دیوبند(ایس۔چودھری)شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں جاری خواتین کے احتجاج نے دہلی کے شاہین باغ کی صورت اختیار کرلی ہے، گزشتہ تین دن سے سخت سردی اور بارش کے باوجود مسلسل کھلے میدان میں ڈٹی خواتین کو چاروں طرف سے زبردست حمایت مل رہی اور آج بھارت بند کی کال کے سبب یہاں تاریخی بھیڑ دیکھنے کو ملی ،عیدگاہ میدان سے ہزاروں مردو خواتین نے بیک آواز سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کو واپس لینے کی مانگ کرتے ہوئے کہاکہ جب تک یہ کالے قانون واپس نہیں ہونگے اس وقت تک ہماری تحریک بدستور جاری رہے گی۔ متحدہ خواتین کمیٹی کے زیراہتمام دیوبند کے عیدگاہ میدان میں گزشتہ تین دنوں سے سی اے اے،این آرسی اور این پی آر کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ چل رہاہے،خواتین عیدگاہ کے میدان میں دن رات جمع ہیں اور وہ مسلسل حکومت کو وقت نشانہ بنارہی ہے ،قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس احتجاج میں دیوبند کے اکثرو بیشتر گھروں سے باپردہ خواتین شامل ہورہی اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اس تحریک میں اپنا تعاون دے رہی ہیں،منگل کی رات اور بدھ کے روز کی بھیڑ اور خواتین کا جوش خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، سخت سردی و بارش بھی ان باہمت خواتین کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکی،بھارت بند کا اثر بھی دیوبند میں زبردست رہا اور مسلم علاقوں میں لوگوں نے مکمل طورپر اپنی دکانیں وغیرہ بند رکھیں اور خواتین کے اس احتجاج کا حصہ بنے۔بدھ کے روز بہوجن کرانتی مورچہ کے سیکڑوں مردوخواتین نے احتجاج گاہ پہنچ کر خواتین کو اپنی حمایت دی اور کہاکہ جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک بہوجن کرانتی مورچہ کااحتجاج بھی جاری رہے گا ،مورچہ کی خواتین ونگ کی عہدیدان رنجنالہری نے اپنے خطاب کے دوران کہاکہ موجودہ مودی حکومت ہندوستان کے لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کررہی ہے، انہوں نے کہاکہ سی اے اے آئین کے خلاف ہے،جس کے لئے سیکولر ہندوستان میں کوئی گنجائش نہیں ہے، انہوں نے کہاکہ یہ حکومت مسلم، دلت،پسماندہ اور دیگر دبے کچلے طبقات کے استحصال میں پیش پیش ہے لیکن اب ان کی یہ سازشیں کامیاب نہیں ہونگی،انہوں نے کہاکہ اس حکومت کے پاس روزگار،معیشت،مہنگائی،کسان،تعلیم، صحت جیسے بنیادی سوالات کے جواب نہیں ہیں اور یہی سبب ہے کہ وہ لوگوںکو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا چاہتے لیکن یہاںکے عوام اب ان کی پالیسی کو سمجھ چکے ہیں ، حکومت کو اس قانون کو واپس لیناہی ہوگا ،کیونکہ یہ ملک گاندھی،ڈاکٹر امبیڈکر اور مولانا ابولکلام آزاد کے قائم کردہ راستوں پر چلے گا۔ پروگرام کی نظامت کررہی فوزیہ سرور نے کہاکہ جب تک سی اے اے واپس نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارا احتجاجی مظاہرہ بدستور جاری رہے گا کیونکہ ہم یہاں آئین ہند کے تحفظ کے لئے بیٹھے ہیں۔ انقلابی نعروں کے ساتھ قومی پرچم ہاتھوں میں لیکر خواتین عیدگاہ کے میدان میں شدید سردی اور بارش کے باوجود ٹینٹ میں راتیں گزاررہی ہے، خواتین کی ہمتوں کو دیکھ کرلوگ رشک کررہے ہیں اور ان کی اس تحریک میں تعاون کررہے ہیں۔حالانکہ انتظامیہ مسلسل اس تحریک کو ختم کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن باہمت خواتین اس تحریک کو طویل مدت تک چلانے کے لئے پر عزم نظر آرہی ہیں۔شہر سے مسلسل ٹولیوں میں ترنگے جھنڈوںکے ساتھ خواتین عیدگاہ میدان پہنچ رہی ہیں۔ خواتین نے قومی ترانہ اور آئین کی تمہید پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستانی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ میرٹھ سے آئیں محترمہ قمر جہاں نے کہاکہ حکومت وقت ملک کے مشترکہ ور ثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اسلئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طورپر یہ قانون واپس لے۔متحدہ خواتین کمیٹی کی صدر آمنہ روشی ،عنبر ملک،نازیہ پروین، عذرا خان اور سلمہ احسن نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین کوسڑکوں پر دن رات دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لئے حکومت نے مجبور کردیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کررہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کریگی۔ہزاروں مردوخواتین نے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو چیلنج کیا جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگا ا س وقت یہ دھرنا بھی ختم نہیں ہوگا۔ خواتین کی اس تحریک کے سبب دیوبند میں چپہ چپہ پر پولیس فورس تعینات ہے، خاص طور پر عیدگاہ میدان کے اطراف، ہائیوے اور دیوبند حدودی علاقوں میں فورسس کو تعینات کیاگیا ،اتنا ہی نہیں خفیہ محکمہ او راعلیٰ افسران نہایت باریکی کے ساتھ احتجاج پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس دھرنے کو ختم کرنے کی تک و دو میں بھی لگے ہوئے ہیں۔
Deoband student
دیوبند (رضوان سلمانی)
