نئی دہلی:ملک میں ہر روز کورونا کے معاملے میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک دن میں ملک بھر میں 48661 مثبت واقعات رپورٹ ہوئے اور 705 افراد اس مرض سے ہلاک ہوگئے۔ یہ گزشتہ 24 گھنٹوں کا اعداد و شمار ہے۔وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کورونا کے مثبت معاملوںکی تعداد 1385522 ہوگئی ہے جبکہ فعال کیسوں کی تعداد 467882 ہے۔ وزارت نے بتایا کہ اب تک ملک میں 885577 افراد کورونا سے ٹھیک ہوچکے ہیں اور مجموعی طور پر 32063 افرادکی موت ہوئی ہے۔ گزشتہ24 گھنٹوں 442031 نمونے ٹیسٹ کئے گئے ہیں۔ یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ سرکاری لیب نے ایک دن میں 362153 نمونے ٹیسٹ کر کے ایک نیا ریکارڈ بنایا۔ ملک میں نجی لیب بھی اچھی خاصی تعداد میں ٹیسٹ کررہے ہیں۔ وزارت صحت کے مطابق ایک نجی لیب میں گذشتہ روز 79878 ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔دنیا میں کورناسے سب سے زیادہ متاثر ممالک کی فہرست میں ہندوستان تیسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ ملک کی سب سے زیادہ متاثرہ ریاست مہاراشٹر ہے، جہاں فعال کیسوں کی کل تعداد 467882 ہے۔ یہاں ایک دن میں 9251 نئے معاملے درج ہوئے۔ اب تک 366368 معاملے سامنے آئے ہیں جن میں 13389 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ مہاراشٹرا کے بعد تمل ناڈو، دہلی، کرناٹک اور آندھرا پردیش کا نمبرہے۔ اگر ہم ان ریاستوں میں کورونا کی تعداد کودیکھیں تو یہ بالترتیب 206737، 129531، 90942 اور 88671 ہے۔
corona virus
معاون اردو ٹیچرسمری ہائی اسکول، سمری، دربھنگہ(بہار)
عالمی وباء کورونا نے انسانی معاشرے کی زندگی کو معطل ومفلوج کر رکھا ہے۔چہار طرف مسائل ہی مسائل نظر آرہے ہیں ۔ہر ایک انسان خوفزدہ ہے کہ نہ جانے اس کی کون سی سانس آخری ثابت ہو۔انسانی تاریخ کا یہ بھیانک منظر کہ ایک انسان سے دوسرا انسان نہ صرف خوفزدہ ہو بلکہ فاصلوں کو ہی اپنی زندگی کا ضامن سمجھنے لگا ہو ۔یہ ایک ایسا المیہ ہے جس سے ہر شخص دوچار ہے۔ اپنے مکانوں کی دیواروں کے درمیان قید وبند کی زندگی گزار رہاہے۔ بند کمرے میں اس کے جینے کا سامان صرف اور صرف گھر کے افراد اور ابلاغ کے مختلف ذرائع رہ گئے ہیں ۔ بالخصوص کتب ورسائل اہلِ علم لوگوں کی ذہنی الجھنوں سے نجات کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں ورنہ ٹیلی ویژن پر شائع ہونے والی گمراہ کن خبروں نے تو اور بھی خوف کا ماحول پیدا کیا ہے۔جہاں تک ادبی رسائل وجرائد کا سوال ہے تو اس لاک ڈائون کے عرصے میں نہ صرف ان کی اشاعت متاثر ہوئی ہے بلکہ قارئین کے ہاتھوں تک ان کی پہنچ بھی مشکلوں سے دوچار رہی ہے کہ ڈاک کا نظام بھی اس عرصۂ لاک ڈائون میں متاثر ہوا ہے بلکہ اب بھی بعض شہروں کے لئے پوسٹ آفس ڈاک قبول نہیں کر رہے ہیں ۔ مثلاً صوبہ بہار کے شہر دربھنگہ سے ملک کی دارالسلطنت دہلی اور ممبئی کے لئے مہینوں سے ڈاک نہیں لی جا رہی ہے اور جہاں کے لئے ڈاک لی جا رہی ہے وہاں بھی کافی تاخیر سے پہنچ رہی ہے۔اس لئے بیشتر اردو رسائل وجرائد طباعت کے مرحلے سے گذر کر بھی قاری تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ بیشتر رسائل نے سافٹ کاپی اپنی ویب سائٹ پر جاری کی ہے تاکہ قارئین اس سے استفادہ کر سکیں۔ مگر سچائی یہ ہے کہ رسائل وجرائد کی اصل کاپی کی ورق گردانی کا لطف ہی کچھ اور ہے اور پھر سنجیدہ مطالعہ تو تہذیب کا ایک حصہ ہے۔اس سے محرومی قارئین کے لئے باعثِ مایوسی ہے ۔
بہر کیف! ان مشکل حالات میں بھی چند ایسے ادبی رسائل ہیں جو قاری کے لئے ذہنی آسودگی کا سامان فراہم کر رہے ہیں اور بر وقت قاری تک پہنچ رہے ہیں۔ ان رسائل میں سہ ماہی ’’جہانِ اردو‘‘ دربھنگہ قابلِ ذکر ہے۔’’جہانِ اردو‘‘ خالص تحقیقی ریسرچ جرنل ہے اور یو جی سی کے کیئر ریسرچ جرنل لسٹ میں شامل ہے۔اس کے مدیر ڈاکٹر مشتاق احمد جہانِ اردو ادب میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ یہ ریسرچ جرنل گذشتہ دو دہائیوں سے متواتر شائع ہو رہاہے اور پوری دنیا میں اپنے معیار ووقار کی وجہ سے قبولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ بالخصوص ہندوستان کے جامعاتی اساتذہ اور اردو کے ریسرچ اسکالروں کے درمیان مقبول عام ہے۔ چوں کہ ’’جہانِ اردو‘‘ میں تحقیقی مضامین کو اولیت دی جاتی ہے اور ان دنوں پی ایچ ڈی کے طلبا کے لئے یہ لازمی ہوگیا ہے کہ وہ اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ یونیورسٹی میں داخل کرنے سے قبل متعلقہ موضوع پر کم سے کم دو مقالات یو جی سی سے منظور شدہ ریفرڈ جرنل میں شائع کروائیں، اس لئے ’’جہانِ اردو ‘‘ میں ان طلبا کو فوقیت دی جاتی ہے۔ البتہ معیاری مضامین ہی قبول کئے جاتے ہیں۔ چوں کہ اس کے مدیر خود بھی ایک نامور محقق وناقد ہیں اس لئے مقالے کی اشاعت سے قبل اس کی چھان پھٹک بہت سنجیدگی سے کرتے ہیں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس رسالے میں مضامین کی اشاعت کے لئے دیگر رسائل کی طرح قلم کاروں سے پیسے نہیں لئے جاتے بلکہ اس کا پیمانہ صرف اور صرف معیار ہے۔ اس لئے اردو کے ادبی اورعلمی حلقے میں اس رسالے کی غیر معمولی اہمیت ہے۔اس لاک ڈائون کے عرصے میں زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں اور تعطل کے شکار بھی ہوئے ہیں لیکن ’’جہانِ اردو‘ ‘ بر وقت شائع ہو رہاہے اور قارئین تک پہنچ بھی رہاہے۔
میرے پیشِ نظر تازہ شمارہ نمبر ۷۸؍بابت اپریل تا جون ۲۰۲۰ء ہے ۔ مشمولات میں حسبِ روایت ’’جہانِ فکر ‘‘ میں مدیر محترم ڈاکٹر مشتاق احمد نے کورونا کی المناکی اوراس کی جغرافیائی حدود پر روشنی ڈالی ہے۔ بالخصوص عالمی سطح پر معاشی، سماجی ، مذہبی ، سیاسی اور تعلیمی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ امید بھی جتائی گئی ہے کہ کورونا کے بعد دنیا میں ایک بڑا انقلاب آنے والا ہے اس سے اردو زبان وادب کی دنیا بھی بدلنے والی ہے۔جہانِ تحقیق وتنقید کے باب میں پروفیسر قدوس جاوید(جموں)،پروفیسر معین الدین شاہین(اجمیر)، ڈاکٹر بسنت محمد شکری(مصر)احمد رشید علیگ(علی گڑھ) اور ڈاکٹر سرفراز احمد( لکھنؤ )کے تحقیقی وتنقیدی مضامین موضوع ومواد کے اعتبار سے چشم کشا ہیں۔ پروفیسر قدوس جاوید نے پروفیسر ظہور الدین کی تنقیدی بصیرت وبصارت کا بھرپور جائزہ لیا ہے ،جب کہ پروفیسر توقیر عالم نے فیض احمد فیض کی قدر شناسی اور غیر ترقی پسندیت پر روشنی ڈالی ہے ۔ پروفیسر شاہین نے تذکرہ شعرائے راجپوتانہ راجستھان پر تفصیلی بحث کی ہے ۔ اسی باب میں ڈاکٹر جی ایم پٹیل نے اردو کے ارتقائی ادوار کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے ۔ڈاکٹر بسنت محمد شکری نے کلیم عاجز کی شاعری اور حب الوطنی کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ پیش کیا ہے ۔ اس کے علاوہ درجنوں تحقیقی وتنقیدی مضامین ہیں جن کے مطالعے سے عصری اردو تحقیق وتنقید کی سمت ورفتار کا پتہ چلتا ہے۔ مطالعۂ خاص کے باب میں اردو کے نامور شاعر پروفیسر شہپر رسول کی نظمیہ شاعری پر پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی اور ڈاکٹر عادل حیات کے پرمغز مقالات شامل ہیں، جب کہ جہانِ خاص میں ’’مجروح سلطان پوری کی حیات وخدمات ‘‘ کے تعلق سے چارمضامین شامل ہیں ۔ ان میں ڈاکٹر ابو بکر عباد، ادریس احمد خاں، غلام نبی کماراور ڈاکٹر محمد اسد اللہ نے مجروح سلطان پوری کی شاعرانہ عظمت اور انفرادیت کا اعتراف کیا ہے۔ حسبِ معمول اس شمارے میں بھی ’’جہانِ دیگر ‘‘ کے تحت ڈاکٹر مشتاق احمد نے ہندی کے نامور ادیب وشاعر رامد ھاری سنگھ دنکر اور گری راج کشور کی ادبی خدمات سے جہانِ اردو کے قارئین کو روشنا س کرایا ہے۔یہ باب لسانی اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس کے مطالعے سے بین العلومی مطالعے کا فرض ادا ہوتا ہے ۔ اردو معاشرے میں یہ چلن کم ہے ، لیکن ’’جہانِ اردو‘‘ شروع سے ہی ’’جہانِ دیگر‘‘ کے باب میں مختلف زبانوں کے ادبا اور شعرا کی خدمات پر مبنی مضامین کو جگہ دیتا رہاہے۔’’جہانِ فسانہ‘‘ میں مشرف عالم ذوقی کا افسانہ ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے ‘‘اور سلمان عبدالصمد کا ’’گاگل ‘‘ شامل ہے۔ ’’جہانِ احتساب ‘‘ میں حسبِ روایت دس نئی کتابوں پر ڈاکٹر مشتاق احمد کے تبصرے شامل ہیں ۔ان میں انور پاشا کی کتاب ’’پروفیسر محمد حسن کے ڈرامے‘‘ ، پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کی کتاب ’’رزمیہ ادب ‘‘، پروفیسر شہزاد انجم کی ’’عہد ساز شخصیت :سرسید احمد خان ‘‘ ،ڈاکٹر شاہد احمد کی کتاب ’’چٹھی آئی ہے ‘‘ ، ڈاکٹر سید احمد کی ’’اردو صحافت کا مزاج ‘‘ ، امیر حمزہ کی کتاب ’’ادبِ اطفال‘‘، ڈاکٹر عقیل احمد کی کتاب ’’انجم عثمانی کے افسانے اور تجزیے‘‘ ، ڈاکٹر آصف زہری کا ناول ’’زباں بریدہ‘‘ ، ڈاکٹر نذر اشرف کی کتاب ’’بہار اردو افسانے کا گلزار‘‘ اور ڈاکٹر غزالہ فاطمہ کی کتاب ’’خدیجہ مستور‘‘ قابلِ ذکر ہیں ۔مذکورہ تبصراتی مضامین کے مطالعے سے نہ صرف کتاب کے مواد اور موضوعات سے آگہی ہوتی ہے، بلکہ تبصرہ نگار کے عمیق مطالعے کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ وہ حقِ تبصرہ نگاری کی ادائیگی میں اس قدر پابندِ اصول ہیں کہ صرف مدلل مداحی نہیں کرتے بلکہ کتاب کی خصوصیت اور کمیوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں ۔نئی نسل کے لئے یہ تبصراتی مضامین مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
مختصر یہ کہ اس کورونااور لاک ڈائون کے عرصے میں ’’جہانِ اردو ‘‘ کا بر وقت شائع ہونا اور پھر اپنے معیار ووقار کی بحالی کے ساتھ اردو کے علمی وادبی حلقے تک پہنچنا سعیِ پیہم کا نتیجہ ہے۔پیشِ نظر شمارہ ۲۷۲؍ صفحات پر مشتمل ہے اور حسبِ معمول اس کی قیمت سوروپے ہے۔اسے ادارہ ’’جہانِ اردو‘‘ رحم گنج ، دربھنگہ ۔846004سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔اردو کے معیاری رسائل وجرائد کی فہرست میں ’’جہانِ اردو ‘‘ نہ صرف امتیازی حیثیت رکھتا ہے ؛بلکہ ادبی معیار کی علامت بن گیاہے۔یہ اردو معاشرے کے لئے ایک بیش بہاادبی تحفہ ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:ہندوستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کل تعداد 5 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے 17 ہزار 296 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور 407 افراد کی موت ہوگئی ہے۔ وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں اب تک 4 لاکھ 90 ہزار 401 افراد کورونا سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس میں سے 15301 کی موت ہوچکی ہے، جبکہ دو لاکھ 85 ہزار افراد بھی صحت یاب ہوئے ہیں۔کورونا مریضوں کی تعداد کے حساب ہندوستان دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ امریکہ، برازیل، روس کے بعد، کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں ہندوستان چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔ہندوستان سے زیادہ کیس امریکہ (2502311)، برازیل (1233147)، روس (613994) میں ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی ہندوستان میں بڑھتے ہوئے مریضوں کی رفتار دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ امریکہ اور برازیل کے بعد ایک دن میں سب سے زیادہ تعداد ہندوستان میں درج کی جا رہی ہے۔
نئی دہلی:اب دہلی میں لوگوں کو ٹیسٹ اور اس کے نتائج کے لیے طویل انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ جمعرات سے نئی ٹیسٹنگ ٹکنالوجی ’ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ ‘ (ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ) جس کے ذریعے کورونا وائرس ٹیسٹنگ شروع ہوئی۔ فی الحال آئی سی ایم آر (انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ) نے اس ٹیکنالوجی کو صرف کنٹینمنٹ زون اور اسپتال یا کووارنٹین سینٹرمیںاستعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ 30 مئی کو جنوبی مغربی دہلی کے دوارکا سیکٹر 4 کے رتناکر اپارٹمنٹ میں کورونا کے 3 مثبت معاملے سامنے آنے کے بعد کنٹینمنٹ زون بنایا گیا۔ جمعرات کو انتظامیہ نے اس اپارٹمنٹ میں رہنے والے تمام لوگوں کو اس تکنیک کے ذریعہ ٹیسٹ لینے کے لئے بلایا اور جانچ کی ہے۔ یہ نئی ٹکنالوجی کورونا کے خلاف جنگ میں بڑی تبدیلی لاسکتی ہے۔ اس کی مدد سے جانچ کے عمل میں تیزی لائی جائے گی، مریضوں کا جلد پتہ چل جائے گا تاکہ ان کا جلد علاج ہو سکے۔ یہ جانچ بہت خاص ہے کیونکہ عام طور پر کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ 1-2 دن میں آتی ہے، جبکہ اس تکنیک کا نتیجہ 15 سے 30 منٹ میں ہوتا ہے۔ اس نئے ٹیسٹنگ تکنیک کے تحت کسی شخص کی رپورٹ منفی آتی ہے تو اس کی تصدیق RTPC ٹیسٹ سے کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص مثبت آتا ہے تو اسے مثبت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی قیمت طے کرنے کی ایسی کوئی معلومات نہیں ہے کیونکہ حکومت خود ہی یہ ٹیسٹ کرا رہی ہے۔ 20 جون سے دہلی میں روزانہ 18 ہزار کے قریب کورونا ٹیسٹ کروانے کا منصوبہ ہے، جس میں اس تکنیک کوسبھی موجودہ 247 کنٹینمنٹ زون میں استعمال کیا جائے گا۔ مرکزی وزارت داخلہ کی ہدایات کے بعد دہلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ٹیسٹ کے لئے مکمل شیڈول تیار کررہی ہے یعنی کب، کہاں، کتنے ٹیسٹ کرائے جائے کا ہدف ہے۔ یہ طے کیا جارہا ہے۔
آج دوپہر ایک آن لائن سمینار (webinar) میں شرکت کا موقع ملا ، جس کا انعقاد اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن نئی دہلی (IHF) کے بینر تلے ہوا ـ گزشتہ ایک دہائی سے یہ غیر سرکاری تنظیم تعلیمی اور رفاہی خدمات انجام دے رہی ہےـ گزشتہ برسوں میں اس نے متعدد اہم علمی ، ادبی اور دینی شخصیات اور طبی امور و مسائل پر کام یاب سیمیناروں کا انعقاد کیا ہےـ حکیم نازش احتشام اصلاحی اس کے روحِ رواں ہیں ـ ان دنوں ، جب کہ کووِڈ-19 کی وجہ سے کسی موضوع پر سمینار کے لیے کسی جگہ لوگوں کو اکٹھا کرنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہوگیا ہے ، انھوں نے آن لائن سمینار کا منصوبہ بنایا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس کا انعقاد کرنے میں وہ پوری طرح کام یاب رہے _ انھوں نے رجسٹریشن کا اعلان کیا تو پورے ملک سے تقریباً ڈیڑھ سو افراد نے رجسٹریشن کروایا _ یہ حضرات ملک کے مختلف طبیہ کالجوں کے اساتذہ ، تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے وابستہ محققین اور طب یونانی کی پریکٹس کرنے والے تھےـ
ابتدا میں تین حضرات نے اظہارِ خیال کیا _ سب سے پہلے مجھے کورونا سے تحفظ کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اظہارِ خیال کرنے کا موقع دیا گیا _ میں نے بتایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے تعدیہ کو تسلیم کیا ہے اور متعدی مرض میں مبتلا شخص سے دور رہنے کی تلقین کی ہے _ آپ نے فرمایا ہے : "جذامی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو _” وبا کے بارے میں آپ کی خصوصی ہدایت ہے : ” اگر کسی جگہ طاعون پھیلا ہوا ہو توکوئی شخص وہاں سے باہر نہ نکلے اور دوسرے مقامات سے کوئی شخص وہاں نہ جائے _” میں نے عرض کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی تو اس کا کام یابی سے منیجمنٹ کیا گیا _ مسلم فوج کو پہاڑی علاقوں میں منتشر کردیا گیا ، جس سے چند روز میں اس کا زور ٹوٹ گیا _ آخر میں میں نے عرض کیا کہ وبائی امراض سے تحفّظ کے لیے آج کل اطبا جس قرنطینہ (Quarantine) پر عمل کررہے ہیں اس کا واضح تصور مشہور مسلم طبیب شیخ الرئیس ابن سینا کے یہاں ملتا ہے _ انہوں نے مریض کو چالیس روز الگ تھلگ رکھنے کا نظریہ پیش کیا _ اسی کو یورپ میں کورنٹائن کا نام دے دیا گیا ہے _ مسلم اطبا میں سے چودھویں صدی عیسوی کے ابن خطیب الغرناطی اور ابن خاتمہ الانصاری الأندلسی نے بھی وبائی امراض پر کام کیا ہے اور ان سے تحفظ کی تدابیر بتائی ہیں ـ
دوسری گفتگو جامعہ ہمدرد نئی دہلی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر خورشید احمد انصاری کی تھی _ انھوں نے کورونا کی ماہیت پر اظہارِ خیال کیا ، طب یونانی کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے وبا اور وبائی امراض کے بارے میں بقراط ، جالینوس ، علی بن ربن طبری ، رازی ، ابن سینا اور دیگر اطبا کے نظریات اور اور ان کے علمی کاموں کا تعارف کرایا _ آخر میں چند ایسی یونانی دواؤں کا تذکرہ کیا جو جسم میں مناعت (Immunity) بڑھانے اور دیگر اعتبارات سے مفید ہیں ـ
حکیم فخر عالم ، ریسرچ آفیسر ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن علی گڑھ نے اس موضوع کے سماجی پہلوؤں پر اظہار کیا _ انہوں نے بتایا کہ کورونا کے مریضوں کے ساتھ سماج میں جیسا برتاؤ کیا جارہا ہے وہ کسی اعتبار سے درست نہیں ہےـ
