نئی دہلی:شاہین باغ میں شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) اور قومی شہریت رجسٹر (این آرسی) مظاہرے کے دوران بچے کی موت کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔بہادری ایوارڈ یافتہ ساتویں کی طالبہ جین گرتن سداورتے نے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کو خط لکھ کرمظاہرے میں معصوم بچوں کو لانے کو لے کر ہدایات دینے کی فریادکی۔بتا دیں کہ قومی دارالحکومت کے شاہین باغ میں شہریت ترمیم ایکٹ (سی اے اے) کو لے کر گزشتہ سال دسمبر سے ہی مظاہرہ مسلسل جاری ہے۔یہاں مظاہرہ کر رہے ایک خاندان کے 4 ماہ کے بچے کی موت ہو گئی۔ بچے کی موت کی وجہ مسلسل سرد ی میں رہنا بتایا گیا۔بچے کے والد ارشد نے کہاکہ ہم لوگ 29 تاریخ تک احتجاج میں تھے،دھرنا مظاہرہ سے دیر رات ہم واپس آئے اور ہم نے قریب ڈھائی بجے بچے کو دودھ پلایا تھا،جب صبح کے وقت ہم اٹھے تو دیکھا کہ بچہ بالکل خاموش تھا،اس کے بعد ہم فوری طور پر پہلے بٹلہ ہاؤس کلینک لے گئے، لیکن وہاں ہمیں بولا گیا کہ اسے ہولی فیملی ہسپتال لے جاؤ،ہماری اس ہسپتال میں جانے کی حیثیت نہیں تھی، اس لئے ہم بچے کو الشفا ہسپتال لے گئے،وہاں جب ڈاکٹر نے دیکھا تو کہا کہ بچے کی موت 5 گھنٹے پہلے ہی ہو چکی تھی۔
Court
سپریم عدلیہ کا فیصلہ شہری ترمیمی قانون کو لے کر کیا ہوگا ، یہ سب کو پتہ تھا، یہ بھی وہ نازک کڑی ہے کہ سپریم عدلیہ کو یہ غور کرنا چاہیے کہ عوام کو اسکے فیصلے پر اعتبار کیوں نہیں ہے ؟ کیا سپریم عدلیہ کسی مذہبی تنظیم یا کسی خاص پارٹی کی سیاست کا حصّہ بن رہی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ بھیانک ہےـ اس وقت میرے سامنے عالمی انقلابات کے ساتھ غلام ہندوستان کا وہ صفحہ بھی ہے جب گاندھی اور آزاد جیسے رہنماؤں کی قیادت میں ایک انقلاب بلند ہوا اور انگریزوں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا،شہریت ترمیمی قانون کا مقدمہ کوئی معمولی مقدمہ نہیں تھا کہ سپریم عدلیہ نے جلد بازی میں اپنا موقف سامنے رکھتے ہوئے نہ ہندوستان کے انقلاب کی آواز سنی ، نہ روس اور فرانس کے انقلاب کا جائزہ لیاـ یہ ملک کے ایک سو چالیس کروڑ عوام کا مقد مہ تھا اور اس سے پہلے کہ ہمارے جج صاحبان تاریخی کردار ادا کرتے ، مذہبی اور سیاسی دباؤ کا حصّہ بن گئے، ایک دن قبل امت شاہ نے بیان دیا کہ کانگریس نے ناپاک مذہبی بنیاد پر ملک کا بٹوارہ کرایا تھا،اب ایسا لگتا ہے کہ امت شاہ نہ اس وقت کی تاریخ سے واقف ہیں نہ ان امور سے جو تقسیم کی بنیادی وجہ ثابت ہوئے، یہ بیان اس انتہا پسند رویہ کا مظہر ہے کہ اب پاکستان بننے کے عمل کے بعد ہندوستان کو بھی مخصوص مذہبی رنگ میں شامل ہونا ہوگا اور اسی لئے امت شاہ ترمیمی قانون کو لے کر ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں ـ شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں 140سے زائد عرضیاں ہونے کے باوجود جو کمزور فیصلہ آیا ہے ، اس فیصلے میں بھی ایک مخصوص سیاست کے مذہبی رنگ کو محسوس کیا جا سکتا ہے، کیا سپریم عدلیہ اس بات سے واقف ہے کہ ہندوستان کا ایک بہت بڑا طبقہ اب انصاف کے اس عالیشان مندر کو بھی زعفرانی رنگوں میں دیکھ رہا ہے ؟ دنیا کے کسی بھی انصاف کے مندر کے لئے یہ کوئی نیک شگون نہیں، یہ ایسا ہی ہے کہ بے بس عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ اب وہ انصاف مانگنے کہاں جائیں ؟ اگر انصاف کا دروازہ بند ہے تو پھر انقلاب رہ جاتا ہےـ
اور اب ملک کے عوام بھی ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ـ جب وفادار آر ایس ایس انگریزوں کے پیچھے کھڑی تھی اور ساورکر انگریزی حکومت سے بار بار معافی طلب کر رہے تھے ، یہ صاف ہو گیا تھا کہ ملک کے لئے زعفرانی مشن کی حیثیت کیا ہے ؟ اور آزادی کے بہتر برس بعد اگر مشن قیادت کرتی ہے تو اسکا رجحان کیا ہوگا ؟ لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ قیادت کے محض چھ برس گزرنے کے بعد ہی مسلمان گھس پیٹھیوں ( اس میں ملک کے تمام مسلمان شامل ہیں ) کو ملک سے نکال باہر کرنے کی کاروائی کچھ اس حد تک گستاخ ہو جائے گی کہ ایک جمہوری حکومت ( کیونکہ عوام نے منتخب کیا ہے ) آئین ، جمہوریت ، قانون ، انصاف سب کا قتل کر دے گی اور محض دو چہرے آر ایس ایس کی نمائندگی میں پورے ملک کو آگ کی لپٹوں میں جھونک دیں گے اور سپریم عدلیہ جب انصاف کرے گی تو یہ بھول جائے گی کہ اس وقت ملک کے ہر حصّے میں طوفان مچا ہے اور پورے ملک میں انقلاب کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہےـ مجھے روس کے انقلاب کی یاد آ رہی ہے،زار کی حکومت تھی، عوام میں اس کے غیض و غضب کو لے کر غصّہ تھا،پر امن ریلیوں کے ساتھ احتجاج شروع ہوا،شاہی محل کے سامنے ایک پُرامن مظاہرے کا اہتمام کیا گیا،مظاہرین کی تعداد دیکھ کر شاہی گارڈ خوف زدہ ہو گئے۔ انہوں نے خوف زدہ ہو کر فائرنگ کر دی جس سے ایک ہزار افراد مارے گئے۔ 23 فروری1917ء کو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دار الحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جواب مل گیا کہ خوراک ختم ہو چکی ہے، کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا جسے تاریخ میں فروری انقلاب سے یاد کیا جاتا ہے۔خواتین نے اردگرد کی فیکڑیوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں تقریباً 50ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہو چکے تھے ۔ طلبہ،سفید پوش ورکرز اور استاتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے،زار کا سورج غروب ہواـ
ہندوستانی تاریخ میں جس دن پولیس نے جامعہ میں خون کی ہولی کھیلی ، یہ وہی دن تھا جب شاہین باغ کی عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا . پھر خوریجی اور سارے ہندوستان میں آزادی کے نعروں کے ساتھ انقلاب کی تحریک عورتوں کے ہاتھ میں آ گئی،طلبا تحریک میں قیادت کرنے لگے اور ہر قوم و ملت کے لوگ انقلاب کا حصّہ بن گئےـ
