نئی دہلی:دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے منگل کو ڈیجیٹل پریس کانفرنس کی۔ اس دوران انہوں نے کہاکہ ملک کی ہر حکومت مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر اپنی ریاست کے غریب عوام میں راشن تقسیم کرتی ہے۔ جب سے ملک میں راشن کی تقسیم کا آغاز ہوا،اس وقت سے غریب عوام کو راشن لینے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کبھی آپ کو بند دکان ملتی ہے اور کبھی ملاوٹ ملتی ہے، کبھی رقم زیادہ لے لیتے ہیں۔ گزشتہ5 سالوں میں ہم نے راشن کے انتظام میں بہت ساری اصلاحات کیں۔انہوں نے مزید کہاکہ آج ہماری کابینہ نے جو فیصلے لئے ہیں وہ کسی انقلابی فیصلے سے کم نہیں ہیں۔ آج ہم نے دہلی میں راشن کی اسٹپ ڈلیوری آف راشن کی اسکیم کو منظوری دے دی ہے۔ اس اسکیم کا نام ’وزیر اعلی گھر گھر راشن اسکیم‘ہوگا۔ اس اسکیم کے تحت اب لوگوں کو راشن دوکان میں نہیں آنا پڑے گا، لیکن راشن عزت کے ساتھ لوگوں کے گھر پہنچایا جائے گا۔ ایف سی آئی کے گودام سے گندم اٹھایا جائے گا اور آٹا پسوایاجائے گا۔ چاول اور چینی وغیرہ بھی پیکنگ کی جائے گی اور لوگوں کو گھر گھر پہنچایا جائے گا۔سی ایم کیجریوال نے کہاکہ لوگوں کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ جو بھی دکان پر جاکر راشن لینا چاہتا ہے وہ جا سکتا ہے اور اگر وہ ہوم ڈلیوری چاہتا ہے تو وہ اس اسکیم کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ہوم ڈلیوری راشن اگلے چھ سے 7 ماہ میں شروع ہوگی۔ ہوم ڈیلیوری میں گندم کے بجائے آٹا دیا جائے گا جس دن دہلی میں راشن کی ہوم ڈیلیوری شروع ہوگی، دہلی میں مرکزی حکومت کی ون نیشن ون راشن کارڈ اسکیم نافذ ہوگی۔
Cm delhi
کیجریوال کی اسپتالوں سے اپیل:کورونا سے صحت یاب ہونے والے لوگوں کو پلازما دینے کے لیے کہیں
نئی دہلی:دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے پیر کو اسپتالوں سے اپیل کی ہے کہ کورونا سے ٹھیک ہونے والے مریضوں کو 14 دن کے بعد پلازما کا عطیہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی میں پلازما بینک کے شروعات ہونے کے بعد گذشتہ 4-5 دنوں میں پلازما کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہاں پلازمادینے والوں کی کمی ہے۔وزیر اعلی نے اسپتالوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے صحت مند مریضوں کو ایسا کرنے کی ترغیب دیں۔ انہوں نے کہا کہ دہلی میں کورونا کے 15000 بستر ہیں جن میں 5100 مریضوں کا علاج ہورہا ہے۔ واضح رہے ریاست میں کورونا کا انفیکشن تیزی سے پھیل رہا ہے۔سی ایم نے کہا کہ اب اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ جون تک جہاں 100 میں سے 35 افراد انفیکشن میں مبتلا تھے، اب 100 میں سے صرف 11 افراد ہی متاثرہو رہے ہیں۔سی ایم کیجریوال نے کہاکہ دہلی میں کورونا صورتحال بہتر ہورہی ہے۔ اب تک یہاں کے 72 ہزار افراد اس انفیکشن کے ٹھیک ہو چکے ہیں۔ اب اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اب صرف 11 مریض 100 میں مل رہے ہیں جون تک 100 مریضوں 35 مریض مل رہے تھے۔کیجریوال نے مزید کہا کہ اس وقت 5100 بستروں میں کورونا مریض ہیں۔ دہلی میں ٹیسٹنگ اور بیڈ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ روزانہ 20 سے 24 ہزار ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ سی ایم کیجریوال نے کہا کہ ہم نے ملک میں پہلا پلازما بینک بنایا ہے۔ جب تک کہ کوئی ویکسین موجود نہیں ہے پلازما تھریپی ضروری ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے پلازما کا عطیہ کرنے کی اپیل کر رہا ہوں۔ پلازما کا عطیہ کرنے کیلئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پلازما بینک تک پہنچنے کے لیے حکومت آپ کے اخراجات برداشت کرے گی۔ زیادہ تر افراد جو ٹھیک ہوچکے ہیں انہیں پلازما دیناچاہئے۔
نئی دہلی:دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کورونا وائرس کے معاملے پرکہا کہ اب دہلی میں صورتحال قابو میں ہے، یہ دہلی والوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دہلی میں 15 ہزار کے قریب بستر ہیں اور کسی بھی طرح کی کمی نہیں ہے۔کورونا کی صورتحال پر دہلی کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آج مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور صحت یاب ہونے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ آج دہلی میں 67 فیصد مریض ٹھیک ہوگئے ہیں۔اروند کیجریوال نے بتایا کہ اس سے پہلے اگر سو افراد کا ٹیسٹ ہوتا تو 31 افراد کورونا سے متاثر ہوتے لیکن آج صرف 13 افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ تاہم کیجریوال نے یہ بھی کہا کہ کہ اس کو دیکھ کر کسی کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ابھی بھی سختی سے کام لیا جائے گا۔اروند کیجریوال نے کہا کہ کچھ ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ کورونا کا قہر آکر چلا گیا ہے، لیکن میں لوگوں سے کہوں گا، ان پر توجہ نہ دیں۔ لوگ اب بھی ماسک پہنتے رہیں، ہاتھ دھوتے رہیں اور قوانین پر عمل کرتے رہیں، کیوں کہ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ صورتحال پھر خراب ہوجائے۔
