پٹنہ:امیر شریعت بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ مولانا محمد ولی رحمانی نے موجودہ حالات میں جب کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہر طرف خطرناک صورت حال بن چکی ہے، مسجدوں میں جمعہ و جماعت کے تعلق سے امارت شرعیہ کی طرف سے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ مختلف مقامات سے برابر فون آرہے ہیں ا ور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں جب کہ کورونا وائرس کا عذاب بہار پہنچ چکا ہے اور لوگوں کی موت شروع ہوچکی ہے، حکومت بہار نے احتیاطی طور پر لازمی خدمات کے شعبوں کو چھوڑ کر تمام شعبوں کو بند کر دیا ہے، ایسی خطرناک صورت حال میں مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے سلسلہ میں کیا ہدایت ہے؟
اس سلسلہ میں دفتر امارت شرعیہ میں نشست ہوئی، جس میں میرے علاوہ حضرت قاضی شریعت، حضرت مفتی صاحب اور تمام مفتی وقاضی صاحبان، نیز علماء کرام نے شرکت فرمائی اور تفصیلی غور و خوض اور گفتگو کے بعد یہ ہدایت نامہ جاری کیا گیا کہ:
مسجدوں کی تعمیر ہی جماعت کے لیے کی جاتی ہے اور مسجد کو آباد کرنا ایمان والوں کی اہم ذمہ داری ہے، لیکن موجود ہ حالات میں نماز گھروں میں بھی پڑھی جا سکتی ہے، گھر میں نماز ادا کرنے سے نماز ہو جائے گی، اور گھر میں نماز پڑھنے والوں کو ثواب ملے گا۔مگر مسجدوں کو بند کرد ینا یا جماعت کاانتظام نہ کرنا غلط ہو گا۔مسجدوں میں اذان کی پابندی ہو نی چاہئے، جمعہ وجماعت کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے، چاہے نمازیوں کی تعداد تھوڑی ہو۔
احتیاط کے طور پر صفوں میں فاصلہ بڑھانا چاہئے، بوڑھوں، مریضو ں، بچوں اور ان جوانوں کو جنہیں بخار، نزلہ زکام یا بدن میں اینٹھن ہو، انہیں گھر میں ہی نماز پڑھنی چاہئے۔احتیاط کے پیش نظر جوان حضرات بھی گھر میں فرض نماز ادا کر سکتے ہیں، ان کی نما ز بلا کراہت درست ہو گی۔صابن سے ہاتھ دھو کر،وضو پور ا کر کے سنتیں گھر میں ادا کی جائیں اور مسجد میں نماز ادا کرنے والے صرف فرض نماز باجماعت مسجد میں ادا کریں، سنت اور نفل گھر میں آکر پڑھیں، مصافحہ اور معانقہ سے بچیں۔ ایسے نازک موقعہ پر ہر مرد و عورت کو استغفار کا اہتمام کرنا چاہئے اور اللہ کی طرف انفرادی طریقہ پر رجوع کرنا چاہئے۔
Crona virus
اسپتال پرکم بوجھ ڈالنے کی اپیل، چندہفتومیں مکمل احتیاط پرزور،ذخیرہ اندوزی کی ضرورت نہیں،ملازمین کے ساتھ رعایت ہو
نئی دہلی۔۱۹؍مارچ: آج شام وزیراعظم نریندرمودی نے قوم سے خطاب کیا۔اپنے خطاب میں انھوں نے آنے والے چندہفتوں تک عوام سے احتیاطی تدابیراپنانے پرزوردیاہے۔اوراتوارکے دن ’’جنتاکرفیو‘‘کااعلان کیاہے۔ انھوں نے کہاہے کہ ہم بہت محتاط ہوگئے ہیں۔لیکن ایسالگتاہے کہ ہم مطمئن ہوگئے ہیں لیکن ہمیں مطمئن نہیں ہوناہے۔ہم نے جب بھی اہل وطن سے جوکچھ مانگاہے،کسی نے ہمیں مایوس نہیں کیاہے۔میں ایک سوتیس کروڑبرادران وطن سے کچھ مانگنے آیاہوں۔مجھے آپ کے آنے والے کچھ ہفتے چاہئیں۔آنے والاکچھ وقت چاہیے۔انھوں نے ایک دن کے لیے جنتاکرفیولگانے کااعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ میںجنتاکرفیومانگ رہاہوں۔جنتاکے لیے جنتاکے ذریعہ خودپرلگایاگیاکرفیو۔