نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے منگل کے روز کورونا وائرس کے انفیکشن کے معاملات کے اضافے پرحکومت کو نشانہ بنایا اور کہا کہ مدھیہ پردیش میں حکومت کے خاتمہ ،نمستے ٹرمپ اور بہت سے دوسرے اقدامات کی وجہ سے ، آج ملک کوروناکے خلاف جنگ میں خودکفیل بن گیا ہے۔انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ کورونا مدت میں حکومت کی حصولیابیاں: فروری میں نمستے ٹرمپ ، مارچ میں مدھیہ پردیش میں حکومت ، اپریل میں موم بتی ، مئی میں حکومت کی 6 ویں سالگرہ ، جون میں بہار میں ورچوئل ریلی اور جولائی میں راجستھان حکومت گرانے کی کوشش۔کانگریس کے لیے لیڈرنے طنزیہ اندازمیں کہاہے کہ اسی وجہ سے ملک کورونا کی لڑائی میں خودکفیل ہے۔
Editor qindeel
مصنف: ڈاکٹر شاذیہ کمال
سن اشاعت: 2019
ضخامت: 235 صفحات
ملنے کا پتہ: ایجوکیشنل پبلی شنگ ہاؤس، دہلی
تبصرہ: نوشاد منظر، جامعہ نگر، نئی دہلی
اردو زبان و ادب کی ترویج میں مرد کے ساتھ خواتین نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے مرد کے شانہ بشانہ اور قدم سے قدم ملا کر بہترین ادب تخلیق کیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ابتدائی زمانے بلکہ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں تک خواتین کی تخلیقات شائع تو ہوتی تھیں، مگر ان کے اصل نام سے نہیں بلکہ ان کے خاوند یا بیٹے سے منسوب کرکے یعنی زوجہ فلاں، والدہ فلاں۔یہ اس زمانے کا عام رجحان تھا اور ایسا سمجھا جاتا تھا کہ عورتیں کہانیاں پڑھیں گی تو خراب ہوجائیں گی۔اتنی پابندیوں کے باوجود خواتین نے نہ صرف ادب کا مطالعہ جاری رکھا بلکہ ادب اور بالخصوص فکشن نگاری پر توجہ بھی دی۔اگر ہم صرف بیسویں صدی سے اب تک کی خواتین فکشن نگار کی کوئی فہرست تیار کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ خواتین نے فکشن کو کس طرح اختیار کیا۔ ادھر چند برسوں میں خواتین کی خدمات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سلسلے کی اہم کتاب”ہم عصر خواتین افسانہ نگار: ایک جائزہ“ ہے۔ اس کتاب کی مصنفہ شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی کی سابقہ ریسرچ اسکالر ڈاکٹر شاذیہ کمال ہیں ۔مصنفہ نے اس کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ کتاب کا پہلا حصہ”اردو کی خواتین افسانہ نگار“ ہے۔اس باب کو مصنفہ نے چار ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔پہلے ذیلی حصّے کا عنوان”ابتدائی دور کی اہم خواتین افسانہ نگار“ہے، اس میں مصنفہ نے عباسی بیگم، نذر سجاد حیدر، آصف جہاں، انجمن آرا، امت الوحی، حجاب امتیاز علی، آمنہ نازلی وغیرہ کی افسانہ نگاری کا مختصر جائزہ لیا ہے۔ابتدائی دور کے افسانوں کا جائزہ لیتے ہوئے شاذیہ کمال نے لکھا ہے کہ ابتدا میں خواتین نے معاشرتی اور سماجی رسوم و رواج کو بنیاد بنا کر افسانے لکھے۔ حالانکہ انہوں نے چند ایسے افسانوں کا ذکر بھی کیا ہے جن میں رومانی کیفیت اور مافوق الفطرت عناصر بھی موجود ہیں۔شاذیہ کمال نے دوسرے دور کو ”ترقی پسند افسانہ“ کا عنوان دیا ہے۔ اس حصے میں انہوں نے ترقی پسند تحریک کے عروج و زوال پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر رشید جہاں،عصمت چغتائی، رضیہ سجاد ظہیر، ہاجرہ مسرور،شکیلہ اختر، خدیجہ مستور، صدیقہ بیگم کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا ہے۔ترقی پسند عہد میں افسانہ نگاری کو جو عروج ملا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی اس تحریک کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔خواتین نے ایک طرف جہاں سماجی مسائل کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا وہیں عورتوں کی نفسیات، ان کے مسائل اور ان پر کیے جانے والے استحصال اور آزادی نسواں کے لیے بھی آواز بلند کی۔یہی نہیں جنسیت پر مبنی افسانے بھی اس دور میں لکھے گئے۔ شاذیہ کمال نے مذکورہ عوامل کا ذکر بھی اپنی کتاب میں کیا ہے۔تیسرا دور جدیدیت کا ہے۔ جس میں جدید دور کی خواتین افسانہ نگاروں ممتاز شیریں،قرۃ العین حیدر، جیلانی بانو،صالحہ عابد حسین، واجدہ تبسم اور مسرور جہاں کے فن پر گفتگو کی گئی ہے۔ مصنفہ نے جدیدیت کے دور میں لکھے گئے افسانوں اور افسانہ نگاروں کا جائزہ لیا ہے۔حالانکہ یہ دلچسپ موضوع ہوگا کہ کیا مذکورہ تمام خواتین افسانہ نگار نظریاتی طور پر بھی جدیدیت سے متاثر تھیں یا صرف اس بنیاد پر انھیں جدیدیت کا ہمنوا مان لیا جائے کیونکہ ان کے افسانے 1960 کے بعد منظر عام پر آئے۔افسانے کا چوتھا دور ”مابعد جدیدیت سے اب تک“ کے ذیل میں ذکیہ مشہدی،ترنم ریاض، نگار عظیم، غزال ضیغم،ثروت خان، اشرف جہاں، قمر جہاں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔مصنفہ نے مذکورہ افسانہ نگاروں کے افسانوی مجموعات، ان کی تعلیم، پیدائش اور مشغولیت وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
زیر نظر کتاب کا دوسرا باب”ہم عصر خواتین افسانہ نگار: ایک جائزہ“ہے۔ اس باب میں ذکیہ مشہدی،ترنم ریاض، نگار عظیم، غزال ضیغم،ثروت خان، اشرف جہاں، قمر جہاں وغیرہ کے حوالے سے معاصر اردو افسانے کے مسائل، موضوعات، کردار نگاری اور زبان و بیان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ معاصر خواتین افسانہ نگاروں کے یہاں موضوعات کی سطح پر یکسانیت پائی جاتی ہے، مگر چونکہ افسانہ نگاروں کے تجربات اور مشاہدات عموماً ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں لہذا ان کی پیش کش میں ایک گونہ انفرادیت نظر آتی ہے۔
کتاب کے تیسرے باب میں نتائج کے طور پر پوری کتاب کی تلخیص پیش کی گئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خواتین کے یہاں افسانہ نگاری کے تئیں ایک رجحان ملتا ہے اور موجودہ دور میں صادقہ نواب سحر، تبسم فاطمہ، شائستہ فاخری وغیرہ اچھا افسانہ لکھ رہی ہیں۔ مجموعی طور پر اس عہد کے افسانوں میں عورت کے جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ عصری حسیت کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کتاب کا تعارف پروفیسر علیم اللہ حالی نے تحریر کیا ہے جب کہ معروف فکشن نگار پروفیسر عبد الصمد نے اس کتاب کا مختصر جائزہ لیا ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی تحریر کو فلیپ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ان تحریروں میں جہاں کتاب کا تعارف ہے وہیں مصنفہ کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کتاب کی طباعت اچھی اور دیدہ زیب ہے۔خواتین افسانہ نگاروں کے فن اور موضوع کو سمجھنے میں یہ کتاب معاون ثابت ہوگی۔
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے گذشتہ چند سالوں میں چین سے درآمدات میں اضافے کو لے کر منگل کو بی جے پی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ میک ان انڈیاکی بات ہو رہی ہے ، لیکن چین سے خریداری جاری ہے ۔انہوں نے ٹویٹ کیاہے کہ حقائق جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ میک ان انڈیا ہے اور فرام چین۔کانگریس کے لیڈرمنموہن سنگھ حکومت کے دوران ہندوستان کی کل درآمدات میں چین کی کمی اور نریندر مودی حکومت میں چین کے حصہ میں مبینہ طور پر اضافے سے منسلک ایک گراف بھی شیئرکیاگیاہے۔ قابل ذکر ہے کہ ان دنوں لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر ہندوستان اور چین کے مابین تعطل ہے۔ 15۔16 جون کی درمیانی رات ، دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین پْرتشدد جھڑپوں میں 20 ہندوستانی فوجی ہلاک ہوگئے۔ چینی فریق کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس پر ، وزیراعظم سے سوالات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم ، آپ کو سچ کہنا ہے ، ملک کو بتانا ہوگا ، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ زمین چلی گئی ہے اور اصل میں زمین چلی گئی ہے تو چین کو فائدہ ہوگا۔انہوں نے مزیدکہاہے کہ،ہمیں ان کے ساتھ مل کر لڑنا ہے ، انہیں اٹھا کر واپس پھینکنا ہے ، پھر ہمیں سچ بتانا ہوگا۔ بلا خوف وخطر ، آپ کہتے ہیں کہ ہاں ، چین نے زمین لے لی ہے اور ہم کارروائی کرنے جارہے ہیں ، پورا ملک آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور آخری سوال۔ہمارے شہدا کو اسلحہ کے بغیر کس نے بھیجا ، اور کیوں؟
بہار میں سیلاب کی آمد کے آثار نظر آنے لگے ہیں ۔ ہر سال سیلاب سے تباہی بہار کا مقدر بن چکی ہے ۔ خاص کر شمالی اور جنوبی بہار صدیوں سے سیلاب کا گڑھ رہا ہے ۔ بہار کے سیلابی ضلعوں میں ارریہ ، پورنیہ ، کشن گنج، کھگڑیا ، سوپول ، سہرسہ ، سمستی پور ، دربھنگہ ، مدھوبنی اور سیتا مڑھی خاص کر قابل ذکر ہیں ۔ ان تمام سیلابی ضلعوں میں ہر سال سیلاب سے بھیانک تباہیاں ہوتی ہیں ۔ جانی و مالی نقصانات کے علاوہ لاکھوں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں اور کھیتی باڑی کے علاوہ فصلیں الگ تباہ ہوتی ہیں ۔ برسات میں ہر سال طوفانی بارش روڈ اور باندھ کو توڑ پھوڑ دیتی ہے جس سے آمدو رفت میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور اد کے نتیجے میں سرکاری خزانوں کا ہر سال خاصا نقصان ہوتا ہے جو قابل افسوس ہے ۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ ہر سال سیلابی آفت سے ہونے والے نقصانات کو عوام حسرت اور مایوسی کے ساتھ دیکھتے آرہے ہیں اور حکومت بھی لاچاری اور بے بسی کامظاہرہ کرتی رہی ہے ۔ ایک زمانے سے بہار میں سیلاب کا مسئلہ ہنوز برقرار ہے مگر حکومت اس سے نمٹنے اور سیلاب کی روک تھام میں افسوس ناک حد تک نا کام ثابت ہوئی ہے ۔ حکومت کی خاموشی اور ناکامی اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت یا تو اس معاملے میں بے بس ہے یا مسئلۂ سیلاب سے نپٹنے کے لئے حکومت بہار کے پاس ٹھوس اور مناسب منصوبوں کا فقدان ہے ۔ جب بہار کی راجدھانی شہر پٹنہ جو سرکاری نگہداشتوں کا گڑھ ہے وہ بھی سیلاب کی مصیبتوں سے بچ نہ سکا تو دیگر اضلاع کے دیہاتوں کا کیا عالم ہوگا؟ بہار کے بیشتر بڑے شہروں میں بارش کا پانی جمع ہونے سے اس بات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ان شہروں میں پانی کی نکاسی کا معقول انتظام نہیں کے برابر ہے ۔ خاص کر وہ تمام شہر جو ندیوں کے کنارے آباد ہیں وہاں بارش کے ساتھ ساتھ ندی کا پانی شہروں میں داخل ہو جانے سے مزید تباہیاں مچتی ہیں جن میں بہار کا شہر پٹنہ قابل ذکر ہے ۔ دربھنگہ ، مدھوبنی اور سیتا مڑھی جیسے شہروں میں پانی کی نکاسی کا کوئی خاص انتظام نہیں ہونے سے وہاں بھاری برسات کے دوران پانی کا جمنا عام بات ہے ۔ واضح ہو کہ نیپال خطر ناک حد تک ہر سال پانی چھوڑتا آیا ہے جس سے دربھنگہ اور سیتا مڑھی کے دیہی علاقے زیر آب آ جانے کی وجہ سے ندیاں ابل پڑتی ہیں اور پانی کی زیادتی باندھ کے ٹوٹنے اور علاقے میں پھیلنے کا سبب بنتی ہے ۔ یہ عمل ہر سال نیپال دہراتا آرہا ہے مگر بہار کی حکومت آج تک اس مسئلے کا مناسب حل تلاش کرنے میں نا اہل ثابت ہوئی ہے ۔ ابھی جبکہ برسات صرف شروع ہوئی ہے تھوڑی دیر کی بارش سے گاؤں کے کھیتوں میں پانی گویا سمندر کا احساس دلا رہا ہے جبکہ ابھی پوری برسات اور جولائی یا اگست میں سیلاب کا آنا باقی ہے ۔ زمانۂ قدیم سے پانی کی نکاسی کے لئے مقامی طور پر تشکیل دیا ہوا نظام فرسودہ ہونے کی وجہ سے سیلاب کے خطرے مزید بڑھ گئے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیلاب کے خطرے سے بہار کے عوام کو بچانے کے لئے حکومت کو مضبوط اور ٹھوس قدم اٹھائے ۔
نئی دہلی: اُردو کے مشہور و ممتاز اور بزرگ شاعر پنڈت آنند موہن زتشی گلزارؔ دہلوی کا 12 جون 2020 کو نوئیڈا میں واقع ان کی قیام گاہ پر انتقال ہوگیا۔ اُن کی وفات پر انجمن ترقی اردو (ہند) نے ایک تعزیتی قرار داد پاس کی جس میں اُن کی شخصیت اور خدمات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی اور کہا گیا کہ وہ ایک ہردل عزیز اور ممتاز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد اہم خوبیوں اور صفات کے حامل انسان بھی تھے۔ وہ انجمن کی مجلسِ عاملہ کے معزز رکن تھے۔ اُن کے انتقال سے انجمن اپنے ایک دیرینہ اور مخلص رکن سے محروم ہوگئی۔
واضح ہو کہ گلزار دہلوی 7 جولائی 1926 کو دہلی کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی زارؔ دہلوی اور والدہ رانی زتشی دونوں اپنے زمانے کے معروف شاعر تھے۔ ان کی والدہ کا تخلص بیزارؔ تھا۔ گلزار دہلوی کو زبان و بیان پر غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔ انھوں نے منفرد لب و لہجے کے شاعر کے طور پر اُردو دُنیا میں شناخت قائم کی۔ آزادی کے بعد ہندستان میں اُردو زبان و ادب کی بقا اور ترقی و ترویج میں انھوں نے غیرمعمولی کردار ادا کیا نیز پوری زندگی قومی و بین الاقوامی سطح پر اُردو کی مشترکہ تہذیب کی نمائندگی کرتے رہے۔ گلزار دہلوی کی مطبوعات میں ”گلزارِ غزل“ اور ”کلّیاتِ گلزار دہلوی“ ہیں جب کہ ان کی شخصیت اور خدمات پر لکھی جانے والی کتابوں میں ”کچھ دیکھے کچھ سنے“ اور ”مشاعرہ جشنِ جمہوریت 1973“ شامل ہیں۔ موقر رسالہ ”چہارسو“ نے گلزار دہلوی کی شخصیت اور ان کی خدمات پر مشتمل خصوصی شمارہ شائع کیا۔ وہ ”سائنس کی دنیا“ کے اڈیٹر رہے، جو 1975 میں حکومتِ ہند کے ذریعے شائع ہونے والا پہلا اُردو کا سائنسی رسالہ تھا۔ گلزار دہلوی کی علمی و شعری خدمات کے اعتراف میں انھیں متعدد انعامات و اعزازات سے سرفراز کیا گیا۔
انجمن ترقی اردو (ہند) محسوس کرتی ہے کہ گلزار دہلوی کی وفات سے ایک زرّیں عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ بلاشبہ شعری و ادبی محفلوں کی جان ہوا کرتے تھے نیز ملک کی مشترکہ تہذیب و تمدن کے امین اور پاسدار تھے۔ انجمن دعا گو ہے کہ خدا مرحوم کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
مسعود جاوید
تقریباً پچھلے چار پانچ ماہ سے یکے بعد دیگرے پوری دنیا عالمی وبا کورونا وائرس کے قہر کی لپیٹ میں ہے اور موجودہ نسل کو اس وبا کی تاثیر کے نتیجے میں نئے نئے تجربات درپیش ہیں۔ ان تجربات میں سب سے اہم تجربہ ڈیجیٹل ورلڈ، سوشل ڈسٹینسنگ ، جو دراصل فیزیکل ڈسٹینسنگ ،جسمانی فاصلہ ہے۔
کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے بطور حفاظتی تدابیر لاک ڈاؤن عمل میں آیا اور لاک ڈاؤن نے مکمل آن لائن سروسز کا تجربہ کرایا۔
ہم یعنی موجودہ جنریشن کے لوگ اس معنی میں خوش قسمت ہیں کہ ہم اب تک کی روایتی چیزوں اور سروسز کے صارف بھی ہیں اور شاہد بھی۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ سلیٹ، تختی، فاؤنٹین پین ، قلم دوات کاغذ کتاب پنسل کاغذی اخبارات ، ٹائپ رائٹر، سائکلو اسٹائل ، ٹیلیکس ، ٹیلیگرام ، انلینڈ لیٹر، پوسٹ کارڈ، ٹیلی فیکس، ریڈیو سیٹ، ٹیپ ریکارڈر، واکی ٹاکی ،بڑے سائز کے شارٹ اور لونگ پلے ویڈیو ریکارڈر اور پلیئر، کیلکولیٹر، بلیک اینڈ وائٹ کیمرے، بلیک اینڈ وائٹ فوٹو اس کی نگیٹیو ، منی آرڈر سے پیسے بھیجنا، سینما ہال میں فلم، ٹھیٹر میں ڈرامے اور میوزیکل کنسرٹ، پنڈال میں مشاعرے، دیکھے سنے اور برتا ہیں۔
شاید شر میں خیر کا پہلو یہ بھی ہے کہ ہم لاک ڈاؤن کے اس عبوری دور transitional period سے next generation میں منتقل ہو رہے ہیں اور اس معنی میں خوش قسمت ہیں کہ نئی جنریشن کی حصولیابیوں کےبھی شاہد اور صارف ہوں گے لاک ڈاؤن سے جس کی تجرباتی بنیادوں پر شروعات ہو چکی ہے۔ اب ہم مکمل آن لائن دنیا کے باشندے ہوں گے جہاں جسمانی قربت قابل مواخذہ ہوگی۔ بینک میں آپ کے جانے پر چارج لگے گا اور بینک عملہ کا آن لائن وقت میں خلل ڈالنے کے لئے بطور جرمانہ ہمارے اکاؤنٹ سے سو پچاس روپے کاٹ لیے جائیں گے۔ اسکول و کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کے ادوات قلم کاغذ پنسل کی جگہ کمپیوٹر ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ اور انڈرویڈ موبائل فون کا استعمال ہوگا کلاس روم میں حاضری کی جگہ آن لائن کلاسز ہوں گی۔ اشیاے خوردونوش اور ضروریات کی تمام چیزوں کے آرڈر آن لائن دیے جائیں گے اور ہوم ڈلیوری ہوگی۔ تجارت گھر بیٹھے آن لائن ہوگی۔ عدالتوں کی کارروائی آن لائن ہوگی۔ ججز وکلا اور موکلین کا زوم zoom پر آن لائن اجلاس ہوگا، آن لائن بحث ہوگی تاریخ ملے گی اور حکم سنایا جائے گا۔ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں سے مطلوبہ لائنسنس اور پرمٹ کے لئے آن لائن درخواست دی جائے گی اور آن لائن پرمٹ جاری ہوگی یا ریجیکٹ کا آن لائن نوٹیفکیشن آئے گا ۔ گورنمنٹ کا ریوینیو آن لائن جمع کرنا ہوگا۔ فلمیں ڈرامے اور موسیقی کے کنسرٹ سینما ہال اور تھیئٹر کے بجائے گھر بیٹھے آن لائن محظوظ ہونا ہوگا۔ شادی بیاہ اور دوسری تقریبات کے لئے کاغذی دعوت ناموں کی جگہ سوشل میڈیا کے توسط سے مدعو کیا جائے گا۔ نوشے اور دلہن کو تحفے تحائف کی ڈلیوری آن لائن ہوگی۔ ہر قسم کے مراسلات paperless پیپرلیس ہوں گے اور روپے پیسے کی لین دین نقد کی بجائے کیش لیس cashless ہوگی۔ ڈیلی مارکیٹ ،سوپر مارکیٹ، ڈیپارٹمنٹل اسٹور، مالز، اور سروس پرووائیڈر آفسز بے وقعت ہو جائیں گے پھل فروٹ سبزی سے لے کر ہارڈ ویئر اور ضرورت کی تمام اشیاآن لائن پسند کی جائیں گی آرڈر کی جائیں گی اور ہوم ڈلیوری ہوگی۔ بس ٹرین اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ پیپرلیس آن لائن لینا ہوگا۔ طبی معائنہ یعنی ڈاکٹر فزیشین اور سرجن سے کنسلٹیشن آن لائن زوم اور ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
عالمی طور پر کورونا وائرس سے حفاظتی تدابیر کے طور پر جہاں ہر ملک میں لاک ڈاؤن سوشل ڈسٹینسنگ کا بہترین ذریعہ رہا وہیں ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں آن لائن زندگی کا تجربہ بھی بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کورونا وائرس کے اس عبوری دور سے نئے عالمی نظام کی طرف منتقل ہونے کا اعلان سن کر کسی کو اچانک شاک نہیں لگے گا حیرانی نہیں ہوگی آن لائن کوئی کچھ ایسا نیا کام نہیں ہوگا جس کے بارے میں سن کر لوگ ششدر رہ جائیں گے۔ اس لئے ابھی سے ہی Gennext اور مکمل آن لائن زندگی کے لئے ذہن بنا لیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
(تیسری قسط)
مجھے قول یا عمل سے رد کر دینے والوں کے لئے تو صرف ذلت اور پستی ہے۔ پھر کس نے تمھیں میرے بغیر دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات کی گارنٹی دے دی ؟
تم جو مجھے پلٹ کر دیکھتے تک نہیں، میرے ہوتے ہوئے بھکاریوں کے در کے بھکاری بن گئے، گمراہوں کو اپنا رہبر مان بیٹھے، رہز نوں کو اپنا محافظ سمجھ گئے، بے عقلوں کو اپنا لیڈر اور رہنما مان لیا، بے ضمیر وں اور خدا کے غداروں کو اپنا ملجا و ماوی سمجھ بیٹھے، کیا ہو گیا ہے تمہاری عقل کو ؟
کہاں ہیں وہ سینے جو میری یاد سے منور تھے ؟ وہ دل جو میری وعیدوں پر خوف سے لرز اٹھتے تھے ؟ وہ زبانیں جو میری تلاوت سے حلا وت حاصل کرتی تھیں ؟ وہ آنکھیں جو مجھے پڑھ کر آنسوؤں سے بھر جایا کرتی تھیں ؟ وہ ضمیر جو میری ملامتوں سے پانی پانی ہو جایا کرتے تھے ؟ وہ روحیں جو میری قرات سے وجد میں آ جایا کرتی تھیں ؟ وہ سر اطاعت جو میری ہر ھدایت پر بے ساختہ جھک جاتے تھے ؟ اور وہ دیوانے جو مجھے لیکر راہ عزیمت پر نکل پڑتے تھے ؟
کچھ لوگ، آٹے میں نمک کے برابر لوگ تمھیں سمجھانا چاہتے ہیں، تمھیں حکم رسول یاد دلاتے ہیں کہ آؤ گمرہی اور فتنوں کے اس دور میں پلٹو اللہ اور اسکے رسول کی طرف، پھر فیصلہ کرو کہ گمراہ عقائد کی اس یلغار میں میزان حق کیا ہے تو تم ہنستے ہو، جھگڑتے ہو، تہمتیں دھرتے ہو، بحثیں کرتے ہو اور مجھ پر، نبی صادق پر، آخرت کی پوچھ تاچھ پر، جنّت کے عیش پر اور جہنم کی ہولناکیوں پر ایمان رکھنے کا دعوی کرنے کے باوجود میری طرف اور اپنے نبی کے طریقے کی طرف عملا لوٹنے سے کترا جاتے ہو !