نئی دہلی:دہلی میں بڑھتے ہوئے کورونا کیس کے حوالے سے الزامات اور جوابی ردعمل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔گجرات کی صورت حال پرکوئی چرچانہیں ہورہی ہے اوربی جے پی احمدآبادکی بدحالی پرکوئی سوال نہیں اٹھارہی ہے۔سابق کرکٹر اوربھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے رکن پارلیمنٹ گوتم گمبھیر نے کہاہے کہ دہلی کی حالت تشویشناک ہے۔ کیجریوال حکومت کوپوراکھول نہیں دینا چاہیے تھا۔ اس کے بعد سے شراب کی دکانیں کھل گئیں ۔صورتحال اب تک ٹھیک نہیں ہوسکی۔بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ گوتم گمبھیر نے کہاہے کہ آپ (سی ایم اروند کیجریوال) کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک کروڑ لوگوں کو کھانے کا اناج دے رہے ہیں ، اگلے دن 25 لاکھ لوگ وہاں سے چلے گئے۔ حکومت نے دعویٰ کیاہے کہ ہم لوگوں کو کھانا کھلا رہے ہیں ، لیکن آج تک باورچی خانے کے بارے میں معلومات نہیں دی گئیں۔ صورتحال بہت خراب ہے۔ عام لوگوں کو پریشانی کاسامناہے۔گوتم گمبھیر نے کہا کہ کوئی بھی سیاستدان یا مشہور شخص کومسئلہ نہیں ہوسکتا۔ انہیں اسپتالوں میں بستر ملیں گے ، لیکن عام آدمی کو پریشانی ہوگی۔ انہیں بسترنہیں مل رہے ہیں۔ لوگوں کو ایک بہت بڑی پریشانی ہے۔ کیجریوال حکومت نے دعویٰ کیاہے کہ 30 ہزار بیڈ کا انتظام کیا گیا ہے ، لیکن زمینی حقیقت کچھ اورہے۔
نئی دہلی:ملک کی راجدھانی دہلی میں کوروناوائرس کے مسلسل بڑھتے ہوئے معاملات کے درمیان حکومت کی جانب سے کئے گئے انتظاموں کو لے کر ریاست کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ دہلی میں کورونا کے معاملوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے، لیکن فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم مکمل طور پر تیار ہیں۔ہم ریاست میں مستقل لاک ڈاؤن نہیں کر سکتے ہیں۔کیجریوال نے کہا کہ کورونا کے معاملے بڑھنے تشویش ہے لیکن ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری حکومت کوروناوایرس سے چار قدم آگے ہے۔وزیر اعلی کیجریوال نے کہا کہ کوروناوائرس رہے گا اس لیے اس کے ساتھ رہنے کا انتظام کرنا پڑے گا۔دہلی کے وزیر اعلیٰ ہونے کے ناطے دو چیزوں پر میری فکر ہوگی۔پہلی اگر موت کے اعداد و شمار تیزی سے بڑھنے لگے اور دوسراکورونا کے مریض زیادہ ہو ں اور بیڈکم ہوں۔ دہلی میں گزشتہ چند دن سے روزانہ 1000 سے زیادہ لوگ کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں۔ایسے حالات میں وزیر اعلی کیجریوال کی یہ کانفرنس اہم مانی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر انتظامات کم پڑ گیا تو موت سے بھی زیادہ ہوں گی۔گزشتہ ایک ہفتے میں ہم نے بیڈ کاکافی انتظام کر لیا۔17386 میں سے 2100 مریض اسپتال میں ہیں، باقی گھروں میں کووارنٹین سنٹر میں ہیں۔آج تک 6600 بیڈ کا انتظام ہو گیا ہے۔ایک ہفتہ پہلے 4500 بیڈ کا انتظام کیا گیا۔گزشتہ ایک ہفتے میں ہم نے مزید 2100 بیڈوں کا انتظام کر لیا ہے۔9500 بیڈ اگلے ایک ہفتے میں اور تیار ہو جائیں گے۔پرائیویٹ بیڈ 677 سے بڑھا کر 2677 بیڈ کر دیئے ہیں۔5 جون تک پرائیویٹ میں 3677 بیڈ ہو جائیں گے۔ دہلی کے وزیر اعلی نے کہا کہ جتنے لوگوں کو کورونا ہو رہا ہے زیادہ تر لوگ بغیر علامات والے تھے اس لیے گھروں میں ہیں زیادہ تر لوگ ٹھیک ہو رہے ہیں۔اگر کسی کے گھر میں کورونا مریض ہو تو وہ کہاں جائے کیونکہ لوگوں کو اس بارے میں معلومات نہیں ہوتی۔ ایک ایپ بنا لیا ہے۔پیر کو اس کو لانچ کریں گے۔یہ بتائے گا کہ کس اسپتال میں کتنے بیڈ ہیں کتنے خالی ہیں یا کتنے وینٹی لیٹر ہیں اور کتنے خالی ہیں۔گزشتہ دنوں کچھ ایسے معاملے آئے جس میں مریض پریشان ہوتا رہا اور اس کو اچھے وینٹی لیٹر نہیں ملا اور دوسری طرف ہم یہ کہتے رہے کہ بیڈ اور وینٹی لیٹر خوب دستیاب ہیں۔سی ایم نے کہا کہ گندی سیاست کی وجہ سے کچھ لوگ گمراہ کرنے والے ویڈیو بناتے ہیں ویڈیو کہیں اور کا ہوتا ہے۔صبح سے ایک ویڈیو چل رہا ہے جس میں کہا جا رہا ہے دیکھئے کتنی لاشیں ہیں۔کسی نے ایک ویڈیو بنا دیا اور کہا کہ دیکھے دہلی حکومت کے اسپتال میں کتنا گندی کھانا پتہ لگا وہ اسپتال دہلی حکومت کا ہے ہی نہیں۔ کیجریوال نے کہا کہ ڈاکٹر اور نرس نے محنت کرکے موت کے اعداد و شمار کو اتنا کم رکھا ہوا ہے اس کے بعد ہم یہ ویڈیو بناتے ہیں کہ دیکھئے لاشیں۔فرضی ویڈیو چل رہے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر کوئی صحیح ویڈیوز آئے گا تو میں اس پر کارروائی کروں گا۔کوروناوائرس کا قہر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔وزارت صحت کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ہفتے کی صبح تک ملک میں 173763 مریض سامنے آئے ہیں، جبکہ 4971 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ 24 گھنٹے میں سب سے زیادہ نئے کیس اور سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔24 گھنٹے میں 7964 نئے کیس سامنے آئے ہیں جبکہ 265 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ حالانکہ 82370 مریض اس بیماری کو شکست دینے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
ہم اتنے غیر متمدن نہیں ہیں کہ کسی کی نیک خواہشات کو ٹھکرادیں۔ہم تو کھلے دشمن کی ایک مسکراہٹ پر بھی اپنا سب کچھ نچھاور کردیتے ہیں ۔ مگر ہمیں آپ کی "عید کی مبارکباد” قبول نہیں ہے مسٹر کجریوال!