اتوارکوبائیس مارچ کوصبح سات بجے سے رات نوبجے تک جنتاکرفیوپرعمل کرناہے۔اس درمیان کوئی بھی شہری گھرسے باہرنہ نکلے،ضروری وجہ سے جانامجبوری ہے۔بائیس مارچ کوہماری یہ کوشش ایک علامت ہوگی کہ ہم کتنے محتاط ہیں۔ان تجربات سے ہمیں آنے والے چیلنجزسے نمٹنے میں معاونت ملے گی۔انھوں نے اپیل کی ہے کہ ادارے ملازمین کے ساتھ نرم برتائواپنائیں۔ذخیرہ اندوزی سے بچیں۔ریاستی حکومتیں بھی ان پرعمل کرانے کی کو ششیں کریں۔ساری تنظیمیں اورمذہبی ادارے ابھی سے لے کراتوارتک جتناکرفیوکاپیغام لوگوں تک پہونچائیں۔روٹین چیک اپ کے لیے اسپتال جانے سے بچنے کی کوشش کریں۔اسپتال پرزیادہ زورنہ ڈالیں۔کسی ضروری سرجری کوبھی ملتوی کرسکتے ہیں۔اس سے بھی ملک کے خزانہ پراثرپڑرہاہے۔انھوں نے کہاہے کہ ابھی تک سائنس کوروناسے بچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں نکل سکاہے۔ایسے حالات میں ہرکسی کی بے چینی بڑھنی فطری ہے۔دنیاکے جن ممالک میں کوروناوائرس زیادہ دیکھاجارہاہے وہاں ایک بات اورسامنے آئی ہے ،ان ممالک میں شروعاتی دنوں کے بعداچانک اضافہ ہواہے۔بھارت سرکاران حالات پرگہری نظررکھی ہوئی ہے۔حالاں کہ ملک ایسے بھی ہیں جنھوں نے ضروری فیصلے بھی کیے ہیں۔اوراپنے یہاں کے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ نگرانی کرکے حالات کوسنبھالاہے اس میں شہریوں کی حصہ داری اہم رہی ہے۔ہم ترقی پذیر ملک ہیں۔ہم پرایسی حالات عام نہیں ہیں۔جب ترقی یافتہ ممالک کی یہ حالت ہوئی توبھارت پراثرنہیں ہوگایہ مانناغلط ہے۔دوباتوں پرتوجہ ضروری ہے۔پہلاسنکلپ اوردوسراسنیم،وعدہ اوراحتیاط ضروری ہے۔پہلے ہمیں اپنی ذمے داریوں کااحساس کرناہوگا۔مرکزاورریاستی حکومتوں کی ہدایات پرعمل کریں۔ہم خودمتاثرہونے سے بچیں گے اوردوسروں کوبھی بچائیں گے۔بوڑھوں کوگھرسے نہ نکلنے دیں۔اس طرح عالمی وبامیں ایک ہی چیزکام آتی ہے ہم صحت مندتودنیاصحت مند۔خودکے صحت مندرہنے کے لیے ضروری ہے احتیاط ۔بھیڑسے بچنا،گھرسے باہرنکلنے سے بچنا،سوشل کاموں سے بچنا،یہ سب سے زیادہ اہم اورمفیدہے۔ہماری یہ احتیاط بہت مفیدہوگی۔لاپرواہی سے آپ اپنے ساتھ ناانصافی کریں گے۔ہماری اپیل ہے کہ آنے والے کچھ ہفتوں تک جب بہت ضروری ہو،تبھی گھرسے باہرنکلیں۔جتناممکن ہوسکے۔گھرمیں ہی کریں۔چاہے بزنس یاآفس سے جڑاہو۔جوسرکاری اداروں یااسپتال میں ہیں یاعوامی نمائندے ہیں ان کے لیے تومجبوری ہے۔باقی لوگوں کوبھیڑبھاڑسے بچناضروری ہے۔میں ایک اورمعاونت چاہتاہوں ،ہم اتوارکواپنے گھرکے سامنے پانچ منٹ تک پانچ بجے شام میں ایسے لوگوں کاشکریہ اداکریں جنھوں نے ان کاموں میں معاونت کی ہے۔
پچھلے دوماہ سے عالم گیر سطح پر’کرونا‘ نامی وبائی بیماری انسانی معاشرہ پر حملہ آور ہے، ہرکوئی اس بیماری کا نام سنتے ہی خوف وہراس میں مبتلا ہے،سعودی عرب سمیت متعددممالک نے احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے زائرین ومسافرین کی آمد پر روک بھی لگادی ہے۔ذرائع کے مطابق دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک چین سے شروع ہونے والا یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ آور ہوکر ہلاکت کی وجہ بنتا ہے،تاہنوزہزاروں افراد اس کے سبب موت کا لقمہئ تر بن چکے ہیں۔