آخر تم اتنے مغرور اور گھمنڈی کیوں ہو ؟ اس قدر بے پرواہ کیوں ہو؟ اتنے بے حس اور مطمئن کیوں ہو ؟ آخر کس چیز نے تمھیں اتنا مدہوش کر دیا ہے کہ آخرت کی بازپرس سے ذرا بھی نہیں ڈرتے ؟ روز مرتے ہو، کتنے رشتےداروں اور دوست و احباب کو اپنے ہاتھوں سے قبر کی تنہائیوں میں دفن کر چکے ہو، جانتے ہو کہ موت برحق ہے، اس کا تجربہ کرتے رہتے ہو، جانتے ہو اور خوب جانتے ہو کہ تمہارا کوئی بھی پل موت کا پل ہو سکتا ہے، کوئی بھی صبح تمہاری آخری صبح ہو سکتی ہے، کسی شام بھی تمہاری زندگی کا چراغ گل ہو سکتا ہے، کسی بھی پہر سانسوں کے قافلے اپنا سفر روک سکتے ہیں، کسی بھی پل فرشتۂ اجل تمھیں آ کر گرفتار کر سکتا ہے، پھر بھی تم اتنے بے حس ہو! ایسی پریشان کن اور غیر متوقع دنیا میں اتنے مگن ہو؟ حیرت ہے ، کس مٹی سے بنے ہو تم ؟
اکثر تمہاری راتیں دہشت کے سائے میں گزرتی ہیں، صبح تمہاری آنکھ خوف و ہراس کی فضا میں کھلتی ہے، شام ہوتے ہی اضطراب تمہیں گھیر لیتا ہے، سوتے ہو تو پریشان کن خواب تمہاری آنکھوں پر ڈیرہ ڈال دیتے ہیں، دہشت گردی کے الزاموں میں مارے جاتے ہو، فسادات کی آگ میں جلائے جاتے ہو، جنگوں کی بمباری میں اڑائے جاتے ہو، خبریہ چینلوں پر تماشا بنا کر دکھائے جاتے ہو، اخباروں میں گالیوں کی صورت چھاپے جاتے ہو، پھر بھی میری طرف نہیں پلٹتے، کیسے بے حس اور بد عقل ہو تم ؟
کس کس انداز میں تمھیں سمجھایا ہے کہ میں اللہ کی مضبوط رسی ہوں، دلدلوں میں پھنسنے سے بچنا چاہتے ہو تو مجھ سے چمٹ جاؤ۔ کیسے کیسے تمہیں بلایا ہے کہ میں بحر ظلمات میں اللہ کے نور کی کشتی ہوں، ڈوبنے سے بچنا چاہتے ہو تو مجھے تھام لو! کیا اب بھی نہ پلٹو گے جبکہ تمہارے اوپر مسجدوں کے دروازے بند ہو گئے ہیں؟ اب بھی نہ آؤگے میری طرف جبکہ تم اپنے گھروں میں محصور ہو گئے ہو؟ اب بھی مجھے بڑھ کر نہیں تھاموگے جبکہ تمہارے بے دین چرواہوں نے تمھیں ایک خطرناک نفسیاتی خوف میں مبتلا کر دیا ہے؟
سیاست پر معیشت پر اور معاشرت پر خدا کے نافرمانوں اور سرکشوں کا قبضہ ہے، تمہارے ہاتھوں میں کشکول گدائی ہے، بھیک کا پیالہ ہے۔ انکے چہروں پر کبر و نخوت کا جلال ہے، تمہاری آنکھوں میں حسرتیں ہیں، ملال ہے۔ انکی زبانوں پر تمہارے لئے گالیاں ہیں، رسوائیاں ہیں، طعنے ہیں اور قہر ہے، تمہارے ہونٹوں پر خاموشی کی مہر ہے۔ انکی گردنیں تنی ہوئی ہیں، تمہارے سر جھکے ہوئے ہیں۔ انکے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہے، سرداری ہے، خسروی ہے، جہاں بانی ہے، تمہارے پیروں میں آبلے ہیں، زنجیریں ہیں، زخم ہیں، پھپھولے ہیں، تمہارے فکر و نظر پہ ظالم کی پہریداری ہے۔ خدا کی قسم ! اس نے تمھیں آزاد ہی نہیں بلکہ لیڈر، رہنما، قائد اور حکمراں بنا کر بھیجا تھا۔۔۔۔آہ! تم مجھے چھوڑ کر کیا سے کیا ہو گئے !!
(جاری )
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
محمد طارق اعظم
کرونا وائرس کے علاج کے تعلق سے برادران وطن کے شدت پسند حلقے کی طرف سے گائے کے پیشاب نوشی کی مجلس کا اہتمام کیا گیا تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس وائرس اور اس کے علاوہ دیگر مہلک مرض کا بھی کافی و شافی علاج اس گائے موتر میں موجود ہے۔ دعوے کی یہ صدا رہ رہ کر اس حلقے کی جانب سے وقتاً فوقتاً بلند ہوتی رہتی ہے، گو کہ اس وقت یہ صدا سنائی نہیں دے رہی ہے۔ اپنے دفاع میں یا مذہب اسلام پر نشانہ سادھتے ہوئے کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہندوؤں کے لیے جس طرح گاؤ موتر مقدس اور پینا باعث شفا اور ثواب ہے ٹھیک یہی معاملہ اونٹ کے پیشاب کا مسلمانوں کے یہاں ہے، جبکہ یہ بات خلاف واقعہ ہونے کے ساتھ سراسر الزام ہے۔ اس طرح کی بےبنیاد باتوں سے سیدھے سادے مسلمان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ہیں، اس کا اندازہ ان سوالوں سے ہوتا ہے جو ہمیں مسلمانوں کی طرف سے موصول ہوتے ہیں۔ خیر ہمیں گائے کے پیشاب سے کچھ سروکار بھی نہیں ہے اور نہ تحریر کا ہی یہ مقصود ہے۔ اس تحریر کا مقصود دراصل اونٹ کے پیشاب کے بہانے حدیثِ رسول پر کیے جانے والے اعتراض کا علمی جواب دینے کے ساتھ اس تعلق سے مسلمانوں کے ذہنوں پر چھائے گرد و غبار کو صاف کرنا ہے۔
حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے قبیلۂ عرینہ کے لوگوں کو پیشاب کے پینے کا حکم کیوں اور کس پس منظر میں دیا تھا، اس تعلق سے علمائے اسلام نے جو کچھ لکھا ہے اس کی تفصیل ذکر کرنے کے بجائے ایک واقعے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جس میں اس اعتراض کے جواب کے ذکر کے ساتھ ساتھ دیگر اعتراضات کے بھی سائنٹفک جواب دیے گئے ہیں۔ واقعے کے راوی ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب رحمہ اللّٰہ (1950 – 2010) ہیں۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ ماضی قریب کی مشہور علمی شخصیت گذرے ہیں، ان کے علمی اور تصنیفی یادگار میں علوم اسلامی پر پیش کیے گئے محاضرات نہایت ہی اہم اور نمایاں ہیں جو اب زیور طباعت سے آراستہ ہو کر مقبول عوام و خواص ہیں۔
اس واقعے کو ڈاکٹر صاحب نے محاضرات حدیث کے محاضرہ "علوم حدیث دور جدید” میں بیان کیا ہے۔ یہ واقعہ دراصل ایک مکالمہ ہے جو دو مشہور بڑے پائے کے اسکالر کے درمیان ہوا ہے۔ جواب دینے والے ڈاکٹر حمید اللہ صدیقی پیرس رحمہ اللّٰہ (1908 – 2002) تھے، علمی دنیا میں ان کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے، یہ سراپا فنا فی العلم تھے۔ سیرت اور حدیث کے حوالے سے انہوں نے کئی اہم عظیم خدمات انجام دیں ہیں جو ہمیشہ علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی۔ اعتراض کرنے والے ڈاکٹر مورس بکائی (1920 – 1998) تھے، ان کا تعارف ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب رحمہ اللّٰہ کی زبانی پڑھیے؛ "فرانس کا ایک مشہور مصنف تھا جس کا نام ڈاکٹر مورس بکائی تھا۔ وہ ایک زمانے میں غالباً پورے فرانس کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔ سائنس دان ہیں اور بہت بڑے ہارٹ اسپیشلسٹ ہیں۔ وہ شاہ فیصل مرحوم کے ذاتی معالج تھے اور شاہ فیصل مرحوم کا علاج کرنے کے لیے ان کو وقتاً فوقتاً ریاض بلایا جاتا تھا۔
ایک مرتبہ ان کو ریاض بلایا گیا، تو یہ سرکاری مہمان کے طور پر ہوٹل میں ٹھہرے اور کئی روز تک شاہ فیصل سے ملاقات کا انتظار کرتے رہے۔ ظاہر ہے کسی وقت بھی بادشاہ کی طرف سے ملاقات کا بلاوا آسکتا تھا، اس لیے کہیں آ جا بھی نہیں سکتے تھے۔ ہر وقت اپنے کمرے میں رہتے تھے کہ اچانک کوئی کال آئے گی، تو چلے جائیں گے۔ وہاں ہوٹل کے کمرے میں قرآن پاک کا ایک نسخہ انگریزی ترجمہ کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے وقت گزاری کے لیے اس کی ورق گردانی شروع کر دی۔ عیسائی تھے، اس لیے ظاہر ہے کہ کبھی قرآن پاک پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اس انگریزی ترجمہ کی ورق گردانی کے دوران میں خیال ہوا کہ قرآن پاک میں بعض ایسے بیانات پائے جاتے ہیں جو سائنسی نوعیت کے ہیں۔ مثلاً بارش کیسے برستی ہے؟ انسان کی ولادت کن مراحل سے گزر کر ہوتی ہے؟ اس طرح اور بھی کئی چیزوں کی تفصیلات کا تذکرہ تھا۔
چوں کہ وہ خود میڈیکل سائنس کے ماہر تھے اور سائنس ہی ان کا مضمون تھا، اس لیے انہوں نے ان بیانات کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا۔ ایک بار پڑھنے کے بعد انہوں نے قرآن پاک کو دوبارہ پڑھا، تو ان مقامات پر نشانات لگاتے گئے، جہاں سائنس سے متعلق کوئی بیان تھا۔ چند دن وہاں رہے، تو پورے قرآن کا ترجمہ کئی بار پڑھا اور اس طرح کے بیانات نوٹ کرتے گئے۔ اس سے ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر اسی طرح کے بیانات بائبل میں بھی ہوں اور ان کے ساتھ قرآن کے بیانات کا تقابل کیا جائے، تو دلچسپ چیز سامنے آسکتی ہے۔
انہوں نے واپس جانے کے بعد اس مشغلہ کو جاری رکھا اور بائبل میں جو اس طرح کے بیانات تھے، ان کی نشان دہی کی اور پھر ان دونوں بیانا ت کا تقابلی مطالعہ کیا۔ اس میں انہوں نے خالص سائنسی معیار سے کام لیا۔ ظاہر ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھے اور قرآن کے ساتھ کوئی عقیدت مندی نہیں تھی۔ انہوں نے خالص Objectively اور خالص سائنسی تحقیق کے پیمانے سے قرآن پاک اور بائبل کے بیانات کو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ قرآن پاک میں سائنسی نوعیت کے جتنے بیانات ہیں وہ سب کے سب درست ہیں اور بائبل میں سائنسی نوعیت کے جتنے بیانات ہیں، وہ سب کے سب غلط ہیں۔
انہوں نے ان نتائج پر مشتمل ایک کتاب شائع کی: "The Bible Quran and Science” جس کا اردو اور انگریزی سمیت بہت سی زبانوں میں ترجمہ ملتا ہے۔”
ٹھیک اسی نوعیت کا مطالعہ انہوں نے صحیح بخاری کا بھی اور نتیجہ مطالعہ مقالے کی شکل میں ڈاکٹر حمید اللہ صدیقی پیرس کی خدمت میں پیش کیا۔ اس دلچسپ روداد کو ڈاکٹر غازی صاحب ہی کی زبانی ملاحظہ کیجیے؛ ” اس کتاب کے بعد اسلامیات میں ان کی دلچسپی مزید بڑھ گئی اور انہوں نے تھوڑی سی عربی بھی سیکھ لی۔ ڈاکٹر حمیداللہ سے ان کی مراسم اور روابط بڑھ گئے۔ دونوں پیرس میں رہتے تھے۔ بعد میں ان کو خیال ہوا کہ اسی طرح کا مطالعہ صحیح بخاری کا بھی کرنا چاہیے۔ انہوں نے صحیح بخاری کا مطالعہ بھی شروع کردیا۔ صحیح بخاری میں سائنسی نوعیت کے جتنے بیانات تھے ان کی الگ سے فہرست بنائی۔ انہوں نے اس طرح کے غالباً سو بیانات منتخب کیے۔ ان سو بیانات کا ایک ایک کرکے جائزہ لینا شروع کیا اور یہ دیکھا کہ کس بیان کے نتائج سائنسی تحقیق میں کیا نکلتے ہیں؟ یہ سب بیانات جمع کرنے کے اور ان پر غور کرنے کے بعد انہوں نے ایک مقالہ لکھا جو ڈاکٹر حمیداللہ صاحبؒ کو دکھایا۔ یہ واقعہ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے مجھے خود سنایا۔
ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کا کہنا تھا کہ جب میں نے اس مقالہ کو پڑھا، تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ صحیح بخاری کے جو سوبیانات میں نے منتخب کیے ہیں، ان میں سے اٹھانوے بیانات تو سائنسی تحقیق میں صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ دوبیانات غلط ہیں۔ ڈاکٹر مورس بکائی نے جن دوبیانات کو غلط قرار دیا تھا، ان میں سے ایک تو صحیح بخاری میں درج حضور اکرمؐ کا یہ ارشاد ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ جب کھانے میں کوئی مکھی گر جائے، تو اس کو اندر پورا ڈبو کر پھر نکالو۔ اس لیے کہ مکھی کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہوتی ہے۔ تم دونوں پروں کو اس میں ڈبو دو، تاکہ شفا والا حصہ بھی کھانے میں ڈوب جائے۔ جب وہ گرتی ہے، تو بیماری والا حصہ کھانے میں پہلے ڈالتی ہے۔ ڈاکٹر بکائی کا خیال تھا کہ یہ غلط ہے۔ مکھی کے کسی پر میں شفا نہیں ہوتی، مکھی تو گندی چیز ہے۔ اگر کھانے میں مکھی گر جائے، تو کھانے کو ضائع کردینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سائنسی طور پر غلط ہے ۔
دوسری بات جو انہوں نے غلط قرار دی، وہ بھی صحیح بخاری ہی کی روایت ہے۔ عرب میں ایک قبیلہ تھا عرنیین کا، بنو عرینہ کہلاتے تھے۔ یہ لوگ مشہور ڈاکو تھے اور پورے عرب میں ڈاکے ڈالا کرتے تھے۔ اس کے قبیلہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا یا اسلام قبول کرنے کا دعویٰ کیا اور رسولؐ اللہ سے کچھ مراعات اور مدد مانگی۔ رسولؐ اللہ نے ا ن کو مدینہ میں ٹھہرنے کے لیے ٹھکانا دیا اور کچھ صحابہ کو ان کی مہمان داری کے لیے مقرر کیا۔ مدینہ کی آب وہوا ان کو موافق نہیں آئی اور وہ بیمار ہوگئے۔ بیماری کی تفصیل یہ بتائی کہ ان کے رنگ زرد ہوگئے، پیٹ پھول گئے اور ایک خاص انداز کا بخار جس کو آج کل "Yellow fever” کہتے ہیں، ان کو ہوگیا۔ جب رسولؐ اللہ نے یہ بیماری دیکھی، تو آپؐ نے ان سے فرمایا کہ تم مدینہ کے باہر فلاں جگہ چلے جاؤ۔ مدینہ منورہ سے کچھ فاصلے پر ایک جگہ تھی جہاں بیت المال کے سرکاری اونٹ رکھے جاتے تھے۔ وہاں جاکر رہو۔ اونٹ کا دودھ بھی پیو اور پیشاب بھی پیو۔ بات عجیب سی ہے، لیکن بخاری میں یہی درج ہے۔ چناں چہ انہوں نے یہ علاج کیا اور چند روز وہاں رہنے کے بعد ان کو شفا ہوگئی۔ جب طبیعت ٹھیک ہوگئی، تو انہوں نے اونٹوں کے باڑے میں رسولؐ اللہ کی طرف سے مامور چوکیدار کو شہید کردیا اور بیت المال کے اونٹ لے کر فرار ہوگئے۔ رسولؐ اللہ کو پتا چلا کہ یہ لوگ نہ صرف اونٹ لے کر فرار ہوگئے ہیں بلکہ وہاں پر متعین صحابیؓ کو بھی اتنی بے دردی سے شہید کیا ہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے ہیں۔ گرم سلاخ ٹھونس کر آنکھیں پھوڑ دیں اور صحابیؓ کو گرم ریگستان کی گرم دھوپ میں زندہ تڑپتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور وہ بے چارے وہیں تڑپ تڑپ کر شہید ہوگئے ہیں، تو حضورؐ کو یہ سب سن کر بہت دکھ ہوا اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس پر بہت غصہ آیا۔ حضورؐ نے صحابہ کو ان کا پیچھا کرنے کے لیے بھیجا اور وہ لوگ گرفتار کرکے قصاص میں قتل کردیے گئے۔
اس پر مورس بکائی نے ڈاکٹر حمیداللہ سے کہا کہ یہ بھی درست نہیں ہے۔ سائنسی اعتبار سے یہ غلط ہے۔ کیوں کہ پیشاب تو جسم کا Refuse (مسترد کردہ شے) ہے۔ انسانی جسم خوراک کا جو حصہ قبول نہیں کرسکتا اسے جسم سے خارج کر دیتا ہے۔ ہر مشروب کا وہ حصہ جو انسانی جسم کے لیے ناقابلِ قبول ہے، تو جسم سے خارج ہوجاتا ہے اور اسی طرح جانور کا پیشاب بھی انسانی جسم کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس سے علاج کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر حمیداللہ نے اس کے جواب میں ڈاکٹر مورس بکائی سے کہا کہ میں تو سائنس دان ہوں، نہ میڈیکل ڈاکٹر۔ اس لیے میں آپ کی ان دلائل کے بارے میں سائنسی اعتبار سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن ایک عام آدمی کے طور پر میرے کچھ شبہات ہیں جن کا آپ جواب دیں، تو پھر اس تحقیق کو اپنے اعتراضات کے ساتھ ضرور شائع کر دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نے میٹرک میں سائنس کی ایک دوکتابیں پڑھی تھیں۔ اس وقت مجھے کسی نے بتایا تھا کہ سائنس دان جب تجربات کرتے ہیں، تو اگر ایک تجربہ دومرتبہ صحیح ثابت ہوجائے، تو سائنس دان اس کو پچاس فیصد درجہ دیتا ہے اور جب تین چار مرتبہ صحیح ثابت ہوجائے، تو اس کا درجہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح چار پانچ مرتبہ کے تجربات میں بھی اگر کوئی چیز صحیح ثابت ہوجائے، تو آپ کہتے ہیں کہ فلاں بات سو فیصد صحیح ثابت ہوگئی۔ حالاں کہ آپ نے سو مرتبہ تجربہ نہیں کیا ہوتا۔ ایک تجربہ تین چار مرتبہ کرنے کے بعد آپ اس کو درست مان لیتے ہیں۔ ڈاکٹر مورس بکائی نے کہا کہ ہاں واقعی ایسا ہی ہے۔ اگر چار پانچ مرتبہ تجربات کا ایک ہی نتیجہ نکل آئے، تو ہم کہتے ہیں کہ سو فیصد یہی نتیجہ ہے۔ اس پر ڈاکٹر حمیداللہ نے کہا کہ جب آپ نے صحیح بخاری کے سو بیانات میں سے اٹھانوے تجربہ کرکے درست قرار دے دیے ہیں، تو پھر ان دو نتائج کو بغیر تجربات کے درست کیوں نہیں مان لیتے؟ جب کہ پانچ تجربات کرکے آپ سو فیصد مان لیتے ہیں۔ یہ بات تو خود آپ کے معیار کے مطابق غلط ہے۔ ڈاکٹر مورس بکائی نے اس کو تسلیم کیا کہ واقعی ان کا یہ نتیجہ اور یہ اعتراض غلط ہے۔ دوسری بات ڈاکٹر حمید اللہ نے یہ کہی کہ میرے علم کے مطابق آپ میڈیکل سائنس کے ماہر ہیں، انسانوں کا علاج کرتے ہیں۔ آپ جانوروں کے ماہر تو نہیں ہیں تو آپ کو پتا نہیں کہ دنیا میں کتنے قسم کے جانور پائے جاتے ہیں؟ کیا آپ کو پتا ہے کہ دنیا میں کتنی اقسام کی مکھیاں ہوتی ہیں؟ کیا آپ نے کوئی سروے کیا ہے؟ دنیا میں کس موسم میں کس قسم کی مکھیاں پائی جاتی ہیں؟ جب تک آپ عرب میں ہر موسم میں پائی جانے والی مکھیوں کا تجربہ کر کے اور ان کے ایک ایک جزو کا معائنہ کر کے لیبارٹری میں چالیس پچاس سال لگا کر نہ بتائیں کہ ان میں کسی مکھی کے پر میں کسی بھی قسم کی شفا نہیں ہے،اس وقت تک آپ یہ مفروضہ کیسے قائم کر سکتے ہیں کہ مکھی کے پر میں بیماری یا شفا نہیں ہوتی۔ڈاکٹر مورس بکائیے نے اس سے بھی اتفاق کیا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی۔پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر آپ تحقیق کر کے ثابت کریں کہ مکھی کے پر میں شفا نہیں ہوتی تو یہ کیسے پتا چلے گا کہ چودہ سو سال پہلے ایسی مکھیاں نہیں ہوتی تھیں،ہو سکتا ہے ہوتی ہوں،ممکن ہے ان کی نسل ختم ہو گئی ہو۔جانوروں کی نسلیں تو آتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں۔روز کا تجربہ ہے کہ جانوروں کی ایک نسل آئی اور بعد میں وہ ختم ہو گئی۔ تاریخ میں ذکر ملتا ہے اور خود سائنس دان بتاتے ہیں کہ فلاں جانور اس شکل اور فلاں اُس شکل کا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر مورس نے اس کو بھی درست تسلیم کیا۔
