نئی دہلی:ہندوستان میں پہلی بار ایک دن میں کورونا وائرس کے 50000 سے زائدنئے کیس رپورٹ ہوئے، جس کے بعد جمعرات کو ملک میں متاثرہ افراد کی تعداد 1583792 ہوگئی۔ اسی کے ساتھ ہی صحت یاب ہونے والوں کی تعداد بھی 10 لاکھ کو عبور کر چکی ہے۔ مرکزی وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں 52123 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ 775 افراد کی ہلاکت کے بعد اموات کی تعداد بڑھ کر 34968 ہوگئی ہے۔ 528242 مریضوں کا علاج چل رہا ہے۔ مریضوں کی صحت یابی کی شرح 64.44 فیصد اور اموات کی شرح 2.21 فیصد ہے۔ متاثرہ افراد کی کل تعداد میں غیر ملکی شہری بھی شامل ہیں۔ ملک میں اب تک 18 کروڑلوگوں کی جانچ ہوچکی ہے۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے مطابق 29 جولائی تک 18190382 نمونوں کی جانچ کی گئی۔ دوسری جانب بدھ کے روز 446642 نمونوں کی جانچ کی گئی۔ گذشتہ 24 گھنٹوں میں 775 افراد کی موت ہوئی جس میں مہاراشٹر میں 298، کرناٹک میں 92، تمل ناڈو میں 82، آندھرا پردیش میں 65، مغربی بنگال میں 41، اترپردیش میں 33، دہلی میں 26، پنجاب، گجرات میں 25 افراد ہلاک ہوئے۔ جموں و کشمیر میں 24، مدھیہ پردیش میں 13 اور تلنگانہ میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔ بہار اور جھارکھنڈ میں نو نوافراد کی موت ہوئی ہے۔ ہریانہ میں سات، راجستھان میں چھ، اڑیشہ میں پانچ، آسام میں چار، گوا میں تین، اتراکھنڈ اور چندی گڑھ میں دو، دو، کیرالہ اور انڈمان اور نکوبار جزائز میں ایک ایک مریض کی موت ہوئی ہے۔ اب تک ملک میں 34968 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
Corona india
نئی دہلی:ملک میں ہر روز کورونا کے معاملے میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک دن میں ملک بھر میں 48661 مثبت واقعات رپورٹ ہوئے اور 705 افراد اس مرض سے ہلاک ہوگئے۔ یہ گزشتہ 24 گھنٹوں کا اعداد و شمار ہے۔وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کورونا کے مثبت معاملوںکی تعداد 1385522 ہوگئی ہے جبکہ فعال کیسوں کی تعداد 467882 ہے۔ وزارت نے بتایا کہ اب تک ملک میں 885577 افراد کورونا سے ٹھیک ہوچکے ہیں اور مجموعی طور پر 32063 افرادکی موت ہوئی ہے۔ گزشتہ24 گھنٹوں 442031 نمونے ٹیسٹ کئے گئے ہیں۔ یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ سرکاری لیب نے ایک دن میں 362153 نمونے ٹیسٹ کر کے ایک نیا ریکارڈ بنایا۔ ملک میں نجی لیب بھی اچھی خاصی تعداد میں ٹیسٹ کررہے ہیں۔ وزارت صحت کے مطابق ایک نجی لیب میں گذشتہ روز 79878 ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔دنیا میں کورناسے سب سے زیادہ متاثر ممالک کی فہرست میں ہندوستان تیسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ ملک کی سب سے زیادہ متاثرہ ریاست مہاراشٹر ہے، جہاں فعال کیسوں کی کل تعداد 467882 ہے۔ یہاں ایک دن میں 9251 نئے معاملے درج ہوئے۔ اب تک 366368 معاملے سامنے آئے ہیں جن میں 13389 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ مہاراشٹرا کے بعد تمل ناڈو، دہلی، کرناٹک اور آندھرا پردیش کا نمبرہے۔ اگر ہم ان ریاستوں میں کورونا کی تعداد کودیکھیں تو یہ بالترتیب 206737، 129531، 90942 اور 88671 ہے۔
ہندوستان میں کورونا مریضوں کی تعداد 13 لاکھ سے متجاوز،اموات کی تعداد 31358
نئی دہلی:ہندوستان میں کورونا مریضوں کی تعداد 13 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ صرف دو دن پہلے ہی مریضوں کی تعداد 12لاکھ سے زائد تھی ۔ اب تک 849431 افراد اس متعدی بیماری کی وجہ سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔مرکزی وزارت صحت کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کے 48916 نئے مریضوں کی تشخیص ہونے کے بعدمجموعی تعداد 1336861 ہوگئی۔ اسی دوران مزید 757 افراد کی ہلاکت کے ساتھ ہلاکتوں کی تعداد 31358 ہوگئی ہے۔اس وقت ملک میں 456071 متاثرہ افراد کا علاج جاری ہے۔ اب تک 63.54 فیصد لوگ اس مرض سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔متاثرہ افراد کی کل تعداد میں غیر ملکی شہری بھی شامل ہیں۔یہ مسلسل تیسرا دن ہے جب ایک ہی دن میں 45000 سے زیادہ مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے۔ گذشتہ 24 گھنٹوں میں جن 757 افرادکی موت ہوئی ہے ان میں سے مہاراشٹرمیں278 ، کرناٹک میں 108، تمل ناڈو میں 88، اترپردیش میں 59، آندھراپردیش میں 49، مغربی بنگال میں 35، دہلی میں 32، گجرات میں 14 جموں وکشمیر11، مدھیہ پردیش میں ،راجستھان اور تلنگانہ میں آٹھ آٹھ لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ آسام، چھتیس گڑھ اور اڑیشہ میں چھ چھ، پنجاب میں پانچ، کیرل اور ہریانہ میں چار، بہار اور جھارکھنڈ میں تین اور پڈوچیری، تریپورہ، میگھالیہ اور ناگالینڈ میں ایک ایک مریض کی موت ہوئی ہے۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے مطابق 24 جولائی تک 15849068 نمونوں کا ٹیسٹ کیا گیا تھا، جن میں 420898 نمونوں کا جمعہ کو ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ یہ ایک دن میں سب سے زیادہ جانچ ہے۔ اس عالمی وبا کی وجہ سے اب تک مجموعی طور پر 31358 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں سے مہاراشٹر میں سب سے زیادہ ہلاکتیں 13132 ہوئیں۔ اس کے بعد دہلی میں 3777، تمل ناڈو میں 3320، گجرات میں 2278، کرناٹک میں 1724، اتر پردیش میں 1348، آندھرا پردیش میں 932، مدھیہ پردیش میں 791 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔
نئی دہلی:اب تک ملک میں 10 لاکھ 77 ہزار 618 افراد کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں۔ ان میں سے 26816 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ 6 لاکھ 77 ہزار 422 افراد ٹھیک ہوگئے ہیں۔ گذشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وائرس کے 38 ہزار 902 نئے کیس رپورٹ ہوئے اور 543 اموات ہوئیں۔گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے 2.24 لاکھ نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 5008 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ دنیا میں ایک کروڑ 44 لاکھ سے زیادہ انفیکشن کے واقعات ہو چکے ہیں، جبکہ اموات کی تعداد 6 لاکھ کو عبور کر چکی ہے۔آسام اور بہار میں سیلاب کی وجہ سے زندگی مشکلات سے دوچار ہے۔ بہار کے بہت ساری ندیاںخطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی ہیں جس کی وجہ سے آٹھ اضلاع کے 30 بلاک سیلاب سے متاثر ہیں۔ وہیںآسام کے 33 میں سے 28 اضلاع برہما پیترا ندی میں آنے والے سیلاب سے متاثر ہیں۔
نائب وزیر اعلی نے بتایااموات کی تعداد میں اضافے کی وجہ