آپ کی عید کی مبارکباد ہمیں اس لئے قبول نہیں ہے کہ:
1- آپ نے بی جے پی کے بدزبان کپل مشرا’ انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کو دہلی کا ماحول خراب کرنے کی کھلی چھوٹ دی۔
2- انہوں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا مگر آپ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔تسلیم کہ آپ کے پاس پولس نہیں ہے۔لیکن آپ کے پاس ہوم ڈیپارٹمنٹ ہے’ آپ کے پاس لا ڈیپارٹمنٹ ہے۔آپ دہلی سرکار کی طرف سے ان تینوں کے خلاف FIR کراسکتے تھے۔آپ نے کنہیا کمار کے خلاف ” ملک سے غداری” کا مقدمہ چلانے کی اجازت تو دیدی لیکن ان تینوں کے خلاف ایک ورق کی شکایت درج نہیں کرائی۔
3- آپ نے 24 فروری کا مشرقی دہلی کا مسلم کش فساد برپا ہونے دیا ۔ آپ آج تک فساد زدگان سے ملنے یا ان کا حال پوچھنے نہیں گئے ۔
4- آپ نے بی جے پی کی اس تھیوری پر یقین کرکے اپنے ایک مسلم کونسلر کو برطرف کرکے گرفتار کرادیا کہ ایک آئی بی افسر کے قتل میں اس کا ہاتھ تھا۔جبکہ وہ اپنی بے گناہی کے کئی ٹھوس ثبوت پیش کرتا رہا۔
5- آپ نے مقتول آئی بی افسر کو ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا مگر جو بے گناہ شرپسندوں کی بھینٹ چڑھ گئے ان کی کوئی فکر آپ نے نہیں کی۔
6- 16 مساجد اور چار مزاروں کی بے مثال تباہی وبربادی کی گئی لیکن آپ نے ایک مسجد کا بھی دورہ نہیں کیا۔یہی نہیں آپ کا کوئی وزیر بھی اُدھر کو نہیں پھٹکا۔
7- دہلی سرکار نے لٹے پٹے لوگوں کے لئے کوئی کیمپ نہیں لگایا بلکہ جو کیمپ دہلی وقف بورڈ نے لگایا اسے آپ نے اپنی سرکار کے کھاتے میں ڈال لیا۔
8- لیکن جب آپ نے دیکھا کہ وقف بورڈ کا چیرمین ایک کروڑ کے آس پاس کا چندہ کرکے فساد زدگان کی مدد میں "حد” سے آگے بڑھ گیا ہے تو آپ نے ٹکنکل گراؤنڈ کا بہانہ لے کر اسے چیرمین شپ سے ہٹادیا۔60 تباہ حال گھرانے ایک ایک لاکھ کی نقد مدد سے محروم رہ گئے ۔
9- دہلی وقف بورڈ کے ائمہ کی پانچ مہینوں کی تنخواہیں کافی لیت ولعل اور بھاگ دوڑ کے بعد جاری کی گئیں لیکن درخواست کے باوجود آپ نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔
10- دہلی وقف بورڈ کے غیر مستقل درجنوں ملازمین کی تنخواہیں آج تک ادا نہیں کی گئی ہیں ۔چیر مین کی ایما پر آپ نے جن غیر وقف مسجدوں کے ائمہ کی تنخواہوں کا الیکشن سے پہلے اعلان کیا تھا وہ تنخواہیں بھی اٹک گئی ہیں۔ آپ کے افسران کھلے طور پر بی جے پی کے اشاروں پر وقف بورڈ کو بدحالی کے غار میں ڈھکیلتے جارہے ہیں ۔
11- کورونا جیسی وبا کو آپ نے تبلیغی جماعت کا سہارا لے کر مسلمانوں کو مطعون کرنے کیلئے استعمال کیا ۔ اس پر چینلوں نے جو دہشت گردی مچائی اس کا زور کم کرنے کیلئے آپ نے کچھ نہیں کیا۔ پورے ملک میں آپ نے مسلمانوں کو نشانہ پر رکھوادیا۔
12- 30 فیصد کورونا پھیلانے کے الزام میں آپ نے جماعت کے جن دوہزار سے زائد افراد کو "پکڑا” تھا انہیں دومہینوں تک سینٹروں میں ستایا جاتا رہا۔ ان میں سے بیشتر کی رپورٹ منفی آنے کے بعد آپ نے نہیں بتایا کہ کتنے فیصد ٹھیک ہوگئے ۔
13- آپ نے نہیں بتایا کہ دہلی میں 70 فیصد کورونا آخر کس نے پھیلایا۔ لیکن 30 فیصد کا ذکر آپ نے خوب اہتمام سے کیا۔
14- دہلی میں آپ کی اس "زہریلی” پالیسی کے سبب مسلم سبزی فروشوں کے ساتھ تعصب برتا گیا’ مارپیٹ کی گئی۔ یہاں تک کہ ان کے پھل لوٹ لئے گئے مگر آپ نے نہ تو ان پریشان حال مزدوروں کا تحفظ کیا اور نہ ان کے حق میں دو بول بولے۔
15- مشرقی دہلی کے فساد زدگان پر لاک ڈاؤن کے دوران ایک اور قیامت ڈھائی گئی۔ نوجوانوں اور بچوں کو اٹھایا گیا ۔لیکن آپ نے لبوں کو جنبش نہیں دی۔
ایسے میں بتائیے کہ عید کی خوشیاں کون منائے گا؟
ابھی نہیں معلوم کہ آپ کے اور کتنے رنگ دیکھنے کو ملیں، ابھی تو مرکز کی بی جے پی حکومت کی طرح آپ کی حکومت کے پاس بھی کافی وقت ہے۔آپ سے جو امیدیں باندھی تھیں وہ مذکورہ 15 واقعات کے سبب ہوا ہوگئی ہیں ۔ ایسے میں بتائیے کہ ہم آپ کی خالی پھیکی مبارکباد قبول کرکے کیا کریں؟ یہ عید یوں بھی 60 دنوں کے جاں توڑ لاک ڈاؤن کے بعد آئی ہے اور لوگ عیدگاہ میں نماز ادا کرنے سے محروم ہیں تو وہ آپ کی مبارکباد قبول نہ کرکے کسی بڑے انعام سے محروم نہیں ہوجائیں گے۔
ہم نے شروع میں کہا تھا کہ ہم اتنے بھی غیر متمدن نہیں ہیں۔ سو ہم آپ کو عید کی مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ لٹے پٹے دلوں کی طرف سے جذبات واحساسات سے خالی عید کی مبارکباد ۔
نئی دہلی:دہلی کے وزیر اعلی اروندکجریوال نے آج خاص بات چیت کی۔انہوں نے کہا کہ دہلی کی حکومت کو جو دو مہینے کے لاک ڈاؤن کا وقت ملا اس میں حکومت نے ساری میڈیکل سہولیات کو درست کر لیا ہے،ہم لوگ اتنے تیار ہیں کہ ایک ساتھ دہلی میں 50 ہزار فعال مریض کو سنبھالا جا سکتا ہے اور ان کا علاج کیا جا سکتا ہے۔اروندکجریوال نے کہا کہ دو ماہ قبل جب لاک ڈاؤن شروع ہوا تھا تو دہلی حکومت کے پاس نہ تو ٹیسٹنگ کٹ تھی، نہ پی پی ای کٹ تھیں اور نہ ہی اس بات کو طے کرنے کا معیار تھا کہ جو پی پی ای کٹ مل رہی ہیں وہ ٹھیک ہیں یا نہیں۔دہلی میں صورت حال اس وقت سنجیدہ تھی جب 1011 کیس مرکز سے متعلق تھے اور 900 سے کچھ زیادہ کیس دوسری جگہوں سے متعلق تھے،اگرچہ دہلی حکومت نے فوری طور پر اس پر ایکشن لیا اور یہ بہت تسلی بخش رہاکہ وسیع نمائش ہونے کے باوجود دہلی میں کورونا وائرس کے کیس اور اموات کے اعداد و شمار بہت زیادہ نہیں ہیں۔