ایم ودود ساجد
اکانومک ٹائمز کی خاتون صحافی وسودھا وینو گوپال نے ایک ٹویٹ کرکے بتایا ہے کہ راجیہ سبھا کے رکن (جو دراصل آر ایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں) راکیش سنہا نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کو ایک خط لکھا ہے۔
اس خط میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ گزشتہ 13 دسمبر کو CAB کے خلاف مظاہرہ کرنے والے اسٹوڈینٹس کی انکوائری کسی ریٹائرڈ جج سے کرائی جائے ۔انہوں نے اس خط میں مزید جو کچھ لکھا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔۔۔ انہوں نے جامعہ کو بالواسطہ طور پر دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دے دیا ہے۔
مجھے یہ آج ہی علم ہوا کہ راکیش سنہا کو بھی جامعه کی کورٹ کا ممبر بنادیا گیا ہے۔یہ خط انہوں نے اسی حیثیت سے لکھا ہے۔ لیکن مجھے یہ پہلے سے علم ہے کہ جامعہ کی نومنتخب وائس چانسلر دراصل مسلم راشٹر منچ کے سرپرست اندریش کمار کی نور نظر ہیں ۔ اندریش کمار آر ایس ایس کے بڑے لیڈروں میں سے ہیں ۔ وہ مالیگاؤں بم دھماکوں کے بھی ملزم ہیں ۔
میں نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ سی اے بی کو حکومت "سرکار بنام مسلمان” بنانا چاہتی ہے لیکن مسلمان اس کے خلاف تحریک کو "مسلمان بنام سرکار” نہ بننے دیں ۔ایک موثر قومی تحریک کا حصہ بن کر اس کی مخالفت کریں ۔
جامعہ کے طلبہ کا مظاہرہ انتہائی پُر امن تھا۔پولیس کی جارحانہ زیادتیاں کھلی آنکھوں نے دیکھیں ۔ انڈین ایکسپریس نے دعوی کیا ہے کہ اس کے پاس ایسی ویڈیو ہے جس میں دیوار سے لگے طلبہ کو پولیس نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ باوجود اس کے کہ وہ ہاتھ جوڑ کر بخش دینے کی درخواست کرتے رہے پولیس انہیں زدوکوب کرتی رہی ـ
جامعہ کے رجسٹرار نے 5 جنوری 2020 تک یونیورسٹی بند کردی ہے ۔حالانکہ یونیورسٹی میں امتحانات جاری تھے۔سنا ہے کہ بہت سے طلبہ کے خلاف پولیس نے معاملات درج کرلئے ہیں ۔ اب بے قصوروں کو گرفتار کیا جائے گا۔ہمارے کچھ پُر جوش احمقانِ ملت اب بھی اس تحریک کو مسلمان بنام سرکار بنانے پر آمادہ ہیں ۔جبکہ لاکھوں انصاف پسند ہندو اس تحریک کو سیکولرزم بنام کمیونلزم کے بینر تلے آگے بڑھا رہے ہیں ۔اگر اب بھی ہم نے اپنا رویہ درست نہ کیا تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے ساتھ ابھی اور کیا کیا ہوگا۔