چنئی:ہندوستان میں 10اگست کو کورونا وائرس کی وجہ سے اموات کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا جو کورونا اموات کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران یومیہ ہلاکتوں کی تعداد 900 کے قریب تھی۔ اتوار کے روز یہ تعداد 1000 ریکارڈ کی گئی۔ بہت کم ممالک ایسے ہیں جہاں ایک دن میں کورونا کی وجہ سے بہت ساری اموات ہو رہی ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ برازیل اور امریکہ واحد ممالک ہیں جہاں ایک ہی دن میں 1000 سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔اس وقت 46000 اموات کے ساتھ ہندوستان دنیا کا پانچواں ملک ہے جس میں اموات کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ لیکن ہندوستان میں جس شرح سے اموات میں اضافہ ہورہا ہے، ہندوستان چند دن میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ تاہم ہندوستان میں امریکہ کی بنسبت بہت کم اموات ہوئیں۔ امریکہ میں 1.65 لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔عام طور پر ہندوستانی حکومت نے جس اعداد و شمار کی نشاندہی کی وہ آبادی کے لحاظ سے اموات کی تعداد ہے۔ یہ ایسا اشارے ہے، جس کے مطابق ہندوستان ، روس اور چین کے علاوہ یہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں نچلے حصے میں ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کے مقابلے میں ہندوستان میں اموات کی شرح کم ہے۔ 2 فیصد سی ایف آر کے ساتھ ہندوستان میں ہر 10 لاکھ آبادی میں کورونا سے 32 اموات ہوتی ہیں۔اموات کی موجودہ تعداد کے ساتھ ہندوستان روزانہ اموات کے معاملے میں جلد ہی برازیل کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ ہندوستان کو اب بھی امید رکھنی چاہئے کہ کل نئے معاملات میں سے کم از کم 2 فیصد اموات میں بدل جائیں گے۔ ہندوستان فی الحال سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔
Corona
نئی دہلی:کورونا نے ملک میں اب تک کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ ایک دن میں 64399 نئے کیسزدرج ہوئے ہیں اور 861 افراد کی موت ہوچکی ہے۔ اس کے بعد ہندوستان میں مریضوں کُل تعداد 21 لاکھ 53 ہزار 11 ہوگئی ہے، جس میں سے 6 لاکھ 28 ہزار 747 فعال کیسز اور 14 لاکھ 80 ہزار 885 افراد ٹھیک ہوگئے ہیں۔ ابھی تک کورونا سے 43379 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے مطابق ہفتے کے روز 7 لاکھ 19 ہزار 364 نمونوں کی جانچ کی گئی ہے۔ اب تک 2 کروڑ 41 لاکھ افراد کی جانچ کی جاچکی ہے۔ سب سے زیادہ 1 لاکھ 47 ہزار 355 کورونا کے معاملات مہاراشٹر میں ہیں۔ہفتہ کے روز دہلی سے ملحق گوتم بدھ نگر میں 65 افراد کی کوروناکی رپورٹ مثبت آئی ہے۔ اس کے بعد کورونا مثبت مریضوں کی تعداد 5868 ہوگئی ہے۔ 4888 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اسپتالوں میں 937 مریض زیر علاج ہیں۔ اب تک 43 مریض لقمہ اجل بن چکے ہیں۔راجستھان میں 596 نئے کورونا کیسزکی تصدیق ہوئی ہے اور 6 افراد کی موت ہوئی ہے۔ ریاست میں کل 51 ہزار 924 افراد کورونا پوزیٹیوپائے گئے ہیںاور 784 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ راجستھان میں فی الحال 13 ہزار 847 فعال کیسزہیں۔
نئی دہلی:ملک میں ہر روز کورونا کے معاملے میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک دن میں ملک بھر میں 48661 مثبت واقعات رپورٹ ہوئے اور 705 افراد اس مرض سے ہلاک ہوگئے۔ یہ گزشتہ 24 گھنٹوں کا اعداد و شمار ہے۔وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کورونا کے مثبت معاملوںکی تعداد 1385522 ہوگئی ہے جبکہ فعال کیسوں کی تعداد 467882 ہے۔ وزارت نے بتایا کہ اب تک ملک میں 885577 افراد کورونا سے ٹھیک ہوچکے ہیں اور مجموعی طور پر 32063 افرادکی موت ہوئی ہے۔ گزشتہ24 گھنٹوں 442031 نمونے ٹیسٹ کئے گئے ہیں۔ یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ سرکاری لیب نے ایک دن میں 362153 نمونے ٹیسٹ کر کے ایک نیا ریکارڈ بنایا۔ ملک میں نجی لیب بھی اچھی خاصی تعداد میں ٹیسٹ کررہے ہیں۔ وزارت صحت کے مطابق ایک نجی لیب میں گذشتہ روز 79878 ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔دنیا میں کورناسے سب سے زیادہ متاثر ممالک کی فہرست میں ہندوستان تیسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ ملک کی سب سے زیادہ متاثرہ ریاست مہاراشٹر ہے، جہاں فعال کیسوں کی کل تعداد 467882 ہے۔ یہاں ایک دن میں 9251 نئے معاملے درج ہوئے۔ اب تک 366368 معاملے سامنے آئے ہیں جن میں 13389 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ مہاراشٹرا کے بعد تمل ناڈو، دہلی، کرناٹک اور آندھرا پردیش کا نمبرہے۔ اگر ہم ان ریاستوں میں کورونا کی تعداد کودیکھیں تو یہ بالترتیب 206737، 129531، 90942 اور 88671 ہے۔
نئی دہلی:ہندوستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کل تعداد 5 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے 17 ہزار 296 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور 407 افراد کی موت ہوگئی ہے۔ وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں اب تک 4 لاکھ 90 ہزار 401 افراد کورونا سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس میں سے 15301 کی موت ہوچکی ہے، جبکہ دو لاکھ 85 ہزار افراد بھی صحت یاب ہوئے ہیں۔کورونا مریضوں کی تعداد کے حساب ہندوستان دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ امریکہ، برازیل، روس کے بعد، کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں ہندوستان چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔ہندوستان سے زیادہ کیس امریکہ (2502311)، برازیل (1233147)، روس (613994) میں ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی ہندوستان میں بڑھتے ہوئے مریضوں کی رفتار دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ امریکہ اور برازیل کے بعد ایک دن میں سب سے زیادہ تعداد ہندوستان میں درج کی جا رہی ہے۔
نئی دہلی:مرکزی حکومت نے اس سال ہندوستان سے عازمین حج کے لئے نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکزی اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے کہا کہ ایسا فیصلہ کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے کیا گیا ہے۔نقوی نے بتایاکہ گذشتہ رات سعودی عرب کی حکومت کے وزیر حج کا فون آیا تھا۔ انہوں نے پوری دنیا میں کورونا کی وبا کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس بار عازمین حج کو ہندوستان سے نہیں بھیجا جانا چاہئے۔اس لیے ہم نے سعودی عرب کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس بار ہندوستانی حاجیوں کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمام 2 لاکھ 30 ہزار حجاج کرام کی رقم واپس کردی جائے گی۔ ہندوستانی حج کمیٹی نے گزشتہ ہفتہ حج پر نہ جانے کے خواہشمند افراد کو رقم واپس لینے کا اختیار بھی دیا تھا۔اہم بات یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے قیاس آرائوں کے بعد سعودی حکومت نے حج پر کچھ پابندیوں کی اجازت دی ہے۔ اس سال صرف سعودی شہری اور تارکین وطن حج کر سکتے ہیں۔ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ لوگوں کی حفاظت کے پیش نظر محدود تعداد میں لوگوں کو حج کی اجازت ہے۔ سعودی عرب میں مسلسل کورونا وائرس کے معاملے سامنے آرہے ہیں۔
لکھنؤ: لاک ڈاؤن میں مزدوروں کی گھر واپسی کے لئے ریاستوں سے ریل کرایہ لینے کا معاملہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپیش بگھیل کے بعد سماجوادی پارٹی کے چیف اکھلیش یادو نے مرکزی حکومت پر نشانہ لگایا ہے۔اکھلیش نے کہا ہے کہ ٹرین سے واپس گھر لے جائے جا رہے غریب، مجبور مزدوروں سے بی جے پی حکومت کی طرف سے پیسے لئے جانے کی خبر انتہائی شرمناک ہے۔ آج صاف ہو گیا ہے کہ سرمایہ داروں کا اربوں روپئے معاف کرنے والی بی جے پی امیروں کے ساتھ ہے اور غریبوں کے خلاف۔ اس سے پہلے چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپیش بگھیل نے مزدوروں کا ریل کرایہ ریاستوں سے وصولنے کے مسئلے کو مضحکہ خیز بتایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تھا کہ مزدوروں کے ٹرین چلانے کے لئے مرکزی حکومت کو ریاستوں سے پیسہ نہیں لینا چاہئے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔ مرکز کو اس میں مدد کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا تھا کہ بہتر روزی کے لئے لوگ باہر جاتے ہیں۔ اس بحران کی گھڑی میں ان کے آنے کے لئے ہم نے مرکز سے ٹرین کے لئے بات کی تھی۔ کوٹہ میں پھنسے ریاست کے طالب علم بس سے آئے۔ انہیں دو دن کا وقت لگا اور مشکل ہوئی۔ اس لئے ہم نے ٹرین چلانے کی اپیل کی تھی۔ ٹرین ہندوستانی حکومت کی ہے اور مجبوروں کو لانے کے لئے ریاستی حکومت سے مرکز پیسہ لے، یہ غلط ہے۔اس سے پہلے اکھلیش نے کسانوں کے مسائل پر یوگی حکومت کو گھیرا تھا۔ سابق وزیر اعلی نے کہا تھا کہ بی جے پی حکومت کو کسانوں کے مفادات کی پرواہ نہیں ہے۔ اضلاع کے افسران بھی کسانوں کے تئیں غلط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ گندم اور آم کی فصل کی ہوئی بربادی کی حکومت کے پاس کوئی تفصیلات نہیں ہے۔ حال ہی میں اکھلیش نے کورونا سے نمٹنے کے لئے اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
گرودوارہ سے پنجاب میں کوروناکیس بڑھنے پردگ وجے سنگھ نے میڈیاکوآئینہ دکھایا
بھوپال:پنجاب میں بڑی تعداد میں سکھ عقیدت مندوں کے وائرس سے متاثر پائے جانے پر کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ نے سوال اٹھایاہے۔میڈیااوربی جے پی لیڈروں نے جس طرح مرکزنظام الدین کونشانہ بناکرپورے بھارت میں کوروناکاذمے دارمسلمانوں کوبتانے کی کو شش کی،کیاحضورصاحب پربھی ویسی ہی سیاست کرکے ایک کمیونٹی کوٹارگیٹ کیاجائے گا؟کانگریس نے اسی کولے کرطنزکیاہے۔آج ہی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہاہے کہ پورے بھارت میں جہاں بھی کوروناکاکیس آیاہے،وہ مرکزسے جڑاہواہے،سوال یہ ہے کہ نظام الدین معاملہ سامنے آنے سے پہلے جوکیسزآئے تھے،ان کے ذمے دارکون ہیں اورآج گجرات زیادہ متاثرریاستوں میں ہے،نمستے ٹرمپ کے لیے جمع کی گئی لاکھوں کی بھیڑپرسوال کیوں نہیں کیے جارہے ہیں۔اب یہی سوال میڈیاسے بھی کیاجارہاہے کہ سکھ عقیدت مندوں کے معاملے پران کی زبان کیوں بندہے۔دگ وجے سنگھ نے کہاہے کہ سکھ زائرین کے متاثر پائے جانے سے پنجاب میں خطرہ پیداہو گیاہے۔ کیا اس کاتبلیغی مرکز سے کوئی موازنہ کیا جا سکتاہے۔دگ وجے سنگھ نے انڈیا ٹوڈے کی ایک خبرکوٹوئٹرپرشیئر کیا اور سوال کیا کہ کیا سکھ زائرین کاموازنہ تبلیغی مرکز معاملے سے کیا جاسکتاہے؟انہوں نے لکھاہے کہ سکھ زائرین کے متاثرپائے جانے سے پنجاب میں خطرہ پیداہوگیاہے۔کیا اس کاتبلیغی مرکزسے کوئی موازنہ کیاجا سکتاہے؟پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے بھی ماناہے کہ ریاست میں معاملات میں ایک بڑا حصہ سکھ زائرین کی وجہ سے ہے۔ کیپٹن امریندر سنگھ نے کہاتھاکہ پنجاب میں کورنا تین راستوں سے آیاہے۔ پہلا این آر آئی، دوسرا ناندیڑ، تیسراراجستھان اور دوسری ریاستوں سے آئے لوگ۔ انہوں نے بتایاہے کہ شروع میں انفیکشن کوپنجاب نے قابوکرلیاتھا۔لیکن بعد میں ناندیڑ اور باقی جگہ سے آئے لوگوں سے منتقلی پھیل گئی۔
نئی دہلی:کرونا وائرس کے سائے میں پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ اقتصادی دارالحکومت ممبئی کے بعد اب دہلی پولیس کے سپاہی بھی کرونا وائرس انفیکشن کی زد میں آ رہے ہیں۔ اب تک دہلی کے 45 پولیس اہلکاروں کی رپورٹ مثبت آ چکی ہے۔ دہلی پولیس تک پہنچنے والا انفیکشن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سینکڑوں پولیس اہلکار کووارنٹین کئے گئے ہیں۔ خطرے کے باوجود پولیس اہلکار سخت دھوپ میں دہلی کی سڑکوں پر لاک ڈائون کے قوانین پر عمل کرا رہے ہیں۔کوئی گانے گنگنا کر کرونا وائرس کے خوف کو چیلنج دے رہا ہے، تو کوئی کچھ اور ترکیب آزما رہا ہے۔ 17 ماہ کی بچی کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر گریٹر کیلاش علاقے میں ڈیوٹی کر رہی نیلم سے جب بچی کے سلسلے میں پوچھا گیاتو ان کی آنکھیں بھرآئیں۔ انہوں نے نم آنکھوں سے بتایا کہ وہ بچی کو جلدی گود میں نہیں لیتیں۔بحران کی اس گھڑی میں ملک کی خدمت کو اپنا فرض بتاتے ہوئے نیلم نے کہا کہ وہ گھر جانے کے بعد ماسک بناتی ہیں، جسے لوگوں کوبغیر کسی قیمت کے دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ دکھ اس وقت ہوتاہے جب لوگ لاک ڈائون پر عمل نہیں کرتے۔ راجستھان کی رہائشی ایک دیگر خواتین کانسٹیبل نے اپنے بچوں کو لاک ڈائون سے پہلے ہی گھر بھیج دینے کی معلومات دی اور کہا کہ کرونا وائرس سے ڈر تو ہے، لیکن احتیاط برت رہے ہیں۔بہت سے دیگرپولیس اہلکاروں نے بھی یہ کہا کہ کرونا وائرس سے ڈر تو ہے، لیکن وہ نجات کے لئے تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ گریٹر کیلاش کے ایس ایچ او کئی دن سے اپنے گھر نہیں گئے ہیں۔ محب وطن گانوں کی دھن کے درمیان ڈیوٹی کر رہے بہت سے دیگرپولیس اہلکاروں نے بھی گھر سے دور رہنے کی معلومات دی اور کہا کہ لواحقین سمجھاتے ہیں، لیکن وہ بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ ڈیوٹی بھی کرنی ہے۔ وہ گلبس، ماسک وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے دفاع کی کوشش کر رہے ہیں۔دراصل پولیس اہلکاروں کو لاک ڈائون پرعمل کرانے کے دوران لوگوں سے بات چیت کرنی پڑتی ہے۔ کئی بار کرونا وائرس متاثر مریضوں کو اسپتال منتقل کرنے کی ذمہ داری بھی پولیس اہلکاروں کو ہی اٹھانی پڑتی ہے۔ کئی پولیس اہلکار سبزی منڈی میں ڈیوٹی کرتے ہوئے کرونا وائرس کی زد میں آ گئے۔ پھر بھی پولیس اہلکاروں کے حوصلے بلند ہیں۔ غور طلب ہے کہ چاندنی محل تھانے پر تعینات 9 پولیس اہلکار کرونا وائرس مثبت پائے گئے تھے۔اس کے بعد تھانہ 4 دن بعد کھلا تو مقامی شہریوں نے پھولوں سے استقبال کیا۔