اروند کجریوال نے کہا کہ مرکزی حکومت نے جو 20 لاکھ کروڑ روپے کے اقتصادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اس سے واقعی میں دہلی سررکار کو کچھ براہ راست نہیں ملا ہے۔مرکزی حکومت کو چاہئے تھا ریاستوں کے ہاتھ میں براہ راست پیسہ دیتے جس سے ریاست اپنے یہاں حالات کو کنٹرول میں کر پاتے،حالانکہ یہ صورتحال آج کی نہیں ہے بلکہ 20 سالوں سے ہے اور مرکز اور دہلی کے درمیان پیسے کو لے کر کچھ باتیں سخت ہیں۔دہلی کے وزیر اعلی نے کہا کہ اس مشکل وقت میں بھی کچھ اپوزیشن پارٹیاں گندی سیاست کر رہی ہیں اور اس مجھے بے حد دکھ ہے۔ایسے مشکل وقت میں غلط بیان بازی نہیں کرنی چاہئے لیکن کچھ پارٹیاں اب بھی معاملے کی سنجیدگی کو نہیں سمجھ رہی ہیں۔
اروندکجریوال نے کہا کہ جو مزدور واپس جانا چاہتے ہیں ان کے لئے اس وقت گھر جانا ان کیلئے اہم ہے،حکومتیں انہیں روک نہیں سکتی اور ایسا نہیں ہے کہ جب صنعتی سرگرمیاں شروع ہوں گی تو کارکنوں کی کمی ہو گی،جو لوگ واپس جا رہے ہیں وہ لوٹ کر بھی آئیں گے اور کام بھی انہیں ملے گا لیکن اس وقت وہ لوگ جو گھر جانا چاہتے ہیں ان کے لئے حکومتوں کو مل کر سارے انتظام کرنے چاہئے اور دہلی حکومت نے بھی اسی لیے مرکزی حکومت سے 100 ٹرینوں کا مطالبہ کیا ہے۔
مذہبی اجتماعات پرپابندی برقرار،سب کچھ مستقل بندنہیں رکھ سکتے:اروند کیجریوال
نئی دہلی:دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے لاک ڈاؤن -4 کو لے کر ریاست کے لیے گائیڈلائن کا اعلان کیاہے۔ انہوں نے کہاہے کہ دہلی میں میٹرو، اسکول، کالج، یونیورسٹی، سنیماہال، مال، تھیٹر، بار، آڈیٹوریم اور جم بند رہیں گے۔ انہوں نے کہاہے کہ تمام مذہبی ادارے بند رہیں گے،سیلون بھی فی الحال بند رہیں گے،شام کو سات بجے سے صبح سات بجے تک گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی،سوئمنگ پول بھی بندرہیں گے،کسی طرح کی بڑی بھیڑ کو جمع ہونے کی اجازت نہیں ہوگی، کیجریوال نے کہاہے کہ ٹیکسی کیب، آٹواور بسیں چلیں گی۔بسوں میں 20 سے زیادہ مسافر نہیں ہوں گے۔ضروری سامانوں کی ساری دکانیں روز کھلیں گی،باقی دکانیں جفت طاق فارمولے پرکھلیں گی ،تعمیر کا کام شروع کیا جا رہا ہے۔ صرف دہلی کے ورکرزکوکام کرنے کی اجازت ہوگی۔شادی کے لیے صرف 50 لوگ اکٹھا ہو سکتے ہیں،ریستوران صرف گھر کی ترسیل کے لیے کھلیں گے۔آٹو اور ای رکشہ چلانے کی اجازت دی گئی ہے لیکن ایک ہی مسافرسفرکرسکیں گے۔وزیراعلیٰ کیجریوال نے کہاہے کہ جب بھارت میں وائرس آیا تھا تو ہماری تیاری نہیں تھی۔لیکن گزشتہ ڈیڑھ پونے دوماہ کے اندرانتظام کرلیاہے۔اب ہمیں معیشت آہستہ آہستہ کھولنے کی سمت میں توجہ رکھنی ہوگی ۔ کل مرکزی حکومت نے اس بار ے میں کچھ گائیڈلائنس جاری کی ہیں۔اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے دہلی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی دینے کا فیصلہ کیاہے۔انہوں نے کہاہے کہ مجھے یقین ہے کہ وبا پر ہم فتح حاصل کریں گے۔لاک ڈاؤن مستقل نہیں رہ سکتاہے۔وائرس اگلے 1-2 ماہ میں ختم نہیں ہونے والاہے۔ اس کے ساتھ زندگی چلانے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔معیشت کو آہستہ آہستہ کھولنے کی طرف بڑھناہوگا۔کیجریوال نے کہاہے کہ دہلی میں اب تک 10054 کیسز سامنے آئے ہیں لیکن لوگ ٹھیک ہوکر لوگ گھر جا رہے ہیں۔ اب تک یہاں 4485 لوگ ٹھیک ہوکر گھرجاچکے ہیں۔45 فیصد لوگ ٹھیک ہو گئے ہیں۔
نئی دہلی:لاک ڈاؤن میں پھنسے تارکین وطن محنت کشوں، سیاحوں، طالب علموں کوگھربھیجنے کے مرکزی وزارت داخلہ کے حکم پردہلی حکومت مزدوروں، سیاحوں اور طالب علموں کو دہلی سے ان کی ریاست بھیجنے اور دوسری ریاستوں میں پھنسے لوگوں کو دہلی لانے کی کارروائی کر رہی ہے۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے معلومات دی ہیں۔کیجریوال نے مرکز کے حکم کے بعد ٹویٹ کیاہے کہ مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے حکم جاری کیاگیاہے جس سلسلے میں ہم دیگر ریاستی حکومتوں سے بات کررہے ہیں۔تمام پلاننگ کرکے آپ کو ایک دودن میں مطلع کریں گے۔ اس وقت تک آپ کے گھرپرہی رہیں اورلاک ڈاؤن پرعمل کریں۔
نئی دہلی:دہلی حکومت گرچہ بلندوبانگ دعوے کرتی رہی ہے،لیکن حالات بالکل الگ ہیں۔دہلی حکومت کے لوک نائک ہسپتال میں متاثرمریض کا ٹھیک علاج نہیں ہونے پرمریض کی بیٹی اور بیوی کا دردچھلک گیا۔ماں بیٹی کے درد کا ویڈیوسوشل میڈیاپرجم کروائرل ہوا۔ اس کے بعدوزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی مداخلت کرنے پر مریض کا ٹھیک سے علاج ہوناشروع ہوگیاہے۔سوال یہ ہے کہ کتنے لوگ اس طرح اپنی پریشانیاں بتاسکتے ہیں،اگرمحکمہ اوراسپتالوں کایہ حال ہے تواس کے لیے ذمے دارکون ہے؟پیر کی صبح سے فیس بک، ٹوئٹر کے، وہاٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ماں بیٹی کے دردکاویڈیوہوناشروع ہوا۔ ویڈیو میں مریض کی بیٹی اور بیوی دعویٰ کر رہی ہیں کہ ان کے والد اور شوہر کو لوک نائک ہسپتال میں بہتر علاج نہیں مل رہاہے۔