دار الدعوۃ والارشاد یوسف گوڑہ، حیدرآباد
استاذ دار العلوم دیودرگ
یہ دنیا دار فانی ہے، کسی کو یہاں دائمی اورابدی طور پر رہنا نہیں ہے، لیکن کچھ ہستیاں اپنے وجود سے اس دنیائے رنگ میں ایک ہلچل سی پیدا کرتی ہے، ان کا وجود اس دنیائے رنگ وبو کے لئے ایک ضرورت ہوا کرتا ہے، امت پر ان کااحسان گراں ہوتا ہے، جن کے احسان ِتمام اور کارہائے نمایاں کے سامنے ہماری شکر گذاری اور سپاس دہی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں رکھتی، اس وقت(بروز جمعہ، بتاریخ ۷۱ /جنوری، ۰۲۰۲ء بعمر ۳۸ سال) ہمارے درمیان مختصر سی علالت کے بعد عالم کبیر، محقق عظیم، فقیہ بے بدل حضرت مولانا برہان الدین سنبھلیؒ رحلت فرماچکے۔
جب امت مسلمہ ہندیہ پرطرح طرح کے مصائب ومتاعب اور ہر دن کے سورج کے طلوع کے ساتھ ایک نئے مسئلہ اور نئی مصیبت سے امت مسلمہ دوچار ہے، ایسے میں بصیرت افروز، دور بیں اور امت کے حق میں درد وکسک رکھنے والے، اللہ سے لو لگانے والے علما کااس دنیا سے اٹھ جانا امت ہندیہ کے لئے بڑے خسارہ اور نقصان کی بات ہے۔
ہمارے دم سے قائم ہیں جہاں کی رونقیں
ہم نہ ہوں تو زمانہ یاد کرے گا
حالات زندگی:
حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی علیہ الرحمن کی پیدائش ۵۱/فروری ۸۳۹۱ء کو آزادی سے قبل سنبھل میں ہوئی، ۷۵۹۱ء کودار العلوم دیوبند سے امتیازی نمبرات کے ساتھ فراغت حاصل کی، مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ، علامہ ابراہیم بلیاوی رحمہ اللہ، قاری طیب صاحب رحمہ اللہ، مولانا سید فخر الدینؒ جیسے اساطین علم سے تلمذ کا شرف حاصل رہا، فراغت کے بعددرس وتدریس سے وابستہ ہوئے، تدریس کی ابتداء سراج العلوم سے کی، پھر مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں بھی چند سال پڑھایا، دہلی میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیااور ۰۷۹۱ ء میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کی دعوت پر دا ر العلوم ندوۃ العلما تشریف لائے جہاں تفسیر وحدیث وفقہ اور حجۃ اللہ البالغہ کا درس ان کے سپرد کیا گیا، پھر بعد میں شیخ التفسیر کے منصب پر فائز ہوئے، اسی طرح مولانا کو مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلما کے ناظم کے طور پر بھی مقرر کیا گیا، دار القضا اترپردیش کے قاضی کونسل کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔آل انڈیا اسلامک فقہ اکیڈمی کے نائب صدر اور طویل عرصہ تک آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے مجلس عملہ کے رکن ہونے کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔
عظیم محقق ومصنف :