نئی دہلی:گزشتہ دو دنوں میں ملک کی دارالحکومت دہلی میں کورونا وائرس کے معاملات میں ایک بڑی تعداد درج کی گئی ہے۔ دہلی میں لگاتار دوسرے دن بھی کورونا کے 1000 سے زائد نئے معاملے رپورٹ ہوئے۔ گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 1106 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور ملک کی دارالحکومت میں کورونا کے معاملوں کی تعداد 17 ہزار (17386) کو عبور کرچکی ہے۔ دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسوڈیا اور وزیر صحت ستیندر جین نے ملک کی دارالحکومت میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کی وجہ سے بڑھتے ہوئے خوف کے درمیان ایک پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر سسودیا نے کہا کہ کورونا وائرس کے بارے میں فکر کرنے کے بجائے محتاط رہ کر ضروری احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس موقع پر نہ گھبرانے کا مشورہ بھی دیا۔جمعرات کو کورونا کی وجہ سے 13 اموات ہوئیں۔ 69 اموات کے معاملات پرانے تھے، جن میں 82 اموات ریکارڈ میں آچکی ہیں۔ گزشتہ34 دنوں میں 69 اموات ہوئیں جن میں 52 صفدرجنگ سے تھیں۔دہلی میں کورونا کی وجہ سے مجموعی طور پر 398 اموات ہوئیں۔ ہلاکتوں کے معاملات کی دیر سے اطلاع دینا بھی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک وجہ ہے۔ سسودیا نے اعتراف کیا کہ کورونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن 50فیصد مریض بھی ٹھیک ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 80-90فیصد لوگ ہوم کووارنٹین سے صحت یاب ہو رہے ہیں، انہوں نے لوگوں کو کورونا کی وجہ سے نہ گھبرانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہلکی علامات میں ڈاکٹر سے ملنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ صفدرجنگ اسپتال میں 52 اموات کی اطلاعات ہیں، ان اموات کی تعداد کو آج کے ہیلتھ بلیٹن میں شامل کیا گیا ہے۔وزیر صحت ستیندر جین نے کہا کہ دہلی میں 17386 معاملات ہیں جن میں سے 1106 نئے کیس ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ24 گھنٹوں کے دوران 351 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر 7846 افراد ٹھیک ہوچکے ہیں۔ طبی سہولیات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس 5000 بیڈز ہیں، اس میں 3700 سرکاری بیڈز ہیں، 1300 پرائیویٹ اسپتال ہیں۔
[email protected]
آخر کار وہی ہو گیا جس کا خدشہ تھا، کورونا کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی۔ اور حقیقتاً زیادہ تر رپورٹس میں بھی مسلمان ہی متاثر پائے جارہے ہیں۔ اور میڈیا بھی بہت چالاکی سے کوئی نہ کوئی اشارہ ایسا کررہا ہے کہ لوگ سمجھ جائیں کہ پازیٹیو آنے والا مسلمان ہی ہے۔ حالانکہ حکومت کی پالسی یہ ہے کہ کسی پازیٹیو کا نام عام نہ کیا جائے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ نظام الدین سے واپس آنے والوں کو تو پوری طرح کھلے عام ظاہر کیا جارہا ہے، تبلیغی جماعت کے لوگوں کو اور باقی لوگوں کو انکے گھر کے پتے سفر کی ہسٹڑی کے ذریعہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ مرکز نظام الدین اور تبلیغی جماعت کا تو اتنا میڈیا ٹرائیل ہو چکا کہ ملک کے دور دراز کونوں تک کے لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ مرکز یعنی کیا،نظام الدین میں کیا ہے تبلیغ یعنی کیا اور کس طرح مسلمان گاؤں گاؤں پھرتے اور مسجدوں میں رہتے ہیں۔ مودی جی نے تالی اور تھالی بجوا کر لوگوں کومذہب کی جو افیون پلائی تھی اور دیے جلوا کر جس کے نشے کو دو آتشہ کیا تھا، اب مرکز تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے پازیٹیو ہونے سے وہ پوری طرح مسلم مخالفت میں تبدیل ہو چکا ہے۔محلوں گلیوں نکڑوں دکانوں پر ہماری بے احتیاطی کی تصاویر، لاک ڈاؤن کے دوران مٹر گشتی اور پھر پولس کے ذریعہ ذلیل کئے جانے کے ویڈیوز، اوراپنے اپنے گھروں میں بیٹھے لاک ڈاؤن انجوائے کرنے والے ہمارے پڑھے لکھوں کے ذریعہ سوشل میڈیا میں عام مسلمانوں میں بے احتیاطی کو بڑھا وا دینے والے پیغامات اور ویڈیوز نے پہلے ہی ہندو اکثریت کو ہم سے بد ظن کر رکھا تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں کے شر پسندوں نے مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کے پیغامات سوشل میڈیا میں شیئر کرنے شروع کردئے تھے اب مرکز اور تبلیغی جماعت کے میڈیا ٹرائیل کی وجہ سے ہندو اکثریت نے اشتعال انگیزوں کے ذریعہ پھیلائے گئے مسلم بائیکاٹ کے ان پیغامات کو عملی طور پر برتنا شروع کردیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہاتوں تک سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ ہندو لوگ مسلم تاجروں کو نظر انداز کر رہے ہیں کہیں کہیں تو داخلے پر ہی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اتراکھنڈ،ہریانہ،دہلی، پنجاب، ہماچل پردیش اور کرناٹک میں مسلم تاجروں اور بیو پاریوں سے بد سلوکی اور مارپیٹ تک کی خبریں ہیں، یہ خبریں ان معاملات کی ہیں جو رپورٹ ہوئے جو رپورٹ نہیں ہوئے وہ کتنے اور کہاں کہاں ہیں خدا جانے۔ حالانکہ یہ حکومت کی پالسی نہیں ہے، لیکن حکومت نے مرکز مرکز تبلیغی تبلیغی کورونا جہاداور کورونا دہشت گردی کا شور مچاکر لوگوں کو مسلم مخالفت میں اس مقام تک پہنچانے والی میڈیا کو لگام کسنے کا کوئی اقدام ابھی تک نہیں کیا۔ کیا اس کیا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب حکومت کی مرضی و منشا کے مطابق ہی ہورہا ہے اور اس پر خاموش رہ کر حکومت دراصل اس کی پذیرائی کر رہی ہے؟ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود بھی کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھی کہ ایک تو جس کے ذریعہ کورونا کا الزام مسلمانوں پر ڈال کر ہمیں ہندو اکثریت سے مزید الگ کردیا جائے،اور سی اے اے این پی آر اور این آرسی کے ذریعہ مسلمانوں کے اس خطرے سے نمٹنے میں ہندو ؤں کو مزید ہموار کیا جائے اور جو ہندو اس کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ کھڑے تھے انہیں بھی ہم سے بدظن کردیا جائے۔ اور دوسرے یہ کہ ملک کی سوجھ بوجھ رکھنے والی ہندو آبادی کو بھی کورونا کے خلاف ہماری اصل ’پتلی حالت‘ کے متعلق سوچنے اور سوال کرنے سے باز رکھا جاسکے اور سازشی اس میں پوری طرح کامیاب نظر آرہے ہیں۔لیکن حکومت میڈیا اور مسلم مخالف عناصر کو کوسنے سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اس میں ہماری ذمہ داری کتنی ہے؟آخر ہم نے کیوں بہت آسانی سے حکومت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اس مہاماری میں بھی ہمارے نام پر اپنا سیاسی کھیل کھیل جائے؟ تبلیغی جماعت اور مرکز کے معاملہ میں تو ساری ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن جماعت کے ساتھیوں کے خود ہوکرچیک اپ اور ٹیسٹ کے لئے سامنے نہ آنے سے اورمرکز کے ذمہ داران کا خود کو کارروائی کے لئے پیش نہ کرنے سے ہندوؤں کی نظر میں یہ سارا معاملہ بالکل ویسا ہی ہوگیا ہے میڈیا جیسا دکھارہا اور ذہن نشین کروا نے کی کوشش کر رہا ہے اور حکومت جیسا چاہتی ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگرابتدا میں ہی پولس اور میڈیا کو جواب دے کر سارا معاملہ دیش کے سامنے رکھ دیا جاتا، میڈیا کے ناجائز پروپگنڈے کی بخیہ ادھیڑ دی جاتی،حکومت کی لاپروائی کا کچا چٹھا کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا جاتا اورمرکز و تبلیغی جماعت کے خلاف پروپگنڈا کرنے جھوٹی خبریں چلانے کے لئے میڈیا کو عدالت میں کھینچا جاتا تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ خیر، ابھی ہم کمیونٹی اسپریڈ کے درجہ تک نہیں پہنچے،یعنی ابھی وہی لوگ پازیٹیو ہورہے ہیں جو کسی باہری ملک یا باہری ملک سے آئے ہوئے لوگوں کے قریبی تعلقات اور ان کے کانٹیکٹ میں آئے ہیں، یعنی ابھی اس قسم کے کانٹیکٹ کے بغیر لوگ پازیٹیو نہیں ہو رہے ہیں سمجھئے یا تو وبا زدہ ممالک سے یہاں آئے اور ان کے کانٹیکٹ میں آنے والے لوگ ہی پازیٹیو ہو رہے ہیں، ہمارے خیال سے ان میں مسلمانوں کے زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مرکز سے آنے والوں اور تبلیغی جماعت کے نام پر مسلمانوں ہی کے زیادہ ٹسٹ کئے جارہے ہیں اور اسی کا شور بھی ہورہا ہے،جومسلمان مرکز کنیکشن کے بغیر پازیٹیو ہورہے ہیں ان کی ہسٹری کھنگالنے کی کوئی خبر نہیں آرہی۔ خیر ہمارا کہنا یہ ہے کہ ابھی جب مسلمان ہی زیادہ پازیٹیو ہورہے ہیں تو ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہمارا سماجی و معاشی بائیکاٹ اور مارپیٹ شروع ہوگئی ہے۔ خدا نہ خواستہ سوبار خدا نہ خواستہ اگر ملک میں کمیونٹی اسپریڈ شروع ہوگیا اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی بڑی تعداد میں پازیٹیو ہونے لگے تو ملک میں اس وبا کے پھیلاؤ کا ٹھیکرا پوری طرح ہم مسلمانوں کے سر ہی پھوڑ دیا جائے گا اور پھر اس وقت جو حالات ہوں گے ہم اس کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ کیا ہم میں سے کسی کو یقین ہے کہ مودی سرکار ایسا نہیں ہونے دے گی؟نہیں صاحب کسی کو بھی یہ یقین نہیں ہوسکتا بلکہ تالی تھالی بجا کراور دیے جلا کر نوے فیصد اکثریت نے بتادیا ہے کہ وہ مودی جی کے ساتھ ہے اور اسی سپورٹ کے چلتے اگر مودی سرکار، سرکاری طور پر نہیں تو اس کے مسلم دشمن اشتعال انگیز اور زبان دراز ممبران اور وزراء سوشل میڈیا کے پروپگنڈے اور ہمارے غیر سرکاری بائیکاٹ کو پارلمنٹ تک لے جا سکتے ہیں۔ جس طرح مرکز اور حضرت جی مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم پر کیس کیا گیاہے اسی طرح سبھی معاملات میں چن چن کر ایسا کیا جاسکتا ہے جب کیجریوال سرکار ایسا کرسکتی ہے تو مودی سرکار کیوں نہیں؟اوراگر ایسا ہواتو ہم خود ہماری بے احتیاط اور لاپرو ا روش کے ذریعہ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ اگر اب بھی ہم اپنا رویہ نہیں بدلتے،اس وبا کو ہلکے میں لینا نہیں چھوڑتے، احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے، لاک ڈاؤن کا پالن نہیں کرتے، اپنے کو کیا ہوسکتا ہو بھئی۔۔مسلمانوں کو کچھ نہیں ہوتا، ہم موت سے نہیں ڈرتے جیسی جھوٹی باتیں نہیں چھوڑتے تو این پی آر، این آر سی جیسے سلگتے مسائل کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کے لئے بھی ہمیں تیاری کر رکھنی چاہئے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:دنیا بھر میں اقتصادی نقصانات کا سامنا کرناپڑ رہاہے۔ بھارت بھی اس سے بری طرح متاثرہواہے۔ اس دوران وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے منگل کوکہاہے کہ وائرس لاک ڈاؤن کے پیش نظر مختلف علاقوں کی مددکے لیے حکومت جلد ہی اقتصادی پیکیج کا اعلان کرے گی۔انہوں نے کہاہے کہ تاخیرنہیں ہوگی، پیکیج کا اعلان جلدہی کیاجائے گی۔سیتا رمن نے پین کارڈاورآدھارکارڈلنک کرنے کی میعادبڑھانے کے ساتھ ٹیکس کی میعاد بڑھانے اور کچھ اور چھوٹ دینے کے اعلانات بھی کیے ہیں۔صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انکم ٹیکس ریٹرن، جی ایس ٹی واپسی کرنے اور کسٹم اور مرکزی مصنوعات کی فیس سے متعلق چیزوں کے سلسلے میں نرمی دینے کااعلان کیاہے۔ساتھ ہی وزیر خزانہ نے کہا کہ آنے والے تین ماہ کے لیے گاہکوں کو بینکوں کے اے ٹی ایم سے کیش نکالنے پرکوئی چارج نہیں دیناہوگا۔اب دوسرے بینکوں کے اے ٹی ایم سے ایک طے لیمٹ کے بعدکیش نکالنے پر گاہکوں کو چارج دینا پڑتاہے۔
(سینئرصحافی، منیجنگ ایڈیٹراین ڈی ٹی وی انڈیا)
پٹنہ میں کرونا سے متاثرمریض کی موت ہوگئی ہے۔ یہ موت بتا رہی ہے کہ ریاست کس طرح کورونا وائرس کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہ وقت کسی رہنما کے لئے رائے عامہ ہموارکرنے کا نہیں ، بلکہ تیاریوں کے بارے میں سخت سوالات پوچھنے کا ہے۔ ہم یہ کام بطور سول سوسائٹی نہیں کر رہے ہیں۔ یہ کام دو ماہ قبل ہونا چاہئے تھا۔ ٹھیک ہے ، آپ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ ضرور کچھ سوچ کر کیا ہوگا ، لیکن اس فیصلے تک پہنچنے سے پہلے کیاآپ نے تیاریوں سے متعلق تمام حقائق دیکھے تھے؟کیا آپ نے ان کا جائزہ لیا تھا؟
دو ماہ سےکرونا کےحوالے سے پوری دنیا میں خوف و ہراس پھیلاہواہے۔ حکومتیں دن رات جاگ رہی ہیں ، لیکن اس کے بعد بھی بہار میں تیاری کاعالم یہ ہے کہ مریض اسپتال میں دم توڑ گیا۔ گھر کے افراد اس کی لاش کے ساتھ روانہ ہوگئے اوراس کے کئی گھنٹوں بعد پٹنہ میں بتایاجاتا ہے کہ مرنے والے کی کورونا رپورٹ مثبت تھی ۔ بہار کے پرنسپل سکریٹری نے کہا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ اس مریض کے مرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔
آپ سوچیں مریض کی موت ہوگئی ہے۔ اس کے افرادِخانہ لاش لے کر گئے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اسے کروناکااثرتھا۔ لاش گھر میں رکھی ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس کی تدفین میں بھی شرکت کی ہو۔ مریض بہار کے ضلع مونگیر سے ہے۔ جب پٹنہ میں تیاریوں کایہ حال ہے تو مونگیر میں کیا ہوگا؟ کس طرح سسٹم کی کاہلی نے عام شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں۔
صرف یہی نہیں ، یہ شخص قطر سے آیا تھا۔ پٹنہ ایئرپورٹ پر اس کی تفتیش کی گئی۔ وہاں سے جانے کو کہا گیا۔ کچھ صحافیوں نے بتایا کہ یہ مونگیر گیا تھا۔گردے کی پریشانی تھی تو بس کے ذریعےپٹنہ کے ایمس اسپتال پہنچا۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس بس میں کتنے مسافر سفر کے دوران انفیکشن کاشکارہوئے ہوں گے۔ اس سے یہ پتاچل رہاہے کہ ہوائی اڈے پر اسکریننگ کے نام پر دراصل کیا ہورہا ہے۔ کیا یہی تیاری تھی بہار کی کہ ایک شخص وائرس لیے اتنی آسانی سے باہر نکل گیا؟