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں کے لئے اب شاہین باغ ایک مثال بن گیا ہے اور شاہین باغ کی طرز پر ملک کے متعددمقامات اور شہروں میں خواتین اس قانون کی مخالفت میں مظاہرے کررہی ہیں، شاہین باغ کی تقلید کرتے ہوئے انقلابی سرزمین دیوبند کی خواتین بھی بھر پور جوش و خروش کے ساتھ اس مہم میں حصہ لے رہی ہیں۔ آج ایک مرتبہ پھر سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ دیر شام تک جاری رہا جس میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے حصہ لیا ۔ قومی ترانہ سے شروع ہوئے پروگرام میں خواتین نے آئین کو پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستانی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آج دوپہر بازار سرسٹہ سے جلوس کی شکل میں عیدگاہ میدان میں پہنچی خواتین دیر شام تک نعرے بازی کرتی رہی ۔ اس دوران کمیٹی کی صدر آمنہ روشی اور عنبر نمبردار نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین سڑکوں پر دن رات دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لئے حکومت نے مجبور کردیا ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ ہمیں مظلوم کہا جاتا تھا ، تین طلاق پر ہمیں معصوم کہنے والے آج دیکھ لیں کہ ہم ملک بھر میں آئین بچانے کے لئے گھروں سے باہر آگئی ہیں۔انہو ںنے کہا کہ حکومت وقت ملک کے مشترکہ ور ثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اسلئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طورپر یہ قانون واپس لے۔ فرحانہ ، شائستہ اور روزی نمبردار نے کہا کہ ہمیں اچھی حکومت چاہئے ، ہمیں ایسی حکومت نہیں چاہئے جو ہمیں ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کررہی ہو۔ انہو ںنے کہا کہ سی اے اے جہاں چار لوگوں کو شہریت دے رہا ہے وہیں ایک کی شہریت کو چھین رہا ہے ۔ انہوں نے آسام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ریاست میں ہی 19لاکھ افراد ایک جھٹکے میں غیرملکی ہوگئے ، جب کہ صدیوں سے ان کے آبائو اجداد یہاں پر رہتے آئے ہیں ۔ انہیں ہندوستانی ڈٹینشن سینٹر میں جاکر مرنے کے بجائے پولیس کی گولی سے مرنا منظور ہوگا ۔ انہوں نے یوپی حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہاکہ یوپی حکومت قوانین کا غلط استعمال کرکے ایک فرقہ کو نشانہ بنارہی ہے جو قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کررہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کریگی۔عظمیٰ عثمانی، ڈیزی شاغل اور ہما قریشی نے مرکزی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہم ہندوستانیوں کے کاغذ پورے نہ ہونے پر ہندوستانی نہیں مانتے تو ہم بھی آپ کو وزیر اعظم نہیں تسلیم کرتے۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے تو انہیں ہم متنبہ کرتے ہیں کہ ہم ہندوستانی عورتیں بھی آدھا انچ بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے آباؤ اجداد کا خون شامل ہے ،جنہوں نے اپنی جانیں نچھاور کرکے اس ملک کو آزادی دلائی لیکن آج ہمیں دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں،جس کے خلاف ہم آخرتک اپنی آواز بلند کریںگے۔عیدگاہ میدان میں ترنگے جھنڈوں اور سی اے اے و این آرسی کے خلاف بنے بینر وں وپوسٹر وں کے ساتھ احتجاج گاہ پہنچی خواتین اور لوگوں کا جوش و خوش قابل دید تھا، خواتین نے زبردست طریقہ سے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک یہ احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا،ساتھ ہی خواتین اور طالبات نے جامعہ ملیہ اسلامیہ،جے این یو اور طلبہ مدارس کے خلاف کی گئی انتظامیہ کی کارروائی پر سخت غصہ کااظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے فوری طورپر یہ مقدمات واپس لینے اور بے قصور وںکو رہا کرنے کامطالبہ کیا،خاص بات یہ ہے اس پروگرام میں خواتین کے ساتھ بچوں نے بھی جوش و خروش سے حصہ لیا۔ مظاہرہ کے دوران بڑ ی تعداد میں پولیس فورس تعینات رہی اور خفیہ محکمہ کے افسران بھی پل پل کی خبر اعلیٰ افسران کو دیتے دکھائی دیئے۔خبر لکھے جانے تک خواتین عیدگاہ میدان میں ڈٹی ہوئی تھیں۔
دارالعلوم دیوبند کا قیام اور غرض وغایت1857کے انقلاب کی ناکامی مغلیہ سلطنت کے خاتمے کا اعلان تھا۔ مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور علما کی ایک بڑی جماعت، جس نے انگریزی اقتدار کی مخالفت کی تھی بے، دردی کے ساتھ تہ تیغ کر دی گئی۔ بہت سوں کو درختوں پر لٹکا کر پھانسی دی گئی اور جو بچ گئے انہیں جزیرۂ انڈمان بھیج دیا گیا۔انگریزی حکومت نے ایک طرف اوقاف ،جن کی آمدنی سے دینی درسگاہیں چلتی تھیں، ضبط کر لیں تو دوسری طرف عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی گئی اور اس طرح ہندوستان میں اسلام اور اسلامی شریعت کی بقاایک چیلنج بن کر سامنے آئی۔ اس پر آشوب دور میں 30 مئی1866 کو مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء رحمہمُ اللہ نے کتاب وسنت کے نشر و اشاعت کے لئے دیوبند میں ” مدرسہ اسلامی عربی” کے نام سے بے سروسامانی کے عالم میں ایک مدرسے کی داغ بیل ڈالی۔ غرض و غایت جیسا کہ اس کے بانی نے لکھا کہ چونکہ سرکاری مدرسوں (اسکولوں) میں دینی تعلیم کا نظم نہیں ہے، اس لئے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے مدرسے کا قیام عمل میں آیا ہے۔ رہا سوال عصری علوم کو نصاب میں شامل نہیں کرنے کا تو جو کمی ہے وہ ہم یہاں پورا کریں، اس کے بعد طلبۂ مدرسہ ہذا کو سرکاری مدارس (اسکولوں) میں جاکر علوم جدیدہ (عصری تعلیم) میں کمال پیدا کرنے کی سعی جاری رکھنی چاہئے۔ بانی نے آج سے154 سال قبل اس وقت کے حالات کے مد نظر جو نصاب مقرر کیا تھا، اس میں بھی اس کی گنجائش رکھی تھی کہ عصری علوم حرام نہیں ہیں اور جہاں سے میسر ہو حاصل کرنا چاہیے؛ لیکن کیا اربابِ دارالعلوم ومدارس نے اپنے بانی کے نظریات اور افکار کوبدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق زمین پر اتارنے کی کوشش کی؟ آج اس ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی ‘شاخیں بالواسطہ یا بلاواسطہ ہزاروں کی تعداد میں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کیا ان مدارس میں بنیادی عصری تعلیم شاملِ نصاب ہے؟