اندور: ملک میں کرونا وائرس کے پھیلنے سے سب سے زیادہ متاثر اضلاع میں شامل اندور میں اس وبا سے 3 اور مریضوں کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس ضلع میں کرونا وائرس کی زد میں آنے کے بعد دم توڑنے والے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 60 تک پہنچ گئی ہے۔ چیف میڈیکل اینڈ ہیلتھ آفیسر (سی ایم ایچ او) پروین جڑیا نے بتایا کہ شہر میں تین کرونا وائرس متاثرہ مردوں کی گزشتہ دو دن میں الگ الگ اسپتالوں میں علاج کے دوران موت ہوئی۔ ان کی عمر 55 سے 67 سال کے درمیان تھی۔انہوں نے بتایا کہ تینوں مریضوں کو ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، دل سے متعلق بیماری اور دیگر پرانی بیماریاں تھیں۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ضلع میں کووڈ -19 کے 31 نئے مریض ملنے کے بعد ان کی تعداد 1176 سے بڑھ کر 1207 پر پہنچ گئی ہے۔ ان میں سے 123 مریضوں کو علاج کے بعد صحت مند ہونے پر اسپتالوں سے چھٹی دی جا چکی ہے۔رپورٹ کے مطابق ضلع میں کووڈ -19 کی شرح اموات اب تک 4.97 فیصد تھی۔ ضلع میں اس وبا کے مریضوں کی شرح اموات گزشتہ کئی دن سے قومی سطح پرزیادہ بنی ہوئی ہے۔اندور میں کرونا وائرس کا پہلا مریض ملنے کے بعد سے انتظامیہ نے 25 مارچ سے شہری سرحد میں کرفیو لگا رکھا ہے، جبکہ ضلع کے دیگر مقامات پر سخت لاک ڈاؤن نافذ ہے۔
تحریر :ڈاکٹر رضوان احمد (اسوسی ایٹ پروفیسر ،شعبۂ انگریزی و لسانیات ،قطر یونیورسٹی ،دوحہ ،قطر)
ترجمہ :وسیم احمد علیمی
گزشتہ پندرہ دنوں سے سوشل میڈیا اور مرکزی دھارے کی میڈیا میں ایسی خبروں کا سیلاب سا آگیا ہے کہ کس طرح ملک بھر میں کووڈ 19 کے سیکڑوں معاملے کا تار ان لوگوں سے جڑا ہواہے جواوائلِ مارچ میں دہلی کے اندر تبلیغی جماعت کےمرکز میں موجود تھے۔جبکہ ان تبلیغیوں پر لگائے گئے اکثر الزامات بے بنیاد ثابت ہو چکے ہیں ۔
حالاں کہ خود تبلیغی جماعت سے ہمدردی رکھنے والوں کا بھی ماننا ہے کہ مرکز کے منتظمین نے لوگوں کی آمد ورفت منسوخ نہ کر کے غیر ذمہ دارانہ رویے کا ثبوت دیا ہے ۔ہندی اور انگریزی اخباروں نے اس واقعہ کی رپوٹنگ کے دوران ایسے الفاظ کا استعمال کیا جن سے ہندوستانی مسلمانوں کی شبیہ بگڑتی ہے ۔ اس قسم کی نفرت انگیز رپوٹنگ سے نہ صرف اس عالمگیر وبا سے لڑنے میں دشواریاں ہوں گی بلکہ ملک کی قومی یکجہتی پر بھی بھیانک نتائج مرتَب ہوں گے ۔
24 مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی کےاکیس دنوں کے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے یک لخت اعلان کے بعد آمد و رفت منسوخ ہوگئی اور لوگ ملک کے مختلف حصوں میں پھنس گئے ۔ تبلیغی جماعت کے ممبران جو ابھی تک دہلی کے بنگلے والی مرکز مسجد سے نہیں نکل سکے تھے کے علاوہ ہندو اور سکھ بھی الگ الگ مقامات پر لاک داؤن کی وجہ سےپھنسے ہوئے تھے ۔ دہلی کے اندر مجنوں کےٹیلہ میں واقع گرودوارے میں تقریبا دو سو سکھ پھنس گئے تھے ،جمو شہر میں لگ بھگ 400 ہندو زائرین ٹرین رد ہونے کی وجہ سے ویشنو دیوی مندر میں رکے رہنے پر مجبور تھے ۔ لیکن میڈیا نے ان تینوں یکساں انسانی بحران کی ترجمانی میں مختلف لسانی حربوں اور تزویر ں کا استعمال کیا ۔
جدا جدا الفاظ ،جدا جدا بیانیہ :
نظام الدین مسجد میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کے لیے ہندی نیوز پورٹلس اور اخباروں نے لفظ ’چھپے ہوئے ‘ کا استعمال کیا ۔ زی نیوز کی سرخی اس طرح تھی ’’دلی کی 8 مسجدوں میں چھپے تھے 113 لوگ ،نظام الدین مرکز میں ہوئے تھے شامل ‘‘۔ ہندی میں فعل لازم ’چھپنا ‘ کا معنی ایسی جگہ جانا ہے جہاں آپ پر کسی کی نگاہ نہ پڑے ۔اگرچہ لغوی اعتبار سے چند مخصوص سیاق میں یہ لفظ مثبت معنی پربھی دلالت کرتاہے مثلا بچوں کے کھیل کے لیے ’چھپا چھپی ‘کا استعمال ۔لیکن اکثر و بیشتر اس لفظ سے منفی آہنگ کی بو آتی ہے ۔لوگ یاتو کسی کے خوف سے چھپتے ہیں یا کسی سے بچنے کے لیے ۔مثلا کوئی کہے کہ ’’پولیس کو دیکھ کر میرے چچا چھپ گئے ‘‘۔اس لفظ کا استعمال اکثر ان مجرموں کے لیے ہوتاہے جوگرفتاری کے خوف سے پولیس سے چھپ جاتے ہیں ۔ اس لفظ کا استعمال اس ماحول کو بیان کرنے کے لیے بھی ہوتاہے جب ایک بندوق بردار شخص حملہ کرنے کی تاک میں چھپا ہو ۔ مثلا اس نیوز رپوٹ میں لفظ ’’چھپے ہوئے ‘‘ کا استعمال ایسے ہوا ہے جیسے دشہرا گھاٹی میں چھپے ہوئے ڈاکو مہندرا پاسی اور اس کی ٹولی کے لیے ہوتا تھا ۔
زی نیوز کی سرخی میں مرکز میں پھنسے مسلمانوں کے لیے اس لفظ کا استعمال اشارہ کرتاہے کہ گویا جماعت کے ممبران کسی غیر قانونی یا قابل سزا سرگرمیوں میں مصروف ہوں اور مسجد کو پناہ گاہ کے طور پراستعمال کر رہے ہوں ۔
ہندوستان ٹائمز نے بھی اپنی سرخی میں اسی قسم کے حربے کا استعمال کیا ۔’’کووڈ 19:دہلی بھر میں تبلیغی جماعت سے وابستہ 600 غیر ملکی افراد چھپے ہوئے پائے گئے ‘‘۔
Covid-19: 600 Foreign Tablighi Jamaat workers found hiding across Delhi, and counting”‘‘
انگریزی لفظ ’hiding‘ میں بھی وہی لسانی پہلو مضمر ہے جو ہندی اور اردو کے لفظ ’چھپے ہوئے ‘ سے عیاں ہوتاہے ۔
تبلیغی جماعت کی صورت حال کے بالمقابل اسی ہفتے دہلی گرودوارے اور ویشنو دیوی مندر میں بھی یکساں صورت حال تھی ۔لیکن وہاں زائرین اور تیرتھ یاتریوں کی ترجمانی کے لیے زیاد ہ تر خبروں میں الگ لفظ کا استعمال دکھائی دیتاہے ۔ ان معاملات میں میڈیا نے لفظ ’پھنسے ہوئے ‘ کا استعمال کیا ہے ۔جیساکہ این ڈی ٹی وی کی اس سرخی سے عیاں ہے ’’کرونا وائرس لاک ڈاؤن : ویشنو دیوی میں پھنسے ہیں 400 تیرتھ یاتری ،کورٹ نے دیا مدد کا آدیش ‘‘۔
لفظوں کے استعمال کے پس پردہ جو منشا چھپی ہوئی ہے وہ بالکل الگ ہے ۔’چھپے ہوئے ‘ کے بر عکس ’پھنسے ہوئے ‘ کا استعمال ایسے لوگوں کی حالت بیان کر نے کے لیے ہوتاہے جو کسی مقام پر بیچارگی کی حالت میں ہوں۔ مثلا ہندی میں کہیں کہ ’’لوگ جام میں پھنسے ہوئے تھے‘‘۔
انگریزی خبروں میں بھی مترادف الفاظ کا استعمال نظر سے گزرا ہے۔ ان خبروں میں ’stranded‘ ’stuck‘ اور ’grounded‘ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ۔ جیسا کہ ہم سب باخبر ہیں کہ سامعین پر لفظوں کا ایک اثر مرتب ہوتاہے ۔ مسلمانوں کے لیے لفظ ’چھپے ہوئے‘ کا استعمال قاری کے ذہن میں تبلیغی جماعت کے حوالے سے ایک قسم کا غصہ اور ناراضگی مرتب کرتاہے وہیں ہندو ؤں اور سکھوں کے لیے لفظ ’پھنسے ہوئے ‘ کے استعمال سے قاری کے دل و دماغ میں ان کے لیے خاص قسم کی ہمدردی پیدا ہوتی ہے ۔
ماہرین لسانیات کے لیے یہ ایک پرلے درجے کی مثال ہے کہ سیاست کے بھدے مقاصد کی تکمیل میں زبان کا استعمال کیسے ممکن ہے ۔
یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مرکز کے مسلمانوں کے لیے میڈیا میں جن الفاظ کا استعمال کیا گیا ان سے آمد و رفت کی پابندیوں کی وجہ سے مسجد میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کی شبیہ مجرموں جیسی بن گئی ۔زبان محض ابلاغ و ترسیل کا ایک ذریعہ نہیں ہے بلکہ دودھاری تلوار ہے جس کے استعمال سے ملک میں اتحاد قائم کرنے اور ملکی مفادات کی تکمیل ہو سکتی ہے اسی طرح اس کے غلط استعمال سے واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے غلیظ سیاسی منصوبوں کی تکمیل بھی ہو سکتی ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ممبئی:ممبئی کے مضافات گوونڈی میں کورونا وائرس انفیکشن کے سبب ایک 36 سالہ جنرل فزیشن کی موت ہو گئی۔ان کا تین ہسپتالوں میں علاج چلا، لیکن انہیں بچایا نہیں جا سکا۔مانا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر کو ہسپتال میں ایک مریض سے وائرس کا انفیکشن ہوا تھا۔ڈاکٹر کو کوئی دوسری سنگین بیماری نہیں تھی۔کووڈ 19 کی وجہ سے ان کے جسم میں بہت سے اعضاء نے کام کرنا بند کر دیا اور ان کی موت ہو گئی۔ڈاکٹر کی طبیعت 13 اپریل سے ہی خراب ہوئی تھی، جب ان کے جسم میں دست اور سانس پھولنے کی طرح کی علامات نظر آنی شروع ہوئی تھی۔اس کے بعد 15 اپریل کو صبح انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں ان کی کورونا انفیکشن کی جانچ ہوئی اور رپورٹ مثبت آئی،چونکہ ان کی حالت بگڑتی جا رہی تھی اورہسپتال میں آئی سی یو بستر دستیاب نہیں تھا اس لیے انہیں ودیاوہار کے سومیا ہسپتال میں شفٹ کر دیا گیا۔سومیا میں ان کی سانس کی دقت میں بہتری آئی لیکن انہیں ڈائلاسیز کی ضرورت تھی،جیسا کہ وہ ایک مشتبہ کورونا وائرس کے مریض تھے، سومیا انتظامیہ نے کہا کہ انہیں رہیجا ہسپتال میں شفٹ کرنا ہوگا، کیونکہ وہاں ڈالیسیز کی سہولت موجود ہے۔ڈاکٹر کے 30 سالہ بھائی نے بتایاکہ میرے بھائی کو رہیجا ہسپتال میں آکسیجن پر شفٹ کیا جانا تھا، کوئی کارڈیک ایمبولینس نہیں تھی جو کہ ایک کووڈ مریض کے لئے ضروری ہے،وہ وینٹی لیٹر پر تھے۔اس کی بگڑتی حالت دیکھ کر ہم نے انہیں ایک عام ایمبولینس میں شفٹ کر دیا،ان کی کووڈ رپورٹ مثبت آئی تھی۔ڈاکٹر کے بھائی نے کہاکہ ہمیں یہ سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا کہ انہیں یہ کورونا کیسے ہوا۔
صفدرامام قادری
صدر شعبہ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
مصیبتیں کہہ کر نازل نہیں ہوتیں۔ بلائیں ناگہانی ہوتی ہیں۔ اسکول کالج میں ہمارے بچّے محاورات اور ضرب الامثال کی مشق کرتے ہوئے ایسے جملے بناتے ہی رہتے ہیں مگر کسی کو کیا معلوم کہ اکیسویں صدی کی دو دہائیاں مکمّل ہوتے ہوتے ہم عالمی طور پر کچھ اس طرح اُلجھ جائیں گے کہ نہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لایق رہیں گے اور نہ ہی اپنی مدد آپ کرنے کا ماحول پیدا ہو پائے گا۔ یہ قیامت کی گھڑی ہے جب ہر زندہ آدمی پر موت کا سایہ ہے اور کس شخص کی اگلی باری ہے، اسی انتظار میں ہم سب جی رہے ہیں۔سائنس دانوں نے ایک علاج تجویز کیا۔ محتاط فاصلہ(سوشل ڈسٹنسنگ) انسانی معمولات نے ایک جھٹکے میں سب کچھ کھودیا۔اہلِ اسلام سے لے کر عیسائی اور یہودیوں تک مصافحہ اور معانقہ داخلِ رسوم ہیں مگر لوگوں نے دور کا جلوہ ہی مناسب مانا۔ہندو دھرم کے پاؤں چھونے اور سر پر آشیرواد کا ہاتھ ڈالنے کا سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ اب چھے فٹ دوری سے ہاتھ جوڑ کر استقبال تک یہ دنیا محدود ہو چکی ہے۔ محفلِ عُشّاق میں بھی چھے فٹ سے زیادہ دوری کی فلائنگ کِس پر دنیا قائم رہ سکتی ہے۔
ایسے میں مسلمانوں کا سب سے بڑا عالمی تہوار رمضان کا مہینہ آ گیا جس کے روزوں کے انعام میں ہمیں عید جیسی خصوصی عطا نصیب ہوتی ہے۔ دنیا کا ہر چوتھا باشندہ مذہبِ اسلام کا ماننے والا ہے۔اس اعتبار سے غور کریں تو عالمی سطح پر گاؤں گاؤں اور شہر شہر استقبالِ رمضان کے مرحلے میں مقابلہئ کورونا میں مبتلاے غم ہے۔ ایک طرف جہاں اجتماعیت کے سو آداب نمازِباجماعت، تراویح کا بہ شوق اہتمام، افطار میں بھی اجتماعی انداز پسندیدہ مگر وبا یہ کہتی ہے کہ ایک دوسرے سے دوٗر رہو۔ چھے اور آٹھ فٹ کی دوری کا جیسے ہی معاملہ ہوگا، اجتماعیت کا اسلامی تصوّر اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔
رمضان سے عید تک اجتماعی زندگی کے نہ جانے کتنے معاملات ہیں جب دنیا کا ہر مسلمان اخلاق اور مروّت کے درجات طے کرتا جاتا ہے۔ ایک طرح سے سماجی اور مذہبی دونوں معاملے میں انسان کو غفلت سے بیدار ہونے اور اپنے حقیقی کردار کی طرف لوٹنے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔ ہماری مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں۔ فقرا و مساکین کی بھوک گھٹ جاتی ہے اور ان کی ضیافت کا سلسلہ قائم ہونے لگتا ہے۔ جو جس لایق ہے، وہ اُسی اعتبار سے زکوٰۃ، فطرہ اور صدقات پیش کرکے دنیا میں کروڑوں لوگوں کی چند دنوں کے لیے ہی سہی، کفالت کرتا ہے۔
مگر ایک آن میں ہماری محفل درہم برہم ہو گئی ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں کئی کئی مہینوں کے لاک ڈاؤن کے بعد رمضان کی آمد ہوئی ہے۔ ہندستان کی بات پر کوئی تنگ نظر سوالات قائم کر سکتا ہے مگر خلیج کے ممالک، پاکستان اور بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملیشیاسے لے کر یورپ تک مسجدوں میں تالے لگے ہوئے ہیں۔ خانہئ کعبہ اور مسجدِ نبوی کے معمولات بدل گئے ہیں۔ اس میں ہماری ایک تربیت ہو گئی ہے کہ عام انسانیت کے معاملات میں ہم دوسروں کی زندگی کے لیے کبھی خطرہ نہیں بنتے۔ ہر گوشے میں یہ خوش آیند کیفیت دیکھنے کو ملی کہ عالمِ انسانیت کی پُکار کو مسلمانوں نے اپنے مذہب سے متصادم نہ ہونے دیا۔اسے پوری دنیا میں پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا گیا۔
