نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے منگل کے روز کورونا وائرس کے انفیکشن کے معاملات کے اضافے پرحکومت کو نشانہ بنایا اور کہا کہ مدھیہ پردیش میں حکومت کے خاتمہ ،نمستے ٹرمپ اور بہت سے دوسرے اقدامات کی وجہ سے ، آج ملک کوروناکے خلاف جنگ میں خودکفیل بن گیا ہے۔انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ کورونا مدت میں حکومت کی حصولیابیاں: فروری میں نمستے ٹرمپ ، مارچ میں مدھیہ پردیش میں حکومت ، اپریل میں موم بتی ، مئی میں حکومت کی 6 ویں سالگرہ ، جون میں بہار میں ورچوئل ریلی اور جولائی میں راجستھان حکومت گرانے کی کوشش۔کانگریس کے لیے لیڈرنے طنزیہ اندازمیں کہاہے کہ اسی وجہ سے ملک کورونا کی لڑائی میں خودکفیل ہے۔
Chief Editor Qindeel
مثل مشہور ہے کہ پر ہیز آدھا علاج ہے۔حالانکہ ایلو پیتھی میں پرہیز کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی،اسی لیے انگریزی دوائیں ایک بیماری ٹھیک کرتی ہیں تو دو پیدا کردیتی ہیں۔ٹھیک یہی حال قوم اورملک کے مسائل کا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“تو بے جا نہ ہوگا۔علما،ائمہ،دانشور،انجمنیں،تنظیمیں،لیڈر سب مرض کی تشخیص کرتے ہیں،دوا بتاتے ہیں،کچھ لوگ دوا لاکر دیتے ہیں،کچھ لوگ کھاتے بھی ہیں مگر مرض میں قابل ذکر افاقہ نہیں ہوتا۔میری نظر میں اس کا سبب یہ ہے کہ ہم پرہیز نہیں کرتے اس لیے کوئی دوا مکمل اثر نہیں کرتی۔خاکسار مختلف عنوانات اور نکات کے تحت قارئین کے سامنے لائحہ عمل پیش کرچکاہے۔ذیل میں ان موانع،مشکلات اور رکاوٹوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو اس راہ میں آنا لازمی ہیں۔ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہے کہ جب جب بھی کوئی فرد یا کوئی گروہ اصلاح کے لیے اٹھا ہے۔اس کے سامنے یہ پریشانیاں آئی ہیں۔دنیا میں سب سے برگزیدہ گروہ انبیاء اور پیغمبروں کا رہا ہے۔جب ان کی مخالفت ہوئی ہو،جب ان کی راہ روکی گئی ہو تو ہمارا اور آپ کا شمار کیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ ہم ان دشورایوں کو پہلے ہی سمجھ لیں،ان پر غور و فکر کرلیں تاکہ ہمیں کوئی تکلیف نہ ہو۔پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے جب آپ اصلاح اور خدمت کے لیے اٹھتے ہیں تو خود کو بلندی پر کھڑا کرلیتے ہیں۔آپ کوئی معمولی فرد نہیں رہ جاتے بلکہ ایک خاص مقام اپنے لیے مقرر کرتے ہیں۔بلندی پر رہنے کی وجہ سے سب کی نظریں آپ کی طرف اٹھتی ہیں۔آپ کے مخاطب آپ کے الفاظ کو آپ کے عمل کی میزان پر تولتے ہیں۔وہ آپ کے ماضی کو دور جاہلیت کہہ کر کسی حد تک نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن آپ کے حال اور مستقبل پر ان کی نظر ضرور ر ہتی ہے ۔ قول اور فعل کا تضاد سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔آپ جو کہتے ہیں اگر آپ خود اس پر عمل نہیں کرتے تو پہلے ہی دن یہ پیغام دیتے ہیں کہ جو پیغام آپ لے کر اٹھے ہیں وہ قابل عمل ہی نہیں ہے۔پھر آپ کو کسی مثبت نتیجہ اور خوش کن انجام کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔اس لیے اتنی ہی بات کہیئے جتنی بات پر آپ خود عمل کرتے ہوں۔جتنا جتنا عمل کرتے جائیں اتنا ہی کہتے جائیں۔
دوسری بات جس کا خیال رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیے۔آپ کی ذمہ داری پوری قوم اور پورے ملک کی اصلاح نہیں ہے۔آپ کی ذمہ داری بساط بھر کام کرنا ہے۔اگر آپ اپنی گلی اور محلہ بھر میں کام کرسکتے ہیں تو پورے شہر میں اپنی قوت اور طاقت کو مت لگایئے۔پہلے اپنا دائرہ عمل طے کیجیے۔پھر کام کا نقشہ بنایئے۔آج تک ہم یہی غلطی کرتے رہے ہیں کہ کل ہند اور آل انڈیا سطح سے کم کوئی سوسائٹی اور انجمن نہیں بناتے بلکہ اب تو بین الاقوامی کا رواج بھی چل نکلا ہے۔اس فریب سے باہر رہنا ہے۔ایک پروجیکٹ پورا کرنے کے بعد ہی دوسرا پروجیکٹ شروع کیجیے۔ورنہ سارے کا م بے نتیجہ رہتے ہیں۔کوشش کیجیے کہ ہر کام کے لیے الگ افراد ہوں تاکہ ایک ہی شخص پر بار اور بوجھ نہ پڑے۔ ہمارا مقصد اصلاح ہے اگر ایک فرد اور ایک خاندان میں بھی ہماری کوششوں سے کوئی تبدیلی آتی ہے تو ہماری خوش نصیبی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ قوم سے کسی بھی قسم کے اجرکی امید مت رکھیے اور نقد اجر کی بالکل بھی نہیں،یہاں بعد ازمرگ میڈل سے نوازے جانے کا رواج ہے۔جیتے جی تو محبت کے دوبول نہیں ملتے، مرنے کے بعد تعزیتی پیغامات اخبارات کی زینت بنتے ہیں اور مرنے والے پر ناقابل تلافی نقصان کرکے جانے کا خوبصورت الزام بھی لگادیاجاتا ہے۔اس لیے جو کام بھی کیجیے بغیر کسی لالچ،بغیر کسی اجر کے کیجیے۔آپ بھی یہ اعلان کیجیے و مااسئلکم علیہ من اجران اجری الا علیٰ رب العٰلمین(میں تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا میرا اجر اور بدلہ تو رب العٰلمین کے ذمہ ہے۔شعراء۔ ۹۰۱)بلکہ آگے بڑھ کر کہئے لا نرید منکم جزاء ً ولا شکورا(ہم تم سے کوئی بدلہ تو کیا شکریہ کے الفاظ کے بھی خواہش مند نہیں۔الدھر۔۹)
چوتھی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی مخالفت وہ لوگ کریں گے جن سے آپ کو تعاون کی امید ہوگی۔ہر وہ شخص جس کے مفاد پر آپ کی اصلاح کا ہتھوڑا پڑے گا بلبلا اٹھے گا۔سیا سی لیڈر آپ پر سیاست کرنے کا الزام لگائے گا۔وہ غنڈے اور موالی بھی ہوں گے جو برائی کی آڑ میں بدی کی تجارت کررہے ہوں گے۔مذہبی گروہ کے افراد بھی آپ کے اسلام کو انچی ٹیپ سے ناپیں گے۔اپنے ہی دوست آپ کا مذاق اڑائیں گے۔جو مصلحین پہلے سے ہی میدان میں ہیں وہ آپ پر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کا الزام لگائیں گے۔ان حالات میں کسی کو صفائی دینے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا ہے۔کیوں کہ مخالفت کا یہ طوفان صابن کے جھاگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔آپ کا خلوص،آپ کی نیت اور آپ کا کام ہی اس کا جواب ہے۔اگر آپ لوگوں کو صفائیاں دینے میں الجھ گئے تو الجھتے ہی جائیں گے اور کام نہیں کرسکیں گے۔مخالفت کے تیر جدھر سے بھی آئیں پلٹ کر مت دیکھیے ورنہ اپنے ہی دوستوں سے سامنا ہوگا۔جہاں تک ممکن ہو شیریں زبانی، وسعت قلبی سے مخالفانہ تیروں کا مقابلہ کیجیے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اپنے ساتھی اور معاونین کو ساتھ لینے سے پہلے خوب جانچ اور تول لیجیے ایسا نہ ہو کہ ہوا کا ایک جھونکا ہی انھیں اڑا لے جائے۔بزدل اورکم ہمت ساتھی سے تنہا کام کرنا بہتر ہے۔نادان دوست سے دانا دشمن اچھا ہے۔ بزدل دوست حوصلہ بڑھانے کے بجائے ہمت پست کرنے کی بات کرتا ہے۔کسی بھی عصبیت مثلاًمذہبی، خاندانی، برادری، رنگ اور زبان وغیرہ کا شکار مت ہوجائیے،جو آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہو اور آپ سمجھتے ہوں کہ وہ کام کا بھی ہے تو اسے اپنے سینے سے لگا کر رکھیے۔خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا اورکوئی بھی زبان بولنے والا ہو۔اپنے ساتھیوں کی دل جوئی کرتے رہیے،ان کا حوصلہ بڑھاتے رہئے۔ مشاورت سے کام کیجیے اور مشاورت کے آداب بھی ملحوظ رکھیے۔
چھٹی با ت یہ ہے کہ ملک کے آئین کا احترام کیجیے۔آئین کے دائرے سے باہر کوئی کام مت کیجیے۔اسی طرح بلا وجہ لوگوں کو اپنا دشمن مت بنائیے۔جذبات میں مت آئیے۔غصہ پر قابو رکھیے۔جھگڑے کی نوبت نہ آنے دیجیے ورنہ آپ کے مخالفین آپ کو قانونی داؤں پیچ میں الجھا دیں گے۔ جہاں آپ کا دامن کسی کانٹے سے الجھے، الجھا ہوا دامن پھاڑکر آگے بڑھ جایئے۔عقل مندی کا تقاضا ہے کہ جھگڑے کے بغیر کامیابی حاصل کیجیے۔مسلکی ایشوز پر بالکل بات مت کیجیے۔یہ فرق ہمیشہ یاد رکھیے کہ آپ ایک سوشل اکٹویسٹ ہیں کوئی مذہبی مصلح نہیں۔مذہبی اور سماجی اداروں کا احترام کیجیے۔ان کی مخالفت کرکے ان کے تعاون سے محروم ہونے کے بجائے حکمت کے ساتھ ان اداروں کا تعاون حاصل کیجیے۔ آپ کو ہر سماج کی بھلائی،ترقی اور تبدیلی کے لیے کام کرنا ہے۔کوشش کیجیے آپ کی شناخت غیر متنازع،حق گو اور انصاف پسند کی حیثیت میں ہو۔
ساتویں بات یہ ہے کہ اعتدال سے کام لیجیے۔آپ پر اپنے نفس کا بھی حق ہے کہ اسے آرام دیا جائے،آپ پر اپنی فیملی اور زیر کفالت افراد کا بھی حق ہے کہ انھیں محبت بھی ملے اور ان کی جائز ضروریات بھی پوری ہوں،آپ پر اپنی تجارت اور ذریعہ معاش کا بھی حق ہے۔اپنے رشتے داروں کے بھی حقوق ہیں۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ خدمت قوم میں ہم اتنے مست ہوجاتے ہیں کہ اپنے عزیزوں کے حقوق بھول جاتے ہیں جس کے نتیجے میں گھر سے ہی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔اپنے اہل و عیال کو نہ صرف اپنی سرگرمیوں سے واقف کرائیے بلکہ ان کو اپنے دست و بازوبنائیے۔خواتین اور خاص طور پر کارکنوں کی خواتین کے تعاون کے بغیر کام کرنا بہت مشکل ہوگا۔اس لیے کہ ہماری خواتین آبادی کا نصف حصہ ہیں،اس طرح ہمارا نصف سرمایہ بھی ہیں اور نصف طاقت بھی۔ ان کو نظر انداز کرکے ہمارا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوسکتا۔ اپنے اوقات کی تقسیم اس طرح کیجیے کہ ہر کام کے لیے وقت میسر آئے اور آپ کی زندگی کا کوئی شعبہ متأثر نہ ہو۔
آخری بات وہ ہے جو ہر مومن،مسلمان کا عقیدہ ہے کہ تمام خزانوں، کامرانیوں اور کامیابیوں کی کنجیاں اللہ کے دست قدرت میں ہیں۔وہی غیب داں ہے،اسی کے منصوبے کے مطابق کائنات کا نظام چل رہا ہے۔اسی کے ہاتھ میں نتیجے ہیں،وہی جانتا ہے کہ نتیجے کب آئیں گے۔اتنا ضرور ہے کہ وہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا،وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے مگرمایوس نہیں کرتا۔اس سے لو لگائیے،اسی کی طرف نگاہیں اٹھائیے،اس کا دروازہ دونوں ہاتھوں سے کھٹکھٹایے،وہ آپ کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔
ہر رہ گذر سے خار ہٹاتے ہوئے چلو
دشمن کو اپنا دوست بناتے ہوئے چلو