پھر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے کہا کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضور نے اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا، حالانکہ شریعت نے پیشاب کو ناپاک کہا ہے، بالکل صحیح ہے۔ یہ حیوانی بدن کا مسترد کردہ مواد ہے۔ یہ بھی درست ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں بہ طور ایک عام آدمی (Layman) کے یہ سمجھتا ہوں کہ بعض بیماریوں کا علاج تیزاب سے بھی ہوتا ہے۔ دواؤں میں کیا ایسڈ شامل نہیں ہوتے؟جانوروں کے پیشاب میں کیا ایسڈ شامل نہیں ہوتا؟ ہو سکتا ہے کہ بعض علاج جو آج خالص اور آپ کے بقول پاک ایسڈ سے ہوتا ہے تو اگر عرب میں اس کا رواج ہو کہ نیچرل طریقے سے لیا ہوا کوئی ایسا لیکویڈ جس میں تیزاب کی ایک خاص مقدار پائی جاتی ہو ،وہ بطور علاج کے استعمال ہوتا ہو تو اس میں کون سی بات بعید از مکان اور غیر سائنسی ہے۔پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج سے کچھ سال پہلے میں نے ایک کتاب پڑھی تھی۔ ایک انگریز سیاح تھا جو جزیرہ عرب کی سیاحت کر کے گیا تھا۔ اس کا نام ’’ڈاؤنی‘‘ تھا۔ 1924- 25- 26 میں اس نے پورے عرب کا دورہ کیا تھا اور دو کتابیں لکھی تھیں، جو بہت زبردست کتابیں اور جزیرہ عرب کے جغرافیہ پر بڑی بہترین کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔ ایک کا نام Arabia deserta اور دوسرے کا نام Arabia Petra ہے۔یعنی جزیرہ عرب کا صحرائی حصہ اور جزیرہ عرب کا پہاڑی حصہ۔ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے اتنی کثرت سے یہاں سفر کیا ہے۔ یہ اپنی ایک یادداشت میں لکھتا ہے کہ جزیرہ عرب کے سفر کے دوران ایک موقع پر میں بیمار پڑ گیا،پیٹ پھول گیا، رنگ زرد پڑ گیا اور مجھے زرد بخار کی طرح ایک بیماری ہو گئی، جس کا میں نے دنیا میں جگہ جگہ علاج کروایا، لیکن کچھ افاقہ نہیں ہوا۔آخرکار جرمنی میں کسی بڑے ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ جہاں تمہیں یہ بیماری لگی ہے وہاں جاؤ، ممکن ہے کہ وہاں کوئی مقامی طریقہ علاج ہو یا کوئی عوامی انداز کا کوئی دیسی علاج ہو۔ کہتے ہیں کہ جب میں واپس آیا تو جس بدو کو میں نے خادم کے طور پر رکھا ہوا تھا اس نے دیکھا تو پوچھا کہ یہ بیماری آپ کو کب سے ہے؟ میں نے بتایا کہ کئی مہینے ہو گئے ہیں اور میں بہت پریشان ہوں، اس نے کہا کہ ابھی میرے ساتھ چلیے ، وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر گیا اور ایک ریگستان میں اونٹوں کے باڑے میں لے جا کر کہا،آپ کچھ دن یہاں رہیں اور اونٹ کے دودھ اور پیشاب کے سوا کچھ اور استعمال نہ کریں،چناں چہ ایک ہفتے تک یہ علاج کرنے کے بعد میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔ مجھے حیرت ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ نے ڈاکٹر مورس سے کہا یہ دیکھیے کہ 1925- 26ء میں ایک مغربی مصنف کا لکھا ہوا ہے۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ یہ سابق طریقۂ علاج ہو۔ مورس نے اپنے دونوں اعتراضات واپس لے لیے اور اس مقالے کو انہوں نے اپنے دونوں اعتراضات کے بغیر ہی شائع کر دیا۔”
ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللّٰہ اس واقعے پر اپنے خاص اسلوب میں تبصرہ، تجزیہ اور ماحصل بیان کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں؛ "یہ واقعہ میں نے اتنی تفصیل سے اس لیے بیان کیا کہ علم حدیث میں ایک نیا پہلو ایسا ہے جو اس کے سائنسی مطالعہ سے عبارت ہے۔ حدیث کی کتابیں سائنس کی کتابیں نہیں ہیں۔ حدیثِ رسول کی کتابوں کو سائنس یا طب کی کتاب قرار دینا ان کا درجہ گھٹانے کے برابر ہے۔ حدیث پاک کا درجہ ان تجرباتی انسانی علوم سے بہت اونچا ہے۔ حدیث میں جو بیانات ہیں یہ سارے کے سارے زبان رسالت سے نکلے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کو سائنس یا طب کی کتاب قرار دینا تو بے ادبی ہے۔ البتہ ان کتابوں میں جو بیانات سائنسی اہمیت رکھتے ہیں ان کی روشنی میں میں سائنس کا مطالعہ مفید ہوگا۔ سائنسدان اگر اس پر تحقیق کریں گے تو سائنس کے نئے گوشے ان کے سامنے آئیں گے ل۔ یا کم از کم کم ان کے ایمان اور عقیدہ میں پختگی آسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو بات فرمائی تھی وہ آج بھی سائنس کے میزان پر پوری اترتی ہے۔ اگر سائنس کے طلبہ اس نقطہ نظر سے علم حدیث کا مطالعہ کریں گے تو بہت سی نئی چیزیں ان کے سامنے آئیں گی۔” ( محاضرات حدیث، 449 – 454)
ڈاکٹر غازی صاحب کے یہ عطر بیز جواہر پارے جہاں مطالعہ حدیث کے سلسلے میں اصول کا درجہ رکھتے ہیں وہیں مطالعہ قرآن مجید میں بھی یہ اصول اور رہنما کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہر طالب علم کو مطالعہ قرآن مجید اور حدیث شریف میں اس اصول کو حرزِ جاں بنا کر رکھنا چاہیے۔
(مضمون میں پیش کردہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات کی بنیاد پر قندیل کاان سے اتفاق ضروری نہیں)
نایاب حسن
طنزومزاح کے معروف شاعر اسرار جامعی طویل علالت کے بعد آج وفات پاگئےـ ان کی عمر نوے سال سے زائد تھی اورکئی ماہ تک جامعہ نگرکے ایک ہسپتال میں زیرعلاج رہےـ اسرارجامعی کی پیدایش گیا، بہارمیں1938میں ہوئی،ابتدائی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں حاصل کی،رانچی کالج سے بی ایس سی اوربرلاکالج آف ٹکنالوجی سے انجینئرنگ کیاتھاـ شروع سے ہی قلندرانہ وصف پایاتھا، سوکہیں ٹک کر کوئی ملازمت وغیرہ نہیں کی، تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے وطن میں ہی "اقبال اکیڈمی "قائم کی اوراس کے تحت کچھ علمی وادبی کام کیے، پھرکل وقتی شاعر ہوگئےـ اسرارجامعی نے اردوکی مزاحیہ شاعری میں بڑی اہم اورنمایاں خدمات انجام دیں، ان کاایک شعری مجموعہ بھی شاعرِ اعظم کے نام سے شائع ہوا، اس کے علاوہ غیرمطبوعہ کلام کاایک بڑاذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑگئے ہیں ـ
جب میں 2014میں دہلی آیا تواتفاقاایک دن ان سے غالبا بٹلہ ہاؤس بس سٹینڈپرملاقات ہوگئی، علیک سلیک کے بعد انھوں نے اپنے تازہ قطعے کی پرچی تھمائی اورچلنے لگے، میں نے نام دیکھا توچونک گیا، چوں کہ پہلے سے ان کانام سناہواتھا اوریہ بھی جانتاتھاکہ وہ بڑے شاعرہیں، سوان کے پیچھے پیچھے ہولیا، مزیدخبرخیریت معلوم کی، اپنے بارے میں بتایا، ان سے معلوم کیاکہ کہاں رہتے ہیں؟ اپنے "کرایہ خانے "کے بارے میں بھی بتایاـ اس کے بعد ان سے باقاعدہ شناسائی ہوگئی، پھروہ میرے کمرے پربھی آنے لگے، 2015میں انھوں نے اپنے پرچے "پوسٹ پارٹم "کاآخری شمارہ نکالا، جس کے لیے موادکی فراہمی میں مَیں نے ان کاتعاون کیا، وہ کافی خوش ہوئے اورجب بھی، جہاں بھی ملتے، اس تعاون کے لیے میراشکریہ اداکرتےـ جب تک صحت مند اورچلنے پھرنے کے قابل رہے، میرے کمرے پرآتے رہے، میں بھی ان سے ملنے جاتارہاـ پھران کی طبیعت بگڑی اوربگڑتی چلی گئی، پہلے جہاں رہتے تھے، وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوئے یامنتقل کیے گئے،بہت دنوں تک ملاقات نہ ہونے کے بعدمیں نے اپنے طورپرکئی لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کیا، مگرکچھ پتانہیں چلتا، پھرایک دن ڈاکٹرعبدالقادرشمس صاحب نے بتایاکہ وہ توبہت خستہ حالت میں ہیں اورفلاں ہسپتال میں زیرعلاج ہیں ـ ویسے توان کی پوری زندگی ہی کچھ ایسی آسودہ نہیں رہی، مگرآخرمیں بالکل ہی اکیلا اوربے یارومددگارہوگئے تھے، ڈاکٹر عبدالقادرشمس صاحب کواللہ پاک جزائے خیردے کہ انھوں نے اس مرحلے میں ان کی خبرگیری کی اوراپنے صاحبزادے عمارجامی کومستقل اس کی ذمے داری دے رکھی تھی ـ ان کی تجہیزوتکفین کاانتظام بھی انھوں نے ہی کیاـ
اسرارجامعی کے شاعرانہ قدوقامت پربڑے بڑے ناقدین نے گفتگوکی اوران کی شاعرانہ برتری کوتسلیم کیاہےـ ابتدامیں شفیع الدین نیر کواستادبنایا پھررضانقوی واہی کی شاگردی اختیارکی اوربتدریج اپنی ایک منفردراہ نکالی اورآسمانِ شعروادب پرچھاگئےـ ان کے کلام کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ لفظوں اورترکیبوں کے معمولی ہیرپھیر سے بات کوکہیں سے کہیں پہنچادیتے اورگہرے معانی پیداکرلیتے تھے ـ ان کے طنزمیں پھکڑپن نہیں ہوتاتھا،ایک خلوص اورہمدردی ہوتی تھی،ان کاطنزایساہوتاتھاکہ وہ شخص بھی سن کر مزے لیتاجوان کاہدف ہوتاـ انھوں نے زیادہ ترملک کے سیاسی احوال پر طنزیہ شاعری کی اوربڑے بڑے سیاست دانوں کی موجودگی میں ان کے خلاف اشعارپڑھےـ اس کے علاوہ سماجی احوال اورادبی حلقوں کی کج رویوں پربھی انھوں نے طنزکے تیربرسائےـ
اسرارجامعی کی خدمات کے اعتراف میں متعدداداروں کی طرف سے انھیں اعزازات سے سرفرازکیاگیا، مگر وہ جس قدوقامت کے شاعرتھے اس اعتبارسے انھیں ادبی حلقوں میں مقبولیت یامادی سرخروئی حاصل نہیں ہوسکی، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فطری طورپرنہایت سادہ اورہرقسم کی ہوشیاری وچالاکی سے کوسوں دورتھے، جوآج کل کے سکہ بندادیبوں اورشاعروں کاطرۂ امتیازسمجھاجاتاہے اورلوگ اپنی صلاحیت وخدمات کے زورپرنہیں بلکہ سرکاردربار کی چاپلوسی کرکے یاادبی گروہ بندیوں کاحصہ بن کر ناموری وشہرت اورمال ودولت حاصل کرتے ہیں ـ اسرارجامعی نے کبھی اپنی انااوراصول واقدارسے سمجھوتانہیں کیا،جس کی وجہ سے وہ اپنے عہد میں طنزومزاح کے "شاعرِاعظم ” ہونے کے باوجودہمیشہ خستہ حال رہے اورعبرت ناک زندگی گزاری ـ ان کاخاندان بہارکاایک موقرخاندان تھا، ان کے بھائی اوربھانجیاں بھی ہیں، مگرسب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف، قدآور دانشورولیڈرسیدشہاب الدین ان کے پھوپھاتھےـ جامعی صاحب دنیامیں زندگی بسرکرنے کے داؤپیچ سے قطعانابلدتھے،سو انھیں قدم قدم پر خساروں سے دوچارہوناپڑا، کسی زمانے میں دہلی کے جامعہ نگرمیں ان کی سیکڑوں گزکی زمینیں تھیں، جن پران کے مبینہ ہمدردوں نے ہی قبضہ کرلیا اوراخیر عمر میں ان کےپاس رہنے کے لیے ایک کمرہ بھی نہیں تھاـ کبھی کوئی شناسااپنی بلڈنگ کاکوئی کمرہ دے دیتااورکبھی کسی جاننے والے کے یہاں چند ماہ رہ لیتےـ اسرارجامعی کی وفات پرادباوشعراافسوس کااظہارکررہے ہیں، مگران کی زندگی میں بہت کم لوگوں نے ان کی احوال پرسی کی ـ میں انھیں اکثرکہاکرتاتھاکہ آپ بلاشبہ ایک عظیم شاعرہیں، لوگوں کوبھی اس کااندازہ ہے، مگراس کااظہاروہ آپ کی وفات کے بعد کریں گے اورآپ کے نام پرروٹیاں توڑی جائیں گی، جیسے غالب کے نام پرتوڑی جارہی ہیں، غالب بے چارے خودتوکس مپرسی کی زندگی گزارتے رہے، مگراپنے بعداپنی ذات سے منسوب ایک مستقل روزگارچھوڑگئےـ یہ سن کروہ ہنس دیتے اورادھر ادھرکی باتیں کرنے لگتےـ
دوہزاراٹھارہ میں بعض نیوزچینلوں نے باقاعدہ ان کے تعاون کے لیے خبریں چلائیں، مگردہلی سے لے کر بہارتک کے دسیوں اردواداروں اوراردوکی وردی پوش شخصیات میں سے کسی کوتوفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان کی طرف مددکاہاتھ بڑھائے، دہلی حکومت سے ملنے والاوظیفہ بھی انھیں مردہ قراردے کر بند کردیا گیا،جامعی صاحب جگہ جگہ اپنی زندگی کاثبوت دکھاتے رہے،بعض اخباروں نے لکھابھی، متعلقہ وزیراور اوکھلاکے ایم ایل اے امانت اللہ خان سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، مگرنتیجہ صفررہاـ
بہرکیف اب تووہ واقعی وفات پاچکے ہیں اوراپنے پیچھے اپناقیمتی کلام اورشعری سرمایہ ہی نہیں، عبرت وموعظت کی ایک پوری داستان بھی چھوڑگئے ہیں ـ خدااپنے جواررحمت میں جگہ دےـ
نایاب حسن
دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام پر اب تک جن مسلم ممالک کے ردِعمل سامنے آئے ہیں،ان میں انڈونیشیا،ترکی،پاکستان اور ایران شامل ہیں۔ملیشیا و ترکی نے سی اے اے پر بھی حکومتِ ہندکی تنقید کی تھی۔ایرانی وزیر خارجہ نے پیرکے دن ٹوئٹ کرکے دہلی فساد کو”مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد“قراردیااور ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کیاکہ مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔ان کے بعد ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بھی لکھاکہ”ہندوستانی مسلمانوں کے قتلِ عام پر ساری دنیاکے مسلمانوں کے دل مغموم ہیں“۔انھوں نے تہدید آمیز اندازمیں لکھاکہ”اگر ہندوستان انتہاپسند ہندووں پر لگام نہیں لگاتا،تو عالمِ اسلام اسے الگ تھلگ کردے گا“۔ہندوستان نے ایران کے اس رویے پرناراضگی جتائی اور ایرانی سفیر سے احتجاج درج کروایاہے۔ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو کچھ ہورہاہے،وہ ہماراداخلی معاملہ ہے،باہر والوں کوبولنے کا حق نہیں ہے۔گرچہ دہلی فساد پر ایران کے اس سخت ردعمل کوبعض سیاسی تجزیہ نگار امریکہ و خلیجی ممالک سے ہندوستان کی قربت کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں،جن سے ایران کی رسہ کشی کی طویل تاریخ ہے۔آج کے روزنامہ انڈین ایکسپریس میں کے سی سنگھ نے اپنے مضمون میں لکھاہے کہ چوں کہ ہند-ایران مذہبی و ثقافتی تعلقات کی طویل تاریخ ہے؛اس لیے ایران کا ہندوستان کی موجودہ صورتِ حال پر بے چینی کا اظہار کرنابنتاہے،ساتھ ہی انھوں نے چین میں اویغورمسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایران کی خاموشی کی طرف بھی اشارہ کیاہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ چین چوں کہ خطے میں ایران کا ہمدردہے،شاید اس لیے ایران اس کے خلاف نہیں بولتا۔یہ بات ہم پاکستان کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہاں سے اویغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف شاید ہی مذمت کا کوئی بول سننے کو ملتاہے۔بہرحال حقیقت جوبھی ہو،مگر یہ بڑی بات ہے کہ ایران نے کھل کر دہلی فساد پر اپنے ردعمل کا اظہار کیااورحکومتِ ہندکودفاعی پوزیشن میں ڈال دیاہے۔
بنگلہ دیش نے گرچہ17/مارچ کو ”مجیب صدی“تقریبات میں کلیدی خطبہ دینے کے لیے مودی کو دعوت دے رکھی ہے،مگر وہاں پہلے این آرسی/سی اے اے پر ہندوستان کے خلاف احتجاج ہورہاتھا،اب دہلی میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے خلاف زور دار احتجاج ہورہاہے۔کل بعد نماز جمعہ متعدد بنگلہ دیشی تنظیموں نے دارالحکومت ڈھاکہ میں احتجاجی مارچ نکال کر مودی کو بنگلہ دیش بلائے جانے کی مخالفت کی،انھوں نے اعلان کیاہے کہ اگرمودی بنگلہ دیش جاتے ہیں،تووہ لوگ انسانی زنجیر بناکر مودی کے خلاف ملک گیر احتجاج کریں گے،انھوں نے اپنی وزیر اعظم شیخ حسینہ سے مطالبہ کیاہے کہ مودی جیسے انسان کو،جس کی حکومت میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں،بنگلہ دیش کے بانی سے منسوب تقریبات میں خطاب کرنے کے لیے نہ بلایاجائے۔