اس موقعے پر تبلیغی جماعت کے افراد اور ہر جمعہ کو دو چار پانچ مسجدوں میں جمع ہونے والے بھائیوں کی بات چھوڑ دیجیے جنھیں ہم اپنا مثالی کردار نہیں مان سکتے۔ شعراے کرام نظمیں لکھ رہے ہیں۔ علماے کرام آڈیو پیش کررہے ہیں۔ ہر جگہ رمضان کے موقعے سے اس سرد مہری پر ماتم کا ماحول ہے۔ مذہبی تاویل عام ہے کہ ہمارے اعمال سے خدا ناراض ہے اور ہمیں آسانی سے معافی نہیں دے رہا ہے۔ ہمارے گناہوں کے پہاڑ کھڑے ہیں اور اب یہ ہم پر ٹوٗٹ پڑ ے ہیں۔ایک طبقہ ندامت میں مبتلا ہے اور دوسرا اسی رمضان میں خدا کے حضور گِڑ گِڑا نے اور تمام عالم ِ انسانیت کیلئے رحم کی بھیک مانگنے کے لیے تیّار ہے۔ جسے اس موقعے سے جو ترکیب نظر آ رہی ہے، وہ آزما رہا ہے مگر کئی اور باتیں ہیں جن پر ہماری اجتماعی زندگی کے دانش وروں کو اور عام لوگوں کو سوچنا ہی چاہیے۔ شاید اس مشکل گھڑی میں کوئی معقول راہ نکل آئے۔
سوبات کی ایک بات تویہی ہے کہ مسلمان اجتماعی طور پر مسجدوں کا رُخ نہ کریں اور جس قدر صبر و ضبط کے ساتھ عالمی طور پر صحت کے اصولوں کے مطابق کاربند رہیں، اُسے رمضان میں بھی جاری رکھیں۔ جمعہ کے موقعے سے تھوڑا بہت انھوں نے سیکھ بھی لیا ہے مگر رمضان میں پُر جوش مسلمانوں کا ایک طبقہ میدانِ عمل میں آ جاتاہے۔ ممکن ہے،وہ جوش میں ہوش کھونے کے لیے اُتاولا ہو جائے۔ یہ ہرگز ٹھیک نہیں ہو گا۔ ہمیں تو اس بات کے لیے ذہنی طور پر تیّار رہنا چاہیے کہ ملک کے ایک بڑے حصّے میں یا پورے ملک میں ہی عید تک لاک ڈاؤن جاری رہے اور ہمیں اپنے گھروں میں ہی رہ کر اجتماعی زندگی کے سب سے بڑے تہوار کو ضایع کرنا ہو گا۔ آج عالم ِ انسانیت کی یہی پُکار ہے مگر ہمارے لیے اس رمضان میں کرنے کے لیے بہت سارے کام ہیں جنھیں انجام تک پہنچالیں تو شاید ہم خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔
لاک ڈاؤن کے نتیجے میں روزانہ کمانے اور کھانے والے لوگوں کا جینا مشکل تر ہو گیا۔ اس دوران حکومت سے جو ممکن ہوا، اُس نے کیا۔ مگر بڑی تعداد میں لوگوں نے رضاکارانہ طور پر بھوکے لوگوں، غرباو مساکین تک کھانے پینے کے سامان پہنچائے۔ اخبارات، ٹی۔وی اور سوشل میڈیا پر اُن رضاکارانہ کام کرنے والے لوگوں میں صورت سے پہچانے جانے والے لوگوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نظر آئی۔گرونانک نے بابا فرید اور صوفیاکی زندگی سے غربا اور مساکین کو کھلانے کے کام کو اپنے مذہب کا حصّہ بنایا تھا جسے ہر گرودوارے نے اب تک جاری رکھا ہے اور اس مصیبت کی گھڑی میں ملک کے گوشے گوشے میں ہمارے سکھ بھائی عوامی فلاح کا یہ کام کررہے ہیں۔ رمضان کے دور میں کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہر طرح کے دکھاوے سے بے نیاز ہو کر ہم اپنے آس پاس کے ویسے لوگوں کی پہچان کر لیں جن کی بھوک سے لڑتے لڑتے زندگی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ اپنے آس پاس اور محلّے میں ہر گھر والے کو ایسے دو چار چہرے مل جائیں گے۔ کم از کم ایک مہینے کے لیے اگر انھیں مالی طور پر گود لینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو ہمیں یقین ہے کہ ہندستان میں شاید ہی کوئی مسلمان بھوکا سوئے گا۔ یہی نہیں یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور ہم برادرانِ وطن کے لیے بھی کھانے کا انتظام کرکے اپنے اعلا کردار کو پیش کر سکتے ہیں۔ یہ واضح طور پر ہمارا مذہبی فریضہ ہے اور اس کے بغیر رمضان کے روز ے بھی بابِ قبولیت میں لڑکھڑاتے رہیں گے۔
مسلم قوم پر طرح طرح کی مصیبتیں آتی رہتی ہیں اور ان سے مقابلہ کرنے میں مقامی سطح پر رضا کارانہ طور سے خدمات انجام دینے والے لوگ بھی اس قوم میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ وہی لوگ اپنی جان پر کھیل کر اپنے ہم وطنوں کو دو وقت کی روٹی پہنچا رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے قومی اور صوبائی ادارے چندہ لینے کی جس بڑے پیمانے پر مہم چلاتے ہیں، اس بڑے پیمانے پر مشکل گھڑی میں مدد پہنچانے کے لیے وہ پہنچ نہیں پاتے۔ ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ مسجدیں بنی ہوئی ہیں اور اپنی عظمت اور اَنا میں سب چوٗر ہیں۔ پورے ملک میں دو، چار، دس مسجدیں اور مدارس ہی بھوکے غربا اور مساکین کے لیے ان ڈیڑھ مہینوں میں کھانے پینے کے سامان کے لیے مرکز بن سکے۔ مسائل دنیا کے دوسرے خطّے میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بھی ہیں مگرہندستان، پاکستان اور بنگلا دیش میں لاک ڈاؤن کی پہلی مار غربا اور مساکین پر پڑی ہے۔ ہندستان میں مرکز اور بہت ساری صوبائی حکومتیں بھی اس انداز سے چل رہی ہیں کہ یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ ہمارے وجود پر سوالیہ نشان لگانے کے در پَے ہیں۔
۰۲۰۲ء کا رمضان حقیقت میں ہندستانی مسلمانوں کے لیے خاص امتحان لے کر آیا ہے۔ ہمیں اس رمضان میں اپنے حقیقی اسلامی اور فلاحی تصوّر کو سامنے رکھ کر میدان میں اُترنا ہوگا۔ کبھی کبھی مصیبتوں سے اصلاح کی گنجایشیں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمارے مذہبی اداروں میں سماجی فلاح کے سلسلے سے زیادہ غور و فکر دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اپنے مذہبی معاملات پر ہماری توجہ رہتی ہے مگر سماجی اصلاح کے کام کو ہم نے اپنے مذہبی اور تعلیمی اداروں سے دوٗر کر دیا ہے۔رفتہ رفتہ عام انسانوں کے مسائل سے بھی ہمارے یہ ادارے بے رُخی برتنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ اب کی بار استقبالِ رمضان سے ہم یہ کام شروع کرسکتے ہیں کہ ذاتی طور پر اپنی قوم اور برادرانِ وطن کے غربا اور مساکین تک خود جائیں اور انھیں پورے رمضان کے لیے کھانے پینے کی سہولت بہم پہنچائیں۔ کورونا کی وبا ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گی۔ ہماری مسجدیں اور مدارس بھی کام کرنے لگیں گے مگر اس رمضان میں اگر ہم نے اپنی قوم اور برادرانِ وطن کے کمزور افراد کی کفالت کا سلسلہ شروع کر دیا تو آپ یقین جانیے کہ ہم اس ملک میں انقلاب لا دیں گے۔ کورونا کی وبا اور حکومتِ ہند کے متعدد غیر انسانی فیصلوں کے مقابلے ہمارا فلاحی کردار سنہرے لفظوں میں لکھا جائے گا۔ ممکن ہے،پھر سے سکھوں کی طرح مسلمانوں کو بھی عام انسانوں کے درد و غم کا مداوا ڈھونڈنے اور چارہ گری کرنے کے لیے دنیا جاننے لگے۔تشدّد پسندی اور جہادی اِمیج کے مقابلے مسلمانوں کی یہ اِمیج اپنی مذہبی تعلیمات کے عین مطابق ہوگی۔ کورونا سے ہمیں اس بار یہ سیکھ ہی لینا چاہیے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:کچھ شہری ہوا بازی کمپنیوں کی طرف سے بکنگ شروع کیے جانے کی خبروں کے درمیان شہری ہوا بازی کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے پیرکوکہاہے کہ جب حکومت کو یقین ہو جائے گا کہ وائرس کنٹرول ہوگیاہے اوربھارت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے تب ملکی اور بین الاقوامی پروازوں پرلگی پابندیاں ہٹا لی جائیں گی۔پوری نے کئی ٹویٹ کرکے یہ بھی کہاہے کہ ایوی ایشن کوہدایات جاری کرکے انہیں ریزرویشن شروع کرنے سے روک دیاگیاہے کیونکہ انہوں نے اس سلسلے میں حکومت کے مشورہ پر دھیان نہیں دیا تھا۔انہوں نے ٹویٹ کیاہے کہ میں ایک بار پھر کہنا چاہتا ہوں کہ اسے اس وقت ہٹا لیا جائے گا جب ہمیں اس بات پریقین ہوجائے گاکہ وائرس نٹرول ہو گیا ہے اور اس سے ہمارے ملک اورلوگوں کوکوئی خطرہ نہیں ہے۔پوری نے کہاہے کہ چونکہ کچھ ہوا بازی کمپنیوں نے ہمارے مشورہ پر توجہ نہیں دی اور بکنگ شروع کر دی اورمسافروں سے پیسے لینے لگیں،تب 19 اپریل کو انہیں ہدایات جاری کرکے ایساکرنے سے روکاگیاہے۔ انہیں یہ بھی بتایاگیاہے کہ بکنگ شروع کرنے کے لیے انہیں کافی نوٹس اوروقت دیا جائے گا۔اس دوران، کئی مسافروں نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے منسوخ ہوئی پروازوں کے لیے بکنگ رقم واپس نہ کرنے، اور اس کی بجائے مستقبل کے سفر کے لیے کریڈٹ واؤچر جاری کرنے کولے کربھارتی ایوی ایشن کمپنیوں کے خلاف سوشل میڈیاپرشکایات پوسٹ کی ہیں۔
نئی دہلی:کرونا انفیکشن سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے لاک ڈائون 3 مئی تک کے لیے بڑھا دیا ہے۔ اس درمیان انہوں نے اپیل کی ہے کہ لوگ سماجی دوری پر عمل کریں۔ لاک ڈائون کے اعلان کے بعدریلوے نے فوراََاعلان کیاہے کہ اس کی سروس بھی تین مئی تک منسوخ رہے گی۔ریلوے کے ساتھ ساتھ شہری ہوابازی کی وزارت نے کہاہے کہ تمام پروازوں کومنسوخ کر دیا گیا ہے۔ شہری ہوا بازی کی وزارت نے کہاہے کہ تمام قومی اور بین الاقوامی پروازیں3 مئی رات 11.59 منٹ تک کے لیے منسوخ کر دی گئی ہیں۔ اس سے پہلے بھی لاک ڈائون کے اعلان کے بعد ملک بھر میں تمام پروازوں کومنسوخ کر دیا گیا تھا۔3 مئی تک لاک ڈائون کے اعلان کے بعد ریلوے نے بھی مسافر ٹرینوں کی خدمات تین مئی تک بندکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہندوستانی ریلوے سے منسلک حکام نے بتایاہے کہ مسافر ٹرینوں کی خدمات اب تین مئی تک کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔ تاہم ملک بھر میں ضروری سامانوں کو پہنچانے کے لیے مال گاڑیاں چلتی رہیں گی۔ریلوے نے کہاہے کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پریمیم ٹرینوں، میل، ایکسپریس ٹرینوں، مسافر ٹرینوں، مضافاتی ٹرینوں، کولکاتہ میٹرو ریل، کونکن ریلوے وغیرہ سمیت ہندوستانی ریلوے کی تمام مسافر ٹرین کی خدمات 3 مئی 2020 تک منسوخ رہیں گی۔وہیں مسافر ٹرینوں کے بند ہونے سے مال گاڑیاں چار گنا رفتار سے دوڑ رہی ہیں۔ اناج، پھل، سبزی، چینی، نمک، دودھ جیسی تمام چیزوں کو اپنے شہر تک پہنچانے کا بیڑا ریلوے اٹھا رہی ہے۔
باندرہ اسٹیشن پر پہنچے ہزاروں مہاجر مزدور ،گاؤں جانے دینے کا مطالبہ، لاٹھی چارج
ممبئی:مہاراشٹر کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ یہاں کرونا کیس مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ منگل کو 121 نئے کیس سامنے آئے۔ ریاست میں مریضوں کی تعداد 2455 اور مرنے والوں کی تعداد 162 تک پہنچ گئی ہے ۔ ممبئی میں مرنے والوں کی تعداد 100 کے پار پہنچ گئی ہے۔تاہم ان سب کے درمیان ممبئی کے باندرہ اسٹیشن پر ہزاروں مہاجرمزدور کی بھیڑ جمع ہو گئی۔ اطلاعات کے مطابق ان مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے، ہمیں اپنے گاؤں واپس جانے دیا جائے۔ پولیس انتظامیہ نے ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی ، اور اصرار کرنے پر لاٹھیاں بھی تحفہ میں ملیں۔ ممبئی میں مختلف ریاستوں سے آکر مزدور کام کرتے ہیں۔اس واقعہ کے بعد وزیر داخلہ انیل دیشمکھ نے بتایا کہ منگل کی شام قریب 4 بجے ہزاروں لوگ باندرہ اسٹیشن کے باہر جمع ہو گئے تھے، یہ تمام مزدور تھے اور لاک ڈاؤن کے باعث اپنے گھروںسے دور ہیں ، انہیں یقین تھا کہ لاک ڈاؤن ختم ہو جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا تو وہ بے چین ہو کر اپنی اپنی قیامگاہوں سے باہر نکل آئے اور اپنی ریاست یا اپنے گاؤں جانے کا مطالبہ کرنے لگے۔حکومت کے نمائندوں اور پولیس اہلکاروں نے انہیں سمجھانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور وہ تمام پر امن طریقے سے وہاں سے چلے گئے۔ تاہم وہاں سے بھیڑ منتشر ہو چکی ہے اور ہم ان کے کھانے پینے کا ’انتظام ‘کر رہے ہیں۔علاوہ ازیں دیشمکھ نے مزدوروں پر لاٹھی چارج کے واقعہ سے بھی انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ہٹانے کے لئے پولیس کو ’معمولی قوت ‘کا استعمال کرنا پڑی۔بی جے پی ممبر اسمبلی آشیش شیلار نے الزام لگایا ہے کہ ریاستی حکومت بے گھر مزدوروں کے لئے صحیح انتظام نہیں کر پا رہی ہے، جس کے باعث وہ فکر مند ہوکر آج سڑکوں پر نکل آئے ہیں ۔
نئی دہلی:ریلوے کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے لاک ڈاؤن کی مدت بڑھانے کے اعلان کے بعد ریلوے بورڈمیں متعلقہ حکام کی فوری میٹنگ ہوئی۔ اسی میں فیصلہ ہوا کہ اب لوگوں کو منسوخ ہوئی ٹرینوں کے ٹکٹ کینسل کرانے کے لیے ان کی رقوم کی واپسی کے لیے 31 جولائی 2020 تک کا وقت ملے گا۔ اس سے پہلے گزشتہ 23 مارچ کو ریلوے نے کینسل ٹکٹ کی ڈیڈ لائن بڑھاتے ہوئے 3 ماہ تک کر دیاتھا۔ اس سے پہلے 72 گھنٹے کے اندر رقم کی واپسی لینی پڑتی تھی ۔سوال یہ ہے کہ جب ٹرین کینسل ہونی ہی تھی توچودہ اپریل کے بعدکی بکنگ کیوں ہورہی تھی؟اب کتنے لوگوں کے پیسے ریلوے کے پاس پھنس گئے۔ افسرنے بتایاہے کہ لاک ڈاؤن کی بڑھی ہوئی مدت کے دوران جن مسافروں نے ٹرینوں کا ٹکٹ آن لائن کٹایاہے، ان کے پیسوں کی واپسی اپنے آپ ہوجائے گی۔ ان کی رقم اسی اکاؤنٹ میں چلی جائے گی۔جہاں سے ادائیگی کی گئی ہے۔ اگر کسی نے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈسے ادائیگی کی تھی تو وہیں پیسے جائیں گے۔جن لوگوں نے سفرکے لیے کاؤنٹرٹکٹ کٹایا ہے، وہ ٹکٹ کینسل کروانے کے لیے کاؤنٹر پرہی جائیں گے۔ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد کاؤنٹرپرہجوم نہ ہو،اس کے لیے ٹکٹ کینسل کروانے کی ڈیڈ لائن31 جولائی 2020 تک بڑھا دی گئی ہے۔
