آئے گا تو ڈاکومنٹس کا چکر شروع ہوگا۔
اب تک کی تفصیل سے این پی آر کے تعلق سے وزیر داخلہ کے بیان کی حقیقت سمجھ میں آگئی ہوگی، اب یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ وزیر داخلہ نے جب راجیہ سبھا میں بیان دے دیا تو پھر 2003 کے رولز کو بیچ میں لاکر کنفیوژن پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ این پی آر کی بنیاد کیا ہے۔ این پی آر کی بنیاد در اصل 2003 کے سیٹیزن شپ رولز پر ہے، جو اٹل جی کی سرکار میں بنائے گئے تھے، این پی آر کی بنیاد امیت شاہ کا کوئی بیان نہیں تھا کہ موجودہ بیان سے وہ بیان منسوخ ہوجائے، این پی آر کے 2003 میں بنائے گئے اصول کسی وزیر کے ایوان میں دیے گئے زبانی بیان سے منسوخ نہیں ہوجاتے، اس لیے جب تک این پی آر اور این آر سی کے تعلق سے بنائے گئے 2003 کے رولز واپس (Repeal) نہیں ہوجاتے تب تک زبانی جمع خرچ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ جب تک این پی آر میں مشتبہ بنانے کا اختیار سرکار ی کارندوں کو حاصل ہوگا اور جب تک وہ این آر سی سےمربوط رہے گا تب تک این پی آر خطرناک سمجھا جائے گا، چاہے کوئی کچھ بھی بیان دے دے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں این پی آر کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ این پی آر کو این آر سی کے لیے ہی بنایا گیا ہے، چناں چہ 2003کے رولز میں جہاں این پی آر کا طریقہ کار سمجھایا گیا ہے اس کا عنوان ہی ہے Preparation of‘‘ National Registration of Indian Citizens یعنی این آر سی کی تیاری۔ اسی طرح وزارت داخلہ کی طرف سے شائع ہونے والی 19۔2018 کی سالانہ رپورٹ کے صفحہ 262 پر بہت واضح لفظوں میں موجود ہے:
‘‘The National Population Register (NPR) is the first step towards the creation of the National Register of Indian Citizens’’.
بعض حضرات اس خوش فہمی میں ہیں کہ وزیر داخلہ نے کہہ دیا کہ ڈاکومنٹس نہیں مانگے جائیں گے اور D نہیں لگایا جائے گا اس لیے اب این پی آر اور مردم شماری(census) میں کوئی فرق نہیں رہا، اور مردم شماری آزادی کے بعد سے ہوتی ہوئی آئی ہے، اس لیے ڈرنے اور ڈرانے کا کام بند ہونا چاہیے، یہ خوش فہمی بھی در اصل قانونی بنیادوں سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے، حقیقت یہ ہےکہ این پی آر اور مردم شماری دونوں الگ ہیں، دونوں دو مختلف قانون کے تحت آتے ہیں، این پی آر کا تعلق 1955 کے قانون شہریت (Citizenship_Act_1955)سے ہے، اور مردم شماری کا تعلق 1948 کے قانون (census_act_1948) سے ہے،مردم شماری کے ایکٹ سے شہریت لینے یا دینے کا تعلق نہیں ہے، جب کہ شہریت کے ایکٹ کا تعلق شہریت کے لینے اور دینے سے ہے، اور 2003 میں این پی آر کے جو رولز بنائے گئے اس کا تعلق شہریت ایکٹ سے ہے نہ کہ مردم شماری ایکٹ سے ، اور این پی آر کے یہ رولز این آر سی ہی کے لیے بنائے گئے ہیں، لہذا این پی آر کا عمل این آرسی ہی کے لیے ہے، اگر صرف مردم شماری ہی کرنا مقصد ہے تو پھر این پی آر کے بغیر بھی مردم شماری ہوسکتی ہے، اس کے لیے علیحدہ ایکٹ موجود ہے۔
ایک بات بہت مضبوطی کے ساتھ یہ کہی جاتی ہے کہ 2010 میں این پی آر ہوا تھا اگر انہی سوالات کے ساتھ 2020 میں بھی کرلیا جائے تو کیا حرج ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ 2010 میں ہمارے گھر میں سانپ آیا اورہمیں کانٹے بغیر نکل گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس سانپ کو 2020 میں بھی اپنے گھر میں آنے دیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قانونا 2010 کا این پی آر بھی این آر سی سے مربوط تھا مگر خوش قسمتی سے عملا وہ این آر سی سے ناآشنا رہا، دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت سی اے اے جیسا خلاف دستور قانون نہیں لایا گیا تھا اور نہ ہی اس وقت کے وزیر داخلہ کی طرف سے این آر سی کی کرونولوجی سمجھائی گئی تھی،اس لیے لوگوں میں شعور پیدا نہ ہوسکا اور لوگ اس کو مردم شماری کے ہی قبیل سے سمجھتے رہے؛ لیکن اب تو سب کچھ واضح ہوچکا ہے اس لیے ہم حتی الامکان 2010 والا فارمیٹ بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، ہاں اگر حکومت یہ گزٹ جاری کردے کہ جس طرح 2010 میں عملا اس کو این آر سی سے نہیں جوڑا گیا تھا اسی طرح 2020 میں بھی زائد سوالات نکالنے کے ساتھ ساتھ عملا اسے این آر سی سے بے تعلق رکھا جائے گا۔اور سی اے اے سے بھی اس کا رشتہ نہیں ہوگا ؛ بل کہ سی اے اے کو رد کیا جائے گا، اگر حکومت کی طرف سے ایسا ہوتا ہے تب تو ٹھیک ہے ورنہ ہم بھی دیکھیں گے ، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عبدالعزیز
11دسمبر 2019ء کو راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی بل 105 ووٹوں کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے پاس ہوا۔ دوسرے روز صدر جمہوریہ نے سی اے اے پر اپنی مہر ثبت کردی۔ نوٹیفیکیشن کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس کے بعد ہی سے ’سے اے‘ اور’این آر سی‘ کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کا سلسلہ شروع ہوا۔ آسام اور دیگر علاقوں میں غیر معمولی احتجاج سے متاثر ہوکر وزیر اعظم نریندر مودی نے این آر سی کے سلسلے میں رام لیلا میدان دہلی میں سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہاکہ لوگ این آر سی کے بارے میں بلا وجہ پریشان ہیں جبکہ این آر سی لاگو کرنے کے سلسلے میں نہ کوئی چرچا ہوا اور نہ کہیں اس کے نفاذ پر بات کی گئی اور نہ بحث و مباحثہ ہوا۔ حالانکہ ان کے خاص الخاص اور سائے کی طرح ان کے ساتھ رہنے والے امیت شاہ نے بیسیوں بار بیانات دیئے کہ این آر سی ملک بھر میں لاگو ہوگا اور چن چن کر دراندازوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی انھوں نے بیان دیا۔ دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدر جمہوریہ نے بھی اپنے خطبے میں این آر سی کے نفاذکا ذکر کیا۔ اتنے بڑے جھوٹ کے بعد ایسا لگتا تھا کہ حکومت پیچھے کی طرف ہٹ رہی ہے، لیکن رام لیلا میدان میں سفید جھوٹ بولنے کے بعد دوسرے ہی دن ’این پی آر‘ کو پاس کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مودی حکومت چور دروازے سے این آر سی کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے اس اقدام کے بعد عوام میں بے چینی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف جو احتجاج اور مظاہرے ہو رہے تھے اس میں تیزی آگئی اور وہ زور پکڑتا گیا۔
ایک ڈیڑھ ماہ ہونے کو آیا ہندستان کا پورا ماحول بدل گیا اور حکومت کے مزاج میں بہت حد تک تبدیلی آگئی۔ بات چیت کا انداز بھی بدل گیا۔ پاگل پن کے ساتھ ساتھ ہوش ٹھکانے بھی لگنے لگے۔ اتنی بڑی تبدیلی کیسے آئی؟ دیکھا جائے تو یونہی نہیں آئی۔ اس تبدیلی کیلئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آگ کا دریا تھا جسے پار کرنا تھا۔ وہ دریا پار کرنے کیلئے موجودہ ظالم حکومت کا سامنا تھا۔ کشمکش شروع ہوئی، پولس مظالم کا سلسلہ دراز ہوا۔ گولی اور پستول کے استعمال کے ساتھ ساتھ دھمکیوں اور گرفتاریوں کے ذریعہ ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ ان سب کے باوجود تحریک اور احتجاج کرنے والوں کے پاؤں لڑکھڑائے نہیں۔ ثابت قدمی کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ شاہین باغ جیسا احتجاج پورے ملک میں شہر شہر، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ ہونا شروع ہوا۔ صرف یوپی میں پچیس سے تیس افراد شہید ہوئے۔ دوسری جگہوں میں چند لوگوں نے شہادت کا جام نوش کیا ہے۔ اس بڑی تبدیلی جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں کیا گیا ہے خون و پسینے کا ثمر ہے۔ احتجاج اور مظاہرہ اتنا زور دار ہوگا نہ حکومت کے علم میں تھا اور نہ عوام کے دل و دماغ میں یہ بات تھی۔ اچانک اس کی شروعات ہوئی اور دیکھتے دیکھتے عوامی تحریک اور جدوجہد آج اس مقام پہ پہنچ چکی ہے کہ جو لوگ سیاسی حالات سے نابلد رہتے تھے ان کی بے خبری اس حد تک ہوتی تھی کہ سب کچھ گزر جانے کے بعد بھی وہ سمجھنے سے قاصر رہتے تھے کہ ملک میں کیا ہوا اور ہوگیا ہے۔ اب ایسے لوگ بھی اپنے گھروں، اپنے حجروں سے باہر آگئے۔ فلم انڈسٹری جو ملکی حالات سے لاتعلق تھے وہ بھی ان مظاہروں میں حصہ لینے لگے اور مظلومین کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے کہ مشہور تجزیہ نگار اور سماجی کارکن یوگیندر یادو سے خاکسار نے کہاکہ ان کی سمجھ میں یہ بات آرہی ہے کہ ہم لوگ آگے بڑھے ہیں اور احتجاج اور مظاہرین کے دشمن کچھ پیچھے ہٹے ہیں۔ یوگیندر یادو نے کہاکہ بات صحیح ہے لیکن لڑائی لمبی ہے۔
آج (18جنوری) کے ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ میں مشہور کہانی نگار، مصنف اور صحافی چیتن بھگت کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ جس کا عنوان ہے: "Why NRC must be shelved: It will be an expensive, gargantuan, pointless exercise that could trigger civil war in the worst case.” (کیوں نہ این آر سی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جائے۔ یہ انتہائی خرچیلا، بے معنی، بے فائدہ عمل ہے جو خرابیِ حالات میں خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہے)۔ مضمون کے پہلے ہی پیرا گراف میں چیتن بھگت لکھتے ہیں کہ "NRC has caused huge controversy, polarised opinion, created massive anxiety and made people come out on the streets. The government is now on the back foot. However, it hasn’t done what it should – to officially withdraw it or put it in long-term cold storage.” (این آر سی کی وجہ سے زبردست تنازعہ، خیالات میں انتشار اور بے پناہ بے چینیاں اور اضطراب پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں۔ حکومت اس وقت بیک فٹ پر آگئی ہے۔ بہر کیف اسے یہ سب نہیں کرنا تھا اور اب اسے کیا کرنا چاہئے؟ اسے آفیشیلی واپس لے لینا چاہئے یا بہت دنوں تک اسے سرد خانے میں رکھ دینا چاہئے)۔
انھوں نے اپنے مضمون میں موجودہ حکومت کے بہت سے کاموں پر تنقید کی ہے اور اسے غلط اور بے فائدہ کام بتایا ہے۔ این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کی مشق کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔ آخر میں لکھا ہے کہ "We have an economy to work on, that’s exciting enough and needs to be the number one priority. NRC needs to take a rest for now, officially.” (ہم لوگوں کو معیشت کیلئے بہت کچھ کرنا تھا جو ہمارے لئے بہت جذباتی چیز ہے جو ترجیح اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ این آر سی کو آفیشیلی آرام دینے کی ضرورت ہے)۔