ویڈیومیں مریض اروند کی بیٹی پرتیبھا نے کہاہے کہ 16 اپریل کو اس کے والد کی حالت خراب ہو گئی تھی۔طبیعت خراب ہونے کے بعد انہیں نجی ہسپتال میں لے گئے، جہاں جانچ ہوئی، جس میں رپورٹ مثبت آئی۔اس کے بعد مریض کو لوک نائک اسپتال میں داخل کر دیاگیا۔ پرتیبھاکادعویٰ ہے کہ ان کے والد کا ہسپتال میں صحیح علاج نہیں ہو رہاہے۔والد کو 102 بخار ہے اور پیر تک کسی ڈاکٹر نے انہیں نہیں دیکھا۔ وہ شوگرکے مریض ہیں، لیکن ان کے کھانے کو کچھ نہیں دیاجا رہاہے۔اس سلسلے میں وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کو ٹیگ کرٹویٹ کیاگیا اور مدد مانگی گئی کہ جلدسے جلدان کے والد کاعلاج ہو۔ٹویٹ کے بعد یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوگیا۔ اس کے فوراََبعد وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے ہسپتال انتظامیہ کو بہتر علاج کی ہدایت دی۔ وزیراعلیٰ کی ہدایات کے بعد مریض کو الگ کمرے میں شفٹ کر دیاگیا، جس کی تصدیق مریض کی بیٹی پرتیبھا نے کی۔مریض کے ٹھیک علاج کی کوشش وزیراعلیٰ کے حکم پر ممبراسمبلی دلیپ پانڈے کی جانب سے کی گئی۔ ماں بیٹی کے ویڈیوکوبی جے پی کے ریاستی صدر اور ایم پی منوج تیواری نے بھی اپنے ٹوئٹرکے اکاؤنٹ کے ذریعے شیئر کیااورحکومت کے انتظام پرسوال کیے ہیں۔
تبلیغی جماعت کونشان زدکرنے کے خلاف عدالت میں درخواست داخل
نئی دہلی:جب سے دہلی میں مرکزکامعاملہ سامنے آیاہے،میڈیامیں توایک کمیونٹی کوٹارگیٹ کیاجارہاہے۔اس کے علاوہ سیکولرسمجھے جانے والے کجریوال خودٹوئیٹ کرکے جب اعدادوشماربتاتے ہیں توایک الگ کالم دے کرمرکزکانام شامل کرتے ہیں۔جس سے میڈیاکوسماج میں تعصب کوہوادینے میں پوری مددمل رہی ہے۔اوراس کے اثرات سماج پرمنفی پڑرہے ہیں۔آئے دن مذہب کی بنیادپرایک کمیونٹی کونشانہ بنایاجارہاہے۔کجریوال حکومت کے اسی اقدام کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی گئی ہے۔دہلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائرکی گئی ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ چیف منسٹر اروند کیجریوال اور ان کی انتظامیہ کوویڈ19 کے کچھ معاملات میں ’’تبلیغی جماعت‘‘ یا’’مرکز‘‘ حوالہ دے کرپولرازیشن کررہی ہے۔ اس طرح کی درجہ بندی کرنے پرروک لگائی جائے کیوں کہ یہ مذہبی طور پرنشانہ بنانے کے مترادف ہے۔اب تک دہلی میں کورونا وائرس کے انفیکشن کے 1،640 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے 38 افراد کی موت ہوئی ہے۔جمعرات کو ایک وکیل کی جانب سے دائر درخواست میں ، کیجریوال پر تبلیغی پروگرام کے بعدسے اپنے مختلف ٹویٹس میں جان بوجھ کر انفیکشن کے متعددمعاملات کو مرکز کے نام سے ایک الگ عنوان کے تحت ڈالنے کاالزام ہے۔درخواست گزار ایڈووکیٹ ایم ایم کشیپ نے دعویٰ کیاہے کہ فرقہ وارانہ منافرت کورونا وائرس کے معاملات میں سامنے آرہی ہے اور اس نے ایک خاص مذہبی طبقے کے خلاف نفرت کی فضاپیداکی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ قومی دارالحکومت کو شمال مشرقی حصے میں فسادات کا سامنا کرنا پڑاہے اور جب دہلی میں ماحول پہلے ہی حساس اور تناؤکاشکار ہے ، تو کووڈ 19 کے معاملات کی اس طرح درجہ بندی کرنے سے صورتحال مزید خراب ہوگی۔وکلائفوزیہ رحمان اور ایم قیام الدین کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں متحدہو۔ انہوں نے کہاہے کہ ایسی صورتحال میں اس فرقہ وارانہ رنگ دینے سے مقصد پر اثر پڑے گا۔ اسے فوری طور پر روکا جائے۔اس درخواست پر 20 اپریل کو سماعت ہونے کا امکان ہے۔
نئی دہلی :دہلی قومی دارالحکومت علاقہ میں پھنسے ملک بھر کے مزدوروں کو یہاں سے نکالنے پر الگ الگ ریاستوں کے وزیراعلیٰ الگ الگ بیان جاری کر رہے ہیں۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے کہا ہے کہ جو مزدور جہاں ہے ابھی وہیں رہیں، کیونکہ ان کے واپس آنے سے انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے ۔وہیں راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے ہدایت کی ہے کہ جو بھی مہاجر مزدور جہاں پھنسے ہوئے ہیں انہیں ریاست کی حد تک سرکاری بس سے پہنچایاجائے گا۔ اس دوران وزیر داخلہ امت شاہ نے ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے بات کی ہے اور ان سے اس وقت مزدوروں کی نقل مکانی روکنے کو کہا ہے۔بتا دیں کہ آج لاک ڈاؤن کا چوتھا دن ہے۔ جمعہ سے ہی دہلی سے ملک کے مختلف ریاستوں میں جانے والی سڑکوں پر مزدوروں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے۔یہ مزدور یہاں سے کسی بھی حالت میں نکلناچاہتے ہیں۔اس کی وجہ سے انفیکشن کا خطرہ ایک بار پھر بڑھتانظرآ رہاہے۔دہلی کے آنند وہار میں بڑی تعداد میں مزدوروں کی بھیڑہے۔ یہ تمام مزدور جلد سے جلد گھر لوٹنا چاہتے ہیں۔ ان کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے 1000 بسوں کا انتظام کیاہے۔یہ مزدور یوپی کے ایٹہ، اٹاوہ، بلند شہر، بدایوں کی طرف جانے والے ہیں۔سی ایم یوگی نے کہا کہ مزدوروں کو نہ صرف گھر واپس بھیجا جائے گا، بلکہ ان کے کھانے پینے کا انتظام کیاجائے گا۔