پروگرام کا دوسرا جز پینل ڈسکشن تھا _ اس میں ڈاکٹر نفیس احمد قاسمی(بنگلور) ، ڈاکٹر تنویر عالم(پٹنہ) ، ڈاکٹر محمد محسن (علی گڑھ) ، ڈاکٹر آصف انصاری(پونہ) ، جناب مقبول حسن (دہلی) ، ڈاکٹر محمد ثاقب(لکھنؤ) ، ڈاکٹر شبنم انصاری (دہلی) اور دیگر حضرات نے حصہ لیا _ انھوں نے مذکورہ بالا 3 گفتگوؤں پر اپنے کمنٹس پیش کیے اور طبِ یونانی کے حوالے سے کورونا سے نپٹنے کے سلسلے میں اپنے تجربات شیئر کیے اور کچھ یونانی دواؤں کا تذکرہ کیا ، جن سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیےـ
پروگرام کا آغاز عزیزی شاہ نواز فیاض کی تلاوت سے ہوا _ ڈاکٹر محمد اکرم ، ایسوسی ایٹ پروفیسر جامعہ ہمدرد نے افتتاحی کلمات پیش کیے ، ڈاکٹر ایس ایم عباس زیدی اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ یونانی میڈیکل کالج بھوپال نے مہارت اور خوب صورتی کے ساتھ پروگرام چلایا _ جامعہ ہمدرد کے مرزا راحیل بیگ نے ٹیکنیکل سہولیات فراہم کیں _ یونانی دواؤں کی کمپنی ‘دہلوی نیچرلس’ کے مالک ڈاکٹر محسن دہلوی اور ڈاکٹر محمد خالد ، اسسٹنٹ ڈرگ کنٹرولر (یونانی) حکومت دہلی کی موجودگی نے سمینار کو اعتبار بخشاـ
شرکاء نے اپنے تاثرات میں اظہارِ خیال کیا کہ خطیر مصارف کے باوجود اتنے ماہرین اور اہل علم کو جمع کرنا مشکل تھا جتنے اس آن لائن سمینار میں جمع ہوگئے ہیں _ ہر ایک کی زبان پر حکیم نازش احتشام اصلاحی کے لیے کلماتِ تحسین تھے ، جنھوں نے اتنی خوب صورت مجلس سجائی اور اتنے اہم موضوع پر ویبینار منعقد کیاـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
آپ کو کورونا وائرس میں سازش نظر آ رہی ہے یا کوئی اور بکواس آپ کے ذہن میں پل رہی ہے وہ آپ کا انتہائی ذاتی مسئلہ ہے، آپ اپنی کھوپڑی سے فائیو جی اور باقی بھوسہ نکالیں یا چِپ ڈلوا کر اپنا دماغ چلوائیں وہ بھی آپ کی مرضی،البتہ کبھی کبھار کوئی سیدھی بات سننے اور سمجھنے میں زیادہ مسئلہ نہیں ہونا چاہیے اور وہ سیدھی بات نو بکواس یہ ہے کہ اب اگر آپ کے پاس پیسہ بھی ہے تو آپ کو قصائیوں سے کورونا کا ٹیکہ لگوا کر مرنے کا موقع نہیں مل سکے گا کیونکہ آپ کے ملک کے لامحدود وسائل کبھی صحت پہ خرچ ہی نہیں ہوئے، لامحدود کو بےحد محدود کر کے جو تھوڑا بہت بچتا ہے وہ صحت کے حصے میں آتا ہے اور آیا ہے اور اب تو خیر کمال ہی ہو گیا ہے کہ چیزیں یہاں کم پڑ رہی ہیں اور باہر بھیجی جا رہی ہیں۔
اس وقت بیشتر پرائیویٹ ہسپتال کورونا کو ڈیل نہیں کر رہے اور نہ ہی وہ کر سکتے ہیں، باقی جو کر رہے ہیں وہ تقریباً بیٹھ چکے ہیں۔ جو کام کر رہے ہیں وہ خود یہ تحفہ وصول کر کے گھر بیٹھنے پہ مجبور ہیں، کچھ مر رہے ہیں اور کچھ سوچ رہے ہیں کہ اب کیا ہو گا۔
آپ میں سے بیشتر لوگ لاک ڈاؤن کو اشرافیہ کا چونچلا سمجھ کر بھوک کو جواز بنا رہے ہیں، اگر آپ یہاں کے کچھ غلط یا صحیح بنیادی اصولوں سے واقف ہوں تو غریب بندے کے لیے بیماری آپ سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے، ان کے خاندان کا ایک فرد جب بیمار ہو تو وہ اپنے محدود وسائل بھی اپنی بنیادی ضروریات سے ہٹ کر اس بیمار پہ خرچ کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ نہ وہ علاج کروا سکتے ہیں نہ علاج کروانا چھوڑ سکتے ہیں، کچھ معاشرتی دباؤ کچھ رشتوں کی مجبوری کچھ ذاتی احساس کبھی کوئی اور وجہ، ایسے میں کسی کی تعلیم رہ جاتی ہے تو کوئی مقروض ہو جاتا ہے۔ اُسے اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لیے اور کوئی نہیں ملتا نہ صحت کے کرتا دھرتا نہ حکومت نہ مقتدرہ نہ ہسپتال کی انتظامیہ، وہ یہ سارا غصہ اور مایوسی آن ڈیوٹی ڈاکٹر پہ نکالتا ہے جو خود محض ایک ملازم ہوتا ہے پالیسی سازی سے وسائل تک اس کے حصے میں ہر دو طرف سے گالیاں ہی آتی ہیں۔ اگر وہ آپ کو سمجھائے تو آپ بھی نہیں سمجھتے اگر اپنے سے اوپر والوں کو سمجھائے وہاں سے بھی شٹ اپ کال ملتی ہے۔ پھر ان میں سے بہت سوں کے گھر والے تنگ آ جاتے ہیں علاج کروانا چھوڑ دیتے ہیں۔
آنے والے ایک دو ماہ میں بہت سوں کا المیہ یہ ہو گا کہ ان کے پاس رقم تو ہو گی پر علاج نہیں ہو سکے گا کیونکہ بیڈ نہیں ملے گا یا وینٹیلیٹر نہیں ملے گا۔
چیزوں کو ڈیل کرنے کا ایک طریقۂ کار ہوتا ہے، بیشتر ہسپتالوں کی انتظامیہ اور حکومت دونوں کی طرف سے صرف ری ایکشنری کام کیے گئے اور بہت کچھ ابھی تک بھی واضح نہیں ہو سکا، اس میں ہم جیسے لوگ بھی واللہ آپ کی طرح سب بھگت رہے ہیں، ہم میں سے بیشتر ڈاکٹروں کے والدین اس عمر میں ہیں جہاں انہیں ذیا بیطس یا بلند فشارِ خون یعنی شوگر یا بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے وہ نہ نوکری چھوڑ سکتے ہیں نہ گھر بیٹھ سکتے ہیں نہ اپنے والدین کے قریب جا رہے ہیں۔
اگر آپ نے یہاں تک پڑھ لیا ہے تو اس ساری بکواس کا مقصد محض اتنا ہے کہ اگلے تین ماہ آپ گھر بیٹھ جائیں، کسی جنازے پہ نہ جائیں یہ موت کی سب سے اچھی بات ہے کہ جو مر جاتا ہے وہ اس سب سے بےنیاز ہو جاتا ہے ، کوئی نہ ملنے پہ ناراض ہوتا ہے تو ہو جائے آج کل وہ آپ کا دوست نہیں دشمن ہے، کسی نے کرنی ہے شادی تو کرے مرے بھاڑ میں جائے آپ وہاں نہ جائیں ، کسی مذہبی اجتماع یا عبادت گاہ میں جائے بغیر بھی آپ کا قیمتی ترین مذہب محفوظ رہے گا۔
آپ اس بات سے غالباً ابھی تک واقف نہیں ہیں کہ کسی اپنے کو مرتے دیکھنا، اُس کا سی پی آر ہونا، اس کو بیڈ نہ ملنا کتنی بڑی اذیت ہے۔ سانس لینے میں دشواری ہونا کیا ہے اور پانی پینا کتنی بڑی عیاشی ہے یہ کوئی اُن سے پوچھے جن کے پھیپھڑے اور گردے اُنہیں اس عیاشی کی اجازت نہیں دیتے۔
ایک کڈنی فیلئر کے مریض نے کہا تھا تم ڈاکٹر تو بیٹا یزید ہو گئے ہو پانی بھی کُھل کر نہیں پینے دیتے۔
ہم روز سوشل میڈیا پہ المیوں کی داستان پڑھ رہے ہیں، ایک روز ہم خود بھی المیہ بن جائیں اُس سے پہلے رُک جائیں۔ بیماری سے لڑتے نہیں ہیں بیماری کا صرف علاج ہوتا ہے، بیماری کوئی دیوار نہیں جس میں آپ ٹکریں ماریں کوئی ریل نہیں جس کی پٹڑی پہ لیٹ کر خود کشی کر لیں، اس سے بچیں اور اپنے پیاروں کو بچائیں، اُس وقت سے بچیں جب آپ کو کسی کے لیے بیڈ ڈھونڈنا پڑے تو بیڈ نہ ملے، وقت پہ ڈاکٹر اور دوا نہ ملے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ممبئی:کورونا وائرس بحران میں کام کر رہے سرکاری ملازمین کے لئے مہاراشٹر حکومت نے کچھ ضروری ہدایات جاری کئے ہیں۔ مہاراشٹر میں سرکاری ملازمین کی آفس میں روز مرہ تھرمل جانچ کی جائے گی۔ساتھ ہی دروازے اور کھڑکی کھلی رکھے جائیں گے۔کام کاج کے دوران ملازمین کے لئے ماسک پہننا لازمی ہوگا۔بتا دیں کہ مہاراشٹر ملک میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ریاست ہے۔یہاں مریضوں کی کل تعداد 65000 سے تجاو کرچکا ہے۔ مہاراشٹر میں زیادہ تر سرکاری دفتر بہت کم اسٹاف کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ریاستی حکومت کے ملازمین کے لئے مہاراشٹر حکومت کی جانب سے جاری گائیڈلائن کے مطابق صفائی ملازمین کو ماسک کے ساتھ گلبس بھی پہنیں ہوگے۔ملازمین کو سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل کرنا ضروری۔دفتر کے گیٹ پر سینٹائرزرکھنا لازمی ہوگا۔ ای آفس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہوگا اور ای میل کے ذریعہ فائل پہنچانے کی بات کی گئی ہے۔وہیں لاک ڈاؤن میں رعایت کے درمیان ہندوستان میں کورونا وائرس کے معاملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ وزارت صحت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں کورونا وائرس مریضوں کی کل تعداد بڑھ کر 182143 ہو گئی ہے اور جبکہ اب تک 5164 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ وہیں گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وائرس کے 8380 نئے کیس سامنے آئے ہیں اور 193 لوگوں کی جان گئی ہے۔گزشتہ 24 گھنٹے میں اب تک سب سے زیادہ کیس سامنے آئے ہیں۔
نئی دہلی:ماہرین صحت کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ اگر مہاجر مزدوروں کو لاک ڈاؤن نافذکئے جانے سے پہلے گھر جانے کی اجازت دی گئی ہوتی تو ملک میں کورونا وائرس کے معاملے کو بڑھنے سے روکا جا سکتا تھا کیونکہ اس وقت یہ بیماری کم پھیلی تھی۔ ایمس، جے این یو، بی ایچ یو سمیت دیگر اداروں کے پبلک ہیلتھ کے ماہرین کے کورونا وائرس ٹاسک فورس کی ایک رپورٹ میں کہا گیاکہ واپس آ رہے لوگ ملک کے ہر حصے تک انفیکشنن لے کر جا رہے ہیں۔زیادہ تر ان اضلاع کے دیہی اور شہری مضافاتی علاقوں میں جا رہے ہیں جہاں معاملے کم تھے۔انڈین پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن (آئی پی ایچ اے)، انڈین ایسوسی ایشن آف پرویٹو اینڈ سوشل میڈیسن (آئی اے پی ایس ایم) اور انڈین ایسوسی ایشن آف ایپڈیمولوجسٹ(آئی اے ای) کے ماہرین کی طرف سے تیار کی گئی اس رپورٹ کو وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس بھیجا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں 25 مارچ سے 30 مئی تک ملک گیر لاک ڈاؤن سب سے سخت رہا اور اس دوران کورونا وائرس کے کیس تیزی سے بڑھے۔ رپورٹ میں کہاگیا پالیسی سازوں نے واضح طور پر عام انتظامی افسرشاہوں پر اعتماد کیا۔پبلک ہیلتھ، احتیاطی ادویات اور سماجی سائنسدانوں کے علاقے میں سائنسدانوں کے ساتھ بات چیت محدود رہی۔اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان انسانی بحران اور بیماری کے پھیلنے کے لحاظ سے بڑی قیمت ادا کررہا ہے۔ماہرین نے پبلک ہیلتھ اور انسانی بحرانوں سے نمٹنے کے لئے مرکز، ریاست اور ضلع سطح پر پبلک ہیلتھ اور احتیاطی صحت کے ماہر اور سماجی سائنسدانوں کی ایک کمیٹی قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔
جدید عہد کے ہندوستان میں مہاماری کے موضوع پر ہماری جانکاری نسبتا بہت کم ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری نصابی کتابوں میں ہی نہیں ، بلکہ ایم اے تک کے کورسز میں بھی ہماری بہترین یونیورسٹیوں کے شعبۂ تاریخ میں بھی ، شاید ہی کچھ پڑھا یا جاتا ہے۔ میری محدود جانکاری کے مطابق ایسے موضوع پر تحقیق بھی بہت کم ہوئی ہے۔ جو تحقیقیں ہوئی ہیں وہ اکیڈمک حلقے سے باہر پاپولر حلقے تک پہنچائی نہیں گئی ہیں1896-97، 1918-20، اور 2019-20 کی مہاماریوں میں حکومت اور خواص کے رویوں میں ایک افسوس ناک مماثلت ہے۔
اب یہ واضح ہو جاناچاہئے کہ تعلیم اور نصاب اور درس کے موضوع اور مواد کو طے کرنے کی بھی اپنی سیاست ہوتی ہے۔ ہم ایک بڑا سچ عوام سے چھپانے کا جرم کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی یعنی انٹرنیشنل مسافرت کرنے والا طبقہ یعنی تاجر (بیوپاری)، افسر، فوج، یہ تین طرح کے خواص یعنی elite لوگ یہ بیماری ہندوستان لائے اور اسے پھیلایا، لیکن 1897 میں بھی بمبئ کے مارواڑی اور دیگر تاجروں نے ایسی رائے عامہ بنوا دی تھی کہ جیسے slum اور ghetto میں رہنے والے لوگ ہی بیماری لا رہے ہیں اور پھیلا رہے ہیں۔ پولیس کا repression اور surveillance بھی انہی غریبوں کے خلاف تھا۔ یعنی جو کمزور تھے، اقتدار سے باہر تھے ، انہی پر اس بیماری کی ذمہ داری ڈالے جانے کی گندی سیاست اس وقت بھی ہو رہی تھی۔ آج 2020 میں بھی quarantine اور سفر کے انتظام، دونوں محاذ پر ہم نے طبقاتی تفریق و امتیاز یعنی class based discrimination سے کام لیا ہے۔ اور پوری بے حیائی کے ساتھ لیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی جدید تاریخ میں مہاماریوں کے بارے میں چپی کتنی زیادہ ہے، اور کیوں ہے؟
کچھ ہفتے قبل میں نے اپنے ایک دوست دھروب کمار سنگھ سے رابطہ کیا۔ وہ جے این یو سے فارغ ہیں اور اب بی ایچ یو کے شعبۂ تاریخ میں استاد ہیں، اور ہیلتھ اینڈ میڈیسن کی ہسٹری پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان سے گفتگو میں جانکاری ملی کہ مریدولا رمننا Mridula Ramanna نام کی محقق نے ایک تاریخی مطالعہ شائع کیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس کتاب کو حاصل نہیں کر پایا۔ ان کا تحقیقی مضمون (2003) ہے، جو کسی اینتھولوجی میں شامل ہے:
The Spanish Influenza Pandemic of 1918-19: The Bombay Experience.
میرا دوسرا source ہے دربھنگہ مہاراج لکچھمیشور سنگھ کی لیجسلیٹو کونسل ، کلکتہ میں وہ تقریر جو انہوں نے 1897 میں بنائے جانے والے مہاماری قانون کے بل پر بحث کے دوران کی تھی۔
اس مہاماری کا ہماری تاریخ کی کتابوں میں جو ذکر آتا ہے اس میں انسانیت کو در پیش پریشانی کی تفصیلات کے بجائے چاپیکر بھائیوں نے پلیگ کمشنر کا جو قتل کیا اور اس قتل کے لئے بال گنگا دھر تلک کی صحافت اور تقریر کو قتل کے لئے اکسانے والی حرکت مانا گیا تھا اور پھر ان پر دیش دروہ کا مقدمہ چلایا گیا، ان سب کا ذکر ہوتا ہے۔ اسی میں sedition ایکٹ 1870 کے سیکشن 124 A کا استعمال بھی تلک کے خلاف کیا گیا تھا۔
یعنی ایک طرح کا jingoism تاریخ میں دکھایا جاتا ہے،جس میں مہاماری کی human ٹریجڈی کے بجائے ہم ایک خاص طرح کے "نیشنلزم” کی ہی بات کرتے ہیں۔ یعنی عام لوگوں کی بڑی پریشانی سے منہ موڑنے والی نیشنلزم، اور اسی رویے کو مضبوط کرنے والی تاریخ نویسی کے جرم کے مرتکب ہیں ہم لوگ۔ اگر "جرم” ایک سخت لفظ ہے تو پھر دوسرے لفظ "کوتاہی” کا استعمال کیا جائے۔ جس "نیشنلزم” میں لوگوں کا بڑا حصہ بد دیانتی سے الگ رکھا جائے، اسے نیشنلزم کیوں کہا جائے؟
ستمبر 1896 میں بمبئ میں پلیگ کے پہلے مریض کا پتہ چلا اور فروری 1897 تک کئی لاکھ لوگ ہجرت کر چکے تھے۔ جوشاید اس وقت کے بمبئ کی آدھی آبادی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری ہانگ کانگ اور چین سے آئی تھی۔ تقریباً دو ہزار لوگ ہر ہفتے بمبئی میں موت کی زد میں آ رہے تھے۔ حکومت پریشان ہو چکی تھی اور اپنا سارا زور اس پر لگا رہی تھی کہ یہ بیماری کلکتہ نہ پہنچ جائے۔ لیکن مجموعی طور پر یا تو تاریخی دستاویز ہی بہت کم ہیں یا ان کا استعمال کر کے اب تک تاریخ لکھی نہیں گئی ہےکہ آخر کتنے لوگوں کو ہجرت کرنا پڑا، کتنے لوگ دوران سفر موت کے شکار ہوئے؟ اتنا تو طے ہے کہ جتنا دستاویزوں میں درج ہوگا اس سے کئی گنا زیادہ موتیں ہوئی ہونگی۔ یہ بات ہسٹوریکل کامن سینس سے بہ آسانی وثوق سے کہی جا سکتی ہے۔
سنہ 1897 میں جو قانون پاس کیاگیا، اس میں زیادہ توجہ اس بات پر تھی کہ مستقبل میں ایسی مہاماری کو آنے سے کیسے روکا جائے۔ بلکہ کہاجاتا ہے کہ اس پہلو پر بھی دربھنگہ مہاراج نے کلکتہ یونیورسٹی کو کچھ ہزار روپئے کا endowment دیا تھا کہ اس کی ویکسین یا علاج کی تحقیق کے لئے کچھ کام کیا جائے۔ اس سلسلے میں تاریخ نویسوں نے ان پہلوؤں کو اجاگر اور مقبول کرانے کا کام خاطر خواہ طور پر نہیں کیا ہے۔ آج 2020 میں کیا بڑے بزنس گھرانے میں سے کسی نے ایسی پہل کی ہے؟ (صرف خواجہ عبدالحمید کی قائم کردہ کمپنی CIPLA کو چھوڑ کر،جو یوں بھی سستی اور اچھی دوائیاں بنانے کے لئے مشہور ہے)۔فی الوقت اس وبا کے لئے کیا کیا جائے اس پر شاید ہی کوئی توجہ تھی۔
پولیس کا گھروں میں جبرا داخل ہونا اور عورتوں سے بد سلوکی کرنے جیسی باتیں بھی خوب آئیں جس کے خلاف بال گنگا دھر تلک کا تقریری و تحریری احتجاج ہوا اور چا پیکر برادران نے انگریز افسروں کا قتل کیا۔
اس پس منظر میں، اور کچھ حد تک، ان کے نتیجے کے طور پر، تشدد پسندی، دائیں محاذ کی سیاسی روش ، وغیرہ کو بھی فروغ ملا، جس پر کبھی اور گفتگو کی جائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ 1918 کی مبینہ اسپینش فلُو یا مہاماری میں بر صغیر ہند یعنی انڈین سب کانٹینینٹ میں تقریباً دو کروڑ لوگ مر گئے تھے۔
وہ ، یعنی Ramanna Mridula کہتی ہیں کہ جون کی 19 تاریخ کو سال 1918 میں سات پولس والوں میں یہ بیماری بمبئی، ہندوستان میں پہلی بار detect ہوئی تھی۔ ستمبر سے یہ بری طرح پھیلنا شروع ہوگئی۔ قلتِ تغذیہ کے شکار (malnourished कुपोषित)بچے اور عورتیں زیادہ تعداد میں موت کا شکار ہوئیں۔ گاندھی جی بھی گجرات میں بیمار ہو گئے تھے۔ سوریہ کانت تریپاٹھی نرالا کے پریوار کے کئی لوگ مر گئے تھے۔ شاید پریم چند بھی انفکٹ (infect) ہو گئے تھے۔ اس کی جانکاری ہندی ادب پڑھنے والوں کو خوب ہے، اس لئے اس پر مزید تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
1918 میں تو اینٹی بایوٹک دوائیں بھی ایجاد نہیں ہوئی تھیں ـ Ramann (2003) اور ڈیوڈ آرنلڈ (2019) اپنے اپنے تحقیقی مضامین میں یہ بتاتے ہیں کہ:
برٹش حکومت نے صرف یہ کیا کہ وہ متاثرین کی تعداد گننے اور اس کا ریکارڈ رکھنے پر زور دیا۔ لوگوں کو کھلے میں سونے اور رہنے کا مشورہ دینا شروع کیا۔ حکومت محض مشورے دیتی رہی جن کے لئے وہ "میمورنڈم ” جاری کرتی تھی۔ اسے اب 2020 کے بھارت میں "نوٹیفیکیشن” کہتے ہیں۔ جس کی تعداد ابھی صرف دو مہینے کے اندر چار ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ صرف ان نو ٹیفیکییشنز کو ہی غور سے پڑھ لیا جائے تو contradictions, Confusions اور policy paralysis کا اندازہ ہو جائےگا۔ ان حالات میں بھی سرکاروں نے پرو ڈیموکریسی ایکٹیو سٹس کی گرفتاری میں اپریل مئی 2020 میں بھی ہانگ کانگ سے لے کر بھارت تک بہت तत्पर्ता دکھائی ۔ بلکہ ہانگ کانگ سے لے کر ہندوستان تک، ان گرفتاریوں کی غیر جانب دارانہ تفصیلی رپورٹوں کے لئے بھی ہمیں دی گارجین، نیو یارک ٹائمس جیسے اخباروں اور دیگر مخصوص پورٹلوں پر منحصر ہونا پڑا ہے۔
یعنی ان سو سالوں (ایک صدی) میں بھی ہم زیادہ بدلے نہیں ہیں۔ تو پھر اس شاعر کا کیا کریں جس نے کہہ ڈالا کہ:
ثبات بس ایک تغیر کو ہے زمانے میں!
