نئی دہلی:اشتعال انگیز تقریر کرنے کے معاملے پر دہلی ہائی کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کورٹ کو بتایا کہ وہ فی الحال کسی بھی شخص کے خلاف جلدبازی کیس درج نہیں کرناچاہتی ہے۔ اگرچہ اشتعال انگیز تقریروں کی ویڈیوز کی جانچ کی جارہی ہے لیکن پولیس کی پہلی ترجیح دہلی کے حالات کو معمول پرلانے کی ہے جس کے بعد کیس کی سماعت کو 13 اپریل تک کے لیے ٹال دیا گیا۔بی جے پی کے تین متنازعہ لیڈروں انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کے اوپر اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگانے والی درخواست پر ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران دہلی پولیس نے عدالت میں اپنا جواب داخل کیاہے۔ دہلی پولیس نے اپنے جواب میں کہا کہ پولیس کے پاس صرف ان رہنماؤں کے ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ساری ویڈیوزموجودہیں جن کی پڑتال کی جا رہی ہے، اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ان پر کارروائی کی جائے گی. دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ جلد بازی میں کسی کے خلاف مقدمہ درج کرنا ٹھیک نہیں ہوگا. کیونکہ اس وقت دہلی پولیس کو حالات کو معمول پر کی کوشش کر رہی ہے اس کے کام کاج کے اوپر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔وہیں مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ دہلی میں قانون و انتظام کی ذمہ داری مرکزی حکومت کے تحت آتی ہے۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مرکزی حکومت کو پارٹی نہیں بنایاگیاہے،لہٰذامرکزی حکومت کو بھی اس میں پارٹی بنایا جائے تا کہ مرکزی حکومت بھی اپنا موقف عدالت کے سامنے رکھ سکے۔ مرکز کی اس مانگ کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو پارٹی بنا کر نوٹس جاری کیا اور 4 ہفتے میں جواب دینے کوکہا ہے۔سماعت کے دوران ہی دہلی پولیس نے کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ دہلی تشدد معاملے میں اب تک کل 48 ایف آئی آردرج کی جاچکی ہیں لیکن یہ تمام ایف آئی آر تشدد کے معاملے میں ہیں۔ پولیس علاقوں کے حالات کو جلد سے جلد معمول پرکرنے کی کوشش کر رہی ہے۔غور طلب ہے کہ کل دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس مرلی دھرنے دہلی پولیس کمشنر کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اشتعال انگیز تقریر معاملے میں اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف کن دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے اس بات پر غور کریں اور کورٹ میں آج دہلی پولیس کو وہ رپورٹ دینی تھی لیکن آج اس معاملے کی سماعت جسٹس مرلی دھرکے سامنے نہیں بلکہ چیف جسٹس کے سامنے ہوئی۔ بتا دیں کہ کل اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کرنے والے تھے لیکن کل چیف جسٹس کے چھٹی پر رہنے کی وجہ سے جسٹس مرلی دھر نے معاملے کی سماعت کی تھی۔وہیں آج اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس نے کی اور انہوں نے مرکزی حکومت کو پارٹی بناتے ہوئے نوٹس جاری کرکے 13 اپریل تک جواب دینے کو کہا ہے۔اس معاملے کی اگلی سماعت 13 اپریل کو ہوگی۔
Delhi Protest