ابھی تک ، پٹنہ میں ایسی کوئی لیب نہیں تھی جہاں نمونوں کی جانچ کی جاسکے۔ کولکاتہ نمونہ بھیج رہا تھا۔ 18 مارچ کو بی بی سی ہندی کے نیرج پریادرشی نے ایک رپورٹ میں اس کا تذکرہ کیاہے۔ یعنی تین دن پہلے تک پٹنہ میں نمونہ ٹیسٹ نہیں ہوا تھا۔ 20 مارچ کو ٹائمز آف انڈیا میں بتایا گیا ہے کہ یہ ٹیسٹ راجندر میموریل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ، پٹنہ میں ہوگا۔ اور دربھنگہ میڈیکل کالج کو ٹیسٹ کروانے کی اجازت دی گئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایک دن میں کتنے نمونے ٹیسٹ کئے جاسکتے ہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے۔ لوگوں سے پوچھنے پریہ معلوم ہو رہا ہے کہ ایک دن میں صرف 60-70 نمونوں کی جانچ ہورہی ہے۔ بہار کی یہی حالت ہے۔ کیا ہم اس طرح کورونا وائرس سے لڑیں گے؟
بہار کی آبادی تقریبا 11 کروڑ ہے۔ کیا آپ تھالی بجانے سے پہلے یہ جاننا پسندنہیں کریں گے کہ متوقع مریضوں کے لئے کتنے بستر کا بندوبست کیا گیا ہے؟ 20 مارچ کو ٹائمز آف انڈیا نے رپورت شائع کی کہ پورے بہار میں آئی سولیشن کے لئے صرف 356 بیڈ فراہم کیے گئے ہیں، صرف 356 ـ حکومت پٹنہ کے دو سرکاری اسپتالوں میں سو بستروں کا انتظام کرنے والی ہے۔ اس میں سے پٹنہ میں صرف 100 بستر ہیں۔ پی ایم سی ایچ میں 60 اور نالندہ میڈیکل کالج میں 40۔ باقی بہار کے 250 بستر؟
صرف یہی نہیں ، ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پورے بہار میں 274 آئی سی یو وارڈوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ حکومت نے یہ نہیں کہا ہے کہ 274 وینٹیلیٹر الگ سے مہیا کیے گئے ہیں۔ کیاجو آئی سی یوزپہلے سے ہیں انھیں ہی نشان زدہ اعداد و شمار میں شامل کرلیاگیاہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر موجودہ آئی سی یو کی گنتی کی جائے ، تو کیا ان کے مریضوں کو باہر نکال دیا جائے گا؟ اگر یہ پورے بہار کے سرکاری اسپتالوں میں آئی سی یو وارڈز کے اعداد و شمار ہیں تو آپ کو تھالی بجانے کے بجائے سوال کرنا چاہیے۔ سوچئے کہ عام دنوں میں بہار کے مریضوں کا کیا بنتاہوگا۔ 11 کروڑ کی آبادی میں صرف 274 آئی سی یو؟
کیا آپ بغیر وینٹیلیٹر کےعلاج کروالیں گے؟ کیا تھالی بجانے والوں نے آپ کو بتایا اور آپ نے پوچھا کہ سانس میں پریشانی ہوگی تو وینٹیلیٹر کہاں سے آئے گا؟آیا ہے یا نہیں؟ بہار کے وزیر اعلی اور وزیر صحت اگرہیں تو بتائیں کہ پی ایم سی ایچ اور نالندہ میڈیکل کالج میں تعمیر کردہ 100 وارڈوں میں سے کتنے میں آئی سی یو لگائے گئے ہیں؟ پی ایم سی ایچ کے دو آئی سی یو ہیں۔ فرض کیجیے ایک آئی سی یو میں دس سے پندرہ بیڈ ہوں گے۔ تو بھی تیس چالیس سے زیادہ نہیں ہوں گے۔
بحیثیت شہری آپ سے بھی ایک سوال ہے ، کیا آپ نے اس کی جانکاری لی تھی کہ کوئی تیاری ہے یا تھالی خریدنے چلے گئے تھے؟
اگر گھر میں نمک نہیں ہے تو کوئی تو کہے گا کہ نمک نہیں ہے۔ نمک لانا ہے۔ میں بھی یہی کام کر رہا ہوں۔ نمک نہیں ہے یہ بتانا نگیٹیونہیں ہے۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیے۔ آج اگر عوامی کرفیو ہے تو پھر پولیس لوگوں کو لاٹھیوں سے مارکر کیوں بھگا رہی ہے؟جب آپ نے عوام پر چھوڑاہے توایک بارآزماکر دیکھ لیں ، پولیس اور ڈی ایم اس میں کیا کر رہے ہیں؟
یاد رکھیے! ہم سب زندگی اور موت کی ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا توکّل علی اللہ مثالی تھا ، اس کے باوجود آپ ہر ممکن تدبیر اختیار کرتے تھے اور تمام دنیاوی اسباب اپناتے تھے _ اس طرح آپ نے ہمیں سکھایا ہے کہ تدبیر اختیار کرنا توکّل کے منافی نہیں ہےـ
دشمنوں نے مکّہ میں رہنا دوبھر کردیا تو آپ نے مدینہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا _ منصوبہ کے مطابق ایک دن ٹھیک دوپہر میں نکلے جب لوگ عموماً گھروں میں رہتے تھے ، تاکہ کسی کی آپ پر نظر نہ پڑے _ مدینہ مکّہ کے شمال میں تھا ، لیکن آپ جنوب کی طرف روانہ ہوئے اور کچھ فاصلے پر واقع غار ثور میں جا چھپے _ وہاں تین دن مقیم رہے ، تاکہ آپ کے دشمن شمال میں آپ کو تلاش کرتے کرتے تھک کر مایوس ہوجائیں ، تب آپ اپنا سفر شروع کریں _ ایک طرف یہ تدبیریں تھیں دوسری طرف آپ کا توکّل تھا کہ جب دشمن آپ کو تلاش کرتے ہوئے غار کے دہانے پر پہنچ گئے اور ان کے قدموں کو دیکھ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پریشان ہوگئے تو آپ نے انھیں تسلّی دیتے ہوئے فرمایا : لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبۃ :40) ” غم نہ کر ، اللہ ہمارے ساتھ ہے _” دشمنوں سے ہر جنگ کے موقع پر آپ نے خوب تیّاری کی ، جتنے گھوڑے اونٹ دستیاب ہو سکتے تھے ، فراہم کیے ، تلوار ، تیر اور دیگر اسلحہ کا نظم کیا ، میدانِ جنگ کا باریکی سے جائزہ لے کر صفوں کو ترتیب دیا ، پھر ان تمام تدبیروں سے فارغ ہونے کے بعد دعا کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ اسوہ ہر مومن کو سکھاتا ہے کہ اس کی زندگی میں توکّل اور تدبیر کے درمیان توازن ہونا چاہیےـ
کورونا (Covid 19) نامی مرض کا قہر پوری دنیا میں جاری ہے _ تمام انسانی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں _ تمام لوگ خوف و دہشت میں مبتلا ہیں _ اس موقع پر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس مہلک بیماری سے تحفّظ کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کی جائے ، اس کے بعد امید رکھی جائے کہ اللہ تعالیٰ اس سے حفاظت فرمائے گا _ کورونا وائرس چھینک کے ذرّات کے ذریعے یا ہاتھ ملانے سے ایک شخص سے دوسرے تک پہنچتا اور اس کو متاثر کرتا ہے _ اس لیے چھینکتے وقت رومال یا ٹشو پیپر کا استعمال کیا جائے ، بھیڑ بھاڑ کی جگہوں سے بچا جائے ، فاصلہ رکھا جائے اور ہاتھ ملانے سے گریز کیا جائے _ یہ وائرس گندگی میں پنپتا ہے ، اس لیے صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائےـ
اس صورت حال میں توکّل اور تدبیر دونوں ضروری ہیں _ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تقدیر میں لکھ رکھا ہوگا وہ تو ہو کر رہے گا ، اگر اس بیماری میں مبتلا ہونا ہمارے مقدّر میں ہے تو تمام تدابیر اختیار کرنے کے باوجود اس سے نہیں بچا جا سکا ، اس لیے کسی طرح کے پرہیز اور احتیاط کی ضرورت نہیں ہے ، یہ عقیدۂ تقدیر کی غلط تعبیر ہے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل یہ رہا ہے اور یہی آپ نے اپنی امّت کو سکھایا ہے کہ تحفّظ کے تمام اسباب اختیار کیے جائیں اور تمام تدابیر پر عمل کیا جائے ، پھر اللہ پر توکّل کیا جائےـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:وائرس کے بڑھتے معاملات کے درمیان حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں۔حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ 22 مارچ سے ایک ہفتے کے لیے کوئی بھی بین الاقوامی طیارہ بھارت میں لینڈنہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے ایک مشاورت جاری کرکے 65 سال کے اوپر کے بزرگ اور بچوں کو گھر میں رہنے کی صلاح دی ہے۔ بتا دیں کہ ملک میں وائرس کی وجہ سے چار لوگوں کی موت ہو چکی ہے اور 195لوگ اس سے متاثرہیں۔ساتھ ہی اب تک 20 افراد اس بیماری سے ٹھیک ہوچکے ہیں۔بھارت نے ملک میں داخل ہو نے کے خواہاں غیر ملکیوں کے لیے ویزاپہلے ہی معطل کر دیاتھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے قوم کے نام خطاب سے کچھ وقت پہلے حکومت نے 65 سے اوپر کے شہریوں کو گھر میں رہنے کا مشورہ دیاہے۔اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ گھر میں رہیں اور 10 سال سے کم عمر کے بچوں کوباہرنکلنے نہ دیں۔ریلوے اور ایئر لائنز کو طالب علموں، مریضوں اور معذور افراد کے علاوہ تمام رعایتی سفر کو ملتوی کرنے کے لیے کہاگیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستوں کو ہنگامی اور ضروری خدمات کو چھوڑ کر، نجی شعبے کے لیے گھرسے کام لاگوکرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
نئی دہلی:دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے تمام ریستوران کو بند کرنے کاحکم دیاہے۔اس کے ساتھ ہی بیس سے زائدافرادکے جمع ہونے پرپابندی لگادی ہے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ وائرس کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے دہلی حکومت تمام مناسب اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ابھی تک 10 مریض پائے گئے ہیں۔ 2ٹھیک ہو گئے جبکہ ایک شخص کی موت ہوئی ہے۔انہوں نے کہاہے کہ ہمارے پاس 768 بستروں کی صلاحیت ہے جس میں 57 بھرے ہیں ابھی 711 بیڈ خالی ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے کہاہے کہ 550 بیڈ کا بندوبست کیاگیاہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ نے کہاہے ڈسچارج کرنے کے بعد لوگوں کے ہاتھ پرا سٹمپ لگائی جا رہی ہے۔لوگ اگرنگرانی کروانے سے بچناچاہتے ہیں تو ان کی گرفتاری بھی کی جا سکتی ہے۔ساتھ ہی کیجریوال نے لوگوں سے گھر سے کم از کم نکلنے کی بھی اپیل کی ہے۔انہوں نے کہاہے کہ کل صفدر جنگ میں خود کشی کاکیس ہوا۔لوگ ڈریں نہیں۔ بہت سے لوگ ٹھیک بھی ہو رہے ہیں۔شاہین باغ کے لوگوں سے بھی سی ایم نے ایک جگہ پر جمع نہ ہونے کی اپیل کی ہے۔اروند کیجریوال نے کہا کہ دہلی کی ضروری سروسز صرف جاری رہے گی، دفتروں کو لے کر کل فیصلہ لیاجائے گا۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ابھی تک 2 شفٹوں میں کام کیا جا رہا تھا۔صبح دس سے بارہ بجے تک اور شام کوساڑھے چار سے ساڑھے چھ بجے تک۔مجموعی طورپر 4 گھنٹے کام کیا جا رہا تھا لیکن اب صبح دس بجے سے لے کر شام کے چھ بجے تک یعنی 8 گھنٹے کام چلے گا۔سب صرف ڈیپو میں یہ کام چلے گا اور یہاں پر جاکر کوئی بھی اپنی گاڑی آٹو وغیرہ کی صفائی کروا سکتے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ کہ یہ ہر ایمان والے کا عقیدہ اور ایقان کامل ہے کہ اللہ خالق کائنات اور قادر مطلق ہی اکیلا نفع اور نقصان پہنچانے والا ہے اس کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔
تاہم اللہ نے اس دنیا کو دارالاسباب بنایا ہے ہر مسبب کا سبب، ایکشن کا ری ایکشن اور عمل کا ردعمل ہونا لازم اور اللہ کا اختیار کردہ طریقہ عادت ہے اور عموماً اللہ کی اس سنت میں تبدیلی نہیں ہوتی گرچہ ہر شئی اس کے ایک حکم کن فیکون کا محتاج ہے اسی لئے کبھی کبھی بعض خارق عادت بھی سرزد ہوتی ہے۔ اب اگر آگ ہے تو حسب عادت اس کا کام جلانا ہے اور پانی کا کام اس آگ کو بجھانا ہے۔ لیکن وہی آگ ابراہیم علیہ السلام کو حسب عادت جلا نہیں سکی اس لئے کہ اللہ نے اسے حکم دیا "يا نار كونى برداً و سلاما على ابراهيم”. یہ خرق عادت ہے۔
کورونا وائرس یہ ایک کیمیائی عمل اور ردعمل سے متعلق میڈیکل سائنس کی تحقیق کا مسئلہ ہے لیکن افسوس ہر کس و ناکس اس پر نہ صرف راۓ زنی کر رہا ہے بلکہ ” حماقت سے مزین ” عقلی گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ کسی کو اس وبائی مرض میں اقتصادی اور سیاسی سازش نظر آرہی ہے تو کسی کو مساجد میں قفل لگوانے کی چال تو کسی کو دینی مدارس پر اپنا اختیار مسلط کرنے اور کنٹرول کرنے کی طرف پہلا قدم تو کسی کو یہ نظر آیا کہ یہ مسلمانوں کو مصافحہ جیسی سنت سے باز رکھنے کی چال ہے !
جس زمانے میں ویڈیوز ایجاد ہونے کے بعد عام لوگوں تک پہنچا اس وقت ” دیندار” لوگوں کا ایک طبقہ کا کہنا تھا کہ جاپان نے حرمین شریفین میں سینما ہال بنانا چاہا تھا مگر سعودی حکومت نے اجازت نہیں دی تو جاپان نے ردعمل کے طور پر ویڈیوز ایجاد کرکے ہر گھر میں سینما ہال بنا دیا۔ جو لوگ اس خیالی جنت یا احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے مدارس کی افادیت یا اہمیت عصری تعلیم کی دنیا میں ذرہ برابر بھی نہیں ہے، آپ کے مصافحہ و معانقہ کرنے سے آپ کے دل کتنے جڑتے ہیں غیر مسلم اس کا مشاہدہ اۓ دن مسلم افراد، جماعتوں، تنظیموں اور ممالک کے انتشار کی شکل میں کرتے رہتے ہیں تو جب مسلمان اس قدر ٹکڑوں میں بنٹے ہوئے ہیں ہی تو مزید کورونا وائرس کی کیا ضرورت ہے؟
ہر شخص خواہ وہ کتنا ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو ، ہر میدان کا ماہر نہیں ہوتا اسی لئے ہر فن مولا بننے کی بجائے اپنی کم مائیگی کا اعتراف باعث شرمندگی نہیں باعث عزت و احترام ہوتا ہے۔ بڑے بڑے محدثین مفسرین فقہاء اور علماء کا حال یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی مسئلے کا جواب یاد نہیں ہوتا یا اس جواب میں انہیں شرح صدر نہیں ہوتا تو بلا تذبذب اعتراف کرتے اور کہتے کہ کتب کا مزید مطالعہ کرکے تحقیق کر کے بعد میں بتاؤں گا۔ جب ان کا یہ طریقہ خود ان کے اپنے میدان اختصاص اور میدان عمل میں یہ تھا تو جو ان کا میدان درس ، مطالعہ اور اختصاص نہیں اس پر رائے زنی کیوں کرتے۔۔۔۔۔۔ آج بھی علماء اور غیر علماء کو یہی رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اس وبائی امراض اور دیگر غیر متعلق مسائل پر بلا ساختہ کہ دیں کہ مسلمانوں کو متعلقہ محکمات ، میڈیکل سائنس اور وبائی امراض کے ماہرین کے مشوروں پر عمل کرنا چاہیے۔ دین اسلام کے نام پر بعض لوگوں کی جذباتی باتوں میں آکر اپنی جان اور دوسروں کی جان کو خطرہ میں نہ ڈالیں۔ توکل علی اللہ کا قطعاً یہ مفہوم نہیں ہے کہ آپ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں۔ موت کا وقت متعین ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دیں ۔ ایسا کرنے سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں صراحت سے منع کیا ہے ” و لا تلقوا بايديكم إلى التهلكة.. اپنے آپ کو ہلاک مت کرو ۔۔۔ اگر بہت زیادہ سگریٹ نوشی سے آپ کی جان جا سکتی ہے تو اس سے باز آجائیں۔۔۔ طاعون یا اس طرح کی کوئی وباء متعدی ہے تو حکم ہے کہ آپ اس قریہ شہر سے باہر نہ نکلیں اور نہ دوسرے اس شہر گاؤں کا رخ کریں جب تک وہ وباء ختم نہ ہو جائے۔ یعنی اس مرض کو وائرل نہ ہونے دیں۔ اللہ پر اعتماد کی غلط تشریح کرنے والوں اور موت و حیات صحت و بیماری بیشک اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اس کا غلط مفہوم بتا کر گمراہ کرنے والوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