کیا یہ مدارس ایک پڑھا لکھا اچھا انسان اور ذمے دار شہری بنانے میں معاون ہیں؟ کیا صرف قرآن، ترجمہ و تفسیر ، صحاح ستہ اور فقہ پڑھانا کافی ہے ؟ کیا ان طلبا کو ملک کے دستور میں ان کے کن حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور ملک اور ملک میں رہنے والوں کے تئیں ان پر کیا ذمے داریاں عائد کی گئی ہیں، یہ جاننا ضروری نہیں ہے؟ ملک میں سماجی اور سیاسی حالات کو جاننے اور سمجھنے کی اجازت انہیں کیوں نہیں ہے؟ بحیثیت فرد ملک میں نمودار ہونے والے مثبت یا منفی حالات پر ردعمل کاانہیں حق نہیں ہے؟ ان حقوق سے محروم رکھ کر کیا ارباب مدارس اپنی چودھراہٹ جماتے ہیں یا ان کے جذبۂ فرمانبرداری کا استحصال کرتے ہیں ؟ پچھلے کئی سالوں سے ارباب مدارس کی سوچ میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے یاشاید کسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ26جنوری کو یوم جمہوریہ اور15 اگست کو یوم آزادی کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ ان موقعوں پر اپنے اسلاف کی تاریخ چند جملوں میں بیان کر کے فرض کفایہ ادا کر دیتے ہیں؛ لیکن یوم جمہوریہ کی غرض و غایت اور مرکز اور ریاستوں کے مابین فیڈرل نظام پر کوئی سیر حاصل تقریر ہوتی ہے اور نہ ہی طلبہ کویہ پڑھایا جاتا ہے۔ آج جب مسلمانوں کی شہریت پر آنچ آئی ہے، تو مسلمانان ہند اور بالخصوص اہل مدارس کس تاریخ اور وثائق کی بنیاد پر قوت سے دفاع کریں گے؟ شیخ الہند ، شیخ الاسلام اور عبیداللہ سندھی اسی دارالعلوم کے جیالے تھے ،تو بعد میں اس عظیم ادارے کے سوتے کیسے سوکھ گئے ؟ ان جیسے فرزند نہیں نکل رہے ہیں؛ لیکن یہ تعلیم گاہیں ایسی تعلیم وتربیت اور ماحول تو دیں، جس طلبا ان اکابر جیسے جذبے سے سرشار ہوں۔ ایسا تو نہیں کہ ان اداروں میں ‘ دستور زباں بندی کسی خاص وجہ سے ہے؟ اور تاویل ظاہر ہے یہی ہوگی کہ آپ کا کام اپنی تعلیم پر توجہ دینا ہے ،نہ کہ سیاسی مظاہروں میں شریک ہونا!
مؤقر اراکین شوری، محترم مہتمم صاحب اور اساتذۂ عظام، دارالعلوم دیوبند!!
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج عالی بخیر ہونگے!!
ہم طلبۂ دارالعلوم اپنے بڑوں کی خدمت میں ان معروضات کے ذریعے ، دارالعلوم کے داخلی امور تعلیم و تربیت ، اور ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں چند ناگزیر سوالات کو مرکز توجہ بنانا چاہتے ہیں –
اس وقت ملک میں اسلام اور مسلمانوں کو جس شدید ترین بحران کا سامناہے ، آزاد ہندوستان میں اس سے قبل اس قسم کی زہرناک صورت حال کا نہ تو کوئی وجود تھا اور نہ ہی کوئی تصور کرسکتا تھا –
پہلے گائے کے نام پر دن دہاڑے تشدد و بربریت ، موب لنچنگ ، سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد پر انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ ، تین طلاق پر قانون بناکر براہ راست شریعت میں مداخلت، دفعہ 370 اور 35A کی جبری منسوخی ، اور پھر اس کے بعد شہریت ترمیمی بل کا شوشہ چھوڑنا، اور صرف شوشہ ہی نہیں بلکہ اسے دونوں ایوانوں سے پاس کرواکے CAA کے نام سے باقاعدہ قانون کی شکل دے ڈالنا، اس کے بعد NRC کا اعلان کرکے تمام باشندگان ہند کی شہریت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دینا، NPR کے مندرجات میں اضافہ کرکے بے تکے مطالبات کرنا ، اور اب فیملی پلاننگ اور دو بچوں کے قانون ، پرسنل لا کے خاتمے ( طلاق ثلاثہ قانون کو تھوپ کر اس کی جانب ایک قدم بڑھایا بھی جاچکا ہے ) اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا عندیہ دینااور ان سب غیر انسانی اقدامات پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹ جانا ؛ یہ تمام جد و جہد آئین ہند کو کالعدم کردینے اور جمہوریت کی روح کو کچل دینے کی انتہائی منظم کوششیں ہیں ، جو مکمل تسلسل کے ساتھ پچھلی ایک صدی سے جاری و ساری ہیں ؛ اور اب یہ بات پوری شفافیت کے ساتھ منظر عام پر آچکی ہے کہ ہندو مہاسبھا اور اس کے بعد آر ایس ایس کے قیام کے روز اول ہی سے بھگواداریوں کا اصل ہدف ، اسلام اور اہل اسلام کے وجود و بقاء کو چیلنج کرنا ، اپنے مشن میں حائل لوگوں کو شکست و ریخت سے دوچار کرنا اور بالآخر صدیوں پرانا ذات پات پر مبنی انسانیت سوز برہمنی نظام قائم کرنا ہے اور موجودہ حالات میں یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ سیکولر اور جمہوری آئین کو کالعدم کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ کرلیاجائے ، لہذا اس نازک ترین وقت میں بھی اگر ہم نے برادران وطن کے ساتھ مل کر شدید مزاحمت نہ کی تو ہندو راشٹر کا قیام اب کوئی دور کی چیز نظر نہیں آتی ؛ چوں کہ حکومت اور ہندوتو کے وفادار آج اس مقام پر ہیں کہ جمہوریت کے چاروں ستون : عدلیہ ، مقننہ ، انتظامیہ اور صحافت پر انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے ، اور ان چاروں ذرائع کو اپنے مقاصد کی تکمیل کےلئے من چاہے انداز میں استعمال کررہے ہیں –
مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ طاقت کے نشے میں چور بدطینت حکومت کے غیر قانونی فیصلے جب حد سے تجاوز کرگئے تو اس کے خلاف ملک کے دو تاریخی علمی مراکز جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بیک وقت تحریکیں اٹھیں، دیکھتے ہی دیکھتے جس نے ملک گیر صورت اختیار کرلی اور آج نوبت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ سیکولر برادران وطن بھی آئین کے تحفظ کےلیے غیر آئینی اقدامات کرنے والی فاشسٹ مقتدرہ کے اعلان جنگ پر لبیک کہتے ہوئے میدان جنگ میں کود چکے ہیں!