دہلی کے خوں ریز فساد کے تعلق سے انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں آج پہلی سرخی ہے: "The Real Beast” (اصلی درندے)۔ دوسری ذیلی سرخی ہے: ”بدمعاشوں کی دہلی کے علاقے میں مٹر گشتی، 4کی ہلاکت، پولس کی ملی بھگت“۔ اسی خبر میں ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے بیسیوں بلوائی ایک نہتے نوجوان احتجاجی کو گھیر کر لاٹھی، ڈنڈے اور لوہے کی چھڑ سے وحشیانہ اور سفاکانہ طریقے سے مار رہے ہیں۔ مظلوم بے سدھ زمین پر پڑا تھا اور اس کا کپڑا خون آلود ہے۔ اسی روز صبح کے وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ سے دہلی ہوائی اڈہ پر پہنچے۔ عدم تشدد کے علمبردار گاندھی جی کے ’سابر متی آشرم‘ دیکھنے گئے۔ پھر ٹرمپ اور مودی نے احمد آباد کے موٹیرا اسٹیڈیم میں مودی اور ٹرمپ نے دھواں دھار تقریر کی۔ دونوں کی زبان پر ہندستان کی مذہبی آزادی، کثرت میں وحدت جیسی باتیں رواں تھیں۔ جب ٹرمپ تقریر کر رہے تھے تو دہلی فساد کی آگ سے جل رہا تھا۔ دہلی کے متعدد علاقے اور خاص طور پر شمال مشرقی حصے کے مسلم فرقے پر ہتھیار بند غنڈے پولس کے ساتھ حملے کر رہے تھے۔ دکانیں، مارکیٹ اور مسجدوں کو جلا رہے تھے۔ اس فساد کی تیاری اتوار کے دن ہی ہوگئی تھی۔ دہلی کے شمالی اور مشرقی حصے جعفر آباد میں بی جے پی کا بدنام زمانہ لیڈر کپل مشرا نے جلوس نکالا جہاں عورتیں، بچے CAA کے خلاف پُرامن دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کپل مشرا نے پولس کو اَلٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تین روز میں دھرنا اور احتجاج کرنے والوں کو ہٹایا نہیں گیا تو وہ خود طاقت کے زورپر ہٹادیں گے۔ الٹی میٹم میں تین روز کا وقت دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے واپس جانے کے بعد ہی وہ ایسا کریں گے۔ لیکن ٹرمپ احمد آباد میں تھے اور جعفر آباد میں کپل مشرا کے غنڈے پولس کے ساتھ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے احتجاج کرنے والوں اور مقامی لوگوں پر اینٹ پتھر سے حملے کر رہے تھے۔ ایک کلپ وائرل کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ اتوار کے دن شام کے وقت پتھر، اینٹ کے ٹکڑے لاریوں پر لادے جارہے ہیں۔ پولس کو سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بیان دیا ہے کہ ابھی اس ویڈیو کی تصدیق ہورہی ہے۔
سوموار کے دن دہلی کے جعفر آباد سے فساد شروع ہوا، جہاں مسلمانوں کی بہت معمولی آبادی ہے اور موج پور میں بھی فساد برپا ہوا جہاں پڑوس میں ہندوؤں کی غالب اکثریت ہے۔ مقامی باشندوں نے ایک اخبار کے نامہ نگار کو بتایا کہ پولس کی موجودگی میں دکانوں اور مکانوں پر حملے کئے گئے۔ پولس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ حملہ آوروں کا ساتھ دیتی رہی۔ روئٹرس نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ جو لوگ شہریت ترمیمی قانو کی حمایت کر رہے تھے پولس ان کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ بھیڑ پولس کی موجودگی میں مسلمان کے اسٹور کو تباہ و برباد کر رہی تھی اور ایک گاڑی میں آگ لگا رہی تھی۔ پولس نے آواز دے کر شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں کو پتھر پھینکنے کیلئے اکسایا۔ کئی نوجوان لڑکے موٹر سائیکل سے پٹرول نکال کر آگ لگا رہے تھے۔ روئٹرس کا کہنا ہے کہ ان میں ایک امیت نام کے شخص نے کہا کہ ہم لوگ CAA کے حامی ہیں۔ اگر یہ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو کہیں اور جگہ تلاش کرلیں۔ روئٹرس نے بھی لکھا ہے کہ ایک مسلمان اور ایک برقعہ پوش عورت کو لاٹھیوں اور لوہے کی چھڑوں سے فسادی نوجوان زدوکوب کر رہے تھے۔ چشم دید گواہوں نے بتایا ہے کہ بلوائی ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور ’سی اے اے‘ کے مخالفین کی مذمت کر رہے تھے۔ سوموار کے دن ’سی اے اے‘ کے حامیوں نے دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو جنگ و جدل کا میدان بنا دیا تھا۔ بہت سے گھروں پر زعفرانی جھنڈے لہرائے گئے تھے۔ اس یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ ’سی اے اے‘ کے حامیوں کا گھر ہے۔
جعفر آباد کے ایک اسکول کے معلم امین سبحان نے ’ٹیلیگراف‘ کے نامہ نگار کو ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ”نوجوانوں کا گروپ ہندو بھائیوں کے گھروں پر زعفرانی جھنڈے کیوں لگا رہے تھے؟ یہ فساد منصوبہ بند تھا۔ بی جے پی کے متنازعہ لیڈر کپل مشرا کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں ہوا۔ پولس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی“۔ مشتعل بلوائیوں نے اتوار کے دن دھرنے اور احتجاج پر پرامن طریقے سے بیٹھے مرد اور خواتین کو راستے سے زبردستی اٹھا رہے تھے۔ ان سب کو مرکزی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ سلیم پور کے انسانی حقوق کے ایک کارکن کملیش کمار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ہم لوگ دہشت گردی کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ پولس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی دہلی کے لوگوں کو اسمبلی الیکشن میں ووٹ نہ دینے کی سزا دے رہی ہے۔ کملیش کے ایک دوست فیضل نے جن کی ایک لاؤنڈری کی دکان ہے کہاکہ پولس اگر حرکت میں آگئی ہوتی تو یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوتا اور جو لوگ فساد میں مارے گئے ہیں وہ بچ جاتے۔ اس سے کس کا فائدہ ہوا؟ فیضل نے پوچھا۔ سماجی حقوق کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ ”ہریانہ کے ایک علاقہ لونی سے بجرنگ دل کے لوگوں نے بڑی تعداد میں اس فسادمیں حصہ لیا اور بلوائیوں سے مل کر دہشت اور خوف کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ پولس تماشائی بنی رہی اور ان علاقوں میں جہاں مسلمان رہتے ہیں پولس بلوائیوں کی مدد بھی کرتی رہی“۔ رادھے شیام نے کہا۔ جعفر آباد کے قریب کا علاقہ نور الٰہی کے مسلمانوں کے بارے میں اکرام علی نے کہاکہ ”اب ڈر اور خوف سے مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں“۔
دہلی کے حالیہ اسمبلی الیکشن کی مہم کے دوران بی جے پی کے بڑے اور چھوٹے لیڈروں نے شر انگیز اور فساد انگیز بیان بازی کرتے رہے۔ کپل مشرا نے جو اس فساد کے خاص مجرم ہیں انتخاب کو ہندستان اور پاکستان کے مقابلے سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ شاہین باغ کی طرف سے پاکستانی داخل ہورہے ہیں۔ اس وقت بھی نہ تو الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی اورنہ پولس کی طرف سے کوئی کارروائی ہوئی۔ کپل مشرا اپنی جیت درج کرانے کیلئے مہم کوفرقہ وارانہ رنگ دے رہے تھے۔ پھر بھی وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوئے مگر فساد کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ سارے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں ان کا نام آیا ہے کہ اتوار کے دن ہی پولس کے بغلگیر ہوکر سی اے اے کے مخالفین کو الٹی میٹم دے رہے تھے کہ دھرنے پر جو خواتین اورمرد بیٹھے ہوئے ہیں ان سے تین دنوں کے اندر جگہ خالی کرادی جائے ورنہ وہ خود خالی کرادیں گے۔ پولس ان کی باتوں کو ہنس ہنس کر ٹال رہی تھی۔ پولس کے اندر خفیہ کارندے ہوتے ہیں جن کو ان حالات میں خاص طور پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ لیکن جب پولس خود فسادیوں سے ملی ہو تو پھر فسادیوں پر قابو پانا مشکل ہے۔ نیوز ایجنسیوں اور اخبارات کے نامہ نگار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ فساد کے دوران پولس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ بلوائیوں کا ساتھ دیتی رہی اور ان کو اینٹ پتھر پھینکنے کیلئے اکساتی رہی۔ جب خود پولس بلوائی بن جائے یا بلوائیوں کا ساتھ دے تو فسادی کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
دہلی کی پولس جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہوئی ہے زعفرانی رنگ میں رنگی ہوئی نظر آتی ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا واقعہ ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سانحہ ہو۔ شاہین باغ کے قریب کا معاملہ ہو، ہر جگہ پولس کی جانبداری اور طرفداری دیکھنے میں آتی ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ جامعہ ملیہ کے طالبعلموں پر جو ظلم و ستم ڈھائے گئے اس کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا لیکن سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں کو دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کیلئے کہا اور ٹال مٹول سے کام لیا۔ دہلی ہائی کورٹ تاریخ پر تاریخ دینے پر ہی اکتفا کر رہی ہے۔ چندر شیکھر آزاد نے دہلی کے حالیہ فساد کے سلسلے میں آج ہی (25فروری) سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ تحقیقات کی مانگ کی ہے۔ مہلوکین کے معاوضے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ساتھ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار بھی سپریم کورٹ کا رویہ پہلے جیسا ہی رہے گا یا حق و انصاف مظلومین کو ملے گا۔اس بار پہلے سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ چار افراد مارے بھی گئے ہیں۔ ڈر اور خوف سے اقلیتی فرقے کے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں۔ پولس کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ ایسی صورت میں پولس سے حق و انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا عدالت کو فساد کی تحقیق کا بلا تاخیر آرڈر دینا چاہئے تاکہ اصلی فسادیوں اور درندوں کے خلاف جلد کارروائی ہو اور دہلی پولس کے سیاہ کارناموں پر جو پردہ پڑا ہوا ہے وہ بھی فاش ہو۔ امید ہے کہ اس بار عدالت انصاف مانگنے والوں کو مایوس نہیں کرے گی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ممبئی:شہریت ترمیم قانون کے خلاف مہاراشٹر کے بیڑ میں ہوئے مظاہرے پر بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے کہا کہ پرامن طریقے سے احتجاجی مظاہرہ کر رہے لوگ دھوکے بازیا غدار نہیں ہیں۔بتا دیں کہ 21 جنوری کو بیڑ ضلع کے ماجلگاؤں میں کچھ مظاہرین غیر معینہ مدت کے لئے شہریت ترمیم قانون کے خلاف دھرنے پر بیٹھنا چاہتے تھے جس کی اجازت ضلع پولیس نے نہیں دی اور بعد میں ضلع مجسٹریٹ نے بھی اس مظاہرے کی اجازت نہیں دی۔