مسٹر چیتن بھگت ان لوگوں میں سے ہیں جو مودی جی کے بہت گن گاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی مودی جی سے متنفر ہوگئے۔ ان کے بے معنی اور بے سود عمل سے ان کو اب چڑ سی ہوگئی ہے۔ اس طرح بہت سے صحافی اور رائٹر ہیں موجودہ حکومت سے متنفر سے ہوگئے ہیں۔ دانشوروں اور سرکاری افسران میں بھی بہت سے لوگ مودی -شاہ کی جوڑی کو ملک اور دستور کیلئے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ ان کے کاموں کو انسانیت کی تقسیم اور خانہ جنگی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
عدلیہ کا رویہ بہت دنوں سے نامناسب اور مایوس کن تھا، لیکن دو چار دنوں سے عدلیہ میں اور اس کی سوچ میں لگتا ہے کچھ تبدیلی آئی ہے۔ سی اے اے، این آر سی، این پی آر کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں 22جنوری کو سماعت ہے۔ سپریم کورٹ اگر آزادانہ ماحول میں بغیر کسی دباؤ اور اثر کے شہریت ترمیمی ایکٹ کو دستور ہند کی روشنی میں جائزہ لے گی تو اس قانون یا ایکٹ کو بغیر کسی پس و پیش کے رد کر دے گی۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ مودی جی شاید سمجھ چکے ہیں کہ ان کے تعلق سے لوگوں کے اندر جو مقبول جذبہ(Popular Sentiment) تھا جو باقی نہیں رہا، لہٰذا Face Saving (بدنامی سے بچنے) کیلئے حکومت عدلیہ سے کچھ اس طرح رجوع کرسکتی ہے کہ اس پر روک (Stay)لگا دی جائے۔ اس طرح حکومت اپنے لوگوں کو یہ سمجھا سکے گی کہ اس نے تو کوشش میں کوئی کمی نہیں کی لیکن عدالت کے فیصلے کی وجہ سے وہ مجبور ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے دوسری تاریخ دے دی جائے۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے اس کا اثر عوامی تحریک کو قبول نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ لڑائی مودی اور شاہ سے نہیں ہے یا ان کے کسی عارضی کاموں سے نہیں ہے بلکہ ان کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس سے ہے۔ آر ایس ایس کا ایجنڈا ’ہندو راشٹر‘ قائم کرنے کا ہے۔ اقوام متحدہ (UNO) نے آر ایس ایس کے بارے میں یہ رائے دی ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس بین الاقوامی ادارے کی رائے بے بنیاد نہیں ہے۔ آر ایس ایس سے منسلک افراد نے 17مقامات پر بم بلاسٹ کئے ہیں۔ سترہ عدالتوں میں آر ایس ایس کے ان لوگوں کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ (حوالہ: آر ایس ایس ہندستان کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم- مہاراشٹر کے پولس کے ریٹائرڈ آئی جی ایس ایم مشرف)۔
ایس ایم مشرف صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ ان کی کتاب کو شائع ہوئے پانچ سال سے زیادہ ہوگئے۔ ان کی کتاب کئی زبانوں میں شائع ہوئی ہے، پھر بھی اس کے مندرجات کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ہے۔ بعض وجوہ سے آر ایس ایس کے لوگوں کے خلاف زیر سماعت مقدمات کے فیصلے میں دیر یا کوتاہی ہورہی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر عوامی تحریک کو اس وقت تک جاری رہنا چاہئے جب تک کہ آر ایس ایس کے اثرات زائل نہ ہوجائیں یا اس کے کالے کرتوتوں کو دنیا اچھی طرح سے سمجھ نہ لے۔ ایک دلت لیڈر نے صحیح کہا ہے کہ مودی یا شاہ تو آر ایس ایس کے مہرہ ہیں۔ یہ ہٹ بھی گئے تو آر ایس ایس کسی اور مودی-شاہ کو بٹھا دے گا۔
