نئی دہلی:ملک میں ہر روز کورونا کے معاملے میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک دن میں ملک بھر میں 48661 مثبت واقعات رپورٹ ہوئے اور 705 افراد اس مرض سے ہلاک ہوگئے۔ یہ گزشتہ 24 گھنٹوں کا اعداد و شمار ہے۔وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کورونا کے مثبت معاملوںکی تعداد 1385522 ہوگئی ہے جبکہ فعال کیسوں کی تعداد 467882 ہے۔ وزارت نے بتایا کہ اب تک ملک میں 885577 افراد کورونا سے ٹھیک ہوچکے ہیں اور مجموعی طور پر 32063 افرادکی موت ہوئی ہے۔ گزشتہ24 گھنٹوں 442031 نمونے ٹیسٹ کئے گئے ہیں۔ یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ سرکاری لیب نے ایک دن میں 362153 نمونے ٹیسٹ کر کے ایک نیا ریکارڈ بنایا۔ ملک میں نجی لیب بھی اچھی خاصی تعداد میں ٹیسٹ کررہے ہیں۔ وزارت صحت کے مطابق ایک نجی لیب میں گذشتہ روز 79878 ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔دنیا میں کورناسے سب سے زیادہ متاثر ممالک کی فہرست میں ہندوستان تیسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ ملک کی سب سے زیادہ متاثرہ ریاست مہاراشٹر ہے، جہاں فعال کیسوں کی کل تعداد 467882 ہے۔ یہاں ایک دن میں 9251 نئے معاملے درج ہوئے۔ اب تک 366368 معاملے سامنے آئے ہیں جن میں 13389 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ مہاراشٹرا کے بعد تمل ناڈو، دہلی، کرناٹک اور آندھرا پردیش کا نمبرہے۔ اگر ہم ان ریاستوں میں کورونا کی تعداد کودیکھیں تو یہ بالترتیب 206737، 129531، 90942 اور 88671 ہے۔
Covid 19 India
نئی دہلی:ایک ہی دن ملک میں کورونا وائرس کے ریکارڈ 27114 نئے مریض سامنے آئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مریضوں کی کل تعداد آٹھ لاکھ سے تجاوز کرگئی۔یہ مسلسل آٹھواں دن ہے جب ملک میں کورونا وائرس کے معاملے میں 22000 سے زیادہ آئے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں میں 519 افراد کی ہلاکت کے ساتھ ہلاکتوں کی تعداد 22123 ہوگئی ہے۔ہفتے کے روز ملک میں مریضوں کی تعداد بڑھ کر 820916 ہوگئی جن میں سے 283407 افراد زیر علاج ہیں اور 515385 افراد علاج کے بعد صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اس طرح سے تقریباً62.78 فیصد مریض ٹھیک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 519 اموات میں سے 226 مہاراشٹر میں، تامل ناڈو میں 64، کرناٹک میں 57، دہلی میں 42، اتر پردیش میں 27 اور مغربی بنگال میں 26 اموات ہوئیں۔ان کے علاوہ آندھرا پردیش میں 15، گجرات میں 14، تلنگانہ میں آٹھ اور راجستھان میں چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ آسام اور جموں و کشمیر میں پانچ افراد، بہار، مدھیہ پردیش، اڑیشہ اور پنجاب میں چارچار، ہریانہ اور پڈوچیری میں تین تین اور چھتیس گڑھ میں دو افراد کی موت ہوئی۔
جدید عہد کے ہندوستان میں مہاماری کے موضوع پر ہماری جانکاری نسبتا بہت کم ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری نصابی کتابوں میں ہی نہیں ، بلکہ ایم اے تک کے کورسز میں بھی ہماری بہترین یونیورسٹیوں کے شعبۂ تاریخ میں بھی ، شاید ہی کچھ پڑھا یا جاتا ہے۔ میری محدود جانکاری کے مطابق ایسے موضوع پر تحقیق بھی بہت کم ہوئی ہے۔ جو تحقیقیں ہوئی ہیں وہ اکیڈمک حلقے سے باہر پاپولر حلقے تک پہنچائی نہیں گئی ہیں1896-97، 1918-20، اور 2019-20 کی مہاماریوں میں حکومت اور خواص کے رویوں میں ایک افسوس ناک مماثلت ہے۔
اب یہ واضح ہو جاناچاہئے کہ تعلیم اور نصاب اور درس کے موضوع اور مواد کو طے کرنے کی بھی اپنی سیاست ہوتی ہے۔ ہم ایک بڑا سچ عوام سے چھپانے کا جرم کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی یعنی انٹرنیشنل مسافرت کرنے والا طبقہ یعنی تاجر (بیوپاری)، افسر، فوج، یہ تین طرح کے خواص یعنی elite لوگ یہ بیماری ہندوستان لائے اور اسے پھیلایا، لیکن 1897 میں بھی بمبئ کے مارواڑی اور دیگر تاجروں نے ایسی رائے عامہ بنوا دی تھی کہ جیسے slum اور ghetto میں رہنے والے لوگ ہی بیماری لا رہے ہیں اور پھیلا رہے ہیں۔ پولیس کا repression اور surveillance بھی انہی غریبوں کے خلاف تھا۔ یعنی جو کمزور تھے، اقتدار سے باہر تھے ، انہی پر اس بیماری کی ذمہ داری ڈالے جانے کی گندی سیاست اس وقت بھی ہو رہی تھی۔ آج 2020 میں بھی quarantine اور سفر کے انتظام، دونوں محاذ پر ہم نے طبقاتی تفریق و امتیاز یعنی class based discrimination سے کام لیا ہے۔ اور پوری بے حیائی کے ساتھ لیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی جدید تاریخ میں مہاماریوں کے بارے میں چپی کتنی زیادہ ہے، اور کیوں ہے؟
کچھ ہفتے قبل میں نے اپنے ایک دوست دھروب کمار سنگھ سے رابطہ کیا۔ وہ جے این یو سے فارغ ہیں اور اب بی ایچ یو کے شعبۂ تاریخ میں استاد ہیں، اور ہیلتھ اینڈ میڈیسن کی ہسٹری پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان سے گفتگو میں جانکاری ملی کہ مریدولا رمننا Mridula Ramanna نام کی محقق نے ایک تاریخی مطالعہ شائع کیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس کتاب کو حاصل نہیں کر پایا۔ ان کا تحقیقی مضمون (2003) ہے، جو کسی اینتھولوجی میں شامل ہے:
The Spanish Influenza Pandemic of 1918-19: The Bombay Experience.