سپریم عدلیہ فرانس کے انقلاب پر بھی غور کر سکتی تھی، کبھی یہی صورت فرانس کی تھی،جب پانی سر سے بلند ہو گیا تو عوام نے غصّے میں ان شاہی محافظوں کو کچل دیا جو فرانس کے بادشاہ کے حکم پر ظلم و بربریت کی کہانیاں لکھا کرتے تھے، فرانس کا انقلاب ہمیں آواز دیتا ہوا نظر آتا ہےـ فرانس میں ان دنوں بوربون خاندان کی حکومت تھی۔بادشاہ کے اپنے لوگ تھے،اپنا عدالتی نظام تھا،ہر شعبے پر حکومت تھی،عوام نے تنقید کا حق کھو دیا تھا،فرانس نے تمام عدالتی منصب فروخت کر دے تھے۔دولت مند تاجر منصبوں اور عہدوں کو خریدتے تھے ۔اس زمانے میں فرانس کے ججوں کی تنخواہیں کم تھیں،جج بادشاہ کے زیر نگران کام کرتے اور فیصلے لیتے تھے، رشوت خوری کا بازار گرم تھا۔ فرانس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی کام ہوتا تھا بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا ،فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے ۔ جی ایس ٹی نے چھوٹے چھوٹے تاجران کو مار ڈالا،روزگار ختم کر ڈالے،معیشت کی کمر ٹوٹ گئی،ملک ہزارو ں برس پیچھے چلا گیااور ملک کے پٹری پر آنے کی صورت دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی،فرانس کابادشاہ پیرس سے بارہ میل دور "ورسائی” کے محل میں رہتا تھا ۔اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔.شاہی اصطبل میں انیس سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ تھا۔ فرانس بھی دیوالیہ تھا، وہاں لاکھوں مزدور بے کار تھے۔فرانس کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے، فرانس میں بادشاہ کے خلاف پیدا ہوئی نفرت انقلاب میں تبدیل ہو گئی ۔ 14جولائی 1789کا دن انقلاب کے اگتے سورج کا دن تھا ۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔
یہ افسوسناک ہے کہ سپریم عدلیہ اور بوبڈے نے عالمی تاریخ پر غور کیا نہ ہندوستان کی غلامی کی تاریخ کا مطالعہ کیا، آج ہندوستان جس انقلاب سے گزر رہا ہے ، بوبڈے کی بنچ تاریخی فیصلہ سنا سکتی تھی، ابھی بھی حکومت اور سپریم عدلیہ یہ سمجھتی ہے کہ ہندوستانی انقلاب کی شمع کچھ دنوں میں بجھ جائے گی ، تو اس کی نا سمجھی ہے،یہ انقلاب وہی ہے جو 1947سے پہلے آیاتھاـ اس وقت انگریز تھے اب رنگ بدلے ہوئے فسطائی، فرق کچھ بھی نہیں،پہلے انگریزوں سے ملک کو آزاد کرنا تھا اب فسطائی طاقتوں سے آزاد کرنا ہے،اور اس لئے گلی کوچوں میں ، ہر طرف آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں،سپریم عدلیہ کے پاس ابھی بھی وقت ہے،وہ ملک کے عوام کی نبض کو سمجھے،انصاف کے مندر کا حق ادا کرےاور اس نئی تاریخ کو رقم کرے جس میں فسطائی طاقتوں کے لئے کوئی جگہ نہ ہو، سپریم عدلیہ سے ایسی امید تو کی ہی جا سکتی ہےـ
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
ہندوستان کو 22 جنوری کا انتظار ہے. سپریم کورٹ اس دن کیا کہتا ہے، لوگ کان لگائے بیٹھے ہیں.حالانکہ ملک میں پہلی بار عدالتِ عظمیٰ کا وقار واعتبار اتنا گرا ہے کہ اب اس کا فیصلہ تسلیم کرنے کا رجحان کمزور ہوگیا ہےـ