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایسے نازک موڑ پر ، اس قدر فیصلہ کن وقت میں ہماری مذہبی قیادت اور اس کی اقتدا میں مذہبی طبقے کی اکثریت کہاں کھڑی ہے اور کیا کر رہی ہے؟؟ اور اس کا حقیقی کردار کیا ہونا چاہیے؟؟
آئیے ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں!
پہلا سوال : ہمارا مذہبی طبقہ کہاں کھڑا ہے اور کیا کر رہا ہے؟؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ دیوار کے پیچھے کھڑا ہے اور تماشا دیکھ رہا ہے!!
دوسرا سوال : ہمارا حقیقی کردار کیا ہونا چاہیے؟؟
اس کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنی حیثیت کا تعین کریں تاکہ اسی میزان پر اپنے کردار کو تول سکیں ۔
یوں تو دنیا میں تمام ہی اقوام اور جماعتوں کی بہت ساری حیثیتیں ہواکرتی ہیں ، لیکن موجودہ تناظر میں ہم عرض گزاران کی نظر میں ہماری سب سے اہم حیثیتیں دو ہیں ۔
(١) وارثین انبیاء.
(٢) جانشین نانوتوی و شیخ الہند.
جب یہ طے ہوگیا ہے کہ ہماری یہ دو اہم حیثیتیں ہیں تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ دونوں حیثیتیں ہمارے اوپر کیا ذمہ داریاں عائد کرتی ہیں؟؟
سیدھے سادے الفاظ میں وراثت نبوی کا مطلب رسول الله صلی الله علیه وسلم کی ہمہ گیر تعلیمات کو سیکھنا ، اس کا عملی مظہر بننا اور عامۃ المسلمین کو سکھانے کے لیے کوشاں رہنا اور اس پر عمل کے لیے ابھارناہے ۔
اب ذرا سوچیے!!
کیا مسلمانوں کے وجود پر اور آنے والی نسلوں میں اسلام کی بقا پرمسلسل حملوں کے بعد ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے وجود و بقا کے لئے اٹھ کھڑے ہونا، ہرممکن مزاحمت کرنا، ایک ہدف مقرر کرکے نتیجہ خیز تدریجی منصوبہ بندی کرنا اور اس پر پوری تندہی کے ساتھ عمل پیرا ہوجانا، وراثت نبوی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟؟
اگر ہاں! تو آپ لوگوں کی جانب سے بحیثیت وارثین انبیاء ، ملت اسلامیہ اور مذہب اسلام کے دفاع کے لیے اور درپیش خطرات کے مقابلے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟؟
اور اگر ان تمام چیزوں کو وارثین انبیاء کی ذمہ داریوں میں نہیں سمجھتے تو کھل کر اپنا موقف ظاہر فرمائیں!
ہماری دوسری حیثیت حضرت نانوتوی اور حضرت شیخ الہند کے جانشین کی ہے!
سیدنا الامام الکبیر محمد قاسم نانوتوی رحمه اللّٰه قصر دیوبندیت کے مؤسس اعظم ہیں ، اور آپ کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر آپ کے تخیلاتی محل کو تعمیر کرکے حقیقت کا روپ دینے والے آپ کے سب سے اکمل و ارشد جانشین ، شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی رحمه اللّٰہ ہیں!
آئیے! انہی کی زبانی سنتے ہیں کہ دیوبندیت کا نہج اور مقصد کیا ہے؟؟
حضرت شیخ الہند فرماتے ہیں:
حضرت الاستاذ ( مولانا قاسم نانوتوی ) نے اس مدرسے کو کیا درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کے لیے قائم کیا تھا؟مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا جہاں تک میں جانتا ہوں ١٨٥٧ کے ہنگامے کی ناکامی کے بعد یہ ارادہ کیا گیا کہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے زیر اثر لوگوں کو تیار کیا جائے تاکہ ١٨٥٧ کی ناکامی کی تلافی کی جائے!
پھر اس کے بعد فرماتے ہیں:
تعلیم و تعلم اور درس و تدریس جن کا مقصد اور نصب العین ہے میں ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں لیکن خود اپنے لیے تو اسی راہ کا میں نے انتخاب کیا ہے جس کے لئے دارالعلوم کا یہ نظام میرے نزدیک حضرت الاستاذ نے قائم کیا تھا!
( احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن ص ١٧٠/١٧١ ، بعینه یہی عبارت سوانح قاسمی ج ٢ ص ٢٢٦ پر موجود ہے)
اب ذرا اندازہ لگائیے کہ تعلیم وتعلم سے علیحدہ وہ کیا مقصد ہے جوان کے پیش نظر تھا جسکو آپکے سچے روحانی فرزند حضرت شیخ الہند نے آپ کی جانب منسوب فرماکر بیان کیا اور خود بھی اسی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا، اور اسے ٥٧ کی تلافی سے تعبیر کیاـ
٥٧ کا ہنگامہ کیا تھا اور کیوں تھا؟ اور اس کی تلافی کیوں کر ممکن ہے؟؟
غدر ستاون مسلمانوں کے تشخص کی حفاظت کیلئے ایک مزاحمتی تحریک تھی جس کا مقصد اسلامیان ہند کو برٹش ایمپائر کی ذہنی و فکری یلغار سے چھٹکارا دلانا تھا مگر بمشیت ایزدی جب وہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا تو اس کی تلافی کے لیے دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ایک مرکز قائم کیا گیا تاکہ اس میں ایسے افراد تیار ہوں جو ملت اسلامیہ کو غلامی کے اس خطرناک بھنور سے نکالیں ، نیز قیام دارالعلوم کے وقت حضرت نانوتوی کی نقل وحرکت اور دوڑ دھوپ بھی صراحت کے ساتھ آپ کی حقیقی فکر و نظر بیان کرنے کے لیے کافی ہے ، سوانح قاسمی از : مولانا مناظر احسن گیلانی اور تاریخ دارالعلوم دیوبند از : محبوب رضوی کی عبارتیں اور اقتباسات اس پر وضاحت کے ساتھ دال ہیں، طوالت کے خوف سے ہم یہاں نقل کرنے سے قاصر ہیں –
سردست حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کا درج بالا اقتباس تحریک دیوبندیت کی مقصدیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے ۔
نیز قیام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے موقعے پرعلی گڑھ کے خطبۂ صدارت میں موجود آپ کی بعض عبارتیں بھی نہایت حیران کن اور موجودہ حالات میں بڑی معنی خیز ہیں ۔
ملاحظہ فرمائیں! ” میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت و نقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر اس لیے لبیک کہا کیوں کہ میں اپنی ایک گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں، بہت سے نیک بندے ہیں جن کے چہروں پر نماز کا نور، ذکر الله کی روشنی جھلک رہی ہے، لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدارا جلد اٹھو اور اس امت مرحومہ کو کفار کے نرغے سے بچاؤ تو ان کے دلوں پر خوف و ہراس طاری ہوجاتا ہے ، خدا کا نہیں بلکہ چند ناپاک ہستیوں کا اور انکے سامان حرب و ضرب کا!