کسی بھی وائرس کے بارے میں جب تحقیق کی جائے تو اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ وائرس کہاں سے آیااور کس طرح پھیلنا شروع ہوا؟۔واضح رہے کہ زیادہ تر وائرس جانوروں میں پائے جاتے ہیں؛ لیکن ان کے متعلق معلومات تب حاصل ہوتی ہیں جب یہ انسانوں میں منتقل ہوں۔ایڈز افریقہ کہ جنگلات میں موجود بندروں کی ایک بیماری تھی؛مگر جب یہ انسانوں میں منتقل ہوئی تب اس کے متعلق تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔کرونا وائرس کے بارے میں بھی گمان یہی ہے کہ یہ جانوروں میں پائے جانے والا ایک وائرس ہے جو انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔اس وائرس کی اطلاع سب سے پہلے 7/جنوری 2020کو چین کے محکمہ صحت نے دی، عالمی ادارہ صحت نے 31دسمبر کو ہی چین کو اس خطرناک وائرس سے آگاہ کردیا تھا۔ اس بیماری کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ابتداء میں سردی، زکام، بخار، کھانسی یا سانس لینے میں تکلیف کا احساس ہوتا ہے، مگر جب یہ بیماری مریض کو پورے طریقے سے اپنے گرفت میں لے لیتی ہے تو وہ شخص نمونیا اور تنفس میں شدید دقت سے دوچار ہوجاتا ہے بعدازاں گردے فیل ہونے سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔اللھم احفظنا منہ
کیا بیماریاں متعدی ہوتی ہیں؟
یوں توبیماری اور شفاء اللہ کے قبضہئ قدرت میں ہے،وہ جسے چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صحت جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرماتاہے،اللہ تعالی نے ہر بیماری کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی نازل فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد نبویﷺہے: ’’اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دوا نازل کی ہے،یہ الگ بات ہے کہ کسی نے معلوم کر لی اور کسی نے نہ کی‘‘(مستدرک حاکم)جہاں بیماری کا لاحق ہونا مشیت ایزدی پر موقوف ہے،وہیں بیماری کا متعدی ہونابھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ناممکن ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لا عَدْوٰی“-چھوت، یعنی کسی بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا(بخاری)، اس لیے مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی۔(بخاری) تاہم انسان کمزور صفت وکمزور عقیدہ واقع ہوا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی طبیعت اور اس کی فطرت کا خیال رکھتے ہوئے اسے حکم دیا ہے کہ”مجذوم یعنی کوڑھ کے مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو۔“(بخاری)اس حکم کامقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ انسان کا ایمان کمزور نہ ہوجائے، اور توحید کے سلسلے میں وہ شکوک وشبہات میں مبتلا نہ ہوجائے، یعنی کمزور عقیدے والاانسان، خارش زدہ، یا کوڑھ کے مریض کے ساتھ رہتے ہوئے اگر اس بیماری میں مبتلا ہوجائے گا، تو کہے گا کہ کھُجلی اور کوڑھ والے کی صحبت کی وجہ سے مجھے بھی بیماری لگ گئی ہے، اسی طرح طاعون وپلیگ کی بیماری کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ”جس شہر میں طاعون پھوٹ پڑا ہو، وہاں مت جاؤ، اوراگر پہلے سے اس شہر میں ہوں، تو وہاں سے باہر نہ جاؤ“(بخاری)، کیوں کہ شہر میں جانے سے اگر وہ بیماری بہ تقدیر الٰہی لاحق ہوگئی، تو کمزور ایمان والا سمجھے گا کہ فُلاں شخص شہر میں آیا، تو اس کی وجہ سے بیماری لگ گئی، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدے کی خرابی سے بچانے کے لیے سدّ باب کے طور پر اُس شہر میں جانے سے ہی منع فرمادیا۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ احادیث کے درمیان باہم کوئی تعارض نہیں ہے۔