جمعہ جمعہ آٹھ دن وزیر اعلیٰ بنے نہیں ہوئے، اروند کیجریوال نے دہلی فسادات پرطلبا اور اپنے ووٹروں سے ملنے سے انکار کردیا۔ نتیجتاً مایوس لوگوں نے رات کو ہی ان کے گھر کے سامنے دھرنا دے دیا، بھیڑ بڑھتی چلی گئی، نعرے لگنے شروع ہوگئے۔ امیت شاہ، جن کو دہلی کے فسادات میں پولیس کی مناسب تعداد بھیجنے میں دو روز لگ گئے تھے، انھوں نے اروند کیجریوال کی حفاظت کے لیے بس بھر کے پولیس بھی جلدی سے بھیج دی، جس نے آتے ہی لوگوں پر پانی کی تیز بوچھاڑ مارنی شروع کردی، پھر لاٹھی چارج کردی، جن میں کافی عورتوں کو چوٹ آئی۔ عورتوں کا کہنا ہے کہ پولیس کھلے عام انھیں للکار رہی تھی کہ "تم لوگ پاکستان جاؤ”۔ کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اروند کیجریوال جی! آپ نے اپنا نقاب اتارنے میں بڑی جلدی دکھائی؟ مودی جی نے بھی کم از کم 6 سال لگائے تھے، لیکن آپ تو نقاب اتار پھینکنے میں ان سے بھی بازی مار گئے۔ کیا قصور تھا ان لوگوں کا؟ آپ ہی تو کہتے تھے کہ دہلی والے آپ کا پریوار ہیں، رات کے کسی بھی پہر دہلی کا کوئی بھی شہری آپ کے گھر آئے تو آپ اس کی تکلیف سنیں گے، یہاں تو پوری دہلی ہی اٹھ آئی ہے لیکن آپ نے اپنے پریوار کے لیے دروازہ تک نہیں کھولا؟ وہ آپ سے بات کرنے آئے تھے، اپنے پریوار کے مکھیا کے سامنے ہی تو اپنے دکھ درد بانٹے جاتے ہیں۔لیکن ان بیچاروں کو کیا پتہ تھا کہ آپ کا اور امیت شاہ کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ذرا سوچیے آپ کے ووٹروں کے دلوں پر اس وقت کیا گزری ہوگی جب آپ کے گھر ہی کے سامنے ان پر پولیس لاٹھیاں برسا رہی تھی، تب بھی آپ گھر سے باہر نہیں نکلے۔اروندجی! آپ کا یہ بہانہ بھی اب نہیں چلے گا کہ دہلی پولیس آپ کی سرکار کے اختیار میں نہیں ہے۔ بے شک دہلی پولیس آپ کی نہیں ہے لیکن دہلی تو آپ کی ہے، اس کی عوام تو آپ کی ہے، آپ ان کی چیخوں، سسکیوں اور کراہوں کے درمیان کیسے سو سکتے ہیں؟آپ جو کل تک چھوٹی چھوٹی سی بات پر اپنے لوگوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ جایا کرتے تھے، آج اپنے تمام ووٹروں کے ساتھ دہلی فسادات کے خلاف، مرکزی حکومت کی بے حسی کے خلاف، دہلی پولیس کی فرقہ واریت کے خلاف، کپل مشرا کے خلاف دھرنے پر کیوں نہیں بیٹھتے؟ آپ اگر آج بھی دھرنے پر بیٹھ جائیں تو آپ کے 62 سیٹوں کے لاکھوں ووٹرز آپ کے ساتھ سڑکوں پر ہوں گے، مایوس اور خوف زدہ شہریوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور شرپسندوں کا زور ٹوٹے گا۔ لیکن اب تو آپ اپنے ہی گھر کے سامنے اپنے "پریوار” کو لاٹھیوں سے پٹوا رہے ہیں، ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ آپ کے لیے تو الیکشن کا کھیل ختم ہوچکا ہے اور 62 سیٹوں کے ووٹرز بھی ہضم کرچکے ہیں، پھر بھلا آپ کو تشکر کا ڈکار لینے کی ضرورت بھی کیا ہے۔
لوگوں کو بھلا کہاں پتہ تھا کہ”کام کی راجنیتی” کا نعرہ دے کر آپ ٹوئٹر سرکار بنانے جارہے ہیں۔
سنو اروند کیجریوال! اگر آپ نے یہ سوچ لیا ہے کہ ہنومان چالیسا پڑھتے ہوئے آپ پانچ سال گزار دیں گے تو بھول جائیے، جو آپ کو جھولی بھر بھر کے ووٹ دے سکتے ہیں، وہی ووٹر مرکزی سرکار کے ساتھ آپ کو بھی اپنے احتجاج کا نشانہ بنا سکتے ہیں، جس کی شروعات آج آپ کے گھر سے ہوچکی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دہلی الیکشن کا ہنگامہ ختم ہوگیا،نفرت اور اشتعال انگیزی کی شکست ہوئی،عوام نے یک طرفہ بی جے پی کے خلاف ووٹنگ کی،ماحول بھی ایسا بنادیاگیاتھاکہ عام آدمی پارٹی کے علاوہ کانگریس یا کسی متبادل کی طرف دیکھنا بھی بی جے پی کو فائدہ پہونچاسکتاتھا،بی جے پی کے خلاف مسلمانوں نے جم کر پوری طرح متحد ہوکر ووٹنگ کی،اور ایسا کرنا بھی چاہیے تھا
سچ ہے کہ اگر بی جے پی نے نفرت کا ماحول نہ بنایاہوتا،شاہین باغ پر حملے نہ ہوتے تو مسلم ووٹوں کی تقسیم سے کجریوال کو سیٹیں ضرور کم ہوتیں،گرچہ وہ سرکار بنالیتے،خود اوکھلا کے ایم ایل اے امانت اللہ خان سے ناراضگی کے باوجود مجبوری میں انھیں ہی ووٹ دیناپڑاکیوں کہ کانگریس نے بھی مضبوط مقابل یھاں نھیں دیاتھا اسی کا فائدہ عام آدمی پارٹی اور امانت اللہ کو ہوا،اس وقت عام آدمی پارٹی کی مخالفت کی فضا نھیں تھی
نتائج پر فطری طور پر مسلم کمیونیٹی کو خوشی ملنی تھی،ملی،رک کر سوچیے،عام آدمی پارٹی کو بھی احساس ہوگا کہ کام کی بنیاد پر ووٹ تو ملتے ہی لیکن یکمشت مسلم ووٹ نے ہی اتنی زبردست جیت دلائی ہے،اسے کیوں نہ احساس دلایاجائے کہ پچھلے سیشن میں جس طرح مسلم کاز کو نظراندازکیاگیا،اب کجریوال سرکار ان پر توجہ دے لیکن چلی ہےیہ رسم کہ گرم ہندوتوا کا مقابلہ نرم ہندوتواسے کیاجانے لگاہے،چاہے کانگریس ہو،عام آدمی پارٹی ہویا بی ایس پی،ایس پی ہوں،فرقہ پرستی کو فرقہ پرستی سے کاٹنے کی بجائے سیکولرزم کے حقیقی اصولوں سے شکست کیوں نھیں دی جاسکتی،اچھا تو تھا کہ ان سب سے قطع نظر صرف وکاس کے مدعے رکھے جاتے جس طرح عام آدمی پارٹی نے انتخابی مہم شروع کی تھی،بعد میں ہنومان چالیسا،ہنومان بھکتی،مندر پر آگئی،حکومت سازی کے بعد بھی اطمینان ہوجاناچاہیے تھا لیکن ہر منگل کو چالیسا پاٹھ کا شوشہ چھوڑا گیا