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ترجمہ:نایاب حسن
ناٹنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر گریجری کیوری(Gregory Currie)نے نیو یارک ٹائمس میں لکھا تھا کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ادب کا مطالعہ ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے؛کیوںکہ’’خارج میں اس بات کا کوئی اطمینان بخش ثبوت نہیں ملتا کہ لوگ ٹالسٹائے یا دوسری عظیم ادبی تخلیقات کو پڑھ کر اخلاقی یا سماجی اعتبار سے بہتر انسان بن گئے‘‘۔
حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ثبوت موجود ہیں۔یارک یونیورسٹی،کناڈا کے ماہر نفسیات ریمنڈ مار( Raymond Mar) اورٹورنٹو یونیورسٹی میں علمی نفسیات کے پروفیسر ایمرٹس کیتھ اوٹلی(Keith Oatley)نے2006اور2009میں ایک مشترکہ اسٹڈی شائع کروائی،جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ جو لوگ زیادہ تر فکشن کا مطالعہ کرتے ہیں،وہ دوسروں کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں،ان کے اندر لوگوں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ بھی دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اور وہ دنیا کو دوسروں کے نظریےسے دیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس کا سرا محققین کی اس دریافت سے بھی جڑتا ہے کہ جو لوگ زیادہ ہمدردانہ جذبات کے حامل ہوتے ہیں،وہ ناول پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔2010میں ریمنڈ نے بچوں کے سلسلے میں شائع شدہ اپنی اسٹڈی میں بھی اسی قسم کی باتیں لکھی تھیں،ان کے مطابق:ان کے سامنے جتنی زیادہ کہانیاں پڑھی گئیں،ان کے اذہان دوسروں کے خیالات کو سمجھنے کے اتنے ہی قریب ہوتے گئے۔
مطالعے کی ایک قسم ہے ،جسےDeep readingیا ’’گہرا مطالعہ ‘‘کہتے ہیں،اس کے مقابلے میں ’’سطحی مطالعہ‘‘(superficial reading)کی اصطلاح کااستعمال ہوتا ہے،جس کا اطلاق عموماً انٹرنیٹ ؍ویب سائٹس وغیرہ کے مطالعے پر کیا جاتا ہے۔محققین اور مطالعہ و علمی نفسیات کے ماہرین کا کہناہے کہ بہ تدریج گہرے مطالعے کا رجحان کم ہوتا جارہاہے اور اسے خطرات لاحق ہیں ، اس کے تحفظ کے لیے ویسی ہی کوشش کی ضرورت ہے،جیسی کہ ہم کسی تاریخی عمارت یا فنی و تہذیبی شہہ پارے کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں۔اگر گہرے مطالعے کا رجحان ختم ہوجاتا ہے تو اس سے نہ صرف آنلائن نشوو نما پانے والی ہماری نسلوں کا عقلی و جذباتی خسارہ ہوگا؛بلکہ اس سے ہماری تہذیب و ثقافت کے اہم جز؛مثلاً ناول،شاعری اور دوسری قسم کے ایسے ادب کی بقا کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں گے،جس کے فروغ میں صرف وہ قارئین حصہ لیتے ہیں،جن کے اندرخاص طورپر لٹریچر کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
دماغی سائنس،نفسیات اور نیوروسائنس سے متعلق ایک حالیہ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’گہرا مطالعہ‘‘(جو دھیرے دھیرے،کتاب میں ڈوب کرکیا جاتاہے اور جومحسوس تفصیلات اور اخلاقی و جذباتی اتار چڑھاؤ سے مالا مال ہوتاہے)ایک منفرد تجربہ اور اور الفاظ کی ظاہری سمجھ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔حالاں کہ گہرے مطالعے کے لیے لازمی طورپر کسی مانوس اور پسندیدہ کتاب کا ہونا ضروری نہیں ہے،مطبوعہ صفحات میں فطری طورپر ایسی انفرادی صلاحیت ہوتی ہے،جو گہرے مطالعے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔مثال کے طورپر ہائپر لنک سے آزاد کتاب قاری کو فیصلہ سازی کے تذبذب سے بچاتی ہے(کہ میں اس لنک پر کلک کروں یا نہ کروں؟)اور اسے پوری طرح مصنف کے بیانیے میں محو کر دیتی ہے۔
یہ محویت یا استغراق ایک ایسے طریقۂ کار سےمربوط ہے جس کے ذریعے انسان کا دماغ کتاب میں مذکور مختلف تفصیلات،تلمیحات و استعارات سے مالامال زبان سے معاملہ کرتا ہے بایں طورکہ وہ ذہن کے پردے پر ایک عقلی نقشہ بناتا ہے جو کتاب کے ان مباحث پر قائم ہوتا ہے،جو اُس وقت ایکٹیو ہوسکتے ہیں جب وہ منظرحقیقی زندگی میں بھی سامنے ہو۔جذباتی احوال اور اخلاقی مسائل جوکہ ادب کے لازمی اجزا ہوتے ہیں،وہ بھی زبردست دماغی مشق کا ذریعہ ہیں،وہ ہمیں خیالی اور تصوراتی اشخاص کے دماغوں تک پہنچاتے اور جیسا کہ مطالعات وتحقیقات سے ثابت ہوتا ہے، ہماری باہمی ہمدردی کی حقیقی صلاحیت میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔
مگر یہ سب اس وقت نہیں ہوتا جب ہم انٹرنیٹ پر کوئی ویب سائٹ اسکرول کررہے ہوتے ہیں۔گرچہ ہم اسے بھی پڑھنے سے تعبیر کر سکتے ہیں ،مگر کتابوں کا گہرا مطالعہ اور منتشر معلومات پر مبنی ویب سائٹ کو دیکھنا؍پڑھنا دونوں میں تجربے،نتائج اور ان سے حاصل ہونے والی صلاحیتوں کے اعتبار سےبہت فرق ہے۔بہت سی ایسی دلیلیں ہیں،جو یہ بتاتی ہیں کہ آن لائن مطالعے میں قاری کا انہماک کم سے کم ہوتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے بھی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہوتا،جو انٹرنیٹ کی دنیا سے کافی مانوس ہیں۔مثال کے طورپر مئی2013میں برطانیہ کے نیشنل لٹریسی ٹرسٹ نے آٹھ سے سولہ سال کے درمیان کے34910بچوں کے تحقیقی جائزے پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی تھی،جس میں ریسرچرز نے بتایا تھا کہ39فیصد بچے اپنے گھروں میں الیکٹرانک آلات کے واسطے سے پڑھتے ہیں اور صرف28فیصد بچے مطبوعہ کتابیں پڑھتے ہیں،مگر آن سکرین پڑھنے والے مطالعہ کو انجواے کرنے میںتین گنا کم تھے،اسی طرح ایسے ایک تہائی بچوں کی کوئی پسندیدہ کتاب نہیں تھی۔اس جائزے میں یہ بھی پایا گیا کہ جو بچے یا نوجوان روزانہ صرف آن سکرین پڑھتے ہیں،ان کے مطالعے کا تناسب ان لوگوں سے تقریباً دو گنا کم ہوتا ہے جو روز مطبوعہ کتابیں پڑھتے ہیں یا مطبوعہ کتابوں کے ساتھ آن سکرین بھی پڑھتے ہیں۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ نئی نسل کس طرح مطالعہ کرتی ہےیہ جاننا مفید ہوگا کہ پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے طورطریقے اور صلاحیت کی نشوونمود کس طرح ہوئیہے۔امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی میں مرکز برائے مطالعات و لسانی تحقیق کی سابق ڈائریکٹراور انسانی ذہن کے مطالعے پر متعدد کتابوں کی مصنفہ ماریانا وولف(Maryanne Wolf)نے لکھاہے کہ’’انسان کے اندر پیدایشی طورپر پڑھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی‘‘۔ اس کے برخلاف اس کے اندر سمجھنے اور بولی جانے والی زبان کی تخلیق کی صلاحیت ہوتی ہے،جو ہماری جینز کی ہدایت کے مطابق عام حالات میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور پڑھنے کی صلاحیت لازمی طورپر ہر انسان کو ذاتی محنت و مشقت کے ذریعے حاصل کرنا ہوتی ہے۔ہم دماغ کے جن اجزا کو مطالعاتی گروپ کے طورپر استعمال کرتے ہیں،وہ دراصل دوسرے مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں اور اس گروپ؍اجزا کا طاقت ور یا کمزور ہونا اس پر منحصر ہے کہ ہم اسے کتنی بار اور کتنی قوت سے استعمال کرتے ہیں۔
گہرا مطالعہ کرنے والا انسان ذہنی انتشار سے محفوظ ہوتا ہے اوروہ دورانِ مطالعہ سامنے آنے والے الفاظ کے درمیان پائے جانے والے باریک لغوی فرق کو بھی بخوبی سمجھتا ہے،پھردورانِ مطالعہ بہ تدریج اس پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جسے ماہر نفسیات وکٹر نیل (Victor Nell) نے مطالعے سے لطف اندوزی کی نفسیات سے متعلق اپنی ایک تحقیق میں’’خواب آور کیفیت‘‘سے تعبیر کیاہے۔نیل کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جب ایک قاری مطالعے سے لطف اندوز ہونے لگتاہے ،تو اس کے مطالعے کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے۔الفاظ کو سرعت کے ساتھ سمجھنا اور صفحے پر آہستگی سے آگے بڑھنا دونوں مل کر گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے والے کوتحلیل و تجزیہ ،چیزوں کو یاد رکھنے اور آرا و افکار کو نتیجہ خیز بنانے کا کافی وقت فراہم کرتے ہیں۔اس طرح قاری کو مصنف کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے کا وقت ملتا ہے،جس کے زیر اثر دو محبت کرنے والوں کی طرح یہ دونوں ایک طویل و گرم جوشانہ گفتگو میں منہمک ہوجاتے ہیں ۔
یہ وہ مطالعہ نہیں ہے جسے بہت سے نوجوان جانتے ہیں۔ان کا مطالعہ وقتی فائدے کا حامل ہے اور دونوں میں وہی فرق ہے، جسے معروف ادبی نقاد فرینک کرموڈ(Frank Kermode) نے’’جسمانی مطالعہ ‘‘ اور ’’روحانی مطالعہ‘‘کے ذریعے بیان کیاہے۔اگر ہم اپنی نئی نسل کو یہی باور کراتے رہے کہ ’’جسمانی مطالعہ‘‘ہی سب کچھ ہے اور ابتدائی دور میں ہی مشق وممارست کے ذریعے ہم نے انھیں روحانی مطالعے کا عادی نہیں بنایا،تو ہم انھیںایک لطف انگیز و مسرور کن تجربے سے محروم رکھ کر دھوکے میں ڈالیں گے۔ہم انھیں ایسے اعلیٰ اور روشنی بخش تجربے سے محروم کر دیں گے جو بطورانسان انھیں بلند کرسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل آلات سے نئی نسل کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے بعض ترقی پسند معلمین اورکسل مند والدین بچوں کی عادتوں کے ساتھ چلنے اوران کی تعلیم کو بھی آن سکرین لانے کی باتیں کرتےہیں، حالاں کہ یہ غلطی ہے، اس کی جگہ ضرورت ہے کہ ہم انھیں ایسی جگہیں دکھائیں جہاں وہ کبھی نہیں گئے،ایسی جگہیں، جہاں وہ محضـ’’گہرے مطالعے‘‘کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔
(اوریجنل مضمون دی ٹائم میگزین میں شائع ہوا ہے)