میرا دوسرا source ہے دربھنگہ مہاراج لکچھمیشور سنگھ کی لیجسلیٹو کونسل ، کلکتہ میں وہ تقریر جو انہوں نے 1897 میں بنائے جانے والے مہاماری قانون کے بل پر بحث کے دوران کی تھی۔
اس مہاماری کا ہماری تاریخ کی کتابوں میں جو ذکر آتا ہے اس میں انسانیت کو در پیش پریشانی کی تفصیلات کے بجائے چاپیکر بھائیوں نے پلیگ کمشنر کا جو قتل کیا اور اس قتل کے لئے بال گنگا دھر تلک کی صحافت اور تقریر کو قتل کے لئے اکسانے والی حرکت مانا گیا تھا اور پھر ان پر دیش دروہ کا مقدمہ چلایا گیا، ان سب کا ذکر ہوتا ہے۔ اسی میں sedition ایکٹ 1870 کے سیکشن 124 A کا استعمال بھی تلک کے خلاف کیا گیا تھا۔
یعنی ایک طرح کا jingoism تاریخ میں دکھایا جاتا ہے،جس میں مہاماری کی human ٹریجڈی کے بجائے ہم ایک خاص طرح کے "نیشنلزم” کی ہی بات کرتے ہیں۔ یعنی عام لوگوں کی بڑی پریشانی سے منہ موڑنے والی نیشنلزم، اور اسی رویے کو مضبوط کرنے والی تاریخ نویسی کے جرم کے مرتکب ہیں ہم لوگ۔ اگر "جرم” ایک سخت لفظ ہے تو پھر دوسرے لفظ "کوتاہی” کا استعمال کیا جائے۔ جس "نیشنلزم” میں لوگوں کا بڑا حصہ بد دیانتی سے الگ رکھا جائے، اسے نیشنلزم کیوں کہا جائے؟
ستمبر 1896 میں بمبئ میں پلیگ کے پہلے مریض کا پتہ چلا اور فروری 1897 تک کئی لاکھ لوگ ہجرت کر چکے تھے۔ جوشاید اس وقت کے بمبئ کی آدھی آبادی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری ہانگ کانگ اور چین سے آئی تھی۔ تقریباً دو ہزار لوگ ہر ہفتے بمبئی میں موت کی زد میں آ رہے تھے۔ حکومت پریشان ہو چکی تھی اور اپنا سارا زور اس پر لگا رہی تھی کہ یہ بیماری کلکتہ نہ پہنچ جائے۔ لیکن مجموعی طور پر یا تو تاریخی دستاویز ہی بہت کم ہیں یا ان کا استعمال کر کے اب تک تاریخ لکھی نہیں گئی ہےکہ آخر کتنے لوگوں کو ہجرت کرنا پڑا، کتنے لوگ دوران سفر موت کے شکار ہوئے؟ اتنا تو طے ہے کہ جتنا دستاویزوں میں درج ہوگا اس سے کئی گنا زیادہ موتیں ہوئی ہونگی۔ یہ بات ہسٹوریکل کامن سینس سے بہ آسانی وثوق سے کہی جا سکتی ہے۔
سنہ 1897 میں جو قانون پاس کیاگیا، اس میں زیادہ توجہ اس بات پر تھی کہ مستقبل میں ایسی مہاماری کو آنے سے کیسے روکا جائے۔ بلکہ کہاجاتا ہے کہ اس پہلو پر بھی دربھنگہ مہاراج نے کلکتہ یونیورسٹی کو کچھ ہزار روپئے کا endowment دیا تھا کہ اس کی ویکسین یا علاج کی تحقیق کے لئے کچھ کام کیا جائے۔ اس سلسلے میں تاریخ نویسوں نے ان پہلوؤں کو اجاگر اور مقبول کرانے کا کام خاطر خواہ طور پر نہیں کیا ہے۔ آج 2020 میں کیا بڑے بزنس گھرانے میں سے کسی نے ایسی پہل کی ہے؟ (صرف خواجہ عبدالحمید کی قائم کردہ کمپنی CIPLA کو چھوڑ کر،جو یوں بھی سستی اور اچھی دوائیاں بنانے کے لئے مشہور ہے)۔فی الوقت اس وبا کے لئے کیا کیا جائے اس پر شاید ہی کوئی توجہ تھی۔
پولیس کا گھروں میں جبرا داخل ہونا اور عورتوں سے بد سلوکی کرنے جیسی باتیں بھی خوب آئیں جس کے خلاف بال گنگا دھر تلک کا تقریری و تحریری احتجاج ہوا اور چا پیکر برادران نے انگریز افسروں کا قتل کیا۔
اس پس منظر میں، اور کچھ حد تک، ان کے نتیجے کے طور پر، تشدد پسندی، دائیں محاذ کی سیاسی روش ، وغیرہ کو بھی فروغ ملا، جس پر کبھی اور گفتگو کی جائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ 1918 کی مبینہ اسپینش فلُو یا مہاماری میں بر صغیر ہند یعنی انڈین سب کانٹینینٹ میں تقریباً دو کروڑ لوگ مر گئے تھے۔
وہ ، یعنی Ramanna Mridula کہتی ہیں کہ جون کی 19 تاریخ کو سال 1918 میں سات پولس والوں میں یہ بیماری بمبئی، ہندوستان میں پہلی بار detect ہوئی تھی۔ ستمبر سے یہ بری طرح پھیلنا شروع ہوگئی۔ قلتِ تغذیہ کے شکار (malnourished कुपोषित)بچے اور عورتیں زیادہ تعداد میں موت کا شکار ہوئیں۔ گاندھی جی بھی گجرات میں بیمار ہو گئے تھے۔ سوریہ کانت تریپاٹھی نرالا کے پریوار کے کئی لوگ مر گئے تھے۔ شاید پریم چند بھی انفکٹ (infect) ہو گئے تھے۔ اس کی جانکاری ہندی ادب پڑھنے والوں کو خوب ہے، اس لئے اس پر مزید تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
1918 میں تو اینٹی بایوٹک دوائیں بھی ایجاد نہیں ہوئی تھیں ـ Ramann (2003) اور ڈیوڈ آرنلڈ (2019) اپنے اپنے تحقیقی مضامین میں یہ بتاتے ہیں کہ:
برٹش حکومت نے صرف یہ کیا کہ وہ متاثرین کی تعداد گننے اور اس کا ریکارڈ رکھنے پر زور دیا۔ لوگوں کو کھلے میں سونے اور رہنے کا مشورہ دینا شروع کیا۔ حکومت محض مشورے دیتی رہی جن کے لئے وہ "میمورنڈم ” جاری کرتی تھی۔ اسے اب 2020 کے بھارت میں "نوٹیفیکیشن” کہتے ہیں۔ جس کی تعداد ابھی صرف دو مہینے کے اندر چار ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ صرف ان نو ٹیفیکییشنز کو ہی غور سے پڑھ لیا جائے تو contradictions, Confusions اور policy paralysis کا اندازہ ہو جائےگا۔ ان حالات میں بھی سرکاروں نے پرو ڈیموکریسی ایکٹیو سٹس کی گرفتاری میں اپریل مئی 2020 میں بھی ہانگ کانگ سے لے کر بھارت تک بہت तत्पर्ता دکھائی ۔ بلکہ ہانگ کانگ سے لے کر ہندوستان تک، ان گرفتاریوں کی غیر جانب دارانہ تفصیلی رپورٹوں کے لئے بھی ہمیں دی گارجین، نیو یارک ٹائمس جیسے اخباروں اور دیگر مخصوص پورٹلوں پر منحصر ہونا پڑا ہے۔
یعنی ان سو سالوں (ایک صدی) میں بھی ہم زیادہ بدلے نہیں ہیں۔ تو پھر اس شاعر کا کیا کریں جس نے کہہ ڈالا کہ:
ثبات بس ایک تغیر کو ہے زمانے میں!