برٹش افسران نے تو ہل اسٹیشنوں میں آرام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور وہیں سے طرح طرح کے تعصب اور حقارت بھرے بیان دیتے تھے کہ ہندوستانی ایسے ہوتے ہیں اور ویسے ہوتے ہیں۔ اور ہل اسٹیشنوں میں افسروں اور حکمرانوں کا سنکٹ کے زمانے میں چلے جانا ایک عام بات ہے۔ 1946-47 کے فسادات کے وقت بہار کے گورنر، رانچی سے ہوتے ہوئے شملہ چلے گئے تھے۔
حکومت نے 1918 میں شہروں میں، سینما گھروں، اسکولوں، کالجوں کو بند کروا دیا تھا۔ لوگوں کو فٹ اور ہیلدی fit and healthy رہنے کے مشورے اور نصیحتیں دیتی رہی تھی۔ فیس ماسک اور اسپرے کے مشورے بھی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ 1918 کے بھارت میں کتنے لوگ اور کون سا اسپرے کرتے اور کہاں سے حاصل کرتے؟
اس زمانے میں ٹائمس آف انڈیا اور کچھ مقامی اخبارات نے حکومت سے تھوڑے بہت سوالات اٹھائے تھے کہ آخر حکومت بھی کچھ فراہم کرے گے، دستیاب کروائے گی یا محض مشوروں اور نصیحتوں سے ہی لوگوں کو بہلاتی رہےگی؟ لیکن آج کے مقبول ہندی ٹی وی نیوز چینلوں کی طرح ہی، اس وقت بھی، پریس نے بہت زیادہ سوالات حکومت سے نہیں کئے تھے۔ اس طرح اس نہج پر بھی ہم لوگ زیادہ نہیں بدل پائے ہیں۔
حکومت لاکھوں روپئے خرچ کرنے کا دعوی کر رہی تھی لیکن لوگوں تک وہ رقم پہنچ نہیں رہی تھی ۔ لوگوں تک پہنچانے کیلئے تو شاید وہ رقم تھی بھی نہیں۔ ایسی رقم تو سرکاری دلالوں کی جیبیں بھرنے کے لئے ہوا کرتی ہیں۔ اور وہ مہا سنکٹ ہی کیسا جو چند مقتدر لوگوں کے لئے موقع یا अवसर نہ بن پائے!
پالیسی سازی یعنی नीति निर्धारण کی سطح پر کنفیوزن اور inconsistency تھی۔ دو اعلی افسران ، ٹرنر اور ہچنسن کے درمیان شدید اختلاف اور بحث محض اس بات پر ہوتی رہی تھی کہ کیا یہ پتہ کیا جائے کہ مہاماری کی شروعات کہاں سے ہوئی؟
اس وقت 2020 میں بھی ہم ایسا ہی دیکھ رہے ہیں کہ کس ملک یا کس مذہب کے لوگوں پر اس مہاماری کی ذمہ داری ڈال دی جائے کہ سماج اپنی حکومت سے کوئی سوال ہی نہ پوچھے۔
بیجاپور کے جیلر نے 1918 میں infected قیدیوں کو رہا کرنا چاہا تھا لیکن برٹش حکومت کی جانب سے کوئی واضح ہدایت نہ مل پائی۔ بمبئی اور کراچی میں تین ماہ تک سنیما گھر بند رہے۔ کاروبار کو بند کرنے سے معیشت تباہ ہوئی، لیکن میری محدود جانکاری کے مطابق اس کا بھی جامع یعنی یا comprehensive مطالعہ ہمارے ایکونومسٹ نے بھی ایسا نہیں کیا ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ اس کو پڑھ کر اپنی معلومات اور احساسات میں اضافہ کر پائیں۔
جب روایتی طریقۂ علاج یعنی آیوروید اور یونانی کی اجازت مرکزی حکومت نے دے دی تو صوبائی حکومتوں نے بمبئی میڈیکل ایکٹ 1912 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت صرف ایلوپیتھی ہی چل پائے گا۔ اور اس طرح مریض بے توجہی کا شکار ہوتے رہے تھے۔
رضاکار تنظیمیں یعنی والنٹیری آرگینائیزیشن ہی زیادہ خدمات انجام دے پا رہی تھیں۔ ذات اور مذہب کی بنیادوں پہ بنی فلاحی تنظیمیں زیادہ امداد رسانی کر پا رہی تھیں۔
یعنی ایک صدی بعد بھی ہماری کوتاہیاں وہیں کی وہیں کھڑی ہیں۔ ہم نے ہیلتھ سسٹم کو عام لوگوں کے علاج کے لئے مضبوط نہیں کیا ہے۔ امریکہ سے لے کر ہندوستان تک سرکاری اسپتالوں کو تہس نہس کر دیا گیا ہے۔ بھارت میں جس صوبے میں پبلک ہیلتھ نسبتا بہتر ہے وہاں اس بحران یا سنکٹ سے لڑنا کم مشکل رہا ہے۔
چومسکی اور ہراری نے حال کے اپنے مضامین اور کالموں میں یہ واضح کر دیا ہے کہ سائنسی تحقیق اور فارما سیوٹیکل لا ببیاں صرف دل اور دوسری بیماریوں کے لئے دوائیاں بنا کر خوب مہنگی قیمتوں پر بیچنے میں مصروف رہیں۔ میڈیکل سائنس کی تحقیقات میں مہاماری جیسے مسائل کے تئیں توجہ نہیں دی گئی۔ صرف سرمایہ دارانہ لوٹ جاری رکھا گیا۔ ہم نے انہی لوٹنے والوں کی حمایت کرنے والے اور ان کے ہاتھوں بک چکے لوگوں کو اپنا قانون ساز ممبر چنا اور مذہب اور ذات پر مبنی نفرت کو ہی اہم ترین خوراک سمجھ کر اس نفرت کو ہی کھاتے ، پیتے اور اگلتے رہے۔ اور انسانیت سسسکتی رہی۔
ہمیں سماج کےطور پر اس سیاست کو سمجھناچاہئے اور شدت سے اجاگر کرنا چاہئے کہ پولیو اور مہاماری کی ذمہ داریاں سرکاروں اور یو این او کے ڈبلیو ایچ او پر رہتی ہے اور مریضوں سے دولت لوٹنے والی بیماریوں مثلا دل، گردہ، کینسر، پھیپھڑا وغیرہ کے لئے دوا بنانے والی کمپنیوں اور ڈاکٹروں اور کارپوریٹ ہسپتالوں کو امیر بنانے اور لوٹ مچانے کی آزادی ملی رہتی ہے۔ اسٹینٹ (stent) اور اینجیو پلاسٹی (angioplasty) کی قیمت تو ایک عظیم لوٹ کھسوٹ ہے،ایک مہا گھوٹالہ ہے۔!
اس سرمایہ دارانہ سازش کے خلاف مضبوط عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔
اسی مہاماری کے درمیان حکومت اپنا repression جاری رکھتی رہی۔ رولٹ ایکٹ، اور جلیان والا باغ کا قتل عام ، اسی درمیان ہوتا رہا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے 2020 میں اسی مہاماری کے دوران فسادات اورpro democracy پرو ڈیموکریسی کارکن ، طلبا اور دانشوروں کی گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔
کیا ہم اب آگے عوامی تحریک برائے بہتر طبی سہولیات دیکھیں گے یا صرف فرقہ پرست نفرت میں ہی ڈوبے رہیں گے؟
ہمارے تاریخ نویس اور کہانی اور ناول اور آپ بیتی لکھنے والے تخلیق کار ادیب اور ناقد اور آلوچک بھی ان ٹریجڈیز پر کتنی توجہ دیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن سر دست ہمارے پاس اس کا تاریخی مطالعہ بہت ہی کم ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ”قرنطینہ” نرالا کی کچھ تحریریں، بالخصوص ان کی آپ بیتی کے علاوہ ہمارے پاس زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بیدی تو معروف کہانی لکھنے والوں میں ہیں، انہیں بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے، لیکن ان کا یہ افسانہ اب تک اتنی اہمیت کا حامل نہیں تھا، اس پر نصابوں میں، یا ناقدین نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔
آپ بیتیوں اور رپورتاژ قسم کی تحریروں میں بھی لگتا ہے کہ ان موضوعات پر زیادہ کچھ دستیاب نہیں ہے، یا جو کچھ بھی دستیاب ہے اس پر عوام کی توجہ نسبتا بہت ہی کم ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی "شہاب نامہ "میں بھی پلیگ کا ذکر ہے ، لیکن ایک دوسرے انداز میں ہے۔
دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں تاریخی تحقیق کے تعلق سے بھی جو کچھ کیا گیا ہے، بعض جانکاروں کا ماننا ہے کہ وہ بہت ہی ناکافی ہے۔ فرانسیسی اور انگریزی ادب میں بھی مہاماریوں کا موضوع شاید بہت زیادہ توجہ نہیں پایا ہے۔ کا مو کے ناول "پلیگ” کو بھی نصابوں میں کتنی جگہ اور توجہ ملی ہے اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
John M Barry کی 2006 میں شائع کتاب "دی گریٹ انفلوئنزا” بتاتی ہے کہ 1918 کی مہاماری کے بارے میں تحریری کے بجائے لوگوں کے حافظے میں زیادہ مواد محفوظ ہیں۔ امریکی سیاست دانوں اور حکمرانوں نے اس سے انکار اور اس کو چھپانے کا ہی رویہ رکھا۔ جبکہ یہ وہیں کنساس کی بحری فوج سے شروع ہوا تھا۔ اس کا نام اسپینش فلُو محض اس لئے ہو گیا کہ امریکہ کے بجائے اسپین حکومت نے اس وبا کے آنےکا اعلان کیا ۔ بیری کہتے ہیں کہ سچائی کو عام کرنا ہی پہلی شرط ہے، ایسے سنکٹ سے لڑنے کا۔ اور یہ ہے کہ حکومت میں بیٹھے لوگوں کو عوام کا اعتماد اور وشو اس حاصل رہے، یہ بھی اہم شرط ہے۔
"The final lesson of 1918, a simple one yet one most difficult to execute, is that…those in authority must retain the public’s trust. The way to do that is to distort nothing, to put the best face on nothing, to try to manipulate no one. Lincoln said that first, and best. A leader must make whatever horror exists concrete. Only then will people be able to break it apart.”
امیت کپور کی کتاب riding the tiger میں بھی 1918 کے بعد آنے والی اقتصادی مندی کا تھوڑا ذکر ہے۔ بھارت میں قحط بنگال سے بھی زیادہ موتیں اس مہاماری سے ہوئیں تھیں۔ مہنگائی کافی بڑھ گئی اور جی ڈی پی minus 11 ہو گئی۔ تقریباً دو سال تک یہ وبا ہندوستان میں موجود رہی۔ تاریخ نویس ہی نہیں economists بھی شاید اس موضوع پر خاص توجہ نہیں دیتے ہیں۔
جس طرح 2020 میں ہماری مرکزی حکومت نے صوبائی حکومتوں سے شروع میں کوئی مشورہ نہیں کیا، یہاں تک کہ خود کیبینٹ کی میٹنگیں تک نہیں بلائیں، اسی طرح 1896 میں بھی کلکتہ کی میونسپلٹی سے تو برٹش حکومت نے کوئی مشورہ ہی نہیں کیا تھا، جس پر دربھنگہ مہاراج لکچھمیشور سنگھ نے کونسل کے اندر سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر افسران نرمی اور محبت سے لوگوں کا تعاون مانگیں گے تبھی حمایت ملے گی۔ high handed طریقہ کام نہیں آۓ گا۔ لیکن این رینڈ کا اور آئرسٹ کا قتل ہوا۔ اسی شدت پسندی سے تعلق ہے تشدد پسند سیاست کا بھی۔ مہاراشٹر سے یہ سیاست چل کر ملک میں پھیلی اور بال گنگا دھر تلک کا رول بھی اس میں جو کچھ تھا اور اس سے ہندو مسلم تعلقات پر جو اثرات پڑے اس پر بغیر تفصیل کے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ہم لوگوں کو ان واقعات کا از سر نو مطالعہ کر کے ملک میں امن اور ترقی کے لئے کچھ سبق سیکھنا چاہئے۔
تاریخ داں ڈیوڈ آرنلڈ David Arnold نے اپنے ایک حال ہی میں شائع مضمون Death and the Modern Empire میں یہ انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں اتنی آبادی موت کا شکار نہیں ہوئی تھی جتنی ہندوستان میں ہوئی تھی۔ سرکاری دستاویز، اخبارات اور یہاں تک کہ نجی تحریروں، مکتوبات و آپ بیتی میں بھی بہت کم ذکر ہے۔ کھانے کی کمی اور بڑھتی مہنگائی اور معیشت یعنی ایکونومی کی ٹوٹی کمر نے ہندوستان میں قحط کا ماحول بنا دیا تھا۔ آرنلڈ کے مطابق ہندوستانی عوام بیماری کے بجائے بھوک اور مہنگائی کی وجہ سے حکومت سے زیادہ ناراض رہی تھی۔
یہاں تک کہ اس زمانے کی تعزیتی تحریروں میں بھی اس زمانے کے ماحول کی تفصیلات اور عکاسی ایسی نہیں ہے کہ وہ تاریخ نویسی میں معاون یا مددگار ثابت ہو سکے۔
حکومت نے اپنے افسران کے ذریعہ زیادہ ذمہ داری عوام پر ہی ڈالنا شروع کر دیا تھا کہ ہندوستانی معاشرے میں رویہ ہی غیر ذمہ دارانہ ہے۔
لکھنے والوں نے بھی سرکار، سائنس اور معاشرے کے بارے میں کچھ زیادہ ایسا نہیں کہا ہے جس سے اس وقت کے فورا بعد یا آج بہت سبق سیکھا جا سکے۔ آرنلڈ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے لئے یہ ایک فراموش کردہ مہا ماری ہی ہے۔
ہمارے آج کے معاشرے میں جس قدر anti- intellectual ماحول بنا دیا گیا ہے، ایسے میں ادب، صحافت، تاریخ نویس، ایکونومسٹ ، ہیلتھ سائنسداں سبھی کو ایسے مسائل پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ اور معاشرے کا اعتماد ان طبقوں میں بحال کیا جانا چاہیے۔ جدید ہندوستان کی ان تینوں مہاماریوں کی تاریخ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
کورونا وائرس کے خلاف جنگ لمبی ہے،لیکن ہم کامیابی کی راہ پر چل پڑے ہیں:پی ایم مودی
نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی حکومت کے دوسرے دور اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر ہم وطنوں کے نام ہفتہ کو ایک کھلا خط لکھا۔اس میں انہوں نے کورونا کے خلاف جنگ میں ہم وطنوں سے آنے والے دنوں میں بھی صبر و تحمل برقرار رکھنے کا اعلان کیا اور کہا کہ کورونا وائرس کے خلاف لمبی جنگ میں فتح کے لئے حکومت کے ہرہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے ورنہ عوامی زندگی ہو رہی پریشانی، زندگی پر آفت کی شکل میں بدل سکتی ہے۔غور طلب ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے دوسری مدت کے لئے 30 مئی 2019 کو حلف لیا تھا۔ مودی نے کورونا کی وجہ سے نافذ ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران مہاجر مزدوروں، کاریگروں، چھوٹے صنعتوں، خریداروں، ریہڑی پٹری پر ٹھیلا لگانے والوں کو ہوئی مشکلات کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کی پریشانیاں دور کرنے کے لئے سبھی لوگ مل کر کوشش کر رہے ہیں۔کورونا وائرس سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ زندگی میں ہو رہی تکلیف، زندگی پر آفت کی شکل میں نہ بدل جائے۔اس کے لئے ہر ہندوستانی کے لئے حکومت کی ہدایات پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔جیسے ابھی تک ہم نے صبر و تحمل کو برقرار رکھا ہے، ویسے ہی اسے آگے بھی برقرار رکھنا ہے۔کورونا کے خلاف جنگ میں یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ ہندوستان آج دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہتر صورتحال میں ہے۔یہ جنگ طویل ہے لیکن ہم فتح کی راہ پر چل پڑے ہیں اور فاتح ہونا ہم سب کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہوگا۔
نائب وزیر اعلی نے بتایااموات کی تعداد میں اضافے کی وجہ