پھر چند سطور کے بعد فرماتے ہیں!
اے نونہالان وطن!!
جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور سکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں، تو میں نے اورچند مخلص احباب نے ایک قدم علیگڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا۔
(نقش حیات ج ٢ صفحہ ٥٥٦ ، مطبع دارالاشاعت کراچی)
اور جمعیت علمائے ہند کے دوسرے اجلاس عام کے خطبۂ صدارت میں میں آپنے فرمایا: جو لوگ کشمکش زمانہ سے پہلو تہی کرتے ہیں اور مدرسوں اور مسجدوں کے حجروں میں بیٹھے رہنے کو اسلام کی خدمت کے لیے کافی سمجھتے ہیں وہ اسلام کے پاک صاف دامن پر داغ ہیں ـ
مذکورہ اقتباسات سے مزید کھل کر یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ حضرت شیخ الہند رسمی تعلیم و تعلم اور نرے درس وتدریس کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اسی کو سب کچھ سمجھنے والے علماء سے کس قدر مایوس و بدظن ہیں۔
اس کے علاوہ دارالعلوم کے قدیم دستور اساسی میں قیام دارالعلوم کے جو پانچ مقاصد بیان کیے گئے ہیں، ان میں سے بھی کچھ درج ذیل ہیں:
اعمال اور اخلاق اسلامیہ کی تربیت اور طلبہ کے اندر اسلامی روح بیدار کرناـ
اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور دین کا تحفظ و دفاع ـ
حکومت کے اثرات سے اجتناب و احتراز اور علم و فکر کی آزادی کو برقرار رکھناـ
تاریخ دارالعلوم ج ١ ص ١٤٢
نیز حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دارالعلوم دیوبند کے نصب العین کی تشریح کرتے ہوئے جو پانچ نکات بیان فرمائے ہیں ان میں سے بھی چند ہم یہاں ملحق کرتے ہیں۔
اول : مذہبیت ، دارالعلوم دیوبند مذہبی قوت کا سرچشمہ اور اول سے آخر تک اسلام کے دستور و آئین کا پابند ، یہاں ہر شخص اسلام کا نمونۂ کامل ہے۔
دوم: آزادی، جس کے معنی ہیں کہ دارالعلوم دیوبند مکمل طور پر بیرونی غلامی کے خلاف ہے، اس کا نظام تعلیم و تربیت ،اس کا نظام مالیات اور اس کا نظام اجتماعی سرتاسر آزاد ہے ۔
(تاریخ دارالعلوم ج 1 ص 144)
سطور بالا میں کل پانچ نکات موجود ہیں، جن میں سے دو نکات کو ہم نے طوالت کے خوف سے اور موضوع سے خارج ہونے کی بناپر مکمل نقل نہیں کیا ہے!
ہم پانچ پوائنٹس کا نچوڑ سامنے رکھ کر بات آگے بڑھاتے ہیں!
(١) دینی تعلیم و تربیت اور رجال سازی ـ
(٢) اسلام کی اشاعت ، تحفظ اور دفاع ـ
(٣) کسی بھی حکومت ، ادارے یا فرد کے اثرات سے کامل آزادی تاکہ کسی بھی مرحلے پر بے لاگ موقف اختیار کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا دباؤ اور باک نہ ہوـ
(٤) اسلام کے دستور و آئین کی مکمل پابندی ـ
* (١) دینی تعلیم و تربیت اور رجال سازی*
مدارس اسلامیہ کا بنیادی مقصد یقینا تعلیم و تربیت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فراغت کے بعد میدان عمل میں فضلاکو جن مخاطبین سے سامنا ہوتا ہے ، ان میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل ہیں جن کی علمی و عملی استعداد اور ذہنی و فکری کیفیات مختلف و متنوع ہوتی ہیں –
لہذا ابلاغ کا حق صحیح طور پر انجام دینے کے لئے عصری تقاضوں اور متعلقہ افراد و اشخاص کی نفسیات سے آگاہی نہایت ضروری ہے – اور یہی سنت الٰہی بھی ہے کہ وہ ہمیشہ نبیوں اور رسولوں کو انہی کی قوموں کی طرف مبعوث فرماتا رہاہے تاکہ داعی و مدعو دونوں ایک دوسرے کے انداز و اطوار اور زبان و بیان سے واقف ہوں اور مانوس فضا میں ابلاغ کا فریضہ انجام پذیر ہو –
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے فضلا میں اتنی استعداد و اہلیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ملحدانہ و متشککانہ پس منظر رکھنے والے ادبا و مفکرین اور عصری تعلیم یافتہ حضرات کو قائل و مطمئن کرنے والے انداز میں مخاطب بناسکیں، اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو اسلام کی حقانیت کا یقین دلا پائیں؟
ہمارا مدعا یہ بالکل نہیں ہے کہ سائنس و ریاضی جیسے فنون کو داخل نصاب کیا جائے ، فقط اتنی التجاء ہے کہ سائنس دانوں، انجینیروں اور دیگر تعلیم یافتہ حضرات کی ذہنی و فکری ساخت اور موجودہ زمانے کے گمراہ کن نظریات سے اتنی واقفیت ہر طالب علم میں پیدا کرنے کی حتی الامکان سعی کی جائے جس کی بنیاد پر فراغت کے بعد وہ اپنے آپ کو کمتر اور اجنبی محسوس نہ کرے اور تمام باطل و گمراہ کن علوم و فنون کے مقابلے میں علم الہی کی برتری کو مبرہن و مدلل کرسکے اور یہی وجہ ہے کہ صدیوں پہلے ہمارے اسلاف نے حکمت و منطق اور فلسفہ و کلام کو داخل نصاب کیا تھا تاکہ گمراہ لوگوں کے طریقۂ واردات کا ادراک کرتے ہوئے انہی کے ہتھیاروں سے انہیں شکست دی جاسکے ۔
چوں کہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چار پانچ صدیوں سے فلسفہ و سائنس اور سماجیات و سیاسیات پر مغرب کے تسلط کی وجہ سے الحاد و تشکیک اور مادیت کے زہریلے جراثیم ان میں سمودئے گئے ہیں جو غیر شعوری طور پر مگر پوری شدت کے ساتھ انسانی ذہن و فکر پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سب اتنے دلچسپ و پرکشش انداز میں کیا جاتا ہے کہ مغرب پچانوے فیصد اپنے مقصد میں کامیاب و بامراد ہے – لہذا ان زہریلے جراثیم اور ان کی بنت و ساخت سے واقفیت اور ان کا کامیاب توڑ کئے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ حاملین علوم نبوت موجودہ دور کے مخاطبین تک ابلاغ کا فریضہ مطلوب شکل میں انجام دے سکیں ۔