برٹش افسران نے تو ہل اسٹیشنوں میں آرام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور وہیں سے طرح طرح کے تعصب اور حقارت بھرے بیان دیتے تھے کہ ہندوستانی ایسے ہوتے ہیں اور ویسے ہوتے ہیں۔ اور ہل اسٹیشنوں میں افسروں اور حکمرانوں کا سنکٹ کے زمانے میں چلے جانا ایک عام بات ہے۔ 1946-47 کے فسادات کے وقت بہار کے گورنر، رانچی سے ہوتے ہوئے شملہ چلے گئے تھے۔
حکومت نے 1918 میں شہروں میں، سینما گھروں، اسکولوں، کالجوں کو بند کروا دیا تھا۔ لوگوں کو فٹ اور ہیلدی fit and healthy رہنے کے مشورے اور نصیحتیں دیتی رہی تھی۔ فیس ماسک اور اسپرے کے مشورے بھی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ 1918 کے بھارت میں کتنے لوگ اور کون سا اسپرے کرتے اور کہاں سے حاصل کرتے؟
اس زمانے میں ٹائمس آف انڈیا اور کچھ مقامی اخبارات نے حکومت سے تھوڑے بہت سوالات اٹھائے تھے کہ آخر حکومت بھی کچھ فراہم کرے گے، دستیاب کروائے گی یا محض مشوروں اور نصیحتوں سے ہی لوگوں کو بہلاتی رہےگی؟ لیکن آج کے مقبول ہندی ٹی وی نیوز چینلوں کی طرح ہی، اس وقت بھی، پریس نے بہت زیادہ سوالات حکومت سے نہیں کئے تھے۔ اس طرح اس نہج پر بھی ہم لوگ زیادہ نہیں بدل پائے ہیں۔
حکومت لاکھوں روپئے خرچ کرنے کا دعوی کر رہی تھی لیکن لوگوں تک وہ رقم پہنچ نہیں رہی تھی ۔ لوگوں تک پہنچانے کیلئے تو شاید وہ رقم تھی بھی نہیں۔ ایسی رقم تو سرکاری دلالوں کی جیبیں بھرنے کے لئے ہوا کرتی ہیں۔ اور وہ مہا سنکٹ ہی کیسا جو چند مقتدر لوگوں کے لئے موقع یا अवसर نہ بن پائے!
پالیسی سازی یعنی नीति निर्धारण کی سطح پر کنفیوزن اور inconsistency تھی۔ دو اعلی افسران ، ٹرنر اور ہچنسن کے درمیان شدید اختلاف اور بحث محض اس بات پر ہوتی رہی تھی کہ کیا یہ پتہ کیا جائے کہ مہاماری کی شروعات کہاں سے ہوئی؟
اس وقت 2020 میں بھی ہم ایسا ہی دیکھ رہے ہیں کہ کس ملک یا کس مذہب کے لوگوں پر اس مہاماری کی ذمہ داری ڈال دی جائے کہ سماج اپنی حکومت سے کوئی سوال ہی نہ پوچھے۔
بیجاپور کے جیلر نے 1918 میں infected قیدیوں کو رہا کرنا چاہا تھا لیکن برٹش حکومت کی جانب سے کوئی واضح ہدایت نہ مل پائی۔ بمبئی اور کراچی میں تین ماہ تک سنیما گھر بند رہے۔ کاروبار کو بند کرنے سے معیشت تباہ ہوئی، لیکن میری محدود جانکاری کے مطابق اس کا بھی جامع یعنی یا comprehensive مطالعہ ہمارے ایکونومسٹ نے بھی ایسا نہیں کیا ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ اس کو پڑھ کر اپنی معلومات اور احساسات میں اضافہ کر پائیں۔
جب روایتی طریقۂ علاج یعنی آیوروید اور یونانی کی اجازت مرکزی حکومت نے دے دی تو صوبائی حکومتوں نے بمبئی میڈیکل ایکٹ 1912 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت صرف ایلوپیتھی ہی چل پائے گا۔ اور اس طرح مریض بے توجہی کا شکار ہوتے رہے تھے۔
رضاکار تنظیمیں یعنی والنٹیری آرگینائیزیشن ہی زیادہ خدمات انجام دے پا رہی تھیں۔ ذات اور مذہب کی بنیادوں پہ بنی فلاحی تنظیمیں زیادہ امداد رسانی کر پا رہی تھیں۔
یعنی ایک صدی بعد بھی ہماری کوتاہیاں وہیں کی وہیں کھڑی ہیں۔ ہم نے ہیلتھ سسٹم کو عام لوگوں کے علاج کے لئے مضبوط نہیں کیا ہے۔ امریکہ سے لے کر ہندوستان تک سرکاری اسپتالوں کو تہس نہس کر دیا گیا ہے۔ بھارت میں جس صوبے میں پبلک ہیلتھ نسبتا بہتر ہے وہاں اس بحران یا سنکٹ سے لڑنا کم مشکل رہا ہے۔
چومسکی اور ہراری نے حال کے اپنے مضامین اور کالموں میں یہ واضح کر دیا ہے کہ سائنسی تحقیق اور فارما سیوٹیکل لا ببیاں صرف دل اور دوسری بیماریوں کے لئے دوائیاں بنا کر خوب مہنگی قیمتوں پر بیچنے میں مصروف رہیں۔ میڈیکل سائنس کی تحقیقات میں مہاماری جیسے مسائل کے تئیں توجہ نہیں دی گئی۔ صرف سرمایہ دارانہ لوٹ جاری رکھا گیا۔ ہم نے انہی لوٹنے والوں کی حمایت کرنے والے اور ان کے ہاتھوں بک چکے لوگوں کو اپنا قانون ساز ممبر چنا اور مذہب اور ذات پر مبنی نفرت کو ہی اہم ترین خوراک سمجھ کر اس نفرت کو ہی کھاتے ، پیتے اور اگلتے رہے۔ اور انسانیت سسسکتی رہی۔
ہمیں سماج کےطور پر اس سیاست کو سمجھناچاہئے اور شدت سے اجاگر کرنا چاہئے کہ پولیو اور مہاماری کی ذمہ داریاں سرکاروں اور یو این او کے ڈبلیو ایچ او پر رہتی ہے اور مریضوں سے دولت لوٹنے والی بیماریوں مثلا دل، گردہ، کینسر، پھیپھڑا وغیرہ کے لئے دوا بنانے والی کمپنیوں اور ڈاکٹروں اور کارپوریٹ ہسپتالوں کو امیر بنانے اور لوٹ مچانے کی آزادی ملی رہتی ہے۔ اسٹینٹ (stent) اور اینجیو پلاسٹی (angioplasty) کی قیمت تو ایک عظیم لوٹ کھسوٹ ہے،ایک مہا گھوٹالہ ہے۔!
اس سرمایہ دارانہ سازش کے خلاف مضبوط عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔
اسی مہاماری کے درمیان حکومت اپنا repression جاری رکھتی رہی۔ رولٹ ایکٹ، اور جلیان والا باغ کا قتل عام ، اسی درمیان ہوتا رہا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے 2020 میں اسی مہاماری کے دوران فسادات اورpro democracy پرو ڈیموکریسی کارکن ، طلبا اور دانشوروں کی گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔
کیا ہم اب آگے عوامی تحریک برائے بہتر طبی سہولیات دیکھیں گے یا صرف فرقہ پرست نفرت میں ہی ڈوبے رہیں گے؟
ہمارے تاریخ نویس اور کہانی اور ناول اور آپ بیتی لکھنے والے تخلیق کار ادیب اور ناقد اور آلوچک بھی ان ٹریجڈیز پر کتنی توجہ دیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن سر دست ہمارے پاس اس کا تاریخی مطالعہ بہت ہی کم ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ”قرنطینہ” نرالا کی کچھ تحریریں، بالخصوص ان کی آپ بیتی کے علاوہ ہمارے پاس زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بیدی تو معروف کہانی لکھنے والوں میں ہیں، انہیں بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے، لیکن ان کا یہ افسانہ اب تک اتنی اہمیت کا حامل نہیں تھا، اس پر نصابوں میں، یا ناقدین نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔
آپ بیتیوں اور رپورتاژ قسم کی تحریروں میں بھی لگتا ہے کہ ان موضوعات پر زیادہ کچھ دستیاب نہیں ہے، یا جو کچھ بھی دستیاب ہے اس پر عوام کی توجہ نسبتا بہت ہی کم ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی "شہاب نامہ "میں بھی پلیگ کا ذکر ہے ، لیکن ایک دوسرے انداز میں ہے۔
دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں تاریخی تحقیق کے تعلق سے بھی جو کچھ کیا گیا ہے، بعض جانکاروں کا ماننا ہے کہ وہ بہت ہی ناکافی ہے۔ فرانسیسی اور انگریزی ادب میں بھی مہاماریوں کا موضوع شاید بہت زیادہ توجہ نہیں پایا ہے۔ کا مو کے ناول "پلیگ” کو بھی نصابوں میں کتنی جگہ اور توجہ ملی ہے اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
John M Barry کی 2006 میں شائع کتاب "دی گریٹ انفلوئنزا” بتاتی ہے کہ 1918 کی مہاماری کے بارے میں تحریری کے بجائے لوگوں کے حافظے میں زیادہ مواد محفوظ ہیں۔ امریکی سیاست دانوں اور حکمرانوں نے اس سے انکار اور اس کو چھپانے کا ہی رویہ رکھا۔ جبکہ یہ وہیں کنساس کی بحری فوج سے شروع ہوا تھا۔ اس کا نام اسپینش فلُو محض اس لئے ہو گیا کہ امریکہ کے بجائے اسپین حکومت نے اس وبا کے آنےکا اعلان کیا ۔ بیری کہتے ہیں کہ سچائی کو عام کرنا ہی پہلی شرط ہے، ایسے سنکٹ سے لڑنے کا۔ اور یہ ہے کہ حکومت میں بیٹھے لوگوں کو عوام کا اعتماد اور وشو اس حاصل رہے، یہ بھی اہم شرط ہے۔
"The final lesson of 1918, a simple one yet one most difficult to execute, is that…those in authority must retain the public’s trust. The way to do that is to distort nothing, to put the best face on nothing, to try to manipulate no one. Lincoln said that first, and best. A leader must make whatever horror exists concrete. Only then will people be able to break it apart.”