نئی دہلی :کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی واڈرا نے ایک بار پھر کوروناواائرس کے ٹیسٹ کی سست رفتار پر سوال اٹھائے ہیں۔مودی حکومت کونشانہ بناتے ہوئے راہل گاندھی نے کہاہے کہ بھارت نے ٹیسٹ کٹس کی خریداری میں تاخیرکی۔وہیں،پرینکاگاندھی نے یوگی حکومت پر لاپرواہی کا الزام لگاتے ہوئے کہاہے کہ یوپی میں جانچ کا نظام اب بھی بہت لچرہے۔راہل گاندھی نے منگل کوکہاہے کہ بھارت نے ٹیسٹ کٹس کی خریداری میں تاخیر کی اور اب بھی یہ کافی کم مقدارمیں نہیں ہیں۔ فی ملین ہندوستانیوں پر صرف 149 ٹیسٹ کے ساتھ ہم اب چھوٹے ممالک کی قطارمیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ٹیسٹ کے ذریعے ہی وائرس سے لڑا جا سکتاہے۔ فی الحال ہم اس کھیل میں کہیں نہیں ہیں۔ پرینکا گاندھی واڈرا نے کہا کہ میں نے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کوخط لکھ کرٹیسٹنگ بڑھانے کی اپیل کی تھی۔یوپی میں 5 کی ٹیسٹ رپورٹ موت کے بعد آئی ہے۔ٹیسٹنگ کا نظام اب بھی بہت لچرہے۔ اس سے پہلے کانگریس نے مودی حکومت سے سوال پوچھتے ہوئے کہاتھا کہ وائرس کی روک تھام کا ایک محض راستہ ہے ٹیسٹنگ۔یکم فروری سے 13 اپریل، 2020 تک، یعنی 72 دنوں میں ملک میں صرف دولاکھ سترہ ہزارپانچ سوچون ٹیسٹ ہوئے۔ اوسطاتین ہزارٹیسٹ روزانہ ہوئے ہیں، ٹیسٹ کئی گنابڑھانے کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ کانگریس کی جانب سے 6 اور سوال پوچھے گئے ہیں۔
کرونا وائرس کی وحشت اورتدفین کے سلسلے میں مسلمانوں کا افسوسناک رویہ-محمد شمیم اختر ندوی
(مہتمم جامعہ الابرار وسئی ایسٹ )
گزشتہ ۸ مارچ کو صغیر احمد انصاری مرحوم (جوکہ بہار سیتامڑھی سے تعلق رکھتے تھے اور الحمدللہ ایک کامیاب تاجر ہونے کی وجہ سے فارغ البال اور خوشحال بھی تھے) کی واسی ناکہ ممبئ میں طبیعت زیادہ خراب ہوگئی، مرحوم کی بیوہ نے اپنے کئی رشتہ داروں کو بذریعہ فون اطلاع دی اور مرحوم کو کسی اسپتال میں علی الفور لے جانے کو کہا لیکن اس بیچاری بیوہ کے لیے اس وقت قیامت کا المناک منظر سامنے آگیا جب کوئی رشتہ دار تو کیا اپنا سگا بھائی بھی مختلف بہانہ بناکر آنے سے انکار کرتے ہوئے فون کاٹ دیا اور کوئی کام نہ آسکا۔
مرحوم کا ایک نوجوان لڑکا ہے، سوئے اتفاق وہ بھی اس شب میں بیمار ہونے کی وجہ سے کسی اسپتال میں ایڈمیٹ تھا اور اس کے آنے کی کوئی شکل بھی نہیں بن پارہی تھی، بالآخر بیچاری بیوہ اپنے داماد کے ساتھ مرحوم کو لیکر سائن اسپتال رات کو ہی کسی طرح پہنچی، طبی معائنہ کے بعد یہ بتایا گیا کہ مرحوم کرونا وائرس سے متاثر ہیں، چنانچہ حسب ضابطہ مرحوم کو کرونا وارڈ میں شفٹ کیا گیا اور بیوہ اور ان کے داماد اسپتال میں ہی کارنٹائن کردیئے گئے ، پورے ایک دن گزرنے کے بعد بیوہ کو کارنٹائن میں ہی رات کو بارہ بجے فون کیا گیا کہ آپ کے شوہر کو سائن اسپتال سے اندھیری اسپتال شفٹ کیا گیا تھا اور وہ وہاں انتقال کر گئے ہیں، ان کو لے جانے کی کوئی ترتیب آپ لوگ بنوالیں اور چونکہ آپ اور آپ کے داماد کارنٹائن میں ہیں اسلئے آپ لوگوں کو اپنی جگہ سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔بالآخر مرحوم کے فرزند ناصر سے رابطہ کیا گیا اور وہ طبیعت کی ناسازی کے باوجود گھر لوٹے، اپنے رشتہ داروں کو والد کے انتقال کی اطلاع دیتے ہوئے ساری صورتحال سے آگاہ کیا لیکن حیرت ہے کہ کوئی بھی اندھیری تک ساتھ آنے کو تیار نہ ہوا، خیر جیسے تیسے وہ صبح کو اندھیری پہنچے۔
اندھیری کی اسپتال انتظامیہ نے ان کو اطلاع دی کہ ضابطہ کے مطابق مرحوم کی تدفین چیتا کیمپ کے قبرستان میں کی جائیگی آپ وہاں نماز جنازہ کی ترتیب بنالیں، ناصر صاحب نے اپنے بزرگ دوست اور معراج العلوم چیتا کیمپ کے فخر القراء محمد بدرعالم صاحب کو فون کردیا کہ جنازہ چونکہ چیتا کیمپ ہی آئیگا اسلئے آپ نماز جنازہ پڑھا دیں، قاری صاحب یہاں اپنے چند دوستوں کے ساتھ نماز جنازہ کیلئے تیار ہوگئے۔
جمعہ کی نماز کے بعد تقریبا تین بجے بذریعہ ایمبولینس جنازہ جیسے ہی چیتا کیمپ پہنچا مسلمانوں کی بے حسی کا المناک،دردناک اور افسوسناک رویہ سامنے آیا، مسلمان سڑک جام کرتے ہوئےچیتا کیمپ میں تدفین سے انکار کرنے لگے ،پولیس اور گورنمنٹ کے عملہ نے ہزار سمجھانے کی کوشش کی لیکن یہ لوگ ماننے کو تیار نہیں ہوئے، مرحوم کے فرزند ناصر ہاتھ جوڑ کر، رو رو کر لوگوں سے فریاد کرتے رہے لیکن ان لوگوں کو کرونا وائرس کی وحشت نےایسا بے رحم بنا رکھا تھا کہ ماننے کو تیار نہیں ہوئے، تقریبا پون گھنٹے کی بحث و مباحثہ کے بعد بھی جب بات نہ بنی تو مرحوم کے جنازہ کو گونڈی دیونار قبرستان لایا گیا۔
ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق وائرس سے متاثر متوفی کے جنازہ کو نماز جنازہ کیلئے ایمبولینس سے نہ اتارنے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ غسل و کفن کی، بلکہ اسپتال سے تیار کردہ پیکینگ میں ہی سیدھے ایمبولینس کو قبر تک یا اس کے قریب تک لے جانے کی ہدایت ہوتی ہے، البتہ نماز جنازہ کیلئے صرف اتنی اجازت دی جاتی ہے کہ ایمبولینس کو قبرستان میں ایک طرف کھڑا کردیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ چند لوگ ایک میٹر کی دوری پر پیچھے کھڑے ہوکر نماز جنازہ پڑھ لیں
مرحوم کے ساتھ یہاں یہ صورتحال پیش آئی کہ حافظ ناصر کے علاوہ کوئی اپنا نہ ہونے کی وجہ سے مرحوم کے فرزند کو بدحواسی میں نماز جنازہ کا نہ خیال آیا اور نہ شاید اس کا موقع دیا گیا اور ڈائریکٹ جنازہ قبر کے حوالے کردیا گیا، مرحوم کے فرزند تین مٹھی مٹی ڈال کر جیسے ہی فارغ ہوئے ان کو ایمبولینس میں بٹھا کر اندھیری واپس لے جایا گیا اور کارنٹائن کردیا گیا، ناصر کے بقول قبر بھی پوری طرح ڈھنکی گئی یا نہیں مجھے کوئی خبر نہیں ۔
اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جملہ اہل خانہ بالخصوص بیوہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ۔
اس پورے افسوسناک واقعہ سے تین چیزیں ہمیں معلوم ہوتی ہیں ۔
(۱ )اس کرونا وائرس کی وحشت نے قیامت کا منظر ہمارے سامنے پیش کردیا ہے ،سگے رشتہ دار بھی کام نہیں آرہے ہیں ـ
(۲ )مسلمان ہی خود مسلمانوں کیلئے درد سر بن رہے ہیں، جب بی ایم سی نے سارے ہی وائرس سے متاثرمتوفی کو جلانے کا آرڈر جاری کیا تھا تو علماو دانشوران نے احتجاج کرتے ہوئے اسے واپس کروایا اور تدفین کی اجازت بڑی دشواری سے حاصل کی، لیکن افسوس کہ آج مسلمان ہی اپنے رویے سے لوگوں کو ہنسنے اور دیگر کاروائی کا جواز فراہم کرنے کا موقع فراہم کررہے ہیں جیسا کہ مالونی ملاڈ کا واقعہ اس کا شاہد ہے ۔
(۳ ) ایسی صورتحال میں مسلمانوں کو چاہئے کہ حد درجہ احتیاط برتیں، گورنمنٹ کی ہدایات پر سختی سے عمل کریں اور بلاوجہ گھر سے باہر نہ نکلیں ۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے رب کی طرف صدق دل سے رجوع کریں اور اس طرح کی دردناک موت سے کثرت سے پناہ مانگیں ۔
اخیر میں سارے مسلمانوں سے درخواست ہے کہ اللہ واسطے کسی میت کی تدفین سے ہرگز نہ منع کریں اور ایک اسلامی عمل کو بجالانے سے منع کرکے اپنی آخرت تباہ نہ کریں ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
تعلیمی ادارے لاک ڈاؤن کے درمیان اکیڈمک کیلنڈر کا سلسلہ برقرار رکھیں:وینکیانائیڈو
نئی دہلی:نائب صدرجمہوریہ ایم وینکیا نائیڈونے آج یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں سے کہا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران تعلیمی سال کا سلسلہ برقراررکھنے کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال کو یقینی بنائیں۔دہلی،پڈوچیری،پنجاب، ماکھن لال چترویدی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ز اور انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن کے ڈائریکٹرزکے ساتھ منعقدہ ایک ویڈیو کانفرنس میں نائب صدرجمہوریہ ہند نے خیال ظاہر کیا کہ معمول کے مطابق صورت حال بحال ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ انہوں نے کووڈ-19 وبائی مرض کی صورت میں پیدا ہوئی رکاوٹ سے نمٹنے کے لیے ان کے منصوبوں کے بارے میں سوال کیا۔نائب صدر جمہوریہ ہند، جو آئی آئی پی اے کے صدر اور چار یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں، نے اداروں سے کہا کہ وہ طلبا تک رسائی حاصل کریں، اجتماعی اور اشتراکی لرننگ اور از خود سیکھنے کو فروغ دیں۔ نائب صدرجمہوریہ ہند کی خواہش تھی کہ تمام طلبا تک باہم اثر پذیر لرننگ کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکنالوجی پر مبنی ذرائع کا استعمال کیا جائیے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے لاک ڈاؤن تدریس اور تلمیذ کا سلسلہ جاری رہے۔کوورنا وائرس نے، جو برخلاف صورت حال پیدا کردی ہے، اس نے لوگوں کو خلاقانہ حل تلاش کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے اس امر کو یقینی بنانے کے لیے یونیورسٹیوں کی ستائش کی کہ درس وتدریس کا سلسلہ برقرار رہے اور یونیورسٹیوں نے اس سلسلے میں وافر اقدامات بھی کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن کورس آمنے سامنے بیٹھ کر پڑھنے اور پڑھانے کے عمل کی جگہ لے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بحران کے خاتمے کے بعد یہ ایک نیا طریقہ سامنے آسکتا ہے۔نائب صدرجمہوریہ ہند نے زور دے کر کہا کہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو ہاسٹل میں قیام پذیر طلبا کی صحت کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہییں۔ انہوں نے اس امر کو یقینی بنانے پر زور دیا کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے اصول پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے، جیسا کہ حکومت اور صحت کے ماہرین کی جانب سے مشورہ دیا گیا ہے۔صحت بخش تغذیہ عادتیں اپنانے کے لیے طلبا کو مشورہ دیتے ہوئے، نیز جمود پر مبنی انداز حیات سے بچنے کیلیے ریگولر جسمانی ورزش پر زور دیتے ہوئے جناب نائیڈو نے فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر زندگی گزارنے کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔نائیڈونے یونیورسٹیوں سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے طلبا کو وقت کا بہتر اور بامعنی استعمال سکھائیں اور اپنی جانب سے پیش کی جانے والی ای-لرننگ اور اس کے مواد سے مستفید ہونے کی تلقین کریں۔ نائب صدر جمہوریہ ہند اس بات کے بھی خواہش مند تھے کہ طلبا کو موبائل فون پر کم سے کم وقت صرف کرنا چاہیے اور لاک ڈاؤن کے درمیان نئی زبان سیکھنی چاہیے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے کنبہ کے ساتھ بھی وافر وقت گزارنا چاہیے۔نائب صدر جمہوریہ ہند نے طلبا سے یہ بھی کہا کہ وہ متعلقہ علاقوں میں این جی اوز کی جانب سے چلائی جانے والی سماجی خدمات کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں۔ انہوں نے تمام شہریوں کے لیے زور دے کر کہا کہ وہ وقتاً فوقتاً حکومت کی جانب سے جاری رہنے والے رہنما خطوط کی پابندی کریں۔نائب صدر جمہوریہ ہند کے سکریٹری ڈاکٹر آئی وی سباراؤبھی اس موقع پرموجودتھے۔
زہریلےمیڈیا پر لگام کسنے کامعاملہ: پریس کونسل آف انڈیا کو بھی فریق بنانے کاحکم
نئی دہلی: مسلسل زہر افشانی کرکے اور جھوٹی خبریں چلاکر مسلمانوں کی شبیہ کوداغدار،ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃعلماء ہند کی عرضی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی،ویڈوکانفرنسنگ کے ذریعہ ہوئی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا ودیگر دوججوں کے سامنے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول ایڈوکیٹ نے مضبوطی سے اپنے دلائل رکھے اور کہا کہ تبلیغی مرکزکو بنیادبناکر پچھلے دنوں میڈیا نے جس طرح اشتعال انگیز مہم شروع کی یہاں تک کہ اس کوشش میں صحافت کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیا گیا اس سے مسلمانوں کی نہ صرف یہ کہ سخت دلآزاری ہوئی ہے بلکہ ان کے خلاف پورے ملک میں منافرت میں اضافہ ہوا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک عام سے واقعہ کو میڈیا کے بڑے حلقے نے غیر معمولی واقعہ بناکر پیش کیا اور اس کے لئے جھوٹ کو بنیادبنایا گیا یہاں تک کہ کورونا وائرس کی وباء کو کورونا جہاد سے تعبیر کرکے یہ تاثردینے کی مجرمانہ کوشش کی گئی کہ ملک میں اس وباکو مسلمانوں نے پھیلایا ہے اس سے عوام کی اکثریت نہ صرف گمراہ ہوئی بلکہ عام مسلمانوں کو لوگ شک کی نظرسے دیکھنے لگے،اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مسٹراعجازمقبول نے چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے، جسٹس ناگیشورراؤ اورجسٹس شانتانوگورا کے بینچ سے کہا کہ ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ عدالت میڈیا کے لئے شرائط اور حدودطے کرے اور اسے آئندہ اس طرح کی اشتعال انگریزی سے روکے کیونکہ ایک ایسے وقت میں کہ لوگ ایک ساتھ مل کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہیں بے لگام میڈیا کا ایک بڑاطبقہ معاشرے میں انتشاروتفریق پید اکرکے لوگوں کو مذہبی طورپر تقسیم کرنے کی خطرناک سازشیں کررہا ہے اور اس کے لئے دھڑلے سے جھوٹی خبریں اور فرضی ویڈیوزکاسہارالیا جارہا ہے جو قانونی طورپر انتہائی قابل گرفت بات ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحافتی اصول کا تو یہ تقاضہ ہے کہ کوئی بھی خبر شائع یا نشرکرنے سے پہلے اس بات کی باضابطہ طورپر تصدیق کی جائے کہ آیا خبر میں جو کچھ کہا گیا ہے صحیح ہے یاغلط مگر میڈیا ایسانہیں کررہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہماراقانون یہ بھی کہتاہے کہ اس طرح کی کوئی خبر شائع یا نشرنہیں کی جانی چاہئے جس سے کسی شخص یا فرقہ کی بدنامی یا دل آزاری ہویا جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں، مسٹراعجازمقبول نے عدالت کے سامنے 98اخبارات کے تراشے اور ویڈیوز بطورثبوت پیش کئے اور کہا کہ انڈیا ٹی وی،زی نیوز، نیشن نیوز،ری پبلک بھارت،ری پبلک ٹی وی،شدرشن نیوز چینل اور بعض دوسرے چینلوں نے کس طرح تبلیغی جماعت اور عام مسلمانوں کے خلاف عرصہ سے محاذ کھول رکھا ہے انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ WHO، بی جے پی کے قومی صدر،وکلاء اورڈاکٹروں کی ٹیموں اور دوسرے کئی اہم اداروں نے میڈیا کی اس غیر ذمہ دارانہ اورخطرناک رپورٹنگ پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے اور انہیں متنبہ بھی کیا ہے مگر میڈیا نے بظاہر اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا ہے،انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ جس طرح میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندطریقہ سے اشتعال انگیز رپورٹنگ ہوئی ہے اس سے پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور غم وغصہ کااضافہ ہوا ہے یہاں تک کہ بعض جگہ اس وجہ سے ان پر حملہ بھی ہوئے ہیں مسٹر اعجاز مقبول نے عدالت کے سامنے 31صفحات پر مشتمل اپنی تحریری بحث بھی پیش کی، ان کے دلائل سننے کے بعد عرضی کو سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے عدالت نے پریس کونسل آف انڈیا کو فریق بنانے کا حکم دیا اور سماعت دوہفتہ کے لئے ملتوی کردی،واضح ہوکہ یہ عرضی جمعیۃعلماء ہند کی لیگل سیل کے سربراہ گلزاراحمد اعظمی نے داخل کی ہے۔