اس پورے سیناریومیں عالمِ عربی کا موقف نہایت ہی شرمناک اور قابلِ افسوس ہے۔دہلی میں قتل و غارت گری کے خلاف پوری دنیا میں ہنگامہ ہورہاہے،عالمی میڈیا میں اس کی گونج اب تک سنائی دے رہی ہے،حتی کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اس پر بحث و نقاش ہورہاہے،مگر خلیجی و غیر خلیجی عربی ممالک کے حکمرانوں کو گویا موت آگئی ہے،ان کی زبانوں سے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک لفظِ تسلی سننے کونہیں ملا،چہ جائیکہ وہ ہندوستانی حکومت کے خلاف کوئی مضبوط قدم اٹھاتے۔کیااسلامی اخوت محض ایک ڈھکوسلہ ہے اوراس کا خارج میں کوئی وجودنہیں ہے؟ایک طرف ہندوستان کے مسلمان ہیں کہ یہ مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے ہر موضوع اور ہر معاملے میں عالمی اسلامی اخوت کے نعرے لگاتے اور خصوصا عربی ممالک کو غیر معمولی احترام تقدیس کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں،دوسری طرف یہ جبہ وعقال پوش قوم ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے دنیاکی سب سے بڑی مسلم آبادی سڑکوں پر ہے اور ہندوستان کی راجدھانی میں ان کی جان و املاک تباہ و برباد کردی گئیں،مگر اس پورے عرصے میں ان مردودوں سے ایک حرفِ تسلی سننے کونہیں ملا۔ حالاں کہ سعودی عرب سے لے کر متحدہ عرب امارات اور کویت و بحرین اور دیگر عرب ممالک جن سے ہندوستان کے گہرے تجارتی و اسٹریٹیجک تعلقات ہیں،وہ چاہیں تو ہندوستان پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں فرقہ وارانہ امن و امان قائم رکھے۔ایسے دباؤکااثر ہوتایانہیں ہوتاہے،اس سے قطعِ نظر عالمی ڈپلومیسی پراس کااثرضرور پڑتاہے۔جس طرح ایران یا ترکی اور انڈونیشیا وملیشیانے بیانات دیے، توان کے بیانات کے بعد کچھ ہوایانہیں ہوا،مگر ہندوستانی حکومت نے یقینی طورپر اپنے آپ کو دباؤ میں محسوس کیاہے اور یہی وجہ ہے کہ باربار یہ بولنے اور صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے اور ہمارے ملک کے لوگ محفوظ ہیں اوراسی دباؤ کی وجہ سے مودی حکومت کوعمیر الیاسی اور ایم جے اکبر کوجنیوا بھیج کرہیومن رائٹس کونسل میں صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
نایاب حسن
دہلی میں گزشتہ دوتین دنوں کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا،جو2002میں گجرات میں ہوا تھا،تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور امیت شاہ وہاں کے وزیر داخلہ تھے،اب مودی پورے ملک کےوزیر اعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات،دکانوں اور املاک کو جلایاگیا،لوٹاگیااور محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں،جن میں سے دوتہائی سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔مودی ٹرمپ کے استقبال واعزاز میں مصروف تھے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیند منگل کے دن ٹوٹی جب سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا، میڈیارپورٹس ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں انھوں نے دہلی کے حالات کو قابو کرنے کے لیے تین بار ہائی لیول میٹنگیں کی ہیں،اپنا کیرالہ دورہ منسوخ کردیاہے اور دہلی میں امن وامان کی بحالی کا ذمہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کے حوالے کردیاگیاہے،وہ ڈائریکٹ مودی اور کیبینیٹ کو رپورٹ کریں گے،خبر ہے کہ انھوں نے کل رات اورآج بھی فسادمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لیااور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔یہ سب ہورہاہے مگر حالات اب بھی تقریباًجوں کے توں ہیں،سیلم پور،جعفرآباد،شاہدرہ،کردم پوری،موج پور،کھجوری خاص،گوکل پوری وغیرہ میں تاحال وقفے وقفے سے سنگ باری اور شورش کی خبریں آرہی ہیں۔مودی نے ٹرمپ سے فارغ ہونے کے بعد آج ٹوئٹ کرکے دہلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرکے بڑی مہربانی کی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے وزیر داخلہ سےدہلی میں فوج اتارنے کی اپیل کی تھی،مگر وزارت نے اسے مسترد کردیاہے،البتہ فساد زدہ علاقوں میں مزیدریزروپولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
مختلف میڈیاویب سائٹس اورنیوزچینلوں کے رپورٹرز کے ذریعے فساد متاثرین کی جوروداد سامنے آرہی ہے اور سوشل میڈیاپر جو ویڈیوز،تصاویر اور آڈیوزسامنے آئے ہیں،وہ لرزہ خیز اوردل دہلانے والے ہیں۔باقاعدہ نشان زدکرکے مسلم گھروں اور دکانوں کو نذرِآتش کیاگیا اور بوڑھوں، بچوں، عورتوں سب کو زدوکوب کیاگیاہے۔ابھی خبر بیس لوگوں کے مرنے کی آرہی ہے،مگر فی الحقیقت کتنے لوگ اس قتل و غارت گری کے شکارہوئے اور ہورہے ہیں،اس کاپتانہیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دوماہ سے سی اے اے،این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے تھے اور یہ سارے احتجاجات پرامن تھے،شروع میں سیلم پور کے علاقے میں شورش ہوئی تھی اور جامعہ و شاہین باغ کے مظاہرین پر ہندوشدت پسندتنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی،مگر خود مظاہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا،جس سے ملک کے امن وامان یا قانون و آئین کو ٹھیس پہنچے اورقومی سالمیت کو نقصان ہو،مگر22فروری کی رات کوخبر آئی کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین نے جعفرآباد میٹرواسٹیشن کو گھیرلیاہے،اگلے ہی دن بی جے پی کے شکست خوردہ لیڈرکپل مشرانے پولیس کی پشتیبانی میں دھمکی آمیز انداز میں یہ بیان دیاکہ پولیس جعفرآبادسے مظاہرین کو ہٹائے،ورنہ ٹرمپ کے آنے تک توہم خاموش رہیں گے،مگراس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔اس کے بعد اسی رات(پیر کی رات) شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے،یہ سلسلہ پیر کے دن اور اس کے بعد بھی جاری رہا،شروع میں سی اے اے مخالف و حامی گروپ آمنے سامنے آئے اور ان کے درمیان پتھربازی ہوئی،مگر اس کے بعد یہ ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حملے کی شکل اختیارکرگیا،بعض مخلوط آبادی والے محلوں میں ہندوشدت پسندوں نے مسلمانوں کے مکانات کوباقاعدہ نشان زد کیااور بعد میں انھیں لوٹااور آگ کے حوالے کردیا۔ اشوک نگر کی ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے،جس میں پندرہ بیس سال کے لڑکے ایک مسجدکے مینارپر چڑھ کر بھگواجھنڈالہرارہے ہیں اورنیچے مسجد کے مختلف حصوں کو تہس نہس کردیاگیاہے،ایک مدرسے کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ اسے جلادیاگیا؛بلکہ اس کے کئی طلبہ کوبھی شہید کردیاگیاہے۔ایک ویڈیومیں ایک دس بارہ سال کا لڑکابھجن پورہ کے ایک مزارکوآگ لگاتانظر آرہاہے۔الغرض ایسے دسیوں انسانیت سوز و شرمناک مناظر سامنے آچکے ہیں،مگر کتنے ہی ان سے زیادہ خوفناک مناظر ہیں،جوسامنے نہیں آسکے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مودی حکومت کا رویہ نہایت ہی سردمہری والارہا،مودی کی ناک کے نیچے ملک کی راجدھانی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،مگر وہ پوری بے حسی کے ساتھ سرکاری پیسے بہاکر امریکی صدرسے اپنی دوستی نبھاتے رہے،وزیر داخلہ نہ معلوم کس گپھامیں گم تھے کہ پورے دودن بعد ان کا ری ایکشن آیااور اگر بات کریں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی،توانھوں نے بھی نہایت شرمناک ردعمل کا اظہار کیا۔پہلے تو اس پورے معاملے سے پہلو تہی کرتے رہے کہ لااینڈآرڈرہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،پھر ہلکا پھلاٹوئٹ کرکے کام چلایا،اس کے بعد ڈراماکرنے کے لیے راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور دہلی جلتی رہی،منگل کو وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،اس کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں فوج اتاری جائے،جاننے والے جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کیجریوال ہیں جواپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے گھر کے باہر دھرنابھی دے چکے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں توکیجریوال نے خالص منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیاہواہے۔الیکشن سے پہلے جامعہ و شاہین باغ میں ہونے والی فائرنگ یا سی اے اے واین آرسی کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں؛بلکہ اس پورے معاملے پر ہی گول مول موقف اختیار کیے رکھا،شروع میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے این آرسی پر ایسی باتیں کیں،جن سے مسلمان خوش ہوئے اور بعد میں عام آدمی پارٹی کے لوگ ان کادفاع کرتے رہے کہ اگر وہ شاہین باغ یا سی اے اے پر کھل کر بولیں گے،توانتخابی خسارہ ہوجائے گا،مگر اب جبکہ دوبارہ زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی حکومت آچکی ہے،پھر بھی ان کی زبان میں آبلہ پڑاہواہے،اب تک ایک لفظ ایسا ان کے منھ سے نہیں نکلا،جس سے اقلیتی طبقے کو دلاسہ و تسلی حاصل ہو،امیت شاہ اور مودی سے تو خیر کوئی توقع بھی نہیں کہ یہ دونوں اسی پروفیشن کے لوگ ہیں،مگر کیجریوال کو توایک امید کے ساتھ مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیاہے،پچھلی بار بھی دیاتھا اوراس بار بھی دیاہے،عملاً نہ سہی،زبانی تو اظہارِ ہمدردی کرتے۔فسادمتاثرین سے ملنے کے لیے جی ٹی بی ہسپتال گئے،مگر بیان ایسا دیا، جس کی ایک وزیر اعلیٰ سے ہرگزتوقع نہیں کی جاسکتی، بالکل ڈھیلاڈھالا اور لچر،بزدلانہ،حالاں کہ خودکبھی شیلا دکشت کو بزدلی کے طعنے دیاکرتے تھے۔کیجریوال کی جیت بلکہ اس سے پہلے دہلی الیکشن کے دوران ہی متعدد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھاکہ کیجریوال بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اسی جیسا طرزِ عمل اختیار کررہے ہیں،اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ہوتا،تب تو ٹھیک تھا،مگر ان کے چال چلن سے ایسا لگتاہے کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوتواکااپنا ایک نیا ایڈیشن لانچ کررہے ہیں،رام کے مقابلے میں ہنومان اور بجرنگ بلی کی باقاعدہ سیاست میں انٹری کرواچکے ہیں،دہلی اسمبلی میں ان کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے آئین و دستور کی بجاے بجرنگ بلی کے نام پرحلف اٹھائی،اس کے علاوہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں ہرماہ کے پہلے منگل کو”سندرکنڈ“کے پاٹھ کا پروگرام شروع کرچکے ہیں۔گرچہ ہر شخص کواپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے،مگر ایک سیاسی نمایندہ جب باقاعدہ اس کوایک شوکی شکل دیتاہے،تواس عمل کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔کیجریوال یاان کی پارٹی کے لیڈران اس طرح کی حرکت بس اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بی جے پی کے مذہبی چیلنج کااپنے مذہبی اپروچ سے مقابلہ کیا جائے۔ممکن ہے ان کی یہ حکمت عملی درست ہو،مگرانھیں یہ تو پتاہونا چاہیے کہ ان کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور انھوں نے انھیں ووٹ اس لیے دیاہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کوبھی ایڈریس کیاجائے،کیجریوال عملاً پوری طرح طوطاچشم ثابت ہورہے ہیں۔
حالیہ فسادکاسرامختلف راہوں سے گزرکربھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد تک بھی پہنچتاہے۔اسے سمجھنے سے پہلے 15دسمبر سے لے کر اب تک کے احوال اوران میں اس بندے کی موجودگی کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔15دسمبر کوجامعہ سانحے کے بعد یہ شخص اچانک آئی ٹی اوپر احتجاج کررہے طلبہ و طالبات کے بیچ جاپہنچااور دوچار بھڑک دار جملے بولے کہ جہاں کسی مسلم بھائی کا پسینہ بہے گا،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے اور سب سے پہلے ہم گولی کھائیں گے۔اس بیان کے بعد مسلمانوں نے اسے سرآنکھوں پر بٹھایا،محمودپراچہ جیسے لوگوں نے اسے مسلمانوں کی مسیحائی سونپ دی،19دسمبر کووہ جامع مسجد دہلی پہنچا اور مسجد کی سیڑھیوں سے ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کیا، تب بہت سے جذباتی مسلمانوں نے اندوہناک ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے چندر شیکھر آزاد اور ابوالکلام آزاد کوہم پلہ قراردینے کی کوششیں کیں۔جب دہلی پولیس نے اسے گرفتارکیااور کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوئی،توبعض ضرورت سے زیادہ قابل مسلمانوں نے ٹوئٹرپر ”امام اِزبیک“کے عنوان سے ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی۔اب حالیہ حادثے میں ان کے رول کی طرف آتے ہیں،23فروری کوبھیم آرمی نے بھارت بند بلارکھاتھا اوراس کی شروعات اسی رات سے تب ہوتی ہے،جب سی اے اے مخالف عورتیں (جن میں تقریباً سبھی مسلمان تھیں)جعفرآباد میٹرواسٹیشن پر جمع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیاپر خبریں آنے لگتی ہیں کہ جعفر آباد سے بھارت بند کی شروعات ہوچکی ہے،یعنی خواتین نے جوکچھ کیا،اس میں بھیم آرمی کی کال کا راست دخل تھا،اگلے دن کپل مشراکی زہریلی تقریر ہوئی اور پھر اس کے بعدکی وارداتِ کشت وخون سب کے سامنے ہے۔اس پورے عرصے میں چندرشیکھرآزاد منظرنامے سے غائب رہے،بس ٹوئٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کو ہدایت دیتے اور حکومت پر تنقید کرتے رہے۔حالاں کہ جو لڑکے مزارکو آگ لگاتے،مسجدکومسمار کرتے اور نہتے لوگوں پر لاٹھیاں برساتے نظرآرہے ہیں،یہ یقینی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دلت ہی ہوں گے۔
مسلمانوں کو اپنی خود سپردگی والی ذہنیت پر غوروفکر کرنی چاہیے۔ہمارے حق میں ہمارے ہی بیچ آکرہمدردی و تسلی کے دولفظ بولنے والے لوگ ہمارے ہیروبن جاتے ہیں اور ہم گویاان کے بے دام غلام بن جاتے ہیں،ہمیں ہوش تب آتاہے جب سب کچھ لٹ چکاہوتاہے۔آزادی کو اتنا لمبا عرصہ گزرگیا،مگر ہم تاحال اپنی کوئی سیاسی اسٹریٹیجی نہیں بناسکے،نہ ہم نے اپنی کوئی سیاسی قوت کھڑی کی اور نہ پریشر گروپ کی شکل میں ہندوستانی سیاست میں خود کو سٹیبلش کرسکے،ہمارے افتراق و انتشار نے قومی و ریاستی سطح پر کتنے ہی افراد اورجماعتوں کوآفتاب وماہتاب بنادیا،مگر ہم خود تاحال تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔ہر پانچ دس سال بعد ہماراسیاسی قبلہ بدلتاہے،امیدوں کا مرکز تبدیل ہوتاہے اورناکام ہوکر ہم پھرکسی نئے قبلۂ امید کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔چندرشیکھر آزادمایاوتی کا متبادل بنناچاہتے ہیں اوراس کے لیے انھیں اسٹیج ہم فراہم کررہے ہیں، کنہیا کمارسیاسی کریئر بنانے کے لیے ہمارے بیچ آکر آزادی کے نعرے لگارہاہے اور خود اس کی برادری کے لوگ اسے نجسِ عین سمجھتے اورجہاں کھڑا ہوکروہ تقریرکرتاہے،اس جگہ کی دھلائی،صفائی کرتے ہیں،بائیں بازوکے سیاست دان اور لبرل دانش وران اوردیگر مبینہ سیکولرسیاسی طالع آزما ہماری تحریک کے سہارے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اپنی جان بچانے کی فکرمیں ہیں…تعلیم،ترقی و خوشحالی کی طرف ہمیں دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملایاہم نے خود ایسا موقع پیداکرنے کی فکرنہیں کی!