امیت کپور کی کتاب riding the tiger میں بھی 1918 کے بعد آنے والی اقتصادی مندی کا تھوڑا ذکر ہے۔ بھارت میں قحط بنگال سے بھی زیادہ موتیں اس مہاماری سے ہوئیں تھیں۔ مہنگائی کافی بڑھ گئی اور جی ڈی پی minus 11 ہو گئی۔ تقریباً دو سال تک یہ وبا ہندوستان میں موجود رہی۔ تاریخ نویس ہی نہیں economists بھی شاید اس موضوع پر خاص توجہ نہیں دیتے ہیں۔
جس طرح 2020 میں ہماری مرکزی حکومت نے صوبائی حکومتوں سے شروع میں کوئی مشورہ نہیں کیا، یہاں تک کہ خود کیبینٹ کی میٹنگیں تک نہیں بلائیں، اسی طرح 1896 میں بھی کلکتہ کی میونسپلٹی سے تو برٹش حکومت نے کوئی مشورہ ہی نہیں کیا تھا، جس پر دربھنگہ مہاراج لکچھمیشور سنگھ نے کونسل کے اندر سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر افسران نرمی اور محبت سے لوگوں کا تعاون مانگیں گے تبھی حمایت ملے گی۔ high handed طریقہ کام نہیں آۓ گا۔ لیکن این رینڈ کا اور آئرسٹ کا قتل ہوا۔ اسی شدت پسندی سے تعلق ہے تشدد پسند سیاست کا بھی۔ مہاراشٹر سے یہ سیاست چل کر ملک میں پھیلی اور بال گنگا دھر تلک کا رول بھی اس میں جو کچھ تھا اور اس سے ہندو مسلم تعلقات پر جو اثرات پڑے اس پر بغیر تفصیل کے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ہم لوگوں کو ان واقعات کا از سر نو مطالعہ کر کے ملک میں امن اور ترقی کے لئے کچھ سبق سیکھنا چاہئے۔
تاریخ داں ڈیوڈ آرنلڈ David Arnold نے اپنے ایک حال ہی میں شائع مضمون Death and the Modern Empire میں یہ انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں اتنی آبادی موت کا شکار نہیں ہوئی تھی جتنی ہندوستان میں ہوئی تھی۔ سرکاری دستاویز، اخبارات اور یہاں تک کہ نجی تحریروں، مکتوبات و آپ بیتی میں بھی بہت کم ذکر ہے۔ کھانے کی کمی اور بڑھتی مہنگائی اور معیشت یعنی ایکونومی کی ٹوٹی کمر نے ہندوستان میں قحط کا ماحول بنا دیا تھا۔ آرنلڈ کے مطابق ہندوستانی عوام بیماری کے بجائے بھوک اور مہنگائی کی وجہ سے حکومت سے زیادہ ناراض رہی تھی۔
یہاں تک کہ اس زمانے کی تعزیتی تحریروں میں بھی اس زمانے کے ماحول کی تفصیلات اور عکاسی ایسی نہیں ہے کہ وہ تاریخ نویسی میں معاون یا مددگار ثابت ہو سکے۔
حکومت نے اپنے افسران کے ذریعہ زیادہ ذمہ داری عوام پر ہی ڈالنا شروع کر دیا تھا کہ ہندوستانی معاشرے میں رویہ ہی غیر ذمہ دارانہ ہے۔
لکھنے والوں نے بھی سرکار، سائنس اور معاشرے کے بارے میں کچھ زیادہ ایسا نہیں کہا ہے جس سے اس وقت کے فورا بعد یا آج بہت سبق سیکھا جا سکے۔ آرنلڈ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے لئے یہ ایک فراموش کردہ مہا ماری ہی ہے۔
ہمارے آج کے معاشرے میں جس قدر anti- intellectual ماحول بنا دیا گیا ہے، ایسے میں ادب، صحافت، تاریخ نویس، ایکونومسٹ ، ہیلتھ سائنسداں سبھی کو ایسے مسائل پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ اور معاشرے کا اعتماد ان طبقوں میں بحال کیا جانا چاہیے۔ جدید ہندوستان کی ان تینوں مہاماریوں کی تاریخ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
کورونا وائرس کے خلاف جنگ لمبی ہے،لیکن ہم کامیابی کی راہ پر چل پڑے ہیں:پی ایم مودی
نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی حکومت کے دوسرے دور اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر ہم وطنوں کے نام ہفتہ کو ایک کھلا خط لکھا۔اس میں انہوں نے کورونا کے خلاف جنگ میں ہم وطنوں سے آنے والے دنوں میں بھی صبر و تحمل برقرار رکھنے کا اعلان کیا اور کہا کہ کورونا وائرس کے خلاف لمبی جنگ میں فتح کے لئے حکومت کے ہرہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے ورنہ عوامی زندگی ہو رہی پریشانی، زندگی پر آفت کی شکل میں بدل سکتی ہے۔غور طلب ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے دوسری مدت کے لئے 30 مئی 2019 کو حلف لیا تھا۔ مودی نے کورونا کی وجہ سے نافذ ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران مہاجر مزدوروں، کاریگروں، چھوٹے صنعتوں، خریداروں، ریہڑی پٹری پر ٹھیلا لگانے والوں کو ہوئی مشکلات کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کی پریشانیاں دور کرنے کے لئے سبھی لوگ مل کر کوشش کر رہے ہیں۔کورونا وائرس سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ زندگی میں ہو رہی تکلیف، زندگی پر آفت کی شکل میں نہ بدل جائے۔اس کے لئے ہر ہندوستانی کے لئے حکومت کی ہدایات پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔جیسے ابھی تک ہم نے صبر و تحمل کو برقرار رکھا ہے، ویسے ہی اسے آگے بھی برقرار رکھنا ہے۔کورونا کے خلاف جنگ میں یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ ہندوستان آج دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہتر صورتحال میں ہے۔یہ جنگ طویل ہے لیکن ہم فتح کی راہ پر چل پڑے ہیں اور فاتح ہونا ہم سب کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہوگا۔
”کورونا وائرس“ (coronavirus) نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے، ماہرین کے بیان کے مطابق یہ ایک غیر مرئی بیماری ہے، جس کو آج تک دیکھا نہیں گیا ہے، اولاً اس بیماری کی شناخت جانوروں اور پرندوں میں ہوئی تھی، پھر اب اس کا اثر انسانوں ہے، ان کے بیان کے مطابق یہ کوئی عام بیماری نہیں ہے؛ بل کہ ایک وبائی بیماری ہے، ماہرین کی یہ بات کتنی حقیقت کتنی فسانہ ہے، آنے والے دن ضرور اس کی وضاحت کریں گے، لیکن بہر حال اس وقت ایک بڑا طبقہ اس کو بیماری تسلیم کرچکا ہے، جس کا سیدھا نتیجہ ذہنی بیماری ہے، مطلب کہ اب آئندہ کے لیے اس بیماری کے نام سے انسان ذہنی طور پر خائف اور سہما ہوا رہے گا، کہ کب اور کیسے یہ بیماری پھیل جائے اور اس کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔
کورونا وائرس سے جہاں دنیا کے بڑے اور مشہور ممالک نبرآزما ہیں، وہیں پر ہندوستان بھی پیچھے نہیں ہے، اس بیماری کو ہندوستان میں داخل ہوئے تقریبا چار مہینے ہورہے ہیں، دن بدن اس کے معاملات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اور اس کی وجہ سے اموات کی تعداد میں بھی ز یادتی ہورہی ہے، اور ملک میں ایمرجنسی کی کیفیت ہے، ملکی لاک ڈاؤن کا تیسرا مرحلہ مکمل ہونے والا ہے، شاید انسانی تاریخ میں اتنا لمبا لاک ڈاؤن کبھی نہیں ہوا تھا، لیکن اس لاک ڈاؤن سے کیا نتیجہ نکلا، ہنوز ایک معمہ ہے!
