(ایڈیٹر روزنامہ ممبئی اردو نیوز)
یہ کیسی پولیس ہے!یہ نہتے، بے بس، غریب، ستائے ہوئے لوگوں کو پیٹتی اور جان سے مار دیتی ہے، پھر اپنے گناہوں کو چھپانے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ گڑھتی ہے ۔ ایف آئی آر بنتی تو ہے لیکن خاطی پولیس والوں کے ناموں کے بغیر، اس جھوٹ کے ساتھ کہ مرنے اور زخمی ہونے والے بھیڑ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ پولیس کا کام کسی کی جان لینا تو نہیں ہے، مجرموں کو بچانے کے لیے بےقصوروں کو مجرم بنا کر پیش کرنا بھی نہیں ہے، لیکن ان دنوں بی جے پی اور مرکزی سرکار میں، وزیراعظم نریندر مودی کے بعد نمبر دو کا درجہ رکھنے والے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی قیادت میں کام کرنے والی پولیس یہی کر رہی ہے۔ دہلی کی پولیس نے خود کو اس ’ہندو راشٹر‘ کی پولیس سمجھنا شروع کر دیا ہے جس کے قیام کے لیے سارا سنگھ پریوار، ساری بی جے پی اور اس کی مرکزی و ریاستی حکومتیں زور لگائے ہوئے ہیں۔ دہلی میں امیت شاہ کی دیکھ ریکھ ہے تو یوپی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی، ایم پی میں شیو راج سنگھ چوہان کی اور بہار میں بی جے پی کی بیساکھی پر نتیش کمار کی ۔ پولیس سب جگہ ایک ہی کھیل کھیل رہی ہے، کمزوروں، پچھڑوں، دلتوں، پسماندہ ذاتوں بالخصوص مسلمانوں کو ڈنڈے کی زد میں لینے اور دوسروں کے سارے قصور ان کے سر منڈھنے کا کھیل۔
قسمتن کی مثال لے لیں۔اس ۶۱سالہ خاتون کے نام کامطلب لوگ قسمت والی نکال سکتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس کی زندگی، ۲۳سالہ نوجوان بیٹے فیضان کے ، دہلی فساد کے دوران پولیس کے ہاتھوں بے رحمی سے پیٹے جانے اور جان سے جانے کے بعد، تاریک ہو چکی ہے ۔ ذرا اندازہ کریں کہ بیٹے کی موت سے غمزدہ اس بوڑھی ماں کے دل پر اس وقت کیا گزری ہو گی جب پولیس نے اس سے کہا ہوگا ’ماتا جی جسے جانا تھا وہ تو جا چکا ہے اب تم اپنا بیان بدل دو تمہیں پیسے بھی مل جائیں گے اور تمہاری مدد بھی ہو جائے گی‘ ۔ قسمتن نے صاف انکار کر دیا۔ اس نے اپنی کمپلینٹ میں اپنے بیٹے کی موت کا ذمہ دار پولیس والوں کو قرار دیا ہے ۔ جس نے بھی کردمپوری علاقہ کے وہ ویڈیو دیکھے ہونگے جن میں پولیس کے کچھ اہلکار چند نوجوانوں کو، جو زمین پر زخمی پڑے ہوئے ہیں، پیٹ رہے ہیں اور ان سے جبراً قومی ترانہ اور وندے ماترم پڑھوا رہے ہیں، وہ فیضان کی موت کا قصور وار پولیس کو ہی قرار دیں گے ۔ پولیس نے پہلے خوب پیٹا پھر اسپتال لے گئی وہاں سے تھانے لائی اور فیضان کا کوئی علاج نہیں کیا، جب فیضان کی حالت بگڑی تو اسے چھوڑ دیا لیکن وہ بچ نہ سکا۔ پولیس کی بربریت کی داستان ۲۴فروری کی ہے جس کے دو دن بعد فیضان کی موت ہوئی۔ پولیس نے اب تک ایف آئی آر میں نہ چشم دید گواہوں کے نام لکھے ہیں اور نہ ہی ملزمین کے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فیضان اور دوسروں پر فسادی بھیڑ نے حملہ کیا تھا۔ اب تک فیضان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اس کی والدہ کو نہیں سونپی گئی ہے۔ الزام لگ رہا ہے کہ پولیس عینی شاہدین پر بیانات بدلنے کے لیے دباو ڈال رہی ہے، یہ ممکن ہے، اسی پولیس نے بے شرمی سے غمزدہ ماں تک سے بیان بدلوانے کی کوشش کی ہے!! دہلی فسادات کے دوران مذکورہ واقعے کے ویڈیو خوب وائرل ہوئے تھے، ممکن ہے وہ تمام ویڈیو جھٹلا دیئے جائیں، ویڈیو بنانے والوں کو پولیس دھر دبوچے۔ کچھ بھی ممکن ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ فسادات کے دوران متاثرین اور عینی شاہدین نے پولیس اہلکاران اور بی جے پی کے لیڈران، جن میں کپل مشرا بھی شامل ہیں، کے خلاف کافی کمپلینٹ لکھوائیں لیکن خبر یہ ہے کہ یہ سب شکائتیں دبا دی گئی ہیں۔ حالانکہ یہ شکائتیں وزیراعظم کے دفتر، مرکزی وزارت داخلہ اور لیفٹننٹ گورنر کے دفتر تک گئیں، سب پر وصول پائے جانے کی مہریں ثبت ہیں، مگر پولیس پر کوئی آنچ نہیں آئی ہے ۔خدشہ یہی ہے کہ یہ ساری شکائتیں دبا دی جائیں گی تاکہ پولیس افسران اور بھاجپائی لیڈران بچائے جا سکیں۔ یہ ساری شکائتیں نامزد ہیں۔ دہلی کے فسادات مسلم مخالف تھے، مقصد سی اے اے مخالف احتجاجیوں کو سبق سکھانا تھا۔ وہ جو مجرم تھے ان کے چہرے عیاں ہیں لیکن پولیس اب جمہوری طرز پر سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے جانباز طالب علموں کو، جے این یو کے طلباء کو، شاہین باغ کی شاہینوں کو مجرم بنانے پر تلی ہوئی ہے، ان پر فسادات کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا ہے، یو اے پی اے جیسے سخت ترین قانون کے تحت گرفتاریاں ہوئی ہیں اور مزید گرفتاریوں کا خدشہ ہے۔ گرفتاروں میں طالبات اور خواتین بھی ہیں، صفورا زرگر کو حاملہ ہونے کے باوجود گرفتار کیا گیا، جب ساری دنیا میں تھو تھو ہوئی تو ضمانت پر رہا کیا گیا۔ پولیس اور سیاست دان مل کر سی اے اے کی تحریک کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ تحریک کامیاب ہوئی تو امیت شاہ کی شان گھٹ جائے گی ۔
پولیس نے ایسا ہی غیر آئینی اور غیر قانونی رویہ سب جگہ اپنا رکھاہے۔ یوپی کے حالات کس قدر بدتر ہیں اس سے واقفیت کے لیے اسرارِ احمد کی مثال لے لیں،سہارنپور کے اس ۳۵سالہ نوجوان کو کوئی پچیس لوگوں کی بھیڑ نے لاٹھی ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے پیٹ پیٹ کر بےدم کردیا، جب اسرار کے بڑے بھائی گلفام اپنے گھر والوں کے ساتھ موقع پر پہنچے اور زخمی اسرار کو پانی پلانے کی کوشش کی تو انہیں جبراً پانی پلانے سے روک دیا گیا، پولیس نے جب بے ہوش اسرار کو اسپتال پہنچانے کی کوشش کی تو لوگوں نے گاڑی کے آگے لیٹ کر اسے روکنے کی کوشش کی۔ جب کسی طرح اسرار کو اسپتال تک پہنچایا گیا تو بھرتی کرنے سے قبل ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا، اس کی سانسیں راستہ میں ہی ٹوٹ گئی تھیں۔ اسرار فرنیچر بنانے کا کام کرتا تھا۔ یہ الزام لگا کر اس پر حملہ کیا گیا کہ اس نے گاؤں کے ایک ۹ سالہ لڑکے کی گردن پر درانتی سے وار کیا تھا۔ بعد میں کہا گیا کہ اس کی موٹر سائیکل سے لڑکے کو چوٹ لگی تھی۔ چوٹ معمولی تھی لیکن ماب لنچنگ کا بہانہ بنا لی گئی۔ اس واقعے میں گیارہ افراد کے خلاف نامزد رپورٹ ہے مگر گرفتاری کسی کی نہیں ہوئی ہے۔ سہارنپور (دیہی) کے ایس پی اشوک کمار مینا نے اسے مآب لنچنگ کا معاملہ ماننے ہی سے انکار کر دیا ہے، ان کے بقول یہ’جھڑپ‘ کا معاملہ ہے ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرار دماغی مریض تھا اسی لیے اس نے ایک موٹر سائیکل چرائی اور ایک کمسن پر حملہ کیا۔ گلفام کا کہنا ہے کہ یہ ساری ہی باتیں غلط ہیں اس کا بھائی اس نفرت کے سبب مارا گیا ہے جو میڈیا نے پھیلائی ہے۔ اس معاملے میں پولیس نے مظلوم اسرار احمد کو ہی کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ پولیس کے اسی رویے کی وجہ سے ہجومی تشدد کو روک پانے میں ناکامی ہاتھ آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ پولیس اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر چل رہی ہے۔ ماب لنچنگ کا عفریت پھر سر اٹھا رہا ہے لیکن بی جے پی کی ریاستوں میں اس کا کوئی حل نکلنا شاید ممکن نہ ہو کہ سنگھی سیاست دانوں کے لیے یہ ایک سیاسی ہتھیار ہے اور پولیس اس ہتھیار کو، بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رکھنے کی ایک ایجنسی۔ یوپی میں یوگی سرکار نے مسلم اقلیت کے لیے زندگی گزارنا دشوار ترین بنا دیا ہے،سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف مقدمے بنا دیئے گئے ہیں، ان کے اثاثوں کی قرقی کے نوٹس نکالے گئے ہیں، بھاری بھاری جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔ حقوق انسانی کی بقاء کے لیے کام کرنے والے ایڈوکیٹ شعیب اور سابق اعلیٰ پولیس افسر ایس آر داراپوری تک کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے کیونکہ انہوں نے سی اے اے مخالفین کی حمایت کی ہے۔بالکل دہلی پولس کی طرح یوپی پولیس چل رہی ہے۔ دہلی میں ہرش مندر اور یوگیندر یادو جیسے سماجی اور حقوق انسانی کے کارکنان کے نام فسادات کی ایف آئی آر میں درج ہیں!! یوپی میں مزید یہ ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کو، چاہے وہ سی اے اے کے خلاف مظاہرے میں شامل رہے ہوں یا نہ رہے ہوں، خوف کی نفسیات میں مبتلا کرنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے ۔ شاملی کی مثال لیں جہاں کے ایک مسلم اکثریتی قصبہ تپرن میں ۲۷مئی کی رات تین بجے بڑی تعداد میں پولیس فورس گھسی اور گھروں کے اندر گھس گھس کر لوگوں کو، بشمول خواتین، بچے بچیاں اور ضعیف افراد، بری طرح سے پیٹا، گھروں کے اندر توڑ پھوڑ کی، سامان برباد کیا، روپے پیسے لوٹے اور بہت سے لوگوں کو پکڑ کر لے گئی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ گئو کشی معاملہ کے ایک قصوروار افضل کو پکڑنے سے گاوں والوں نے پولیس کو روکا تھا جس میں تین پولیس والے زخمی ہوئے تھے۔ لیکن گاوں کے پردھان انور کا کہنا ہے کہ افضل پولیس کومطلوب بھی نہیں تھا، اور وہ خود افضل کو پولیس اسٹیشن لے گئے تھے۔ ایڈوکیٹ اکرام کے مطابق پولیس گائوں پر دھاوا بولنے کا منصوبہ بنا چکی تھی، پندرہ گاڑیوں میں پولیس والے بھر کر آئے تھے، یہ مسلح بھی تھے۔اب گاوں میں خوف و ہراس ہے، خبر ہے کہ بہت سے لوگوں نے مکانوں کو بیچ کر نقل مکانی کی تیاری بھی کر لی ہے ۔یوپی میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں، سب میں پولیس کا مکروہ چہرہ سامنے آیا ہے۔ پولیس جگہ جگہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف سرگرم نظر آ رہی ہے چاہے وہ اعظم گڑھ کا گائوں ہو، چاہے مظفر نگر میں موذن شہزاد کا پیٹا جانا ہو چاہے دہلی اور دہلی کے اطراف میں مساجد میں توڑ پھوڑ ہو یا مسلم فرقے کے سماجی بائیکاٹ کا نعرہ ہو۔ یا بہار میں فرقہ وارانہ نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہو ۔ فرقہ پرستی کے اس عفریت کے خلاف ایک متحدہ محاذ اب ضروری ہو گیا ہے ۔کیا اس سمت میں کوئی پیش قدمی ہوگی !!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)