جس کے بعد افتخا رشیخ اور دیگر مظاہرین ہائی کورٹ گئے۔ہائی کورٹ نے مقامی پولیس اور مجسٹریٹ کورٹ کے حکم کو منسوخ کر دیا اور ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے دھرنے کی اجازت دے دی۔اس سماعت کے دوران کورٹ نے کہا کہ ایسے مظاہرین ایک قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جس کے لئے انہیں اینٹی نیشنل نہیں کہہ سکتے۔مظاہرین حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں ان کی آواز دبائی جائے۔ 2 بنچ کے ججوں نے کہا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ قانون کسی کے خلاف ہے تو اس قانون کے خلاف پرامن آواز اٹھانا یہ شہریوں کا حق ہے۔اجازت دیتے ہوئے مظاہرین نے کورٹ میں تحریری طور پر کہا ہے کہ احتجاج کے دوران کسی ملک، مذہب یا اپنے ملک کے خلاف نعرے بازی نہیں ہوگی۔کورٹ نے کہا کہ برطانوی راج کے دوران ہمارے باپ دادا آزادی کے لئے لڑے۔انسانی حقوق کے لئے لڑے اسی مقصد سے ہمارا آئین بنا۔کورٹ نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو اپنی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنا پڑ رہا ہے یہ بدقسمتی کی بات ہے مگرصرف اس بنیاد پر کوئی بھی مدھرنا دبایا نہیں جا سکتا ہے۔
موجودہ سرکار اور حکمراں جماعت کے لیڈر اور کارندے ساورکر اور گوڈسے کے پجاری اور عقیدت مند ہیں؛ لیکن عوام سے داد لینے کیلئے یہی لوگ ڈاکٹر امبیڈکر اورمہاتما گاندھی سے بھی عقیدت کا اظہار کرتے رہتے ہیں؛ حالانکہ گاندھی اگر مقتول ہیں تو گوڈسے اور ساورکر ان کے قاتل ہیں۔ امبیڈکر ذات پات کے خلاف ہیں او ر انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور دستور ساز ہیں۔ ساورکر یا ان کے ماننے والے امبیڈکر کے اصولوں اور ان کے تیار کردہ دستور ہند کے مخالف ہیں،ذات پات کے حامی اور پرچارک ہیں۔ مودی-شاہ یا ان کے پیروکار گاندھی اور امبیڈکر کا نام محض اس لئے لیتے ہیں کہ عوام کو جھانسے میں ڈال سکیں، گمراہ کرسکیں لیکن اب ان کے چہرے سے نقاب اٹھ رہا ہے،خواہ کتنا ہی نقاب پوشی اور پردہ پوشی کامظاہرہ کریں۔ گزشتہ جمعہ کوصدر جمہوریہ رام ناتھ کویند نے حکومت کی تحریر کردہ تقریر کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں پڑھ کر شرکا کو سنایا، جس میں لکھا ہوا تھاکہ ”آج کے ماحول میں گاندھی جی کے خوابوں اور آرزوؤں کو پورا کرنے کی مودی حکومت کوشش کر رہی ہے، انھوں نے کہاکہ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے تقسیم ہندکے سنگین ماحول میں کہا تھا کہ ہندو اور سکھ جو پاکستان میں نہیں رہ سکتے،اگر وہ ہندستان آنے کی خواہش ظاہر کریں،تو حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ان کے بسانے اور ان کی راحت رسانی کا انتظام کرے“۔ اس پر حکمراں جماعت کے ایم پی بشمول شاہ اور مودی میزوں کو تھپتھپانے لگے،جبکہ اپوزیشن کے ممبران نے اپنا احتجاج درج کرایا۔ صدر جمہوریہ نے جو کچھ پڑھا وہ در اصل گاندھی جی کی تقریر کا پورا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس حصے سے گاندھی جی کی تقریر یا باتوں کا مقصد یا مدعا پورا ہوتا ہے۔