نئی دہلی:گزشتہ دو دنوں میں ملک کی دارالحکومت دہلی میں کورونا وائرس کے معاملات میں ایک بڑی تعداد درج کی گئی ہے۔ دہلی میں لگاتار دوسرے دن بھی کورونا کے 1000 سے زائد نئے معاملے رپورٹ ہوئے۔ گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 1106 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور ملک کی دارالحکومت میں کورونا کے معاملوں کی تعداد 17 ہزار (17386) کو عبور کرچکی ہے۔ دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسوڈیا اور وزیر صحت ستیندر جین نے ملک کی دارالحکومت میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کی وجہ سے بڑھتے ہوئے خوف کے درمیان ایک پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر سسودیا نے کہا کہ کورونا وائرس کے بارے میں فکر کرنے کے بجائے محتاط رہ کر ضروری احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس موقع پر نہ گھبرانے کا مشورہ بھی دیا۔جمعرات کو کورونا کی وجہ سے 13 اموات ہوئیں۔ 69 اموات کے معاملات پرانے تھے، جن میں 82 اموات ریکارڈ میں آچکی ہیں۔ گزشتہ34 دنوں میں 69 اموات ہوئیں جن میں 52 صفدرجنگ سے تھیں۔دہلی میں کورونا کی وجہ سے مجموعی طور پر 398 اموات ہوئیں۔ ہلاکتوں کے معاملات کی دیر سے اطلاع دینا بھی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک وجہ ہے۔ سسودیا نے اعتراف کیا کہ کورونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن 50فیصد مریض بھی ٹھیک ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 80-90فیصد لوگ ہوم کووارنٹین سے صحت یاب ہو رہے ہیں، انہوں نے لوگوں کو کورونا کی وجہ سے نہ گھبرانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہلکی علامات میں ڈاکٹر سے ملنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ صفدرجنگ اسپتال میں 52 اموات کی اطلاعات ہیں، ان اموات کی تعداد کو آج کے ہیلتھ بلیٹن میں شامل کیا گیا ہے۔وزیر صحت ستیندر جین نے کہا کہ دہلی میں 17386 معاملات ہیں جن میں سے 1106 نئے کیس ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ24 گھنٹوں کے دوران 351 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر 7846 افراد ٹھیک ہوچکے ہیں۔ طبی سہولیات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس 5000 بیڈز ہیں، اس میں 3700 سرکاری بیڈز ہیں، 1300 پرائیویٹ اسپتال ہیں۔
طب کا تعلق تجربی علوم سے ہےـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے کے معروف طبی معالجات کو استعمال کرتے تھےـ آپ پر نازل ہونے والی کتاب، کتابِ ہدایت ہے، کتابِ طب نہیں ـ اگر آپ نے کسی بیماری کے لئے سنا مکی، کلونجی اور اس نوعیت کی کوئی اور دوائی استعمال کی تو اس کی وجہ عرب سماج میں اس دوائی کے استعمال کا چلن تھاـ یقیناً اس کے پیچھے صدیوں کے انسانی تجربات تھے لیکن ان کا تعلق وحی سے نہیں تھاـ سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بطور ہادی مبعوث کیا گیا تھا بطور طبیب اور ڈاکٹر نہیں، صحت کے حوالے سے جن امور کی بہت اہمیت تھی آپ نے انہیں بطور شریعت متعارف کروا دیا مثلاً اعضائے وضو کا دھونا یاغسل کرنا، بدن اور لباس کو نجاست (گندگی) سے پاک رکھنا وغیرہ ـ دیگر امور میں آپ اپنے دور کے تجربات کو زیر استعمال لاتے تھے، اس دور میں ہائی بلڈ پریشر کا علاج حجامہ سے کیا جاتا تھا آپ نے اسی کو استعمال فرمایا، کسی دوسرے کو بھی بتایا ہوگا تو متداول علاج کے طور پر نہ کہ پیغمبرانہ حیثیت سےـ تجربی سائنس کے بارے میں آپ کا ارشاد
"انتم اعلم بأمور دنیا کم”ـ تم اپنے دنیوی امور مجھ سے بہتر جانتے ہو
ایک ابدی حقیقت اور تجربی علوم میں ترقی کی مہمیز ہےـ حجامہ میں لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے کہ خون گندا ہو جاتا ہے اور حجامہ سے گندا خون نکل جاتا ہے حالانکہ طبی طور پر یہ محض غلط ہے، اگر خون میں کوئی ایسی چیز ہے جو مضر ہے تو وہ سارے خون میں ہوگی، دراصل ایک جگہ کپ لگا کر وہاں خون روک کر اسے آکسیجن سے محروم کر دیا جاتا ہے نتیجتاً وہ گاڑھا اور سیاہ ہو جاتا ہے اور چند احمق اپنے ایسے بے وقوفوں کو باور کراتے ہیں کہ یہ دیکھوگندا خون ـ کسی کو خون کا دباؤ بڑھ جائے تو بلڈ بنک میں جاکر خون عطیہ کردیں، جس سے کسی کو زندگی مل سکے گی، ہاں اگر تجربی طب حجامہ کو کسی بیماری کا علاج قرار دیتی ہے تو اسے طبی تحقیق کے طور پر فروخت کریں، سنت کا نام نہ بیچیں، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اسلامی شہد کون سا شہد ہوتا ہے؟ کیا یہ اسلام کے نام کو فروخت کرنے کا گھناؤنا جرم نہیں ہے؟
کرونا ایک فلو ہےـ فطری طور پر گرم اثرات رکھنے والی ادویہ کلونجی، ادرک، سنا مکی اور بھاپ لینا اس میں مفید ہے، لیکن جس طرح یو کے کے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر سنا مکی کو پروموٹ کر رہے تھے اور کرونا کے ایک پاکستانی مریض اپنی وڈیو میں ان تجربات کو غلط قرار دے رہے تھے اس سارے بیان کو تجربات کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی علاج کو نبوی سند دے کر پیش کرنا لوگوں کے ایمان کو آزمائش میں ڈالنا ہےـ
اس عمل کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منسوب ہر ہر شے کو جنس بازار بنا دیا ہےـ نیز جب اس دور کے کچھ معالجات کو طبِ نبوی کے طور پر مقدس قرار دے کر جزوِ ایمان بنالیا گیا اور میڈیکل سائنس نے اسےغلط قرار دے دیا تو کیا آپ کے دور کے طبی معمولات کو درست ماننا ایمان کا تقاضا ہوگا؟ اس طرح ہم ایک ہادی اور شارع کو طبیب کی معمولی سطح پر لا کر توہین کے مرتکب نہیں ہونگے؟
کیا معیار ایمان کی نئی تعبیر نہیں کرنا پڑے گی؟لوگ یوں طب سے متعلق احادیث بیان کرتے ہیں جیسے اللہ نے آپ ﷺ کو ہادی کے بجائے بطور طبیب مبعوث کیا ہو ۔ طبی اور تجرباتی احادیث بیان کرنا ہرگز دانش مندی نہیں ہے کیونکہ ان امور کا تعلق تجربات، مزاج اور موسم کے اختلاف نیز بیماری کی نوعیت وغیرہ بے شمار امور سے ہوتا ہے اور اگر کسی ایسی دوا سے جو ہم نے کسی کو طب نبوی کی روشنی میں بتائی ہو، کسی کو نقصان ہو جائے تو اس کا صداقت نبوی پر سے ایمان متزلزل ہو جائے گا اور ہم اس کا سبب بنیں گے ۔اس سلسلے کی سب سے بڑی صداقت یہ ارشاد نبوی ہے: یہ دنیوی امور ہیں اور تم خود انہیں بہتر جانتے ہوـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
جمنوں کو بھی خوش ہونے کے لئے کوئی معقول وجہ نہیں چاہیے۔کوئی مودی کو گالی دے جمن خوش۔ یہ ایک نفسیاتی مرض ہے کہ آپ جس کو نہیں چاہتے اسے وقتی طور پر کوئی دوسرا بھی پسند نہ کرے تو اسے آپ اپنے لئے حصولیابی سمجھیں۔ پورے ملک میں کورونا وائرس کا قہر برپا ہے حکومت کی جانب سے اس سے لڑنے کے لئے بہت کچھ نہیں کیا گیا ہاں مہیا حفاظتی تدابیر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا۔ لیکن اس میں بھی دور اندیشی کی اتنی کمی تھی کہ خاص و عام محسوس کر رہا ہے کہ یہ حکومت کی طرف سے زیادتی تھی کہ مکمل لاک ڈاؤن سے پہلے صرف چار گھنٹے کا وقت دیا گیا جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ کم از کم پانچ سات روز کا وقت دیا جاتا روٹین شیڈیولڈ ٹرین کے علاوہ اضافی اسپیشل ٹرینیں بھی چلائی جاتیں تاکہ اس محدود وقفہ میں جن لوگوں کو جہاں جانا ہے وہ چلے جاتے۔ ایسا نہیں کرنے کی وجہ سے ہی ہندوستان میں تارکین وطن مزدوروں، طلبا اور ملازمین کا نہ صرف انسانی بحران پیدا ہوا بلکہ وبا پھیلنے کے بعد بڑے شہروں سے مزدوروں کا اپنے آبائی وطن لوٹنے کی وجہ سے ان ریاستوں میں کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ اور حلقۂ اثر میں توسیع ہو رہی ہے۔ حالانکہ لاک ڈاؤن سے متاثر تارکین وطن کے لیے رہنے اور کھانے کا مناسب انتظام کرکے ایک ذمہ دار حساس اور غریب دوست حکومت کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ یومیہ مزدوروں کی اتنی بڑی ہجرت کو روک لے اور معیشت پر منڈلاتے کالے بادل کی تاثیر کو کم کر لے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور نتیجتاً بڑے شہروں میں پچھلے تقریباً دو ماہ سے بغیر کام اور بغیر اجرت کے لوگوں کا تحمل جواب دے دیا تو انہوں نے پیدل ہی اپنے گھروں کو لوٹنے کا فیصلہ کیا مگر ایسے سنگین نتائج والے فیصلے پر بھی حکومت نے نہ صرف بے حسی اور بے مروتی کا ثبوت دیا بلکہ حکومت کے بعض ذمہ داروں نے غیر انسانی رویہ دکھایا۔ بلڈرز کے کہنے پر ٹرین کینسل کردیا، سڑکوں پر چلنے پر پولیس نے لاٹھیاں برسائیں اور یہ تاثر دیا کہ یہ آزاد ہندوستان کے آزاد شہری نہیں بندھوا مزدور ہیں جو بحالت مجبوری اپنے گھر واپس جانے کا حق بھی نہیں رکھتے ! ۔ بالفاظ دیگر یہ یو پی، بہار، ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال اور چھتیس گڑھ کے مزدور بلڈرز اور فیکٹری مالکان کے غلام ہیں۔ لیکن بہر حال جب قوتِ برداشت جواب دے گئی اور صبر کا باندھ ٹوٹا تو یہ بدحال مزدور سر پر گٹھری اٹھائے اپنے بیوی بچوں کو لے کر پیدل ہی چل پڑے، تپتی دھوپ میں بوڑھے جوان عورت بچے حاملہ عورتیں اور شیر خواروں کا بے بسی کی حالت میں دردناک سفر کا منظر گرچہ ایجنڈے کے تحت مین اسٹریم میڈیا نے نہیں دیکھایا مگر این ڈی ٹی وی اور دیگر کئی یو ٹیوب چینلز اور نیوز پورٹل کے ذریعے وائرل تصاویر کو دیکھ کر مدراس ہائی کورٹ کے ججز بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ بہت بڑا انسانی المیہ ہے اور وطن لوٹنے والے مزدوروں کی ان تصاویر کو دیکھ کر آنسو روکنا ممکن نہیں ہے۔
لیکن ان تمام کوتاہیوں اور ڈھکے کھلے غیر انسانی سلوک کے باوجود ملک کی اکثریت کے مزاج میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔یہ صرف مسلمان ہیں جو یہ سوچ کر خوش ہو رہے ہیں کہ مودی، بھاجپا اور آر ایس ایس سے مزدوروں کا موہ بھنگ ہو گیا ہے، ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور یہ کہ آنے والے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں عوام بر سر اقتدار پارٹی کو سبق سکھائے گی۔ جن مزدوروں کے پاؤں میں چھالے پڑ گۓ چپلیں ٹوٹ گئیں ان مزدوروں کو جمن مشورہ دے رہے ہیں کہ ان چپلوں کو آنے والے انتخابات کے وقت کے لئے سنبھال کر رکھنا ! جمن ایسی حماقت کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ جمنوں کی یہ خوش خیالی ہے ۔ اکثریت خاص طور پر بھکتوں سے ایسی توقعات رکھنا محض wishful thinking ہے۔ اور آج کی تاریخ میں پڑھے لکھے اور ناخواندہ سب ایک ہی قسم کے بھکت ہیں مودی جی نے ٹرین اور بس کا انتظام نہیں کیا تو کچھ اچھا ہی سوچ کر ایسا کیا ہوگا !
شاید آپ بھول رہے ہیں کہ موجودہ دور حکومت میں ایسے کتنے فیصلے کیے گئے جو بظاہر عوام دوست نہیں تھے لیکن کیا اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی؟ لال سلام والے سڑک پر نکلے، چکا جام کیا؟ اس سے کیا سمجھا سکتا ہے یہی نا کہ اکثریت ان فیصلوں سے خوش ہے۔ اگر یہ نوٹ بندی کسی اور حکومت کے دور میں ہوتی تو کتنے بینک اور اے ٹی ایم جلا دیے جاتے! اس سے یہ معنی اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ نیا ہندوستان ہے جس کی روپ ریکھا جمہوریت نہیں اکثریت کی منشا کے مطابق ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
کورنا وائرس کی مہاماری پوری دنیا میں جاری ہے، اس بیماری سے جوجھنے والے ممالک میں وطن عزیز ’’ہندوستان‘‘ بھی ہے، جو کورونا سے متاثر ہونے میں بعض رپورٹوں کے مطابق بارہویں نمبر پر ہے، ہندوستان میں اس وبا کو شروع ہوئے لگ بھگ چار مہینے ہوگئے ہیں، اِس وقت کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد اسی ہزار (80,000) سے متجاوز ہوچکی ہے، اور اس بیماری سے مرنے والوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے آگے بڑھ گئی ہے، ان سب کے بیچ ملک میں تیسرے مرحلے کا لاک ڈاؤن جاری ہے، بہت جلد چوتھے مرحلے کا لاک ڈاؤن بھی شروع ہوجائے گا، جیسا کہ وزیر اعظم نے اشارہ دیا ہے، اس بیماری اور لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں ملک کی جو حالت بنی ہوئی ہے وہ ناقابل بیان ہے، ’’صحت‘‘ جو انسانی زندگی کا جزو ہے اس بیماری کے چلتے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے، اسی طرح تعلیم، زراعت، ٹیکنیکل اور مذہبی امور بھی ملک میں باعث چیلنج ہیں، لیکن ان سب سے بڑھ کر جو چیلنج ہے وہ بھوک اورغربت کا ہے، لاک ڈاؤن کے چلتے مرکزی حکومت اس چیلنج پر کتنا فکر مند رہی ہے وہ دو دو چار کی طرح واضح ہے، بیماریاں آتی جاتی رہتی ہیں، یہ ایک قدرتی نظام ہے اس نظام میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا، لیکن اس کی بنیاد پر انسانی زندگی کے چلنے والے پہیوں کو اچانک روک دینا یہ انسانیت کے خلاف ہے، وطن عزیز میں لاک ڈاؤن کی شروعات سے ہی مزدوروں اور غریبوں کے مسائل منہ پھاڑے ہوئے تھے، جیسا کہ گجرات اور ممبئی وغیرہ میں ہوا، لیکن ان کو طاقت کے بل بوتے پر دبا دیا گیا، لیکن وقتا فوقتا ان بے چارے غریبوں، مزدوروں اور بے بسوں کی قوت برداشت جواب دیتی رہی اور وہ وقفے وقفے سے جاگتے رہے، بالآخر حکومت کو بھی ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور انھیں اجازت دینی پڑی اور گھر پہنچانے کا بادل ناخواستہ کچھ نہ کچھ انتظام کرنا پڑا۔
حکومت کی طرف سے جاری لاک ڈاؤن کا صاف اور سیدھا مطلب یہ تھا کہ جو جہاں ہے وہیں رک جائے اور اپنے رہنے والے علاقوں سے منتقل نہ ہو، چنانچہ حکومت کی طرف سے جاری گائڈ لائن میں یہ بات بالکل واضح طور پر درج تھی، لیکن وقت گزرتے گزرتے لاک ڈاؤن کے اس مطلب کو کھرچ کر پھینک دیا گیا اور اس مطلب کو لاک ڈاؤن سے باہر کردیا گیاہے!