آج کی قانونی پیش رفت پر جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ متعصب میڈیا پر لگام کسنے کی ہماری قانونی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی عدالت کے حکم کے مطابق پریس کونسل آف انڈیا کو بھی فریق بنایاجائے گا، انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد پریس کونسل آف انڈیا کاقیام اسی مقصدکیلئے عمل میں آیا تھا کہ اس کے ذریعہ اخبارات پر نظررکھی جائے گی، مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ ہمارا شروع سے یہ اصول رہا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ سیاسی طور حل نہیں ہوتاتو ہم اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت جاتے ہیں اور ہمیں وہاں سے انصاف بھی ملتاہے اس معاملہ میں بھی ہمارے تمام ترمطالبوں اور گزارشات پر جب کوئی کاروائی نہیں ہوئی اورفرقہ پرست میڈیا نے اپنی فرقہ وارانہ رپورٹنگ کی روش ترک نہیں کی تو ہمیں عدالت کا رخ کرنے پر مجبورہونا پڑا ہم اپنی اس جدوجہد کو آخر آخر تک جاری رکھیں گے اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے معاملوں کی طرح اس اہم معاملہ میں بھی ہمیں انصاف ملے گا کیونکہ یہ معاملہ محض مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کے اتحاد اور قومی یکجہتی سے جڑاہوا معاملہ ہے۔
پریم ناتھ بسملؔ
مرادپور، مہوا، ویشالی۔ بہار
رابطہ۔8340505230
نہ ملتی ہے خوشبو نہ کھلتا ہے پھول
کرونا کے ڈر سے گیا سب کو بھول
سڑک سونی سونی ہے، بازار بند
نہ چلتی ہے گاڑی نہ اڑتی ہے دھول
کئی دن سے نکلا نہ باہر حضور
خیالوں میں آتی ہیں باتیں فضول
بنا لی ہے خود سے ہی داڑھی جناب
بڑھی زلف جیسے کہ عورت کی چول
کہا آج بیگم نے لا دو پنیر
گیا لے کے تھیلی میں بھر لایا دھول
غریبوں کے بچوں سے پوچھو تو حال
نہ روزی نہ روٹی نہ کپڑے حصول
خطاؤں سے تیری ہوئے سب تباہ
نہ دینا مناسب ہے باتوں کو طول
مبارک تجھے ساری دنیا کی سیر
مجھے بھا گئی میرے گاؤں کی دھول
اگر جان باقی تو باقی جہان
کہ رہنا الگ سب سے بسملؔ قبول
[email protected]
آخر کار وہی ہو گیا جس کا خدشہ تھا، کورونا کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی۔ اور حقیقتاً زیادہ تر رپورٹس میں بھی مسلمان ہی متاثر پائے جارہے ہیں۔ اور میڈیا بھی بہت چالاکی سے کوئی نہ کوئی اشارہ ایسا کررہا ہے کہ لوگ سمجھ جائیں کہ پازیٹیو آنے والا مسلمان ہی ہے۔ حالانکہ حکومت کی پالسی یہ ہے کہ کسی پازیٹیو کا نام عام نہ کیا جائے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ نظام الدین سے واپس آنے والوں کو تو پوری طرح کھلے عام ظاہر کیا جارہا ہے، تبلیغی جماعت کے لوگوں کو اور باقی لوگوں کو انکے گھر کے پتے سفر کی ہسٹڑی کے ذریعہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ مرکز نظام الدین اور تبلیغی جماعت کا تو اتنا میڈیا ٹرائیل ہو چکا کہ ملک کے دور دراز کونوں تک کے لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ مرکز یعنی کیا،نظام الدین میں کیا ہے تبلیغ یعنی کیا اور کس طرح مسلمان گاؤں گاؤں پھرتے اور مسجدوں میں رہتے ہیں۔ مودی جی نے تالی اور تھالی بجوا کر لوگوں کومذہب کی جو افیون پلائی تھی اور دیے جلوا کر جس کے نشے کو دو آتشہ کیا تھا، اب مرکز تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے پازیٹیو ہونے سے وہ پوری طرح مسلم مخالفت میں تبدیل ہو چکا ہے۔محلوں گلیوں نکڑوں دکانوں پر ہماری بے احتیاطی کی تصاویر، لاک ڈاؤن کے دوران مٹر گشتی اور پھر پولس کے ذریعہ ذلیل کئے جانے کے ویڈیوز، اوراپنے اپنے گھروں میں بیٹھے لاک ڈاؤن انجوائے کرنے والے ہمارے پڑھے لکھوں کے ذریعہ سوشل میڈیا میں عام مسلمانوں میں بے احتیاطی کو بڑھا وا دینے والے پیغامات اور ویڈیوز نے پہلے ہی ہندو اکثریت کو ہم سے بد ظن کر رکھا تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں کے شر پسندوں نے مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کے پیغامات سوشل میڈیا میں شیئر کرنے شروع کردئے تھے اب مرکز اور تبلیغی جماعت کے میڈیا ٹرائیل کی وجہ سے ہندو اکثریت نے اشتعال انگیزوں کے ذریعہ پھیلائے گئے مسلم بائیکاٹ کے ان پیغامات کو عملی طور پر برتنا شروع کردیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہاتوں تک سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ ہندو لوگ مسلم تاجروں کو نظر انداز کر رہے ہیں کہیں کہیں تو داخلے پر ہی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اتراکھنڈ،ہریانہ،دہلی، پنجاب، ہماچل پردیش اور کرناٹک میں مسلم تاجروں اور بیو پاریوں سے بد سلوکی اور مارپیٹ تک کی خبریں ہیں، یہ خبریں ان معاملات کی ہیں جو رپورٹ ہوئے جو رپورٹ نہیں ہوئے وہ کتنے اور کہاں کہاں ہیں خدا جانے۔ حالانکہ یہ حکومت کی پالسی نہیں ہے، لیکن حکومت نے مرکز مرکز تبلیغی تبلیغی کورونا جہاداور کورونا دہشت گردی کا شور مچاکر لوگوں کو مسلم مخالفت میں اس مقام تک پہنچانے والی میڈیا کو لگام کسنے کا کوئی اقدام ابھی تک نہیں کیا۔ کیا اس کیا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب حکومت کی مرضی و منشا کے مطابق ہی ہورہا ہے اور اس پر خاموش رہ کر حکومت دراصل اس کی پذیرائی کر رہی ہے؟ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود بھی کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھی کہ ایک تو جس کے ذریعہ کورونا کا الزام مسلمانوں پر ڈال کر ہمیں ہندو اکثریت سے مزید الگ کردیا جائے،اور سی اے اے این پی آر اور این آرسی کے ذریعہ مسلمانوں کے اس خطرے سے نمٹنے میں ہندو ؤں کو مزید ہموار کیا جائے اور جو ہندو اس کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ کھڑے تھے انہیں بھی ہم سے بدظن کردیا جائے۔ اور دوسرے یہ کہ ملک کی سوجھ بوجھ رکھنے والی ہندو آبادی کو بھی کورونا کے خلاف ہماری اصل ’پتلی حالت‘ کے متعلق سوچنے اور سوال کرنے سے باز رکھا جاسکے اور سازشی اس میں پوری طرح کامیاب نظر آرہے ہیں۔لیکن حکومت میڈیا اور مسلم مخالف عناصر کو کوسنے سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اس میں ہماری ذمہ داری کتنی ہے؟آخر ہم نے کیوں بہت آسانی سے حکومت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اس مہاماری میں بھی ہمارے نام پر اپنا سیاسی کھیل کھیل جائے؟ تبلیغی جماعت اور مرکز کے معاملہ میں تو ساری ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن جماعت کے ساتھیوں کے خود ہوکرچیک اپ اور ٹیسٹ کے لئے سامنے نہ آنے سے اورمرکز کے ذمہ داران کا خود کو کارروائی کے لئے پیش نہ کرنے سے ہندوؤں کی نظر میں یہ سارا معاملہ بالکل ویسا ہی ہوگیا ہے میڈیا جیسا دکھارہا اور ذہن نشین کروا نے کی کوشش کر رہا ہے اور حکومت جیسا چاہتی ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگرابتدا میں ہی پولس اور میڈیا کو جواب دے کر سارا معاملہ دیش کے سامنے رکھ دیا جاتا، میڈیا کے ناجائز پروپگنڈے کی بخیہ ادھیڑ دی جاتی،حکومت کی لاپروائی کا کچا چٹھا کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا جاتا اورمرکز و تبلیغی جماعت کے خلاف پروپگنڈا کرنے جھوٹی خبریں چلانے کے لئے میڈیا کو عدالت میں کھینچا جاتا تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ خیر، ابھی ہم کمیونٹی اسپریڈ کے درجہ تک نہیں پہنچے،یعنی ابھی وہی لوگ پازیٹیو ہورہے ہیں جو کسی باہری ملک یا باہری ملک سے آئے ہوئے لوگوں کے قریبی تعلقات اور ان کے کانٹیکٹ میں آئے ہیں، یعنی ابھی اس قسم کے کانٹیکٹ کے بغیر لوگ پازیٹیو نہیں ہو رہے ہیں سمجھئے یا تو وبا زدہ ممالک سے یہاں آئے اور ان کے کانٹیکٹ میں آنے والے لوگ ہی پازیٹیو ہو رہے ہیں، ہمارے خیال سے ان میں مسلمانوں کے زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مرکز سے آنے والوں اور تبلیغی جماعت کے نام پر مسلمانوں ہی کے زیادہ ٹسٹ کئے جارہے ہیں اور اسی کا شور بھی ہورہا ہے،جومسلمان مرکز کنیکشن کے بغیر پازیٹیو ہورہے ہیں ان کی ہسٹری کھنگالنے کی کوئی خبر نہیں آرہی۔ خیر ہمارا کہنا یہ ہے کہ ابھی جب مسلمان ہی زیادہ پازیٹیو ہورہے ہیں تو ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہمارا سماجی و معاشی بائیکاٹ اور مارپیٹ شروع ہوگئی ہے۔ خدا نہ خواستہ سوبار خدا نہ خواستہ اگر ملک میں کمیونٹی اسپریڈ شروع ہوگیا اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی بڑی تعداد میں پازیٹیو ہونے لگے تو ملک میں اس وبا کے پھیلاؤ کا ٹھیکرا پوری طرح ہم مسلمانوں کے سر ہی پھوڑ دیا جائے گا اور پھر اس وقت جو حالات ہوں گے ہم اس کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ کیا ہم میں سے کسی کو یقین ہے کہ مودی سرکار ایسا نہیں ہونے دے گی؟نہیں صاحب کسی کو بھی یہ یقین نہیں ہوسکتا بلکہ تالی تھالی بجا کراور دیے جلا کر نوے فیصد اکثریت نے بتادیا ہے کہ وہ مودی جی کے ساتھ ہے اور اسی سپورٹ کے چلتے اگر مودی سرکار، سرکاری طور پر نہیں تو اس کے مسلم دشمن اشتعال انگیز اور زبان دراز ممبران اور وزراء سوشل میڈیا کے پروپگنڈے اور ہمارے غیر سرکاری بائیکاٹ کو پارلمنٹ تک لے جا سکتے ہیں۔ جس طرح مرکز اور حضرت جی مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم پر کیس کیا گیاہے اسی طرح سبھی معاملات میں چن چن کر ایسا کیا جاسکتا ہے جب کیجریوال سرکار ایسا کرسکتی ہے تو مودی سرکار کیوں نہیں؟اوراگر ایسا ہواتو ہم خود ہماری بے احتیاط اور لاپرو ا روش کے ذریعہ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ اگر اب بھی ہم اپنا رویہ نہیں بدلتے،اس وبا کو ہلکے میں لینا نہیں چھوڑتے، احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے، لاک ڈاؤن کا پالن نہیں کرتے، اپنے کو کیا ہوسکتا ہو بھئی۔۔مسلمانوں کو کچھ نہیں ہوتا، ہم موت سے نہیں ڈرتے جیسی جھوٹی باتیں نہیں چھوڑتے تو این پی آر، این آر سی جیسے سلگتے مسائل کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کے لئے بھی ہمیں تیاری کر رکھنی چاہئے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
جس کھڑکی کے قریب بیٹھ کر میں لکھائی پڑھائی کا کام کرتا ہوں، اسی کھڑکی کے باہر کونے میں چڑیا نے آج اپنا گھونسلہ مکمل کر لیا۔ اس کی آٹھ، نو سہیلیاں اور ایک طوطا مبارک باد دینے آئے ہیں۔ ایک چہچہاتی ہاؤس وارمنگ پارٹی چل رہی ہے۔
حالانکہ یہ سب مجھے دیکھ رہے ہیں مگر ان کی چُوں چُوں اور ٹیں ٹیں میں کوئی وحشت نہیں۔ ویسے بھی کمرے میں مقید جاندار سے کسی کو کیا ڈرنا۔
فیض صاحب جب تخت گرا رہے تھے اور تاج اچھال رہے تھے یا پھر "وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ہم دیکھیں گے” لکھ رہے تھے تو انھیں کیا معلوم تھا کہ ایک دن یہ نظمیں انسان کے سوا کرۂ ارض کے ہر جاندار اور تازہ ہوا کو ترستے آسمان کا ترانہ بن جائیں گی۔
پچھلے دو، تین ماہ سے جو ہو رہا ہے شاید اس زمین پر پہلے کبھی نہیں ہوا۔ جسے ہم ترقی کا کارخانہ سمجھ رہے تھے، اس کے پہیے کو ایک نادیدہ دشمن نے روک دیا۔
دو سو سے زائد لکیریں جو انسانوں کو روکنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کے ’اسپیڈ بریکرز‘ بنا کر اس زمین پر کھینچی گئی تھیں، یکلخت بے معنی ہو گئیں۔
کیا امریکہ، کیا صومالیہ اور کیا مکہ، ہردوار، ویٹیکن اور کیا دیوارِ گریہ، سب ایک ہی صف میں کان پکڑ کر کھڑے کر دیے گئے۔
سنتے آئے تھے کہ جاگیردار کو جب کسی معزز حریف کی عزت خاک میں ملانا ہوتی تو گاؤں کے سب سے نچلے راندۂ درگاہ شخص سے سرِعام جوتے لگواتا تھا تاکہ یہ قصہ نسل در نسل یاد رہے۔
آج فطرت ایک گھٹیا وائرس کے ہاتھ میں جوتا پکڑا کر اشرف المخلوقات کا وہی حشر کر رہی ہے، اور جسے جوتا پڑ رہا ہے وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس کا مستحق نہیں۔