10جولائی 1947ء کو گاندھی جی نے اپنی ایک پرارتھنا سبھا میں کہا تھا ”اگر سندھ یا دوسرے علاقوں سے چھوڑ کر لوگ ہندستان آئیں، تو ان کو ہم باہر نہیں کرسکتے، اگر ہم ایسا کریں گے، تو ہم اپنے آپ کو کیسے ہندستانی کہہ سکتے ہیں اور ہم کس منہ سے جئے ہند کا نعرہ بلند کرسکتے ہیں۔ نیتا جی نے کس لئے لڑائی لڑی تھی۔ ہم سب ہندستانی ہیں، خواہ دہلی میں رہتے ہوں یا گجرات میں، وہ لوگ ہمارے مہمان ہیں۔ ہم ان لوگوں کا خیر مقدم کریں گے کہ ہندستان ان کا ملک ہے جیسے پاکستان، اگر نیشنلسٹ مسلمان پاکستان چھوڑ کر ہندستان آئیں گے،تو ہم ان کا بھی سواگت کریں گے، ہم سب ہندستان میں برابر کے شہری ہیں“۔ گاندھی جی نے 25جولائی 1947ء کو اپنی ایک پرارتھنا سبھا میں کہا تھا کہ ”یہاں مسلمان، پارسی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہندستان اب ہندوؤں کا ملک ہے تو غلط ہے، ہندستان ان تمام لوگوں کا ہے، جو ہندستان میں رہتے ہیں“۔ مہاتما گاندھی نے 9ستمبر 1947ء کو کمیونسٹ لیڈر پی سی جوشی سے کہا تھا کہ ”یہ ہمارے لئے باعث ندامت ہے کہ ہندستان میں مسلمان افسردہ خاطر ہیں“۔ 25اگست 1947ء کو ایک دوسری پرارتھنا سبھا میں کہا تھا کہ ”تمام اقلیتیں ہندستان میں اسی درجے کی شہری ہیں، جس درجے کے شہری اکثریت کے لوگ ہیں“۔گاندھی جی نے 26ستمبر 1947ء کو ایک پریئر میٹنگ میں کہا تھا کہ ”اگر ہم تمام مسلمانوں کو وطن دشمن سمجھیں گے،تو پاکستان میں بھی ہندوؤں اور سکھوں کو وطن دشمن سمجھا جائے گا، ہم لوگوں کو ایسا نہیں سمجھنا چاہئے، ہندو اور سکھ اگر وہاں نہیں رہ سکتے تو ہندستان آسکتے ہیں۔ ان کیلئے ہماری حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ ان کو ہم روزگار سے لگائیں اور ان کی راحت رسانی میں مدد کریں، لیکن اگر وہ پاکستان میں رہتے ہیں اور ہمارے لئے کام کرتے ہیں اور پاکستان کیلئے نہیں کرتے ہیں تو ایسا نہیں ہونا چاہئے اور میں اسے ہر گز پسند نہیں کروں گا“۔
گاندھی جی کی تقریروں اور کارگزاریوں پر مشتمل جو مجموعہ ہے، اس میں مذکورہ باتیں درج ہیں۔ حکومت نے گمراہ کرنے کیلئے گاندھی جی کی نامکمل باتیں پیش کی ہیں۔ اگر گاندھی جی کی مکمل باتیں پیش کرتے، تو اس سے ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا،جس سے وہ ہندستانیوں کو گمراہ کرسکتے تھے، لیکن ان کی بیوقوفی اور نادانی کی حد ہے کہ ایک چیز جو اظہر من الشمس ہے،آخر اسے وہ کیسے چھپا سکتے ہیں؟ گاندھی جی کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے۔ گاندھی جی کا قصہ تمام اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ مودی،شاہ اور موہن بھاگوت کے خوابوں کے ہندستان کے خلاف تھے۔ گاندھی جی ہندستان میں ہندو مسلمانوں کا اتحاد چاہتے تھے، ان کے پرکھوں نے گاندھی جی کو نہ صرف مسلمانوں کا حامی قرار دیا؛ بلکہ ان کو محمد گاندھی کہہ کر پکارتے تھے، گاندھی جی کو پاکستان کا حامی قرار دیتے تھے، آج تک ان کی کتابوں میں درج ہے کہ ملک کی تقسیم کے ذمہ دار گاندھی ہیں، آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں جہاں مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کی تعلیم دی جاتی ہے،وہیں گاندھی دشمنی کا پاٹھ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ جو لوگ اس وقت حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، ان میں سے نوے فیصد لوگ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں، گاندھی دشمنی ان کی رگ رگ میں پیوستہ ہے۔