ایک تو (لا عدوی ولاطیرۃ)والی حدیث ہے کہ کوئی بیماری کسی دوسرے کو متعدی نہیں ہوتی؛لیکن دوسری احادیث بھی ہیں جس میں جذام کے مریض سے دور رہنے کا حکم ہے۔لہذا محدثین نے دونوں قسم کی احادیث میں تطبیق دی ہے۔ابن الصلاح ؒ اور امام بیہقی ؒ وغیرہ علماء نے دونوں قسم کی احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احادیث میں تعدیہ (contagious)امراض کی نفی ہے۔ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی بیماری اور مرض میں بالذات یہ تاثیر نہیں ہوتی کہ وہ دوسرے شخص کی طرف منتقل ہوجائے۔زمانہئ جاہلیت میں لوگوں کا یہی خیال تھا کہ امراض میں دوسرے کی طرف منتقل ہونے کی ذاتی تاثیر اور صلاحیت ہوتی ہے۔وہ امراض کو بالذات متعدی (contagious) سمجھتے تھے۔حضورﷺ نے اس کی نفی فرمائی اور جن احادیث سے تعدیہ امراض کا ثبوت معلوم ہوتا ہے وہ ظاہری سبب کے اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظاہری سبب کے طور پر بعض امراض میں تعدیہ کا وصف پیدا فرمایا ہے کہ دوسرے کی طرف منتقل ہوسکتے ہیں لیکن سبب حقیقی اور مؤ ثر اصلی کے طور پر یہ وصف ان میں نہیں۔لہذا نفی سبب حقیقی ہے اور اثبات سبب ظاہری کا ہے۔اس لئے دونوں قسم کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں۔جمہور علماء نے اسی توجیہ کو اختیار کیا ہے۔(فتح الباری)
احتیاطی تدابیر:
آپﷺنے اپنی حیات میں جہاں روحانی اور باطنی بیماریوں کے حل تجویز فرمائے وہیں جسمانی اور ظاہری امراض کے لیے بھی اس قدر آسان اور نفع بخش ہدایات دیں کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کر لے؛مگر ان سے سرمو انحراف نہیں کر سکتی۔یہی وجہ ہے کہ مسلم اطباء نے اس کو موضوع بحث بنایا؛جس کے سببب نہ صرف طب کے میدان میں نئی نئی تحقیقات منظرعام پر آئیں؛ بلکہ بہت ساری نئی نئی ادویات بھی متعارف ہوئیں، بہت سے لاعلاج امراض کا علاج دریافت کیاگیا، یونانی کتابوں کے عربی ترجمے کیے، ہسپتال اور شفاخانے قائم کیے اور طب کو خیالی مفروضوں سے نکال کر ایک عملی سائنس کی شکل دی۔ گویا اسلام اور اگلے دور کے مسلمان صحت عامہ کے بارے میں غیرمعمولی حد تک سنجیدہ اور حساس رہے۔ہمارا دین جدید دور کے علاج معالجے کی سہولتوں کے استعمال کا مخالف نہیں ہے؛ بلکہ ان سے استفادہ کاامر کرتا ہے، فرمان نبوی ہے:علم وحکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے، اس کو جہاں ملے اس سے استفادہ کی کوشش کرے۔
بیماریوں اور وباؤں سے حفاظت کے لیے روزانہ کم ازکم پانچ مرتبہ وضو کرنا، سونے قبل ضروریات سے فراغت حاصل کرنا،جنسی عمل کے بعد لازماً غسل کرنا، بالوں او ر ناخنوں کی تراش خراش کرنا، منہ، ناک اور کان کی صفائی کرنا، صاف ستھرا لباس پہننا، کھانے سے پہلے اور بعدمیں ہاتھ دھونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہزاروں سال سے ہمارے دین کا لازمی حصہ ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بھی ان چیزوں کا حکم دیا گیا تھا۔ دور جدید کے ہائی جین کے اصول بھی انہیں باتوں کی تلقین کرتے ہیں۔