اِس وقت لاک ڈاؤن کے نام سے ہر شخص ہراساں ہے اور اپنے کو مجبور محسوس کررہا ہے، زندگی گزارنے اور پیٹ بھرنے کے مسائل نے وہ بحران کھڑا کیا ہے کہ اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا، ملک میں پہلے ڈاؤن کا اعلان ”جنتا کرفیو“ کے دوسرے دن شام کو آٹھ بجے کیا گیا کہ آج رات بارہ بجے سے یعنی 24/ مارچ سے 14/ اپریل تک پورے ملک میں لاک ڈاؤن رہے گا، جو جہاں ہے وہیں تھم جائے، کہیں جانے کی کوشش نہ کرے، وزیر اعظم نے خطاب کرتے ہوئے عوام سے صرف اکیس دن کا وقت مانگا تھا کہ آپ مجھے اکیس دن دیں، ہم کرونا سے مقابلہ کریں گے، تاکہ یہ جنگ جیت جائیں، عوام نے اپنے وزیر اعظم کی بات مانی، لیکن نتیجہ تو صفر ہی لگا، کیونکہ جس وقت وزیر اعظم نے اکیس دن مانگا تھا اس وقت کورونا کے معاملات پورے ملک میں محض پانچ سو تھے، جب یہ وقت مکمل ہوا تو اس وقت کورونا کے کل 9000/ ہزار معاملات درج ہوچکے تھے، بالآخر 14/ اپریل کو وزیر اعظم نے عوام سے پھر خطاب کیا اور عوام سے مزید ڈھائی ہفتہ مانگا کہ ہمیں کورونا سے لڑنے کے لیے مزید وقت کی ضرورت ہے، اس لیے ہم لاک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ شروع کررہے ہیں جو کہ 19/ دن پر مشتمل ہوگا، عوام نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو قبول کرلیا، لیکن نتیجہ ہنوز ندارد!
آج ملکی لاک ڈاؤن کا تیسرا مرحلہ چل رہا ہے، اِس وقت کورونا کے کل معاملات 60000/ سے تجاوز کرچکے ہیں، اور نہ معلوم اس مدت کی تکمیل تک کتنے پہنچیں گے؛ ا س لیے کہ اس کی رفتار تقریبا تین ہزار سے چار ہزار یومیہ ہے، اب اس تفصیل کو دیکھ کر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے لاک ڈاؤن کرکے بہت اچھا کیا، پوری دنیا میں کورونا سے مقابلہ کے لیے ہندوستان کی تعریف ہورہی ہے، اور یہی نہیں 11/ مئی کو وزیر اعظم نے ملک کے تمام صوبوں کے وزراء اعلی کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں کہا ہے کہ ہمیں مزید طاقت کے ساتھ کورونا کا مقابلہ کرنا ہوگا، اس میں انھوں نے مزید لاک ڈاؤن کے بڑھانے کا اشارہ بھی دیا، سوال یہ ہے کورونا سے مقابلہ کا حل صرف ”لاک ڈاؤن“ ہی کا اعلان ہے، یا کچھ عملی اقدام بھی ہے، پہلے اکیس دن میں مقابلہ ہورہا تھا، پھر انیس دن میں، پھر چودہ دن میں، لیکن اب بھی کورونا ہارا نہیں، بل کہ آزاد گھوم رہا ہے، اب تک کے مقابلے کے بعد ہمیں مزید طاقت کے ساتھ کورونا کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، تو اب تک مقابلہ کس طرح ہورہا ہے تھا؟ یہ ایک ایسا معمہ ہے جو ہنوز ناقابل حل ہے، مرکزی حکومت کورونا سے مقابلہ کے لیے لاک ڈاؤن پر لاک ڈاؤن کیے جارہی ہے، لیکن کورونا ہے کہ آزاد گھوم رہا ہے، اب تک ملک اس کا مقابلہ نہیں کرسکا!!! فیا للاسف
یکے بعد دیگرے حکومت نے لاک ڈاؤن کی مدت بڑھائی، لیکن کورونا سے مقابلہ کے لیے اس کی کیا پالیسی اور حکمت عملی رہی ہے وہ دودھ اور پانی کی طرح واضح ہے، خود مرکزی حکومت کے نیتاؤں اور ذمہ داروں کے بیانات میں تضاد ہے، مرکزی وزیر صحت کہہ رہے ہیں کہ مئی کے آخر تک ہم کورونا پا پر قابو پاجائیں گے اور 97/ فیصد معاملات ختم ہوجائیں گے، دوسرے وزیر کا بیان ہے کہ کورونا جون اور جولائی میں عروج پر ہوگا، اس لیے ہمیں ابھی سے اس کے لیے تیار رہنا ہوگا، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اب ہمیں کورونا کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا، اِدھر وزیر اعظم مقابلہ پر مقابلہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آگے ہمیں مزید طاقت کے ساتھ کورونا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ آخر یہ کیا چکر ہے!
دوسری طرف لاک ڈاؤن کے چلتے غریب مزدور، بھوکی پیاسی پریشان حال عوام کا کیا تذکرہ؟ ایسی تصاویر، واقعات اور ویڈیوز نگاہ سے گزر رہے ہیں کہ ان کو دیکھنے کی ہمت وطاقت نہیں ہے، آنکھیں ان کو برداشت نہیں کرپارہی ہیں، دل پھٹا جارہا ہے کہ ہائے یہ بے چارے غریب مزدور!