سب سے پہلے تو مجھے یہ اعتراف کرلینے دیجیے کہ میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں جس کی یاسر پیرزادہ نے اپنے ایک مضمون میں کچھ یوں منظر کشی کی ہے: "ہمیں جب کوئی بیماری ہوتی ہے تو سب سے پہلے ہم اِس کا انکار کرتے ہیں کہ جھوٹ ہی ہو، اِس کے بعد جب تکلیف کچھ بڑھتی ہے تو ٹونے ٹوٹکے آزماتے ہیں، اِس سے آرام نہیں آتا تو پھر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ کسی موذی مرض کی علامات ہوں تو ٹیسٹ کروانے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا نکل آئے سو رہنے دو، حالاں کہ ٹیسٹ نہ کروانے سے بیماری غائب نہیں ہوتی وہیں رہتی ہے، لیکن ہم آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ قوموں کا مزاج بھی مختلف نہیں، کسی بھی وبائی مرض کے پھیلنے سے متعلق سب سے پہلے اِس کا انکار کیا جاتا ہے کہ خواہ مخواہ میڈیا ہوّا بنا رہا ہے، اِس کے بعد ڈھیلے ڈھالے انداز میں اعتراف کیا جاتا ہے، پھر کچھ اقدامات کیے جاتے ہیں، اِس کے بعد ناکامی کی صورت میں کوئی بہانہ تلاش کیا جاتا ہے یا کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے اور آخر میں جب وبا کسی بھی وجہ سے ختم ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دے کر خوش ہوتے ہیں کہ بڑا کام کیا ہے۔”
کرونا وائرس پر میرے کان اس وقت کھڑے ہوئے جب دہلی کے الیکشن اور اس کے فوراً بعد ہونے والے فسادات کا زور اخبارات، نیوزچینل اور سوشل میڈیا پر تھما ، اور اس کی جگہ کرونا وائرس نے رفتہ رفتہ بھرنی شروع کی۔ سوشل میڈیا بھی چونکہ بہت جلد ایک موضوع سے اکتا جاتا ہے، سو یہاں بھی کرونا وائرس تمام پرانے موضوعات کو ہڑپ کرتا چلا گیا اور ڈکار تک نہ لی۔ پھر کیا تھا، ہر مومن بے تیغ اس میدان کارزار میں داد شجاعت دیتا نظر آیا۔ کرونا کی طرف پوسٹ بھی "وائرل” ہونے لگے اور ہر دوسری تیسری پوسٹ کے نیچے سے دس بیس مسلمان اُبل اُبل کر باہر نکلتے نظر آئے۔ یا الٰہی، اتنے عقیدت مسلمان تو میں نے ایک ساتھ کبھی نہ دیکھے تھے اور میں تو کل تک جنھیں معقول حد تک پڑھا لکھا تصور کرتا تھا، وہ بھی امام ضامن باندھے بغیر اس ثواب جاریہ کی گنگا میں ہاتھ دھوتے دکھائی دیے۔ کون کہتا ہے کہ اسلام خطرے میں ہے، یہاں تو ایسے ایسے سورما نظر آئے کہ ان کے ہاتھوں میں جام شہادت بس چھلک پڑنے کو تیار تھا۔ کسی کے نزدیک یہ وائرس خدا کا عذاب ہے تو کوئی سائنس کو طعنہ دے کر خوش ہو رہا ہے۔ ابتدا میں ایسی تصویریں شیئر ہوئیں جن میں چینی باشندوں نے اس وائرس سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سر تا پا برساتی نما لبادے میں خود کو محصور کررکھا تھا۔ لوگوں کو فوراً اسلام یاد آگیا کہ چین نے چونکہ مسلم عورتوں کے نقاب پر پابندی لگادی تھی، چنانچہ اللہ نے بطور عذاب انھیں ایسے وائرس سے دوچار کردیا جس سے پورا چین نقاب لگانے پر مجبور ہو گیا، سبحان اللہ۔ اس وقت مجھے پل بھر کے لیے لگا کہ ہو نہ ہو کرونا وائرس کا ظہور "میرا جسم میری مرضی” والی عورتوں سے انتقام لینے کے لیے ہوا ہے لیکن ذہن میں ایک سوال اٹھا کہ پھر اس میں مردوں کا کیا قصورجو اللہ نے انھیں بھی نقاب پہننے پر مجبور کردیا؟ یاد آیا،ایسا ہی ایک ملتا جلتا واقعہ سوشل میڈیا میں وائرل ہوا تھاکہ آسٹریلیا کے جنگلوں میں لگنے والی آگ وہاں کے مسلمانوں کی نماز استسقا کے نتیجے میں ہونے والی بارش سے ٹھنڈی ہوئی۔ ابھی کچھ روز پہلے فیس بک پر کرونا وائرس کے حوالے سے ایک صاحب نے پوسٹ لگائی کہ مولانا مودودی نے فلاں فلاں کتاب میں لکھا ہے کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے، اگر میری موت کاتب تقدیر نے لکھ دی ہے تو مجھے کوئی بچا نہیں سکتا اور اس کے برعکس اگر میری زندگی ابھی باقی ہے تو کوئی بیماری میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ مجھ سے رہا نہ گیا تو میں صاحب پوسٹ کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ بھائی مودودی صاحب خود بھی اپنے اس کامل ایمان کے ساتھ نیویارک کے ایک اسپتال میں دل اور گردے کے علاج کے لیے ایڈمٹ ہوچکے تھے جہاں ان کا بیٹا خود ایک ڈاکٹر تھا۔ ظاہر ہے اس کے بعد صاحب پوسٹ نے مجھے بلاک کرکے سمجھ لیا کہ انھوں نے ایک وائرس کو ماردیا۔ مولانا طارق جمیل صاحب بھی اسی ذمرے میں شامل ہوتے ہیں، لوگوں کویہ بتاتے ہوئے نہیں تھک رہے کہ کرونا وائرس تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جب تک رضائے الٰہی نہ ہو لیکن خود طارق جمیل صاحب جب بھی علیل ہوتے ہیں تو پاکستان کی بجائے یورپ کے بہترین اسپتال میں اپنا علاج کرکے رضائے الٰہی کو "چیلنج” کرنے میں کوتاہی بھی نہیں برتتے۔ یہاں مثالوں کے ڈھیر لگانا مقصد نہیں ہے بلکہ عرض مدعا یہ ہے کہ ہمارے علما ساری زندگی مسلمانوں کو درس دیتے نہیں تھکتے کہ زندگی اور موت صرف خدائے برتر کے ہاتھوں میں ہے، تمھارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا جب تک وہ نہ چاہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کلونجی اور عجوہ کھجوروں کی گٹھلیوں کا سفوف بھی بنانے میں مصروف رہتے ہیں لیکن جب بھی وقت شہادت آیا، یورپ کے اسپتالوں کی طرف سب سے پہلے دوڑ لگادی۔
ابھی ابھی ایک اردو روزنامے کے تازہ ترین شمارے میں کرونا وائرس پر ایک ایمان افروز کالم پڑھ کر اٹھا ہوں۔ صاحب مضمون کو یہ وائرس مسلمانوں کے خلاف سازش نظر آرہا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو سرے سے گول کرگئے کہ مسلمانوں کے خلاف اس سازش میں مرنے والوں کی بڑی تعداد غیر مسلم کیوں ہے؟ انھوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اگر سعودی عرب میں بیت اللہ اور مسجد نبوی کے علاوہ تمام مساجد پر تالا لگا دیا گیا تو اس کا دیکھا دیکھی ویٹیکن سٹی میں تالا لگا کر چابی سمندر میں کیوں پھینک دیا گیا؟ حد تو یہ ہے کہ صاحب مضمون جوش ایمانی میں یہ بھی دعویٰ کر بیٹھے کہ اس وائرس کے فروغ میں شاہین باغ (دہلی) کے دشمنوں کا بھی ہاتھ ہے (ہنسنا منع ہے) لیکن وہ یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر مغربی اور غیر مسلم ممالک کے لاک ڈاؤن ہونے میں کس کی سازش ہے؟ میں نے کافی پہلے عرض کیا تھا کہ مسلمانوں کی قوت شامہ (سونگھنے کی حس) بہت تیز ہے، دنیا بھر کے مسلمان خواہ کسی بات پر آپس میں اتفاق رکھتے ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ اس ایک بات پر ضرور متفق ہیں کہ پوری دنیا اپنا سارا کام دھام چھوڑ چھاڑ کر ان کے خلاف روز و شب سازش میں مشغول ہے، خیر اس رویے پر "احیائے مذاہب: اتحاد، انتشار اور تصادم” کی تینوں جلدوں میں کافی سے زیادہ مواد موجود ہے، سو انھیں سونگھنے دیتے ہیں، ہم آگے بڑھتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ کرونا وائرس کا کوئی دین ایمان نہیں، اِس کے کوئی سیاسی نظریات نہیں اور یہ کسی سرحد کو نہیں مانتا اور اپنے مزاج کے اعتبار سے حد درجہ سیکولر ہے۔ آپ ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں یا بتوں کو پوجتے ہیں، پوپ ہیں یا وزیر، ایرانی ہیں یا سعودی، جوا خانہ چلاتے ہیں یا کلیسا میں سروس کرواتے ہیں، اگر آپ نے یا آپ کی حکومت نے احتیاط نہ کی تو یہ وائرس آپ کا لحاظ نہیں کرے گا۔