ظاہری شکل و شباہت کے علاوہ جسمانی صحت بھی شخصیت کا اہم ترین پہلو ہے، اگر انسان صحت مند نہ ہو تو وہ کسی کام کو بھی صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتا، دین نے اپنی صحت کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی ہے اور ایسی تمام چیزوں سے روکا ہے جو صحت کیلئے نقصان دہ ہوں۔
حفظانِ صحت میں خوراک، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، متوازن خوراک اور معتدل وپاکیزہ غذاسے انسان کی صحت برقرار رہتی ہے، وہ مناسب طور پر نشوونما پاتا ہے اور محنت کی قابلیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس بارے میں قرآن نے صرف تین جملوں میں طب قدیم اور طب جدید کو سمیٹ لیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:’’کھاؤ، پیو اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (الاعراف)یہ تینوں وہ مسلمہ اصول ہیں جن میں کسی کا بھی اختلاف نہیں؛کھانا پینا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، اور نہ اپنے فرائض منصبی سے بہ طریقِ احسن عہدہ برآ ہوسکتا ہے، البتہ اس میں حلال و پاکیزہ کھانے اورکھانے میں اعتدال سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ حرام و خبیث کھانے اسی طرح نہ کھانے، یا ضرورت سے کم کھانے سے جسمِ انسانی بیمار پڑ جاتا ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے معدہ پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور معدہ کی خرابی تمام امراض کی جڑ ہے، حضور ﷺکا ارشاد ہے:’’معدہ بدن کے لیے تالاب ہے اور رگیں اسی کی طرف جسم کے مختلف حصوں سے وارد ہیں، جب معدہ صحیح حالت میں ہو تو رگیں بھی جسم کے تمام حصوں کوصحیح خون مہیا کرتی ہیں اور جب معدہ بیمار پڑ جائے تو اس سے رگوں کے ذریعے تمام جسم بیمار پڑ جاتا ہے“۔(طبرانی۔ المعجم الاوسط)
وبائی امراض کے پھیلنے میں گھر اور ماحول کی گندگی اور خرابی کا بھی بڑادخل ہے۔اسلام نے انسانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پوری زندگی پاک و صاف ہونی چاہیے۔ارشادربانی ہے:ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین(البقرۃ)”اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو توبہ کا رویہ اختیار کریں اور خوب پاکیزہ رہیں“۔ایک حدیث میں طہارت و نظافت پر نبیِ کریمﷺنے فرمایا:”پاکی نصف ایمان ہے“(مسلم)مزید اس جانب توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پاک و صاف ہے اور پاکی و صفائی سے محبت رکھتا ہے، کریم اور سخی ہے، کرم اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے، اس لیے اپنے گھر بار، صحن (اور گلی کوچوں)کو صاف ستھرا رکھو۔‘‘(مسندبزار)معلوم ہوا کہ صفائی کا اہتمام دین اسلام کا جزو لاینفک ہے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ حق تعالی سے عافیت طلب کریں،صبح وشام کی مسنون دعاؤں کااہتمام کریں!بہ طور خاص سورت الفاتحہ،آیت الکرسی اور چار قل پڑھ کر پورے جسم پر دم کرلیں۔بسم اللہ الذی لایضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم صبح و شام تین تین مرتبہ اس یقین کے ساتھ پڑھیں کہ حکم الہی کے بغیردنیا کی کوئی چیز مجھے نقصان نہیں پہونچاسکتی۔