جہاں تک دینی و اسلامی تربیت کی بات ہے تو ظاہر ہے کہ یہ صرف وضع قطع اور نماز و روزہ کی تربیت تک محدود نہیں ہے ؛ چوں کہ یہ چیز تو ایک مکتب میں بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور جماعت دعوت و تبلیغ سالوں سے اس کام کو بحسن و خوبی ایک مشن کے طور پر انجام دے رہی ہے ، لہذا دارالعلوم دیوبند جیسے مرکزی و سرکردہ ادارہ میں اسلامی تربیت کتنی ہمہ گیر اور بامعنی ہونی چاہئے اس کا اندازہ لگانا اس شخص کے لئے ذرا بھی دشوار نہیں جو دارالعلوم دیوبند کی تاریخ اور اس کے بانیان و اکابر قدس سرہم کے علمی و عملی کارناموں سے بہ خوبی واقف ہے – بہت زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے ہم یہاں صرف چند باحوالہ امور ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے تاکہ بات واضح ہوسکے –
حضرات شیخ الہند ، شیخ الاسلام و دیگر اکابر رحمہم اللہ کی تاحیات یہ کوشش رہی کہ طلبہ دارالعلوم میں حالات و سیاسیات حاضرہ کا اس قدر شعور اور ان کے تقاضوں سے اتنی ہمدردی ہمہ وقت ہونی چاہئے کہ ملک و ملت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے وہ بہ خوبی عہدہ بر آ ہوسکیں اور اپنے آپ کو صرف منبر و محراب تک محدود نہ سمجھیں ، بلکہ ہر محاذ پر اپنی فعال موجودگی درج کراتے ہوئے وارثین انبیاکا حق ادا کریں –
یہی وجہ ہے کہ ١٣٦١ھ میں جب برٹش حکومت کے ہاتھوں حضرت شیخ الاسلام کی گرفتاری ہوئی تو بزم سجاد ( انجمن اصلاح البیان) کے تحت طلبہ دارالعلوم نے اپنا سالانہ اجلاس منسوخ کرکے ایک زبردست احتجاجی جلسہ منعقد کرایا ، جب جیل سے رہائی کے بعد یکم ربیع الاول ١٣٦٤ھ کو حضرت مدنی بنفس نفیس بزم سجاد کے معائنہ کے لئے تشریف لائے تو اس موقع پر طلبہ نے ایک عام جلسے کا انعقاد کیا جس میں طلبہ کے پیش کردہ پروگرام کے بعد حضرت مدنی کا صدارتی خطاب ہوا ، جس کے چند اقتباسات یہ ہیں:
(١) آپ حضرات کی عزت افزائی کا شکریہ ، لیکن اس کے ساتھ مجھے آپ سے کچھ شکایتیں ہیں ، گرفتاری کے بعد آپ لوگوں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اتنا کرنے کی ضرورت نہ تھی ، صرف دو ایک جلسے پر اکتفا کرتے اور آپ صبر و سکون سے اپنے کام میں لگے رہتے ، اور اپنے دشمن پر یہ ظاہر کرتے کہ اگر تم نے ہمارے ایک خادم کو گرفتار کرلیا تو ہمیں کچھ پرواہ نہیں ہم میں بہت سے ایسے ہیں جو اس کی قائم مقامی کر سکتے ہیں اگر آپ کا ایک خادم آپ سے جدا ہو گیا تھا تو آپ اس کی جگہ دوسرے کو کھڑا کرتے اور اپنے فرائض انجام دیتے ، اگر فوج کا جنرل مارا جائے تو فوج کو بد دل ہوکر بیٹھ رہنا نہیں چاہیے –
(٢) میری غیر حاضری پر آپ لوگوں نے انجمن کو معطل کردیا اور کام چھوڑ کر دل برداشتہ ہو کر بیٹھے رہے ، ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا-
(٣) آپ کے لئے جس قدر تعلیم ضروری ہے اسی قدر تقریروتحریر میں مہارت حاصل کرنا بھی ضروری ہے اگر آپ دونوں میں سے ایک سے بھی غافل ہوئے تو آپ کامیاب نہیں ہو سکتے ، آپ کو سیاسی معلومات حاصل کرنے چاہیے تاکہ آپ اپنے وطن کو غلامی سے نجات دلا سکیں –
دارالعلوم دیوبند میں طلباکی تربیت عملی طورپر کس طرح ہوتی تھی اس کا ایک اور نمونہ دیکھنے کیلئے تاریخ دارالعلوم از محبوب رضوی صفحہ ٢٦١ تا ٢٦٥ ملاحظہ فرمائیں ! جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ١٣٤١ اور ١٣٤٢ میں جب ایک طرف سوامی شردھانند نے مسلمانوں کی شدھی کا کام شروع کیا اور دوسری طرف ڈاکٹر مونجے نے ایک سنگٹھن قائم کی جو خالص ہندؤوں کی جماعت تھی ، اور دارالعلوم میں خطوط و اخبارات کے ذریعے پے در پے آریہ سماج کی ناگوار فرقہ وارانہ سرگرمیوں اور مسلمانوں کے ارتداد کی خبریں موصول ہوئیں تو اس نازک ترین موقع پر دارالعلوم دیوبند نے وہی فریضہ انجام دیا جو اس کے شایان شان تھا ، یعنی ١٢ جمادی الاخری کو دارالعلوم دیوبند سے مبلغین کا ایک وفد روانہ کیا گیا ، وفد کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ آریہ سماج کی تحریک نہایت منظم اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے ، جس کے ازالے کیلئے مزید اور کافی مبلغین کی سخت ضرورت ہے ، اس پر دارالعلوم کے اساتذہ اور طلباکے پے در پے متعدد وفد روانہ کئے گئے آگرہ کو تبلیغی کاموں کا مرکز قرار دے کر علمائے دیوبند کا دفتر کھولا گیا ، مولانا میرک شاہ صاحب مدرس دار العلوم دفتر کے نگراں بنائے گئے ، موصوف جہاں ضرورت ہوتی مبلغین کو بھیجتے، بحمد للہ مبلغین کی انتھک مساعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بے شمار مرتدین تائب ہو کر اسلام میں واپس لوٹے –
اس کے برعکس ان دنوں طلباسے یہ کہا جاتا ہے کہ دارالعلوم کا مقصد صرف دینی تعلیم و تربیت ہے اور اس تعلیم و تربیت کو صرف درس نظامی کی تکمیل ، وضع قطع اور نماز و روزہ تک محدود کردیا جاتا ہے ،