اس کے باوجود سی اے اے کے سلسلے میں 22 جنوری کو سپریم کورٹ کا جو ردعمل ہوگا، اس سے عوامی تحریک کا اگلا رخ طے ہوگا.ذرا تصور کیجیے سی اے اے پر سپریم کورٹ کیا کیا کہہ سکتا ہے؟ میرے خیال میں چار امکانات ہیں :
(1) سپریم کورٹ سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے کر رد کردے گایا:
(2)سی اے اے کو جائز ٹھہرائے گاـ یا:
(3)سی اے اے کو کچھ ترمیم کے ساتھ مشروط کرکے ہری جھنڈی دکھادے گاـ یا:
(4) اس مسئلے کی شنوائی اگلی تاریخ تک ملتوی کردے گاـ
مجھے آخرالذکر تین امکانات پر تحریک کے سرد پڑنے کا خدشہ نہیں ہے، لیکن پہلا امکان میرے لیے بہت تشویش ناک ہے، پہلا امکان یعنی کہ اگر سپریم کورٹ نے سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے دیا تو سڑکوں پر نکلے ہوئے لاکھوں ماں، بہنیں، طلبہ و طالبات اور عوام الناس چین کا سانس لیں گے اور فتح و کامرانی کا جشن مناکرچٹائی سمیٹے ہوئے گھروں کو لوٹ جائیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوامی تحریک صرف سی اے اے کے خلاف ہے؟اگر ایسا ہے تو پھر این پی آر کا کیا ہوگا؟کیا این پی آر کا مسئلہ این آر سی کے برابر سنگین نہیں ہے؟ادھر بہار سرکار نے اعلامیہ جاری کردیا ہے کہ 15 مئی تا 28 جون 2020 این پی آر مکمل کرلیا جائے گا.نتیش کمار نے اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ بہار میں این آر سی نافذ نہیں ہوگا.لیکن دوسری طرف نتیش سرکار این پی آر کرانے جارہی ہے.کیا این پی آر خطرناک نہیں؟کچھ معصوم لوگ این پی آر اور مردم شماری کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں.جب کہ یہ دو الگ الگ دستاویز ہیں. این پی آر واضح طور پر این آر سی کا ہی پہلا قدم ہے. این پی آر میں ایک کالم ہے مشکوک شہری کا. مقامی رجسٹرار کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی مشکوک شہری قرار دے.این پی آر میں والدین کی تاریخ پیدائش اور ان کی جائے پیدائش کے سوالات بھی ہیں.سوال یہ ہے کہ این پی آر کی تحریک کس طرح جاری رہے گی؟ اور اسے کامیاب کس طرح بنایا جائے گا؟
آخر میں اصل بات یہ کہنی ہے کہ اس عوامی تحریک کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا محض سی اے اے/این آر سی/این پی آر کا خاتمہ؟ یا پھر صحیح معنوں میں دستورِ ہند کا تحفظ؟
اگر اس تحریک کا مقصد صرف اول الذکر قوانین کو کالعدم کرنا ہے تو پھر یہ تحریک وقتی اور عارضی ہوگی. لیکن اگر اس کا مشن آئین اور ملک کی سلامتی ہے تو اس تحریک کو طویل مدتی، منصوبہ بند اور منظم کرنا ہوگا.سچ یہ کہ اصل مسئلہ ہندو راشٹر، ہندوتو،برہمن واد اور منوواد کا ہے.ایک فسطائی قوت جمہوری آئین کی جگہ منواسمرتی نافذ کرنا چاہتی ہے، گاندھی کی جگہ گوڈسے کو بابائے قوم بنانا چاہتی ہے. یہ جنگ سیکولرزم بنام فاشزم اور جمہوریت بنام آمریت ہے.لہذا ہندوستان کو طے کرنا ہوگا کہ وہ یہ لڑائی کس طرح لڑے گا؟