عام طور پر آقا جتنا بڑا اور عظیم ہوتا ہے غلام کی غلامی اتنی ہی بڑی اور عظیم ہوا کرتی ہے۔ ہندستان اور پاکستان کے حکمراں عام طور پر امریکہ کی غلامی پرفخر کرتے ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کا حال اور بھی براتھا۔ اس کی وجہ یہ تھی وہاں جمہوریت سے کہیں زیادہ آمریت جلوہ گر تھی۔ ہر آمر امریکہ کی غلامی پر نازاں رہتا تھا۔ ایوب خاں نے اپنے زمانے میں ایک کتاب لکھی تھی یالکھوائی تھی، جس کا عنوان تھا ”آقا نہیں دوست“۔ کتاب کے سرورق پر علامہ اقبال کا ایک شعر بھی لکھا ہوا ہے ؎
اے طائرلاہوتی! اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو، پرواز میں کوتاہی
کتاب کا مقصد اچھا تھا مگر اس کتاب سے پاکستان کی غلامی ختم نہیں ہوئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں غلامی عروج پر ہوگئی تھی۔ سابق صدرامریکہ جارج واکر بش کے ایک فون آنے سے پرویز مشرف ڈھیر ہوجایا کرتے تھے۔ پرویز مشرف کی مدد سے پاکستان کا اچھا خاصا استحصال امریکہ نے کیا۔ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ امریکی حملے سے افغانستان میں شہید ہوئے۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہئے کہ اب وہاں جمہوریت کی ایک حد تک جلوہ نمائی ہے۔ عمران خان امریکہ کی غلامی کو ملک وقوم کیلئے ذلت سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہئے کہ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ کی غلامی عروج پر ہے۔ مودی ہندستان میں اپنی محبوبیت اور مقبولیت کیلئے امریکہ کا کئی دورہ کرچکے ہیں۔ ان کے آخری دورے پر دونوں ملکوں کے لیڈروں نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کیلئے ‘Howdy, Modi!’ (ہاؤڈی مودی) کا پروگرام منعقد کیا تھا جس پر کروڑوں کا صرفہ آیا اور شاہی خرچ غریب ہندستان نے برداشت کیا۔ آئندہ 24 فروری کو دو روزہ دورے پر صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان آرہے ہیں۔ آقا کی آمد سے پہلے مودی چشم براہ ہیں اورایسا لگتا ہے کہ ملک میں کوئی شہنشاہ آرہا ہے اور ملک کی رعایا ان کے استقبال میں کہہ رہی ہے کہ ؎
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
احمد آباد (گجرات) کے غریبوں کی غریبی چھپانے کیلئے اونچی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ کئی جگہوں سے غریبوں کی جھی جونپڑی کو زور زبردستی ہٹایا جارہا ہے تاکہ بادشاہ سلامت کی نظر مودی کی ریاست یا ملک پر نہ پڑے اور بادشاہ سلامت ناراض نہ ہوجائیں۔ صدر ٹرمپ تاج محل دیکھنے آگرہ بھی جائیں گے۔ آگرہ میں بھی راستوں کی مرمت بھی زوروں پر ہورہی ہے اور دیواروں کی لیپاپوتی بھی ہورہی ہے۔ یوگی کو تاج محل کی خوبصورتی اور تاریخ سے نفرت ہے لیکن سینے پر پتھر رکھ کر تاج محل کے آس پاس کے علاقے کی صفائی ستھرائی اور تزئین وآرائش کا کام زوروں پر ہے۔ یوگی ہوں یامودی ایک ایسے کلچر اور ایک ایسی ذہنیت سے تعلق رکھتے ہیں کہ ان کے دل و دماغ میں غلامی رچی بسی ہے بلکہ غلامی وراثت میں ملی ہے۔ برطانیہ دنیا کا سامراج تھا تو ان کے پرکھے برطانیہ کے وفادار تھے اور برطانیہ کی غلامی پر ناز کرتے تھے۔ مودی کو یقین تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے سے ان کی پگڑی اونچی ہوجائے گی لیکن گزشتہ روز (19فروری) ایک ایسی تقریر کی کہ مودی کی آرزوؤں اور امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندستان میں امریکہ سے اچھا برتاؤ نہیں کیا ہے لیکن میں مودی کو بیحد پسند کرتا ہوں۔ انھوں نے مزید کہاکہ تجارتی یا دفاعی معاہدے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد ہندستان سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ”نریندر مودی نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ہوائی اڈے سے احمد آباد تک 70لاکھ لوگ میرے استقبال کیلئے کھڑے رہیں گے“۔ اس تقریر سے ہوسکتا ہے کہ اگر مودی اپنے آپ کوہندستان سے بڑا سمجھتے ہوں تو دل میں خوشی محسوس کر رہے ہوں کہ آقا نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی ہے۔حالانکہ آقا کے دورہئ ہند کا سارا مقصد اپنے صدارتی انتخاب کیلئے ہے۔ امریکہ میں بسنے والے ہندستانی یا گجراتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کو کامیاب کرنے کیلئے ووٹ دیں۔ ’ہاؤڈی موڈی‘ کے پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے ایک کارکن کی طرح اپنے آقا کے حق میں نعرہ بلند کیا تھا کہ ”دوسری بار ٹرمپ سرکار“۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی ہندستان میں اسی نعرے کو دہراتے ہیں یا کوئی نیا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکن ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کا کوئی دوسرا امیدوار ہوگا۔ ضروری نہیں ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ دوسری بار کامیاب ہوں۔ مودی جی کو اس نکتہ پر غورکرنے کا وقت شاید نہیں ملا اور نہ ہی کسی نے ان کو یہ سجھاؤ دیا کہ ایک دوسرے ملک میں کسی دوسرے ملک کے وزیر اعظم کو نعرہئ انتخاب بلند کرنا انتہائی غلط ہے اور ملک کے مفاد میں صحیح نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے مودی کو اوپر اٹھا دیا لیکن ہندستان کو نیچے گرانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ملک کاکوئی بھی سربراہ ہو اور جب وہاں جمہوریت ہوتی ہے تو سربراہ مستقل نہیں ہوتا بلکہ ملک کی حیثیت مستقل ہوتی ہے۔ ملک سے بیزاری اور سربراہ سے پیار محبت کی نمائش ڈونالڈ ٹرمپ اور مودی جی ہی کرسکتے ہیں۔دونوں کی ذہنیت تقریباً یکساں ہے۔ دونوں انسان دشمنی اور عوام دشمنی پر یقین رکھتے ہیں۔نریندر مودی کا اگر آر ایس ایس سے تعلق ہے تو ٹرمپ کا تعلق یہودیوں سے ہے۔ ٹرمپ کی رگِ جاں پنجہئ یہود میں ہے اور مودی کی رگِ جاں آر ایس ایس کے پنجے میں ہے۔ مودی جب بھی ڈونالڈ ٹرمپ سے ملے ہیں تو ان کا Body Language (جسم کی زبان) بچکانہ ہی نظر آیا۔ ان کی مرعوبیت بھی عیاں تھی۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان آرہے ہیں مودی جی اپنے ملک میں رہیں گے، یقینا ان کی کوشش ہوگی کہ اپنے مہمان کے سامنے جھکے رہیں اور اس کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ یہاں بھی وہ شاید ہی اپنے معیار کو بلند رکھ سکیں اور پرواز میں کوتاہی نہ کریں۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ غربت اور افلاس میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔بے روزگاری اور مہنگائی آسمان چھو رہی ہے مگر مودی جی کی شاہ خرچی اپنے آپ کو بڑا بنانے کیلئے پہلے ہی کی طرح ہے کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ جمہوریت میں رائے، مشورہ اور آزادیِ اختلاف و انحراف، حقوق اور حریت کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے لیکن دونوں ملکوں کے دونوں سربراہوں کو انسانیت اور جمہوریت کی ان قدروں سے دوردور کا واسطہ نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا مواخذہ کچھ ایسا ہورہا تھا کہ وہ شاید ہی امریکہ کی صدارت کی کرسی پر فائز رہ سکیں لیکن وہ بال بال بچے۔ مودی جی کے خلاف پورے ملک میں انسانی قدروں کی پامالی اور سیاہ قانون کی وجہ سے مخالفت اورمزاحمت ہورہی ہے۔ غور کیاجائے تو ان دونوں سربراہوں کی اپنے ملک میں پہلے جیسی مقبولیت نہیں ہے۔ دونوں اپنی مقبولیت کیلئے کوشاں ہیں۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں کیا سوچا اورسمجھا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے لیکن ہندستان کے وزیر اعظم کی شاہ خرچی غریب ملک کے پیسے سے اور غریبوں کی غربت اور افلاس کو اونچی دیواروں سے چھپانے کی کوشش سے مودی کی نیک نامی پر بٹا لگ رہا ہے ؎’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟‘
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
تحریر:ڈاکٹرمازن مطبقانی
ترجمہ:نایاب حسن
اس مضمون میں علمِ استشراق کے بالمقابل علمِ استغراب پر گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی،علم استغراب کی اجمالی تعریف یہ ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے،جس میں مغرب(امریکہ و یورپ) کا اعتقادی، قانونی، تاریخی،جغرافیائی،اقتصادی،سیاسی و ثقافتی تمام پہلووں سے مطالعہ کیاجائے۔اب تک یہ شعبہ مستقل علم کی حیثیت اختیار نہیں کر سکاہے؛لیکن اسلامی و عربی ممالک میں جونئی علمی علمی بیداری پیدا ہورہی ہے،اس کی روشنی میں امکان ہے کہ علمی تحقیق کے ادارے اور عالمِ اسلامی کی اعلیٰ تعلیم کی وزارتیں اس سمت میں ہمت کریں گی،قدم بڑھایاجائے گا اور ایسے علمی شعبے قائم کیے جائیں گے،جہاں مغرب کاعقیدہ و فکر و تاریخ اور اقتصاد و سیاست تمام شعبوں میں علمی و اختصاصی مطالعہ کیا جائے گا۔
کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتاہے کہ ہم مغرب کا مطالعہ کیسے کرسکتے ہیں،ہم ایسی دنیا کے بارے میں کیسے پڑھ سکتے ہیں جوہم سے میلوں ؛بلکہ صدیوں آگے پہنچ چکی ہے؟تو معاملہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے؛کیوںکہ اگر ہم دعوتِ اسلامی کے ابتدائی دور کی طرف رجوع کرتے ہیں ،تو دیکھتے ہیں کہ قرنِ اول کے مسلمان جب اسلامی دعوت لے کر دنیا کی طرف نکلے،تو وہ دوسری قوموں کے عقائد ،رسم و رواج اور روایات سے واقف تھے،وہ جہاں دعوت و تبلیغ کے لیے جارہے تھے،اس سرزمین کی سیاست،معیشت و جغرافیہ سے انھیں آگاہی ہوتی تھی۔آپ پوچھ سکتے ہیں کہ انھیں ان باتوں کا علم کیسے حاصل ہوتا تھا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اہلِ قریش تاجر لوگ تھے،سردی و گرمی کے موسموں میں دنیاکے مختلف ممالک کا تجارتی سفر کیاکرتے تھے،مگر ان کے یہ اسفار محض تجارتی اور خرید و فروخت کے نقطۂ نظر سے نہیں ہوتے تھے؛وہ ان اسفار کے دوران ان ملکوں کے نظامِ حکومت اور سماجی ،سیاسی و اقتصادی احوال سے بھی آگاہی حاصل کرتے تھے۔مختلف قوموں سے اختلاط کی وجہ سے ان کے عقائد سے بھی انھیں واقفیت ہوگئی تھی،پھر قرآن کریم نے بھی انھیں یہود و نصاریٰ وغیرہ کے عقائد کے بارے میںتفصیل سے بتایا۔ اسی وجہ سے قرنِ اول کے مسلمانوں کو دیگر اقوام سے متعارف ہونے اور ان کے ساتھ تعامل اور دوسری قوموں کے پاس موجود مفیدوسائلِ تمدن سے استفادے میں کوئی دقت نہیں پیش آئی؛چنانچہ انھوں نے دیوان،ڈاک،بعض اہم صنعتوں مثلاً کاغذسازی وغیرہ کا علم حاصل کرکے انھیں اتنی ترقی دی کہ ان صنعتوں پر مسلمانوںکی چھاپ لگ گئی۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مطالعۂ مغرب کے کچھ نقوش ہمیں اسامہ بن منقذکی کتاب’’الاعتبار‘‘میں ملتے ہیں ،جس میں انھوں نے صلیبیوں کی زندگی کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیاہے،ان کے طبائع و اخلاق اور خصوصیات و عیوب بیان کیے ہیں ۔ایک دلچسپ بات انھوں نے اُس معاشرے میں عورت و مرد کے تعلقات کے حوالے سے یہ بیان کی ہے کہ ان مردوں میں غیرت کا فقدان ہے؛چنانچہ ایک مردکواس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوتاکہ اس کی بیوی کسی غیر مرد سے ملے،اس سے بات چیت کرے،حتی کہ اس سے تنہائی میں ملے؛بلکہ وہ شخص خوداپنی بیوی کی کسی اجنبی سے ملنے پر حوصلہ افزائی کرتاہے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم مغرب کے بارے میں جانیں۔اس سلسلے کی ابتدا غالباً رفعت رفاعہ طہطاوی اور خیر الدین تونسی وغیرہ نے یورپ کے حوالے سے کی تھی،انھوں نے مغرب کی جن چیزوں کے مطالعے پر زوردیاتھا،وہ وہاں کا سیاسی نظام تھا،جو انتخاب و سیاسی آزادی پر قائم ہے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے مغرب کی اجتماعی زندگی اور عورت و مرد کے باہمی تعلقات پر بھی توجہ دی تھی۔تونسی و طہطاوی کی کتابیںایسے وقت میں منظر عام پر آئیں،جب عالمِ اسلامی پس گردی کی تباہیوں سے دوچار تھا،ایسے میں ان کا مغربی نمونۂ حیات سے متاثر و متحیر ہونا لازمی تھا،گرچہ انھوں نے اپنے زعم میں مغرب کی خوبیوں کواسلامی خوبیوں اور خصائص سے ہم آہنگ کرنے کی بھی کوشش کی۔
اس صدی کے نصف میں دوبارہ مطالعۂ مغرب کی آواز مستشرقین کے ایک عالمی سمینار میں اٹھائی گئی۔رودی بارت نے اپنی اہم تصنیف’’الدراسات العربیۃ والاسلامیۃ في الجامعۃ الالمانیۃ‘‘(ص:15)میں اس طرف توجہ دلائی کہ عالم اسلامی کو اُسی طرح مطالعۂ مغرب کی طرف متوجہ ہونا چاہیے،جیسے مغرب عالمِ اسلامی کا مطالعہ کرتا ہے۔ڈاکٹر سید محمد شاہدنے اپنے ایک علمی لیکچر میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی، جوانھوں نے کنگ سعود یونیورسٹی میں 1414ھ میں دیاتھا،اس کی تلخیص رسالہ’’مرآۃ الجامعۃ‘‘میں شائع ہوئی تھی،پھر ڈاکٹر حسن حنفی کی کتاب’’مقدمۃ في علم الاستغراب‘‘کے نام سے سامنے آئی۔میں مطالعۂ مغرب کے اہداف کے سلسلے میں اس کتاب سے ایک اقتباس پیش کرناچاہتاہوں:
’’اپنے اورغیرکے درمیان تعلق کے تاریخی نقص کو دور کرنا،دوسرے کو دارِس کی بجاے مدروس بناکراس کے احساس ِ عظمت کو دور کرنا،اپنے احساسِ کمتری کومدروس کی بجاے دارس بناکر دور کرنا،چاہے مغرب کی زبان کو پڑھنے کا معاملہ ہویا وہاں کی ثقافت،علوم،مذاہب اور نظریات و افکارکوجاننے اور پڑھنے کا‘‘۔
مطالعۂ مغرب کی اہمیت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس نے ایک ایسی تہذیب و تمدن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے،جو آج سارے عالم پر چھائی ہوئی ہے اور طہ حسین و لطفی سید کی کتابوںکی وجہ سے مغرب کی طرح مسلمانوں کی ازسرِ نو ترقی کے سلسلے میں تردداورتشکک پھیلایاگیا اور یہ تلقین کی گئی کہ وہ اپنی خصوصیات و شناخت سے دست بردار ہوجائیں ،اپنے آپ کو مغرب کے حوالے کردیں اور مغربی طرزِ زندگی کو اس کی تمام تر اچھائیوں اور برائیوں سمیت اختیار کرلیں۔حالاں کہ بعد میں طہ حسین نے اپنے س قسم کے افکار سے رجوع کرلیاتھا؛چنانچہ ان کی کتاب’’مستقبل الثقافۃ في مصر‘‘دوبارہ شائع نہیں ہوئی۔ اسی طرح اس کتاب کے بارے میں ان سے جب ایک بار سوال کیاگیا،تو انھوں نے جواب دیا کہ:وہ پرانی کتاب ہے۔
سوال پیدا ہوتاہے کہ ہم مغرب کا مطالعہ کیسے کریں؟اگر ہم حقیقی معنوں میں مغرب سے واقفیت حاصل کرنااور مغربی تہذیب کی مثبت حصول یابیوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ،تواس سلسلے میں ایک مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔اس کے لیے مختلف عربی و اسلامی یونیورسٹیز میں مطالعاتِ مغرب کی خاکہ سازی کے لیے دسیوں انجمنیں اور کمیٹیاں بنانی ہوں گی۔مگر یہ کام کرنے سے قبل ہمیں مطالعۂ مغرب کے بہترین طریقوں کے بارے میں غوروفکر کرنا ہوگا۔مجھے یاد آتاہے کہ امریکہ نے اپنے یہاں انیسویں صدی کے آغاز میں مطالعۂ مشرق(استشراق)کا سلسلہ شروع کیاتھا،مگر دوسری عالمگیر جنگ کے بعد غیر اختیاری طورپر مشرقِ وسطیٰ یا عربی و اسلامی ملکوں میں اس کی حیثیت برطانیہ جیسی ہوگئی،جس کے بعد امریکی حکومت نے عربی،ترکی،فارسی،اردو اور مختلف ملکوں اور خطوں کے خصوصی مطالعے کے سینٹرزمیں سرمایہ کاری کی تجویز پاس کی۔