الیکشن کے دوران سی اے اے اور شاہین باغ پر کجریوال کی خاموشی کو مجبوری سمجھ کر معاف کیاجاتارہا،لیکن اب کون سی مجبوری ہے کہ یہ وکاس پرش ان متنازعہ امور پر ایک لفظ بولنے کوتیار نھیں،سکھ واقعے میں دوڑ کر ملاقات کرنے والے وزیراعلی کو جامعہ آنے کی ہمت نہیں ہوسکی،دہلی کے وزیر اعلی کو دہلی میں درجن بھر مقامات پربیٹھیں خواتین کے درد کی فکر نھیں؟ سسودیا بس یہ کہہ کررہ گئے کہ ہم شاہین باغ کے ساتھ ہیں لیکن ان کاکوئی ٹاپ لیڈر جھانکنے تک آیا؟احتجاج اور دھرنوں کی مولود اور عادی پارٹی اب تک ان قوانین کے خلاف سڑک سے کیوں بھاگی ہوئی ہے؟
سیدھا سیدھا کجریوال جواب دیں کہ سی اے اے،این آرسی اور این پی آر کومسترد کرتے ہیں یا نھیں؟مسلم ممبران اسمبلی،اسمبلی سےسی اے اے کے خلاف تجویز منظور کرائیں اور فوری طور پراین پی آر لاگو نہ کرنے کا اعلان کرائیں کیوں کہ یکم اپریل سے این پی آر کا کام شروع ہوناہے،چار ریاستوں مدھیہ پردیش،کیرل،مغربی بنگال اور چھتیس گڑھ نے این پی آر سے بھی منع کیاہے،امید ہے کہ پنجاب،جھارکھنڈ،راجستھان،تلنگانہ حکومتیں بھی این پی آر روکیں گی،بہار،دہلی،مہاراشٹر،آندھراپردیش کی سرکاریں بھی روک دیں تو بہت حد تک سنگھی عزائم پر روک لگے گی،اس لیے ان ریاستوں پر پورا زور دیناچاہیے جو سیکولرزم کا ڈھونگ رچتی ہیں
کجریوال سرکار بتائے کہ اردو اکیڈمی کی نشستوں پر بحالی کیوں نھیں ہورہی ہے؟پچھلے سیشن میں اردو ٹیچروں پر دھوکہ دیتے رہے،یہ جھانسہ کب تک دیں گے؟بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جانچ کے لیے آپ سے کہابھی نھیں جائے گا کیوں کہ یہ ہمت آپ میں نھیں ہے،اور نہ آپ کے لوکل بہادر ایم ایل اے میں ہے،جو اپنے علاقے کا بجلی بحران دور نھیں کرسکے،جنھوں نے سڑکیں اور گلیاں کھود کر مہینوں سے چھوڑ رکھی ہیں،بنیادی مسائل حل نھیں کرپارہے ہیں،بڑی بات تو رہنے دیجیے،ہم امت شاہ سے ملاقات پر سوال نھیں اٹھارہے ہیں ہوسکتاہے کہ ترقیاتی امور پر گفتگو ہوئی ہو،ذاتی اور نفرت آمیزحملے کے باوجود ریاست کی فلاح کے لیے ملنا اچھی بات ہےکسے یاد نھیں ہے کہ کجریوال کی پارٹی نے 370پر ایوان میں بی جے پی کو ووٹ دیاتھا،آخر اس کے سیکولر لیڈران کیوں کنارے ہوگئے،یوگیندریادو،آشوتوش اورپرشانت بھوشن سے پٹری نھیں جمی اور جو خالص سنگھی تھے،اپنی اصل کی طرف چلے گئے،وی کے سنگھ اور کرن بیدی کی مثال موجود ہے نزدیک سے نظر رکھنی ہوگی کہ انا آندولن کے باقی لوگ وکاس کا مکھوٹا لگاکر کہیں سنگھی ایجنڈے کو پورا تو نھیں کررہے ہیں
میں نے لکھا تھا کہ دہلی اسمبلی الیکشن کے نتائج ثابت کر دیں گے کہ ہندوستان کی عوام کی اکثریت مذہب ذات برادری کی بنیاد پر تفریق اور نفرت میں یقین نہیں رکھتی۔
آج ٧٠ میں سے ٦٣ سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کی جیت اس کا زندہ ثبوت ہے۔
١- در اصل شاہین باغ میں سڑک جام سے متاثر ہونے والوں کی تعداد چند ہزار میں ہے لاکھوں میں نہیں۔
٢- یہ بھی بہت حد تک صحیح ہے کہ عموماً "سیکولر” ووٹ ہی غیر بی جے پی پارٹیوں میں منقسم ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود دہلی میں ٢٠١٤ میں 70 میں سے 67 اور اس بار بھی 63 سیٹوں پر کامیابی ایک واضح اعلان ہے کہ دہلی کے ووٹرز باشعور ہیں انہیں ” پاکستان، شاہین باغ، بریانی، گولی مارو، وغیرہ کی حقیقت کی سمجھ ہے۔ جہاں تک بی جے پی کی 3 سے 7 سیٹ کی بات ہے تو جس قدر محنت ملک کے ” طاقتور ترین” لوگوں نے گھر گھر جاکر کی ہے اس کے نتیجے میں بعض لوگوں کا "ان” کی باتوں میں آجانا فطری ہے۔
٣ – ٢٠٠ یونٹ تک بالکل فری بجلی اور فری محلہ کلینک کے علاوہ پانی سڑک اور سیوریج سے مستفید ہونے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ سیاسی طور پر بی جے پی سے وابستہ ہونے کے باوجود ان لوگوں کا اپنی مقامی ضرورتوں کو ترجیح دینا فطری تقاضا ہے۔
٤- کیجریوال نے مثبت تشہیر اپنایا انہوں نے مودی یا کسی اپوزیشن لیڈر پر ذاتی حملے نہیں کیۓ۔
٥ – کیجریوال نے اپنے قول وفعل کو” ہندو مسلم ” سے الگ رکھا۔ نہ وہ شاہین باغ اور جامعہ کے اسٹیج پر اۓ اور نہ ہی فرقہ واریت کے کسی موضوع پر اپنی تشہیری مہم میں بات کی۔
٦- عام آدمی پارٹی نے پچھلے پانچ سالوں کی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگا۔
٧- دہلی کے ووٹرز نے بی جے پی کے ان نعروں کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی کہ :
– شاہین باغ کے لوگ ہندوؤں کے گھروں میں گھس کر ان کی بہن بیٹیوں کی عزت لوٹ لیں گے اور اس کے بعد ان کا قتل کر دیں گے۔ اس وقت مودی اور امت ساہ ان کی حفاظت کے لئے سامنے نہیں آئیں گے اگر ابھی ہندوؤں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا۔
– شاہین باغ میں دہشت گردی اور انسانی بم بنانے کی تربیت دی جا رہی ہے ۔ اسے روکنے کے لئے بی جے پی کی جیت ضروری ہے
– شاہین باغ ملک سے الگ ہونے کے دہانے پر ہے۔
– شاہین باغ کا احتجاج اپوزیشن پارٹیوں کے اشارے پر ہو رہا ہے۔
شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این پی آر جن کے خلاف شاہین باغ میں احتجاج ہو رہا ہے اس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
دراصل دہلی کے ووٹرز کو پچھلے پانچ سالوں میں عام آدمی پارٹی کی نصف حکومت اور بی جے پی کی نصف حکومت (میونسپل کارپوریشن، پولیس لاء اینڈ آرڈر اور لیفٹینٹ گورنر) کی کارکردگی اور عدم کارکردگی کا موازنہ کرنے کا موقع ملا۔ اور ووٹرز نے پایا کہ ایک ویلفیئر اسٹیٹ رفاہی ریاست کی ذمے داریوں کو عام آدمی پارٹی حکومت نے بہت حد تک نبھایا۔