سنا ہے اب تک عالمی اسٹاک مارکیٹ میں ڈھائی سے تین ٹرلین ڈالر پانی ہو گئے۔ جانے ان تین ٹرلین ڈالرز میں سے کتنی رقم ایمان داری سے کمائی گئی ہو گی اور کتنا پیسہ کتنے لوگوں کا خون چوس کر، کتنے کروڑ درخت کاٹ کر، کتنے لاکھ ایکڑ زمین کا ریپ کر کے، کتنے بچوں کا دودھ اور نوالہ چھین کر، کتنی ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کر کے، کتنا سود وصول کر کے اور کتنی محنت سے کرپشن کر کے جمع کیا گیا۔
آنے والے دنوں میں اسٹاک ایکسچینج اور اجناس کی منڈی کے ساتھ مزید کیا ہونے جا رہا ہے؟ سب وقت کی دیوار پر لکھا ہے۔
جس دنیا کے آدھے وسائل اور دولت ایک سو انسانوں یا ان کی کمپنیوں کے قبضے میں ہوں، ایسی جنتِ شداد کیسے کسی دیدہ و نادیدہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن سکتی ہے۔
ایک ایک انچ زمین کے لیے لاشیں بچھا دینے والے، ایک دوسرے سے خوفزدہ ہو کر اسلحے کے انبار لگانے والے اور ہر ہاتھ میں بندوق پکڑا دینے کے خواہش مند، ایک دوسرے کی منڈیاں اغوا کرنے والے منصوبہ ساز، اپنے عقیدے اور اقدار کو دوسرے پر تھوپنے اور انکار کی صورت میں بستیاں تاراج کر دینے والے، جنگلی حیاتیات کو بے گھر کرنے والے، ترقی و خوشحالی کے سراب کے اسیر ہو کر فطری بقا کے بنیادی اصولوں کی دھجیاں اڑانے والے اور اپنے طبقاتی، مذہبی، ثقافتی تحفظ کے دھوکے میں دیواریں بلند تر کر کے ان کے پیچھے چھپنے والے اور اپنے سمیت ہر مخلوق کو ادنی و برتر میں بانٹنے والے۔
آج ان سب کے مکھیا کہہ رہے ہیں کہ اگر دو ڈھائی کروڑ لوگوں کی قربانی لے کر بھی یہ وائرس ٹل جائے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے سمجھنا کہ سودا برا نہیں۔
مجھے ہرگز ہرگز اپنی جاتی کے بارے میں خوش گمانی نہیں کہ جو بچ گئے وہ اپنے لچھن ٹھیک کر کے ’بندے دے پتر‘ بن جائیں گے اور کرۂ ارض پر دیگر حیاتیات و نباتات و معدنیات کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کا معاہدہ کر لیں گے۔ میری جاتی اس وقت جتنی مظلوم دکھائی دے رہی ہے، دراصل اس سے کہیں زیادہ ظالم ہے۔
فی الحال تو میں اپنی کھڑکی کے باہر آدمی کے خوف سے آزاد گھونسلہ بنانے والی چڑیا اور اس کی اچھلتی پھدکتی ہمجولیوں کی چہچہاتی خوشیوں میں مگن ہوں اور اس کھڑکی بھر آسمان کو جی بھر کے دیکھ رہا ہوں جو جانے کب سے خالص نیلا دکھنے کے لیے ترس رہا تھا۔
کرۂ ارض اس وقت ضروری مرمت کے لیے بند ہے۔ میرے مقید ہوئے بغیر یہ بھلا کہاں ممکن تھا؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
شکیل رشید(ایڈیٹرممبئی اردونیوز)
مجھے دفاع نہیں کرنا ہے۔
تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کاندھلوی اور ان کے رفقاء نے نادانی بھی کی، لاپروائی بھی برتی، وہ’مجرم‘ ہیں۔ اور ان کے ’جرم‘ کو ’سنگین‘ کہا جا رہا ہے اسی لیے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے کارروائی شروع کردی گئی ہے ۔ قانون حرکت میں آگیا ہے انہیں جو سزا ملنی ہوگی، اور ملنی چاہیے، وہ ملے گی ۔لیکن ایک سوال اس تعلق سے ضروری ہے، بھلے اس سوال کا کوئی جواب نہ دے؛ کیا یہ کہنا کہ تبلیغی جماعت کے ذمےداران ’کورونا جہاد‘ کر رہے تھے، وہ اس ملک میں ’کورونا وائرس‘ پھیلا رہے تھے لہٰذا وہ ’غداران وطن‘ ہیں، صحیح ہے؟ اس سوال پر ہم آگے غور کریں گے فی الحال ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہم سب عوام وخواص، امیروغریب، ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پنڈت، سورن، دلت، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، پترکار، صحافی، جرنلسٹ، موحدین، ملحدین، ایم پی حضرات، ممبران اسمبلی، سیاستدان، سی ایم کیجریوال، پی ایم نریندر دامودر مودی ’مجرم‘ نہیں ہیں؟ کیا ہم سب نے اپنے اعمال و افعال اور اپنی حرکتوں، اپنے اقدامات و احکامات سے سارے بھارت کو خطرے میں نہیں ڈال دیا ہے؟
ملک میں جنوری کے آخری مہینے میں کورونا وائرس کا مریض پایا جاتا ہے اور چین کے حالات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ’وباء‘ آس پاس ہی نہیں ساری دنیا میں پھیل سکتی ہے ۔مگر ہمارے ملک کے ارباب حل و عقد بھی اور عوام و خواص اور امیر و غریب بھی اپنے حال میں مست اور مگن رہتے ہیں ۔ہماری مرکزی وزارت صحت 13 مارچ کو باقاعدہ یہ اعلان کرتی ہے کہ ’’میڈیکل ایمرجنسی جیسی کوئی بات نہیں ہے‘‘ جبکہ کورونا وائرس کے اثرات ساری دنیا پر پڑنے شروع ہو چکے ہیں، لوگ مر رہے ہیں اور بڑی بڑی طاقتیں اس کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہیں!! ہمارے وزیراعظم مودی فروری کے مہینے میں اس ’وباء‘ سے بے پروا امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی میزبانی کا فریضہ نبھا رہے ہیں، احمدآباد کے اسٹیڈیم کولاکھوں افراد سےبھر دیتے ہیں ۔اس بھیڑ میں ’غیرملکی‘ بھی ہوتے ہیں!! آج احمدآباد ملک میں کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری ’کووڈ 19‘ کا ایک مرکز بن گیا ہے ۔گجرات میں سب سے زیادہ اموات یہیں ہو رہی ہیں اور ریاست میں سب سے زیادہ مریض بھی احمدآباد ہی میں ہیں ۔اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پی ایم مودی، ٹرمپ یا وہ بھیڑ جو اسٹیڈیم میں جمع تھی، یا وہ غیرملکی جو اس وقت وہاں موجود تھے؟ شاید اس سوال کا جواب بھی یہ دے دیا جائے کہ اس کی ذمہ دار بھی تبلیغی جماعت ہے! یہ جواب اس لیے ممکن ہے کہ اس ملک کے حکمراں اسی طرح کا جواب چاہتے ہیں ۔اور انہوں نے اپنے پروپیگنڈے سے عوام کو کچھ اس طرح سے ’ہپنا ٹائز‘ کر دیا ہے کہ عوام سے ایسے جواب کی ہی توقع ہے ۔
کیا یہ سوال آج نہیں اٹھنا چاہئے کہ جب جنوری ہی میں کورونا وائرس کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا تھا تب پی ایم مودی کو اس کے سد باب کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی بجائے ٹرمپ کی میزبانی کی فکر کیوں تھی؟ پی ایم مودی کی کورونا وائرس وباء کے تعلق سے بےحسی، لاپروائی اور بے فکری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس پر پہلی بار عوام کے درمیان زبان؛ 19 مارچ کو کھولی جب انہوں نے جنتا سے یہ اپیل کی کہ 22 مارچ کو ایک دن کا ’جنتا کرفیو‘ لگایا جائے گا وہ اس میں تعاون کریں ۔اور شام کے 5بجے تالی یا تھالی یا سنکھ بجا کر اس وائرس کے خلاف جنگ لڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں ۔حالانکہ 13 مارچ کو ان کی وزارت صحت یہ اعلان کر چکی تھی کہ ’’ میڈیکل ایمرجنسی جیسی کوئی بات نہیں ہے‘‘ اور اس اعلان کے بعد دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال حکم امتناعی لگا چکے تھے، مہاراشٹر میں وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے 31 مارچ تک کے لیے ’لاک ڈاون‘ کا اعلان کر دیا تھا ۔گویا یہ کہ ریاستیں چوکنا ہوچکی تھیں، احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی تھیں جن میں سب سے اہم احتیاط ایک دوسرے سے دوری بنانے کی تھی، مگر ہمارے پی ایم تالی اور تھالی کا اعلان کر کے لوگوں کو جیسے یہ آزادی دے رہے تھے کہ وہ جشن منائیں!! اور یہی ہوا، خوب تالیاں، تھالیاں اور سنکھ بجے، لوگوں نے باقاعدہ ڈھول تاشے بجائے ۔سڑکوں پر، بالخصوص گجرات کی، جشن کا سماں تھا، لوگ جمع تھے، گربا ناچ رہے تھے ۔ساری ’سماجی دوری‘ غارت ہو کر رہ گئی!! اور پھر جو ہونا تھا وہی ہوا۔یہ سوال اٹھے گا کہ جو ہجوم سڑکوں پر جمع ہوا تھا کیا اس میں ’کووڈ 19‘ کا کوئی مریض نہیں تھا؟ اگر نہیں تھا تو گجرات میں تیزی سے کورونا وائرس کی وباء کیوں پھیل رہی ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پی ایم نے 22 مارچ کو ’جنتا کرفیو‘ کے اعلان کے بعد، جس طرح اچانک کسی کو بھی، ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی اعتبار میں لیےبغیر ’نوٹ بندی‘ کا اعلان کیا تھا ’دیش بندی‘ کا اعلان کر دیا۔ کسی تیاری کے بغیر شب میں 8 بجے اعلان کیا اور رات کے 12 بجے سے ’دیش بندی‘ لاگو کر دی ۔یہ غریبوں کا دیش ہے، مزدوروں کا دیش ہے، یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کا دیش ہے، یہ نوکری چاکری کرنے والوں کا دیش ہے، ٹھیلے لگانے، سڑکوں پر سونے والوں اور بھکاریوں کا دیش ہے، ظاہر ہے چار گھنٹے کی مدت میں 21 دنوں کی ’دیش بندی‘ کے لیے سامان جٹانا یا اپنے عارضی ٹھکانوں سے اپنے اپنے گاوؤں کو جانا ممکن نہیں تھا، ریلیں، بسیں اور ہوائی جہاز جب بند ہوں، گاڑیاں سڑکوں پر نہ دوڑ رہی ہوں، تب زندگی کس قدر سونی اور اجڑی لگتی ہے اور کیسی بے بسی طاری ہوتی ہے اس کا آج ساری دنیا کو خوب اندازہ ہے ۔مگر وہ جو بےگھر و در و ٹھکانہ تھے انہیں تو ہر حال میں اپنے گھروں کو جانا تھا۔ایک خوف تھا کہ وہ کیا کریں گے، سب نے، ان کے سیٹھوں حکمرانوں نے انہیں مرنے کے لیے سڑکوں پر ڈھکیل دیا تھا، انہوں نے اپنے بچوں، ضعیفوں اور گھر والیوں کو کندھوں پر بٹھایا، کچھ دہلی کے آنند وہار پہنچے کچھ کہیں اور ۔یوپی سرکار اور کیجریوال سرکار دونوں نے بسوں کے انتظام کا اعلان کر رکھا تھا، پر بسیں ندارد تھیں، پھر لوگوں کے پیدل قافلے، یوپی، بہار، پنجاب اور ایم پی وغیرہ کی طرف چل پڑے ۔یہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔یہ راستے میں کہیں دل کے دورے سے اور کہیں سڑک حادثے میں مرے ۔خودکشی بھی کی۔زیادہ تر بھوک سے مرے ۔یہ لوٹے گئے، پولس کے ہاتھوں بے رحمی سے پیٹے گئے ۔مودی سرکار کا یہ ’غریب دشمن‘ چہرہ کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیا ہے، یہ چہرہ بار بار سامنے آیا ہے اور اگر مودی سرکار رہی تو پھر سامنے آئے گا ۔کون ہے مزدوروں اور غریبوں کی اس درگت کا ذمہ دار؟ سپریم کورٹ میں مودی سرکار کے وکیل تشار مہتا نے کہا ہے کہ یہ جو لوگ پیدل گئے ہیں ان میں 30 فیصد کورونا وائرس متاثرین ہو سکتے ہیں! یہ کتنا بڑا فیصد ہے! یہ اپنے گاوؤں میں جب پھیلیں گے تو کتنوں ہی کو متاثر کریں گے،لاکھوں کو! ان میں سے نہ جانے کتنے مریں گے، بھلا یہ جو لاشیں بچھیں گی (اللہ نہ کرے) ان کا وزن کس کے کندھوں پر ہوگا؟ مودی اور کیجریوال سرکار کی بے حسی اور لاپروائی اس کا سب سے بڑا سبب ہو گی اور یہ انسانیت کا قتل عظیم ہو گا ۔
ایک بات جو پہلے کہنا تھی اب کہے دیتا ہوں ۔ٹرمپ کی آمد کے دوران دہلی کا جو مسلم کش فساد شروع ہوا تھا، وہ کیا تھا؟ زعفرانیوں کا الیکشن میں ہارنے کا ’انتقام‘ ۔کورونا وائرس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی لیکن مودی سرکار بھی اور کیجریوال سرکار بھی، این پی آر، آین آر سی اور سی اے اے کی تحریکوں اور شاہین باغ سمیت ملک بھر کے شاہین باغوں کو کچلنے کے لیے سارا زور لگا رہی تھی ۔کاش اس وقت حکمراں جاگ اٹھے ہوتے تو شاید کورونا وائرس کی شدت اتنی نہ بڑھتی ۔مگر اس وقت مسلمان نشانے پر تھے اس سب سے آنکھیں موندے تھے۔اور آج پھر مسلمان نشانے پر ہیں! کورونا وائرس کی وباء کو مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا ہے، گویا کہ ان مسلمانوں نے جو اس ملک میں رہنے کے لیے شہریت کے کالے قانون کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں اس وائرس کو لا کر اپنی اور اپنے بچوں ہی کی موت کا انتظام کیا ہے؟!! تبلیغی مرکز نظام الدین کے، ان دنوں کے اجتماع کا کسی بھی صورت میں دفاع نہ کیا جا سکتا ہے نہ کوئی کر رہا ہے، لیکن میڈیا کے اس زہریلے پروپیگنڈے کو بھی قطعی جائز نہیں مانا جا سکتا اور نہ مانیں گے کہ یہ ’کورونا جہاد‘ ہے۔یہ بات قبول نہیں کہ کوئی کسی مسلمان کو دیکھ کر اسے ’کورونا بم‘ کہے۔یہ قبول نہیں کہ اس بہانے مسجدوں اور مدرسوں پر چھاپے مارے جائیں اور گھر کی چھت پر باجماعت نماز ادا کرنے والوں پر مقدمہ درج کیا جائے ۔اور داودی بوہرہ جماعت کے مسلمانوں کی’تھال دعوت‘کی تصاویر پھیلا کر یہ گھٹیا الزام عائد کیا جائے کہ’مسلمان کورونا وائرس پھیلانے کے لیے برتن جھوٹا کر رہے ہیں‘! اور نہ ہی یہ قبول ہے کہ مختلف ریاستوں میں جو ’پکڑے‘ گئے ہیں انہیں تبلیغی مرکز کا بتا کر ’کورونا بم‘ کہہ کر ذلیل کیا جائے اور سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے ۔جانتے ہیں کہ کورونا کے ممکنہ مریضوں میں بہت سے غیر مسلموں کو بھی تبلیغی کہہ کر اور مان کر پکڑا گیا ہے!! یہ نفرت کا وائرس ہے، یہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے ۔ہم یہ سوال دریافت کر سکتے ہیں کہ بھلا 30 مارچ تک یہ جو بنارس کے مندر سے لے کر جموں اور تروپتی کے مندر تک (اپریل میں کیرال اور شرڈی میں رام نومی کی پوجا بھی اس میں شامل کر لیں) بے شمار شردھالو آتے جاتے رہے ہیں، اور یہ منادر کھلے رہے ہیں تو کیا اس سے کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ نہیں بڑھا، کیا لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرکے گوبراورگئوموتر پارٹی سے ملک خطرے میں نہیں آیا، کیا یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی نے ’دیش بندی‘ توڑ کر ایودھیا میں جورام للا کی پوجا کی جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک تھے اس سےوباء کا خطرہ نہیں بڑھا، شیوراج چوہان کی حلف برداری کی پر ہجوم تقریب اور یدی یورپا کی بھیڑ بھاڑ والی شادی کی دعوت میں شرکت سے یہ خطرہ نہیں بڑھا، 23 مارچ تک پارلیمنٹ چلی تو کیا دیش خطرے میں نہیں پڑا، پر ہم یہ سب دریافت نہیں کریں گے کیونکہ کوئی جواب نہیں ملے گا۔ مگر یہ سب تقریبات اسی قدر ملک کو خطرہ میں ڈالنے والی تھیں جس قدر کہ تبلیغی جماعت کا اجتماع ۔لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں، ان میں بہت سارے ہندو ہیں، کہ صرف تبلیغی جماعت ہی کیوں ’مجرم‘، کیجریوال اور مودی سرکار کیوں نہیں، امیت شاہ اور وزارت خارجہ کیوں نہیں؟ یہ غیر ملکی جنہیں اب بلیک لسٹ کیاگیا ہے کیسےبھارت آئے، ویزے کس نے دئے، ائرپورٹ پر غیر ملکیوں کی اسکریننگ کیوں نہیں ہوئی؟ اور دہلی پولس کیوں سوئی رہی؟