عربی زبان کی تدریس وتحقیق کے پروگرام شروع کرنے کے بعد امریکی یونیورسٹیز نے خصوصاً برطانوی اورعموماً یورپی یونیورسٹیز کے اساتذہ سے مدد لی کہ وہ امریکی یونیورسٹیز میں پڑھائیں،اسی طرح مشرقِ بعید کے مطالعات کے شعبوں میں پڑھانے کے لیے اس علاقے کے لوگ بلائے گئے،جیساکہ پرنسٹن یونیورسٹی نے فلپ کے ہتی کو مشرقی مطالعات کا شعبہ قائم کرنے کے لیے بلایاتھا۔پھرمشرقِ وسطی کے مطالعات کے شعبوں اور دوسرے علمی اداروں کے مابین دیگر سماجی و انسانی مطالعات کی طرح علمی و تحقیقی تعاون کا سلسلہ شروع ہوا۔اس وقت بیس سے زائد امریکی یونیورسٹیز کے عربی و اسلامی شعبے وفاقی حکومت سے امداد پارہے ہیں ؛تاکہ وہ امریکی حکومت کی ضروریات کی تکمیل کے منصوبے پر مضبوطی سے کا م کرتے رہیں۔
عالمِ اسلام میں یورپی زبانوں کی تدریس و تعلیم کم نہیں ہے،مگر ہمیں ضرورت ایسے لوگوں کی ہے،جو ان زبانوں میں مہارت حاصل کرکے اعلیٰ مقام تک پہنچیں،پھر مغربی یونیورسٹیز میں پڑھیں اور مغرب کے موضوعات و مسائل پر ریسرچ کریں،صرف ایسے موضوعات پر نہیں ،جو اسلامی دنیاسے تعلق رکھتے ہیں۔ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جومغربی ادب کو اس طرح سمجھتے ہوں،جیسے مثال کے طورپر پروفیسر ایڈرورڈ سعید سمجھتے تھے،انھوں نے مغربی ادب کے دیدہ ورانہ مطالعے کے ذریعے مغربی عقلیت کے اَعماق میں اترکراسے سمجھاتھا۔اسی طرح ہمیں ایسے انسان کی بھی ضرورت ہے جو مغربی علم ِسماجیات کا گہراعلم رکھتاہو؛ تاکہ وہ مغربی معاشرے کواس طرح جان سکے گویاوہ اسی کا ایک فردہے۔یہ مسئلہ مشکل بھی نہیں ہے؛کیوںکہ آج مغربی دنیامیں یورپی و امریکی نسل کے بہت سے مسلمان رہتے ہیں،جوان کے معاشرے کوحقیقی طورپرسمجھ سکتے اور جس قسم کی معلومات بھی حاصل کرناچاہیں ،آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں،انھیںکوئی مشکل نہیں پیش آئے گی۔
دھیان دینے کی ایک بات یہ ہے کہ ہمارامطالعۂ مغرب ان ملکوں سے مستفاد ہونا چاہیے،جو اس سلسلے میں سبقت رکھتے ہیں،ایسے متعدد یورپی ممالک موجودہیں، جہاں امریکی اسٹڈیزکے ادارے کھولے گئے ہیں؛چنانچہ لندن یونیورسٹی کے اکانومک و پولٹیکل کالج میں امریکی اسٹڈیز کا ادارہ قائم ہے،اسی طرح مونٹریال یونیورسٹی میں امریکی اسٹڈیز کا شعبہ ہے،جرمنی میں بھی ہے،پاکستان نے بھی امریکی اسٹڈیز کا ادارہ قائم کیاہے۔
البتہ ہمارا مطالعۂ مغرب، مغرب کے مطالعۂ مشرق سے مختلف ہونا چاہیے؛کیوںکہ مغرب نے تو مشرق کا مطالعہ اس لیے شروع کیاتھا کہ اس کا حکم وہدایت عیسائی مذہبی اداروں او رپاپائیت کی طرف سے تھااور مقصدیہ تھا کہ مسلمانوں کی قوت اور عیسائیوں کے زیرنگیں ممالک میںاسلام کی اشاعت کا راز معلوم کیاجائے۔وہ صرف مسلمان اور اسلام سے شناسائی نہیں حاصل کرنا چاہتے تھے؛بلکہ ان کے دواور مقاصد تھے:ایک یہ کہ عیسائیوں کو اسلام سے متنفر کیاجائے اور دوسرا یہ کہ اسلامی ممالک میں عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مذہبی مبلغین تیار کیے جائیں۔
اس آغاز کے بعد یورپی استعمار کا ظہور ہوا اور اس نے بھی اس کی ہم نوائی؛ بلکہ اس سے آگے نکلنا ضروری سمجھا؛تاکہ اسے وہ استحکام حاصل ہوجواس کا مقصد تھا؛چنانچہ اہل مغرب کے پاس ایسے کئی عالم اسلامی کے ماہرین ہوئے ،جنھوں نے استعمار کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں حصہ لیا۔پھرایک زمانے کے بعد استعماری لہریں محدود اور ختم ہوتی چلی گئیں،مگر مغرب کی یہ خواہش برقراررہی کہ وہ عالمِ اسلامی میں داخل ہو، تاکہ مغربی ملکوں کا خام مواد وہاں آسانی سے داخل کیاجاسکے،پھراسے تیارشدہ سامان کی شکل میں اسلامی دنیامیں رائج کیاجاسکے؛چنانچہ ان ملکوںکیسماجی طرززندگی میں بدلاؤآنااور مخصوص قسم کے طرزِاخلاق کواختیار کرنااوراسے مضبوطی سے تھامنا یقینی تھا،پھر ہمارے ممالک ان کے وسائل و اسباب ومصنوعات کی کھلی مارکیٹ بن گئے۔(الاماشاء اللہ)
پس ہم اگر مغرب کا،مغربی اداروں کا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں توپہلے ہمیں مادی قوت کے ان اسباب ووسائل کو اختیار کرنا ہوگا،جو ان کے پاس ہیں،خود قرآن کریم میں اس کی ہدایت دی گئی ہے کہ’’ان سے مقابلے کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے ہتھیار سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو،تاکہ تم اس کے ذریعے ان لوگوں پر اپنا رعب جمائے رکھوجوکہ اللہ کے دشمن ہیں اور تمھارے دشمن ہیں‘‘۔(الانفال:60)توجس طرح امریکی مثلاً اس کوشش میں ہیں کہ وہ جاپانی مینجمنٹ اور اس کی تخلیقی اور تیز رفتارترقی کی قوت کارازمعلوم کرسکیں،اسی طرح ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ان کی قوت کے اسباب کا پتالگائیں۔جس طرح انھوں نے اپنی زندگی میں مینجمنٹ،صنعت،معیشت،تعلیم وثقافت کے شعبوں کے نظام کے اطلاق ونفاذکا میکانزم تیارکیاہے،ایسےہی ہمیں کرناہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم جب مغرب کا مطالعہ کریں گے، تو ہمارا کوئی استعماری مقصد نہیں ہوگا،ویسے بھی مسلمانوں کا مزاج کبھی استعمارینہیں رہا۔مجھے سلطنت عثمانیہ کے دفاع میں لکھی گئی محمد جلال کشک کی یہ بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ وہ نہ تو استعماری حکومت تھی اورنہ اسے ایسا کہاجاسکتاہے، انھوں نے اپنے اس دعویٰ کی متعدددلیلیں بھی پیش کی ہیں۔مغرب کے مطالعے سے ہمارا مقصد محض اپنے مفادات کا تحفظ کرناہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس تصور کوسمجھناہے، جسے مغرب نے ایجادکیااور دنیاکی بہت سی حکومتوں سے زیادہ طاقت ورہوگیا۔
تیسری بات جو خاص اہمیت کی حامل ہے ،یہ ہے کہ یہی امت، امتِ دعوت و شہادت ہے، حضور اکرمﷺکے پہلے کے انبیاعلیہم السلام اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے،پھر تمام مسلمانوں کو یہ ذمے داری دی گئی (قل ہذہ سبیلي أدعوإلی اللّٰہ علی بصیرۃ أناومن اتبعن)اورحدیث میں ہے کہ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو شاداب رکھے، جس نے میری بات سنی،پھر اسے ذہن میں بٹھالیا،پھراسے ان لوگوں تک پہنچایا، جنھوں نے نہیں سنی تھی؛کیوںکہ بہت سے وہ لوگ، جنہیں وہ بات پہنچائی جائے گی وہ اس سننے والے سے زیادہ باشعور و بیدار مغزہوںگے‘‘۔حضورﷺکایہ آخری پیغام محض ایک اعتقادی سسٹم کا حصہ نہیں ہے، جس کا تعلق انسان اوراس کے رب سے ہے،جیساکہ عیسائیت میں ہے اور اسے ماننے والوں کا خیال ہے کہ عیسی علیہ السلام نے فرمایاہے’’جوقیصر کا ہے وہ اس کے لیے چھوڑدواور جو اللہ کا ہے،وہ اس کے لیے خاص رکھو‘‘۔اس کے برخلاف حضورﷺکایہ پیغام سماجی،سیاسی،معاشی،اخلاقی و فکری الغرض زندگی کے ہرپہلو میں نافذہوگااورہمیں جب امتِ شہادت بنایاگیاہے،توان لوگوں کے بارے میں ہم کیسے گواہی دے سکیں گے،جنھیں حقیقی معنوں میں جانتے ہی نہ ہوں؟
مغرب کا مطالعہ دنیا کی نظرمیں مغرب کی شبیہ مسخ کرنے کے لیے بھی نہیں ہونا چاہیے؛کیوںکہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ’’کسی قوم سے دشمنی تمھیں ناانصافی پرنہ ابھارے،تم انصاف کرو،یہی تقوی کے قریب ہے اور اللہ سے ڈرو‘‘۔اسی طرح ہمیں اپنے رشتے داروں اور والدین کے معاملے میں بھی انصاف کا حکم دیاگیاہے۔اس حوالے سے ہمارے لیے حضرت عمروبن العاصؓکایہ قول نمونہ ہونا چاہیے،انھوں نے رومیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا:’’ان کے اندر چار خصلتیں ہیں:آزمایش کے وقت وہ نہایت بردباراورمتحمل ہوتے ہیں،مصیبتوںسے بہت جلد باہرنکل آتے ہیں،جنگ میں پیچھے ہٹنے کے بعد تیزی سے پلٹتے ہیں،مسکینوں اور یتیموں کے خیرخواہ ہیں اور پانچویں اچھی بات یہ ہے کہ اللہ نے انھیں بادشاہوں کے ظلم سے محفوظ رکھاہے‘‘۔
نئی دہلی: یوگی آدتیہ ناتھ دہلی میں انتخابی مہم پر ہیں۔یوپی کے وزیر اعلی کی شبیہ فائر برانڈ ہندووادی رہنما رہی ہے۔ہندوتو کی شبیہ بتانے کے لئے بی جے پی نے یوگی کو انتخابی مہم میں اتارا ہے۔انتخابی پلیٹ فارم ملتے ہی یوگی نے شاہین باغ کے بہانے ماحول بنانا شروع کر دیا ہے۔’بولی سے نہیں مانیں گے تو گولی سے منائیں گے ‘والے ان کے بیان پر تنازع بڑھ گیا ہے۔عام آدمی پارٹی نے الیکشن کمیشن سے یوگی کی شکایت کر دی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ ان کی انتخابی مہم پر روک لگا دی جائے۔یوگی کہہ رہے ہیں کہ شاہین باغ والوں کو کیجریوال بریانی کھلا رہے ہیں۔یوگی آدتیہ ناتھ دہلی انتخابات کے لئے بی جے پی کے اسٹار پرچارک ہیں۔1 فروری سے ہی وہ یہاں ریلیاں کر رہے ہیں۔یوگی کو ان علاقوں میں لگایا گیا ہے، جہاں پروانچلی لوگ رہتے ہیں۔ دہلی میں بہار اور یوپی کے لوگوں کو پروانچلی یا پوربیا کہا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق دہلی میں ایسے 45 لاکھ ووٹر ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ 27 سیٹوں پر جیت اور ہار پوربیا ووٹر طے کرتے ہیں۔اس کے علاوہ 8 سے 12 اسمبلی سیٹوں کو وہ متاثر کرتے ہیں۔ملک میں کہیں بھی کسی طرح کا انتخاب ہو۔یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو بی جے پی اسٹار پرچارک بناتی رہی ہے۔گجرات انتخابات میں مودی کے بعد سب سے زیادہ ریلیاں یوگی نے کیں۔وہاں بھی وہ کامیاب رہے۔زیادہ تر سیٹوں پر بی جے پی جیتی، جہاں یوگی نے پرچار کیا۔کرناٹک انتخابات میں بھی یوگی آدتیہ ناتھ کا ملا جلا اثر رہا۔لیکن چھتیس گڑھ میں وہ چل نہیں پائے۔بی جے پی کی وہاں کانگریس کے ہاتھوں شرمناک شکست ہوئی تھی۔مہاراشٹر اور ہریانہ کے انتخابات میں بھی یوگی نے دھواں دھار پرچار کیا تھا ۔جھارکھنڈ انتخابات میں انہوں نے درجن بھر ریلیاں کیں۔لیکن سب سے زیادہ بحث جامتاڑا کی رہی۔اپنے بیانات کو لے کر یوگی آدتیہ ناتھ ہمیشہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔انتخاب ہو یا نہ ہو۔وہ بغیرکسی شرم اورجھجھک کے کھلے عام ہندوتو کا کارڈ کھیلتے ہیں۔
شہریت ترمیمی قانون کے حوالے سے ہماری تحریکِ مزاحمت اب ایک صبر آزما مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ موجودہ تحریک جو بظاہر ایک ردّعمل اور اضطراب کے طور پر سامنے آئی ہے، دراصل برسہا برس کی گھٹن اور ظلم و ناانصافی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مظلوم و مقہور قوم کی وہ صدائے احتجاج ہے، جسے دنیا کی کوئی قوت تاریخ کے کسی مرحلے میں تہہ تیغ کر دینے کایارا نہیں رکھتی۔ اس تحریک کے محرکین بظاہر ناتجربہ کار طلبہ و طالبات ہیں، لیکن یہی اس تحریک کی قوت بھی ہے۔ نوجوان چونکہ تجربات کی بیڑیوں سے آزاد ہوتے ہیں، اس لئے وہ پکی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں نئی راہیں نکالنے کا خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی پیمبرانہ دعوت بھی بنیادی طور پر ایک یوتھ موومنٹ تھی، جس میں ابتدائی ۳۹ لوگوں کی فہرست میں اغلب تعداد بیس سے کم یا بیس سے کچھ زیادہ عمر کے نوجوانوں کی تھی۔ جب تک اسلام کی تحریک پر نئے دل و دماغ کا غلبہ رہا اور بزرگوں نے اپنے بالغ نظر نوجوانوں کی پشت پناہی کو ہی اپنا اعزاز سمجھا، پیمبرانہ مشن کے قافلے کی ترو تازگی باقی رہی۔ البتہ جب قیادت کے تنظیمی ڈھانچے پر اسّی نوے سالہ بزرگوں کی موجودگی کو لازم سمجھ لیا گیا اور ذہنی و جسمانی معذوری تقدس کا حوالہ بن گئی، ہمارے ادارے اور تنظیمیں دیو ہیکل زنگ آلود مشینوں میں تبدیل ہوگئے۔
(1) ہمیں اس حقیقت کے اظہار میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے کہ ہمارے نوجوان بچے بچیاں جنھوں نے موجودہ تحریک کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک نئی زندگی بخشی ہے، اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ باخبر، حوصلہ مند اورپر اعتماد ہیں۔ ان کا عمل اور ان کی گفتگو اپنے تمام تر طالب علمانہ نقائص کے باوجود ایک مجتہدانہ شان لئے ہوئے ہے۔
ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ بابری مسجد پرغیرمنصفانہ فیصلے کے بعدجب امت کے اکثر بڑے بوڑھے نظامِ وقت کےسامنے کورنش بجا لانے میں ہی عافیت جانتے تھے اور جب ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس امت پر نئی صبح کے سارے امکانات بند ہوچکے ہیں، مایوسی کی اس گھڑی میں انہی نوجوانوں نے ایک ایسی مضطربانہ صدائے احتجاج بلند کی جس کی صدائے بازگشت تمام اطراف و اکناف میں سنی گئی۔ دیکھتے دیکھتے ہندو سمراٹ کا عالمی پروپیگنڈہ اور مودی حکومت کی ہمالیائی تصویر کچھ اس طرح زمیں بوس ہوئی کہ عالمی پریس میں حکومت کے لئےاپنی مسلم مخالف پالیسیوں کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا۔ جامعہ ہو یا علی گڑھ، ندوہ ہو یا دیوبند یا دوسرے تعلیمی ادارے جہاں ہمارے نوجوان بچے بچیوں نے بزرگوں کی مصالحانہ روش کو خیرباد کہتے ہوئے ایک نئے طرز عمل کی بنیاد رکھی ، ان کے اِس اقدامی عمل سے معمول کے تعلیمی ماحول میں جو بھی انتشار پیدا ہوا ہو اُس کے لئے اُن کو موردِ الزام ٹھہرانے یا ان پر تادیبی کارروائی کرنے کی بجائےدراصل انہیں انعام و اکرام سے سرفراز کرنا چاہئے۔ یہ وہ مضطرب اور سعید روحیں ہیں جن کی اگر ہم نے خاطرخواہ حوصلہ افزائی نہ کی اور اُن کی پشت پر کھڑے نہ ہوئے تو ہم سنگین جرم کے مرتکب ہوں گے۔
(2) صدر اول کی اسلامی روایت کے برعکس، مدت سے دین اور شریعت کے نام پر، ہم نے اپنی خواتین کو گھروں میں محبوس کررکھا تھا۔ حالانکہ اس عمل کے لئے نہ تو شرع سے کوئی دلیل لائی جاسکتی تھی اور نہ ہی عقل سے۔موجودہ تحریک میں طالبات کے قائدانہ رول نے فرسودہ مولویانہ بحثوں کا کچھ اس طرح قلع قمع کردیا کہ دیکھتے دیکھتے ملک کے مختلف گوشوں میں نہ صرف یہ کہ شاہین باغ وجود میں آنے لگے، بلکہ سکہ بند علماکو بھی انقلابی بچیوں کے ساتھ شوق سے تصویریں کھنچواتے دیکھا گیا۔ اسلام کی ابتدائی تحریک بھی (والمؤمنین والمؤمنات بعضھم اولیأ بعض) کی عملی تصویر تھی جہاں خیر کے کام میں مرد و زن دونوں ہی حسب توفیق اپنا حصہ ڈالتے۔ الحمدللہ کہ ہماری بہنوں نے نقطۂ انجماد کی ٹھنڈک میں بھی جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اور جس شان سے ملک کے مختلف شہروں میں کھلے آسمان کے نیچے خطرات کا مقابلہ کرتی رہی ہیں اُس سے اس بات کا اندازہ توہو ہی گیا ہے کہ اس گئی گزری حالت میں بھی ہماری شیرازہ بندی کیا گل کھلا سکتی ہے۔
(3) تحریک مزاحمت میں شامل نوجوانوں کے مابین اب یہ بات مناقشہ کا موضوع بن گئی ہے آیا اس عوامی تحریک کا قالب بین مذہبی ہو یا خالص ملی۔نوجوانوں کا ایک حلقہ خالص ملی شناخت کے ساتھ اس لڑائی کو لڑنا چاہتا ہے، جبکہ ایک دوسرا حلقہ عوامی اور مشترکہ ، بلکہ بین مذہبی قالب اختیار کرنے کا پُرزور وکیل ہے۔ ہمارے خیال میں یہ دونوں نقاط نظر عقیدے کے بجائے اسٹریٹجی سے متعلق ہیں، اس لئے اس بارے میں کسی بھی گروہ کو مطعون نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ بحثیں ہیں جو آنے والے دنوں میں خود ہی اپنا راستہ بنالیں گی۔ جو طلبہ و طالبات اس لڑائی میں اپنی شناخت کو مقدم رکھنا چاہتے ہیں وہ ماضی کے تجربات سے کبیدہ خاطر ہیں، ان کے دلائل کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے تمام نوجوان ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، انھیں ہمیں سنبھالنا ہے، ان کی پشت پناہی کرنی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تحریک سے نوجوانوں کی ایک ایسی قیادت وجود میں آئے جو بلا خوف لومۃ لائم حق کو حق کہنے کا حوصلہ رکھتی ہو اور جو اس کلمہ حق کو پیمبرانہ لب و لہجہ میں عوامی نعرہ بنادینے کے فن سے بھی خوب واقف ہو۔ پیمبر کسی قوم کی سطوت کی لڑائی نہیں لڑتا بلکہ اس کی آواز میں وہ وسعت ہوتی ہے کہ اقوامِ عالم کے صالح قلوب اس کی طرف از خود کھنچے چلے آتے ہیں۔ شرجیل جیسے نوجوان منحرفین میں سے نہیں بلکہ مضطربین میں سے ہیں، جو اس ملک میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے استحصال سے سخت نالاں ہیں اور ہر قیمت پر ایک مخلص مسلم قیادت کا احیا چاہتے ہیں۔ بقول جسٹس کاٹجو، شرجیل مجرم نہیں بلکہ انھوں نے محض اظہارِ رائے کی آزادی کا حق استعمال کیا ہے۔ البتہ روایتی مسلم قیادت کو نئے راستے کے متلاشی پسند نہیں آسکتے۔
