مسعود جاوید
عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال نے شروع سے ہی ایک موقف اختیار کیا تھا کہ ان کی پارٹی مذہب کی سیاست نہیں کرے گی۔ چنانچہ ٢٠١٥ میں جب دہلی جامع مسجد کے امام احمد بخاری نے ملاقات کرنے اور تائید میں بیان دینے کی پیشکش کی تو کیجریوال نے مؤدبانہ معذرت کرلی۔ لیکن بعض چینلز نے ، حسب عادت, معذرت کی خبر چھپا کر ناظرین کو بتایا کہ "شاہی امام کی طرف سے عاپ کی حمایت میں فرمان جاری”.
اس بار انتخابی مہم کے دوران ایک مجلس میں اروند کیجریوال نے ہنومان چالیسہ پڑھ کر سنایا جیت حاصل ہونے کے بعد جشن میں اسٹیج سے ہنومان جی کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد ہنومان مندر بھی گۓ پیشانی پر تلک ٹیکہ بھی لگایا۔ووٹنگ کے دن بوتھ کے آس پاس جب جے شری رام کے نعرے لگائے جانے لگے تو سوربھ بھاردواج اور ان کے ساتھیوں نے جے بجرنگ بلی کا نعرہ لگایا۔ کیجریوال اور ان کے ساتھیوں کے اس قسم کے تصرفات کو جہاں بی جے پی اور کانگریس والے سیاسی مدعا بنانے کی کوشش کر رہے اور ہندوتوا کی طرف بڑھتے قدم بتا رہے ہیں وہیں مسلمانوں کے بعض حلقوں میں اسے "سافٹ ہندوتوا ” اور کیجریوال کی پینٹ کے نیچے بھگوا چڈی کی بات کر رہے ہیں۔
١- اپنی پسند کے مذہب اور عقیدے کی اتباع کرنے کے حق کی ضمانت ہندوستان کا دستور ہر شہری کو دیتا ہے۔ تاہم یہ فرد اور اس کی ذاتی زندگی کے ساتھ خاص ہے۔ کسی اور پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔
٢- سیکولرازم کا مفہوم قطعاً لا دینیت نہیں ہے۔ اس معنی میں دیکھا جائے تو کیجریوال یا کسی بھی شخص کو مذہبی شعائر اپنانے اور کٹر دھارمک ہونے پر تنقید کرنا درست نہیں ہے۔
٣- سیکولرازم میں ریاست اور حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا دوسرے لفظوں میں ریاست اور حکومت کسی مذہب کے فروغ کے لیے یا کسی مذہب کے خلاف کام نہیں کر سکتی۔ حکومتی دفاتر میں کسی مذہبی شناخت علامت نمایاں نہیں کی جاتی ۔ ہاں ذاتی زندگی میں حکومت کے کارندوں کو اپنے مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے۔
٤- موجودہ دور میں بلکہ بہت پہلے سے یہ روش مسلم طور پر رائج ہے کہ اپوزیشن کا کام ہی ہے حکومت کے ہر اچھے برے کام کی تنقید کرنا اس لئے اپوزیشن کی طرف سے نکتہ چینی تو سمجھ میں آتا ہے مگر مسلمانوں کو ان کے سر میں سر ملانے کی کہاں تک گنجائش ہے ؟
٥- ہمارے حلقہ سے کامیاب ہونے والے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے پچھلی بار نتائج کے اعلان کے بعد سب سے پہلے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شاہین مسجد جا کر نماز شکرانہ ادا کیا تھا اس وقت مسلمانوں نےان کے اس فعل کی بہت تعریف کی تھی لیکن یہی کام کیجریوال یا سوربھ بھاردواج نے اس بار کیا تو اعتراض کیوں ؟
٦- یہ صحیح ہے کہ آنجہانی اندرا گاندھی نے جب کسی سرکاری عمارت کے افتتاح کے موقع پر ناریل توڑا تھا تو ان پر اعتراض ہوا تھا اور آج بھی سیکولرازم کی اسی روح کی توقع کی جاتی ہے کہ سرکاری کاموں میں کسی مذہب کی علامت کا استعمال نہیں کیاجاۓ اس لئے کہ سرکار کسی مخصوص عقیدہ والوں کی نہیں مختلف مذاہب کے ماننے والے تمام ہندوستانیوں کی ہے۔ اسی تناظر میں پچھلے دنوں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے رافائل جنگی طیارہ پر لیموں اور ہری مرچ رکھا اور مذہبی علامت سواستیکا لکھا تو اعتراض کیا گیا.
٧- جے شری رام جے ہنومان جیسے نعروں کی بجائے دہلی میں عاپ کی حکومت کی کارکردگی بالخصوص رفاہی ریاست welfare state کے بنیادی کاموں بجلی پانی سڑک سیوریج اسکول ہسپتال بس سروس سی سی ٹی وی کیمرے، کا جائزہ لینا عام شہریوں کے لیے زیادہ مفید ہوگا۔
کرونولوجی سمجھیں۔ کانگریس پارٹی نے کھل کر کبھی کسی مذہب یا مذہبی کمیونٹی کے خلاف کوئی کام یا بات نہیں کی۔ دوسری طرف اس نے اپنی مسلم دوستی ظاہر کرنے کے لئے کئی ایسے غیر ضروری علامتی حرکتیں کی جیسے افطار پارٹی ٹوپی مزاروں پر حاضری اور چادر پوشی اور ” نامی گرامی مسلم لیڈروں اور مولاناؤں” سے شو کیس سجانا، اس سے خود فریب مسلمان خوش اور شاطر مخالف پارٹی کو تنقید کا موقع ملا۔ چنانچہ کانگریس پارٹی کو مسلم نواز پارٹی اور اقلیت پرست کا طعنہ اس قدر دیا گیا کہ کانگریس تو کانگریس دوسری سیکولر پارٹیاں بھی مسلمان اور مسلم مسائل پر بات کرنے سے ڈرنے لگے۔
اس کے بعد سیکولرازم کو نشانہ بنایا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ سیکولرازم پس پردہ ایک ہندو مخالف نظریہ ہے اور یہ کہ اس کا فائدہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ہوتا ہے۔
کیجریوال نے کانگریس کا حشر دیکھا اسے ہندو سماج سے کاٹنے کی چال کو سمجھا اور فرقہ پرست عناصر کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ہر اس قول و فعل سے بچتے رہے جس سے ان کو ” مسلم نوازی” کی جال میں پھنسایا جا سکے۔ سی اے اے کے خلاف پارلیمنٹ میں عاپ نے ووٹ کیا اسی تناظر میں نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ جامعہ کے مظاہرین کے ساتھ ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی بہتری – تعلیمی اور انفراسٹرکچر- اس بار دہلی انتخابی مہم کی جان تھی اس کے ہیرو منیش سسودیا ہیں مگر جامعہ کے تعلق سے ان کے بیان کی سزا یہ دی گئی کہ آخر وقت تک ان کے مخالف امیدوار کافی ووٹوں سے آگے رہا اور منیش کی جیت غیر یقینی تھی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)