تو ہوا یوں کہ میں اور فوزیہ سعید لوک ورثہ میں، میری سالگرہ کا کیک کاٹنے کیلئے گئے۔ کورونا ہمیں دیکھتے ہی حملہ آور ہو گیا اور ٹیسٹ کرانے پر ثابت ہوا کہ ہم کورونا کا شکار ہو چکے ہیں اور اب الگ الگ کمروں میں پندرہ دن کے لئے اپنے اپنے گھر میں مقید ہونا تھا۔ ایسا تو سب کورونا مریضوں کے ساتھ ہوتا ہی ہے مگر ہمارے ساتھ جو عجیب منظر نامہ ہوا، وہ کہانی طلسم ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ میں نے دفتر سے اسسٹنٹ کو بلایا کہ یہ کالم لو اور جنگ کو بھیج دو۔ اس نے فوراً کہا اس کو آپ کا کورونا والا ہاتھ لگا ہوا ہے، میں نہیں پکڑوں گا۔ اب میں نے افسر ہونے کے زعم میں باس کو فون کرکے شکایت کی انہوں نے التجا کی کہ آپ کے ہاتھ کے لکھے کو پکڑنے سے صرف ایک بندہ نہیں پورا دفتر بیمار ہو جائے گا، اس لیے معاف فرمائیے۔ اب میں خود دوائیاں لینے گئی۔ جب پیسے دینے لگی، کیشئر نے کہا ’’میں چمٹے سے پکڑ کر آپ کے نوٹ لے سکتا ہوں، کیونکہ آپ کو پرانا جانتا ہوں، ورنہ ہم سب کو بھی کورونا ہو جائے گا”۔
اب میں اور فوزیہ اپنے اپنے کمروں میں مقید تھے اور قیدیوں کی طرح کھڑکی بجاکر ہمیں چائے اور کھانا پکڑا دیا جاتا رہا۔ اب ایک اور پُرلطف داستان۔ جب ڈائلسس والے ٹیسٹ کرنے اپنے یونیفارم اور آلات کے ساتھ میرے فلیٹ میں آئے تو سارے فلیٹوں کی کھڑکیوں سے سب ایسے دیکھنے لگے کہ جیسے کوئی بندر کا تماشا ہو رہا ہے۔ جب ٹیسٹ کرنے کے بعد وہ واپس گئے تو سارے فلیٹ والے فون کرکے پوچھتے رہے کہ واقعی آپا کو کورونا ہو گیا ہے۔ بس وہ دن اور آج کا اٹھارہواں دن کہ جب ٹیسٹ کرنے والے دوبارہ آئے اور مطمئن گئے تو گارڈ، ہر فلیٹ والے نے بڑھ کر پوچھا ’’اب کورونا تو نہیں ہے‘‘۔
یہ منظر نامہ بتاتا ہے کہ لوگ کورونا سے کس قدر ڈرے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ روز ایک نہ ایک سیکٹر میں لاک ڈاؤن ہو رہا ہے۔ واقعی بداحتیاطی کے باعث ہی کورونا پھیلتا رہا ہے۔ اس ڈرامائی تشکیل کو سنانے کا مطلب یہ بھی تھا کہ ڈرنا واقعی نہیں چاہئے، البتہ لڑنا چاہئے۔ مگر میں تو اتنا لڑی کہ معلوم نہیں ڈاکٹر زینت کی دوائیوں کے باعث میں دن اور رات میں زیادہ وقت سوتی رہی۔ لوگوں نے ڈرایا تھا کہ بخار ہوگا جسم میں درد ہوگا، سانس مشکل سے آئے گا۔ میں ان سب ڈراؤنے حملوں سے ڈرتی رہی اور وہ سب شاید مجھ سے ڈرتے رہے۔ بہرحال 18دن کی قید بامشقت گزار کر اور بے پناہ سوپ، افتخار عارف کے بھیجے ہوئے بےشمار فروٹ زبردستی کھاتی رہی۔ ہر روز کسی نہ کسی دوست کے گھر سے سوپ آجاتا، یخنی آجاتی، ناپسند ہونے کے باوجود دوستوں کی محبت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے زبردستی پیتی رہی۔ ہر روز میری ڈاکٹر زینت اس قدر تفصیل سے چیک کرتی رہی اور ثمر من اللہ میرا ٹمپریچر صبح شام چیک کرتی رہی۔ سارے دوستوں کو مطمئن کرنے کیلئے، حمید شاہد، طاہرہ عبداللہ اور صنوبر کی ڈیوٹی لگی تھی کہ ساری دنیا کے فون ہر لمحہ آرہے تھے۔ میں بھی کیسی ڈھیٹ ہوں کورونا کو بھگا دیا اور اب آپ سے مخاطب ہوں۔
فوزیہ سعید نے کورونا کے باوجود، سارے دوستوں کو زوم پر اکٹھا کیا۔ مزے مزے کی میرے بارے میں گفتگو کی۔ کیک کاٹا اور یوں سر پر ٹھہری ہوئی بلا کو ٹالا۔ اس سارے ماحول اور لوگوں کے رویے سے یہ اندازہ ہوا کہ لوگ کورونا سے لڑ نہیں بلکہ ڈر رہے ہیں۔ سب لوگوں نے گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کو آنے سے روک دیا ہے۔ یہ احتیاط نہیں، واقعی ڈر ہے۔ کورونا والے شخص سے تو خیر ہاتھ نہیں ملانا چاہئے کہ کسی دوسرے سے ہاتھ ملانا احتیاطاً منع ہے مگر ایک ہاتھ سے نوٹ پکڑنا، مضمون پکڑنا، یہ ساری باتیں احتیاط کے ضمن میں نہیں بلکہ خوف کے ضمن میں آتی ہیں۔ ہم لوگوں نے اچھوت اور کورونا کو ایک کر دیا ہے۔ میرے علم میں ہے کہ والد کے مرنے پر اولاد قبر میں اتارنے سے ڈرتی ہے۔ اگر ہر ایک کا دن مقرر ہے تو پھر یہ خوف کیوں؟ کیا زندگی رشتوں سے زیادہ عزیز ہے؟ ادھر ملک بھر میں سینکڑوں لوگ کورونا سے مر رہے ہیں۔ اُدھر بجٹ پاس کرانے کے لئے اس سادہ وزیراعظم کی جانب سے ووٹ لینے کے لئے ڈنر کا اہتمام کیا جا رہا ہے، دوسری طرف ناراض گروپ، اپنے مرغن کھانے کھا رہا ہے۔ خیر یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سال یونہی ہوتا ہے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوکہ روسی صدر پیوٹن کی طرح اپنے دورِ حکومت کو 30برس تک بڑھا دیں، ناراض اور مخالف گروپ کا کام تو ہے ہی رولا ڈالنا۔ وہ اپنے کام پر لگے رہیں۔ بازار میں چینی 140 روپے ملتی رہے۔ آخر چینی کھانا چھوڑ دیں گے۔
کورونا کے باعث دو اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک تو جارج فلائیڈ کے بے رحمانہ قتل اور وہ بھی سفید فام پولیس کی سفاکی سے، جسے دنیا بھر نے دیکھا۔ دنیا کے ہر ملک (سوائے برصغیر) نے 18دن تک شدید مظاہرے کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کی بیوٹی کریم کمپنی والوں نے رنگ گورا کرنے کی اصطلاح قطعی ختم کر دی ہے۔ اخباروں سے لیکر مضامین تک میں کالے گورے کی تخصیص ختم کر دی گئی ہے۔
دنیا میں ویسے ایک تحریک چلی ہے کہ کورونا کے باعث چونکہ 6ماہ تک ڈیزائنرز کے کپڑے نہیں فروخت ہوئے۔ زیادہ تر خواتین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نئے کپڑے نہیں خریدیں گی۔ پچھلے سال کے کپڑوں کو کہیں بلاک پرنٹنگ کرا کر، کہیں کچھ کپڑوں کو نئے جوڑ لگوا کر رلی جیسے ڈیزائن بنا لیں گی۔ ہماری ڈیزائنرز کی دکانیں بھی کم قیمت پر کپڑے فروخت کرکے، خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کاش ہماری خواتین بھی سگھڑ پن کرکے پرانے کپڑوں کو نیا بنا لیں۔ میری خوش فہمی کی بھی کوئی حد نہیں۔
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے گذشتہ چند سالوں میں چین سے درآمدات میں اضافے کو لے کر منگل کو بی جے پی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ میک ان انڈیاکی بات ہو رہی ہے ، لیکن چین سے خریداری جاری ہے ۔انہوں نے ٹویٹ کیاہے کہ حقائق جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ میک ان انڈیا ہے اور فرام چین۔کانگریس کے لیڈرمنموہن سنگھ حکومت کے دوران ہندوستان کی کل درآمدات میں چین کی کمی اور نریندر مودی حکومت میں چین کے حصہ میں مبینہ طور پر اضافے سے منسلک ایک گراف بھی شیئرکیاگیاہے۔ قابل ذکر ہے کہ ان دنوں لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر ہندوستان اور چین کے مابین تعطل ہے۔ 15۔16 جون کی درمیانی رات ، دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین پْرتشدد جھڑپوں میں 20 ہندوستانی فوجی ہلاک ہوگئے۔ چینی فریق کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس پر ، وزیراعظم سے سوالات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم ، آپ کو سچ کہنا ہے ، ملک کو بتانا ہوگا ، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ زمین چلی گئی ہے اور اصل میں زمین چلی گئی ہے تو چین کو فائدہ ہوگا۔انہوں نے مزیدکہاہے کہ،ہمیں ان کے ساتھ مل کر لڑنا ہے ، انہیں اٹھا کر واپس پھینکنا ہے ، پھر ہمیں سچ بتانا ہوگا۔ بلا خوف وخطر ، آپ کہتے ہیں کہ ہاں ، چین نے زمین لے لی ہے اور ہم کارروائی کرنے جارہے ہیں ، پورا ملک آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور آخری سوال۔ہمارے شہدا کو اسلحہ کے بغیر کس نے بھیجا ، اور کیوں؟
بہار میں سیلاب کی آمد کے آثار نظر آنے لگے ہیں ۔ ہر سال سیلاب سے تباہی بہار کا مقدر بن چکی ہے ۔ خاص کر شمالی اور جنوبی بہار صدیوں سے سیلاب کا گڑھ رہا ہے ۔ بہار کے سیلابی ضلعوں میں ارریہ ، پورنیہ ، کشن گنج، کھگڑیا ، سوپول ، سہرسہ ، سمستی پور ، دربھنگہ ، مدھوبنی اور سیتا مڑھی خاص کر قابل ذکر ہیں ۔ ان تمام سیلابی ضلعوں میں ہر سال سیلاب سے بھیانک تباہیاں ہوتی ہیں ۔ جانی و مالی نقصانات کے علاوہ لاکھوں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں اور کھیتی باڑی کے علاوہ فصلیں الگ تباہ ہوتی ہیں ۔ برسات میں ہر سال طوفانی بارش روڈ اور باندھ کو توڑ پھوڑ دیتی ہے جس سے آمدو رفت میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور اد کے نتیجے میں سرکاری خزانوں کا ہر سال خاصا نقصان ہوتا ہے جو قابل افسوس ہے ۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ ہر سال سیلابی آفت سے ہونے والے نقصانات کو عوام حسرت اور مایوسی کے ساتھ دیکھتے آرہے ہیں اور حکومت بھی لاچاری اور بے بسی کامظاہرہ کرتی رہی ہے ۔ ایک زمانے سے بہار میں سیلاب کا مسئلہ ہنوز برقرار ہے مگر حکومت اس سے نمٹنے اور سیلاب کی روک تھام میں افسوس ناک حد تک نا کام ثابت ہوئی ہے ۔ حکومت کی خاموشی اور ناکامی اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت یا تو اس معاملے میں بے بس ہے یا مسئلۂ سیلاب سے نپٹنے کے لئے حکومت بہار کے پاس ٹھوس اور مناسب منصوبوں کا فقدان ہے ۔ جب بہار کی راجدھانی شہر پٹنہ جو سرکاری نگہداشتوں کا گڑھ ہے وہ بھی سیلاب کی مصیبتوں سے بچ نہ سکا تو دیگر اضلاع کے دیہاتوں کا کیا عالم ہوگا؟ بہار کے بیشتر بڑے شہروں میں بارش کا پانی جمع ہونے سے اس بات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ان شہروں میں پانی کی نکاسی کا معقول انتظام نہیں کے برابر ہے ۔ خاص کر وہ تمام شہر جو ندیوں کے کنارے آباد ہیں وہاں بارش کے ساتھ ساتھ ندی کا پانی شہروں میں داخل ہو جانے سے مزید تباہیاں مچتی ہیں جن میں بہار کا شہر پٹنہ قابل ذکر ہے ۔ دربھنگہ ، مدھوبنی اور سیتا مڑھی جیسے شہروں میں پانی کی نکاسی کا کوئی خاص انتظام نہیں ہونے سے وہاں بھاری برسات کے دوران پانی کا جمنا عام بات ہے ۔ واضح ہو کہ نیپال خطر ناک حد تک ہر سال پانی چھوڑتا آیا ہے جس سے دربھنگہ اور سیتا مڑھی کے دیہی علاقے زیر آب آ جانے کی وجہ سے ندیاں ابل پڑتی ہیں اور پانی کی زیادتی باندھ کے ٹوٹنے اور علاقے میں پھیلنے کا سبب بنتی ہے ۔ یہ عمل ہر سال نیپال دہراتا آرہا ہے مگر بہار کی حکومت آج تک اس مسئلے کا مناسب حل تلاش کرنے میں نا اہل ثابت ہوئی ہے ۔ ابھی جبکہ برسات صرف شروع ہوئی ہے تھوڑی دیر کی بارش سے گاؤں کے کھیتوں میں پانی گویا سمندر کا احساس دلا رہا ہے جبکہ ابھی پوری برسات اور جولائی یا اگست میں سیلاب کا آنا باقی ہے ۔ زمانۂ قدیم سے پانی کی نکاسی کے لئے مقامی طور پر تشکیل دیا ہوا نظام فرسودہ ہونے کی وجہ سے سیلاب کے خطرے مزید بڑھ گئے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیلاب کے خطرے سے بہار کے عوام کو بچانے کے لئے حکومت کو مضبوط اور ٹھوس قدم اٹھائے ۔