در اصل لاک ڈاؤن کا یہ مطلب اس لیے بے کار ہوگیا؛ کیونکہ مالداروں اور امیروں کا ایک بڑا طبقہ دوسرے ممالک میں پھنس گیا تھا اور ان کے بچے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں محبوس ہوگئے تھے، مجبوراً حکومت کو اس حکم نامہ میں تبدیلی کرنی پڑی، پھر سرکاری طور پر باقاعدہ کوٹہ سے طلبہ کو لایا گیا، اسی ذیل میں مزدوروں کا غصہ پھر سے پھوٹا اور وہ بے سہارا پیدل گھر جانے پر مجبور ہوئے، بالآخر حکومت کو بھی غریبوں اور مزدوروں کو اپنے گھر جانے کی اجازت دینی پڑی، تب سے مسلسل نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے، لیکن یہ سب کچھ مزدرو طبقہ اپنے بل بوتے پر کررہا ہے، حکومت کا تعاون اس میں شامل حال نہیں ہے۔ اور پھنسے ہوئے افراد کو ان کے گھر گاؤں تک پہنچانے کے سلسلے میں حکومت کا دہرا رویہ بھی بالکل واضح ہے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ غریب مزدور، کیوں اپنے گاؤں محلے اور گھر جانے کے لیے جان کی بازی لگا رہے ہیں، وہ ہر قیمت پر شہر چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور وہ بہر صورت لمبا لمبا فاصلہ پیدل طے کرنے، یا سائیکل گاڑی وغیرہ سے طے کرنے پر بھی بضد ہیں؟؟؟ آخر اس شدت کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟؟
یہ مزدوروں اور غریبوں کی نقل مکانی کیوں ہورہی ہے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے؛ اس لیے کہ جس نے کمانے کے لیے گھر چھوڑ دیا ہے، اپنے گاؤں محلے کو خیرباد کردیا اور شہروں کے اندر روزی روٹی کررہا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ گھر گاؤں محلے میں کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، وہاں سہولتیں نہیں ہیں، پھر بھی وہ کیوں نقل مکانی پر اَڑا ہوا ہے، آخر اس کی کوئی تو وجہ ہوگی؟؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے انھی نقل مکانی کرنے والوں سے پوچھنے کی ضرورت ہے، چنانچہ متعدد نقل مکانی کرنے والے افراد نے جو وجوہات بتائی ہیں یقینا وہ قابل غور ہیں اور موجودہ حکومت کے لے بدنما داغ بھی ہیں، متعدد سفر کرنے والے افراد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم جہاں رہتے ہیں وہاں روزی روٹی کا کوئی بند وبست نہیں ہے، ہم کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی نہیں کرپارہے ہیں، اس کے لیے ہمارے پاس روپیے نہیں ہیں، ایسے ہی بیماری کی صورت میں علاج کا کوئی نظم نہیں ہے، جس مکان میں رہ رہے ہیں اس کا کرایہ بھی دینا ہی ہے، بجلی کا بل الگ سے دینا ہوگا، بچوں کے مسائل الگ سے ہیں، بڑے شہروں میں جہاں ہم مقیم ہیں، ایک چھوٹے سے کمرے میں کئی کئی لوگ رہتے ہیں ایسے میں سماجی فاصلے پر عمل کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ایسی صورت میں شہروں میں رہنا گویا کہ اپنے کو جہنم میں رکھنا ہے، اس سے تو اچھا ہے کہ گھروں کو چلے جائیں، کم از کم رہنے اور کرایے وغیرہ کے مسائل تو نہیں رہیں گے، کہیں نہ کہیں سے کھانے کا انتظام ہوہی جائے گا، وہاں اپنے لوگ ہیں، زندگی گزارنے میں تعاون کریں گے اور اگر مرنے کی باری آئے گی تو کم از کم اپنے گاؤں محلے میں مریں گے، خاندان میں مریں گے، یہاں شہروں میں گھٹ کر اور بھوکے پیاسے جان دینے سے لاکھوں درجہ اچھا ہے۔
یہ عموی وجوہات ہیں جو نقل کی گئیں، اسی لیے نقل مکانی کرنے والوں کو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے، ڈنڈے کھارہے ہیں، گالیاں سن رہے ہیں، بھوک اور پیاس کو برادشت کررہے ہیں، پیدل چلنے میں پاؤں کے چھالے بھی قبول کر رہے ہیں، ایک ایک ٹمپو پر دس دس پندرہ پندرہ لوگ سفر کے لیے تیار ہیں، لیکن اس سب کے باوجود بس ایک ہی دھن ہے کہ کسی طرح گھر پہنچ جائیں، چاہے کچھ بھی ہوجائے، اگر سرکاری طور پر اجازت مل جائے تو بہت اچھا، ورنہ ذاتی طور پر گھر جائیں گے، یہ لوگ ٹرین سے سفر کرنے میں دوگنا رقم بھی دینے کے لیے تیار ہیں، اپنی قیمتی جانوں کو جوکھم میں ڈال کر ٹرکوں سے بھی سفر کرنے کے لیے تیار ہیں، چاہے اس کے لیے بھاری رقم بھی چکانی پڑے، ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں لوگوں نے ٹرکوں سے سفر کیا اور گھر پہنچنے کے لیے پچاس پچاس ہزار تک کی رقم ڈرائیور کو دینا منظور کیا۔
اس سب کے بعد جو مرنے کے واقعات اور حادثات ہورہے ہیں اور بلا کسی تکلف کے جانوں کا ضیاع ہورہا ہے وہ اتنا افسوس ناک پہلو ہے کہ لکھنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، ان کی ترجمانی کے لیے میرے پاس حروف نہیں ہیں، مناظر کو دیکھ آنکھیں چکرا جاتی ہیں، دل پھٹنے لگتا ہے، کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں، زبان گنگ ہوجاتی ہے!! ہائے افسوس
لاک ڈاؤن کے بعد سے نقل مکانی کرنے والوں کی کثیر تعداد ہے، ان میں ایک تعداد اُن افراد کی بھی ہے جو اسی دوران مشکلات ومصائب کو برداشت نہ کرسکے اور اس دنیا سے چل بسے، ایسے افراد کے سرکاری آنکڑے جاری نہیں کیے گئے ہیں اور نہ جاری کرنے کی امید ہے، اسی طرح ملکی میڈیا سے بھی یہ آنکڑے غائب ہیں، بعض نیوز چینلوں نے معدودے آنکڑے نجی طور پر شائع کیے ہیں، ایسے واقعات کی سب سے زیادہ تشہیر سوشل میڈیا ذرائع سے ہورہی ہے جو کہ آزاد ہیں، اور ان افراد کا باقاعدہ سروے نہیں کیا گیا ہے، اب تک سینکڑوں واقعات ہماری نظروں سے گزر چکے ہیں، ایسے میں تعداد کا اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے، سفر کے مشکلات اور بھوک کو برداشت نہ کرنے کی بنیاد پر کم از کم تین سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، ان میں بچے بھی ہیں، بوڑھے بھی ہیں، مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی ہیں۔
یہ سابقہ مرحلہ نہایت تکلیف دہ ہے، لیکن اس مرحلے کے بعد ایک اور مرحلہ ہے جس کی حقیقت کی تعبیر کرنا ممکن ہی نہیں لگتا ہے، وہ ہے ’’حکومت کی بے حسی‘‘ کا مرحلہ، آپ اس کو جو چاہیں نام دے سکتے ہیں، واقعۃً اس پورے پس منظر میں تکلیف وافسوس کا جو آخری مرحلہ ہے وہ یہی ہے، قرآنی تعبیر میں یہ وہی مرحلہ ہے جس کو پتھروں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے، یا پھر جن لوگوں کو جانوروں سے تشبیہ دی گئی ہے وہ اسی زمرے میں داخل ہے۔
حکومت صرف کرسی پر بیٹھنے اور کمان ہاتھ میں لینے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ حکومت نام ہے ایک ایسے نظام کے نافذ کرنے کا جس میں امیر غریب سب برابر ہوں، جس میں تاجر اور مزدور ہر ایک کو مساوی مراعات حاصل ہوں، حکومت اپنے ماتحت افراد کے لیے معاشی، علمی، تمدنی، سماجی اور رفاہی وغیرہ امور کے لیے فکر مند ہو، حکومت کی نگاہ میں عدل وانصاف کا پیمانہ ہر ایک کے لیے یکساں ہو، اگر وہ کسی کے لیے اچھے کام کرے تو دوسرا بھی اس کا حقدار ہو۔
لیکن اس وقت مرکزی حکومت کا کردار نہایت تکلیف دہ بلکہ سفاکانہ اور جابرانہ ہے، بلفظ دیگر اس کو فسطائیت اور ڈکٹیٹر شپ کا نام دیا جاسکتا ہے، حکومت کا کردار کسی بھی صالح اور ترقی یافتہ حکومت کا کردار نہیں ہے، اور یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح ظلم وبربریت کے ساتھ حکومت زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتی ہے، تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے، جنہوں نے سالوں اپنی رعایا پر ظلم ڈھایا اور ان کو ستم کا مشق بنایا، لیکن وہ ہمیشہ اس کے ساتھ نہیں چل سکے، وہ دن بھی آیا کہ ان کا تختہ پلٹ دیا گیااور دوسرے لوگ حکومت پر براجمان ہوگئے؛ اس لیے موجودہ مرکزی حکومت عوام اور رعایا کے لیے فکر مند ہو، ہر ایک کی فکر کرے، مزدوروں اور غریبوں کے لیے مناسب حل تلاش کرے، ان کی روزی روٹی اور نقل مکانی کے اسبا پ پیدا کرے اور اپنی رعایا کے لیے یکساں مراعات اور سہولیات کا انتظام کرے، ورنہ حالات زمانہ میں تبدیلی خدائی دستور ہے جو ہوتی رہتی ہے اور کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:دہلی این سی آر میں غازی آباد کی کھوڑا علاقے میں کورونا وائرس کا خطرہ ویسی ہی منڈلا رہا ہے جیسے ممبئی میں دھاراوی علاقہ ہے۔دہلی این سی آر میں کھوڑا گاؤں ایک ایسا علاقہ ہے جس کی سرحد دہلی غازی آباد اور نوئیڈا اضلاع سے متصل ہیں۔یہاں پر لاکھوں کی تعداد میں مہاجر مزدور رہتے ہیں اور گھنی آبادی بھی ہے۔اس بات کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ علاقے میں 42 ہزار مکان ہیں جن میں 10 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔14 مریض سامنے آ چکے ہیں جس میں ایک کی موت ہو چکی ہے۔ اس پورے علاقے کو سیل کیا جا چکا ہے۔شمالی ہندوستان کے سب سے بڑے ہاٹ سپاٹ بنے غازی آباد کے کھوڑا گاؤں کے لئے تعینات آدتیہ پرجاپتی نے کہا کہ کھوڑا کافی گھنی آبادی والا علاقہ ہے۔یہاں کے مزدوروں کی آبادی ہے جو دہلی اور نوئیڈا جاتے ہیں۔مزدور ہیں، ریہڑی پٹری والے، اخبار فروخت کرنے والے اور اسپتالوں کا اسٹاف جیسے وارڈبوائے، نرس وغیرہ ہیں۔آدتیہ پرجا پتی نے بتایا کہ کہ جن لوگوں کا دہلی یا نوئیڈا آنا جانا ہوا ہے وہی لوگ کورونا وائر س سے متاثر ہوئے یا ان کے رابطے میں آئے لوگ کورونا وائر س سے متاثر ہوئے ہیں۔اب ہماری کوشش ہے کہ یہاں سے لوگوں کا آنا جانا دہلی یا نوئیڈا کے لئے بند کر دیا جائے۔یہاں پر آئے ان میں بہت سے کیس ایسے تھے جن کا دہلی یا نوئیڈا ک اسپتالوں سے رابطہ تھا یا علاج کرانے گئے تھے۔یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ کل 10 لاکھ کی آبادی سیل کی گئی ہے۔کھوڑا کے مکن پور میونسپلٹی کونسل کے ایگزیکٹیو آفیسر کے کے بھڑانا نے بتایا کہ کھوڑا میں تقریباً42000 مکان ہیں وہ لوگ جو ضرورت کا سامان یا راشن کا سامان خرید سکتے ہیں ان کے لئے اندر ہی اہتمام کیا گیا ہے اور جو نہیں خرید سکتے ان کوپکا ہوا کھانا پیک کرکے سپلائی کیا جائے گا۔
”کورونا وائرس“ (coronavirus) نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے، ماہرین کے بیان کے مطابق یہ ایک غیر مرئی بیماری ہے، جس کو آج تک دیکھا نہیں گیا ہے، اولاً اس بیماری کی شناخت جانوروں اور پرندوں میں ہوئی تھی، پھر اب اس کا اثر انسانوں ہے، ان کے بیان کے مطابق یہ کوئی عام بیماری نہیں ہے؛ بل کہ ایک وبائی بیماری ہے، ماہرین کی یہ بات کتنی حقیقت کتنی فسانہ ہے، آنے والے دن ضرور اس کی وضاحت کریں گے، لیکن بہر حال اس وقت ایک بڑا طبقہ اس کو بیماری تسلیم کرچکا ہے، جس کا سیدھا نتیجہ ذہنی بیماری ہے، مطلب کہ اب آئندہ کے لیے اس بیماری کے نام سے انسان ذہنی طور پر خائف اور سہما ہوا رہے گا، کہ کب اور کیسے یہ بیماری پھیل جائے اور اس کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔
کورونا وائرس سے جہاں دنیا کے بڑے اور مشہور ممالک نبرآزما ہیں، وہیں پر ہندوستان بھی پیچھے نہیں ہے، اس بیماری کو ہندوستان میں داخل ہوئے تقریبا چار مہینے ہورہے ہیں، دن بدن اس کے معاملات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اور اس کی وجہ سے اموات کی تعداد میں بھی ز یادتی ہورہی ہے، اور ملک میں ایمرجنسی کی کیفیت ہے، ملکی لاک ڈاؤن کا تیسرا مرحلہ مکمل ہونے والا ہے، شاید انسانی تاریخ میں اتنا لمبا لاک ڈاؤن کبھی نہیں ہوا تھا، لیکن اس لاک ڈاؤن سے کیا نتیجہ نکلا، ہنوز ایک معمہ ہے!
اِس وقت لاک ڈاؤن کے نام سے ہر شخص ہراساں ہے اور اپنے کو مجبور محسوس کررہا ہے، زندگی گزارنے اور پیٹ بھرنے کے مسائل نے وہ بحران کھڑا کیا ہے کہ اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا، ملک میں پہلے ڈاؤن کا اعلان ”جنتا کرفیو“ کے دوسرے دن شام کو آٹھ بجے کیا گیا کہ آج رات بارہ بجے سے یعنی 24/ مارچ سے 14/ اپریل تک پورے ملک میں لاک ڈاؤن رہے گا، جو جہاں ہے وہیں تھم جائے، کہیں جانے کی کوشش نہ کرے، وزیر اعظم نے خطاب کرتے ہوئے عوام سے صرف اکیس دن کا وقت مانگا تھا کہ آپ مجھے اکیس دن دیں، ہم کرونا سے مقابلہ کریں گے، تاکہ یہ جنگ جیت جائیں، عوام نے اپنے وزیر اعظم کی بات مانی، لیکن نتیجہ تو صفر ہی لگا، کیونکہ جس وقت وزیر اعظم نے اکیس دن مانگا تھا اس وقت کورونا کے معاملات پورے ملک میں محض پانچ سو تھے، جب یہ وقت مکمل ہوا تو اس وقت کورونا کے کل 9000/ ہزار معاملات درج ہوچکے تھے، بالآخر 14/ اپریل کو وزیر اعظم نے عوام سے پھر خطاب کیا اور عوام سے مزید ڈھائی ہفتہ مانگا کہ ہمیں کورونا سے لڑنے کے لیے مزید وقت کی ضرورت ہے، اس لیے ہم لاک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ شروع کررہے ہیں جو کہ 19/ دن پر مشتمل ہوگا، عوام نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو قبول کرلیا، لیکن نتیجہ ہنوز ندارد!
آج ملکی لاک ڈاؤن کا تیسرا مرحلہ چل رہا ہے، اِس وقت کورونا کے کل معاملات 60000/ سے تجاوز کرچکے ہیں، اور نہ معلوم اس مدت کی تکمیل تک کتنے پہنچیں گے؛ ا س لیے کہ اس کی رفتار تقریبا تین ہزار سے چار ہزار یومیہ ہے، اب اس تفصیل کو دیکھ کر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے لاک ڈاؤن کرکے بہت اچھا کیا، پوری دنیا میں کورونا سے مقابلہ کے لیے ہندوستان کی تعریف ہورہی ہے، اور یہی نہیں 11/ مئی کو وزیر اعظم نے ملک کے تمام صوبوں کے وزراء اعلی کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں کہا ہے کہ ہمیں مزید طاقت کے ساتھ کورونا کا مقابلہ کرنا ہوگا، اس میں انھوں نے مزید لاک ڈاؤن کے بڑھانے کا اشارہ بھی دیا، سوال یہ ہے کورونا سے مقابلہ کا حل صرف ”لاک ڈاؤن“ ہی کا اعلان ہے، یا کچھ عملی اقدام بھی ہے، پہلے اکیس دن میں مقابلہ ہورہا تھا، پھر انیس دن میں، پھر چودہ دن میں، لیکن اب بھی کورونا ہارا نہیں، بل کہ آزاد گھوم رہا ہے، اب تک کے مقابلے کے بعد ہمیں مزید طاقت کے ساتھ کورونا کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، تو اب تک مقابلہ کس طرح ہورہا ہے تھا؟ یہ ایک ایسا معمہ ہے جو ہنوز ناقابل حل ہے، مرکزی حکومت کورونا سے مقابلہ کے لیے لاک ڈاؤن پر لاک ڈاؤن کیے جارہی ہے، لیکن کورونا ہے کہ آزاد گھوم رہا ہے، اب تک ملک اس کا مقابلہ نہیں کرسکا!!! فیا للاسف
یکے بعد دیگرے حکومت نے لاک ڈاؤن کی مدت بڑھائی، لیکن کورونا سے مقابلہ کے لیے اس کی کیا پالیسی اور حکمت عملی رہی ہے وہ دودھ اور پانی کی طرح واضح ہے، خود مرکزی حکومت کے نیتاؤں اور ذمہ داروں کے بیانات میں تضاد ہے، مرکزی وزیر صحت کہہ رہے ہیں کہ مئی کے آخر تک ہم کورونا پا پر قابو پاجائیں گے اور 97/ فیصد معاملات ختم ہوجائیں گے، دوسرے وزیر کا بیان ہے کہ کورونا جون اور جولائی میں عروج پر ہوگا، اس لیے ہمیں ابھی سے اس کے لیے تیار رہنا ہوگا، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اب ہمیں کورونا کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا، اِدھر وزیر اعظم مقابلہ پر مقابلہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آگے ہمیں مزید طاقت کے ساتھ کورونا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ آخر یہ کیا چکر ہے!
دوسری طرف لاک ڈاؤن کے چلتے غریب مزدور، بھوکی پیاسی پریشان حال عوام کا کیا تذکرہ؟ ایسی تصاویر، واقعات اور ویڈیوز نگاہ سے گزر رہے ہیں کہ ان کو دیکھنے کی ہمت وطاقت نہیں ہے، آنکھیں ان کو برداشت نہیں کرپارہی ہیں، دل پھٹا جارہا ہے کہ ہائے یہ بے چارے غریب مزدور!
آخر ان غریب مزدوروں کا کیا قصور ہے، جس کی سزا ان کو دی جارہی ہے؟ کون سا ایسا جرم انھوں نے کرلیا کہ پائی پائی کے محتاج ہوگئے؟ کون سا ایسا گھناؤنا کام ان سے سرزد ہوگیا جس سے ان کو پولیس کی لاٹھیاں کھانی پڑ رہی ہیں؟ اورنگ آباد کے سولہ غریب مزدوروں کی کیا غلطی تھی کہ ان کو ریلوے ٹریک پر ٹکرے ٹکڑے کردیا گیا؟ ان کو چھوڑو، وہ بے چارے معصوم بچے، جو ٹھیک سے چل نہیں پاتے، جو دنیا اور زندگی سے ابھی واقف نہیں ہیں، جنہوں نے حالات ومصائب کو دیکھا نہیں وہ کون سے مجرم ہیں جس کی سزا ان کو دی جارہی ہے؟ آخر وہ کیوں بھوکے پیاسے ماؤں کی کمروں اور گودوں سے چپکے ہوئے دھوپ میں چلے جارہے ہیں؟ کیا جرم ہے ان کا؟ کیا قصور ہے ان کا؟
کون اس کی جواب دہی کا ذمہ دار ہے؟
ملک کی کمان سنبھالتے وقت کس چیز کی حلف لی گئی تھی؟
کیا ہمارے ملک کے مزدروں کی جان جان نہیں ہے؟
کیا وہ انسان کے زمرے میں داخل نہیں ہیں؟
کیا ان کے پاس قلب وجگر اور احساس نہیں ہے؟
کیا وہ کھاتے پیتے نہیں ہیں؟
حد ہے بے حسی کی! تف ہے ایسی غیر ذمہ داری پر! لعنت ایسی نااہلی پر!