اس وقت جو سارے ملک میں احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں،جن سے حب الوطنی کا اعلان اور اظہار ہورہا ہے، ہندو اور مسلمانوں کے اتحاد کا بھی مظاہرہ ہورہا ہے، اس سے ان کی دیش بھکتی یا وطن پرستی کی اجارہ داری نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ ختم ہورہی ہے۔ شاہین باغ کے مظاہرے یا لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے مظاہرے یا ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں سے ان کی دشمنی اس لئے بڑھتی جارہی ہے کہ جو ان کی وطن پرستی کا ناٹک تھا اس کا پردہ چاک ہوتا جارہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یا شاہین باغ سے ان کی دشمنی کچھ زیادہ ہی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ہندو مسلم انتشار میں رکاوٹ ہورہی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دہلی میں الیکشن کا موسم ہے۔ حسب عادت اور حسب معمول بی جے پی ہر الیکشن کو پولرائز کرنا چاہتی ہے۔ شاہین باغ یا جامعہ ملیہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے؛اس لئے بھی حکومت پریشان ہے، مودی، شاہ اور ان کے لوگ شاہین باغ کو منی پاکستان کہہ رہے ہیں۔ طرح طرح کے الزامات تراش رہے ہیں۔ کبھی سدھیر اور چورسیا (گودی میڈیا کے لوگ) کو بھیج کر اپنا مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں اور کبھی نوجوانوں کے ہاتھ میں پستول دے کر بھیج رہے ہیں؛ تاکہ مظاہرین کے حوصلے پست ہوں، مگر اس میں انھیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ مودی سے لے کر کپل مشرا تک دنگے اور فساد پر اتر آئے ہیں۔
گزشتہ سال 15دسمبر کو نریندر مودی نے کہا تھا کہ مظاہرین کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جاسکتا ہے اور ان کے دست راست امیت شاہ نے دہلی میں کہاکہ 8 فروری کو اس طرح ووٹ مشین کا بٹن دبایا جائے کہ شاہین باغ میں بیٹھی خواتین کو کرنٹ لگے۔ 27جنوری کو انوراگ ٹھاکر نے نعرے بازی کی تھی کہ ”دیش غداروں کو“ تو بھیڑ کا جواب تھا”گولی مارو سالوں کو“۔ 28جنوری کو پرویش سنگھ ورما نے شاہین باغ کے بارے میں کہاکہ ”یہ لوگ لاکھوں کی شکل میں جمع ہوں گے اور ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری بہنوں، عورتوں کا بلاتکار کریں گے“۔ یہ سب بیانات یا نعرے بازیاں کیا باپو نے سکھائی ہیں؟ یہ سب باتیں تو صاف صاف ساورکر اور گوڈسے کے زبان اور بیان سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لئے صدر جمہوریہ کا یہ کہنا کہ ’سی اے اے‘ سے گاندھی جی کی عزت افزائی ہورہی ہے یا ان کے خوابوں کی تعبیر کی جارہی ہے، گاندھی جی کے ساتھ کھلا ہوا مذاق ہے اور اسی طرح کا سفید جھوٹ ہے، جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے رام لیلا میدان میں کہا تھا کہ ’این آر سی‘ کا کبھی ذکر ہی نہیں ہوا تھا۔ پورے ہندستان میں کہیں حراست کیمپ بھی نہیں ہے۔ صدر جمہوریہ کو بھی حکومت نے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا۔ ان کے جھوٹ کی قلعی اسی وقت کھل گئی، جب اپوزیشن کے لیڈروں نے اعتراض جتایا کہ ملک بھر میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ ہورہا ہے اور ملک کے آدھے سے زیادہ لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں، ایک ایک جگہ کئی مہینے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کہا جارہا ہے کہ گاندھی جی کے خواب کو پورا کیا جارہا ہے اور اس سے ملک کی عزت افزائی ہورہی ہے، جبکہ دنیا بھر میں اس کالے قانون کی وجہ سے ملک کی رسوائی ہورہی ہے۔ مودی سرکار یا ان کی پارٹی جتنا بھی چاہے کہ گاندھی اور امبیڈکر سے اپنے آپ کو جوڑے؛ لیکن مشرق اور مغرب کو جوڑنا، کالے اور سفید کو ایک کہنا، حق اورباطل کو ایک بتانا ہنسی، کھیل اور تماشہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ زندہ گوڈسے جو اب گوپال کے روپ میں نظر آیا اس کے فیس بک وال میں لکھا ہوا ہے کہ شاہین باغ کا کھیل ختم۔ شاہین باغ کا کھیل تو ختم نہیں ہوا لیکن اس کا کھیل ختم ہوگیا۔ ایک دن آئے گا مودی سرکار کی گاندھی بھکتی کا دن بھی ختم ہوجائے گا۔ ایک روز ایسا بھی آئے گا کہ کرنٹ شاہین باغ کی باعزت اور قابل احترام خواتین کو تو نہیں لگے گا لیکن شاہ اوران کے صاحب پر بجلی گرسکتی ہے،کرنٹ لگ سکتا ہے؛کیونکہ جو لوگ انسانیت اور انصاف کے دشمن ہوتے ہیں،وہ زیادہ دنوں تک لوگوں کو نہ گمراہ کرسکتے ہیں اور نہ دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
سیتامڑھی میں ہزاروں لوگ سی اےاے کیخلاف دھرنے پربیٹھے
سیتامڑھی:(سعیدالرحمن سعدی)آج سے سات روز پہلے 21 جنوری کو "مولانگر” میں مقامی باشندوں نے حکومت کے سیاہ قوانین کے خلاف چھوٹا سا مظاہرہ شروع کیا تھا، آج اسے سات دن مکمل ہوگئے، سات دن پہلے جس دھرنے میں تقریبا سو مقامی لوگ تھے آج اسے قرب وجوار کے سات گاؤں کے ہزاروں افراد نے ایک عظیم آندولن کی شکل دے دی ہے۔پہلے یہ دھرنا "آزاد چوک مولانگر” پر جاری تھا لیکن جگہ کی قلت کی بنا پر اب اسے اسی گاؤں میں ایک وسیع وعریض جگہ پر "شاہین باغ دھرنا گاہ” کا نام دے کر منتقل کردیا گیا ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف مظاہرین کے عزم و حوصلے مزید جوان ہورہے ہیں بلکہ ان کی تعداد اور بستیوں کی شمولیت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، جوان مردوں کے ساتھ ساتھ کم عمر بچے،بچیاں، ضعیف العمر بوڑھے اور بوڑھیاں، اسکول اور مدرسہ کے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد کئی کئی کیلومیٹر کے فاصلے سے پیادہ چل کر دھرنے میں شرکت کررہی ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ عوام کی کثرت اور تنظیم و قیادت کی کمی کے باوجود ان کا سارا نظم ونسق، نعرے اور نظم، تقاریر اور بیانات سب میں جوش اور ہوش کا بہترین توازن نظر آرہا ہے۔
البتہ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ضلع اور بلاک سطح کی زیادہ تر دینی و سماجی تنظیمیں، اور ملت کی قیادت کے مدعی حضرات کا دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں ہے۔خبر یہ ہے کہ آج مداری پور پنچائت میں شامل بستیوں کے باشعور افراد ایک بڑی تعداد میں بعد نماز عصر یحی پور چوک پر کینڈل مارچ میں شامل ہوں گے،پھر یحی پور سے شاہپور اور آواپور ہوتے ہوئے یہ ریلی مولانگر "شاہین باغ دھرنا گاہ ” میں پہنچے گی۔ایک خوش آئند اور حوصلہ افزا
خبر یہ ہے کہ ہندوستان کے نوجوان لیڈر”کنہیا کمار” سے ان کے بہار سفر کے دوران یہاں آنے کے حوالے سےمنتظمین کی باتہوگئی ہے، اور وہ 2 فروری کو اس مظاہرہ میں شامل ہوں گے۔قابل ذکرہے کہ 3 فروری کو شہر سیتامڑھی کے دھرنے میں ان کی شمولیت ہے جب کہ 4 کو وہ ” جالے” میں ایک عظیم مجمع کو خطاب کریں گے۔