آخر ان غریب مزدوروں کا کیا قصور ہے، جس کی سزا ان کو دی جارہی ہے؟ کون سا ایسا جرم انھوں نے کرلیا کہ پائی پائی کے محتاج ہوگئے؟ کون سا ایسا گھناؤنا کام ان سے سرزد ہوگیا جس سے ان کو پولیس کی لاٹھیاں کھانی پڑ رہی ہیں؟ اورنگ آباد کے سولہ غریب مزدوروں کی کیا غلطی تھی کہ ان کو ریلوے ٹریک پر ٹکرے ٹکڑے کردیا گیا؟ ان کو چھوڑو، وہ بے چارے معصوم بچے، جو ٹھیک سے چل نہیں پاتے، جو دنیا اور زندگی سے ابھی واقف نہیں ہیں، جنہوں نے حالات ومصائب کو دیکھا نہیں وہ کون سے مجرم ہیں جس کی سزا ان کو دی جارہی ہے؟ آخر وہ کیوں بھوکے پیاسے ماؤں کی کمروں اور گودوں سے چپکے ہوئے دھوپ میں چلے جارہے ہیں؟ کیا جرم ہے ان کا؟ کیا قصور ہے ان کا؟
کون اس کی جواب دہی کا ذمہ دار ہے؟
ملک کی کمان سنبھالتے وقت کس چیز کی حلف لی گئی تھی؟
کیا ہمارے ملک کے مزدروں کی جان جان نہیں ہے؟
کیا وہ انسان کے زمرے میں داخل نہیں ہیں؟
کیا ان کے پاس قلب وجگر اور احساس نہیں ہے؟
کیا وہ کھاتے پیتے نہیں ہیں؟
حد ہے بے حسی کی! تف ہے ایسی غیر ذمہ داری پر! لعنت ایسی نااہلی پر!
ایسی بے چین صورت حال میں لکھتے ہوئے انگلیاں لڑکھڑا رہی ہیں، ضمیر جواب دے رہا ہے، عقل حیران وششدر ہے اور آنکھیں نم ہیں، خدا کے لیے حکومت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے، ہندوستانی عوام کا ہر فرد ہندوستانی ہے، اس کی زندگی، معیشت اور آل اولاد حکومت کی ذمہ داری میں داخل ہے، اگر حکومت نے آنکھیں نہیں کھولیں اور صحیح صورت حال کا جائزہ نہیں لیا تو وہ دن دور نہیں جب سب کچھ بدل جائے گا، حکمرانوں کے تختے الٹ دئے جائیں گے اور ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، جیسا کہ انھوں نے اپنی عوام کو نہیں پوچھا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:میزورم کے وزیر اعلی پی جورم تھنگا نے کہا کہ ریاست کے کوروناوائرس مفت ہونے کا کریڈٹ یہاں کے لوگوں کے نظم و ضبط، چرچ اور غیر سرکاری تنظیموں اور انتظامیہ کی مشترکہ کوششوں کو جاتا ہے۔کوروناوائرس کوپھیلنے سے روکنے میں ریاست کے کامیاب رہنے پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعلی نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اقتصادی نقصان کو لے کر وہ فکر مند ہیں۔ پڑوسی بنگلہ دیش اور میاما کے کوروناوائرس سے متاثرہ مریضوں سے ہونے والے خطرے کی بھی انہیں فکر ہے۔ریاست کے دارالحکومت اجول میں حکام نے بتایا کہ ہفتہ کو میزورم کے واحد متاثرہ مریض کو اسپتال سے چھٹی مل گئی جس کے ساتھ ہی کوروناوائرس سے مفت ہونے والا پہلا صوبہ بن گیا۔جورم تھنگا نے کہا کہ اس کا کریڈٹ لوگوں کے نظم و ضبط کو جاتا ہے جنہوں نے وائرس پھیلنے سے روکنے کے مقصد سے قائم خصوصی ٹیم کی طرف بتائے گئے تمام احکامات کو نافذکرنے میں مدد دی۔ حالانکہ انہوں نے کہا کہ شمال مشرقی ریاست میں کوروناوائرس سے متاثر ہ لوگوں سے خطرہ ہے جو میاما اور بنگلہ دیش سے متصل سرحدوں سے یہاں آ سکتے ہیں۔عیسائی اکثریتی ریاست میں تیسری بار وزیر اعلی کے طور پر کمان سنبھال رہے 75 سالہ جورم تھنگا نے کہا کہ ان کی حکومت احتیاط برت رہی ہے اور اس نے تمام بڑے جانچ نکات پر میزورم پولیس کو تعینات کر رکھا ہے تاکہ دراندازی نہ ہو سکے۔غور طلب ہے کہ بنگلہ دیش میں کوروناوائرس انفیکشن کے 13134 معاملے سامنے آئے ہیں، وہیں میانما میں 177 کیس آئے ہیں۔ان دونوں ہی ممالک سے ہندوستان میں دراندازی کے واقعات عام ہیں۔ کوروناوائرس کی روک تھام کے لئے 25 مارچ سے نافذملک گیر لاک ڈاؤن کا ذکر کرتے ہوئے جورم تھنگا نے کہا کہ اس کا میزورم پر منفی اثر پڑے گا کیونکہ شمال مشرق کی دیگر ریاستوں کی طرح ہی یہ ریاست بھی اپنی معیشت کو چلانے کے لحاظ سے پیسے کے لئے مرکزی حکومت پر منحصر رہتی ہے۔
تاش کے سارے کے سارے پتے کھل چکے ہیں اور کھیل واضح ہوچکا ہے کہ کورونا کس مقصد کے لیے لایا گیا اور اس سے کیا مطلوب ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنے مضمون نائن الیون اور کورونا (شائع شدہ 17 مارچ 2020) میں لکھا تھا، ’’نائن الیون جدید دنیا کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد سے دنیا یکسر تبدیل ہوگئی۔ نائن الیون ایک کامیاب تجربہ تھا جس کے بعد دہشت گردی کے نام پر کسی بھی ملک پر لشکر کشی اور انسان کی اپنی حفاظت کے نام پر بنیادی انسانی حقوق کی معطلی و ضبطی دنیا کا آسان ترین کام بن گیا۔ گزشتہ بیس برسوں میں اس دنیا کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، نائن الیون سے قبل اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کچھ یہی صورتحال کورونا وائرس کے نئے ایڈیشن کے بعد دنیا کو درپیش ہے۔ کورونا وائرس Ncovid 19 سے قبل یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی بھی ملک خود ہی اپنا مقاطعہ بھی کرسکتا ہے، خود ہی پوری دنیا سے اپنا ہر قسم کا رابطہ بھی منقطع کرسکتا ہے اور اپنے ہی پورے کے پورے شہر کو قید خانے میں تبدیل بھی کرسکتا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد یہ سب کچھ انتہائی کامیابی سے ہوا کہ شہریوں کو ان کے اپنے گھروں میں قید تنہائی کا شکار کردیا گیا ہے۔ اب ایک ایک کرکے سارے ملک اپنے آپ کو ازخود لاک ڈاؤن کرتے جارہے ہیں‘‘۔
دنیا بھر میں لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی لائی جارہی ہے یعنی شہریوں کو اپنے کام کے مقامات پر جانے کی اجازت دی جارہی ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب پرانے معمولات بحال ہوجائیں گے۔ جس طرح سے نائن الیون کے بعد سے جو پابندیاں لگائی گئی تھیں، وہ ختم نہیں کی گئیں بلکہ ان میں سختی ہی لائی جاتی رہی ہے۔ بالکل اسی طرح اب دنیا قبل از کورونا والے مرحلے میں دوبارہ سے واپس نہیں جاپائے گی۔ جہاں جہاں لاک ڈاؤن میں نرمی کی جارہی ہے، وہاں وہاں یہ امر واضح کیا جارہا ہے کہ اب وہ کورونا کے zone A سے نکل کر zone B میں جارہے ہیں جہاں پر ماسک، جسمانی فاصلے سمیت ساری احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔(ایک فرد سے دوسرے فرد میں کورونا کو پھیلنے سے بچاؤ کے لیے بین الاقوامی طور پر social distance یعنی سماجی فاصلے کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے جبکہ عملی طور پر ہدایت physical distance رکھنے کی کی جاتی ہے۔ سماجی فاصلے کا مطلب ہے کہ مواصلاتی رابطہ بھی محدود کردیا جائے۔ یہ بھی ایک طے شدہ ہدف ہے کہ انسان کو سماجی طور پر تنہا کردیا جائے کہ ایک جماعت کے مقابلے میں ایک فرد کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے، اس کے لیے دیکھیے کہ تھیلے سے کیا برآمد ہوتا ہے)۔ جسمانی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے کہا جارہاہے کہ کام کے مقام پر شفٹیں لائی جائیں اور جو کام گھر سے ہوسکتا ہے وہ گھر سے لیا جائے۔ بازاروں میں ہجوم کے بجائے آن لائن شاپنگ کی جائے، ریسٹورنٹ میں جانے کے بجائے ہوم ڈلیوری سے کام لیا جائے۔ کسی کانفرنس یا سیمینار میں جانے کے بجائے وڈیو کانفرنسنگ کی جائے۔ تعلیمی اداروں میں فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے طلبہ کی تعداد کو تین شفٹوں میں تقسیم کردیا جائے۔ زیادہ تر کورس آن لائن کروائے جائیں۔ یہ سب کروانے کے لیے مزید خوف یہ پھیلایا جارہا ہے کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ آنے والے موسم سرما میں یہ کورونا پہلے سے زیادہ شدت سے پھیلے گا اور زیادہ ہلاکت آفریں ہوگا۔ چونکہ جسمانی فاصلے کے نام پر خوف بڑھا دیا گیا ہے، اس لیے اسکولوں میں بچے اب پہلے کی طرح گھل مل کر کھیل بھی نہیں سکیں گے اور نہ ہی پارٹیاں ہوسکیں گی۔ یہ real world سے ایک virtual world کی طرف transformation ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ہورہا ہے۔ یہ ہے وہ سماجی فاصلہ ہے جو نادیدہ ہے اور ابھی کسی کو محسوس نہیں ہورہا ہے۔
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی نزلہ، زکام اور بخار جیسی بیماریاں عام بات ہیں اور ان سے اموات بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ خود عالمی ادارۂ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق ہر برس دنیا بھر میں ساڑھے چھ لاکھ افراد فلو کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ مگر اب بخار کو خوف کی علامت بنادیا گیا ہے۔ ہر شخص یہ بھی بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ بخار بذات خود کوئی مرض نہیں ہے بلکہ یہ کسی مرض کی وجہ سے ہوتا ہے اور جیسے ہی مرض کا علاج کیا جائے، بخار خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ جن امراض سے بخار ہوتا ہے، ان کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ حتیٰ کہ کسی کے پھوڑے میں پس پڑجائے تو اس سے بھی بخار ہوجاتا ہے۔ اسے پروپیگنڈے کا کمال کہیے کہ اب کسی کو بخار ہوا نہیں کہ ڈاکٹر اس مریض کو دیکھنے ہی سے انکار کردیتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے وہی سب سے زیادہ اس کا شکار ہیں اور خوفزدہ ہیں۔ نہ صرف خوفزدہ ہیں بلکہ وہ اس پروپیگنڈے کو پھیلانے میں سب سے موثر آلۂ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔
اب یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ جب تک کورونا کی ویکسین پوری دنیا میں نہ لگادی جائے، اس وقت تک لاک ڈاؤن کے SOPs پر عملدرآمد جاری رہے گا۔ سات ارب کی آبادی کے لیے دنیا کی کئی کمپنیاں مل کر یہ ویکسین بنائیں گی بلکہ ان کے لائسنس کے تحت ہر ملک میں یہ بنائی جائے گی۔ ہر شخص کو مانیٹر کیا جائے گا کہ اس نے ویکسین لگوائی کہ نہیں، اس کے لیے RFID کا منصوبہ تو ہے ہی۔ چونکہ فوری طور پر سات ارب کی آبادی کو نہ تو ویکسین لگائی جاسکتی ہے اور نہ ہی RFID اس لیے ان کی کلائی پر ایک کڑا wrist band پہنا دیا جائے گا۔
دنیا کو تیزی سے نیو ورلڈ آرڈر کی طرف لے جایاجارہا ہے۔ اب تو کچھ بھی خفیہ نہیں رہ گیا ہے تاہم جنہیں اس بارے میں کوئی ابہام ہے تو آئندہ چند ماہ میں روشن سورج کی طرح سب کچھ سامنے ہوگا۔ اس دنیا پر ایک عالم گیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہوشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
لکھنؤ: لاک ڈاؤن میں مزدوروں کی گھر واپسی کے لئے ریاستوں سے ریل کرایہ لینے کا معاملہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپیش بگھیل کے بعد سماجوادی پارٹی کے چیف اکھلیش یادو نے مرکزی حکومت پر نشانہ لگایا ہے۔اکھلیش نے کہا ہے کہ ٹرین سے واپس گھر لے جائے جا رہے غریب، مجبور مزدوروں سے بی جے پی حکومت کی طرف سے پیسے لئے جانے کی خبر انتہائی شرمناک ہے۔ آج صاف ہو گیا ہے کہ سرمایہ داروں کا اربوں روپئے معاف کرنے والی بی جے پی امیروں کے ساتھ ہے اور غریبوں کے خلاف۔ اس سے پہلے چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپیش بگھیل نے مزدوروں کا ریل کرایہ ریاستوں سے وصولنے کے مسئلے کو مضحکہ خیز بتایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تھا کہ مزدوروں کے ٹرین چلانے کے لئے مرکزی حکومت کو ریاستوں سے پیسہ نہیں لینا چاہئے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔ مرکز کو اس میں مدد کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا تھا کہ بہتر روزی کے لئے لوگ باہر جاتے ہیں۔ اس بحران کی گھڑی میں ان کے آنے کے لئے ہم نے مرکز سے ٹرین کے لئے بات کی تھی۔ کوٹہ میں پھنسے ریاست کے طالب علم بس سے آئے۔ انہیں دو دن کا وقت لگا اور مشکل ہوئی۔ اس لئے ہم نے ٹرین چلانے کی اپیل کی تھی۔ ٹرین ہندوستانی حکومت کی ہے اور مجبوروں کو لانے کے لئے ریاستی حکومت سے مرکز پیسہ لے، یہ غلط ہے۔اس سے پہلے اکھلیش نے کسانوں کے مسائل پر یوگی حکومت کو گھیرا تھا۔ سابق وزیر اعلی نے کہا تھا کہ بی جے پی حکومت کو کسانوں کے مفادات کی پرواہ نہیں ہے۔ اضلاع کے افسران بھی کسانوں کے تئیں غلط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ گندم اور آم کی فصل کی ہوئی بربادی کی حکومت کے پاس کوئی تفصیلات نہیں ہے۔ حال ہی میں اکھلیش نے کورونا سے نمٹنے کے لئے اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اتر پردیش:مہاراشٹر سے لوٹے 7 لوگوں میں کورونا وائرس کا انفیکشن، اسپتال میں داخل