(4) ملک بھر میں پھیلے مختلف شاہین باغوں کی شکل میں قدرت نے ہمیں ایسی تجربہ گاہیں عطا کی ہیں جہاں ہم اپنی اصل پیمبرانہ تصویر ملک اور بیرون ملک میں مسلسل نشر کرسکتے ہیں۔ نفرت کے اس ماحول میں جہاں ہندوتو کے علمبرداروں نے ہماری شبیہ خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، ہمارے لئے شاہین باغ کے پبلک پلیٹ فارم نے ایک نادر موقع فراہم کردیا ہے۔ اگر ہم اہل وطن کو یہ یقین دلاسکے کہ عدل و قسط کے قیام کو ہم اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور یہ وہ کلمہ سواء ہے جس کی بنیاد پر دوسری اقوام کے ساتھ ایک مشترکہ محاذ کا قیام عین ہماری دینی ذمہ داری ہے تو اس ملک میں بڑی آسانی سے ایک مقبول عام تحریک کے خد و خال تیار ہوسکتے ہیں۔
(5) آزادی کے بعد پہلی بار ہماری تحریک مزاحمت میں غیرمسلم اقوام کے قافلے تائید و تحسین کے جذبہ کے ساتھ از خود چل کر آرہے ہیں۔ یہ ایک نادر موقع ہے، کاش کہ ہم انھیں بتاسکیں کہ اہل مذاہب کے دوسرے گروہوں سے ہمارا ایک دینی رشتہ ہے۔ عیسائیوں کا اہل کتاب ہونا تو ہر خاص و عام پر واضح ہے، سکھوں کے واہِ گرو کا خالصہ یا گایری منترا میں اوم کی عظمت و جلالت کا بیان ایسی باتیں ہیں جو ہمیں ان اقوام کے ساتھ ایک رشتۂ ایمان میں پروتی ہیں۔ ہندوستان کے سناتن دھرم ہندو ہمارے ساتھ شبہ اہل کتاب کی حیثیت سے ایک رشتۂ اخوت میں منسلک ہیں۔ اس بحث کو آگے بڑھانے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
(6) اہل وطن کو اس بات پر سخت حیرت ہے کہ ہندوستانی مسلمان اچانک دستور ہند کے تحفظ کے لئے اس شدت کے ساتھ سڑکوں پر کیونکر آگئے۔ بعضے یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا دستور کی حفاظت کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر ہی ہے۔ ہمارے خیال میں دستور کی بنیادی روح جس کا اظہار اس کے ابتدائیہ میں ہوا ہے، یعنی انصاف، حریت، مساوات اور اخوت، ان ارکانِ اربعہ کا ہمارے قرآنی پیغام سے گہرا تعلق ہے۔ یہ باتیں دراصل امریکی اعلان آزادی سے اثر پذیری کا نتیجہ ہیں جس کی بنا میں مغربی فلسفی جان لاک اور خود جیفرسن کا مطالعہ قرآن اور شاطبی کے اصول خمسہ کارفرما ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر شخص کو مساوات، حریت فکری اور انصاف کی ضمانت مل سکے اورجہاں رنگ و نسل سے بے نیاز اخوت کی تشکیل ممکن ہو ایک ایسے خواب کو ہم اپنے پیمبرانہ مشن کا جزو لازم سمجھتے ہیں ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عورتوں کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ وہ نازک ہونے کے ساتھ ساتھ مردوں کے مقابلے میں بزدل ہوتی ہیں، بطور خاص گھریلو عورتیں جو چھپکلیوں اورجھینگروں تک کو دیکھ کر چیخ مار دیتی ہوں، ان کی ساری ہیکڑی ختم کرنے کے لیے ریوالور، گولی، ہوائی فائرنگ وغیرہ جیسی چیزوں کو کافی سمجھنا فطری ہے۔ شوہر کا ایک زناٹے دار تھپڑ جس مخلوق کو ساری زندگی پا بہ زنجیر رکھ سکتا ہے، بھلا اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ظالم حاکم وقت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر اسے چیلنج دے سکے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ باد مخالف میں وہ پورے ہمت و استقلال کے ساتھ ان لوگوں کو چنوتی دینے کے لیے پورے 50 دنوں تک اپنی جگہ پر جمی رہے؟سرد راتوں اور گرم طعنوں کے تھپیڑوں کے باوجود اسی طرح ان لوگوں کے سامنے کھڑی رہے جو دُرگا اور کالی کو نمن کرنے کے باوجود "ناری شکتی” کے انکاری ہوں۔ رضیہ سلطان، رانی لکشمی بائی اور جھانسی کی رانی کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے باوجود جو لوگ آج بھی اکیسویں صدی میں عورتوں کو صرف "گھریلو نوکرانی” یا "استعمال کرنے کی چیز” سمجھتے ہیں، ان کے لیے تو بہرحال یہ شاہین باغ کی عورتیں ان کی مردانہ ایگو کے لیے تازیانے سے کم نہیں، اسی لیے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت عورتوں کو گھر بار سنبھالنے کا مشورہ دیتے ہیں تو کبھی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردوں نے اپنی عورتوں کو چوراہے پر بٹھا دیا ہے اور خود رضائی میں دبکے پڑے ہیں، پھر کبھی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ ان عورتوں سے ڈر کر انھیں "بکاؤ” کہہ کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ عورتیں پتہ نہیں، کس چیز سے بنی ہیں کہ ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا اورپورے پچاس دنوں سے راون کی پوری فوج کو للکار رہی ہیں اور بیچارہ راون اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ "ویدک کال” کی نہیں، بلکہ اکیسویں صدی کی عورتیں ہیں۔ان عورتوں کا نہ تو "سیتا ہرن” کیا جا سکتا ہے اور نہ اب وہ "اگنی پریکشا” دینے کے لیے تیار ہے، بلکہ وہ خود مجسم اگنی کا روپ دھار چکی ہے جو سرکار کو اندر ہی اندر بھسم کررہی ہے۔ لہٰذا کبھی گوپال شرما نامی شخص کو چھپکلی سے ڈرنے والی مخلوق کو ڈرانے کے لیے بھیجا جاتا ہے جو بھٹکتے بھٹکتے شاہین باغ کے بغل میں ہی واقع جامعہ ملیہ یونیورسٹی پہنچ کرصرف ایک گولی داغنے کا ناٹک کرتا ہے اور بزدلوں کی طرح پیچھے کھسکتا ہوا خود کو تقریباً پولیس کے حوالے کردیتا ہے جو اس کے پیچھے ہی اسے گود لینے کو تیار کھڑی تھی، پھر کپل گجر نامی ایک شخص شاہین باغ کے باہر نمودار ہوتا ہے اور جان بوجھ کر دو یا تین راؤنڈ ہوائی فائر کرنے کے بعد پستول جھاڑیوں میں پھینک کر بالکل گوپال شرما کی طرح پولیس کی طرف جست لگا تا ہے اوران کی شفقت بھری بانہوں میں یہ کہہ کر سما جاتا ہے کہ "یہ ہندوؤں کا دیش ہے اور یہاں صرف ہندوؤں کی چلے گی۔”جامعہ ملیہ میں گولی چلانے والے گوپال شرما کو نابالغ قرار دے کر پولیس اس کیس کو پہلے ہی مرحلے پر کمزور کردیتی ہے،ممکن ہے ایک دو روز بعد کپل گجر کو ذہنی طور پر پاگل قرار دے کر اس کا کیس بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر میں پہلے بھی کافی کہہ چکا ہوں اور اس کی پوری کرونولوجی بھی بیان کرچکا ہوں۔ لیکن جس طرح 48 گھنٹوں کے اندر جامعہ اور شاہین باغ میں سانحے ہوئے، ان دونوں میں ایک مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں حملہ آوروں کا مقصد شاید کسی کوگولی مارنا نہیں بلکہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرنا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں کاروائیاں شاہین باغ کی عورتوں کو محض ڈرانے کے لیے تھیں تاکہ ان میں افراتفری پھیلے، وہ اپنی جان اور آبرو بچانے کے لیے گھر لوٹ جائیں یا ان میں سے بیشتر کے شوہر اور ان کے گھر والے ان عورتوں پر گھر لوٹنے کا دباؤ ڈالیں، اس طرح سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ یہ سب اس دن ہوا جب پارلیامنٹ میں مودی سرکار بجٹ پیش کرتے ہوئے "بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ” کے منصوبے کے گذشتہ ایک سال کے فائدے گنوا رہی تھی۔ مجال ہے جو ذرا بھی زبان کانپی ہو، مجال ہے گذشتہ سال میں عورتوں اور طالبات پر ہونے والے مظالم کے اعداد و شمار کا خیال بھی سرکار کے ذہن میں آیا ہو اور مجال ہے کہ ہندوستان بھر میں لاکھوں شاہین باغوں میں بیٹھی عورتوں کے درد اور ان پر پولیس کے مظالم اور بدزبانیوں کو یاد کرکے پیشانی پر پسینے کے کچھ قطرے ہی جھلملائے ہوں۔ چونکہ سرکار کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا مرد اب تک عورتوں کو ان کی برسوں پرانی امیج کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور مطمئن ہے کہ بھلا چھپکلی اورجھینگروں سے ڈرنے والی عورتوں کی اتنی مجال کہاں کہ وہ ان سے سوال کر سکیں، ان سے حساب کتاب مانگ سکیں۔ یہی خود اعتمادی انھیں لے ڈوبی اور لے ڈوبے گی، چونکہ موجودہ صورت حال بالکل شفاف اور واضح ہے۔جب کسی ملک کا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ اس کی پوری پلٹن اپنی سیاست کا مرکزی نقطہ شاہین باغ میں بیٹھی کچھ عورتوں پر مرکوز کردیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب سرکار ان سے ڈرنے لگی ہے لیکن چونکہ صدیوں پرانا مردانہ غرور عورتوں سے شکست مان کر اپنی وراثت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو وہ کبھی کرنٹ لگانے کی بات کرتا ہے، کبھی گوپال شرما کو بھیجتا ہے تو کبھی کپل گجر کو اور کبھی "ہندو سینا” کے ذریعہ 2 فروری کو شاہین باغ اکھاڑنے کا اعلان کراکے انھیں ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن افسوس انھیں پتہ ہی نہیں کہ شاہین باغ میں بیٹھی عورتیں مذہبی صحائف اور تاریخ کے صفحات سے نکل کردرگا، کالی، رضیہ سلطان، جھانسی کی رانی،لکشمی بائی جیسے کردار کے روپ میں مجسم ہوچکی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عصر حاضر میں جب بھی کوئی اسلامی تحریک شروع ہوئی تو اس کا پہلا حملہ سیکولرازم کے اصولوں پر مبنی ماڈرن سوسائٹی پر ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی تحریکیں ناکام ہو ئیں۔ جمہوری سیکولر ملک مصر میں اخوان المسلمین اور الجزائر، تونس اور مراکش سے لے کر فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس جنہوں نے اخوان کے اس کے نظریاتی ماڈل کو اپنایا جدو جہد کیا لیکن بالآخر عوامی مقبولیت سے محرومی ہی ہاتھ آئی۔
ہمارے یہاں بھی آج کل اور اس سے قبل بھی یہ موضوع زیر بحث رہا کہ سیکولر نظام حکومت اسلامی نظام حکومت سے متصادم ہے۔ ایسی حکومت سازی میں بحیثیت امیدوار یا بحیثیت ووٹر شریک ہونا درست نہیں اس نظریہ کے تحت ایک عرصے تک جماعت اسلامی کے متفقین نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ طاغوتی نظام حکومت کی ملازمت درست نہیں اس رایے کے پیش نظر کئی منتسبین نے سرکاری ملازمتوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ظاہر ہے اس طرح کی رائے یا نظریہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک عملی ہے اور نہ قابلِ قبول۔ چنانچہ بعد میں جماعت نے اپنے موقف میں تبدیلی کی تاہم اب بھی اس کے اہم عہدیدار فعال انتخابی سیاست سے کنارہ کش ہیں۔
ایک اور بیانیہ : سیکولر ملک کے دستور کو محض ایک سمجھوتہ مانا جائے؟ کن باتوں پر سمجھوتہ کیا جائے کس طرح پابندی کی جائے اور کن حالات میں سمجھوتہ ٹوٹنے کا اعلان کر دیا جائے یہ قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں میں فکری انقلاب لانے والے طے کریں گے ! الامان و الحفیظ
ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں جہاں ٨٠% غیر مسلم شہری ہیں جہاں مسلمانوں اور دیگر تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اس ملک کا آئین مذہبی آزادی دیتا ہے کیا اس طرح کی سوچ کو فروغ دینا مناسب ہے؟ میرے خیال میں بالکل نہیں اس لئے کہ حکومت الہیہ اور خلافت علی منہاج النبوۃ کی تطبیق آج کے دور میں عملاً ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے ہندوستان کیا نام نہاد مسلم ممالک میں بھی رائج نہیں ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں:
١- ان میں سب سے بڑی وجہ ہے ملکوں کا ایک دوسرے کے ساتھ سماجی سیاسی تجارتی اور ثقافتی تعلقات۔ کوئی بھی ملک دنیا کے ممالک سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ دنیا کے تمام ممالک اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر کے رکن ہیں۔ بینکنگ کا نظام ورلڈ بینک اور کرنسی کا نظام انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ IMF کے تحت ہے۔ ظاہر ہے اس کا نظام سود پر مبنی ہے اس کے باوجود دنیا کا ہر ملک اس کے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے مجبور ہے۔
٢- اسلام اور اس کے اصول کے تئیں بیشتر ممالک کا رویہ اگر عمومیت کے ساتھ معاندانہ نہ بھی کہیں تو ان کے لئے یہ موضوع بہت حساس ہے۔ اس لئے اسلامی بینک جو ادنی اور متوسط طبقے کے لیے بہت بڑی راحت ہو سکتی ہے اسے قائم کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ ملیشیا کے صدر مہاتیر محمد صاحب نے برسوں کوشش کی کہ ڈالر کی جگہ مسلم ممالک کی اپنی کرنسی دینار رائج ہو لیکن کامیابی نہیں ملی۔
٣- مہذب دنیا نے کے بیشتر ممالک مختلف ممالک کے نظام حکومت اور مذہبی ریاستوں کے تجربات کو بغور جائزہ لینے اور اچھی طرح پرکھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ جمہوری حکومت اور سیکولرازم ہی ان کے عوام کی تعمیر وترقی، رفاہ عامہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے مناسب ترین نظریہ ہے۔ radicalism رجعت پسندی اور کمیونزم کے تجربات معاشرے کے لئے بہت مفید ثابت نہیں ہوۓ اس لئے بیشتر ممالک نے معلنہ یا غیر معلنہ مذہبی مساوات کے نفاذ کے لئے سیکولر ازم اور سماجی مساوات کے لئے سوشل ازم کو اپنایا۔
٤- آج دنیا کے کسی خطے میں اسلامی ریاست موجود نہیں ہے۔ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک تجربہ گاہ کی حیثیت سے دیکھا جائے تو وہ مکمل طور پر ناکام ہے۔ عرب ممالک میں اسلامی نظام محض چوروں کے ہاتھ کاٹنے زانیوں کو سنگسار کرنے اور قتل کے عوض قتل یا دیہ(blood money جو رقم مقتول کا وارث مطالبہ کرے) اور اسی کے مماثل دیگرحدود نافذ کرنے تک محدود ہے ۔ تمام تر مالی وسائل کے باوجود کسی ملک نے آئیڈیل اسلامی ملک بننے کی کوشش نہیں کی اور اگر کوئی ملک کوشش بھی کرے تو کامیابی نہیں ملےگی اس لئے کہ وہ اسی ورلڈ سسٹم کا حصہ ہے اور اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت اس کی زندہ مثال ہے۔ اسے محض conspiration theory کہہ کر خارج نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ اور بین الاقوامی سازش کے علاوہ بھی بہت ساری پیچیدگیاں تھیں۔
زمینی حقائق کو نظر انداز کرنا، یہاں کے آئین میں مذکور حقوق، ذمہ داریاں اور قوانین کی پابندیوں کو اہمیت نہیں دینا یا یہ کہتے ہوئے کہ وہ قرآن و سنت سے ماخوذ نہیں ہیں اس لئے ثانوی ماننا خود فریبی ہے۔ جو لوگ مسلمانان ہند کا سیاسی سفر صحیح سمت میں جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کے لئے بھی اولین شرط اور موثر ہتھیار دستور ہند ہے۔ سیکولرازم مذہب کی آزادی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضمانت ہے۔ برادران وطن کا روادارانہ مزاج اور انسان دوستی نے مسلمانان ہند کی ہمیشہ پشت پناہی کی ہے۔ لیکن مذہب کے نام پر ١٩٩٠ میں رتھ یاترا سے فرقہ پرستی کا جو زہر اکثریتی طبقہ کے لوگوں کی رگوں پیوست کرنے کی شروعات ہوئی تھی اب اس کے مسلم مخالف نمونے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ فرقہ پرست عناصر الیکشن جیتنے کے لیے مسلمانوں کو ٹارگٹ کر رہےہیں جس کی وجہ سے مسلمان آج ڈر کے ماحول میں جی رہا ہے ۔ اس ملک کے شریک مالک ہونے والے آج اپنے شہری حق اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کی شہریت یقینی بنانے کے لئے احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں اسی دستور ہند میں دی گئی ضمانت کے تحت اپنے وجود کی بقاکی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ آج اس ملک کے دستور اور سیکولرازم کی اہمیت کا احساس پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے ۔