مولانا انظر شاہ کشمیری کی اس کتاب کے صرف نام میں ہی کشش نہیں ہے، اس کے درون میں بھی صاحبِ ذوق قاری کی تسکین کا وافر سامان ہےـ اس کتاب میں یوں تو جن علما، دانشوران اور سیاست دانوں کے خاکے کھینچے گئے ہیں، ان پر لکھنے والوں نے بہت لکھا ہے، مگر انظرشاہ صاحب کی بات ہی کچھ اور ہےـ مولانا کے اسلوب میں زبردست دل آویزی ہے، ان کی سلسبیلی نثر قاری پر جادو کرتی ہے، اس کے حواس پر چھا جاتی ہے، اسے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہےـ ان کے اسلوب میں ندرت بھی ہے اور جدت بھی، وہ ایک عالمِ دین اور شیخ الحدیث ہیں مگر ان کا اندازِ تحریر بڑے بڑے صاحبِ اسلوب لکھاریوں سے آنکھ ملانے کی صلاحیت رکھتا ہے، ان کی زبان میں روانی ایسی ہے کہ قاری ان کے الفاظ کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے، ان کی تحریر میں جاہ وجلال بھی ہے اور جمال و کمال بھی ہےـ ان کی قوتِ تخیل میں رعنائی ہے اور قوتِ تحریر میں زیبائی،جس طرح ان کی خطابت اپنے دور میں ممتاز تھی، بالکل اسی طرح ان کے انشا میں بھی تمیز و تفوق کے دسیوں پہلو ہیں ـ معروف ادیب و ناقد حقانی القاسمی نے مولانا انظر شاہ کشمیری کی نثر کے امتیازی اوصاف کی نشان دہی یوں کی ہے:
"انظر شاہ کشمیری کی نثر میں طلسسمی کیفیت ہےـ اردو میں ایسی پُردَم اور بلند آہنگ نثر لکھنے والے کم ہیں، جن کے جملوں کے زیر و بم اور موسیقیت سے وہ اذہان بھی متاثر ہوتے ہیں، جو لفظوں کے معانی و مفاہیم تک رسائی سے قاصر رہتے ہیں ـ ان کی نثر کی رمزیت اور اسراریت میں وہ کیفیت ہے کہ قاری اس کے سحر سے نہیں نکل پاتا اور اس کا ذہنی وجود نثر کی موجِ رواں میں جذب ہوکر رہ جاتا ہے "ـ
(دارالعلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ، ص: 78)
خصوصا خاکہ نگاری و سوانح نویسی میں ان کے قلم کی روانی اور اسلوب کی دلکشی کچھ زیادہ ہی اوج پر ہوتی ہےـ اس سلسلے کی باقاعدہ ان کی دو کتابیں ہیں: ایک "نقشِ دوام "ہے جس میں انھوں نے اپنے والد اور ہندوستان کے ممتاز محدث علامہ انور شاہ کشمیری کی سوانح دلچسپ و دلنشیں انداز میں لکھی ہے اور دوسری "لالہ وگل "ہے جو پہلی بار سن دوہزار میں شائع ہوئی تھی اور اس میں کل ستر خاکے تھے، انہتر بڑے انسانوں کے اور ایک خاکہ خطۂ کشمیر کا، جہاں سے ان کا آبائی تعلق تھا، اس جنتِ ارضی کی ایسی جمال انگیز صورت گری کی ہے کہ تھوڑی دیر کو محسوس ہوتا ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں وادیِ کشمیر کی سیر کررہے ہیں ـ
ایک عرصے کے بعد اب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بڑی جلوہ سامانیوں کے ساتھ منظرِ عام پر آیا ہےـ پہلے ایڈیشن کے مقابلے اس کا امتیاز ایک تو اس کے ظاہری سراپا کا حسن و جمال ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں مرتبِ کتاب نے ان سوانحی مضامین کو بھی شامل کر دیا ہے، جو مولانا نے سن دوہزار کے بعد سے دوہزار آٹھ میں اپنی وفات تک اپنے رسالے "محدثِ عصر "کے وفیات کے کالم میں لکھے، ایسے بائیس لوگوں کے خاکے اور ان پر تاثراتی مضامین کا اس ایڈیشن میں اضافہ کردیا گیا ہے، "ضمیمہ "کے تحت بھی سات آٹھ ان سوانحی مضامین کو شامل کیا گیا ہے، جو مختلف تقریبوں سے متعدد رسائل و مجلات میں لکھے گئےـ الغرض یہ کتاب اب کی بار پہلے سے زیادہ جامع اور خوب صورت انداز میں چھپی ہےـ
مولانا کے اسلوبِ تحریر اور اس کتاب کی تعریف میں اتنا کچھ لکھے جانے کے بعد الگ سے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ ہر علم دوست، کتاب بینی کے شائق اور باذوق افراد کے مطالعے کی میز پر اس کتاب کا ہونا کتنا ضروری اور مفید ہوگا! کتاب بیت الحکمت، دیوبند سے شائع ہوئی ہے اور وہاں کے تمام کتب خانوں میں مل جائے گی، دیوبند کے باہرمنگوانا چاہیں، تو بذریعہ فون اس نمبر 8006075484 پر رابطہ کر سکتے ہیں ـ
نایاب حسن
"دی وائر” ویب سائٹ نے ایک سٹوری شائع کی ہے جس کے مطابق مدھیہ پردیش میں تئیس مارچ کو دیپک بندیلے نامی ایک وکیل کو، جبکہ وہ ہاسپٹل جا رہے تھے، پولیس والوں نے گھیر کر پہلے تو بد زبانی کی اور جب انھوں نے کچھ مزاحمت کی، تو دشنام طرازی کے ساتھ ساتھ پولیسیا لاٹھی سے مار مار کر ان کے جسم کو "لالہ گوں” بنادیاـ وہ بے چارے تب سے کوشش میں ہیں کہ پولیس کے خلاف معاملہ درج کروا سکیں، مگر دوماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی انھیں کامیابی نہیں ملی ہے ـ وائر نے اس سلسلے کی جو تفصیلات درج کی ہیں، دلچسپ ہیں، دلچسپ کیا ہیں، عبرت ناک کہہ لیں ـ ان پولیس والوں کو جب بعد میں پتا چلا کہ جس کی ٹُھکائی کی ہے، وہ گرچہ ڈاڑھی والا ہے اور اس کا لُک مسلمانوں جیسا ہے، مگر وہ تو ہندو ہے، اس وجہ سے انھوں نے متعلقہ شخص سے معذرت کی اور ساتھ ہی صفائی پیش کرتے ہوئے کھلے پن کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کیا کہ بھئی ہم تو دنگوں میں بھی ہندووں کی سائڈ پر رہتے ہیں، پھر عام حالات میں کیسے کسی ہندو کو مار سکتے ہیں ـ جس بندے نے آپ کو پیٹ دیا ہے، وہ پکا ہندو ہے، اسے آپ کی ڈاڑھی سے دھوکہ ہوا اور آپ لپیٹے میں آگئے ـ ہائے! کتنے بھولے اور سیدھے لوگ ہیں یہ پولیس والےـ
یاد رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ سیم اسی قسم کا واقعہ ماہ فروری میں نارتھ ایسٹ دہلی کے فساد کے دوران بھی رپورٹ کیا گیا تھاـ وہ واقعہ مشہور انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے رپورٹر کا تھا، جسے کسی جگہ فسادیوں کی بھیڑ نے گھیر لیا تھا اور بڑی مشکل سے اپنے آپ کو ہندو ثابت کرنے کے بعد اس کی جان چھوٹ سکی تھی ـ غالباً اسی بندے کو پینٹ کھول کر اپنی مذہبی پہچان بتانے کے لیے کہا گیا تھا ـ بعد میں انڈین ایکسپریس میں اس کی مفصل سٹوری چھپی تھی ـ
ان دوواقعات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ذہنی و نفسیاتی طور پر مسلمانوں کے خلاف اس ملک کی پولیس اور عام متشدد ہندو ایک پیج پر ہیں ـ مدھیہ پردیش پولیس نے جو کچھ کہا ہے، یہ ایک حقیقت ہے اور اس پر تمام ہندوستان کی پولیس عمل کرتی ہےـ سابق آئی پی ایس افسر وبھوتی نارائن رائے جیسے متعدد ان انصاف پسندوں نے بھی اس حقیقت کو بار بار آشکار کیا ہے، جو خود ایک طویل عرصہ پولیس ڈپارٹمنٹ میں کام کر چکے ہیں ـ وہ لکھتے ہیں کہ اسی وجہ سے یادہ تر؛ بلکہ تقریبا تمام فسادات میں مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہندووں کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے؛ کیوں کہ ہندووں کو پولیس کی شکل میں باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اور مسلمان اگر کہیں مضبوط ہوں، پھر بھی کھل کر ہاتھ پاؤں نہیں چلا پاتےـ "کامن کاز "نامی این جی او نے دوہزار انیس کی جو پولیسنگ کے عمل پر اپنی رپورٹ پیش کی ہے، اس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ تقریبا پچہتر فیصد ہندومسلم فسادات یا معمولی جھگڑوں میں بھی پولیس یہ مان کر چلتی ہے کہ غلطی مسلمانوں کی ہوگی؛ چنانچہ ان کے ساتھ اس کا برتاؤ بھی ایسا ہی ہوتا ہے،جیسا کہ مجرموں کے ساتھ کیا جانا چاہیےـ
پولیس میں چوں کہ مسلمانوں کی نمایندگی آٹے میں نمک جیسی ہوتی ہے؛ اس لیے مسلم پولیس اہلکار بعض دفعہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتےـ اس حوالے سے مجھے پھر وبھوتی نارائن اور ہاشم پورہ قتلِ عام پر ان کی کتاب کا حوالہ دینا چاہیےـ جب یہ شرمناک واقعہ رونما ہوا تو اس وقت ضلع غازی آباد کے ڈی ایم نسیم زیدی نامی مسلمان تھے اور سب سے پہلے اس سانحے کی خبر جن لوگوں کو ہوئی، ان میں وہ بھی تھے؛ بلکہ وہ اسی رات مقامِ حادثہ پر بھی پہنچے تھے، سارے حقائق ان کے سامنے تھے، مگر ہوا کیا، وہ سارا ملک جانتا ہےـ اسی طرح اسی سانحے کی تفتیش جس سی آئی ڈی کرائم برانچ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کے سپرد کی گئی تھی، اس کا نام بھی خالد رضوی تھا، مگر اپنی نوعیت کے اس انوکھے اور انسانیت کو شرمسار کردینے والے حادثے پر عدالت کا جوفیصلہ آیا، وہ آپ کے علم میں ہوگاـ پچاسوں بے قصوروں کے قاتل بری کردیے گئے، انصاف منہ تکتا رہ گیاـ
بعض تجزیہ کارجب آزاد ہند کے پولیس نظام کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انھیں مختلف حوالوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آزادی کے فورا بعد ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے باقاعدہ ریاستوں کو سرکلر جاری کرکے یہ ہدایت دی تھی کہ پولیس میں مسلمانوں کی بھرتی کم سے کم کی جائےـ وبھوتی نارائن نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں ہی اس کا ذکر کیا ہے، البتہ انھیں اس بات کی صحت پر شبہ ہے، انھوں نے کوشش کی کہ پٹیل کا یہ تحریری فرمان کہیں سے ان کے ہاتھ لگے، مگر انھیں کامیابی نہیں ملی ـ ویسے پٹیل کی شخصیت و کردار اور ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں ان کے مجموعی نقطۂ نظر سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ بات معنی خیز ہونی چاہیےـ نیز آزادی کے بعد سے اب تک پولیس ڈپارٹمنٹ میں مسلمانوں کے داخلے کا جو تناسب رہاہے، وہ بھی کچھ کہتا ہےـ آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ مسلمان تو بے چارے اس لائق ہی کتنے ہوتے ہیں کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کا حصہ بن سکیں؟ مگر پھر سوال یہ بھی پیدا ہوگا کہ جتنے مسلمان اس لائق ہوتے ہیں، کیا انھیں بھی انصاف کے ساتھ اس شعبے میں لیا جاتا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ فسادات اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں عموما مسلمان یک طرفہ پیٹے جاتے ہیں ـ پولیس میں اگر برابری نہ سہی، مجموعی آبادی کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کی نمایندگی ہوتی، تو ایک قسم کا توازن رہتاـ اپنے فرقے والوں کے ساتھ ہمدردی تو فطری بات ہے، آپ لاکھ قانون یا جمہوریت وغیرہ کے راگ الاپیں، مگر زمینی سطح پر بات کچھ اور ہی ہوتی ہےـ آزادی سے پہلے سے ہی اس ملک کی پولیس میں اس قسم کی نفسیات پائی جاتی ہے؛ چنانچہ اُس زمانے میں رونما ہونے والے فسادات کے ریکارڈ کو کھنگالیے تو آپ کو یہ ملے گا کہ مسلم پولیس والے عموما مسلمانوں کے فیور میں کھڑے ہوتے تھے اور ہندو پولیس والے ہندووں کی حمایت میں اور جس کا جہاں زور چلتا، بازی مار لیتا تھاـ آزادی سے چند ماہ پہلے بنگال کے نواکھالی، بہار کے پٹنہ وآس پاس اور پنجاب میں جو کشت و خون ہوا تھا، کیا وہ پولیس والوں کی اعانت وحوصلہ افزائی کے بغیر ہوا ہوگا؟