آپ ایک محقق عظیم اور مسائل وآرا میں علما ےعرب کے درمیان اپنی رائے رکھنے والے، جدیدطبی مسائل کتاب کی تالیف کے دوران بہت جگہ پر علماء عرب کی کتابوں میں حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ جگہ جگہ مولانا کی رائے کو دیکھ احقر ششدر بھی رہ گیااور حیران بھی کہ ہندوستان میں بعض علماے محققین ایسے بھی ہیں جن کی آرا کو علماے عرب اتنی اہمیت دیتے ہیں، کئی مسائل میں علماے عرب نے علماے ہند کی طرف سے خصوصا مولانا برہان الدین سنبھلی کی آرا کو اپنی کتب فقہیہ میں جگہ دی ہے، در اصل جب سے اجتماعی شکل میں فقہی مسائل پرغور وخوض کے سلسلے میں مختلف اکیڈمیاں قائم ہوئی، فقہ اکیڈمی مکہ، جدہ، یورپی فقہی کونسل، فقہ اکیڈمی انڈیا، ان اکیڈمیوں نے ہر جگہ سے ان کی آرا طلب کی، بیشتر مواقع سے عرب علما دیگر علما کے علاوہ خصوصا ہندوستان سے مولانا برہان الدین سنبھلی ؒ کی آرا کو بڑی وقعت اورقدر کے ساتھ اپنی کتابوں میں جگہ دیتے ہیں، جو علماے دیوبند کی خصوصی ترجمانی کرتی ہیں، جو اعتدال اور وسطیت کی ترجمان ہوتی ہیں، جس میں افراط وتفریط سے خالی ہو کر ضرور یات کو ضروریات کا درجہ دے کر دینی تصلب کے ساتھ آرا پیش کی جاتی ہیں۔اس کی جھلک مولانا کی آرا میں صاف طورپر نظر آتی ہے۔
مولانا کی مختلف موضوعات پر فقہی عربی تحریروں میں ایک تحریر جو نظر سے گذر چکی ہے ”التوأم المتلاصق نکاحہ وجنایتہ وإرثہ“اور ایک عربی کتاب جس میں جدید مسائل پر بحث کی گئی ہے جو مختلف مقالات کا مجموعہ ہے، جس کا نام ”قضایا فقہیہ معاصرہ“ ہے، جس میں مولانا نے زمانے کے تغیر پذیر حالات میں پیش آمدہ مسائل کاحل پیش کیا ہے، جس کو مختلف عربی کانفرنسوں میں مقالات کے طور پر پیش کیا ہے، یہی وہ تحریریں ہیں، جن کا حوالہ عموما علماے عرب اپنی کتابوں میں دیتے نظر آتے ہیں
اصلاحی، علمی اور فقہی تحریریں:
مولاناکی دیگر مؤلفات اور تصانیف میں ”اصلاح معاشرہ“اور ”یونیفارم سول کوڈ مسلم پرسنل لا اور عورت کے حقوق“ ”علم فقہ اور فکرِ صحیح کی شاہ کلید“ اور ”رویت ہلال“ وغیرہ اس طرح دیگر کتابیں جو مختلف موضوعات پر ہیں۔
دنیا تغییر پذیرہے، ہر روز نت نئے ایجادات اور اختراعات مسائل کا انبوہ کثیر پیدا کردیا ہے، ان مسائل میں امت مسلمہ کی رہنمائی علماء ربانیین کا کام ہے، مولانا نئے مسائل اور جدید امور میں اپنی فقہی آراء کو دیگر فقہاء اور قرآن وحدیث کی روشنی میں پیش کرنے کی کی سعی کی ہے، مولانا کی ایک کتاب ”موجودہ زمانہ کے مسائل کا شرعی حل“ انہی مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔جو نئے مسائل کے حوالہ سے نہایت خوب تر کتاب ہے۔
زندگی کے حسین لمحات
مولانا رحمہ اللہ کی فراغت دار العلوم سے ہوئی، لیکن ساری زندگی تدریسی خدمات دار العلوم ندوۃ العلما میں انجام دیں، تقوی وطہارت کے اعلی معیار پر فائز تھے، آپ کو حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی ابن شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ سے خلافت کا شرف بھی حاصل تھا، بتاتے ہیں کہ باجماعت نماز اور تکبیر اولی کے ساتھ نماز کا اہتمام ابتدائی طالب علمی کی زمانہ سے ہی کرتے تھے، جید حافظ قرآن تھے، کئی ملکوں کے علمی اور فقہی اسفار کئے، کئی ایک کانفرنسوں میں شرکت کاآپ کو اعزاز حاصل رہا، علماے عرب میں بھی آپ کی پہنچان اور مقبولیت تھی۔ساری زندگی علم ودین کی خدمت کرتا ہوا تھکا ہارا یہ مسافر بالآخر راہیِ عالم بقا ہوگیا:
جان کر من جملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے