نئی دہلی:دہلی حکومت نے تمام ضلع حکام کو ہدایت دی کہ وہ تبلیغی جماعت کے 2446 ارکان آئیسولیشن وارڈ سے چھوڑ دیں اور یہ بھی یقین دہائی کرائیں کہ وہ اپنے گھروں کے علاوہ کہیں اور نہیں ٹھہریں۔دہلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سی ای او کے ایس مینا نے ڈپٹی کمشنروں کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ضلع حکام سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ دہلی میں واقع مرکز کے پروگرام میں شامل ہوئے دوسری ریاستوں کے جماعت کے نمائندوں کو ان کے گھر بھیجنے کا بھی انتظام کریں۔انہوں نے کہا کہ مارچ میں دہلی کے نظام الدین علاقے میں ہوئے پروگرام میں شریک ہوئے 567 غیر ملکیوں کو پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔حکومت کے ایک اہلکار نے کہاکہ ان غیر ملکی جماتیوں کو ویزا کی خلاف ورزی جیسے مختلف خلاف ورزیوں کے سلسلے میں پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے مراکز میں الگ رہنے کی مدت پوری کر چکے اور کورونا وائرس سے متاثر نہیں پائے گئے تبلیغی جماعت کے ارکان کو ان کے گھر جانے دینے کا حکم دیا تھا۔مینا نے اپنے خط میں کہاکہ دہلی کے علاوہ دیگر مقامات سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں کو مقرر ہدایات کے مطابق چھوڑا جا سکتا ہے انہیں الگ مراکز سے سفر کرنے کے لئے پاس جاری کئے جائیں۔کسی بھی صورت میں مذکورہ افراد کو مسجد سمیت کسی بھی دوسری جگہ ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
Delhi Government
دہلی میں 20 اپریل سے رعایت کی امیدکم،ریاستی حکومت کے فیصلے پرچھوٹ کاانحصار
نئی دہلی:دہلی میں 11 میں سے 9 اضلاع میں بڑی تعداد میں کیس آنے پرانہیں ہاٹ اسپاٹ والے ریڈڈسٹرکٹ میں رکھاگیاہے۔باقی نارتھ ویسٹ ضلع کو اورنج اور نارتھ -ایسٹ کو ایک دن پہلے کے مطابق نان ہاٹ اسپاٹ والے ڈسٹریکٹ میں رکھاگیاہے۔ اگرچہ اس ضلع کے شاستری پارک میں ایک زونبنائے جانے کے بعد بھی یہ ضلع بھی براہ راست طورپرہاٹ اسپاٹ والے ضلع میں آگیاہے۔کسی بھی ریڈ ڈسٹرکٹ کو پہلے اورنج زمرے میں آنے میں14 دن اور پھر اورنج گرین میں آنے میں 14 دن کوئی نیاکیس نہیں آنے پر ہونا طے ہے۔ایسے میں دہلی میں 9 ضلع تو 28 دن کے پہلے گرین ڈسٹرکٹ زمرے میں نہیں آئیں گے۔دہلی میں مثبت مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے صاف ہے کہ مرکزسے20 اپریل کے بعد ملنے والی رعایت کی توقع نہیں ہے۔چھوٹ ملنے کے پیمانے گرین ڈسٹرکٹ، رورل ایریاکومیونسپیلٹی نوٹیفائی نہ ہو والے پیمانے پر دہلی باہر ہو رہی ہے۔کمشنر سنجیو کھروار نے بتایا کہ پوری دہلی نوٹیفائی رورل ایریاہے جب کہ صنعتوں کو چھوٹ اس سے باہر دیاجاناہے۔ ایسا ہی تعمیر اتی کام شروع کیے جانے کولے کرہے۔تعمیرات کی چھوٹ بھی شہری علاقے میں صرف حکومت کے بڑے پراجیکٹ جہاں مزدور دستیاب ہیں، وہاں دیا جانا ہے تو یہاں ریڈ ضلع اس چھوٹ کو روکے گا۔ 20 اپریل سے چھوٹ کی بات ہے تو ایسے میں ریاستی سطح کی میٹنگ 18-19 اپریل کوہوسکتی ہے۔لیکن دہلی کے حالات کو دیکھتے ہوئے کسی رعایت کی توقع نہیں ہے۔دہلی میں 11 ضلع ہیں لیکن گنجان آبادی کے درمیان ضلع کی باؤنڈری ایک سڑک کے بعد کئی جگہ تبدیل ہو جاتی ہے۔شمال مشرقی دہلی، شاہدرہ اور مشرقی ضلع کے درمیان توکئی سطح پر وہاں رہنے والے لوگ بھی ضلع کی شناخت نہیں کرپاتے ہیں۔
نئی دہلی:دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے کہاہے کہ سیل کیے گئے 33 علاقوں پرخاص توجہ دی جا رہی ہے۔سب سے زیادہ ضروری ہے کہ تمام گھروں میں تمام لوگوں کی اسکریننگ کی جا رہی ہے۔جن میںتھوڑے علامات ہیں،ان کی نگرانی رکھی جا رہی ہے،جس سے انفیکشن نہ پھیلے۔وائرس کے پیش نظر دارالحکومت دہلی کے آج کئی علاقوں کوہاٹ اسپاٹ قرار دیاگیاہے ۔ان علاقوں کے بعد اب دہلی میں کل 43 ہاٹ اسپاٹ ہوگئے ہیں۔کل وزیراعلیٰ نے اشارہ دیاہے کہ دہلی میں لاک ڈائون بڑھایاجائے گا۔اس سے پہلی کئی ریاستیں لاک ڈائون تیس اپریل تک بڑھاچکی ہیں۔
شمالی مغربی ضلع میں مسجد پر حملے اور شمالی مشرقی ضلع میں گرفتاریوں پراقلیتی کمیشن کا پولیس کمشنر کو نوٹس
نئی دہلی:دہلی اقلیتی کمیشن نے پولیس کمشنر دہلی کو دو نوٹس بھیجے ہیں۔ پہلا نوٹس ۳اپریل کو بھیجا گیا جس میں کمیشن نے کہاہے کہ اس کو ای میل، فون اور وہاٹسیپ سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ شمال مشرقی ضلع میں موجودہ لاک ڈاؤن کے پہلے سے پولیس مسلم نوجوانوں کو روزانہ درجنوں کی تعداد میں گرفتار کررہی ہے۔ ۲ اپریل کی رات ۸ بجے مصطفی آباد میں خواتین نے اس قابل اعتراض عمل کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ نوٹس میں کمیشن نے مزید کہا کہ اس سے پہلے وہ اس مسئلے کے بارے ڈپٹی کمشنر شمال مشرقی ضلع کو لکھ چکا ہے کہ یہ عمل قابل قبول نہیں ہے۔نوٹس میں کمیشن نے پولیس کمشنر کو باخبر کیا کہ شمالی مشرقی ضلع کے کچھ لوگ یہ خطرناک الزام لگا رہے ہیں کہ کچھ پولیس افسران مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان سے بھاری رشو ت مانگتے ہیں اور دیے جانے پر انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔ کمیشن نے اپنے نوٹس میں کہا کہ پولیس کمشنر اپنے گراؤنڈ اسٹاف کو احکامات جاری کریں کہ شمال مشرقی ضلع میں اندھا دھند گرفتاریاں بند کریں اور صرف انھیں لوگوں کو گرفتار کریں جس کے خلاف کسی جرم کے ارتکاب کا ثبوت ہو۔ کمیشن نے اپنے نوٹس میں مزید کہا کہ لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے بعد وہ ان گرفتاریوں پر غور سے نظر ڈالے گا۔مذکوہ نوٹس میں کمیشن نے مزید کہا کہ اسے شکایت مل رہی ہے مسجدوں کو لاؤڈاسپیکر استعمال کرنے سے منع کیا جارہا ہے۔ کمیشن نے کہا کہ موجودہ لاک ڈاؤن کی بندشوں کے تحت ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ صرف چار لوگ ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ نوٹس میں کمیشن نے پولیس کمشنر کو بتایا کہ مسجدوں کے لاؤڈاسپیکروں کا یہ کام ہے کہ نماز کا وقت آنے پر اذان دیکر مسلمانوں کو بتادیا جائے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے، اس لیے اذان کو بند کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ کمیشن نے پولیس کمشنر کو ہدیت دی کہ تمام ایس ایچ اوز کو باخبر کردیا جائے کہ وہ لاؤڈاسپیکر کے استعمال کو بند کرنے پر اصرار نہ کریں اور اسی وقت ایکشن لیں جب موجودہ بندشوں کے دوران نماز کے لیے چار سے زیادہ لوگ مسجد میں جمع ہوں۔کمیشن نے اپنے نوٹس میں مزید کہا کہ بعض علاقوں میں گوشت کی دکانیں بند کی جارہی ہیں جو موجودہ لاک ڈاؤن کی بندشوں کے خلاف ہے کیوں کہ لاک ڈاؤن کے تحت کھانے پینے کی اشیاء کو بنیادی ضروریات میں شمار کیا گیا ہے اور انھیں بیچنے والی دکانوں کو بند نہیں کیا جاسکتا ہے۔اقلیتی کمیشن نے ۴اپریل کو بھیجے گئے اپنے دوسرے نوٹس میں پولیس کمشنر کو باخبرکیا ہے کہ اسے اطلاع اور ویڈیو ملا ہے جس کے مطابق شمال مغربی ضلع میں علی پور پولیس اسٹیشن کے تحت واقع مخمیلپور میں۳اپریل کی رات ۸بجے تقریباً دو سولوگوں کی بھیڑ نے ایک مسجد پر حملہ کردیا جبکہ مسجد کے اندر ۲-۳ لوگ موجودتھے۔ بھیڑ نے مسجد کو تہس نہس کیا، کچھ چیزوں کو آگ لگائی اور کچھ دیواروں اور چھت کو توڑ دیا۔ نوٹس میں کمیشن نے کہا کہ یہ بات غیر قابل یقین ہے کہ اس طرح کی چیز قومی راجدھانی میں واقع ہو۔ ایک مصنوعی تصفیے کے ذریعہ اس معاملے کی لیپا پوتی نہیں کی جاسکتی ہے جس میں ایک عبادت گاہ پر حملہ کیا گیا ہے، اسے جلایا گیا ہے اور توڑا گیا ہے۔ اگر حملہ آوروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو لاقانونیت عام ہوجائے گی۔ کمیشن نے اپنے نوٹس میں پولیس کمشنر سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس مسئلے میں مجرمین کے خلاف ایف آئی آر درج ہو تاکہ لوگوں کو عبرت ہو کہ ایسے جرائم پر سزا ملے گی۔ کمیشن نے اپنے نوٹس میں کہا کہ کچھ لوگوں کے دماغ میں یہ بات گھس گئی ہے کہ کمزور طبقات جیسے مسلمان، عیسائی، دلت اور ادیواسیوں کے خلاف کوئی بھی جرم کرکے وہ قانون کی پکڑ سے بچ سکتے ہیں۔
نئی دہلی:
دہلی اسمبلی کے نتائج کے ٹھیک بعد بی جے پی لیڈر کیلاش وجے ورگیہ نے ایک ٹویٹ کرکے سی ایم اروند کیجریوال پر طنز کساتھا۔انہوں نے لکھا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہنومان چالیسا کاسبق دہلی کے تمام اسکولوں، مدارس سمیت تمام تعلیمی اداروں میں ضروری ہو۔لگتا ہے عام آدمی پارٹی (آپ) نے بی جے پی لیڈر کی بات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کٹر ہندوتو کے ایجنڈے کو اپنانے کا فیصلہ کر لیاہے۔ آپ رکن اسمبلی سوربھ بھاردواج نے ایک دعوت نامہ چھپواکر اپنے علاقے کے لوگوں کو بھیجاہے۔انھوں نے ہر مہینے کے پہلے منگل کو اپنے علاقے میں اسے کرانے کا اعلان کیا ہے۔آپ کے اس قدم کو ہندوتو کے مسئلے سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔آپ نے یہ بھانپ لیا ہے کہ بی جے پی کے ہندوتوا کے آگے دوسری اپوزیشن پارٹیاں ٹک نہیں پا رہی ہیں۔ دہلی میں بھی ووٹنگ سے پہلے کیجریوال کے ہنومان چالیسا پڑھنے اور مندر جانے پر بی جے پی نے طنز کساتھا۔ ایسے میں آپ اب بی جے پی کے ہندوتوا کا جواب آپ ہندوتو سے دینے کی تیاری میں ہے۔دہلی میں جیت کے بعد اب آپ قومی سطح پر چھانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔قومی سطح پر کانگریس کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ایسے میں اگر آپ کو قومی سطح پر اترنے کی تیاری کرتی ہے تو اس کی سیدھی ٹکر بی جے پی سے ہوگی۔ بی جے پی کو ٹکر دینے کے لیے آپ کو کٹر ہندوتو کو اپنانے گریز بھی نہیں کر رہی ہے۔
انتخابات خواہ مرکزی یعنی لوک سبھا کے یا ریاستی یعنی ودھان سبھا کے ہوں ہر موقع پر خواہ مخواہ خامہ فرسائی کرتا رہا اور اتحاد اور صحیح لائحہ عمل بنانے کی ضرورت پر زور دیتا رہا اور اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہا کہ بی جے پی ٩٠- ٩٢ سے اس کوشش میں مصروف ہے کہ کس طرح اسے پارلیمنٹ میں absolute majority مطلق اکثریت حاصل ہو اور وہ انتخابی منشور میں کئے گئے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہناۓ۔ لیکن افسوس نہ کشمیر کے نام نہاد قیادت نے دہلی میں مرکزی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلے کے حل کی سنجیدہ کوشش کی اور نہ ملک کے طول و عرض میں غیر بی جے پی پارٹیوں نے بی جے پی کے مینی فیسٹو پر خاطر خواہ توجہ دی اور نہ ہی مسلمانوں نے کسی ایک سیکولر پارٹی کی جیت یقینی بنانے کے لئے اسٹریٹیجی بنائی۔ مسلمان ملک اور ملت کے عظیم ترین مفاد کے مقابلے اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے وقتی، غیر اہم سیاسی، مالی اور مقامی فائدے کو ترجیح دی۔ ہم میں اور غیروں میں فرق محسوس کرنا چاہتے ہیں تو بی جے پی کے کیڈر اور کور ووٹرز کے بیانات سنیں۔ بڑے مفاد کی خاطر چھوٹے مفاد کی قربانی کا جذبہ ان میں ہے اس لئے وہ کہ رہے ہیں کہ مفت یا سبسیڈی والی بجلی پانی دوا علاج ہمارے لئے اس لئے اہمیت نہیں رکھتے ووٹ دینے کی وجہ نہیں بنتے اس لئے کہ ان سب سہولیات سے اوپر دیش ہے اور دیش کی ترقی اور سلامتی کے لئے بی جے پی ہی اہل ہے۔
۔ بی جے پی جیسی آئیڈیالوجی پر مبنی آر ایس ایس کی پشت پناہی والی ایک منظم پارٹی کا غیر بی جے پی پارٹیوں نے منتشر رہ کر مقابلہ کرنا کیوں پسند کیا اس پر سوالیہ نشان ہے؟ لیکن مسلمانوں نے اپنی سیاسی بصیرت کا استعمال کیوں نہیں کیا یہ اس سے بڑا سوال اس لئے ہے کہ بی جے پی پچھلے کئی سالوں سے معلنہ اور غیر معلنہ طور پر اپنے ارادوں کا انکشاف کرتی رہی ہے۔ اور اب جب اسے پارلیمنٹ میں نصف سے زیادہ اور اس کے حلیف پارٹیوں کے ساتھ دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی تو اپنے ایجنڈے پر عمل شروع کر دیا۔ بی جے پی کی باتوں وقت رہتے سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا گیا۔ سیاسی شعور کی کمی یا ذاتی مفاد اور مصلحت ؟
آج شہریت ترمیمی بل دو تہائی اکثریت کی حمایت سے ایکٹ بن گیا ہے۔ دو تہائی اکثریت سے دستور میں ترمیم کی اجازت ہے۔ (چند بنود جو اس دستور کے بنیادی ڈھانچے اور روح کو متاثر نہ کرے کے استثناء کے ساتھ) اب مسئلہ عدالت عظمیٰ کے زیر غور ہے کہ ترمیم شدہ ایکٹ دستور کی روح کے منافی ہے یا نہیں یہ مذہب کی بنیاد پر تفریق بھید بھاؤ کرنے والا ہے یا نہیں ؟ اس سے قطع نظر یہ ترمیم شدہ ایکٹ مسلمانوں کے لیے بلا شبہ توہین آمیز ہے اس لیے کہ اس میں ہندو،بودھ، سکھ، جین،پارسی اور عیسائی کا ذکر ہے مگر مسلمان کا نہیں۔ وجہ اعتراض یہی ہے۔ اگر یہ لکھا جاتا کہ ان تین ممالک کی مذہبی اقلیتوں کو شہریت دی جائے گی تو شاید اتنا واویلا نہیں ہوتا۔
پارلیمنٹ میں اس طرح کے بل پیش کرنے اور ایکٹ بنانے کی قوت کس نے فراہم کی ؟ ظاہر سیکولر پارٹیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے انتشار نے۔
آج مسلمان اپنی سماجی اور معاشی صورتحال کو سنوارنے اور اپنے علاقے کے لئے تعلیم ، صحت، سڑک بجلی پانی اور سیوریج کا مطالبہ کرنے کے بجائے اس ملک میں بحیثیت شہری اپنے وجود کی بقاء کی لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں۔۔ سی اے اے سے ہندوستانی مسلمان متاثر ہوں گے یا نہیں ؟ ہندوستانی مسلمان ہونے کا ثبوت کیا ہے ؟ این آر سی میں کن معلومات کو فراہم کرنا لازمی ہے ؟ این پی آر اگر مردم شُماری ہے تو یہ تو ہر دس سال میں ایک بار ہوتی ہے تو حسب معمول مردم شُماری کی جگہ اس کے لئے نئے معلومات کی ضرورت کیوں ہے ؟
کوئی سرکاری عملہ تحریری طور پر اس کی وضاحت نہیں کرتا اور لوگوں میں قیاس آرائیوں کی بنیاد پر بجا یا بے جا ابال ہے ۔۔ آسام این آر سی کی مثال لوگوں کے سامنے ہے اس کی روداد پڑھ کر اور سن کر لوگ سہمے ہوئے ہیں۔
ابھی یونیفارم سول کوڈ اور نہ جانے کیسے کیسے تیر ترکش میں اور بھی ہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ جمہوری نظام میں سر گنے جاتے ہیں اور اکثریت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ تو پارلیمنٹ میں یہ ہوتی ہے ووٹ کی طاقت۔ اسی لئے بہت سے پولیٹیکل سائنس کے ماہرین کا ماننا ہے کہ مطلق اکثریت حکمران کو مطلق العنان ڈکٹیٹر بنا دیتی ہے۔ اس مطلق العنانیت سے باز رکھنے کے کنجی آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ نے وقتی اور ذاتی مفاد کی خاطر گنوا دیا۔
اپنی تدبیر سے دیکھے ہیں دن بربادی کے
اور کہتے ہیں کہ تقدیر کا لکھا دیکھا
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)