جب کہ بنیاد گزاران دارالعلوم جس طرح کی تربیت کو مطلوب و مقصود اور ہدف اصلی گردانتے تھے ، اس میں اسلام اور مسلمانوں کے وجود و بقا کو لاحق ہر قسم کے خطرات سے مقابلہ آرائی کی تربیت شامل تھی ، اور سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ تربیت اپنی اساس میں عملی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے نہ کہ علمی ، اور فطری طور پر ایک طالب علم اپنے اساتذہ و مربیین کی شخصیت و کردار کو خود میں جذب کرنا اور ان کے اصول زندگانی کو اپنانا چاہتا ہے لہذا طلباء کو داعی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کے مربی اور اساتذہ بھی داعی ہوں ، انہیں رجال ساز مدرس بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اساتذہ بھی رجال ساز ہوں ، انہیں اصلاح کار اور بہترین سیاستدان بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اساتذہ بھی قوم و ملت کی سیاسی ابتری اور وجودی خطرات سے نمٹنے والے قائد و رہبر ہوں –
اگر حضرت قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوھی خود مجاہدین آزادی اور رجال ساز نہ ہوتے تو کیا شیخ الہند جیسا مجاہد آزادی اور رجال ساز فرد امت کو نصیب ہوسکتا تھا ؟ اور شیخ الہند میدان کار نہ ہوکر صرف درس و تدریس تک محدود رہتے تو شیخ الاسلام، عبیداللہ سندھی، شبیر احمد عثمانی جیسے نبض شناس اور قوم و ملت کی نیا پار لگانے والے نا خدا ہمیں مل سکتے تھے ؟ ظاہر ہے ، ہر گز نہیں –
اس لئے ہمارا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ طلباء کو درس و تدریس سے فارغ کرکے مستقل سیاسی شورش کی نذر کردیا جائے اور اس طرح ان کی شخصیت فکر و نظر کے اعتبار سے ادھوری اور نا پختہ رہ جائے، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ کرام و قائدین عظام حضرات نانوتوی و گنگوہی ، شیخ الہند و شیخ الاسلام قدس سرہم جیسے سرپرستان و معماران دارالعلوم کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے خود بھی درس و تدریس کے ساتھ میدان عمل میں نکلیں ، خصوصا موجودہ ہندوستان میں امت مسلمہ کے وجود کو جس بے باکی و سفاکی کے ساتھ چیلنج کیا جارہاہے، اور بڑے پیمانے پر ارتداد و کفر کی یلغار کا سامنا ہے ، اس کے پیش نظر نہایت منظم و دور رس اثرات کی حامل جد و جہد فرمائیں اور طلبا میں بھی وہ بلندئ فکر و نظر پیدا کرنے کی کوشش ہو جس کے لئے دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا تھا نہ کہ حالات حاضرہ اور سماجیات و سیاسیات سے پہلو تہی برتتے ہوئے طلباکو صرف منبر و محراب تک محدود کردیا جائے اور وہ بھی ناقص شکل میں، وہ شخص آخر کس بنیاد پر امام و خطیب کے فرائض کما حقہ انجام دے سکتا ہے جو نہ تو امت کے حالات سے باخبر ہو اور نہ ہی ان کی نفسیات و ضروریات سے واقف ہو ؟؟
(٢) اسلام کی اشاعت تحفظ اور دفاع
موجودہ حکومت پوری طاقت کے ساتھ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے پرعزم ہے ، جس کی وجہ سے ارتداد کی لہر چلنے کا قوی امکان ہے ، یہ اندیشہ بہت سے مسلم تجزیہ نگار بھی ظاہر کرچکے ہیں. کیا ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے وجود و بقا کا تحفظ و دفاع مذکورہ شق میں داخل نہیں ہے؟؟ پھر اس سلسلے میں ابھی تک کیا پیش رفت ہوئی ہے یا آگے کیا حکمت عملی بنانے کا ارادہ ہے؟
(٣) کسی بھی حکومت ادارے یا فرد سے کامل معاشی تعلیمی ،انتظامی آزادی تاکہ کسی بھی موقع پر کوئی بھی موقف اختیارکرتے ہوئے کسی قسم کا دباؤ اور باک نہ ہو
دارالعلوم دیوبند تاایں دم ہر طرح کے بیرونی اثرات سے مکمل آزاد ہے فلله الحمد ؛لیکن پھر بھی آخر کیوں حکومت کا اتنا دباؤ اور خوف ہے کہ موجودہ صورتحال میں ابھی تک کوئی نتیجہ خیز مثبت قدم نہیں اٹھایا گیا؟ بلکہ معذرت خواہانہ رویہ اور دفاعی انداز اپناتے ہوئے حکومت سے یہ گزارش کی جارہی ہے کہ آپ ہمیں اپنے رسمی تعلیم وتعلم کو براہ کرم جاری رکھنے کا موقع دے دیں ! اس کے علاوہ ہم کوئی قدم آپ کے مفادات کے خلاف نہیں اٹھائیں گے، کیا آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ اگر آپ نے اپنے بانیان کے طرز سے انحراف کرتے ہوئے صرف تعلیم و تعلم پر کفایت کربھی لی تب بھی آپ کا ادارہ اور آپ کی محفوظیت زیادہ دنوں تک برسر اقتدار طاقتوں کی زد سے نہیں بچ سکے گی، کیونکہ جب آئین ہند کو تہ و بالا کرکے قوم مسلم کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جائے گا تو کوئی امکان نہیں کہ ان کے آزاد تاریخی مراکز اور اداروں کو علی حالہ قائم رہنے دیا جائے!
(٤) اسلام کے دستور و آئین کی مکمل پابندی
یعنی ہر آن دل و جان سے اسلام کے ہر مطالبے پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہنا!جب ملت اسلامیہ پر شدید قسم کا چو طرفہ دباؤ ہو اسلامیان ہند کو کچلنے اور مسلنے کے لئے تیار کی گئی پلاننگ ٩٥ سالہ جدوجہد کے بعد اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہو تب قرآن و سنت کا اس سے بڑا مطالبہ کیا ہوسکتا ہے کہ امت مسلمہ کے وجود و تشخص کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو تج دیاجائے؟
گرامی قدر مخاطبین!