ایسی بے چین صورت حال میں لکھتے ہوئے انگلیاں لڑکھڑا رہی ہیں، ضمیر جواب دے رہا ہے، عقل حیران وششدر ہے اور آنکھیں نم ہیں، خدا کے لیے حکومت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے، ہندوستانی عوام کا ہر فرد ہندوستانی ہے، اس کی زندگی، معیشت اور آل اولاد حکومت کی ذمہ داری میں داخل ہے، اگر حکومت نے آنکھیں نہیں کھولیں اور صحیح صورت حال کا جائزہ نہیں لیا تو وہ دن دور نہیں جب سب کچھ بدل جائے گا، حکمرانوں کے تختے الٹ دئے جائیں گے اور ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، جیسا کہ انھوں نے اپنی عوام کو نہیں پوچھا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:دہلی میں کوروناوائرس کو لے کر وزیر اعلی اروند کیجریوال نے آج پریس کانفرنس کی۔اس دوران انہوں نے دہلی میں کوروناوائرس کے اعداد و شمار پیش کئے۔کیجریوال نے بتایا کہ یہاں 75 فیصد کیس کم علامات والے ہیں۔انہوں نے مزید کہا دہلی میں کوروناوائرس سے ہوئی کل اموات میں سے 82 فیصد 50 سال سے اوپر کے ہیں۔کیجریوال نے کہاکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عمردراز لوگوں کی زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔دہلی میں تقریبا 7000 مثبت معاملوںمیں سے تقریبا 1500 اسپتال میں ہیں۔زیادہ تر کیس کم علامات والے ہیں۔دہلی میں 91 مریض آئی سی یو میں ہیں جبکہ 27 مریضوں کا علاج وینٹی لیٹر پر چل رہا ہے۔وہیں 2069 مریض اب تک کوروناوائرس سے ٹھیک ہو چکے ہیں۔اس مصیبت کی گھڑی میں ڈاکٹر اپنی جان خطرے میں ڈال کر لوگوں کا علاج کر رہے ہیں۔ایسے میں اگر وہ کوروناوائرس کا شکار ہوں گے تو ان کے بہتر علاج کی بھی ذمہ داری ہماری ہے۔انہوں نے مہاجر مزدور کی گھر واپسی کو لے کر بھی افسوس ظاہر کیا۔انہوں نے کہاکہ میں کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر مزدوروں کی گھر واپسی کی تصاویر دیکھ رہا ہوں۔جومزدور پیدل چل رہے ہیں۔ان کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے۔ یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔اروند کیجریوال نے مزدوروں سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے آپ کے کھانے پینے کا انتظام کیا ہے۔آپ دہلی چھوڑ کر مت جائیے۔لیکن پھر بھی آپ جانا چاہتے ہیں تو ہم نے ٹرینوں کا انتظام کیا ہے۔ہم نے بہار اور مدھیہ پردیش ٹرین بھیجی بھی ہے۔ہم آپ کی ذمہ داری لیتے ہیں لیکن آپ پیدل مت جائیے۔
ممبئی:شیوسینا کے سینئر لیڈر سنجے راوت نے کہا کہ مہاراشٹر حکومت کو لاک ڈاؤن کے دوران مہاجر مزدوروںکو ان کے گھر پہنچانے کے لیے ذاتی گاڑیوں کو اجازت دینی چاہئے۔مہاجر مزدوروںکے اپنے گھر پیدل جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے راوت نے کہا کہ وہ بیمار پڑ رہے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوںکی موت بھی ہو گئی ہے۔یہ اچھی شبیہہ پیش نہیں کرتا۔ان کے بچے ان کے ساتھ ہیں۔ریلوے ان کے لئے ٹرینیں چلانے کو تیار نہیں ہے۔ریاستی حکومت کو ذاتی گاڑیوں کو چلانے کی اجازت دینی چاہئے۔لوگ پیدل جانے کی وجہ سے بیمار پڑ رہے ہیں۔کچھ لوگوںکی تو موت بھی ہو گئی ہے۔پھر بھی ان کا پیدل جانا نہیں رکا ہے۔واضح رہے کہ مدھیہ پردیش واپس کے دوران ریل کی پٹریوں پر سو رہے 16 مہاجر مزدوروںکی جمعہ کو مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع میں مال گاڑی سے کٹ کر موت ہو گئی تھی۔
نئی دہلی:میزورم کے وزیر اعلی پی جورم تھنگا نے کہا کہ ریاست کے کوروناوائرس مفت ہونے کا کریڈٹ یہاں کے لوگوں کے نظم و ضبط، چرچ اور غیر سرکاری تنظیموں اور انتظامیہ کی مشترکہ کوششوں کو جاتا ہے۔کوروناوائرس کوپھیلنے سے روکنے میں ریاست کے کامیاب رہنے پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعلی نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اقتصادی نقصان کو لے کر وہ فکر مند ہیں۔ پڑوسی بنگلہ دیش اور میاما کے کوروناوائرس سے متاثرہ مریضوں سے ہونے والے خطرے کی بھی انہیں فکر ہے۔ریاست کے دارالحکومت اجول میں حکام نے بتایا کہ ہفتہ کو میزورم کے واحد متاثرہ مریض کو اسپتال سے چھٹی مل گئی جس کے ساتھ ہی کوروناوائرس سے مفت ہونے والا پہلا صوبہ بن گیا۔جورم تھنگا نے کہا کہ اس کا کریڈٹ لوگوں کے نظم و ضبط کو جاتا ہے جنہوں نے وائرس پھیلنے سے روکنے کے مقصد سے قائم خصوصی ٹیم کی طرف بتائے گئے تمام احکامات کو نافذکرنے میں مدد دی۔ حالانکہ انہوں نے کہا کہ شمال مشرقی ریاست میں کوروناوائرس سے متاثر ہ لوگوں سے خطرہ ہے جو میاما اور بنگلہ دیش سے متصل سرحدوں سے یہاں آ سکتے ہیں۔عیسائی اکثریتی ریاست میں تیسری بار وزیر اعلی کے طور پر کمان سنبھال رہے 75 سالہ جورم تھنگا نے کہا کہ ان کی حکومت احتیاط برت رہی ہے اور اس نے تمام بڑے جانچ نکات پر میزورم پولیس کو تعینات کر رکھا ہے تاکہ دراندازی نہ ہو سکے۔غور طلب ہے کہ بنگلہ دیش میں کوروناوائرس انفیکشن کے 13134 معاملے سامنے آئے ہیں، وہیں میانما میں 177 کیس آئے ہیں۔ان دونوں ہی ممالک سے ہندوستان میں دراندازی کے واقعات عام ہیں۔ کوروناوائرس کی روک تھام کے لئے 25 مارچ سے نافذملک گیر لاک ڈاؤن کا ذکر کرتے ہوئے جورم تھنگا نے کہا کہ اس کا میزورم پر منفی اثر پڑے گا کیونکہ شمال مشرق کی دیگر ریاستوں کی طرح ہی یہ ریاست بھی اپنی معیشت کو چلانے کے لحاظ سے پیسے کے لئے مرکزی حکومت پر منحصر رہتی ہے۔
نئی دہلی:ہندوستانی ریلوے نے گزشتہ ایک مئی سے 350 ورکرز اسپیشل ٹرینیں جاری کی ہے اور کوروناوائرس سے نمٹنے کے لئے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں پھنسے 3.6 لاکھ سے زائد مہاجر مزدوروں کو ان کی آبائی ریاست پہنچایا ہے۔263 ٹرینیں اپنی منزل پر پہنچ گئی ہیں جبکہ 87 ابھی راستے میں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مزید 46 ٹرینیں چلائی جائیں گی۔ ہر ورکرز اسپیشل ٹرین میں 24 ڈبے ہوتے ہیں اور جن میں سے ہر ایک میں 72 سیٹ ہے۔ سماجی فاصلے کے قوانین پر عمل کرنے کے لئے اب صرف 54 لوگوں کو ہی اجازت دی جا رہی ہے۔
ممبئی پولیس نے مہاجر مزدوروں سے کی اپیل:پولیس کواپنی تفصیلات فراہم کریں،ٹرین کا انتظام ہو جائے گا
ممبئی:کوروناوائرس پر قابو پانے کے لئے ملک میں جاری لاک ڈاؤن کے درمیان دوسری ریاستوں میں پھنسے مہاجر مزدوروں کو ان کے آبائی ریاست میں منتقل کرنے کا کام چل رہا ہے۔ملک کی اقتصادی راجدھانی ممبئی میں بڑی تعداد میں دوسری ریاستوں سے لوگ کام کرنے آتے ہیں۔اب انہیں واپس لانے کے لئے اسپیشل ورکرزٹرینیں چلائی جارہی ہیں۔ممبئی پولیس کے ایک سینئر افسر نے مہاجر مزدوروں سے اپیل کی ہے کہ ان کے لئے ٹرینوں کا انتظام کیا جا رہا ہے اور کوئی بھی ٹیمپو، ٹریکر یا ٹرک سے اپنے گھر نہیں نکلے۔ممبئی پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر (اے سی پی) نند کشور مورے نے بتایا کہ ممبئی سے ہر روز 3-4 ٹرینیں چلیں گی۔آج زون 5 سے گونڈہ کے لیے ٹرین چل رہی ہے۔جس میںساڑھے گیارہ سو لوگ جا رہے ہیں۔رات کو پرتاپ گڑھ کے لیے ٹرین جانے والی ہے۔کل جونپور جائے گی میری سب سے درخواست ہے آپ جہاں ہیں وہیں انتظارکریں۔اپنا فارم بھر دیجیے آپ کو میڈیکل کی ضرورت نہیں ہے۔صرف اپنا ڈیٹیل پولیس اسٹیشن میں دے دیجئے آپ کی ٹرین کا انتظام ہو جائے گا۔آپ چوری چھپے ٹیمپو، ٹرک، ٹینکر سے مت جائیں۔تمام مسافروں کو بلانے کے بجائے پولیس نے لوگوں کو 25-30 لوگوں کے گروپ میں تقسیم کیا ہے۔ہر گروپ کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ان سے ہی کاؤنٹر سے ٹکٹ خریدنے کے لئے کہا گیا ہے۔ریلوے نے بدھ کو کہا کہ اس نے ایک مئی سے اب تک 122 ورکرز اسپیشل ٹرینیں چلائی ہیں جن میںلاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں سے پھنسے ہوئے سوا لاکھ سے زیادہ مزدوروں کو منزل تک پہنچایا گیا۔
موجودہ کرونا وائرس کی وبا کے اثرات تیزی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتے جارہے ہیں ـ اس سے مرنے والے اور اس سے متاثرین کی تعداد تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے،جو کہ تقریبا دنیا کے تمام ممالک کے سماجی، اقتصادی، معاشی بحران میں مسلسل اضافے کاسبب بن رہی ہے،ایسی صورتحال میں دیگر ممالک اپنے شہریوں کے تئیں جو بھی مختلف طرح کے اقدامات کر رہے ہیں ان میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے کہ ان کے شہریوں کو کم سے کم پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور ہر طرح سے ہر سطح پر ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت امداد فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے، لیکن اس بحران کے وقت ہندوستانی حکومت کا جو رویہ اور برتاؤ اپنے شہریوں کے ساتھ رہا ہے وہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور قابل افسوس ہے،اب تک نہ تو حکومت کی طرف سے کوئی مستحکم حکمت عملی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی بہتر منصوبہ بندی دیکھنے کو ملی ہے،لاک ڈاؤن کے آغاز سے لے کر اب تک کسی بھی زاویے سے ایسا لگتا ہی نہیں ہے کہ یہاں کی حکومت اپنے عوام کو لے کر سنجیدہ ہے،خاص طور پر حکومت کی اس غیر سنجیدگی کا شکار ملک کا غریب کمزور اور مزدور طبقہ ہے،موجودہ بحران میں غریبوں اور مزدوروں کے حوالے سے روزانہ ہی ایسے لاتعداد واقعات و حادثات رونما ہو رہے ہیں جو عام انسانوں کے رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ بھارت میں غریب اور مزدور ہونا ایک سنگین قسم کا جرم اور پاپ ہے،مزدوروں اور غریبوں کی بدحالی،بے بسی اور لاچاری سے جڑا ہوا ایسا ہی ایک تازہ واقعہ تقریبا 17 /18 مزدوروں کے ٹرین کی زد میں آکر اپنی جان گنوانے کا ہے،دراصل اورنگ آباد میں رہ رہے کچھ مہاجر مزدور مدھیہ پردیش کے لئے ٹرین پکڑنے کے لیے بھساول کی طرف ٹرین کی پٹری کو نشان راہ بنا کر اپنا راستہ طے کر رہے تھے اور دیر رات ہونے کے سبب ٹرین کی پٹری سے ہی لگ کر سو گئے اور صبح کے وقت پٹری پر آرہی ایک مال گاڑی نے انہیں اپنی چپیٹ میں لے لیاـ افسوس کہ وہ اپنی مطلوبہ منزل تک نہ پہنچ سکے اور یہ سفر ان کا آخری سفر بن کر رہ گیا،اس سے پہلے بھی مزدوروں کے بھوک سے عاجز آکر اسی طرح پیدل چل کر اپنی منزل کا راستہ طے کرتے ہوئے تھکن سے چور ہو کر اپنی جان گنوانے کے بے شمار واقعات پیش آچکے ہیں۔
مزدوروں کے حوالے سے ایسا ہی ایک قابل مذمت اقدام بہار کے نائب وزیر اعلی سوشیل مودی کا ہے،ایسے نازک وقت میں جہاں ایک طرف لوگوں کو گھروں میں رہنے کی سخت تاکید کی جارہی ہے اور الگ الگ صوبوں میں پھنسے ہوئے مزدور کسی بھی طرح اپنے گھر واپس لوٹنا چاہ رہے ہیں انہوں نے ٹھیکیداروں کے دباؤ میں آکر بہار کے 222 مزدوروں کو تلنگانہ کے چاول مل میں کام کرنے کے لئے اسپیشل ٹرین سے روانہ کیا ہے،یہ ظالم اور سفاک قسم کے لوگ ایک مزدور کی جان کو اپنی جان کی طرح عزیز سمجھتے تو ہرگز یہ اقدام نہ کرتے اور ان کی بھلائی کے لیے سوچتےـ
حد درجہ حیرت تو اس ملک کی میڈیا پر ہے کہ ان جیسے حساس واقعات کو مین اسٹریم میڈیا سے بالکل غائب کردیا جاتا ہے اور میڈیا میں اس کا چرچا تک نہیں ہوتا ، میڈیا کا ان واقعات کو موضوع بحث نہ بنانا سرکار کو ایسے واقعات پر بے حس بنے رہنے اور چپی سادھے رہنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہےـ کاش یہ ضمیر فروش، رذیل اپنے دھرم ایمان کا سودا کر چکا میڈیا جس طرح سے ہندو مسلم مسائل کو اچھالتا پھرتا ہے اور با نچھیں پھاڑ پھاڑ کر زہر پھیلاتا ہے اسی طرح ایسے دردناک مسائل کو بھی ملک و قوم کے سامنے پیش کرتا۔
ایک طرف تو مودی حکومت ڈنکے کی چوٹ سے یہ اعلان کرتی ہے اور ڈھنڈھورے پیٹتی ہے کہ اس دیش کے مالدار اور اعلیٰ طبقوں کو جو سہولیات فراہم ہیں دیش کے غریب طبقوں کو بھی وہ سہولیات ملنی چاہیے ، دیش کا ایک عام شہری جو ہوائی چپل پہن کر گھومتا ہے مودی ان کے ہوائی جہاز میں بیٹھنے کے سپنے دیکھنے کی بات کرتے ہیں،کیا ان سب کی محض جملے بازی بیان بازی اور کھوکھلے دعوے کی سوا حقیقت سے بھی کچھ وابستگی ہے؟
ایک طرف تو یہ حکومت دیش کے لیڈران اور اعلی طبقے کے بچوں کو بیرون ممالک سے ہندوستان واپس بلانے کے انتظامات بحسن و خوبی کردیتی ہے لیکن جب بات مزدوروں اور غریبوں کی آتی ہے تو ریل کے سفر کے اخراجات برداشت کرنے سے انکار کر دیتی ہے-
کیا حکومت کا ”سب کا ساتھ سب کا وکاس” والا نعرہ ووٹ حاصل کرنے تک ہی لوگوں کے کانوں میں گونجتا ہے یا پھر ملک میں تشویشناک صورتحال آتے ہیں اس نعرے کی عمومیت کو مخصوص کر دیا جاتا ہے اور عام پبلک اور شہری کو سرے سے نظرانداز کردیا جاتا ہےـ آخر کب تک حکومت اپنی دوہری سیاست اور دوہری پالیسی کو اپنا کر اپنی سیاسی ساکھ کو مستحکم اور مضبوط بناتی رہے گی اور مستقبل کے بھارت کو شرمسار کرتی رہے گی؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
تاش کے سارے کے سارے پتے کھل چکے ہیں اور کھیل واضح ہوچکا ہے کہ کورونا کس مقصد کے لیے لایا گیا اور اس سے کیا مطلوب ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنے مضمون نائن الیون اور کورونا (شائع شدہ 17 مارچ 2020) میں لکھا تھا، ’’نائن الیون جدید دنیا کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد سے دنیا یکسر تبدیل ہوگئی۔ نائن الیون ایک کامیاب تجربہ تھا جس کے بعد دہشت گردی کے نام پر کسی بھی ملک پر لشکر کشی اور انسان کی اپنی حفاظت کے نام پر بنیادی انسانی حقوق کی معطلی و ضبطی دنیا کا آسان ترین کام بن گیا۔ گزشتہ بیس برسوں میں اس دنیا کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، نائن الیون سے قبل اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کچھ یہی صورتحال کورونا وائرس کے نئے ایڈیشن کے بعد دنیا کو درپیش ہے۔ کورونا وائرس Ncovid 19 سے قبل یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی بھی ملک خود ہی اپنا مقاطعہ بھی کرسکتا ہے، خود ہی پوری دنیا سے اپنا ہر قسم کا رابطہ بھی منقطع کرسکتا ہے اور اپنے ہی پورے کے پورے شہر کو قید خانے میں تبدیل بھی کرسکتا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد یہ سب کچھ انتہائی کامیابی سے ہوا کہ شہریوں کو ان کے اپنے گھروں میں قید تنہائی کا شکار کردیا گیا ہے۔ اب ایک ایک کرکے سارے ملک اپنے آپ کو ازخود لاک ڈاؤن کرتے جارہے ہیں‘‘۔
دنیا بھر میں لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی لائی جارہی ہے یعنی شہریوں کو اپنے کام کے مقامات پر جانے کی اجازت دی جارہی ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب پرانے معمولات بحال ہوجائیں گے۔ جس طرح سے نائن الیون کے بعد سے جو پابندیاں لگائی گئی تھیں، وہ ختم نہیں کی گئیں بلکہ ان میں سختی ہی لائی جاتی رہی ہے۔ بالکل اسی طرح اب دنیا قبل از کورونا والے مرحلے میں دوبارہ سے واپس نہیں جاپائے گی۔ جہاں جہاں لاک ڈاؤن میں نرمی کی جارہی ہے، وہاں وہاں یہ امر واضح کیا جارہا ہے کہ اب وہ کورونا کے zone A سے نکل کر zone B میں جارہے ہیں جہاں پر ماسک، جسمانی فاصلے سمیت ساری احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔(ایک فرد سے دوسرے فرد میں کورونا کو پھیلنے سے بچاؤ کے لیے بین الاقوامی طور پر social distance یعنی سماجی فاصلے کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے جبکہ عملی طور پر ہدایت physical distance رکھنے کی کی جاتی ہے۔ سماجی فاصلے کا مطلب ہے کہ مواصلاتی رابطہ بھی محدود کردیا جائے۔ یہ بھی ایک طے شدہ ہدف ہے کہ انسان کو سماجی طور پر تنہا کردیا جائے کہ ایک جماعت کے مقابلے میں ایک فرد کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے، اس کے لیے دیکھیے کہ تھیلے سے کیا برآمد ہوتا ہے)۔ جسمانی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے کہا جارہاہے کہ کام کے مقام پر شفٹیں لائی جائیں اور جو کام گھر سے ہوسکتا ہے وہ گھر سے لیا جائے۔ بازاروں میں ہجوم کے بجائے آن لائن شاپنگ کی جائے، ریسٹورنٹ میں جانے کے بجائے ہوم ڈلیوری سے کام لیا جائے۔ کسی کانفرنس یا سیمینار میں جانے کے بجائے وڈیو کانفرنسنگ کی جائے۔ تعلیمی اداروں میں فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے طلبہ کی تعداد کو تین شفٹوں میں تقسیم کردیا جائے۔ زیادہ تر کورس آن لائن کروائے جائیں۔ یہ سب کروانے کے لیے مزید خوف یہ پھیلایا جارہا ہے کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ آنے والے موسم سرما میں یہ کورونا پہلے سے زیادہ شدت سے پھیلے گا اور زیادہ ہلاکت آفریں ہوگا۔ چونکہ جسمانی فاصلے کے نام پر خوف بڑھا دیا گیا ہے، اس لیے اسکولوں میں بچے اب پہلے کی طرح گھل مل کر کھیل بھی نہیں سکیں گے اور نہ ہی پارٹیاں ہوسکیں گی۔ یہ real world سے ایک virtual world کی طرف transformation ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ہورہا ہے۔ یہ ہے وہ سماجی فاصلہ ہے جو نادیدہ ہے اور ابھی کسی کو محسوس نہیں ہورہا ہے۔