پہلے کرونولوجی سمجھیں۔ موجودہ حکومت کی آمد سے چند مہینے قبل سیکولرازم پر لعن طعن کا بیانیہ شروع کیا گیا اسے sickularism یعنی بیمار نظریہ کہا جانے لگا اس میں پیش پیش ہندو احیاء پرست رجعت پسند متعصب لوگ تھے اور ہیں انہوں نے سیکولرازم کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا آلہ بتایا۔ اس کے بعد فرقہ پرست عناصر نے بالتدریج ہندو مذہب کو فروغ دینے کی مہم شروع کی۔ غیر حکومتی سطح پر فروغ دینا عیب کی بات نہیں تھی مگر اسے ہندو اور ہندوازم بنام مسلمان اور اسلام کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ اس کے مقابلے میں اب بعض مسلمان اسلام احیاء پرست کی شکل میں فکری اور عملی انقلاب لانے کی بات کریں گے تو اس کا انجام کس قدر سنگین ہوگا اس کا اندازہ کریں۔ مسلمان گاندھی جی کو فاشسٹ کہہ کر سیکولرازم پر لعنت بھیج کر اور آئین ہند کو کمتر سمجھ کر کس کا مقصد پورا کرنے میں معاون ہوں گے؟ ظاہر ہے ان متعصب عناصر کا جو بخوبی سمجھتے ہیں کہ آئین اور اس میں یقینی بنائے گئے سیکولرازم میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت ہے۔
کیا تصادم مسئلے کا حل ہے ؟ مسئلے کا حل دعوت کا کام کرنا تھا جس میں ہم سے کوتاہی ہوئی ہے۔ دعوت کا کام اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کا کام برادران وطن کے برہمنوں دانشوروں اور شرفاء میں، متوسط طبقے کے ساتھ باہمی میل جول اور ادنیٰ طبقے کے ساتھ سالیڈریٹی کرنے سے نتیجہ خیز ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ممبئی: (نمائندہ خصوصی) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ریڈیو کلب قلابہ میں پرچم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک احتجاجی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف اداکارہ پوجا بھٹ نے کہا کہ نہ ہماری خاموشی ہمیں بچائے گی، اور نہ ہی حکومت کی خاموشی اسے بچائے گی‘‘۔ اس اجلاس سے پوجا بھٹ کے علاوہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دینے والے آئی پی ایس افسر عبدالرحمان، فہد احمد (ٹی آئی ایس ایس)، عمر خالد(طلبہ لیڈر) ڈاکٹر کفیل احمد خان، مشکور احمد عثمانی (طلبہ لیڈر) پروفیسر سراج چوگلے، ارشد صدیقی (ریڈ کریسنٹ سوسائٹی) نے بھی خطاب کیا۔پوجا بھٹ نے مزید کہاکہ میرے خون میں ہندوستان کی روح ہے اور میں کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ مجھ سے کہے کہ میں کس سے محبت کروں؟ کس کو چاہوں؟ گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں، تو کیا ہندوستان ہمارا گھر نہیں ہے؟ اگر کوئی شکایت ہے تو ہم سرکار سے ہی کہیں گے۔ میں اس سرکار کی شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں متحد کردیا ہے، یہ میرا دیش ہے، یہ میرا گھر ہے یہ میرے اپنے لوگ ہیں اگر میں اپنے گھر میں سوال نہیں پوچھوں گی تو کہاں جاؤں گی سوال پوچھنے۔ انہوں نے کہاکہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان جائیے ، جاؤں گی، مگر چھٹیاں منانے ویزہ لے کر، میرے بہت پیارے دوست وہاں رہتے ہیں، وہاں بہت پیار ملتا ہے مجھے، وہاں بھی ایسے عجیب لوگ ہیں جو پوچھتے ہیں کیوں آئے ہو؟ یہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کیوں گئے ہو؟ انہوں نے کہاکہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ طلباکی تحریک کے تعلق سے آپ کا کیا کہنا ہے؟ تو میرا جواب ہے کہ طلبا نے کہدیا ہے کہ ’جاگ جاؤ‘ ۔
خورشیداکبر
ایک تیرا نظام چل رہا ہے
ساری دنیا میں کام چل رہا ہے
ایک تو شاہ چل رہا ہے یہاں
ایک اس کا غلام چل رہا ہے
ایک سے شہر صاف ہو گئے ہیں
جانے کیا اہتمام چل رہا ہے
اک محبت تھی ختم ہو گئی ہے
اور اک انتقام چل رہا ہے
ایک تلوار تھی سو کھو گئی ہے
صرف خالی نیام چل رہا ہے
ایک دنیا ٹھہر گئی ہے مگر
ایک وہ تیزگام چل رہا ہے
ایک بیٹا : بلند ہے اتنا
باپ انگلی کو تھام چل رہا ھے
ایک سکہ اندھیر گردی کا
رات دن صبح و شام چل رہا ہے
اک چھری سے حلال ہر گردن
سب کا جینا حرام چل رہا ہے
ایک خورشید روز اگتا ہے
روز قصہ تمام چل رہا ہے
مِلان کندرا ایک جگہ لکھتا ہے’a man’s struggle against power is the struggle of memory against forgetting‘ یعنی ’اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدو جہد فراموشی کے خلاف یاد داشت کی جدوجہد ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر آپ طاغوتی مقتدرہ کے جبروتی نظام کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اسے یاد رکھیں، فراموش مت کریں، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ارض موعود کو یاد رکھا تھا اور دانتوں سے زمین پکڑے اِنچ بہ اِنچ چلتے ہوئے ’منزل مرام‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، آپ بھی جنونی اقتدار کی ہذیانی نرگسیت میں بدمست مودیوں، شاہوں، یوگیوں اور مردودوں، کو مت بھولئے گا، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ہٹلر کے’مرگ انبوہ‘ کو اقوام عالم کی آشوب گاہ ثابت کرتے ہوئے دنیا کو مظلومیت کا نیا بیانیہ عطا کیا۔ اب دنیا میں کوئی بھی ملک اپنی رعایا یا اقلیت پر خواہ آگ کی ہی بارش کیوں نہ کرے اس کے بیان کی شدت ’ہولوکاسٹ‘ پر جاکر دم توڑ دیتی ہے۔ اگر آپ کی پوری کمیونٹی کے سر پر آسمان آتش فگن ہے، نیچے ’ جُبِّ الْحَزَن‘ہے، آگے موت کا دوزخ اور پیچھے ذلتوں کا برزخ ہے تو کوئی بات نہیں کہ یہ ہولوکاسٹ نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر اب مابعد جدید و متمدن دنیا آپ کی مدد کے لئے آگے نہیں آنے والی ہے، ایسے ہی جیسے فلسطین، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، روہنگیا اور اویغور میں شرمندگانِ خاک بوند بوند لہو پی رہے ہیں، اقوام مغرب کشتوں کے پشتے دیکھ رہی ہیں اور سر مژگاں تک نم نہیں ہورہی ہے ۔وجہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کشتگان ستم ، یہ صاحبانِ خار و خس، یہ سگانِ تیرہ شب، یہ شہیدانِ آمد سحر کوئی اور نہیں ہم ہیں، یعنی کہ مسلمان ہیں، افتگادگان خاک ہیں۔ ہم ’ہولوکاسٹ‘ نہیں ہیں اور ہوں گے بھی نہیں۔اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دل سے نکال دیں کہ کشمیر جیسی ایک چھوٹی سی ریاست کو 9 لاکھ جواں شیر فوجوں کی بکتر بند گاڑیاں تاخت و تاراج کرنے میں ناکام رہیں، آہنی بوٹوں کی جگر فگار چاپ دشتِ دہشت میں جوان ہونے والوں کو بھی اپنا مطیع و فرمانبردار نہیں بنا سکی، اور جب کوئی صورت بن نہیں پائی تو بہشت کو اٹھا کر دوزخ میں ڈال دیا تو پھر یہ ایک کروڑ کشمیریوں کا نہیں پچیس سے تیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اگر روز آپ پانچ ہزار مسلمانوں کو جان سے ماریں گے تو کل پچاس ہزار دن لگیں گے اور جہاں تک حراستی مراکز کی بات ہے تو یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہوگا کہ مسلمان ایک طرح سے حراستی مراکز میں ہی رہتا ہے اور پھر کتنے حراستی مراکز قائم کریں گے اور کیا وہ محفوظ بھی رہ پائیں گے، کیا ایک دن خوف کی طاقت ان تمام آہنی دیواروں کو مسمار نہیں کرے گی؟
ہمارا وزیراعظم ’اربن نکسل‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے یوں گویا ’رورل نکسل‘ کا ’آتنک‘ ختم ہوگیا ہو۔ تاریخ سے نابلد ناہنجاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ’اربن‘ لفظ ہی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ نکسلزم دیہات کو فتح کرتا ہوا شہر و قصبات میں داخل ہوچکا ہے۔ ہندوتو کی بھانگ پینے والے دونوں کور بھکتوں کو اگر ’گھر گھر مودی‘ کے علاوہ کچھ اور دکھائی دے تو انہیں معلوم ہوکہ ’رورل نکسل‘ نکسلی علاقوں میں نہ صرف اپنے بنیادی تصورات کے ساتھ زندہ ہے بلکہ آج بھی حکومت کے لئے اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ وہ چارو مجمدار کے وقت تھا۔ نکسلزم اب صرف آدیواسیوں اور قبائلیوں کے حقوق کی لڑائی تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک نظریے میں تبدیل ہوچکا ہے، ایک ایسا نظریہ جو اب اربن نکسل کی شکل میں ’بھگوائیوں‘ کے لاشعور میں کابوس کی صورت جاگزیں ہوگیا ہے۔ شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں چینیوں سے مشابہ چپٹی ناک والوں نے تو آزادی کے وقت سے ہی ہندوستان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ دو سال قبل ڈوکلاہام کا واقعہ آپ کیسے بھول سکتے ہیں، چین اندر گھستا چلا آرہا ہے اور ہمارا وزیراعظم خیالی پروجیکٹوں کے فیتے کاٹ رہا ہے؟ ہندوستان جغرافیائی اور تہذیبی اعتبار سے ایک بڑا و اعلیٰ ظرف ملک ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلقات پڑوسیوں کے ساتھ کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ مغرب میں پاکستان، مشرق میں بنگلہ دیش، شمال میں چین اور جنوب میں سری لنکا کے ساتھ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ٹھنی رہی ہے۔ ایک بڑا ملک جب اپنی تہذیبی اقدار کا احترام کرنے کے بجائے پڑوسیوں کے ساتھ ’بگ بردر‘ کا سلوک اپنانے کی کوشش کرے اور علت ہائے نافرجام کہ ایک سطح پر اندرونی شورش کا شکار بھی ہو تو اسے کمزور ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ ’بھگوائیوں‘ اور ان کے دونوں مائی باپ کو یہ بات آج نہیں تو کل سمجھ میں آجائے گی کہ وہ امریکہ نہیں، ہندوستان میں رہتے ہیں اور اقتدار کا نشہ مثال قطرہ شبنم بہت جلد اتر جاتا ہے، برطانیہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، عہد جدید کے جیوپولیٹیکل منظرنامے میں دنیا اسے ’کتے کا دُم‘ سمجھتی ہے جس کے پاس بین الاقوامی مسائل میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رہ گیا ہے۔ سرمایہ داروں کے لئے صارفین کی کھیپ تیار کرکے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سپرپاور بن گئے ہیں تو اس سوچ پر صرف رحم ہی کیا جاسکتا ہے۔
سماجی،سیاسی اور معاشی بحران کے اس دور میں این آر سی اور سی اے اے کے نام پر ہندوستان کے پچیس سے تیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف’ بھگوائیوں‘ کا اعلان جہاد نشے میں مست ہونے کی حماقت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ ابھی تو یہ تحریک ابتدائی مرحلے میں ہے، اس آغاز کو اختتام نہ سمجھا جائے، یہ ممکن ہے کہ اگلے کچھ وقتوں میں تحریک سمٹ کر صرف مسلم شاہینوں تک محدود ہوجائے، دلت، پسماندہ و دیگر روشن خیال سیکولر طبقہ تاخیر کی سیاست’delay tactics‘ سے عاجز ہوکر واپس اپنے اپنے گوشہ عافیت کے اسیر ہو جائیں لیکن جیسا کہ کہاوت ہے ’phoenix rises from the ashes‘ یعنی ققنس اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لیتا ہے، ہر ققنس اپنی تین سو چونچوں میں ابابیلوں والی کنکریاں لے کر اپنی اسی راکھ سے جنمے گا۔ امت شاہ کی توند، مودی کی کوٹ، یوگی کی لنگوٹ سب ٹھاٹ پڑے رہ جائیں گے۔ یہ سچ ہے کہ ابھی ہم خوف میں ہیں لیکن ابھی ہم نے اپنے خوف کی طاقت کو استعمال نہیں کیا ہے جیسا کہ کافکا نے کہا ہے۔ ’ “My ‘fear’ is my substance, and probably the best part of me‘۔ یہ ہمارا خوف ہے جو ہماری غیرت و انانیت کو مجروح ہونے سے بچاتا ہے، یہ بقا کا خوف ہے جو ہمیں مسترد اور رائیگاں ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ ہمارا خوف ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ خوف کی طاقت یہ ہے کہ سانپ کے حملہ کرنے سے قبل ہی اس کا سر کچل دو جو اس وقت بھگوائی حکومت کررہی ہے۔ابھی اس طاقت کو ہم نے استعمال نہیں کیا ہے۔اس مصاف میں اگر جان سے جانا ہی شرط ٹھہرا تو پھر وہ بھی ہوگا۔ بے فکر رہیں، ہم قانون کو ہاتھ میں لینے والے نہیں لیکن ہاں قانون کا نوالہ بھی بننے والے نہیں ہیں۔
نئی دہلی۔ ہندوستان کے عہد ِوسطی کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا ساراسرمایہ فارسی زبان وادب میں محفوظ ہے۔ آٹھ سو سالہ تاریخ پر محیط عہدوسطیٰ میں فارسی زبان وادب کے حوالے سے مختلف النوع کتابیں اردومیں لکھی گئی ہیں۔ اس کے باوجود فارسی زبان وادب کی مربوط تاریخ کا فقدان ہے۔اس کمی کو دیکھتے ہوئے قومی اردو کونسل نے ایک مبسوط اور معتبر تاریخ کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ فارسی اورعہدِوسطیٰ کے سرمائے کونئی نسل تک پہنچایاجاسکے۔یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کونسل کے صدردفترمیں منعقدہ فارسی زبان وادب کے پینل کی میٹنگ میں کہیں۔انھوں نے کہا کہ اردو میں صلاحیت پیدا کرنے کے لیے فارسی کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بغیر فارسی کی افہام وتفہیم کے اردو زبان وادب پر عبور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ گزشتہ کئی سالوں سے زیرِ غور رہا ہے، تاہم اب اسے حتمی طورپر آئندہ چھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ فارسی زبان وادب کی تاریخ کو چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے اورہر باب کے کئی ذیلی ابواب ہوں گے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے ماہرینِ فارسی کی مدد لی جارہی ہے۔
اس موقع پر سید پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ فارسی زبان ادب کی تاریخ کے منظر عام پر آنے کے بعد واقعی قومی اردو کونسل کی تاریخ میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ ہوگااورنئی نسل ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے پڑے فارسی زبان وادب سے متعلق علوم وفنون سے آشنا ہوگی۔پروفیسر ایچ ایس قاسمی نے کہاکہ ہم قومی اردو کونسل، بالخصوص جواں سال ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کے ممنون ہیں جو ہندوستان کی گزشتہ سات سوسالہ تاریخ کو قلم بند کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو یقینا ایک غیر معمولی کام ہے۔ پینل کی صدارت پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس پر کونسل نے کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔عہد وسطیٰ کے ہندوستان کے مختلف خطوں میں فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا اور شعرا وادبا نے اپنی جو تخلیقات پیش کی ہیں، وہ اس عہد کی ترجمانی کرتی ہیں جسے ایک مربوط اور مبسوط شکل میں لانے کی بات ہورہی ہے۔پینل میں پروفیسر عراق رضا زیدی،پروفیسر عبدالحلیم کے علاوہ کونسل کے اکیڈمک اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، ڈاکٹر فیروز عالم اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر،جناب ساجد الحق کے ساتھ ڈاکٹر شاہد اختر نے شرکت کی۔
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)