تبلیغی مرکز نے لاپروائی کی، نادانی کی بلکہ مجرمانہ غفلت برتی جس کے اثرات تین طرح سے پڑ سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ جوتبلیغی متاثرین یہاں وہاں پھیلے گی وہ لاتعداد افراد میں کورونا وائرس پھیلائیں گے۔جان بڑی قیمتی ہوتی ہے اس کا خیال جماعت نے نہیں رکھا، دوسرا اثر یہ کہ مسلمان معتوب ٹھہریںگے بلکہ معتوب ٹھہرنے لگے ہیں،ممکن ہے کہ ’لنچنگ‘ جیسے حالات نہ پیدا ہو جائیں، اور تیسرا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ حضرت مولانا الیاس کاندھلویؒ نےخلوص اور لگن سے جس تحریک کوپروان چڑھایا وہ خطرے میں پڑ جائے گی، مرکز پر تالا ڈال دیا گیا ہے یہ کیسی افسوس ناک خبرہے اور یہ صرف نادانی، ہٹ دھرمی اور من مانی کی وجہ سے مشورے نہ ماننے کے سبب ہوا ہے۔ مگر صرف مرکز پر جو ٹھیکرا پھوڑا جا رہا ہے وہ درست نہیں ہے کیونکہ اس نے انتظامیہ سے خط و کتابت جاری رکھی تھی، بھلا یہ سرکاری ذمےداران، افسران، پولس، کیجریوال اور مودی سرکار کیوں حرکت میں نہیں آئی؟ کیا اس کا مقصد تبلیغی جماعت کو پھنسانا تھا؟ حقیقت یہی ہے کہ یہ سب کے سب ’مجرم‘ ہیں۔جو لوگ کورونا وائرس سے مرے اور جو مریں گےیہ ان سب کے ’قاتل‘ ہیں۔اور ہم سب بھی کہ ہم احتیاط نہیں کر رہے ہیں، سڑکوں پر میلے لگا کر اپنی اور دوسروں کی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔اب بھی وقت ہے احتیاط برت لیں، وباکو ہندو اور مسلم نہ بنائیں مل جل کر متحد ہو کر اس سے لڑیں ورنہ لاشیں اٹھانے والے نہیں ملیں گے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
عہدِ نبوی میں ایک جنگ (غزوۂ بنی مصطلق) کے موقع پر ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا _ جنگ سے واپسی پر مسلمانوں کے سردار (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم) کی بیوی انسانی ضرورت کی بنا پر قافلہ سے پیچھے رہ گئیں _ ایک صاحب ، جن کی ڈیوٹی ہی تھی کہ قافلہ کے پیچھے پیچھے دیکھ بھال کرتے ہوئے آئیں ، انہیں تنہا دیکھا تو اپنے اونٹ پر بٹھا لیا اور خود پیدل چلتے ہوئے انہیں اگلے پڑاؤ پر پہنچادیا _ اُس واقعہ میں کوئی انہونی بات نہ تھی _ لیکن فتنہ پردازوں نے اسے رائی کا پربت بنادیا _ مسلمانوں ، ان کے سردار اور اس کے اہلِ خاندان کو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کے الزامات لگائے اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھالیا _ اس موقع پر قرآن مجید میں سورۂ نور کی آیات نازل ہوئیں ، جن میں اس واقعہ پر بھرپور تبصرہ کیا گیا _ اسے صریح بہتان اور بے بنیاد الزام بتایا گیا ، صاف الفاظ میں کہہ دیا گیا : ” اسے پھیلانے میں جس نے جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اِس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے تو عذابِ عظیم ہے _” ساتھ ہی مسلمانوں سے کہا گیا : ” اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو ، بلکہ یہ تمہارے لیے خیر ہی ہے _” بعد کے حالات نے مسلمانوں کے لیے خیر کے بہت سے پہلو واضح کردیے _ انھیں اپنے کھلے دشمنوں کا تو علم تھا ، لیکن چھپے دشمن بھی کھل کر سامنے آگئے، مسلمانوں کو ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا علم ہوگیا اور ان کی صفوں میں مزید اتحاد و اتفاق پیدا ہواـ
تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین کے حوالے سے گزشتہ دو دنوں سے جو ہنگامہ آرائی جاری ہے اس پر قرآن مجید کا یہ تبصرہ پوری طرح صادق آتا ہے _ مرکزی حکومت ، ریاستی حکومت ، دہلی پولیس ، فرقہ پرست جماعتیں اور مذہبی منافرت پھیلانے والی تنظیمیں سب بے نقاب ہوگئی ہیں اور ان کے متضاد رویّے کھل کر سامنے آگئے ہیں _ ملک کا گودی میڈیا ان تمام شرانگیزیوں کا سرغنہ بنا ہوا ہے _ وہ زہر اگل رہا ہے اور مسلمانوں کو ملک دشمن ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے _ اس موقع پر مسلمانوں کو قرآن کی اس ندائے غیبی کو اسی طرح سننا چاہیے جس طرح عہدِ نبوی کے مسلمانوں نے سنا تھا : ” اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو ، بلکہ یہ تمہارے لیے خیر ہی ہے _”
تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین نئی دہلی میں یوں تو ہر وقت سیکڑوں لوگ رہتے ہیں _ وہاں روزانہ ملک و بیرونِ ملک سے چھوٹی بڑی جماعتوں کا آنا اور وہاں سے نکلنا لگا رہتا ہے _ خبروں سے معلوم ہوا کہ 13، 14 مارچ کو وہاں کوئی بڑا اجتماع ہوا تھا ، جسے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے تناظر میں حکومتی احکام کی خلاف ورزی کہا جارہا ہے ، جب کہ اس کے کافی بعد تک خود حکومت مختلف اجتماعات کرتی رہی ہے _ 14 مارچ کو دہلی کے وزیراعلیٰ نے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا ، جس میں 70 ارکانِ اسمبلی کے علاوہ ان سے دوگنی تعداد میں ان کے خدمت گار موجود تھے _ پارلیمنٹ کا اجلاس تو لاک ڈاؤن(24 مارچ) کے اگلے دن تک چلتا رہا ، جس میں ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں کے 800 ارکان کے علاوہ ان کی خدمت پر مامور کم ازکم 1600کا عملہ تعینات رہتا ہے _ ایک طرف سماجی فاصلہ (Social distancing) کے احکام دیے جا رہے تھے ، دوسری طرف مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت کو گرانے کے لیے جوڑ توڑ کی جا رہی تھی اور میٹنگ پر میٹنگ ہو رہی تھی _ پھر فلور ٹیسٹ کے لیے 200 سے زائد ارکان اسمبلی ہال میں جمع ہوئے _ ان کے خدمت گزاروں کی تعداد اس کے علاوہ تھی _ لاک ڈاون کے بعد 24 مارچ کو بھوپال میں دھوم دھام کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی حلف برداری ہوئی ۔ تبلیغی جماعت کے مرکز میں جن دنوں اجتماع ہورہا تھا انہی دنوں اور ان کے آس پاس ملک کے مختلف حصوں میں حکومتی سرپرستی میں چھوٹے بڑے اجتماعات ہورہے تھے اور ان میں ‘سماجی فاصلہ’ کے اپنے ہی احکام کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں _ ایک اجتماع ہندو مہا سبھا نے دہلی میں واقع اپنے مرکز میں ‘گئو موتر’ (گائے کا پیشاب) پی کر کورونا کو بھگانے کے لیے منعقد کیا تھا ، جس میں 200 لوگوں نے شرکت کی تھی _ 20 مارچ کو کیرلا کے دار الحکومت میں واقع سری کرشنا سوامی مندر میں روایتی ’ارتوّ‘ کی تقریب کا انعقاد ہوا ، جس کے جلوس اور دیگر رسوم مثلاً مقدس تالاب میں ڈبکی میں ہزاروں لوگ شریک تھے _ وزیر اعلیٰ اترپردیش ، جو مرکزی حکومت کے احکام نافذ کرنے میں بہت پُرجوش رہتے ہیں ، 25مارچ کو رام للّا کی مورتی نئے مندر میں منتقل کرنے کے لیے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ایودھیا میں موجود تھےـ
لاک ڈاؤن کے بعد تبلیغی مرکز کے ذمے داروں نے دہلی پولیس اور حکومت کے دیگر اہل کاروں کو اطلاع دی اور مرکز میں پھنسے لوگوں کو وہاں سے نکال کر ان کے گھروں میں پہنچانے کے انتظامات کرنے کی درخواست کی ، جس کے ان کے پاس دستاویزی ثبوت موجود ہیں ، لیکن ان کی کچھ شنوائی نہیں کی گئی ، بلکہ اب اسی کو ان کا جرم قرار دیا جارہا ہے _ اگر اچانک لاک ڈاؤن کے بعد ویشنو دیوی کے مندر میں پھنس جانے والے مجرم نہیں ہیں تو تبلیغی مرکز کی بنگلہ مسجد میں پھنس جانے والے کیوں کر مجرم ٹھہرے؟! اور کیوں کر ان پر ‘کورونا جہاد’ کا لیبل چسپاں کرکے ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے؟!!
اس وقت مرکزی اور ریاستی حکومتیں تبلیغی مرکز کی آڑ میں کورونا سے نمٹنے میں اپنی مجرمانہ غفلت اور ناکامی کو چھپانے کی چاہے جتنی کوشش کرلیں اور گودی میڈیا ملک کے مختلف طبقات کے درمیان زہر گھولنے کے لیے چاہے جتنا زور لگالے، لیکن بہت جلد جب یہ دھند چھٹے گی تو حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ، تبلیغی مرکز کے ذمے داران بے قصور ثابت ہوں گے اور فرقہ پرستوں کی شر انگیزی عیاں ہوجائے گی ـ
تبلیغی مرکز کے واقعہ میں شر سے خیر برآمد ہونے کا ایک پہلو یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کا تعارف اب تک صرف مسلمانوں کی حد تک تھا ، وہی اس کی سرگرمیوں اور خدمات سے واقف تھے _ اب میڈیا نے اسے زبان زد عام و خاص بنادیا ہے _ ہر اخبار اور ہر چینل پر وہ زیر بحث ہے _ اس طرح امید ہے کہ ملک کے تمام شہریوں میں اس کے بارے میں حقیقت جاننے کی جستجو پیدا ہوگی _ اب یہ تبلیغی جماعت کے کارکنان و وابستگان اور ان کے بہی خواہوں کی ذمے داری ہے کہ اس کا صحیح تعارف کرائیں اور اس کی مثبت خدمات سے عوام کو آگاہ کریں اور دوسرے مسلمانوں کی بھی ذمے داری ہے کہ اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈہ کے خلاف صف آرا ہوں اور ملّی اتحاد و اتفاق کا ثبوت دیں ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
لاک ڈاؤن کے نتیجے میں عوام جس بھکمری کا شکار ہیں اس کے تدارک کے لیے اصحابِ خیر کا جذبۂ انفاق ماشاء اللہ جوش میں ہے _ وہ بڑے پیمانے پر کھانا پکاکر بھی تقسیم کررہے ہیں اور راشن کِٹس تیار کرکے بھی مستحقین تک پہنچا رہے ہیں _ ان کی یہ جدّوجہد بڑی قابلِ مبارک باد اور لائقِ تحسین ہے _ اس پر وہ ان شاء اللہ بھرپور اجر کے مستحق ہوں گے _ اس موقع پر ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دہانی مقصود ہے کہ کہیں وہ نظر سے اوجھل نہ ہوجائے _ وہ ہے ان لوگوں کی طرف دستِ تعاون بڑھانا جو اپنی ضرورت مندی کا اظہار اپنی زبان سے نہیں کرسکتے ، جن کی سفید پوشی ان کے منھ پر تالے ڈال دیتی ہے ، جو فاقوں پر فاقے تو کرسکتے ہیں ، لیکن اپنے فقر کی بھنک اپنے قریبی لوگوں کو بھی دینا گوارا نہیں کرتےـ
قرآن مجید میں دو مقامات پر اہل ایمان کے کچھ اوصاف بیان کیے گئے ہیں ،ان میں سے ایک وصف یہ ہے :
وَالَّذِيۡنَ فِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ
” اور جن کے مالوں میں ایک حق مقرر ہے ، سائل (مانگنے والے) کا بھی اور محروم کا بھی”ـ
یہ سورۂ المعارج کی آیات 24 _ 25 ہیں _ یہی مضمون ایک لفظ (معلوم) کی کمی کے ساتھ سورۂ الذاريات :19 میں بھی آیا ہے _
ان آیات میں دو الفاظ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں : ایک ‘حق’ اور دوسرا ‘محروم’ _ حق کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان جب اپنی کمائی میں سے کسی کو کچھ دیتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ وہ اس پر احسان کر رہے ہیں ، بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات مستحضر رہتی ہے کہ ان کے مال میں یہ ان کا حق ہے _ اس طرح انہیں دے کر وہ ان کے حق سے سبک دوش ہو رہے ہیں _ ان آیات میں ‘محروم’ کا لفظ ‘سائل'(مانگنے والا) کے مقابلے میں آیا ہے ، جس سے اس کے معنیٰ متعیّن ہوتے ہیں _ اس کا مطلب ہے وہ شخص جو ضرورت مند ہونے کے باوجود مانگنے کی ہمّت نہ کرسکے اور ہاتھ نہ پھیلائےـ
سماج میں ہمارے ارد گرد بہت سے سفید پوش ہوسکتے ہیں : ہمارے رشتے دار ، ہمارے دوست احباب ، ہمارے دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین ، محلوں میں پھیری لگاکر روزمرّہ کے سامان بیچنے والے ، ٹھیلے لگانے والے اور خوانچہ فروش ، وغیرہ _ ہم اپنے دماغ پر تھوڑا سا زور دیں تو ایسے متعدد سفید پوشوں کی تصویریں ہمارے سامنے آجائیں گی _ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ان کی غیرت اور خود داری کو مجروح نہ ہونے دیں اور اس موقع پر ان کا اس طرح تعاون کریں کہ انہیں شرمندگی کا ذرا بھی احساس نہ ہو _ ہم عام صدقات و خیرات کے علاوہ زکوٰۃ سے بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں _ دینے والی کی نیت ہونی چاہیے کہ وہ زکوٰۃ ادا کررہا ہے _ جس کو زکوٰۃ کی رقم دی جارہی ہے اس کا جاننا ضروری نہیں کہ اس کو دی جانے والی رقم زکوٰۃ ہےـ
شریعت میں انفاق کے معاملے میں پوشیدگی کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے _ روزِ قیامت جو لوگ عرش الٰہی کے سایے میں ہوں گے ، اُس وقت جب عرشِ الٰہی کے سایے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا، ان میں ایک وہ شخص بھی ہوگا جو اس طرح خرچ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوپائے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے _ ( بخاری :660 ، مسلم:1031)