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی نزلہ، زکام اور بخار جیسی بیماریاں عام بات ہیں اور ان سے اموات بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ خود عالمی ادارۂ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق ہر برس دنیا بھر میں ساڑھے چھ لاکھ افراد فلو کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ مگر اب بخار کو خوف کی علامت بنادیا گیا ہے۔ ہر شخص یہ بھی بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ بخار بذات خود کوئی مرض نہیں ہے بلکہ یہ کسی مرض کی وجہ سے ہوتا ہے اور جیسے ہی مرض کا علاج کیا جائے، بخار خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ جن امراض سے بخار ہوتا ہے، ان کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ حتیٰ کہ کسی کے پھوڑے میں پس پڑجائے تو اس سے بھی بخار ہوجاتا ہے۔ اسے پروپیگنڈے کا کمال کہیے کہ اب کسی کو بخار ہوا نہیں کہ ڈاکٹر اس مریض کو دیکھنے ہی سے انکار کردیتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے وہی سب سے زیادہ اس کا شکار ہیں اور خوفزدہ ہیں۔ نہ صرف خوفزدہ ہیں بلکہ وہ اس پروپیگنڈے کو پھیلانے میں سب سے موثر آلۂ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔
اب یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ جب تک کورونا کی ویکسین پوری دنیا میں نہ لگادی جائے، اس وقت تک لاک ڈاؤن کے SOPs پر عملدرآمد جاری رہے گا۔ سات ارب کی آبادی کے لیے دنیا کی کئی کمپنیاں مل کر یہ ویکسین بنائیں گی بلکہ ان کے لائسنس کے تحت ہر ملک میں یہ بنائی جائے گی۔ ہر شخص کو مانیٹر کیا جائے گا کہ اس نے ویکسین لگوائی کہ نہیں، اس کے لیے RFID کا منصوبہ تو ہے ہی۔ چونکہ فوری طور پر سات ارب کی آبادی کو نہ تو ویکسین لگائی جاسکتی ہے اور نہ ہی RFID اس لیے ان کی کلائی پر ایک کڑا wrist band پہنا دیا جائے گا۔
دنیا کو تیزی سے نیو ورلڈ آرڈر کی طرف لے جایاجارہا ہے۔ اب تو کچھ بھی خفیہ نہیں رہ گیا ہے تاہم جنہیں اس بارے میں کوئی ابہام ہے تو آئندہ چند ماہ میں روشن سورج کی طرح سب کچھ سامنے ہوگا۔ اس دنیا پر ایک عالم گیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہوشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھاڑکھنڈ
گذشتہ چند سالوں سے جن ملکوں کا سفر میری معمولات کا حصہ بن گئے ہیں،ان میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے،اس سال بھی حسب معمول ۷/مارچ کو اس سفر کا آغاز ہوا،جاتے وقت کرونا وائرس کا چرچا تھا اور بعض ملکوں سے ہلاکتوں کی خبریں بھی آرہی تھیں،پھر ہوا یہ کہ دیکھتے دیکھتے دس دن میں اس بیماری نے ایک سو پچھتر ملکوں میں اپنے بازو پھیلا دیۓ ، مرض بڑھتا گیا اور ملکوں ملکوں تدبیریں بھی بڑھتی چلی گئیں؛ لیکن تدبیریں کارگر نہیں ہوپا ئیں، اور جن ملکوں نے اسے بہت ہلکے میں لیا وہاں موت کا رقص شروع ہوگیا، اٹلی صحت و علاج کے انتظامات کے اعتبارسے پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، چین کے بعد اس مرض نے اٹلی کو نشانہ بنایا،اور وہاں کشتوں کے پشتے لگ گئے،یہ کہیے کہ ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں ۔تو وہاں کے حکمراں کو کہنا پڑا کہ ہم نے ساری تدبیریں کر کے دیکھ لیں اب تو اوپر والا ہی کچھ کر سکتا ہے، انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ اسباب پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے اور جب اسباب نتیجہ خیز نہیں ہوتے تو اسے اوپر والے کی یاد آتی ہے اور واقعہ یہی ہے کہ سب کچھ اسی کے حکم سے ہوتا ہے اور اللہ جب تک نہ چاہے کسی سے کچھ نہیں ہوتا۔
ان حالات میں متحدہ عرب امارات بلکہ پوری عرب دنیا نے دینی مراکز، مساجد بلکہ مسجد حرام اور مسجد نبوی تک کو بند کردیا جو اللہ کی مشیت، مرضی اور اس کی تدبیروں کو متوجہ کرنے کی سب سے اہم جگہیں تھیں، طواف موقوف ہوگیا، مسجد نبوی میں نماز اور روضہ اقدس پر سلام پڑھنے والوں کو روک دیا گیا، جن کی شفاعت پر ہماری جنت کا مدار ہے، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، سعودی عرب اور بہت سارے ممالک کا یہی حال رہا، دبئی میں اذان کے کلمات بدل دیے گئے اور حی علی الصلوٰۃ کے بجائے "الصلوٰۃ فی رحالکم” کے الفاظ اذان میں داخل کردیے گئے، ابو ظبی نے اذان کے کلمات میں تبدیلی نہیں کی ؛ البتہ اذان کے بعد دوبار "صلوا فی بیوتکم” کا اضافہ کیا، مسجد کے باہری حصے سے بھی قالین کو اٹھا دیا گیا؛ تاکہ کوئی یہاں آکر نماز نہ پڑھنے لگے، پنج وقتہ نمازوں کا جب یہ حال ہوا تو جمعہ بھی پابندی کے زد میں آیا، پہلے جب جماعت سے نماز مساجد میں بند نہیں ہوئی تھیں، جمعہ کی نماز بھی دس منٹ کے اندر ادا کرلینے کی حکومت کی جانب سے ہدایت تھی، اذان کے بعد بھی مسجد نہیں کھلتی تھی اور بوقت نماز دروازہ کھولا جاتا تھا، عمومی احوال یہی تھے؛ البتہ بعض مسجد والے اس کی پابندی نہیں کرتے تھے یہ دوسری بات ہے، جب جماعت بند ہوئی تو جمعہ کی نماز بھی ختم، جن مساجد اور اس کے ملحقات کے تالے خراب تھے، سب کو صحیح کروایا گیا، اور اب ساری مسجدیں بند پڑی ہیں، مصیبتوں کے وقت جہاں پناہ لینے اور جدھر کا رخ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی اب ادھر کا رخ کوئی نہیں کرسکتا۔
مسجدیں بند ہو گئیں؛ لیکن آمدورفت کے وسائل مارکیٹ، مال اور بگ بازار بند نہیں ہوئے ، جہاں لوگوں کا ازدحام ہوتا ہے اور وائرس پھیلنے کا زیادہ امکان ہے، میرے آنے تک یہی صورت حال تھی؛ لیکن آگے کاروائی کے امکانات کا چرچا چل رہا تھا اور پھر ہوا یہ کہ مختلف ملکوں کی پروازیں بند کی گئیں، میراواپسی کا ٹکٹ جس فلائٹ سے تھا وہ بھی کینسل ہوگیا؛ چنانچہ ایک روز قبل کا ٹکٹ لیا گیا، دبئی ایرپورٹ سے بخیرو خوبی گذر گئے وہاں ضروری کاغذات چیک کئے گئے، ائر انڈیا کی فلائٹ AI996 نے وقت سے کوئی پندرہ منٹ پہلے صبح کے ساڑھے چار بجے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ دہلی کے ٹرمنل ۳ پر چھوڑ دیا اور اب آزمائش کا نیا دور شروع ہوا۔
سب سے پہلے تھروپی اسکیننگ کی لائن میں لگنا ہوا، جہاں اسکیننگ کے بعد محکمہ صحت نے اطمینان کے بعد آگے بڑھنے دیا، یہاں دو مریض شناخت میں آئے جن کو فوراً کرونا کے مریضوں کا خصوصی لباس پہنا کر ہاسپیٹل لے جایا گیا، یہاں سے ہم لوگوں کو نکل کر ایمیگریشن کاؤنٹر پر جانا تھا؛ لیکن کئی ہزار کی بھیڑ میں تھوڑا تھوڑا کرکے ہی جانے دیا جارہا تھا، اس طرح یہاں پر دو گھنٹے کم و بیش انتظار کرنا پڑا، بڑی مشکل سے ایمیگریشن کاؤنٹر پر جانے کی اجازت ملی تو دن کے دو بج چکے تھے، اتنی دیر تک مسلسل کھڑے رہنا اور ایک دوسرے کے قریب رہنا یہ خود کرونا وائرس کے منتقل کرنے کا سبب ہوسکتا ہے؛ لیکن حکومت جو باہر ملنے جلنے پر پابندی عائد کرتی ہے وہاں حفظان صحت کا کوئی خیال کسی بھی درجہ میں اس نے نہیں رکھاتھا، میرا خیال ہے کہ ائیرپورٹ کا یہ مقام مرض کے پھیلنے کے اعتبار سے سب سے زیادہ خطرناک ہے، جس کی حکومت کو کوئی فکر نہیں تھی۔ کھانے پینے کا سامان بھی دستیاب نہیں تھا، ایک مشین لگی تھی جس سے چپس، جوس اور کرکرے نکالے جاسکتے تھے؛ لیکن اس پر بھی کافی بھیڑ تھی اور ہم جیسے لوگوں کے لئے اس کا حصول آسان نہیں تھا، کسی کسی طرح جوس کا ایک بوتل نکال پایا، شوگر کے مریض کے لئے بس اس قدر کافی تھا، کچھ جان میں جان آئی۔
ایمیگریشن سے نکلے تو دس دس کا گروپ بنا دیا گیا، پاسپورٹ ایمیگریشن کاؤنٹر پر کارندوں نے رکھ لیا، میرے گروپ کا نمبر ۴۳ تھا، یہاں بھی ایک ہال میں روکا گیا، ابھی سترہ نمبر گروپ آگے جارہا تھا، اس کا مطلب ۴۳ والوں کو دیر تک رکنا پڑا، یہاں کا عملہ پہلے عملہ سے اچھا تھا، لوگوں کی بھیڑ میں اس نے میرے بارے میں اعلان کیا کہ اس بزرگ کے لئے کوئی اپنی کرسی خالی کرے گا کئی لوگ اٹھ گئے اندازہ ہوا کہ اس پریشانی میں بھی اخلاقیات ابھی ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے، میرے بیٹھانے کے بعد اس نے پھر اعلان کیا کہ عورتوں کو جگہ دینے کے لئے کون تیار ہے، کئی لوگ کرسی چھوڑ کر فرش پر بیٹھ گئے اور عورتوں کو اپنی جگہ دےدی، یہاں بھی کافی دیر رکنا پڑا، اس سے آگے بڑھے تو سامان والا ہال تھا، یہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں سامان لے کر لوگ آگے جانے کے منتظر تھے، اس ہال میں جانے کے لئے میرے انیس افراد پر مشتمل گروپ کو چھیاسی نمبر الاٹ کیا گیا، ایک پولیس والے کے حوالے ہم سب کے پاسپورٹ کردئیے گئے، یہاں سامان لیا، سامان ہی کیا تھا، سات آٹھ کلو کا ضروری کپڑے وغیرہ کا ایک بیگ آسانی سے مل گیا، معلوم ہوا کہ میڈیکل کیمپ تک جانے والوں کا ابھی پچاسواں نمبر چل رہا ہے اور چھیاسی تک پہنچنے میں دو سے تین گھنٹے لگیں گے، گھڑی دیکھی، شام کے پانچ بج چکے تھے، اس پوری جگہ میں کھانے پینے کا کوئی ہوٹل نہیں تھا اور سارے مسافر بھوکے پیاسے ہی اتنا وقت گذار چکے تھے، کیا بیت رہی ہوگی اس کا اندازہ بآسانی کیا جاسکتا ہے، ہم کھانے پینے کا کچھ سامان لے کر چلنے کے عادی کبھی نہیں رہے، اس لئے اس صورت حال نے پریشانی میں مزید اضافہ کیا۔
اللہ اللہ کرکے میڈیکل چیک اپ کے ہال میں نو بجے رات کو داخلہ کی نوبت آئی،ہوائی جہاز پر ہی ایک فارم بھرواکر تفصیلات دو کاپی میں لی گئی تھیں، ایک کاپی ایمیگریشن والے نے رکھ لی اور دوسری پولیس والے نے میرے پاسپورٹ کے ساتھ پیش کردی، کوئی علامت نہیں تھی، الحمد للہ اسکیننگ بھی صحیح تھی، مگر شوگر اور پاسپورٹ میں درج چھپن سال عمر دیکھ کر میڈیکل افسر نے فیصلہ کیا کہ آئی سو لیشن کے لئے ہوٹل جانا پڑے گا، الگ تھلگ رہنا پڑےگا، یہ سن کر مجھے پسینہ آگیا، ایک شاک سا لگا؛ لیکن دوسرے منٹ میں دل و دماغ یہ سوچ کر قابو میں تھا کہ اس عمل کی وجہ سے مجھے اطمینان ہوجائے گا اور اپنے گھر والوں اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کے لئے بھی یہ مفید ہوگا، گھڑی دیکھی، رات کے دس بج گئے تھے، یعنی کل سترہ گھنٹے ائیرپورٹ پر گذر چکے تھے، میرے ساتھ کل تیرہ لوگ تھے، جن میں چار خواتین تھیں، ایک بڑی اے سی بس میں ہم لوگ مع سامان بیٹھا دیے گئے، بس دہلی کے سڑکوں پر دوڑتی رہی، آگے آگے پولیس کی گاڑی سائرن بجاتے ہوئے چل رہی تھی، کئی جگہ رکی، کئی جگہ سے ہم لوگ واپس ہوئے، شاید بس والے کو راستہ نہیں معلوم تھا اس لئے سڑک پر بھٹکتے رہے، بالآ خر رات کے ساڑھے گیارہ بجے ہم لوگ نوئیڈا سکٹر۳۹ اے پہنچے اور یہاں ڈسٹرکٹ ہاسپیٹل کے گیسٹ ہاؤس کی تیسری منزل پرروم نمبر ۳اےکے بیڈ نمبر ۲پر پہنچا دیے گئے، ایک کمرہ میں دو آدمی کو رکھا گیا، میرے ساتھ ایک سردار سکھ چین سنگھ بھی اسی کمرہ میں ہیں، اچھے ہیں، اخلاق بات بھی اچھا ہے، ہم دور دور سے ہی مختلف امور پر گفتگو کررہے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ ایک اٹھارہ منزلہ عمارت ہے،جس میں اسی لوگوں کو کورنٹائن کیا گیا ہے، عمارت کی ساخت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تعمیر "ڈسٹرکٹ ہوسپیٹل نوئیڈا کے اسٹاف کے لئے کی گئی ہے،جو اس کے متصل ہی واقع ہے،ہر کمرہ میں غسل خانہ اور بیت الخلااٹیچ ہے،ایک بلاک چار کمروں کا ہے،ہر منزل پر دو بلاک ہیں ، ہر بلاک کے درمیان میں ایک باورچی خانہ اور ایک ڈائننگ اسپیس ہے ، ہم لوگوں کو عمارت کے اندر اٹھارہ منزل تک گھومنے، لوگوں سے دور دور سے بات کرنے کی اجازت ہے،البتہ اس عمارت سے باہر نہیں نکل سکتے،نیچے پولس کا سخت پہرہ ہے،اور مرکزی دروازہ پر لوہے کا بڑا گیٹ ہے،اور پولس کے جوان بڑی تعداد میں مستعد نظر آتے ہیں۔
دوا کچھ نہیں، جانچ کچھ نہیں، اس کمرے میں پڑے رہیے، صبح فجر بعد چائے بسکٹ آجاتی ہے، دس بجے کے قریب ناشتہ آتا ہے، ڈھائی بجے کھانا، چار بجے شام میں ناشتہ چائے ،پھر رات کے نو بجے کھانا، جو سہولتیں اچھے ہوٹلوں میں دستیاب ہوتی ہیں وہ سب موجود ہیں، کولگیٹ برش، تولیہ، صابن اور جو ضرورت ہو سب مہیا ہے، میری شوگر کی دوا ختم ہوگئی تھی وہ بھی ان لوگوں نے لاکر دی،زندگی مزے سے کٹ رہی ہے، اپنوں سے کٹ کر قید تنہائی کا احساس ابھرتا ہے؛ لیکن سردار جی ہیں، میرے پاس کاغذ قلم ہے،انٹرنیٹ ہے، واٹس ایپ چل رہا ہے، احباب و رفقااور گھر والے موبائل پر دستیاب ہیں، اللہ کو یاد کرنے کا بہتر موقع ہے اور کیا چاہیے، مولانا محمد علی جوہر کا ایک شعر ذہن میں برابر گردش کرتا ہے، آپ بھی پڑھ لیجئے:
تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں
اب ہونے لگی ان سے خلوت میں ملاقاتیں
اور خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا یہ مصرعہ زبان پر آتا ہے:
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
خلوت کے اس حسین اور لطف انگیز سلسلے کو سرکاری لوگوں کے فون توڑ کر رکھ دیتے ہیں،روزانہ پندرہ سولہ دفاتر سے فون آتے ہیں کہ آپ کیسے ہیں؟کہاں ہیں؟آپ کا سمپل جانچ کے لئے چاہیے آپ محکمہ کا تعاون کیجئے،ڈی ایم،اس پی،ڈی اس پی، اس اس پی،خفیہ وبھاگ،پٹنہ پی ایم سی ایچ،پھلواری تھانہ،پھلواری بلاک، پھلواری ہاسپیٹل ،ڈبلو ایچ او،(سبھی پٹنہ) نوئیڈا کورونا سنٹر،اترپردیش کورونا سنٹر والوں کے فون روزانہ اس کثرت سے آتے کہ اگر میری قوت ارادی مضبوط نہیں ہوتی تو بقول راحت اندوری”یاروں نے پوچھ پوچھ کر بیمار کردیا”والی کیفیت پیدا ہوجاتی،جب ان لوگوں کو صورت حال سے واقف کراتا تو چین کی سانس لیتے،اندازہ ہوا کہ سرکاری سطح پر مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں میں تال میل کی کمی نے یہ صورت حال پیدا کردی تھی، حالانکہ اگر یہ رپورٹ دوسرے کو فراہم کرتے رہتے تو کام زیادہ منظم ہوتا ، اور اس قدر افرا تفری نہیں مچتی، لیکن کیا کیجئے سرکاری کام اسی طرح ہوا کرتا ہے۔
سرکاری کام کا ذکر آیا تو میں قرنطینہ کے حوالے سے یہ بتاتا چلوں کہ ہم لوگ جہاں تھے اس کی خدمات مثالی تھی،ایک لمبی زندگی اللہ کے فضل سے میں نے گذاری ہے لیکن سرکاری محکموں میں اتنی مستعدی کہیں اور کبھی دیکھنے میں نہیں آئی،قرنطینہ مرکز کا نگراں مسلسل خیریت پوچھتا رہتا کہ کوئی پریشانی تو نہیں،کسی چیز کی ضرورت تو نہیں،ناشتہ پہنچا یا نہیں، کھانا آیا یا نہیں، شاید یہ یوگی کی سخت گیری کا اثر ہو، جنہوں نے تھوڑی کوتاہی پر معائنہ کے موقع سے ڈی ایم کا کھڑے کھڑے تبادلہ کر دیا تھا۔
میں ایک طرف سرکاری محکموں کی طرف سے آنے والے فون سے پریشان تھاتو دوسری طرف بعض ایسے احباب و رفقا اور متعلقین تھے جو فون سے بھی بات کرنے سے گریز کرتے تھے،انہیں ڈر تھا کہ فون کرنے سے کہیں کورونا برقی رو سے ان تک نہ پہنچ جائے یا پھر مجھ سے تعلق کی بنیاد پر انہیں بھی کورنٹائن نہ کردیا جائے،ایسے لوگوں کی ایک لمبی فہرست ہے ، وہم بھی ایک بیماری ہے ، جس کو لگ جاتی ہے وہ نفسیاتی طور پر مریض ہوجاتا ہے، ظاہر ہے ہمارے حلقے میں بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں اور مجھے ٹوٹ کر چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کی مزاج پرسی نے بھی حوصلہ بڑھانے میں بڑا کام کیاہے،حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی دعائیں بھی کام کرتی رہیں اور زندگی کے شب و روز گذرتے رہے۔
۳/اپریل کا دن اس اعتبار سے خاص تھا کہ اس دن ہم لوگوں کے حلق اور ناک کی رطوبت جانچ کے لئے لی گئی اور پھر شروع ہوا انتظار،کوئی علامت نہیں، پھر بھی مشین کیا دکھا دے،کہا نہیں جاسکتا، امیدو بیم اور خوف و رجا کی کیفیت سے چار روز دوچار رہا ،۷/اپریل کو رپورٹ آئی کہ اس پوری بلڈنگ کے سب لوگ نگیٹوہیں،مجھے بھی بلا کر پاسپورٹ اور سرٹیفکیٹ تھما دیاگیا،محی الدین سمستی پور کے شرما جی تھے،انہوں نے ایک گاڑی ٹھیک کی تھی اور طے ہوا کہ چھوٹنے کے بعد ہم لوگ ریزرو گاڑی سے گھر کے لئے روانہ ہو جائیں گے،لیکن اسی زمانے میں تبلیغیوں کے حوالے سے نفرت کا ماحول پیدا کردیا گیا تھا اور داڑھی ٹوپی والے پولس ، ذرائع ابلاغ اور سیاستدانوں ہی کے نہیں،عوامی نفرت کا بھی سامنا کررہے تھے،ایسے میں تمام احباب کی رائے ہوئی کہ دہلی میں ہی قیام کیا جائے اور بذریعہ سڑک اتنے طویل سفر سے گریز کیا جائے، شرما جی کا میرے ساتھ پاسپورٹ اور رپورٹ نہیں آئی تھی ایسے میں ایک دن اور رک کر کے سفر ہوسکتا تھا،لیکن میں نے دہلی میں قیام کا فیصلہ کرلیا۔
دہلی میں کہاں قیام ہو یہ ایک سوال تھا،چند روز قبل ہی سے رہنماے حج و زیارت کے مصنف حاجی محمود عالم اپنا فلیٹ رہائش کے لئے دے رہے تھے،کھانا پکانے کے لئے خادم بھی موجود تھا،شجاع الدین صاحب کے ذریعے بھی ایک فلیٹ مل رہا تھا،ایک پیشکش چچا زاد بھائی وسیم الہدیٰ کی بھی تھی کہ آپ میرے یہاں آجائیں ، بہت غور وفکر کے بعد وسیم الہدیٰ کے یہاں قیام کا فیصلہ کیا کیوں کہ فلیٹ کی تنہائی پھر ہمیں ڈس لیتی ۔
پاسپورٹ پکڑانے کے بعد قرنطینہ والوں کی ذمےداری ختم ہوگئی، کہاں جائیں گے ؟ کیسے جائیں ؟ گے یہ قرنطینہ سے آزاد ہونے والوں کا درد سر تھا ، دہلی سے کوئی گاڑی یوپی کی سرحد میں داخل نہیں ہو سکتی تھی،نوئیڈا سے نکلیں تو دہلی کی سرحد بھی سیل ، ایسے میں میاں اظہار الحق یاد آئے ، جو بحرین سے آکر خود بھی دہلی میں پھنسے ہوئے تھے،بہر کیف انہوں نے اپنے اثر و رسوخ سے مولانا اعجاز شاہین کو نوئیڈا بھیجا ،ان کے پاس گاڑی کا فوڈ سپلائی کا پاس تھا ، وہ لے کرکے مجھے بٹلہ ہاؤس عزیزم وسیم الہدیٰ کے یہاں چھوڑ گئے۔
تب سے یہیں پڑا ہوں،وسیم الہدیٰ ، ان کی اہلیہ، ان کے تینوں بچے بچیاں نوشین،عمار اور آبش خدمت میں لگے رہتے ہیں،ایسی خدمت جس میں خلوص ، محبت اور عقیدت کا عنصر غالب ہے،ایک اور جوان افروز عالم عرف حمزہ ہیں ، وسیم الہدیٰ کے ساڑھو کے لڑکاہیں ، وہ بھی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں، ایسےمحبت کرنے والے کم ملتے ہیں، اور بڑے نصیبے سے ملتے ہیں۔
زندگی ایک چارپائی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے،حوائج ضروریہ اور وضو کے لئے چارپائی چھوڑتا ہوں،ایک ماہ یہاں ہونے کو آرہے ہیں ، لیکن پاؤں نے چپل کا منھ نہیں دیکھا ، کمرے سے باہر نہیں نکلا، چٹکی دھوکر کھانا کھانے والی مثل پورے طور پر صادق آتی ہے،تراویح میں گھر کے لوگوں کو قرآن سناتا ہوں، یہی ایک کام ہے جو اللہ کے فضل سے انجام پارہا ہے۔