جولوگ سائنس کی برکات سے چوبیس گھنٹے استفادہ کرتے ہیں، جب وہ سائنس کے خلاف زبان کھولتے ہیں تو اول ان کی منافقت طشت از بام ہوجاتی ہے اور دوم ان کی جہالت پر سر پیٹنے کا جی کرتا ہے ۔ اے مرد مجاہد، کم سے کم یہ ابتدائی سبق تو یاد رکھتے کہ سائنس اور مذہب دونوں کا دائرہ کار علیحدہ ہے۔ جب بھی آپ مذہب کو سائنس کے اندر گھسیڑنے کی کوشش کریں گے تو منھ کی کھائیں گے، ماضی سے اس کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جو لوگ کرونا وائرس کے حوالے سے سائنس پر طعنے مار رہے ہیں، وہ یا تو جاہل مطلق ہیں یا پھر دنیا اور اس کی تاریخ سے بے خبر ہیں۔
چودھویں صدی کے طاعون کے بارے میں آپ جانتے ہیں؟ یہ وبا بھی چین سے شروع ہوئی تھی اور اٹلی پہنچ گئی، پھر پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وبا سے ساڑھے سات کروڑ سے بیس کروڑ تک لوگ مارے گئے تھے، انگلستان کی آبادی نصف ہو کر رہ گئی تھی۔ اس وقت بھی ہمارے اور آپ جیسے لوگوں کا یہی خیال تھا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ بہت سے عیسائیوں نے اس کا الزام یہودیوں پر لگایا، جن پادریوں نے اسے اللہ کا عذاب قرار دیا، وہ خود بھی اس وبا میں مبتلا ہو کر مرگئے، چرچ سنسان ہوگئے۔ لیکن اس وقت کسی کے وہم و گمان تک میں نہ تھا کہ اس بیماری کا تعلق بیکٹیریا سے ہے اور آج اینٹی بائیوٹک کی وجہ سے طاعون ایک قابل علاج بیماری ہے۔
چیچک نےبھی ایک لاعلاج بیماری بن کر انسانی آبادی پر شب خون مارا۔ اس دور میں پیدا ہونے والے کسی بچے کا نام سات دنوں تک نہیں رکھا جاتا تھا جب تک اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ بچہ چیچک سے آزاد ہے، چونکہ 18 ویں صدی تک سویڈن اور فرانس میں پیدا ہونے والا ہر دسواں بچہ اور روس میں ہر ساتواں بچہ اس بیماری سے مرجاتا تھا۔ اس صدی میں صرف یورپ میں چھ کروڑ لوگ چیچک سے ہلاک ہوئے۔ پچاس کی دہائی تک ہر سال پانچ کروڑ لوگ چیچک کا شکار ہوا کرتے تھے۔ چیچک کا آخری مریض 1977 میں صومالیہ میں پایا گیااور یہ لاعلاج بیماری بھی دعائے شفا کے سبب نہیں بلکہ سائنس دانوں کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔ ایسی کتنی ہی بیماریاں ہیں جو کل تک لاعلاج تھیں، انھیں میڈیکل سائنس نے ہی شکست دی مثلاً پولیو، کالی کھانسی، خناق، ٹی بی، ٹائفائڈ، سوائن فلو، برڈ فلو، ڈینگی وائرس ، کانگو وائرسحتیٰ کہ لوگ کتے کے کاٹنے سے بھی مرجایا کرتے تھے، مزے کی بات یہ ہے کہ اب وہی لوگ بچنے کے بعد سائنس پر بھونک رہے ہیں۔ بلاشبہ اب بھی ہمارے درمیان کئی لاعلاج بیماریاں موجود ہیں جس سے عالم انسانیت کو نجات دلانے کے لیے دنیا بھر کے سائنس داں شب و روز تحقیق میں مصروف ہیں، اور کچھ بیماریوں کے علاج میں مثبت پیش رفت بھی ہمیں نظر آرہی ہے، مثلاً کئی قسم کے کینسر کا بھی علاج اب تقریباً ممکن ہوچلا ہے اور کئی مریض مکمل صحت یاب ہو کر اپنی نئی زندگی شروع کرچکے ہیں۔
ان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جو ہر مسئلے کو کلمہ پڑھوا کر اسے قرآن و سنت سے جوڑ کر دیکھنا پسند کرتا ہے، خواہ اس کی عملی زندگی ان دونوں سے کتنی ہی خالی کیوں نہ ہو۔ کرونا وائرس کے حوالے سے بھی ایسے لوگ بڑی معصومیت سے آپ کو کہتے نظر آئیں گے کہ بھائی سنت سے "احتیاط” ثابت ہے، یا پھر بڑے فخر سے سینہ چوڑا کرتے ہوئے کہیں گے کہ اسلام میں تو صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے لیکن اگر آپ ان سے دریافت کرنے کی جسارت کریں کہ اے میرے بھائی، کیا "احتیاط” اور "صفائی” اسلام کے ایجادات ہیں، کیا ان دونوں کا وجود اسلام سے پہلے نہیں تھا؟ اور کیا اگر اسلام میں بیماری سے احتیاط اور صفائی کو نصف ایمان نہ کہا جاتا تو آپ بیماری اور غلاظت کو دعوت دیتے، کیا صفائی اور ایمان پر آپ صرف اس لیے عمل کررہے ہیں چونکہ یہ سنت ہیں؟ اس کا مطلب یہ کہ دنیا کی باقی آبادی جو ان دونوں چیزوں پر آپ سے زیادہ عمل پیرا ہے، کیا وہ بھی سنت پر عمل کررہی ہے؟ حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ مہذب اور ترقی یافتہ قوموں کا صفائی پر ایمان نصف نہیں بلکہ کامل ہے۔ ان کے محلوں سے اپنی بستیوں کا مقابلہ کریں تو آپ کی طبیعت ہری ہوجائے گی۔ آپ میں سے شاید بیشتر جمعہ کے جمعہ غسل کرنا سنت سمجھتے ہوں، جب کہ وہ ہر روز بغیر نہائے کچن کا رخ تک نہیں کرتے۔ آپ محفلوں میں بیٹھ کر ناک میں اپنی انگلی گھسا کر گھماتے ہوئے روحانی سکون محسوس کرتے ہیں، قلم اور ٹوتھ پک سے کان میں خلال کرتے نہیں شرماتے، کھانستے ہیں تو منھ پر ہاتھ تک نہیں رکھتے، چھینک آئے تو منھ سے گولی کی طرح چھوٹا تھوک کا فوارہ سامنے بیٹھے لوگوں کے چہرے پر گلاب پاشی کرتا ہے، پاخانہ کرنے کے بعد میں نے کئی لوگوں کو ہاتھ تک دھوتے نہیں دیکھا اور اکثر لوگوں کو صرف رسم ادا کرتے دیکھا۔ خیر، مجلسوں میں بیٹھے بیٹھے بار بار زیر ناف کھجانا اور مختلف سُروں میں پادنا تو عام بات ہے۔ تو یہ ہے صفائی پر آپ کے نصف ایمان کی ایک ناتمام جھلک جو صرف چرب زبانی کے وقت بطور حوالہ کام آتی ہے۔ فیس بک پر ایک دوست نے بتایا کہ انھوں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ باتھ روم گئے تھے، کیا آپ نے اپنے ہاتھ صابن سے دھوئے؟ ان صاحب نے جواب دیا، صابن تو استعمال نہیں کیا ، البتہ سات مرتبہ کلمہ ضرور پڑھ لیا تھا۔ بقول میرے دوست، اس عمل سے وائرس مسلمان تو ہوگیا ہوگا مگر مرا نہیں ہوگا۔