عوامی تحریک کی خصوصیت: اس تحریک کی مقبولیت اور شہرت پر دو رائے نہیں ہے لیکن اسے مزید مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک میں تعداد میں پہل اور پیش قدمی کے لحاظ سے مسلمان زیادہ نظر آتے ہیں۔ اس میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب شامل ہیں۔ یہ کسی ایک فرقہ یا ایک مذہب کی تحریک یا ایجی ٹیشن نہیں ہے بلکہ سارے مذاہب اور فرقوں کی تحریک ہے۔ مسلمان مرد اور عورتیں، یہاں تک کہ بچے، جوان اور طالب علم زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے اسے مسلمانوں کی تحریک دشمنانِ جمہوریت یا دشمنانِ تحریک بتانے یا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نے جو بیان دیا تھا کہ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں ان کو کپڑوں سے پہچانا جاسکتا ہے۔ ان کا اشارہ اسی طرف تھا کہ یہ مسلمانوں کی تحریک ہے۔ لیکن دوسرے مذاہب اور فرقوں کے لوگوں کی شمولیت کی وجہ سے ان کی یا ان کے لوگوں کی بات بے وزن ثابت ہورہی ہے۔ اس تحریک کی سب سے بڑی خوبی یا خاصیت یہ ہے کہ دلتوں کا طبقہ آگے آگے دکھائی دے رہا ہے۔ تعداد میں کمی ہوسکتی ہے لیکن ان کے نوجوان لیڈر بے خوف و خطر اس تحریک کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہی چیز مودی اور شاہ کیلئے بڑی الجھن کا باعث بنا ہوا ہے۔ دلتوں کے علاوہ سکھوں نے بھی بحیثیت مجموعی اس احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔شاہین باغ کے خواتین کے احتجاج کی یکجہتی کیلئے ریاست پنجاب سے ڈیڑھ سو مرد اور خواتین شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ آئے۔ دلتوں کی شمولیت جذباتی طور پر نہیں ہے بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات آگئی ہے کہ سب سے زیادہ غریب اور کمزور طبقہ ہے متاثر ہوگا۔ این آر سی یا این پی آر سے سب سے زیادہ دشواری یا تکلیف دلتوں کو ہوگی۔ یہ پہلا موقع ہے جب دلتوں اور مسلمانوں کے اتحاد کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہونے لگے ہیں۔
گزشتہ روز ایک کرکٹ میچ کے دوران ممبئی کے اسٹیڈیم میں ہندو مسلم نوجوانوں نے ایک ساتھ مل کر کالے قانون کے خلاف کھڑے ہوکر ایک انوکھا پر امن احتجاج کیا جسے دیکھ کر لوگ حیرت میں پڑگئے۔ ان کے سب کے کپڑے No NRC, No CAA, No NPR لکھا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ مسلمانوں کی شمولیت پر چیں بہ جبیں ہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمان ہی کالے قانون کے سب سے زیادہ شکار ہوں گے۔ جس پر حملے ہوتے ہیں اس کو اپنے بچاؤ یا دفاع کا پورا حق ہے۔ دلتوں پر جب حملے ہوتے ہیں تو دلت اپنے بچاؤں کیلئے آگے آتے ہیں۔ آدیباسیوں پر حملے ہوتے تو آدیباسی اپنے تحفظ کیلئے سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی طبقہ خواہ مزدوروں کا ہو یا کسانوں کا ہو جب وہ مصیبت کا شکار ہوتا ہے تو اپنے بچاؤ کیلئے سامنے آتے ہیں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے ذریعہ جو مظاہرے ہوں گے ان کا اثر اچھا خاصا ہوگا لیکن مسلمانوں کے مظاہرے کو Under Estimate (کمتر) کرنا صحیح نہیں ہے۔ آزادی سے پہلے آزادی کی لڑائی میں خلافت کی تحریک میں مسلمان پیش پیش تھے اور آزادی کی تحریک میں بھی پیش پیش تھے جس کی وجہ سے تحریک کو زبردست تقویت حاصل ہوئی تھی۔ اس وقت کم و بیش وہی مناظر ہیں۔ اتحاد و اتفاق کے ان مناظر کو خدا نظر بد سے بچائے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068