نئی دہلی:ایک طرف جہاں مرکزی حکومت نے لاک ڈائون میں پھنسے مہاجر مزدوروں، طالب علموں اور سیاحوں کو نکالنے کے لئے ڈھیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ وہیں اتر پردیش میں مہاراشٹر سے آئے 7 مہاجر مزدور کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے ہیں۔ اس کے بعد سے حکومت اور انتظامیہ کے لئے سر درد بڑھ گیا ہے۔ یہ تمام متاثرین بستی ضلع میں ہیں۔ راحت والی بات یہ ہے کہ سب کو کووارنٹین کیا گیا تھا۔ اب ان سب کو مقامی اسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے اور کووارنٹین سینٹر کو سینٹائزکیا جا رہا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ یہ علاقہ باہر سے آئے مہاجر مزدور جو کہ کورونا وائرس سے متاثرہیں اس کی بڑی کلسٹر بن گیا ہے۔ غور طلب ہے 25 مارچ سے جاری لاک ڈائون کے اعلان کے بعدلاکھوں مہاجر مزدور ملک کے کئی حصوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس بیماری سے اب تک 1200 افراد ہلاک ہو چکے ہے اور 37000 سے زائد معاملے سامنے آ چکے ہیں۔کئی مہاجر مزدور ایسے بھی ہیں جو سینکڑوں کلومیٹر پیدل ہی چل کر اپنے گائوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہیںجو راستے میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ملک کے حصوں میں پھنسے مزدور مسلسل گھر جانے کا مطالبہ کررہے تھے اور اس کو لے کر یوپی سمیت کئی ریاستی حکومتیں اپنی طرف سے پہل بھی کر رہی تھیں۔ اس پر کافی اختلافات بھی تھا۔آخر کار مزدوروں کی حالت کودیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے ڈھیل دے دی اور کئی جگہوں سے خصوصی ٹرینیںبھی چلائی جا رہی ہیں۔
نئی دہلی:مرکزی وزارت صحت نے ملک کے تمام 733 اضلاع کے لئے کلر میپ جاری کیا ہے جس میں کرونا وائرس مریضوں کی تعداد کی بنیاد پر انہیں ریڈ، اورنج یا گرین زون میں تقسیم کیا ہے۔ دارالحکومت دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں سمیت ملک کے مرکزی وزارت صحت نے ملک کے تمام 733 اضلاع کے لئے کلر میپ جاری کیا ہے جس میں کرونا وائرس مریضوں کی تعداد کی بنیاد پر انہیں ریڈ، اورنج یا گرین زون میں تقسیم کیا ہے۔ دارالحکومت دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں سمیت ملک کے 130 ضلع ریڈ زون میں ہیں۔ وہیں 319 اضلاع کو گرین زون میں رکھا گیا ہے۔ ریاستوں کو کلر کوڈنگ کی بنیاد پر روک تھام کے اقدامات کے کرنے اور احتیاط کو یقینی بنانے کو کہا گیا ہے۔تمام ریاستوں کے چیف سکریٹریوں کو خط لکھ کرمرکزی صحت سکریٹری نے ریڈ زون علاقوں میں مقرر روک تھام حکمت عملی کے تحت اقدامات مکمل کرنے کو کہا ہے۔ سیکرٹری پریتی سودن کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں واضح کیا گیا ہے کہ ریاست چاہیں تو دیگر اضلاع یا علاقوں کو بھی ریڈ زون نامزد کر سکتے ہیں۔ گرین زون اس ضلع کو کہا جائے گا جہاں یا تو کوئی کیس نہیں ہے یا گزشتہ 21 دونوں کے دوران کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔وزارت صحت کے مطابق ایک سے زیادہ کارپوریشن علاقوں والے ضلع میں ہر کارپوریشن کے تابع علاقہ ایک یونٹ کہلائے گا۔ کسی ایک یا زیادہ یونٹ میں اگر 21 دنوں تک کوئی نیا معاملہ سامنے نہیں آتا تو اسے ایک کلر زمرے نیچے کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر کسی اورنج زون علاقے میں 21 دن تک کووڈ 19 کیس درج نہیں ہوتا تو اسے گرین زون میں رکھا جا سکتا ہے۔ ریاست اضافی علاقوں کو ریڈ یا اورنج نامزد کر سکتے ہیں لیکن مرکزی وزارت صحت کو مطلع کئے بغیر ان کے زمرے نہیں کم کر سکتے۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ریڈ زون کی تعداد کم ہوئی ہے اس کے ساتھ گرین زون والے علاقوں کی تعداد بھی کم ہوئی ہے۔ ایک ہفتے پہلے ملک میں جہاں 207 علاقے غیر ہاٹ سپاٹ یا اورنج زون میں تھے وہیں اب 284 ضلع اس زمرے میں ہیں۔ گزشتہ 16 اپریل کو جاری وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 170 ضلع ریڈ زون میں تھے جو اب گھٹ کر 130 ہو گئے ہیں۔ گرین زون کی تعداد 16 اپریل کو 359 تھی جو اب 319 ہو گئی ہے۔کابینہ سکریٹری راجیو گوابا کی قیادت میں 30 اپریل کو ریاستوں کے اہم سیکرٹریز اور صحت سکریٹریوں کی ویڈیو کانفرنسنگ کے اجلاس کے بعد یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ ہر ہفتے مختلف اضلاع کے کلر زون کا جائزہ لیا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ کرونا وائرس کے 15 سے زائد معاملے والے اضلاع یا ان علاقوں کو ریڈ زون میں رکھا گیا ہے جہاں مریضوں کی تعداد چار یا اس سے کم دنوں میں دوگنا ہو رہی ہے۔
نئی دہلی:ایک طرف جہاں امریکہ سمیت پوری دنیا کے بڑے ممالک کرونا وائرس کے خلاف گھٹنے ٹیکتے نظر آرہے ہیں۔ وہیں ہندوستان نے کم وسائل کے باوجود یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرونا وائرس کے خلاف اب تک شاندار لرائی لڑی ہے۔ اس بیماری سے اموات کی شرح بھی باقی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کی مانیں تو اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر 10 ممالک کے مقابلے میں ہندوستان میں شرح اموات سب سے کم ہے۔ برطانیہ میں 15.7، بلجیم میں 15.7، فرانس میں 14.5، اٹلی میں 13.6، ہالینڈ میں 12.1، سویڈن میں 12.1، اسپین میں 10.2، میکسیکو میں 9.7، برازیل میں 6.9، ایران میں 6.4 اور ہندوستان میں یہ شرح 3.2 ہے۔غور طلب ہے کہ ہندوستان میں اس گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے تاہم اس دوران کئی مقامات پر لاپرواہی بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ لیکن ڈاکٹروں، طبی عملے، پولیس اورصفائی اہلکاروں نے اب تک شاندار کام کیا ہے۔شروع میں بغیر پی پی ای کٹ کے بھی ان ہیلتھ ورکرس نے مورچہ سنبھالتے ہوئے حالات کوسنبھالا اور کئی پولیس اہلکاروں اور ڈاکٹروں نے اس بیماری سے لڑتے ہوئے جان بھی گنوائی ہے۔فی الحال آج جو اعداد و شمار آیا ہے کہ اس کے مطابق ہندوستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 35000 سے تجاوز کر گئی ہے اور کل 8889 لوگ ٹھیک ہوئے ہیں یعنی اب کل معاملے25007 ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں کرونا وائرس کے 1993 نئے کیس سامنے آئے ہیں اور 73 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اس درمیان ایک اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ 15 دنوں میں ملک میں کرونا وائرس ہاٹ سپاٹ یا ریڈ زون کی تعداد 23 فیصد کم ہوئی ہے۔ مرکزی حکومت نے اس بات کی جانکاری دی ہے۔ حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ 15 اپریل کو ملک میں 170 ریڈ زون تھے جو 30 اپریل کو 130 رہ گئے۔ وہیں ملک میں اورنج زون بڑھے ہیں۔ یہ 207 سے 284 ہو گئے ہیں۔