خاطر جمع رکھیے، دنیا بھر کے سائنس داں اس وقت کرونا وائرس کا علاج ڈھونڈنے کے لیے شب و روز تحقیق کررہے ہیں، کچھ ضمنی کامیابی بھی مل چکی ہے بلکہ انسانی جسم پر ان ویکسین کے ٹیسٹ بھی شروع ہوچکے ہیں۔دو بچوں کی عظیم ماں جینیفر ہیلر جس نےکروناویکسین کے تجربہ کے لیے خودکو رضاکارانہ طورپہ پیش کیا، واضح رہے کہ تجربہ کی ناکامی کی صورت میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ٹیسٹ کی اس مہم میں خود کو رضاکارانہ طور پہ پیش کرنے والوں کی تعداد 40 سے زائد ہے، لیکں افسوس اس تعداد میں "محسن انسانیت” کا ایک بھی امتی شامل نہیں ہے اور نہ ہی ان میں سے ایک بھی ‘رضائے الٰہی’ کا دعویٰ کرنے والا موجود ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ طارق جمیل جیسے صاحب ایمان حضرات اس فرض کفایہ کو ادا کرتے اور عالم انسانیت کے کام آتے۔
لیکن مجھے خوب اچھی طرح علم ہے کہ جو لوگ ہر مصیبت کا الزام اللہ پر ڈال دیتے ہیں اور ہر دنیاوی مسائل کا حل رسول اللہ کے قول و فعل میں تلاش کرتے ہیں، وہ صرف گفتگو کے غازی ہیں۔ دراصل ایسے لوگ کاہل الوجود ہوتے ہیں جو اپنی تمام ذمہ داریوں کا بوجھ اللہ اور رسول پر ڈال کر مبرا ہوجاتے ہیں، دراصل تقدس ایک بہانے یا عذر لنگ کی شکل اس وقت لے لیتا ہے جب انسان ہر ذمہ داری اور آزمائش سے ڈر کر راہ فرار ڈھونڈتا ہے اور اپنی کاہلی اور نااہلیت کو مذہب کے پردے کے پیچھے چھپانا چاہتا ہے۔ یہ طریقہ مجذوبیت کا ہے جب آدمی دنیا سے کنارہ کش ہو کر غاروں ، جنگلوں اور حجروں میں خود کو قید کرلیتا ہے اور دنیا سے اپنا رشتہ توڑ لیتا ہے۔ کیا آپ کو رسول اللہ کی وہ حدیث یاد نہیں کہ جب لوگ اپنے دنیاوی مسائل کا حل ڈھونڈنے رسول کے پاس آنے لگے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تمھارے پاس دین لے کر آیا ہوں، تم اپنے دنیاوی مسائل خود حل کرلیا کرو اوروہ تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔ میں پہلے بھی اثبات کے گزشتہ خاص شمارہ "احیائے مذاہب: اتحاد، انتشار اور تصادم” (جلددوم) کے ادریے میں عرض کرچکا ہوں ، پھر دہراتا ہوں کہ جب تک ہم خوفریبیوں کو ترک کرکے ماضی کے مفروضوں سے نجات حاصل نہیں کرتے، ہماری حالت بہتر ہونے کی بجائے بگڑتی چلی جائے گی۔ ہمارے ہاں یہ رویہ عام ہوچکا ہے کہ ہر دنیاوی مسائل کے حل کے لیے ہم قدیم مذہبی سند تلاش کرتے ہیں۔ کیا واقعی اس کی ضرورت ہے اور کیا خود رسول اللہ نے ہر مسئلے پر مذہبی روایت اور سند کی بنیاد پر کام کیا ، یا دین کے آفاقی افکار و نظریات کی روشنی میں معاملات کو دیکھا اور اپنے دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق سماجی مسائل کے بارے میں ایک طرز عمل اختیار کیا ؟ کیا ہم یہ بھی بھول گئے کہ رسول اللہ نے صحابہ کرام کی تربیت اس نہج پر کی تھی کہ وہ کوئی کام کسی مذہبی سند کے بغیر بھی انجام دے سکیں۔ مختصراً یہ کہ جن امور پر دین نے کوئی قد غن نہیں لگائی، ان کے لیے دینی سند تلاش کرکے ان کو مذہبی لباس پہنانا بذات خود ایک بدعت ہے چونکہ ہم اس بنیادی بات کو بھول گئے کہ دنیا اور اس کے مظاہر تبدیل ہوتے رہتے ہیں، ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ کون سی چیز وقت کے ساتھ بدلتی ہے اور کون سی نہیں بدلتی۔ اصولوں سے تجاوز کرکے ہر مسئلے کے لیے مذہبی ماضی کی مقدس سند کو تلا ش کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرے سے مذہب آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتا چلا گیا اور شدت پسندی مذہب کی پہچان بنتی گئی۔
ماضی سے صرف اصول مل سکتا ہے، ضروری نہیں کہ مثال بھی ملے۔ مثلاً انسانی علوم ؛ میڈیکل سائنس، فزیکل سائنس اور نیچرل سائنس سے ہم سب بے پناہ استفادہ کرتے ہیں لیکن کیا ان کے استعمال کے لیے ماضی سے کوئی مقدس سند مل سکتی ہے؟ ابھی کچھ دنوں پہلے کرونا وائرس کے تعلق سے کچھ علما اور مذہب پرستوں کے بیانات سامنے آئے کہ اسلام چونکہ چھوا چھوت ماننے سے انکار کرتا ہے، اس لیے ہم اجتماعات پر پابندی کے خلاف ہیں۔ "اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا”، ارے میاں صاحب یہاں بات نسلی چھوا چھوت کی نہیں ہو رہی ہے بلکہ ایک وائرل بیماری کی ہو رہی ہے جو ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتا ہے، کیا مقدس اسنا د میں چھوا چھوت کا ذکر وائرل بیماریوں کے لیے ہوا ہے یا نسلی بنیادوں پر سماجی تفریق اور علیحدگی سے اجتناب منشا ہے؟ اور اگر پھر بھی آپ اپنے موقف پر بضد ہیں کہ کرونا وائرس وائرل نہیں ہے تو پھر دیر کس بات کی، اپنے اسی ایمان کے سہارے چین یا اٹلی کا ایک راؤنڈ لگا آئیے، تاکہ آپ دنیا پر اپنے موقف کی حقانیت ثابت کرسکیں اور عالم انسانیت آپ کی اس عظیم دریافت پر تاقیامت شکرگزار رہے۔
آخر میں ایک بات کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کرونا وائرس بلاشبہ ایک مہلک اور وائرل وبا کی طرح ہم پر ٹوٹا ہے لیکن جس طرح ہر تخریب میں کچھ نہ کچھ تعمیر کا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے، سو اس میں بھی موجود ہے۔ کرونا وائرس نے ہمیں پہلے کے مقابلے زیادہ مہذب اور عملیت پسند بنا دیا ہے، اب ہم صابن سے ہاتھ دھونے لگے ہیں، سیناٹائزر کا بھی استعمال کرنے لگے ہیں، دوسروں کے منھ پر کھانسنے اور چھینکنے کی بجائے ٹشو پیپر یا رومال کی تاکید کی جارہی ہے بلکہ اب تو ماسک کا لگانا فیشن بن چکا ہے ۔ اس کے علاوہ جو سب سے بڑی انقلابی تبدیلی ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں، وہ یہ کہ دنیا بھر میں مذہبی نقطہ نظر سے "احتیاط” کا دائرہ کافی وسیع ہوا ہے۔ ایسے تمام مقدس مقامات جہاں عموماًاجتماعیت کا غلبہ ہوتا ہے، وہاں پابندی لگا دی گئی ہے۔ شروع میں بیت اللہ پر عمرے کی پابندی نے لوگوں کو بے چین کیا لیکن پھر دیکھتے دیکھتے کئی ملکوں اور شہروں کی مسجدوں تک نے اسی طرز پر عمل کرنا شروع کردیا۔ ایک خبر کے مطابق کویت کی مسجدوں میں اذان میں "الصلوٰۃ فی بیوتم” (نماز اپنے گھر میں) کا اضافہ کردیا گیا ہے، یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ہر آن جن لوگوں کو اسلام خطرے میں نظر آتا تھا، وہ اب اس اضافے پر مصلحتاً خاموش ہیں اور حکمت عملی کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت بیت اللہ کو آب زم زم (کل تک جس میں کئی بیماریوں کا علاج پوشیدہ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے) کی بجائے انسانی ہاتھوں سے تیار شدہ کیمیکل سے سیناٹائز کیا گیا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ آفت صرف مسلمانوں پر ٹوٹی ہے بلکہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ کرونا وائرس اپنے حملے میں مساوات کا قائل اور غیر جانبدار واقع ہوا ہے؛ ویٹیکن سٹی، مندر، گردوارے ، زیارت گاہیں، چرچ وغیرہ سب پر اس نے بلا تخصیص مذہب و ملت یکساں کاروائی کی ہے۔بہرحال، دنیا میں اس وائرس کے آنے سے ہمارے معاشرے میں عملیت پسندی کا زور بڑھا ہے جو اس حقیقت کی جانب خوشگوار اشارہ کررہا ہے کہ آج کا انسان سمجھ چکا ہے کہ بیماریاں آسمانوں سے نہیں اترتیں بلکہ یہیں زمین پر خلق ہوتی ہیں جس کا توڑ بھی انسان ہی نکالتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)