اب تک کی تحریر میں آپ کے سامنے مو جودہ حالات کی نزاکت ، برسر اقتدار جماعت کے عزائم اور ان کو سامنے رکھتے ہوئے نبوی وراثت کے تقاضے، اکابر دیوبند حضرت نانوتوی، شیخ الہند ، شیخ الاسلام تغمدھم اللّٰه بغفرانه کی فکر و نہج اور اس کی معنویت ، قیام دارالعلوم کے بنیادی اہداف و مقاصد اور اس کی روشن تاریخ ، یہ سب کچھ بہت مختصر طور پر لیکن خاصی وضاحت کے ساتھ بیان کردیی گئی ہے۔
اب اس کے بعد اس وضاحت کی ضرورت نہیں بچتی کہ وراثت نبوی کے دعوے پر ہم کس قدر کھرے اترتے ہیں؟
اپنے اسلاف کے فکر و عمل کے کس قدر امین ہیں؟
قیام دارالعلوم کے نصب العین کے کس درجہ پاسدار ہیں؟
یہ حقیقت ہے کہ دارالعلوم دیوبند تحریکی اور انقلابی سرگرمیوں میں براہ راست بلاواسطہ شریک نہیں رہا،
لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ دارالعلوم ہی کی فراہم کردہ فکرو نظر اور تربیت کی وجہ سے اس کے فضلا مسلمانوں اور اسلام پر آنے والے خطرات سے مقابلہ کے لیے ، اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف ہمہ جہت طریقے پر سرگرم عمل رہے ہیں, اور ان تمام سرگرمیوں اور تحریکات کا تعلق بالواسطہ اپنے مرکز سے رہا ہے، نیز اساتذۂ دارالعلوم نے بارہا دارالعلوم کو براہ راست آنچ سے بچانے کے لیے علیحدہ پلیٹ فارمز بھی قائم کیے ہیں اور ان کے ذریعے معاصر امت مسلمہ کو پیش آمدہ خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے ہرممکن جدو جہد کی ہیں ، اور اس طرح کی تمام سرگرمیاں دارالعلوم ہی کی تاریخ کا روشن حصہ ہیں، اس کی سب سے واضح نظیر انجمن ثمرۃ التربیت اور جمعیت الانصار کا قیام ہے جس کے روح رواں حضرت شیخ الہند تھے اور جس کے فعال کارکن اس وقت کے ابنائے قدیم تھے، ان دونوں تحریکوں کو ظاہری عنوان چاہے جس چیز کا دیا جائے ، مگر حقیقی منشا جاننے والے جانتے ہیں اور لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا بھی ہے!
تفصیل کے لیے شیخ الہند حیات و کارنامے ، ص ١٣٦ تا ١٤٨ دیکھ سکتے ہیں!
اسی تنظیمی اور انجمنی سلسلے کی کچھ کڑیاں ابھی تک موجود ہیں مگر انکی بھی حالیہ کارکردگی محتاج تبصرہ نہیں ہے ، خصوصاََ موجودہ پر خطر صورت حال میں ان کی منصوبہ بندیوں اور عملی اقدامات کی حقیقت جگ آشکارا ہوچکی ہے ـ
مسؤولین عظام!!
متذکرہ بالا معروضات کی بنیادپر ہم طلبۂ دارالعلوم دیوبند چند مطالبات کو ارباب بست و کشاد کے سامنے رکھنا شریعت اور دارالعلوم کی مقصدیت کی رو سے اپنا فریضہ سمجھتے ہیں:
(١) دارالعلوم دیوبند کو اس کے بانیان و معماران حضرت نانوتوی ، حضرت گنگوہی، حضرت شیخ الہند، حضرت شیخ الاسلام کے نہج پر بحال کیا جائے اور وراثت نبوی کا حق صحیح طور پر انجام دیا جائےـ
واضح رہے کہ موجودہ نہج، نبوی مشن اور حضرات اکابر کے نہج سے ١٨٠ درجہ مخالف ہےـ
(٢) فکری اور عملی تربیت کو اسی ہمہ گیریت کے ساتھ شروع کیاجائے جس طرح حضرت نانوتوی نے اپنے تلامذہ اور پھر اسی نقش قدم پر چلتے ہوے حضرت شیخ الہند نے اپنے شاگردوں کی کی تھی؛ جس تربیت میں وضع ،قطع اور صوم و صلاۃ کی پابندی کے علاوہ سیاسی و سماجی مسائل کی تشخیص و علاج سے واقفیت اور معاصر ذہنی و فکری سطح کو مد نظر رکھتے ہوئے کلامی تیاری شامل ہےـ
(٣) ملک کے موجودہ منظرنامے کی ابتری و ہولناکی کے پیش نظر فی الفور مؤثر اقدامات کیے جائیں، اور قرآن وسنت کی بنیاد پر ، ملکی آئین کے تحت ، نہایت مستحکم منصوبہ بندی کی جائے ، اس پر فوری عمل درآمد کیا جائے, اور ان سب میں اساتذۂ دارالعلوم فعال کردار ادا کریں ، جیسے حضرت شیخ الہند ، حضرت شیخ الاسلام، علامہ شبیر احمد عثمانی رحمھم الله نے مسند تدریس پر فائز رہتے ہوے ہرطرح کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، خواہ ان سب چیزوں کے لیے الگ سے پلیٹ فارمز قائم کریں یا موجودہ پلیٹ فارمز ، جن کی سرگرمیاں بے جان پڑ چکی ہیں ، انہیں میں جان ڈالیں!
ہمیں امید ہے آپ حضرات مذہب و ملت کے تئیں ہمارے ان ہمدردانہ مطالبات پر جلد از جلد غور فرماکر عملی میدان میں اتریں گے ۔
ہمیں اکابر کی اس امانت سے حددرجہ محبت اور لگاؤ ہے، اور اس امانت کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، لہذا آپ حضرات نے اگر بہت جلد مؤثر اور سنجیدہ کوششیں نہیں کیں تو ہمیں مجبوراً وراثت نبوی کی حفاظت اور امانت اکابر کی صیانت کی خاطر اگلے اقدامات کرنے پڑیں گے ، جو کہ عملی ہوں گےـ
والسلام.
من جانب: طلبۂ دارالعلوم دیوبند