اگرہم نے مذکورہ بالا ہدایات پر عمل پیراہونے کا التزام کیا تو امیدہے کہ بڑی حد تک وبائی امراض اورکئی ایک آفتوں سے محفوظ رہاجاسکتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
غوث سیوانی، نئی دہلی
email:[email protected]
کرناوائرس دنیا کے سرپر موت کا سایہ بن کر منڈلا رہا ہے۔کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا علاج کیاہے اور اس سے کیسے بچاجائے؟ اب تک ہزاروں افراد اس مہلک وائرس سے مرچکے ہیں اور دنیا کے ستر سے زیادہ ملکوں کے لوگ اس کا شکار ہوچکے ہیں۔اربوں ڈالر کا اقتصادی نقصان، دنیا برداشت کر چکی ہے اور پتہ نہیں کہ کب تک یہ وائرس دنیا میں تباہی پھیلاتا رہے گا۔ آج صورت حال غیریقینی ہے اور میڈیکل سائنس کے شعبے میں ترقی یافتہ دنیا بھی سمجھ نہیں پارہی ہے کہ اس بربادی سے بچنے کے لئے کیا قدم اٹھایا جائے۔تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود نہ تو اس خطرناک وائرس کو ختم کیا جاسکا ہے اور نہ اس سے نجات کا راستہ دکھ رہاہے۔ یہی سبب ہے کہ اسے عذابِ الٰہی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔حالانکہ میرا ماننا ہے کہ یہ عذاب نہیں بلکہ عذاب کی تنبیہ ہے۔ ماضی میں نافرمان قوموں کو اللہ تعالیٰ نے کبھی آسمانی آفتوں سے تباہ کیا تو کبھی امراض کے ذریعے نیست ونابود کیا۔ آج بھی ارضِ خدا انسان کی سرکشی اور نافرمانی کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر زمین کے بسنے والوں پرعذابِ الٰہی نازل ہوتا ہے تو تعجب کیا ہے؟
دنیا میں دہشت
چین سے امریکہ تک اور کوریاسے ایران تک کروناوائرس کے سبب ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ دہشت اس قدر زیادہ ہے کہ اشیاء کی درآمد اور برآمد کو بھی روک دیا گیا ہے۔علاوہ ازیں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے اتلاف کابھی خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس کی زد میں بھارت اور پاکستان کے آنے کا اندیشہ سب سے زیادہ ہے کیونکہ دونوں ہی چین کے پڑوسی ممالک ہیں۔ حالانکہ اچھی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہی ملک اب تک محفوظ ہیں۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق اب تک دنیا کے کم از کم ستر ملکوں میں وائرس پہنچ چکا ہے اور ترقی پذیرملکوں میں مہاماری کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔اس کا آغاز چین میں ہوا اور سب سے زیادہ اموات بھی وہیں ہوئیں۔چینی صدرنے کہاتھا کہ ہم اس ’شیطانی چمگادڑ‘سے لڑینگے اور جیت حاصل کریں گے۔‘ چین اب بھی اپنے صدر کے قول پر عمل کی کوشش کر رہاہے۔