(استاذِ محترم کی یاد میں)
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور کئی نسلوں کے معلم و مربی ،استاذ الاساتذہ حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری آج صبح قضائے الہی سے وفات پا گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
دل مغموم ہے ،آنکھیں نم ہیں،ذہن پر رنج و غم کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ میں نے ان کی وفات کی خبر قدرے تاخیر سے دیکھی اور دیکھتے ہی ان سے منسوب زمانۂ طالب علمی کی کتنی ہی یادیں ذہن کے پردے پر جھلملانے لگیں ۔ کیا شگفتہ و شاندار انسان تھے اور خدا نے ان کی شخصیت میں کیسی دلکشی رکھ دی تھی! مفتی صاحب ہندوستان؛ بلکہ دنیا کے ایسے چیدہ و خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے جنھیں کم و بیش نصف صدی تک مسلسل علمِ حدیث کی تدریس کا موقع ملا اور انھوں نے ہزارہا طالبانِ علومِ نبوت کی علمی تشنگی بجھائی۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے احاطے میں ان منتخب ترین اساتذہ میں سے ایک تھے جنھیں تمام طلبہ کے درمیان یکساں مقبولیت و محبوبیت حاصل تھی اور اس کی وجہ صرف ان کا تدریسی کمال،افہام و تفہیم کا اثر انگیز انداز اور پڑھانے کا ایسا دلنشیں طَور تھا،جو شاذ ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ لگ بھگ گیارہ سال قبل جب ہم وہاں دورۂ حدیث کے طالب علم تھے ،تب اس جماعت میں کم و بیش آٹھ سو طلبہ ہوتے تھے،اسی سال انھیں صحیح بخاری کی تدریس کی ذ مے داری ملی تھی،سنن ترمذی وہ پہلے سے پڑھا رہے تھے۔ دوسرے اساتذہ کے گھنٹوں میں عموماً آدھی یا دو تہائی درس گاہ خالی ہوتی تھی ،مگر مفتی صاحب کی کلاس میں پاؤں رکھنے کو جگہ نہ ہوتی،جو طلبہ کلاس میں ان کی آمد کے بعد پہنچتے وہ عموماً آدھے اندر اور آدھے باہر رہ کر سبق سنتے۔ ان سے استفادے کے لیے دیوبند کی دوسری درسگاہوں کے طلبہ بھی جوق در جوق آتے تھے۔ جب حدیث کی عبارت خوانی ہوتی اوراس کے بعد مفتی صاحب کی تقریر شروع ہوتی ،تو ایک عجیب ہی سماں ہوتا،دلکش و سحرانگیز و دلنشیں ،ہر طالب علم سراپا سماعت بن جاتا،مکمل ذہنی و جسمانی حاضری کے ساتھ سبق سنتا۔ وہ ایسے استاذ تھے کہ ان کے سبق میں شاید ہی کوئی طالب علم ذہنی غیاب کا شکار ہوتا ہوگا،ان کے اسلوبِ کلام اور اندازِ بیان میں ایک مقناطیسیت تھی،جو طالب علموں کو ہمہ تن اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھی۔ مفتی صاحب کی خوبی یہ تھی کہ وہ پڑھاتے ہوئے اپنا ارتکاز موضوع پر رکھتے اور اس کی تفہیم میں تمام متعلقہ دلائل و براہین کو اس خوب صورتی اور منطقی ترتیب سے بیان کرتے کہ طالب علم عش عش کرنے لگتا۔ کم و بیش تیس پینتیس سال تک انھوں نے فضیلت (دورۂ حدیث شریف) کی اہم کتاب سنن ترمذی کا درس دیا اور 2009سے تاحیات صحیح بخاری بھی ان کے زیر درس رہی۔
ان کی ظاہری شخصیت میں بھی مخصوص نوع کی وجاہت تھی،جو ایک محدث کے شایانِ شان ہوتی ہے۔ سادگی و بے تکلفی ہوتی ،مگر اس میں کشش ایسی کہ دل و نگاہ کو اپنا اسیر بنالے۔ اپنے گھر سے دارالعلوم تک کی مسافت عموماً رکشے سے طے کرتے،صددروازے سے دارالعلوم میں داخل ہوتے،احاطۂ مولسری میں پہنچ کر دوتین بار کلی کرتے،چوں کہ وہ پان کھانے کے عادی تھے تو تدریسِ حدیث سے قبل اہتمام سے کلی ضرور کرتے،پھر درس گاہ (دارالحدیث )میں داخل ہوتے،مسندِ تدریس پر بیٹھتے،ایک طالب علم بلند و خوش الحان آواز میں حدیث پاک کی عبارت پڑھتا،اس کے بعد اس حدیث پر مفتی صاحب کی گفتگو ہوتی۔ میں یہ سطور لکھتے ہوئے اس لذت کوپھر سے محسوس کر رہاہوں ،جس سے ان کے در س میں ہم لطف اندوز ہو تے تھے۔ مفتی صاحب پڑھاتے نہیں تھے،جادو کرتے تھے،طالب علم اور سامع کے حواس پر چھا جاتے تھے ،وہ بولتے نہیں تھے موتی رولتے تھے،ان کی نگہ دلنواز تھی اور ادا دلفریب،ان کی امیدیں قلیل تھیں اور مقاصد جلیل،وہ اقبال کی تعبیر ’’نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو‘‘ کی نہایت ہی تابناک مثال تھے۔
جب ہم دورۂ حدیث شریف میں تھے ، تو ششماہی امتحان میں ترمذی و بخاری میں پچاس پچاس نمبرات (تب دارالعلوم میں کل نمبرات پچاس ہوا کرتے تھے)حاصل کرنے والوں کی مفتی صاحب نے خصوصی حوصلہ افزائی کی اور ایسے طلبہ چند ایک ہی تھے۔ اللہ کے فضل سے ان میں سے ایک میں بھی تھا،مفتی صاحب نے ایسے سب طالب علموں کو بعد نماز عصر اپنے گھر بلاکر دعائیں دیں ،تحسین آمیز کلمات سے نوازا،حوصلہ افزائی کی اور انعام کے طور پر سنن ترمذی کی شرح عنایت فرمائی۔ انھیں یہ شکایت رہتی تھی کہ اب طلبہ محنت نہیں کرتے اور اس کا وہ ہمیشہ اپنی کلاسوں میں اظہار کرتے۔ پرانے محدثین و علما اور خود دارالعلوم کے اساتذۂ متقدمین کے واقعات و حالاتِ زندگی سے چیدہ چیدہ واقعات سناتے اور طلبہ کو مہمیز کرتے۔ وہ طلبہ و اساتذہ کے راست تعلق اور رابطے پر زور دیتے تھے؛تاکہ افادہ و استفادہ کا عمل تیز اور نتیجہ خیز ہو؛ اس لیے ہم نے ہمیشہ ان کی زبان سے سنا کہ ایک ایک جماعت میں کئی کئی سو طلبہ کا ہونا درس و تدریس کے نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے،مگر پھروہ یہ بھی کہتے کہ چوں کہ دارالعلوم کو اس کے معیار کے مطابق اساتذہ نہیں ملتے،اس وجہ سے مجبوری میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ اب تو دورۂ حدیث میں غالباً پندرہ سو یا اس سے بھی زیادہ طلبہ ہوتے ہیں۔
سال کے آْخری دن ہونے والی ان کی پندو نصائح سے معمور تقریر بھی یادگار ہوتی تھی ۔ اس دن وہ خود بھی جذبات سے لبریز ہوتے اور طلبہ پر بھی ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی۔ آخری حدیث کا سبق ہوتا،تشریح کی جاتی اور پھر وہ باتیں ہوتیں جو فضیلت کی تکمیل کرنے والے طلبہ کے لیے زندگی بھر کام آنے والی ہوتیں ۔ وہ اپنے طلبہ کی تین جماعتوں میں تقسیم کرتے :اعلی،متوسط اور ادنی اور پھر ان میں سے ہر ایک کو عملی زندگی کا ٹاسک بتاتے۔ اسی کے مطابق سرگرمِ کار ہونے کی تلقین کرتے۔ جب طالب علم آخری دن ان کی کلاس سے اٹھتا توگرچہ اسے اس بات کا غم ہوتا کہ مفتی صاحب جیسے عظیم استاذ سے جدا ہونا پڑ رہا ہے،مگرساتھ ہی اسے خوشی بھی ہوتی کہ اس کا دامن علم و فکر کے جواہر ریزوں سے بھرا ہوا ہے۔ مفتی صاحب نہایت ذہین انسان تھے اوران کا دماغ گویا ایک وسیع و عریض کتب خانہ تھا جس میں مختلف علوم و فنون کی ہزاروں کتابیں ہر وقت موجود و مستحضر رہتیں۔
مفتی صاحب کا کارنامہ صرف یہی نہیں ہے کہ انھوں نے کم و بیش نصف صدی تک علم حدیث پڑھا یا اور ہندوبیرون ہند کے ہزارہا طلبہ ان سے سیراب ہوئے،ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ عصرِحاضر کے طلبہ کے ذہنی مستوی کا ادراک کرتے ہوئے در سِ نظامی کی کئی اہم کتابوں کی لسانی تہذیب و تسہیل کاکام کیا اور انھیں نئے لباس میں شائع کیا۔ بانیِ دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کی متعدد کتابوں کی تسہیل فرمائی اور انھیں نئی نسل کے لیے سہل الفہم بنایا،درسِ نظامی کی متعدد اہم کتابوں کی آسان اردو زبان میں تشریحیں کیں اور جامع ترمذی کی آٹھ جلدوں میں ،جبکہ صحیح بخاری کی بارہ جلدوں میں شرحیں لکھیں اور امام ولی اللہ دہلوی کی معرکۃ الآرا کتاب حجۃ اللہ البالغہ کی منفرد و ممتاز شرح رحمۃ اللہ الواسعہ لکھ کرعلمی دنیا پر احسانِ عظیم کیا۔ ان کے علاوہ بھی مختلف درسی کتابوں کی دسیوں شروح تحریر کیں اور دیگر موضوعات پر بھی اہم کتابیں لکھیں۔
الغرض مفتی صاحب کی پوری زندگی نہایت ہی سرگرم وماجرا پرور رہی۔ ان کی پیدایش 1940میں گجرات کے ضلع پالن پور میں ہوئی تھی،1962میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی تکمیل کی اور1972۔73میں دارالعلوم دیوبند میں استاذ مقرر ہوئے اور تاحیات علمِ حدیث وفقہ کی امہاتِ کتب کی تدریس کی خدمت انجام دی۔لگ بھگ اسی سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ پاک حضرت مفتی صاحب کی کامل مغفرت فرمائے،پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہم جیسے ان کے ہزارہا شاگردوں کی طرف سے انھیں بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ (آمین)
(ایوارڈ یافتہ ہندوستانی ناول نگار رحمن عباس نے 2019 میں "ہولوکاسٹ اور ہندوستان و پاکستان میں اقلیتوں کے مستقبل” کے موضوع پر تحقیق کی غرض سے یورپ میں کچھ عرصہ گزاراتھا۔ دراصل اس موضوع پر وہ ایک ناول لکھ رہے ہیں ، جس کے لیے مواد کی فراہمی اور متعلقہ مقامات و سانحات کے تاریخی پس منظر سے راست واقفیت کے لیے انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔ یورپ میں نازیوں کے خلاف (8 مئی کو) یومِ فتح کے موقعے پر انھوں نے جرمن بیسڈ سہ لسانی ویب سائٹ قنطرہ (qantara.de) کے صحافی ڈومینک مولر کے ساتھ اپنے ناول کے پروجیکٹ اور ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کے تشویشناک احیا پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔ یہ پوری گفتگو مذکورہ ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے، ‘‘قنطرہ’’ کے شکریے کے ساتھ اردو قارئین کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش ہے۔ )