موجودہ بحران میں بہت سے لوگ دل کھول کر اپنا مال لُٹا رہے ہیں وہ بڑی بڑی رقموں کا اعلان کر رہے ہیں ـ انھوں نے بڑے بڑے لنگر کھول رکھے ہیں ، جن کے ذریعے بلا تفریق مذہب و ملّت انسانوں کی بھوک مٹا رہے ہیں ـ ایسے میں وہ لوگ بارگاہِ الٰہی میں خصوصی اجر کے مستحق ہوں گے جو نام و نمود سے بے پروا ہوکر بہت خاموشی سے سماج کے ایسے سفید پوشوں کی مدد کررہے ہیں جن کی خودداری انہیں ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتی اور جن پر عموماً اصحابِ خیر کی نظر نہیں پڑتی ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے اپنے ایک بیان میں حضرت نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز کے تعلق سے میڈیا میں ہونے والے منفی پروپیگنڈے کے تناظرمیں کہا کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب پوراملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا متحدہوکر کورونا وائر س جیسی مہلک بیماری سے فیصلہ کن جنگ لڑرہی ہے تو اس جنگ کو فرقہ وارانہ رخ دینا انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے، انہوں نے کہا کہ اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے اگر مرکزمیں کچھ لوگ پھنسے رہ گئے اور ان میں سے کچھ اس وباکی زدمیں آگئے تو اس میں قیامت ٹوٹنے جیسی کوئی بات نہیں بلکہ ان کے علاج ومعالجہ کا بندوبست کیا جانا چاہئے، مولانامدنی نے یہ بھی کہا کہ جس طرح لاک ڈاؤن کا اچانک اعلان ہوا اس سے ملک بھرمیں لاکھوں کی تعدادمیں لوگ پھنسے ہوئے ہیں اس کا نظارہ ہم نے نہ صرف دہلی بلکہ ملک کے دوسرے شہروں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح یہ لوگ بے بسی کی حالت میں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر لاک ڈاؤن کی پابندی توڑتے ہوئے کسی بھی طرح اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے بے چین ہیں تو ان حالات میں اگر مرکز میں کچھ لوگ محصور رہ گئے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں قانون توڑنے جیسی کوئی بات نہیں، انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے خودوزیراعظم نے کہا تھا کہ جو جہاں ہے وہیں رہیں باہر نہ نکلیں پھر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مرکزکی جانب سے اس بابت متعلقہ حکام اور اداروں کو تحریری طورپر بتادیا گیا تھا یہاں تک کہ کچھ لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کی اجازت بھی مانگی گئی تھی اس لئے مرکزکو اس کے لئے ذمہ دار قطعی نہیں ٹہرایا جاسکتا،ملک کا میڈیا اس حالت میں بھی اس کا ایک ہی رخ پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی خطرناک سازش کررہا ہے فرقہ واریت کی اس جراثیم کو کورونا وائرس سے بڑاخطرہ قراردیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو اس کا نہ صرف نوٹس لینا چاہئے بلکہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کے اس مذموم سلسلہ کو فورا بند کیا جانا چاہئے کیونکہ اس طرح کے پروپیگنڈے سے اگر خدانخوستہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتو جس طرح لوگ اتحادواتفاق سے اس وباکے خلاف مضبوط جنگ لڑرہے ہیں وہ کمزورپڑجائے گی اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ اپیل کی کہ جماعت سے وابستہ افراد اگر کسی طرح کی پریشانی محسوس کرتے ہوں تو بلا جھجک اپنا طبی معائنہ کرائیں،انہوں نے دہلی حکومت اور انتظامیہ سے بھی اپیل کی کہ اس مشکل گھڑی میں وہ بیماروں سے ہمدردی کا سلوک کریں اور جو لوگ کسی طرح کی پریشانی میں مبتلاہیں تو ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں، انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کا اعتراف کرے کہ دہلی انتظامیہ سے بھی اس سلسلہ میں بڑی چوک ہوئی ہے کیونکہ جب ان کے علم میں تمام باتیں لائی جاچکی تھیں تو اس وقت کوئی احتیاطی قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا انہوں نے سوال کیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو لوگ مرکز کے اندرپھنس گئے تھے کیا مرکز کے ذمہ داران انہیں اٹھا کر سڑکوں پرپھینک دیتے؟ اس کے سوا آخر چارہ ہی کیا تھا کہ انہیں مرکزمیں رکھاجاتا اور ان کے باہر آنے جانے پر پابندی لگادی جاتی مرکز نے یہی کیا بھی مولانا مدنی نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے زیر بحث پروگرام کے وقت اور اس کے بعد ملک کے ہر گوشہ میں اس سے کہیں بڑے مذہبی وغیر مذہبی پروگرام ہوئے اور سیاستدانوں کے سرپرستی میں ہوئے اس لئے اگر مرکز نظام الدین کے عہدیدارکے خلاف اس وجہ سے ایف آئی آر ہوسکتی ہے تو اس سے پہلے مرکزی اورریاستی حکومت کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آرہونی چاہئے جس کی بدنظمی کی وجہ سے لاکھوں مزدورآنندوہار اور دیگر جگہوں پے لاک ڈاؤن کے آرڈرکے بعد جمع ہوئے تھے۔
مہتمم دارالعلوم مفتی ابوالقاسم نعمانی کی جانب سے شدید رد عمل
دیوبند۔ ۳۱؍مارچ: (ایس چودھری) ہندی کے ایک مشہور نیوز چینل کے ذریعہ کوروناوائرس پھیلنے کے لئے تبلیغی مرکز حضرت نظام الدین کے ساتھ دارالعلوم دیوبند میں کورونا کا معاملہ پائے جانے کی خبر چلائے جانے پر دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران نے سخت ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے اس کو سر سے خارج کیا ہے،دارالعلوم دیوبند نے چینل کی اس رپورٹنگ کو غیر ذمہ دارانہ بتایا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے وہ مذکورہ چینل کے خلاف کارروائی عمل میں لائے کیونکہ دارالعلوم دیوبند، دیوبند،سہارنپور اور اطراف کے علاقہ میں کہیں بھی کوئی کورونا سے متاثرہ نہیں ہے،یہاں مسلسل محکمہ صحت کی ٹیم لگی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجودچینل نے نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قسم کی خبر چلائی ہے اور کورونا پھیلنے کا سبب دہلی کے تبلیغی جماعت کے مرکز اور دارالعلوم دیوبند کو بتایا جو سراسر جھوٹ اور افواہ ہے۔ہندی نیوز چینل کے ذریعہ کورونا وائرس کا معاملہ دارالعلوم دیوبند میں پائے جانے کی خبر پر یہاں دارالعلوم دیوبند کے میڈیا ترجمان اشرف عثمانی نے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی کے حوالہ سے دارالعلوم دیوبند کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ بات بالکل غلط ہے، دارالعلوم دیوبند میں بھی، شہر دیوبند اور ضلع سہارنپور میںکہیں کوئی کورونا کا مریض ابھی تک نہیں پایا گیاہے، سی ایم او، ڈی ایم ،نوڈل آفیسر اس سلسلہ میں بتاسکتے ہیں۔یہ خبر سراسر جھوٹی ہے اور افواہ ہے، اس کی تصدیق نہیں ہے، اگر انہیں یہ خبر چلانی ہی تھی تو پہلے نوڈل آفیسر یاسی ایم او کی بائٹ لینی چاہئے،بغیر کسی تصدیق کے یہ خبر چلانا میں سمجھتا یہ بہت بڑا جرم ہے، افواہ پھیلانے کے جرم میں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔انہوں نے کہاکہ دارالعلوم دیوبند میں جس قدر احتیاط سے ہم بچوں کو رکھتے سکتے ہیں اتنی احتیاط سے رکھ رہے اور محکمہ صحت اور حکومت کی گائیڈ لائن کو جتنا فالو کرسکتے ہیں اتنا فالو کررہے ہیں۔
اے ایم یو کے سبھی شعبوں میں آن لائن کلاسیز کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی پر زور
علی گڑھ :کووِڈ -19 کی وبا کے پیش نظر حکومت ہند کی جانب سے ملک گیر سطح پر نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے طلبہ و طالبات کے تعلیمی کیریئر کو متاثر ہونے سے بچانے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ سبھی فیکلٹیوں، شعبوں اور سنٹروں میں آن لائن کلاسیز کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے گی اور اساتذہ و طلبہ اس میں بھرپور حصہ لیں گے۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی صدارت میں پیر کو فیکلٹیوں کے ڈین اور پرنسپلوں کی ایک مشاورتی میٹنگ ہوئی جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ طلبہ و طالبات کا تعلیمی کیریئر کم از کم متاثر ہونا چاہئے۔ میٹنگ میں اس اعتماد کا اظہار کیا گیا کہ سبھی اساتذہ اس بحران کے وقت میں طلبہ کے مفاد میں اپنا بھرپور تعاون پیش کریں گے۔ چونکہ یہ صحت عامہ کا مسئلہ ہے اس لئے تعلیمی سرگرمیاں اور کلاسیز یوجی سی؍وزارت فروغ انسانی وسائل کی ہدایات کے مطابق شروع ہوں گی۔ تاہم سبھی فیکلٹیوں اور شعبوں میں آن لائن کلاسیز کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور اساتذہ و طلبہ کو اس بات کی ترغیب دی جائے گی کہ وہ آن لائن کلاسیز میں شامل ہوں۔ اس معاملے کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جائے گا۔
کرشن کانت جھا
ترجمہ: محمدتوصیف
بی جے پی نے نوٹ بندی کے بعد محض دو سال کے اندر چھ سو سے زائد نئی عالیشان پارٹی آفس کی عمارتیں تعمیر کیں۔ پورے ملک کے ایک سو پینتیس کروڑ لوگوں کے لئے کتنے ہسپتال بنے؟ بچوں کے لئے کتنے اسکول بنے؟ نوجوانوں کے لئے کتنی یونیورسٹیز بنیں؟یہ سوال کرنے والوں کو ‘دیش دروہی’ کی صف میں ڈال دیا گیا تھا۔
آج کوئی بھی یہ صاف صاف نہیں بتا پا رہا ہے کہ ملک میں نہ تو اچھے ہسپتال ہیں، نہ ان ہسپتالوں میں معقول انتظامات۔ دیہی ہندوستان کی تین فیصد آبادی کو بھی اگر ہسپتال میں بستر کی ضرورت پڑ گئی تو وہ دستیاب نہیں ہے۔
بی جے پی کے نئے دفتروں میں دہلی کی وہ عالیشان عمارت بھی شامل ہے جو پارٹی کا نیا ہیڈ کوارٹر ہے۔ تب رویش کمار نے بی جے پی کو ‘بہومنزلہ جنتا پارٹی’ لکھا تھا۔ میڈیا میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ نہ ہی یہ سوال کرنا مناسب سمجھا گیا کہ ملک بھر میں سیکڑوں عالیشان عمارتیں کیسے بنوائی گئیں؟ اتنی رقم کہاں سے آئی؟ نہ یہ سوال پوچھا گیا کہ اپنے لئے دفتر تو بنوا لیےگئے لیکن ہسپتال کتنے بنے؟
یہ اسی وقت کی بات ہے جب اتر پردیش کے گورکھ پور میں آکسیجن کی کمی کے سبب درجنوں بچے ہلاک ہو گئے تھے۔
رویش کمار نے ۳۰ مارچ ۲۰۱۹ کو لکھا تھا کہ بی جے پی نے ۶؍اپریل کو اتر پردیش میں ۵۱ نئے دفتروں کا افتتاح کیا ہے۔ کل ۷۱ ضلعوں میں نئے دفتر بنائے گئے۔ این ڈی ٹی وی نے پرائم ٹائم میں فیض آباد، متھرا، شراوستی، بلند شہر، میرٹھ، اور فیروز آباد کے نئے دفتروں کی تصویریں بھی دکھائی تھیں ۔ سارے دفتر نئی خریدی گئی زمینوں پر بنائے گئے تھے۔
‘بھویہ رام مندر’ بنانے کے نعروں کے بیچ ‘بھویہ پارٹی آفس’ بنا دیے گئے۔ مندر آئندہ انتخاب کا انتظار کر رہا ہے۔
۲۰۱۵؍ میں ‘لائیو منٹ’ کی ایک رپورٹ میں یہ منکشف ہوا کہ بی جے پی دو سال کے اندر اندر ۶۳۰ ضلعوں میں نئے دفتر بنائےگی۔ اب تک ۲۸۰ ضلعوں میں ہی دفتر تھے۔ باقی کرایے کے کمروں میں چل رہے تھے، یا نہیں تھے۔ محض دو سال میں اس جادوئی ہدف کو حاصل کر لیا گیا۔ اور ۶۳۰ نئے دفتر بن کر تیار ہو گئے۔
۲۰۱۴؍ کے عام انتخاب میں ‘ایمس’ جیسے کئی ہسپتال کا وعدہ تھا، آج تک وہ وعدہ ہی ہے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ گزشتہ چھ سالوں میں کہیں، کسی قومی سطح کے ہسپتال کی شروعات بھی ہوئی ہو۔
” دہلی میں جب بھاجپا کا صدر دفتر بنا تو کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس پر کتنا پیسہ خرچ کیا گیا۔ دو ایکڑ زمین پر سات منزلہ دفتر بن کر تیار ہو گیا اور اسے اندر سے کسی نے دیکھا تک نہیں۔ مطلب میڈیا نے دفتر کے اندر کی شان و شوکت کو عام لوگوں اور بی جے پی کے ہی کارکنوں کو دکھایا تک نہیں..! دہلی کےاس عالیشان دفتر میں ۳ منزلہ عمارتوں والے مزید دو بلاک ہیں۔ کسی چینل نے اس کی رپورٹنگ نہیں کی۔ اجازت ہی نہیں ملی ہوگی۔”
"مدھیہ پردیش کے ۵۱؍ اضلاع میں نئے دفتر بنے۔ چھتیس گڑھ میں ۲۷ اضلاع میں۔ صرف تین صوبوں میں ہی نئے عالیشان پارٹی آفس کی تعداد سو سے زائد ہے۔ در اصل بی جے پی کے اندر ایک قسم کی ‘ریئل اسٹیٹ کمپنی’ چل رہی ہے۔ اور یہی چیز ہے جو بی جے پی کے کارکنوں اور حامیوں کو جاننا چاہئے۔ نوٹ بندی سے ٹھیک پہلے بی جے پی نے ملک بھر کے لاتعداد اضلاع میں زمینیں خریدی تھیں ۔ بہار میں کئی مقامات پر تو نقد پیسوں پر زمینیں حاصل کی گئیں۔”
کیا یہ جاننے لائق نہیں ہے کہ آخر بی جے پی کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟ یہ پارٹی ملک کے مسائل نمٹانے کے لئے کبھی آر بی آئی سے وصول کرتی ہے، تو کبھی عوام سے۔ ملک میں کورونا کی مصیبت آئی ہے تو پردھان منتری نے ‘راشٹریہ راحت کوش’ ہونے کے باوجود ایک نیا کوش یعنی اکاؤنٹ بنا دیا ہے، اور اس میں پیسہ ڈالنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ جبکہ ابتدائی ضروری انتظامات تک نہیں کئے گئے ہیں۔ خود ڈاکٹروں نے بنیادی انتظامات میں کمی کی شکایت کی ہے۔”
اگر سرکار کا خزانہ خالی ہی ہے تو سرکار میں بیٹھی پارٹی نے سیکڑوں دفاتر کیسے تعمیر کر لئے؟ یہ پیسے کہاں سے آئے؟ دفتر بنے تو بنے، پارٹی نے کتنے صوبوں میں ہسپتال بنوایا؟ کتنے اسکول بنے؟ کتنی یونیورسٹیز بنیں؟
جہاں ایک ہسپتال بنانا محال ہے وہاں چھ سو نئے دفاتر کیسے بنے ہونگے؟ آپ کہیں گے کہ کارپوریٹ چندے کا نوے فیصدی حصہ بی جے پی کو ہی ملا، تو آپ کو ہر مہینے ہونے والی درجنوں ریلیوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ پچاس پچاس کروڑ کی ریلیاں موضوع بحث رہی ہیں۔
اس بابت میڈیا میں نہ کے برابر چھپا۔ رویش کمار نے لکھا تھا: ” آپ کسی ایسی پارٹی کو جانتے ہیں جس نےدو سال سے کم کی مدت میں سینکڑوں نئے دفاتر بنا لئے ہوں؟ ہندوستان میں ایک سیاسی جماعت ان دس سالوں میں کئی سو عالیشان پارٹی آفس بنا رہی تھی، اس کی نہ تو کوئی خبر ہے نہ کوئی وضاحت۔ کئی سو دفتروں کی تصاویر ایک جگہ رکھ کر دیکھئے، آپ کو سیاست کا نیا چہرہ نہیں بلکہ وہ چہرہ دکھائی دےگا جس کے متعلق آپ کم جانتے ہیں۔” (کم کیا، جانتے ہی نہیں ہیں۔)
عوام کو ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ کا نعرہ دیا گیا۔ لیکن یہاں ‘ سب کا ساتھ ہمارا وکاس’ ہو رہا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)