ماہرین کے مطابق کرونا وائرس سانپ اور چمگادڑکے گوشت میں پایاجاتا ہے۔ چین میں یہ گوشت لوگوں کی خوراک کا حصہ ہے لہٰذا آسانی کے ساتھ یہ آدمی کے بدن میں پہنچ گیااور اب پوری دنیا اس کے نشانے پر ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ موتیں ’پلیگ‘ سے ہوئی تھیں جو چوہے سے انسان تک پہنچا تھا اور اب اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر کنٹرول میں تاخیر ہوئی تو اس سے بھی زیادہ موتیں کرونا وائرس سے ہوسکتی ہیں۔ یہ خدشہ اس لئے بنا ہوا ہے کہ چین کی تمام ریاستوں میں پھیل چکا ہے، جو دنیا کا سب سے زیادہ آباد ی والاملک ہے، اور یہاں سے جانے والے مسافروں کے ذریعہ دوسرے ممالک میں دستک دے چکا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ایک متعدی بیماری ہے اور اس سے بچنے کے لئے چین میں درجنوں شہروں کو سیل کردیا گیا ہے اور کروڑوں افراد کوپا بندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پھر بھی سرکاری اعداد کہتے ہیں کہ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب تک جرمنی، فرانس، جنوبی کوریا، جاپان، نیپال، تھائی لینڈ، تائیوان، آسٹریلیا، امریکہ،اٹلی، سنگاپور اور ویتنام نے اپنے ہاں کرونا وائرس کی تصدیق کردی ہے جب کہ جنوبی کوریا اور ایران میں بہتوں کی موتیں بھی ہوچکی ہیں۔ ایرانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ دوسو سے زیادہ افراد،ایران میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ دہشت کا یہ عالم ہے کہ لوگ مسجدوں میں اجتماعی طور پر نماز کی ادائیگی سے بھی بچ رہے ہیں۔ ادھر احتیاط کے طور پر سعودی عرب نے عمرہ وزیارت کے لئے ویزا دینا بند کردیا ہے۔
بھارت اور پاکستان میں دہشت
ہندوستان اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں کرونا وائرس کے چند معاملے ہی سامنے آئے ہیں۔یہ معاملے بھی ان لوگوں میں پائے گئے تھے جو چین، اٹلی وغیرہ سے آئے ہیں۔حالانکہ ایسے لوگوں کوعلاج کے بعد اسپتالوں سے چھٹی بھی دیدی گئی ہے۔ باوجود اس کے حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ نمٹنے کی تمام تیاریاں کرلی گئی ہیں اور چین ودوسرے ملکوں سے آنے والے مسافروں کی خصوصی نگرانی کی جارہی ہے۔ ادھر پاکستان میں زیادہ خوف ودہشت ہے کیونکہ اس کی سرحد، چین سے ملتی ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات زیادہ بہتر ہیں تو سرحد کی دونوں جانب سے لوگوں کی آمدورفت بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں چینی موجود ہیں جب کہ خاصی تعداد میں پاکستانی بھی چین میں ہیں۔ اِن دِنوں دونوں ملکوں کے لوگوں میں رشتہ داریاں بھی ہورہی ہیں۔چین میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر،کئی ایئر لائنز نے وائرس کو دوسرے ممالک میں پھیلنے سے روکنے کے لئے ہوائی جہازوں کی پروازیں منسوخ کردی ہیں۔
میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان
عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کو عالمی سطح پر ایک ہنگامی صورتحال قرار دیا ہے۔ کرونا وائرس کے انفیکشن میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے اس کا اعلان کیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ ٹیڈروس ایڈنوم گیبریسوس نے کہا کہ اس اعلان کے پیچھے بنیادی وجہ چین کی موجودہ حالت نہیں ہے بلکہ اس کا دوسرے ممالک میں پھیلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشویش یہ ہے کہ یہ وائرس ان ممالک میں بھی پھیل سکتا ہے، جہاں صحت کا نظام کمزور ہے۔ صرف چین میں اب تک سینکڑوں افراد، اس وائرس کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