سوال:آپ ہندوستان کی سیکولر مسلم اقلیت کے رکن ہیں۔ جہاں ان دنوں مسلمانوں کے خلاف "کورونا جہاد” جیسا لفظ دھڑلے سے استعمال کیا جارہا ہے۔ آپ کے نزدیک ہندوستان کی موجودہ صورتحال کس حد تک خطرناک ہے؟
رحمن عباس: صورتحال انتہائی خطرناک ہے ؛کیونکہ یہ دائیں بازو کی نسل پرست طاقتوں کے مفاد میں ہے۔ ہندو قوم پرست اقلیتوں کی توہین کرتے ہیں اور انھیں تمام بیماریوں کی وجہ بتاتے ہیں ۔ ماضی قریب ہی میں عالمی برادری نے دیکھا ہے کہ ہندو قوم پرستوں نے کس طرح مسلم اقلیت کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے "لو جہاد” جیسی اصطلاح استعمال کی ۔ سیاسی طور پر پھیلائی گئی اس نفرت کی بنا پر ما وراے عدالت سرِراہ لوگوں کی جانیں لے لی گئیں اور اسے ایک منظم منفی پروپیگنڈے کے ذریعے معمول بنا لیا گیا ۔
ہم "کورونا جہاد” کوبھی اسی مہم کی توسیع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں ،جس کو سوشل میڈیا ، مین سٹریم میڈیا اور حکمراں جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاستداں چلا رہے ہیں۔ اس کے نتائج تمام ہندوستانی معاشرے میں نظرآرہے ہیں؛چنانچہ ہندو، مسلم سبزی فروشوں سے سبزیاں اور سامان خریدنے سے انکار کررہے ہیں ، کئی ہندو ڈاکٹروں نے مسلمان مریضوں کے علاج سے انکار کردیا،اسی طرح کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں ۔
سوال:یورپ میں آپ کی تحقیق کا ہدف کیا ہے؟
رحمن عباس: مجھے اپنے اگلے ناول کے لئے ریسرچ گرانٹ ملی ہے۔ بنیادی طورپر اسی کے لیے میں نے یورپ کے مختلف مقامات کا دورہ کیا ؛تاکہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ یورپ میں نازی فکرکو کیسے فروغ حاصل ہوا؟ اس نے جرمن معاشرے کو کس طرح متاثر کیا؟ اور یہ آئیڈیالوجی کس طرح یہودیوں ، کمیونسٹوں ، سیاسی مخالفین ،سنتی، روما ، معذور اور دیگر جماعتوں کی بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور نسل کشی کا سبب بنی؟
ہندوستان میں مسلمان ، دلت ، عیسائی اور قبائلی باشندے دائیں بازو کے انتہا پسندوں یا بالادست ہندو طاقتوں کے ہاتھوں امتیازی سلوک ، الگ تھلگ کیے جانے اور ظلم و ستم کے شکار ہیں ، اسی طرح پاکستان میں شیعہ اور ہندو اقلیتوں کو مسلم شدت پسندوں سے خطرہ ہے۔
جرمنی اور یورپ میں ہولوکاسٹ کے پس منظر کے طور پر جو کچھ ہورہا تھا اس کی مذمت کرنے میں سماجی وسیاسی حلقے اور نظریات کی ناکامی کا مَیں مطالعہ وتعین کرنا چاہتا تھا۔ میں برصغیر ہند کے عوام کو فاشزم کے رجحانات و خصائل سے آگاہ کرنے کے لیے جرمنی کے نازی عہد سے حاصل شدہ اہم اسباق سے متعارف کرواناچاہتا تھا۔
درحقیقت گزشتہ دو دہائیوں کے بارے میں میرا تجزیہ ، جس دوران برصغیر پاک و ہند میں بنیاد پرستی میں اضافہ ہوا ہے ، اسی طرح ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی متعدد مذہبی و سیاسی تنظیموں کے سلسلے میں میری تحقیقات بھی ممکنہ نسل کشی کے خطرے کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ ان ملکوں کی موجودہ صورتِ حال جرمنی میں نازیوں کے عروج کے زمانے سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔
سوال:پچھلی صدی کے آغاز میں نازیوں کے دورِ حکومت میں جرمنی کی صورتحال سے ہندوستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کس قدر مماثلت رکھتی ہے؟
رحمن عباس: نازی ازم ایک نسل پرست اور بالادستی کے حصول کانظریہ تھا۔ اس کے ماننے والوں نے قوم پرستی کو اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا ۔اسی طرح قوم پرست سوشلسٹوں نے آریاؤں کی برتری کے نظریے کو عام کیا اور اس خیال کو بھی کہ وہی حکمرانی کے لائق ہیں۔
جس طرح نازیوں نے یہودیوں اور بہت سے دوسرے لوگوں کو بدنام کرنے کے لئے تمام دستیاب ذرائع کو استعمال کیا ،البتہ خاص طور پر یہودیوں کو جرمن مفادات کے تئیں غدار بتایا گیا اور ایڈولف ہٹلر نے پہلے 1933 میں یہودیوں کی تجارت و صنعت کے قومی بائیکاٹ کا اعلان کیا اور اس کے بعد 1935 میں نورمبرگ قوانین کے ذریعے یہودیوں کی شہریت اور ان کے بنیادی حقوق کوبھی کالعدم کردیا۔ ہندوستان میں بھی ٹھیک اسی طرح کے حالات پنپ رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ہندو قوم پرستوں کا پروپیگنڈہ جاری ہے ،جس کے نتیجے میں ہندوستانی شہریت کانیا ترمیم شدہ قانون لایا گیا ہے، یہ قانون ہندوستانی پارلیمنٹ سے دسمبر 2019 میں پاس ہو چکا ہے۔ اس قانون کے تحت تین ممالک (پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان) سے تعلق رکھنے والے تمام غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی،جبکہ ان میں سے کسی ملک سے تعلق رکھنے والے مسلمان تارک وطن کو ہندوستان کی شہریت نہیں دی جائے گی ، مزید برآں نئے شہری رجسٹر کی تیاری کے نام پر ہندوستانی شہریوں سے متعدد دستاویزات مانگے جارہے ہیں، جن میں والدین یا دادا دادی کے برتھ سرٹیفکیٹس بھی شامل ہیں،ان کے ذریعے سے ہی ان کی شہریت کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ ایسا صرف مسلمانوں کو اس ملک سے بے دخل کرنے کے ایجنڈے کے تحت کیا جارہا ہے۔
ترجمہ:نایاب حسن
(تیسری قسط)
مجھے قول یا عمل سے رد کر دینے والوں کے لئے تو صرف ذلت اور پستی ہے۔ پھر کس نے تمھیں میرے بغیر دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات کی گارنٹی دے دی ؟
تم جو مجھے پلٹ کر دیکھتے تک نہیں، میرے ہوتے ہوئے بھکاریوں کے در کے بھکاری بن گئے، گمراہوں کو اپنا رہبر مان بیٹھے، رہز نوں کو اپنا محافظ سمجھ گئے، بے عقلوں کو اپنا لیڈر اور رہنما مان لیا، بے ضمیر وں اور خدا کے غداروں کو اپنا ملجا و ماوی سمجھ بیٹھے، کیا ہو گیا ہے تمہاری عقل کو ؟
کہاں ہیں وہ سینے جو میری یاد سے منور تھے ؟ وہ دل جو میری وعیدوں پر خوف سے لرز اٹھتے تھے ؟ وہ زبانیں جو میری تلاوت سے حلا وت حاصل کرتی تھیں ؟ وہ آنکھیں جو مجھے پڑھ کر آنسوؤں سے بھر جایا کرتی تھیں ؟ وہ ضمیر جو میری ملامتوں سے پانی پانی ہو جایا کرتے تھے ؟ وہ روحیں جو میری قرات سے وجد میں آ جایا کرتی تھیں ؟ وہ سر اطاعت جو میری ہر ھدایت پر بے ساختہ جھک جاتے تھے ؟ اور وہ دیوانے جو مجھے لیکر راہ عزیمت پر نکل پڑتے تھے ؟
کچھ لوگ، آٹے میں نمک کے برابر لوگ تمھیں سمجھانا چاہتے ہیں، تمھیں حکم رسول یاد دلاتے ہیں کہ آؤ گمرہی اور فتنوں کے اس دور میں پلٹو اللہ اور اسکے رسول کی طرف، پھر فیصلہ کرو کہ گمراہ عقائد کی اس یلغار میں میزان حق کیا ہے تو تم ہنستے ہو، جھگڑتے ہو، تہمتیں دھرتے ہو، بحثیں کرتے ہو اور مجھ پر، نبی صادق پر، آخرت کی پوچھ تاچھ پر، جنّت کے عیش پر اور جہنم کی ہولناکیوں پر ایمان رکھنے کا دعوی کرنے کے باوجود میری طرف اور اپنے نبی کے طریقے کی طرف عملا لوٹنے سے کترا جاتے ہو !
آخر تم اتنے مغرور اور گھمنڈی کیوں ہو ؟ اس قدر بے پرواہ کیوں ہو؟ اتنے بے حس اور مطمئن کیوں ہو ؟ آخر کس چیز نے تمھیں اتنا مدہوش کر دیا ہے کہ آخرت کی بازپرس سے ذرا بھی نہیں ڈرتے ؟ روز مرتے ہو، کتنے رشتےداروں اور دوست و احباب کو اپنے ہاتھوں سے قبر کی تنہائیوں میں دفن کر چکے ہو، جانتے ہو کہ موت برحق ہے، اس کا تجربہ کرتے رہتے ہو، جانتے ہو اور خوب جانتے ہو کہ تمہارا کوئی بھی پل موت کا پل ہو سکتا ہے، کوئی بھی صبح تمہاری آخری صبح ہو سکتی ہے، کسی شام بھی تمہاری زندگی کا چراغ گل ہو سکتا ہے، کسی بھی پہر سانسوں کے قافلے اپنا سفر روک سکتے ہیں، کسی بھی پل فرشتۂ اجل تمھیں آ کر گرفتار کر سکتا ہے، پھر بھی تم اتنے بے حس ہو! ایسی پریشان کن اور غیر متوقع دنیا میں اتنے مگن ہو؟ حیرت ہے ، کس مٹی سے بنے ہو تم ؟
اکثر تمہاری راتیں دہشت کے سائے میں گزرتی ہیں، صبح تمہاری آنکھ خوف و ہراس کی فضا میں کھلتی ہے، شام ہوتے ہی اضطراب تمہیں گھیر لیتا ہے، سوتے ہو تو پریشان کن خواب تمہاری آنکھوں پر ڈیرہ ڈال دیتے ہیں، دہشت گردی کے الزاموں میں مارے جاتے ہو، فسادات کی آگ میں جلائے جاتے ہو، جنگوں کی بمباری میں اڑائے جاتے ہو، خبریہ چینلوں پر تماشا بنا کر دکھائے جاتے ہو، اخباروں میں گالیوں کی صورت چھاپے جاتے ہو، پھر بھی میری طرف نہیں پلٹتے، کیسے بے حس اور بد عقل ہو تم ؟
کس کس انداز میں تمھیں سمجھایا ہے کہ میں اللہ کی مضبوط رسی ہوں، دلدلوں میں پھنسنے سے بچنا چاہتے ہو تو مجھ سے چمٹ جاؤ۔ کیسے کیسے تمہیں بلایا ہے کہ میں بحر ظلمات میں اللہ کے نور کی کشتی ہوں، ڈوبنے سے بچنا چاہتے ہو تو مجھے تھام لو! کیا اب بھی نہ پلٹو گے جبکہ تمہارے اوپر مسجدوں کے دروازے بند ہو گئے ہیں؟ اب بھی نہ آؤگے میری طرف جبکہ تم اپنے گھروں میں محصور ہو گئے ہو؟ اب بھی مجھے بڑھ کر نہیں تھاموگے جبکہ تمہارے بے دین چرواہوں نے تمھیں ایک خطرناک نفسیاتی خوف میں مبتلا کر دیا ہے؟
سیاست پر معیشت پر اور معاشرت پر خدا کے نافرمانوں اور سرکشوں کا قبضہ ہے، تمہارے ہاتھوں میں کشکول گدائی ہے، بھیک کا پیالہ ہے۔ انکے چہروں پر کبر و نخوت کا جلال ہے، تمہاری آنکھوں میں حسرتیں ہیں، ملال ہے۔ انکی زبانوں پر تمہارے لئے گالیاں ہیں، رسوائیاں ہیں، طعنے ہیں اور قہر ہے، تمہارے ہونٹوں پر خاموشی کی مہر ہے۔ انکی گردنیں تنی ہوئی ہیں، تمہارے سر جھکے ہوئے ہیں۔ انکے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہے، سرداری ہے، خسروی ہے، جہاں بانی ہے، تمہارے پیروں میں آبلے ہیں، زنجیریں ہیں، زخم ہیں، پھپھولے ہیں، تمہارے فکر و نظر پہ ظالم کی پہریداری ہے۔ خدا کی قسم ! اس نے تمھیں آزاد ہی نہیں بلکہ لیڈر، رہنما، قائد اور حکمراں بنا کر بھیجا تھا۔۔۔۔آہ! تم مجھے چھوڑ کر کیا سے کیا ہو گئے !!