اس فرصت میں اپنی آب بیتی "یادوں کے قافلے”کی تکمیل بھی ہوگئی ہے،چچا غالب کو کلکتہ جانے کے لئے برسات کی چھینٹوں کا انتظار تھا اور مجھے اس "پاس "کا انتظار ہے جس کے سہارے میں اپنے خاندان میں پہنچ سکوں۔دیکھیے کب مراد بر آتی ہے ۔آپ بھی دعا کیجیے، ہم بھی دعا کرتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے تیسرے مرحلے کے پہلے دن قومی دارالحکومت دہلی میں چھوٹ دینے کے بعد افراتفری کی حالت دیکھنے کو ملی۔ دریں اثنا مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن نے کہا کہ میری رائے ہے کہ دہلی حکومت کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے بہت اقدامات اور کم سے کم چھوٹ یا رعایت دینی چاہئے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی کی صورتحال پر تبصرہ کرنا میرے لئے درست نہیں ہے کیونکہ اسے سیاسی بیان سمجھا جا سکتا ہے۔ہرش وردھن نے کہاکہ میرا یقین ہے کہ دہلی ملک کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے، جہاں کورونا وائرس وبا سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔کم سے کم رعایت دینی چاہئے جبکہ وزارت داخلہ نے وسیع ہدایات دی ہیں۔ ہر ریاست کو کورونا وائرس کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے فیصلہ لینا چاہئے۔دہلی میں پیر سے جزوی طور پر لاک ڈاؤن کھول دیا ہے۔ تمام سرکاری دفتر کھول دئیے ہیں۔ پرائیویٹ دفترمیں صرف 33 فیصد ملازم کام کریں گے۔ ہوائی سفر اور ریل سفر بند رہیں گی۔ دہلی کے اندر اور دہلی سے باہر جانے والی بسیں نہیں چلیں گی۔ شراب، پان، گٹکھا، تمباکو بیچنے والی دکانوں کو کھولنے کی اجازت ہے بشرطیکہ وہ اسٹینڈلون ہوں۔دہلی کے کئی علاقوں میں شراب کی دکانوں کے باہر آج لمبی لائنیں دیکھی گئیں۔ جس کے بعد کئی علاقوں میں شراب کے ٹھیکے بند کرائے گئے ہیں۔ مشرقی دہلی میں تمام شراب کی دکانیں بند کرائی گئیں۔ بھیڑ کو دیکھتے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے حکم دے کر دکانوں کو بند کرایا۔ اس کے علاوہ قرول باغ، چندر نگر، کرشنا نگر، نریلا، گیتا کالونی جیسے علاقوں میں شراب کی دکانیں بند ہیں۔ نریلا میں شراب کی لائن میں کھڑے لوگوں کو پولیس نے بھگایا۔
طویل مدتی لاک ڈاؤن کے دنوں میں ضرورت مندوں کی خبرگیری وامدادکے لیے اہلِ خیرحضرات آگے آئیں:
مولانا فیروز اخترقاسمی
نئی دہلی:
کوروناوائرس کےروزبروز بڑھتے خطرات کی وجہ سے ملک گیر سطح پرجاری طویل مدتی لاک ڈاؤن کی بناپر ملک کامتوسط، غریب ومزدور طبقہ سخت دشواریوں میں مبتلاہے اورنوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ایک طرف جہاں ہزارسے زیادہ لوگ کوروناوائرس کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے ہیں وہیں ملک کے مختلف شہروں اورگاؤں سے ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ بہت سے لوگ بھوک اورمسلسل فاقہ کشی کی وجہ سے مررہے ہیں ـ ایسے ناگفتہ بہ ماحول میں سماجی ورفاہی تنظیم مرکزی جمعیۃ علمانے اہلِ خیراوردردمند لوگوں کے تعاون سے غریبوں، مزدوروں، ضرورت مندوں اوربیواؤں میں راشن تقسیم کرنے کامنصوبہ بنایا اور اب تک چار مرحلوں میں 580 خاندانوں کے درمیان6600 کیلو چاول، 2000کیلوآٹا، 1100کیلودال، 950کیلوچینی، 600لیٹرخوردنی تیل، آلو، پیاز، چائےپتی،نمک وغیرہ جیسی ضروری اشیائے خوردونوش تقسیم کرچکی ہےـ مرکزی جمعیۃ نےراشن تقسیم کایہ کام دہلی کے جامعہ نگراورمضافات کے علاقوں کے علاوہ مشرقی چمپارن میں بھی کیاہے اوروہاں بھی 175فیملیزکے درمیان راشن تقسیم کیاگیاہےـ مرکزی جمعیۃ کے جنرل سکریٹری مولانافیروزاختر قاسمی نے اس موقع پراپنے تاثرات کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ محدودوسائل کے باوجودہم نے کوشش کی ہے کہ حتی الامکان زیادہ سے زیادہ ضرورت مندوں کی امدادکی جائے اوربلائے عام کی اس سنگین گھڑی میں ان لوگوں کی طرف تعاون کاہاتھ بڑھایاجائے جوملک گیر بندی کی وجہ سے سخت پریشانیوں سے دوچارہیں اوران کے لیے کمانے کھانے کابھی فی الحال کوئی ذریعہ نہیں ہےـ انھوں نے ملک بھر کے صاحبِ استطاعت لوگوں سے اپیل کی ہے کہ ایسے نازک موقعے پر مستحقین اور ضرورت مندوں کی امدادکے لیے آگے آئیں، خصوصا رمضان المبارک کے مہینے میں صدقہ وامداداور غریبوں کے کام آنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے اوریہ بڑے اجروثواب کابھی باعث ہےـ لہذاہمیں اس موقع کوغنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خیروفلاح اورامدادوتعاونِ باہمی کاکام کرناچاہیے اور ان لوگوں کے لیے دست وبازوبنناچاہیے جو ان سخت حالات میں شدید مصیبتوں سے دوچارہیں ـ اپنی زکوۃ اورصدقۂ فطرمیں کی رقوم بھی بڑھاکر نکالیں اورغرباومساکین اورمستحقین میں تقسیم کریں تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ عید کی خوشیوں میں بھی ہمارے ساتھ شریک ہوسکیں۔ ـ
لکھنؤ:لاک ڈاؤن کے درمیان پڑ رہے تہوارپر اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ آج وائرس جیسی وباسے خودکواورلوگوں کومحفوظ رکھنااہم ہے۔ اس کے لیے مندرمسجد میں جانے کی بجائے عبادت اور نماز گھرمیں اداکی جاسکتی ہے۔سی ایم نے کہاہے کہ ہم نے تمام مذہبی رہنماؤں سے بات کی ہے۔ ان سارے لوگوں نے کہاتھاکہ اس وبا سے بچنا بھی ہے اورلوگوں کومحفوظ بھی کرناہے۔ہم عام طورپرپوجا کے لیے مندر اور نمازکے لیے مسجد جاتے ہیں، لیکن پوجانمازگھرسے بھی اداکی جاسکتی ہے۔ آج جان محفوظ کرناسب سے اہم ہے۔انہوں نے کہاہے کہ نوراتری میں مندرکی بجائے لوگوں نے گھرسے پوجا پاٹھ اور تمام مذہبی رسوم اداکیے تھے۔ ایسے میں ہی ہم نے رمضان کو لے کر بھی کہاہے کہ آپ لوگ اپنے اپنے گھروں سے روزہ نمازکریں۔ اس دوران کوئی عوامی کام نہیں کیے جانے چاہئیں کیونکہ ہمیں سوشل ڈسٹینسنگ پر مکمل طورپرعمل پیراہوناہے۔جب کہ چھٹ پوجااوررام نومی پرمختلف جگہوں پرہجوم ہوالیکن اب تک ان پرکوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔اس پرمیڈیااوروزیراعلیٰ خاموش رہے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر کریگ کنسیڈ ین
(پروفیسر شعبۂ سماجیات، رائس یونیورسٹی، ٹیکساس، ریاستہائے متحدہ امریکہ)
ترجمہ: راشد خورشید
آج پوری دنیاۓ انسانیت کورونا وائرس جیسی مہلک اور خطرناک وبا کی زد میں ہے۔ حکومتیں اور اخباری ذرائع اس کی روک تھام کیلئے بہتر سے بہتر علاج دریافت کرنے میں لگی ہوئے ہیں. ایسے نازک ترین حالات میں جہاں ایک طرف ماہرین صحت کی اشد ضرورت ہے، تو دوسری جانب ان سائنسدانوں کی بھی جو دن رات ایسے متعدی امراض کے اثرات اور ان کے پھیلاؤ کے مطالعہ میں مصروف ہیں۔
ماہر مناعیات (Immunologist) ڈاکٹر انتھونی فاؤچی (Anthony Fauci) اور میڈیکل رپورٹر سَنجے گپتا کہتے ہیں کہ صفائی ستھرائی کا اہتمام کرکے نیز قرنطینہ میں رہ کر کورونا وائرس (COVID-19) جیسی مہلک وبا کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے.
کیا آپ جانتے ہیں کہ بالکل یہی بات آج سے چودہ سو سال قبل بھی کسی شخص نے کہی تھی… کون تھا وہ ؟؟
وہ تھے اللہ کے آخری نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو مہلک بیماریوں کے معاملے میں کوئی "روایتی” ماہر تو نہیں تھے۔ اس کے باوجود آپ نے جو مشورے دیے وہ کووڈ-19 جیسی خطرناک وبا کی روک تھام اور اس کا مقابلہ کرنے میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔
چنانچہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے: "جب تم سنو کہ کسی زمین میں طاعون پھیل چکا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب تم کسی ایسے علاقے میں ہو، جہاں طاعون پھیل چکا ہو تو پھر راہ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے باہر مت نکلو”۔
نیز فرمایا: "تم (متعدی) بیمار کو صحت مند کے پاس مت لے جایا کرو”۔
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے لوگوں کو ہمیشہ پاکیزگی و طہارت کی تلقین کی تاکہ بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ درج ذیل احادیث ملاحظہ ہوں:
"صفائی نصف ایمان ہے”۔
"نیند سے بیدار ہونے کے بعد اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھو لیں، کیونکہ آپ کو نہیں معلوم کہ سوتے وقت آپ کے ہاتھ کہاں کہاں تھے”۔
"کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا برکت کا باعث ہے”۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایسے وقت میں اپنے متبعین کو کیا نصیحت کرتے ہیں جب وہ کسی مرض میں مبتلا ہوجائیں، چنانچہ فرمایا :
” دواؤں کے ذریعہ علاج و معالجہ کرو… کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کی شفا نازل نہ فرمائی ہو، سواۓ بڑھاپے کے”۔
غالبا سب سے اہم بات، آپ کو بخوبی معلوم تھا کہ ایمان اور عقل کے درمیان توازن کب قائم کرنا ہے۔ حالیہ چند ہفتوں سے دیکھا جارہا ہے کہ بعض لوگ کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے سوشل ڈسٹینسگ اور قرنطینہ کے بنیادی اصولوں کو اپنانے کی بنسبت نہ صرف کثرت سے عبادات اوردعاؤں کا اہتمام کرنے کو زیادہ بہتر تصور کر رہے ہیں، بلکہ اسی کو پہلا اور آخری چارۂ کار بھی قرار دے رہے ہیں، جبکہ اس پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ردعمل کیا تھا، اس کیلئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں:
نویں صدی کے فارسی اسکالر امام ترمذی (رحمہ اللہ) نقل کرتے ہیں : "ایک مرتبہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک بدوی کو دیکھا جو اپنے اونٹ کو باندھے بغیر ہی جارہا تھا، تو آپ نے اسے بلا کر پوچھا.” تم نے اونٹ کو باندھا کیوں نہیں؟”… بدوی نے جواب دیا "مجھے اللہ پر بھروسہ ہے” تو آپ نے فرمایا: "ایسا نہ کرو، پہلے اپنے اونٹ کو باندھو پھر اللہ پر توکل کرو”۔
الغرض محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جہاں مذہب سے رہنمائی حاصل کرنے پر زور دیا ہے وہیں اس بات کی بھی ترغیب دی ہے کہ لوگ اپنی اور تمام انسانیت کی سلامتی اور فلاح و بہبود کی خاطر بنیادی احتیاطی تدابیر بھی اختیار کریں۔ بالفاظِ دیگر آپ نے لوگوں کو اپنی سوجھ بوجھ کا بھی استعمال کرنے کی تلقین کی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نتیش کمار نے افسران سے کہا: مہاجر مزدوروں کابڑا ہجوم امڈ سکتا ہے، کمر کس لیں
پٹنہ:بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے کہا ہے کہ 10 لاکھ مہاجر مزدور واپس ریاست لوٹنے کی امید ہے۔ اور ان تمام کو 14 دن کے بجائے 21 دن تک کووارنٹائن میں رکھا جائے گا۔ وزیر اعلی نے یہ حکم اعلی حکام کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہوئی میٹنگ میں دیا ہے۔ اجلاس میں ان کے کابینہ کے وزیر بھی موجود تھے۔ 6 گھنٹے تک جاری رہی اس میٹنگ میں وزیر اعلی نے کہا کہ کووارنٹین سینٹر میں تمام مہاجر مزدوروں کو اسکل ٹریننگ بھی دی جائے گی۔وزیر اعلی نتیش کمار نے کہا ہے کہ بہار میں مستقبل قریب میں مہاجر مزدورکی بڑی تعداد امڈ سکتی ہے اور انہیں 21 دن تک بنیادی طور پر الگ جگہ میں رکھنے، ان کا طبی ٹیسٹ، علاج اور اقتصادی بحالی کے انتظام کو یقینی بناناچاہئے۔ اجلاس میں وزیر اعلی نتیش نے حکام سے اس وقت کے لئے کمر کسنے کو کہا ہے جب لاکھوں کی تعداد میں مہاجر مزدوروں، طالب علموں اور تیرتھ یاتریوںکو مرکز کی طرف سے چلائی جانے والی خصوصی ٹرینوں سے گھر لایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ان کی واپسی کو آسان بنانے کے لئے ریاستوں کے درمیان باہمی سمجھوتہ ہونے پر نقل و حمل کے دیگرذرائع کا بھی انتظام کیا جا سکتا ہے۔ کمار نے اجلاس میں کہاکہ ہمیں اس بات کا یقین کرنا ضروری ہے کہ علیحٰدہ مراکز میں کھانے، کیمپ، حفظان صحت اور طبی بہترین نظام ہو۔ ڈویژن اور پنچایت سطح پر علیحدہ مراکز کا بندوبست ہو۔ ‘اگر ضرورت پڑی تو ہمیں مزید مراکز قائم کرنے پڑ سکتے ہیں کیونکہ لوٹنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس میٹنگ میں نائب وزیر اعلی سشیل کمار مودی، چیف سکریٹری دیپک کمار اور پولیس ڈائریکٹر جنرل گپتیشور پانڈے سمیت دیگر شامل ہوئے۔ریاست میں ضلع افسران اور پولیس انسپکٹروںنے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اجلاس میں حصہ لیا۔ وزیر اعلی نے کہا کہ ریلوے اسٹیشن سے مہاجر مزدوروںکو ان کے گھر کے قریب واقع علیحدہ مراکز تک لے جانے کے لئے گاڑیوں کا بندوبست ہونا چاہئے۔ دیہات میں بیداری مہم چلائی جائے، جہاں لاوڈاسپیکرز پر موجودہ حالت میں ضروری احتیاط کے سلسلے میں پیغام سنائے جائیں۔انہوں نے کہا کہ ریاست میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے معاملے شروعات میں کم تھے لیکن بعد میں ان کی تعداد بڑھنے لگی، کچھ حد تک باہر سے انفیکشن لے کر آنے والے لوگوں کی وجہ سے۔ نتیش کمار نے کہاکہ ‘اب ہمیں خود کو اس صورتحال کے لئے تیار رکھنا ہوگا جو لاک ڈاو?ن کے سلسلے میں مرکز کے نظر ثانی ہدایات کے پیش نظر بڑا ہجوم امڈنے کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔
ممبئی:ملک میں کورونا وائرس کافی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں انفیکشن کے کیس پولیس اہلکار، ڈاکٹرس، طبی عملے اور میڈیااہلکار میں تیزی سے پھیلتے دیکھ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے پورے ملک میں لاک ڈاؤن جاری ہے۔ ایسے میں عام لوگ تو ان کے گھروں میں بند ہیں لیکن یہ لوگ عوام کی خدمت کے لئے سڑک پر ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔حالانکہ اس دوران اب وہ خود بھی اس خطرناک بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔مہاراشٹر میں محض گزشتہ 24 گھنٹوں میں 115 پولیس کورونا وائرس سے مثبت پائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مہاراشٹر میں کورونا وائرس سے متاثر پولیس اہلکاروں کی تعداد بڑھ کر 342 تک پہنچ گئی ہے۔وہیں ملک کی قومی دارالحکومت دہلی میں اب تک 54 پولیس اہلکار متاثرہ پائے گئے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا گزشتہ ماہ ممبئی میں 53 صحافی بھی کورونا وائرس سے مثبت پائے گئے تھے۔ حالانکہ ان میں سے 31 صحافی صحت مند ہوکر اب اپنے گھر لوٹ چکے ہیں۔وہیں سی آر پی ایف کے جوانوں میں بھی کورونا وائرس پھیل گیا ہے۔ سی آر پی ایف میں کورونا وائرس سے متاثرہ جوانوں کی تعداد بڑھ کر 122 ہو گئی ہے۔ جبکہ 150 جوانوں کی کورونا وائرس رپورٹ آنے کا انتظار ہے۔گزشتہ ہفتے دہلی کے روہنی واقع امبیڈکر ہاسپٹل کے 32 ہیلتھ ورکس کورونا وائرس سے مثبت پائے گئے۔ ان میں ڈاکٹر اور نرس بھی شامل ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اچانک اتنے ہیلتھ ورکرس کورونا وائرس سے مثبت کیسے پائے گئے۔ دراصل کچھ دنوں پہلے اسپتال میں کورونا وائرس سے متاثرہ ایک حاملہ عورت آئی تھی۔ اس نے اپنی بیماری کو چھپایا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اسپتال میں ہی اس کی موت ہوگئی۔کورونا وائرس سے متاثرہ حاملہ خاتون نے معلومات چھپا کراپنی جان تو گنوائی ہی دی لیکن ساتھ ساتھ دیگر 32 لوگوںمیں بھی وائرس پھیلا دیا۔ اس سے پہلے دہلی کے ہی بابو جگ جیون رام اسپتال میں طبی عملے کے 65 افراد کورونا وائرس سے متاثرہ پائے گئے تھے۔مہاراشٹر میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 115 پولیس اہلکار کورونا وائرس سے متاثر
ممبئی:
ملک میں کورونا وائرس کافی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں انفیکشن کے کیس پولیس اہلکار، ڈاکٹرس، طبی عملے اور میڈیااہلکار میں تیزی سے پھیلتے دیکھ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے پورے ملک میں لاک ڈاؤن جاری ہے۔ ایسے میں عام لوگ تو ان کے گھروں میں بند ہیں لیکن یہ لوگ عوام کی خدمت کے لئے سڑک پر ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔حالانکہ اس دوران اب وہ خود بھی اس خطرناک بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔مہاراشٹر میں محض گزشتہ 24 گھنٹوں میں 115 پولیس کورونا وائرس سے مثبت پائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مہاراشٹر میں کورونا وائرس سے متاثر پولیس اہلکاروں کی تعداد بڑھ کر 342 تک پہنچ گئی ہے۔وہیں ملک کی قومی دارالحکومت دہلی میں اب تک 54 پولیس اہلکار متاثرہ پائے گئے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا گزشتہ ماہ ممبئی میں 53 صحافی بھی کورونا وائرس سے مثبت پائے گئے تھے۔ حالانکہ ان میں سے 31 صحافی صحت مند ہوکر اب اپنے گھر لوٹ چکے ہیں۔وہیں سی آر پی ایف کے جوانوں میں بھی کورونا وائرس پھیل گیا ہے۔ سی آر پی ایف میں کورونا وائرس سے متاثرہ جوانوں کی تعداد بڑھ کر 122 ہو گئی ہے۔ جبکہ 150 جوانوں کی کورونا وائرس رپورٹ آنے کا انتظار ہے۔گزشتہ ہفتے دہلی کے روہنی واقع امبیڈکر ہاسپٹل کے 32 ہیلتھ ورکس کورونا وائرس سے مثبت پائے گئے۔ ان میں ڈاکٹر اور نرس بھی شامل ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اچانک اتنے ہیلتھ ورکرس کورونا وائرس سے مثبت کیسے پائے گئے۔ دراصل کچھ دنوں پہلے اسپتال میں کورونا وائرس سے متاثرہ ایک حاملہ عورت آئی تھی۔ اس نے اپنی بیماری کو چھپایا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اسپتال میں ہی اس کی موت ہوگئی۔کورونا وائرس سے متاثرہ حاملہ خاتون نے معلومات چھپا کراپنی جان تو گنوائی ہی دی لیکن ساتھ ساتھ دیگر 32 لوگوںمیں بھی وائرس پھیلا دیا۔ اس سے پہلے دہلی کے ہی بابو جگ جیون رام اسپتال میں طبی عملے کے 65 افراد کورونا وائرس سے متاثرہ پائے گئے تھے۔