دہلی کے ووٹرز نے بی جے پی کی دروغ گوئی پر مبنی تشہیر کی حقیقت کو سمجھا۔ جب بی جے پی کے کسی لیڈر نے کہا کہ گھروں میں جو پانی سپلائی ہو رہا ہے وہ پانی کم کیچڑ زیادہ ہے۔ جبکہ ایسا قطعاً نہیں ہے تو ظاہر ہے لوگوں نے کہا یہ جھوٹ ہے۔ بجلی بل زیرو یا بہت کم کے خلاف بی جے پی نے الزام لگایا کہ بل ہر ماہ دو سے پانچ ہزار روپے کے آتے ہیں ظاہر ہے ہزاروں لوگ مفت اور سستی بجلی سے مستفید ہوتے ہیں وہ بی جے پی کی باتوں پر کیوں یقین کریں گے۔ اسی طرح اسکول ہسپتال اور سڑکوں کے بارے میں بی جے پی تمام تر کوششوں کے باوجود ووٹرز کو گمراہ نہیں پائی۔
دہلی ریاست میں بی جے پی نے اپنی نصف حکومت کی کسی کارکردگی کا ذکر کسی تشہیری مہم میں نہیں کیا اس لئے کہ کوئی قابل ذکر کام کیا ہی نہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی: دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے اسمبلی انتخابات کے لیے تشہیر کے آخری دن کہا کہ بی جے پی میں کوئی بھی وزیر اعلی بننے کے قابل نہیں ہے۔دہلی کی 70 سیٹوں پر 8 فروری کو پولنگ ہوگی اور 11 فروری کو ووٹوں کی گنتی ہوگی۔کجریوال نے ایک انٹرویو میں کہا کہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا وزیر اعلی کے عہدے کا دعویدار کون ہوگا۔انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوگا اگر وہ سمبت پاترا یا انوراگ ٹھاکر ہوئے۔انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسمبلی انتخابات کا پولرائزیشن کرنے کی کوشش بھی کی اور نتیجے بتائیں گے کہ وہ کامیاب ہوئے یا نہیں۔کجریوال نے کہاکہ آپ کے ووٹر وہ ہیں جو اچھی تعلیم، علاج کی سہولت، جدید سڑکوں، 24 گھنٹے بجلی چاہتے ہیں۔ شاہین باغ میں ترمیم شدہ شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف جاری مظاہرے پر آپ کے کنوینر نے الزام لگایا کہ دہلی اسمبلی انتخابات کی وجہ سے بی جے پی نے سڑکیں صاف نہیں کرائی ہیں۔کجریوال نے پوچھاکہ وزیر داخلہ امت شاہ کو راستے صاف کروانے سے کون روک رہا ہے؟ سڑک جام رکھنے میں امت شاہ کا کیا مفاد چھپا ہے؟ وہ دہلی کے لوگوں کو پریشان اورمظاہرے پر گندی سیاست کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ بی جے پی پر حملہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھگوا پارٹی کے لیڈر دہلی کی غیر منظورشدہ کالونیوں کو مکمل طور بھول گئے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔کجریوال نے کہاکہ آپ کے اقتدار میں واپس آنے پر دہلی حکومت’مفت منصوبے‘ جاری رکھے گی، ضرورت پڑی تو ایسی اور منصوبے لائیں گے۔
بی جے پی کی حمایت میں اترے گریٹ کھلی، کہا: وزیراعلیٰ کے لیے بی جے پی کے پاس کئی چہرے
نئی دہلی:بی جے پی کے لئے انتخابی مہم میں ریسلر کھلی اترے۔ انہوں نے کہا کہ اپنا فرض بنتا ہے کہ ہندوستانی ہونے کے ناطے اس ملک میں جو ہو رہا ہے،اس سے آگاہ رہیں اور جو ہندوستان کی بات آگے رکھتا ہے،اس کی حمایت کی جائے، سیکورٹی کی بات کرنا ضروری ہے،اسی لیے بی جے پی کی حمایت کرتا ہوں۔بی جے پی میں وزیر اعلی کے چہرے کو لے کر کہا کہ بہت سارے چہرے ہیں بی جے پی میں۔اعلی کمان کے ہاتھ میں ہے دہلی سے وزیر کون بن کر آتا ہے،بہت سے لوگ ہیں بی جے پی میں جو وزیراعلی کا چہرہ بن سکتے ہیں۔
غور سے تصویروں کودیکھیے اور کل کا نتیش جی کا بھاشن سنیے،مٹی میں ملنے والاوعدہ یادکیجیے اور دہلی کااسٹیج دیکھیے،آپ کو بے چارے کی بے چارگی پر ترس نہ آگیاہو توبتاییے-بہارکی ڈبل انجن سرکارکے مکھیانے دہلی میں ڈبل انجن سرکار کی اپیل کی،کجریوال کو جم کر کوسا،لیکن وہ یہ نھیں بتاسکے کہ بہار میں ڈبل انجن سرکار سے کیافائدہ ہوا؟2015 الیکشن میں مودی جی نے سوالاکھ کروڑ کے پیکج کا وعدہ کیاتھا،اب تک کیا ملا؟اسپیشل اسٹیٹ کی مانگ دس سال سے نتیش کررہے ہیں لیکن جیسے بی جے پی کی گود میں جاتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں پھر الیکشن کے وقت یاد آجائے گا،مرکز اور ریاست میں ایک ہی سرکار کے باوجود اسپیشل اسٹیٹس کیوں نھیں ملا؟کسے یاد نھیں ہے جب پٹنہ یونی ورسیٹی کی تقریب میں نتیش نے مودی سے اسے سینٹرل یونی ورسیٹی بنانے کی مانگ کی تو کس طرح فضیحت کی گئی اور ٹھینگا دکھادیاگیا،غصہ تو اس وقت پلٹوجی کو بہت آیا لیکن کرسی کمار جو ٹہرے،سیلاب متاثرہ ریاستوں کو جتنی مدد ملی بہار کو اس میں بھی ٹھگ لیاگیا
دہلی میں دوسو یونٹ تک بجلی فری ہے نتیش کے اسٹیٹ میں اتنے کے ہزار روپیے بل آتے ہیں،پھر کس منہ سے بول رہے ہیں،بل کی مار عوام پر ہے،جنتا مہنگی بجلی سے پریشان ہے اور بجلی کی صورت حال بتائوں،میں خود ان کے چہیتے اور کانگریس سے بھاگے ہوئے وزیر اشوک اچودھری کے حلقہ بربیگھہ گیا،سن کر حیرت ہوگی کہ بجلی آفس میں دوگھنٹہ رہا لیکن بجلی نھیں تھی،اپنی اپنی ریاست تو سنبھل نھیں رہی ہے،ہریانہ اور اترپردیش میں کس طرح چوپٹ نظام کررکھا ہے چلے ہیں دہلی کو بتانے
اور یاد دلادوں،جس کجریوال کو کل پانی پی پی کر کوس رہے تھے،بہار میں ساتھ چائے ناشتہ ہوچکاہے،دہلی کی فکر چھوڑییے،بہار سنبھالیے،جھاں این پی آر پر دھوکے اور جھانسے اور سی اے اے پر غداری سے عوام کرسی چھیننے کا عزم کرچکی ہے-
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)