کیا ہے کرونا وائرس؟
کرونا وائرس کی ابتدائی علامات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی علامات ہیں سانس لینے میں تھوڑی پریشانی، کھانسی یا ناک بہنا۔حالانکہ جب اس کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں تو سانس لینے میں تکلیف بڑھ جاتی ہے اور کھانسی، زکام میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر کھانسی اور زکام کے بعد بخار بھی آجاتا ہے لیکن سنگین معاملات میں، یہ انفیکشن نمونیہ یا سارس ہوجاتا ہے، نیز گردے کی خرابی کی حالت بن جاتی ہے اور مریض کی موت تک ہوسکتی ہے۔ کرونا کے زیادہ تر مریض بزرگ افراد ہیں، خاص طور پر وہ جو پارکنسن یا ذیابیطس جیسی بیماریوں کے شکار ہیں۔ فی الحال اس انفیکشن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کوئی خاص علاج موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر اس وقت اس کی علامات کی بنیاد پر متاثرہ مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے متاثرہ علاقوں کو پہلے سے طے شدہ عام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ انفیکشن کے خطرے کو کم کیا جاسکے۔ ان اقدامات میں ہاتھوں کو صاف رکھنا، ماسک پہننا اور کھانے، پینے میں احتیاط شامل ہے۔اسی کے ساتھ لوگوں کو سانس لینے میں انفیکشن ہونے سے بچنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔کرونا وائرس سے متاثرہ افراد چھینکیں تو سامنے کھڑے افراد کوانفیکشن ہوسکتا ہے لہٰذااس بچیں۔
دنیا کی اقتصادیات کی کمرتوڑ سکتا ہے وائرس
کروناسے چین میں بہت سی موتیں ہو چکی ہیں اوردنیا کے بہت سے ممالک میں اس نئے وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی وکسین کی تیاریوں کا سلسلہ بھی چل رہا ہے مگر اس کی روک تھام سے پہلے ہی عالمی اقتصادیات کو بہت نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ صورت حال پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی سینیئر اہلکار اگاتھا ڈیماریس کا کہنا ہے کہ ’مالیاتی منڈیوں کو سردست جس خطرے کا سامنا ہے، وہ چند روزہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ صورت حال اْس وقت شدید ہو جائے گی جب سرمایہ کاروں کو مجموعی حالات کے بے قابو ہونے کا اندیشہ لاحق ہو گا۔‘جب کہ امریکہ میں اب تک دوافراد کروناوائرس سے مرچکے ہیں اور بڑا اقتصادی نقصان ہورہا ہے۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’امریکی اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے زبردست کمی دیکھی گئی۔ 2008 کے مالی بحران کے بعد عالمی انڈیکس میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ کرونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر مختلف پابندیوں کے باعث دنیا بھر کی مارکیٹس کو پانچ کھرب ڈالر سے زائد کے خسارے کا سامنا ہے۔‘ ادھر بھارت جس کی معیشت پہلے ہی کسادبازاری سے گزر رہی ہے، کی وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن نے بھی گزشتہ دنوں کرونا وائرس کے سبب ملک کی اکانومی کو نقصان کااندیشہ ظاہر کیا تھا۔وائرس سے متاثرہ ممالک سے تجارت میں حالیہ ایام میں کمی آئی ہے اور ٹیکس کلکشن بھی گھٹا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)