(جاری )
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ترجمہ: نایاب حسن
(1)
لوگ زندگی کے غلام ہوتے ہیں،یہی غلامی ان کے دنوں کو ذلت و مسکنت سے اور راتوں کوآنسووں اور خون سے لبریز کردیتی ہے۔اب دیکھیے ناکہ میری پیدایشِ اولین پر ستر ہزارسال کا عرصہ گزرچکاہے اور میں نے اب تک شکست خوردہ وپابہ زنجیرغلاموں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ میں نے روے زمین کے مشرق و مغرب کے چکر لگائے،زندگی کی دھوپ چھاؤں میں گھومتا رہا،غاروں سے لے کر محلوں تک کا سفر کرتے ہوئے قوموں کے قافلے دیکھے؛لیکن ان سب میں مجھے محض بوجھ تلے دبی ہوئی گردنیں ،زنجیروں میں جکڑے ہوئے دست وپاواور گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ذلیل لوگ نظر آئے۔
میں نے بابل سے پیرس اور نینویٰ سے نیویارک تک کے انسانوں کا پیچھاکیااور ریت پر اس کے نقوشِ قدم کے ساتھ اس کی قید کے اثرات بھی دیکھے،وادیوں اور جنگلات سے نسلوں اور صدیوں کے نوحوں کی بازگشت سنی۔
میں محلوں،تعلیم گاہوں اور عبادت خانوں میں گیا،تختۂ شاہی،قربان گاہوں اور منبروں پر کھڑاہوا،تودیکھا کہ کاری گر تاجر اور صنعت کار کاغلام ہے،تاجر فوجی کا غلام ہے،فوجی مذہبی کاہنوں کا غلام ہے،مذہبی کاہن بتوں کا پجاری ہے اور بت تومٹی کا ڈھیرہے،جسے شیطان نے جنم دیا اوراسے مردہ سروں کے ٹیلوں پر رکھ دیاہے۔
میں طاقت وراور مالدارلوگوں کے گھروں اور کمزور و فقیر انسانوں کی جھونپڑیوں میں گیا،ہاتھی دانت اور سونے سے سجی ہوئی پرفریب کوٹھریوں اور مایوسی وموت کے سایوں سے بھرے ہوئے کے ٹھکانوں پر گیا،تومیں نے دیکھاکہ بچوں کو دودھ میں غلامی ملاکر پلایاجارہاہے،حروفِ تہجی کے ساتھ انھیں غلامی اور ذلت کی بھی تعلیم دی جارہی ہے،بچیاں لباس کے ساتھ خود سپردگی کاپیراہن بھی پہن رہی ہیں اور عورتیں صرف طاعت و فرماں برداری کے بستر پر سورہی ہیں۔
میں نے گنگاکے کنارے سے ساحلِ فرات اور نیل کے سرچشمے سے لے کر جبلِ سینا،یونان کے میدانوں سے لے کر روم کے کنیسوں،قسطنطنیہ کی گلیوں سے لے کر لندن کی بلندوبالا عمارتوں میں بسنے والی نسلوں کوآبزرو کیاہے۔ میں نے دیکھاکہ ان تمام مقامات پر غلامی اپنے قاتل جلوس کے ساتھ چلتی ہے اوراسے لوگ خدامان لیتے ہیں،اس کے قدموں پرشراب واموال بہاتے ہیں ،کبھی اسے فرشتہ کہتے ہیں،پھراس کی مورتی کے سامنے دھونی دیتے ہیں ،کبھی اسے نبی بنالیتے ہیں،اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ،کبھی اسے مذہب کانام دے دیتے ہیں،پھراسی کے لیے آپس میں لڑتے مرتے ہیں،کبھی اسے قوم پرستی کہتے ہیں،پھر اس کی مشیئت کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں اوراسے روے زمین پر اللہ کاسایہ قراردیتے ہیں،پھر اس کے کہنے پر ایک دوسرے کے گھر بار تباہ کردیتے ہیں ۔ کبھی اسے بھائی چارے کانام دیتے ہیں،پھر اسی کے لیے سخت محنت ومشقت کرتے ہیں ،کبھی اسے مال اور تجارت کانام دیتے ہیں۔الغرض یہ سب مختلف نام مگر ایک ہی حقیقت ہے اور ایک ہی جوہر کے مختلف پہلو ہیں،بلکہ یہ ایک دائمی بیماری ہے جو مختلف بیماریوں اور رِستے ہوئے زخموں کا سبب بنتی ہے اور لوگوں میں زندگی کی طرح یہ بیماری بھی نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کھیتی کی فصلوں کی طرح اس کی بیج بھی ایک زمانے سے دوسرے زمانے اورایک فصل سے دوسری فصل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
(2)
غلامی کی جن عجیب و غریب شکلوں کومیں نے دیکھا،ان میں سے ایک اندھی غلامی ہے۔ یہ وہ ہے جو دورِ حاضر کے لوگوں کوان کے آباواجدادکے کھونٹے سے باندھ دیتی ہے،انھیں گزشتہ لوگوں اور با پ داداؤں کی رسموں ،رواجوں کے تابع کردیتی ہے اوروہ لوگ ایسے ہوجاتے ہیں،گویا قدیم آتماؤں کے جسم اوربوسیدہ ہڈیوں کی قبروں کے ڈھیرہوں۔
گونگی غلامی،یہ وہ ہے جو مرد کی زندگی کوایسی بیوی کے دامن سے باندھ دیتاہے جسے وہ پسند نہیں کرتا اور عورت کے جسم کو ایسے شوہر کے بستر پر ڈال دیتاہے جسے وہ پسند نہیں کرتی اور ان دونوں کی زندگیوں کو ایک دوسرے سے اس طرح مربوط کردیتی ہے جیسے کہ جوتا اور پاؤں ۔
بہری غلامی، یہ وہ غلامی ہے جو لوگوں کو اپنے گردوپیش اور ماحول کے آداب و اطوار کا پابند ،اس کے رنگوں میں رنگنے والا،اس کے طرزِرہایش و پوشش کواپنانے والا بنادیتی ہے،پس ان کی اپنی حیثیت محض صداے بازگشت کی ہوتی ہے اور ان کے اجسام سایوں کی طرح ہوتے ہیں،جن کا خارج میں اپنا کوئی وجودنہیں ہوتا۔
لنگڑی غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو بڑے بڑے تیس مار خانوں کو چال بازوں کے جال میں پھنسادیتی ہے،طاقت ور لوگوں کو ایسے لوگوں کی گرفت میں دے دیتی ہے جو شہرت وعزت کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں،پس ان کی حیثیت ایسے آلات کی ہوجاتی ہے جنھیں انگلیاں حرکت دیتی ہیں،پھر روک دیتی ہیں اور کام ختم ہونے کے بعد انھیں توڑ دیتی ہیں۔
سفید(مائل بہ سیاہی)غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو بچوں کی روحوں کو وسیع تر فضاؤں سے لیتی اور حرماں نصیبی و تیرہ بختی کی آماجگاہوں میں لا ڈالتی ہے،جہاں غباوت کے ساتھ فقر و تنگ دستی اور مایوسی کے ساتھ ذلت و مسکنت اپنا پنجہ گاڑے ہوتی ہے،ایسے بچے محرومی کی حالت میں بڑے ہوتے،مجرم بن کر زندگی گزارتے اور ذلت کی موت مرتے ہیں۔
سیاہ(مائل بہ سفیدی)غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو چیزوں کو ان کی اصل قیمت کے عوض نہیں خریدتی،اشیاکے نام فی الحقیقت کچھ ہوتے ہیں اور وہ انھیں کوئی اورنام دیتی ہے،پس یہ مکروفریب کو ذہانت سے تعبیر کرتی،بکواس گوئی کو علم ریزی کہتی،کمزوری کونرمی اور بزدلی کو خودداری کانام دیتی ہے۔
ٹیڑھی غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو خوف زدہ وکمزورلوگوں کی زبانوں کو حرکت دیتی ہے،تو وہ بے سوچے سمجھے بولتے ہیں، سوچتے کچھ ہیں اورکرتے کچھ اور ہیں،ذلت و مسکنت کے سامنے ان کی حیثیت کپڑے جیسی ہوجاتی ہے،جسے وہ جب چاہے لپیٹ دیتی اورجب چاہے بکھیر دیتی ہے۔
کبڑی غلامی،یہ وہ ہے جو ایک قوم کو دوسری قوموں کی روایات و قوانین کے تحت چلاتی ہے۔
خارش زدہ غلامی،یہ وہ ہے جو شاہزادوں کومحض نسل ونسب کی برتری کی بناپرتاجِ شاہی پہناتی ہے۔
کالی غلامی،یہ وہ ہے جومجرموں کی معصوم و بے گناہ اولاد پر عاروندامت کادائمی ٹھپہ لگادیتی ہے۔
(3)
ان مختلف نسلوں کا پیچھاکرتے کرتے جب میں بورہوگیااوران قوموں کے جلوسوں کو دیکھ دیکھ کرتھکن محسوس ہونے لگی،تومیں وادیِ خیال میں تنہا جا بیٹھا،جہاں زمانۂ گزشتہ کے سایے اور آیندگاں کی روحیں قیام کرتی ہیں۔ وہاں میں نے ایک کمزور سے سایے کو دیکھاکہ وہ تن تنہا سورج کوگھورتے ہوئے چل رہاہے،میں نے اس سے سوال کیا:
تم کون ہو؟تمھارانام کیاہے؟
تواس نے کہا:
میں آزادی ہوں۔
میں نے پوچھا:
تمھاری اولادیں کہاں ہیں؟
تواس نے کہا:ایک کو توتختۂ دار پر چڑھادیاگیا،دوسرا پاگل ہوکر مرا،تیسراابھی پیدا نہیں ہوا ہے۔
پھر وہ دھند کے دبیزپردوں میں چھپ کرمیری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔
جسٹس مدن بھیم راؤ لوکُر
ترجمہ:نایاب حسن
دہلی فساد سے متاثر ہونے والے علاقوں کامیں نے دورہ کیاہے،ان میں سے بعض تو میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہے ہیں،ہرگلی میں جلی ہوئی دکانیں اور مکانات بکھرے پڑے ہیں۔یہ نہایت تکلیف دہ صورتِ حال ہے، دکان ومکان تو دوبارہ بنائے جاسکتے ہیں،مگر اس فساد کے دوران جوجانیں تلف ہوئیں ان کا بدل کہاں سے آئے گا؟اس فساد میں پچاس سے زائد لوگ بلاکسی وجہ صرف نفرت کی وجہ سے مارے گئے۔بچوں کوان کے والدین کے(صحیح یاغلط) نظریہ وافکارکی وجہ سے سزادی گئی،یہ انصاف ہے یاناانصافی ہے؟کیامحض مالی مدداور معاوضے سے اس درد اور تکلیف کا مداواہوسکتاہے،جس سے یہ بچے اوران کے والدین گزر رہے ہیں؟ کیا بدلے میں انھیں یہی کچھ دیاجاسکتاہے اوربس؟شیووہاراور دیگر فسادزدہ علاقوں کے معاینے کے دوران میرے ذہن میں یہی سوالات گردش کرتے رہے۔
عیدگاہ کامنظر بھی تکلیف دہ تھا۔وہاں کافی سارے ریلیف کیمپ لگے ہوئے ہیں،مجھے بتایاگیاکہ ان کیمپوں میں تقریباً ایک ہزارلوگ رہ رہے ہیں۔اہلِ خیر جماعتیں اور افراد چٹائیاں،کمبل،کھانا،دوائیں فراہم کررہے اور وہاں مقیم لوگوں کی راحت کا سامان کررہے ہیں۔میڈیاکے ایک طبقے کودیکھاکہ وہ فساد متاثرین کے بیانات ریکارڈ کررہاہے۔توقع ہے کہ یہ بیانات جانچ کرنے والوں کے ذریعے ثبوت و شواہد کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جائیں گے اگر سٹیبلشمنٹ بھی ساتھ مل کر کوئی قدم اٹھائے۔فساد متاثرین کی بازاآبادکاری کے لیے جو کچھ تھوڑی بہت مددکی جارہی ہے وہ غیر سرکاری تنظیموں اور اہلِ خیر افراد کی طرف سے کی جارہی ہے،رفاہی ریاست کی جانب سے بہت معمولی مدد کی جارہی ہے۔
مگر اس فساد پر الزام تراشی کا کھیل شروع ہوچکاہے اور یہ تب بھی جاری رہے گاجب اس کی جانچ پوری ہوجائے گی یا انکوائری کمیشن اپنی رپورٹ سونپ دے گی۔اس کا ایک متوقع نتیجہ تویقینی ہے کہ…اگرانتظامیہ کے کسی فرد کو گڈگورننس کا آئیڈیاہوتا یا سٹیبلشمنٹ نے مناسب قدم اٹھایاہوتا تو بہت سی جانیں بچائی جاسکتی تھیں اور بہت سی دکانیں اور مکانات جلنے،لٹنے اور تباہ ہونے سے بچ سکتے تھے۔بیوروکریٹک نااہلی اور انتظامی ناکارگی نے مل کرخوں ریزی کے لیے ماحول سازی کاکام کیا،جوایک دو نہیں،پورے تین دن تک جاری رہی۔ایسالگتاہے کہ پولیس اور انتظامیہ سے مرکب سٹبلشمنٹ کمبھ کرنیوں کی زدمیں تھے اور اس کی نہایت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
معقول احساسِ ذمے داری دہی کا فقدان:
پوری زندگی قانون کا طالب علم رہنے کی حیثیت سے،میں حیرت زدہ رہ گیاکہ عدلیہ نے کسی معقول ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔قانون کے مطابق ہر عوامی آفت یا نسلی فساد کے متاثر شخص کو قانونی خدمت کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اورپر ہونے والے ظلم کے خلاف کیس فائل کرے،مثلاً ہونے والے نقصان کے معاوضہ وغیرہ کے لیے۔پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کردہ قانون کے تحت دہلی اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کی ذمے د اری تھی کہ وہ متاثرین کی مدد کے لیے اقدامات کرتی،مگر وہ کہاں تھی؟ انصاف تک رسائی محض ایک نعرہ نہیں،مقصداور ہدف ہوناچاہیے۔اس اتھارٹی نے اس فساد کے پورے ایک ہفتے بعدپانچ ہیلپ ڈیسک قائم کیے،مگر ان میں سے جن دو ہیلپ ڈیسک کامیں نے معاینہ کیا،وہاں کے وکلا کو خود ہی مدد کی ضرورت ہے،انھیں اپنی ذمے داری کاکچھ پتاہی نہیں۔میں ان خیر اندیش وکلاکی کوششوں کی تحقیر نہیں کررہا،مگر مجھے یقین ہے کہ جب دہلی لیگل سروسزاتھارٹی اپنی سالانہ رپورٹ تیار کرے گی تو اس میں فساد متاثرین کے مفاد میں کیے گئے قانونی اقدامات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیاجائے گا۔ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔
البتہ دہلی ہائی کورٹ سے جب رجوع کیاگیا تواس نے فوری ایکشن لیا۔دیررات کیس کی سماعت کی اور فساد متاثرین کو راحت دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی جواب دہی سے متعلق سوالات کیے۔گرچہ اگلے ہی دن عوام کے محافظین کوایسا لگاکہ ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے اس وقت ماحول سازگار نہیں ہے اور کیس کو اگلے چھ ہفتوں کے لیے لٹکادیاگیا۔آپ تصور کیجیے کہ ایک شخص گھریلو تشددکا شکار ہے یا ایک عورت جنسی ہراسانی کی شکارہے اور وہ ایف آئی آر درج کروانے کے لیے تھانے جاتی ہے اور وہاں ایس ایچ اواسے کہتاہے کہ ابھی رپورٹ درج کرنے کے لیے ماحول سازگارنہیں ہے،چھ ہفتے بعد آنا،توکیااس عرصے میں اس کے ساتھ دوبارہ تشددیاہراسانی کاامکان نہیں ہے؟کیا یہ حیرت ناک لاجک نہیں ہے؟یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کواس سلسلے میں مداخلت کرنی پڑی اورہائی کورٹ کوحکم دیناپڑاکہ سماعت میں جلدی کرے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ متاثرین میں سے کتنے لوگ سپریم کورٹ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
ایک بار اگر ایف آئی آر درج ہوجائے تو متعلقہ مبینہ الزام کی تحقیق شروع ہوجاتی ہے؛لیکن اگر ایف آئی آر ہی درج نہ ہو تو کسی قسم کی تفتیش نہیں ہوسکتی۔کئی سارے فیصلے ہیں، جن میں کورٹ نے متاثرشخص کے ذریعے ایف آئی آر درج کروانے میں تاخیر پر سوالات کیے ہیں۔بہت سے کیسزمیں تاخیر کی مناسب وجہ بتائی گئی اور بہت سے کیسز میں ایسا نہیں ہوا،جس کی وجہ سے ملزم رہاکردیاگیا،ایف آئی آر کی اس حد تک اہمیت ہے۔تفتیش کی جو سب سے اہم خاصیت ہے وہ ہے ثبوتوں کو جمع کرنا اور اگر ان ثبوتوں کو مٹانے یا گواہ کو متاثر کرنے کا امکان پایاجائے تو ملزم کو انوسٹی گیشن آفیسرکے ذریعے گرفتار بھی کیاجاسکتاہے؛لہذااگر دہلی ہائی کورٹ کے ذریعے ایف آئی آر درج کرنے کو چار ہفتوں کے لیے مؤخر کردیاگیاہے،تواس عرصے میں ایک ہوشیار ملزم چالاکی کا مظاہرہ کرکے اپنے خلاف اہم ثبوتوں کومٹا سکتا اور گواہوں کو دھمکی یالالچ دے کر خاموش کرسکتاہے،جس کے نتیجے میں پولیس اس کے حوالے سےno offence report فائل کردے گی اور اس طرح یہ پورا کیس ہی بند ہوجائے گا۔اس پورے سلسلے کو انصاف کہاجائے گا یا ناانصافی؟
عدلیہ کی اخلاقی ذمے داری:
فرقہ وارانہ فسادات کے موقعوں پر عدلیہ کی ذمے داری نہایت اہم ہوتی ہے؛کیوں کہ وہ ہنگامہ آرائی کو فساد بننے سے روک سکتی ہے۔عدلیہ کے پاس نہ توتلوار ہے اور نہ ہی وہ ریاست کےpurse stringپر کنٹرول رکھتی ہے، البتہ وہ اس اعتبار سے طاقت ور ہے کہ اسے اخلاقی اتھارٹی اور عوامی اعتماد حاصل ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عدلیہ جو کہتی یاکرتی ہے،زمینی سطح پراس کا غیر معمولی اثر ہوتاہے، اس سے قطع نظر کہ تلواراور purse stringکس کے ہاتھ میں ہے۔اسی وجہ سے ایسی صورت حال میں فوری ایکشن کی ضرورت ہوتی ہے؛لہذاکورٹ سے یہ کہتے ہوئے کہ رپورٹ درج کرنے کے لیے ماحول سازگارنہیں ہے کیس کو مؤخر کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اکثروبیشتر جب ریاست اور پولیس اپنی تمام تر قانونی طاقت و قوت کے باوجود ناکام ہوجاتی ہے، تو کورٹ کی مداخلت سے ہی ماحول سازگار بنتاہے۔ سامراجی نظریہ ختم ہوناچاہیے کہ کورٹ ری ایکٹیوہو،اس کی جگہ عوامی مفاد میں یہ نظریہ تشکیل پاناچاہیے کہ کورٹ فعال ہو۔اگرایسانہیں ہواتواے ڈی ایم جبل پورکیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پھر اپنی پہنائیوں سے باہر نکل آئے گااور ہماراپیچھا کرتارہے گا۔
حالیہ واقعات سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ پولیس نے اظہارِ خیال کی آزادی اور اشتعال انگیز بیان بازی کو پوری طرح خلط ملط کردیاہے۔سیاسی قوت رکھنے والے افراد کی جانب سے اشتعال انگیز تقریر اور نعرے بازی، جو غداری کے جرم میں آئے یا نہ آئے،مگر نفرت انگیز بیان بازی کے زمرے میں تو آتی ہی ہے،مگر اس پر بالکل توجہ نہیں دی گئی۔دوسری طرف کمزورلوگوں کوایسے عمل کے لیے بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیاجس کی وجہ سے معمولی جھڑپ بھی نہیں ہوئی چہ جائیکہ اس کے ذریعے ”نفرت پھیلائی جائے یااس کی کوشش کی جائے،قانون کے مطابق قائم حکومت کے خلاف لوگوں کو بھڑکایاجائے یابھڑکانے کی کوشش کی جائے“،اس پس منظر میں اوہاراکے جواب میں بروسلی کا مشہور مقولہ کتنا درست ہے کہ ”اگرآپ لکڑی کے تختے کوتوڑتے ہو،تووہ مڑکر حملہ نہیں کرے گا“۔پس ایک دوسرے پرالزام تراشی کے کھیل سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ جو لوگ دہلی فساد کے ملزم ہیں،کیاان کی شناخت ہوگی اوران پر مقدمہ ہوگا اور اگر ہوابھی،توکیاانھیں سزاملے گی؟ہماری عدلیہ کوتو1984فسادات میں سجن کمارپرالزام ثابت کرنے میں پورے35سال لگ گئے۔اب حالیہ فسادکے مجرموں کوکب تک پکڑاجائے گااور کب تک سزاملے گی،پتانہیں اور اس کی کس کو فکر ہوگی؟
آخری بات:
ہمیں اپنے ملک کے عظیم الشان دستور کے دیباچے کو پڑھنا چاہیے اور اس میں موجود ان چار اہم ترین الفاظ کی قدرکرنی چاہیے”انصاف،آزادی،مساوات، اخوت“۔ اورسوچنا چاہیے کہ ہم ان تمام یا ان میں سے بعض الفاظ کی معنویت کوبھی سمجھ رہے ہیں یا بالکل ہی نہیں سمجھ رہے؟
(مضمون نگار سپریم کورٹ آف انڈیاکے سابق جسٹس اور فی الوقت سپریم کورٹ آف فیجی کے جج ہیں۔اصل مضمون آج کے روزنامہ دی ہندومیں شائع ہواہے)
نایاب حسن
دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام پر اب تک جن مسلم ممالک کے ردِعمل سامنے آئے ہیں،ان میں انڈونیشیا،ترکی،پاکستان اور ایران شامل ہیں۔ملیشیا و ترکی نے سی اے اے پر بھی حکومتِ ہندکی تنقید کی تھی۔ایرانی وزیر خارجہ نے پیرکے دن ٹوئٹ کرکے دہلی فساد کو”مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد“قراردیااور ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کیاکہ مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔ان کے بعد ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بھی لکھاکہ”ہندوستانی مسلمانوں کے قتلِ عام پر ساری دنیاکے مسلمانوں کے دل مغموم ہیں“۔انھوں نے تہدید آمیز اندازمیں لکھاکہ”اگر ہندوستان انتہاپسند ہندووں پر لگام نہیں لگاتا،تو عالمِ اسلام اسے الگ تھلگ کردے گا“۔ہندوستان نے ایران کے اس رویے پرناراضگی جتائی اور ایرانی سفیر سے احتجاج درج کروایاہے۔ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو کچھ ہورہاہے،وہ ہماراداخلی معاملہ ہے،باہر والوں کوبولنے کا حق نہیں ہے۔گرچہ دہلی فساد پر ایران کے اس سخت ردعمل کوبعض سیاسی تجزیہ نگار امریکہ و خلیجی ممالک سے ہندوستان کی قربت کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں،جن سے ایران کی رسہ کشی کی طویل تاریخ ہے۔آج کے روزنامہ انڈین ایکسپریس میں کے سی سنگھ نے اپنے مضمون میں لکھاہے کہ چوں کہ ہند-ایران مذہبی و ثقافتی تعلقات کی طویل تاریخ ہے؛اس لیے ایران کا ہندوستان کی موجودہ صورتِ حال پر بے چینی کا اظہار کرنابنتاہے،ساتھ ہی انھوں نے چین میں اویغورمسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایران کی خاموشی کی طرف بھی اشارہ کیاہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ چین چوں کہ خطے میں ایران کا ہمدردہے،شاید اس لیے ایران اس کے خلاف نہیں بولتا۔یہ بات ہم پاکستان کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہاں سے اویغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف شاید ہی مذمت کا کوئی بول سننے کو ملتاہے۔بہرحال حقیقت جوبھی ہو،مگر یہ بڑی بات ہے کہ ایران نے کھل کر دہلی فساد پر اپنے ردعمل کا اظہار کیااورحکومتِ ہندکودفاعی پوزیشن میں ڈال دیاہے۔
بنگلہ دیش نے گرچہ17/مارچ کو ”مجیب صدی“تقریبات میں کلیدی خطبہ دینے کے لیے مودی کو دعوت دے رکھی ہے،مگر وہاں پہلے این آرسی/سی اے اے پر ہندوستان کے خلاف احتجاج ہورہاتھا،اب دہلی میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے خلاف زور دار احتجاج ہورہاہے۔کل بعد نماز جمعہ متعدد بنگلہ دیشی تنظیموں نے دارالحکومت ڈھاکہ میں احتجاجی مارچ نکال کر مودی کو بنگلہ دیش بلائے جانے کی مخالفت کی،انھوں نے اعلان کیاہے کہ اگرمودی بنگلہ دیش جاتے ہیں،تووہ لوگ انسانی زنجیر بناکر مودی کے خلاف ملک گیر احتجاج کریں گے،انھوں نے اپنی وزیر اعظم شیخ حسینہ سے مطالبہ کیاہے کہ مودی جیسے انسان کو،جس کی حکومت میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں،بنگلہ دیش کے بانی سے منسوب تقریبات میں خطاب کرنے کے لیے نہ بلایاجائے۔
اس پورے سیناریومیں عالمِ عربی کا موقف نہایت ہی شرمناک اور قابلِ افسوس ہے۔دہلی میں قتل و غارت گری کے خلاف پوری دنیا میں ہنگامہ ہورہاہے،عالمی میڈیا میں اس کی گونج اب تک سنائی دے رہی ہے،حتی کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اس پر بحث و نقاش ہورہاہے،مگر خلیجی و غیر خلیجی عربی ممالک کے حکمرانوں کو گویا موت آگئی ہے،ان کی زبانوں سے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک لفظِ تسلی سننے کونہیں ملا،چہ جائیکہ وہ ہندوستانی حکومت کے خلاف کوئی مضبوط قدم اٹھاتے۔کیااسلامی اخوت محض ایک ڈھکوسلہ ہے اوراس کا خارج میں کوئی وجودنہیں ہے؟ایک طرف ہندوستان کے مسلمان ہیں کہ یہ مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے ہر موضوع اور ہر معاملے میں عالمی اسلامی اخوت کے نعرے لگاتے اور خصوصا عربی ممالک کو غیر معمولی احترام تقدیس کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں،دوسری طرف یہ جبہ وعقال پوش قوم ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے دنیاکی سب سے بڑی مسلم آبادی سڑکوں پر ہے اور ہندوستان کی راجدھانی میں ان کی جان و املاک تباہ و برباد کردی گئیں،مگر اس پورے عرصے میں ان مردودوں سے ایک حرفِ تسلی سننے کونہیں ملا۔ حالاں کہ سعودی عرب سے لے کر متحدہ عرب امارات اور کویت و بحرین اور دیگر عرب ممالک جن سے ہندوستان کے گہرے تجارتی و اسٹریٹیجک تعلقات ہیں،وہ چاہیں تو ہندوستان پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں فرقہ وارانہ امن و امان قائم رکھے۔ایسے دباؤکااثر ہوتایانہیں ہوتاہے،اس سے قطعِ نظر عالمی ڈپلومیسی پراس کااثرضرور پڑتاہے۔جس طرح ایران یا ترکی اور انڈونیشیا وملیشیانے بیانات دیے، توان کے بیانات کے بعد کچھ ہوایانہیں ہوا،مگر ہندوستانی حکومت نے یقینی طورپر اپنے آپ کو دباؤ میں محسوس کیاہے اور یہی وجہ ہے کہ باربار یہ بولنے اور صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے اور ہمارے ملک کے لوگ محفوظ ہیں اوراسی دباؤ کی وجہ سے مودی حکومت کوعمیر الیاسی اور ایم جے اکبر کوجنیوا بھیج کرہیومن رائٹس کونسل میں صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
عام طور پر آقا جتنا بڑا اور عظیم ہوتا ہے غلام کی غلامی اتنی ہی بڑی اور عظیم ہوا کرتی ہے۔ ہندستان اور پاکستان کے حکمراں عام طور پر امریکہ کی غلامی پرفخر کرتے ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کا حال اور بھی براتھا۔ اس کی وجہ یہ تھی وہاں جمہوریت سے کہیں زیادہ آمریت جلوہ گر تھی۔ ہر آمر امریکہ کی غلامی پر نازاں رہتا تھا۔ ایوب خاں نے اپنے زمانے میں ایک کتاب لکھی تھی یالکھوائی تھی، جس کا عنوان تھا ”آقا نہیں دوست“۔ کتاب کے سرورق پر علامہ اقبال کا ایک شعر بھی لکھا ہوا ہے ؎
اے طائرلاہوتی! اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو، پرواز میں کوتاہی
کتاب کا مقصد اچھا تھا مگر اس کتاب سے پاکستان کی غلامی ختم نہیں ہوئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں غلامی عروج پر ہوگئی تھی۔ سابق صدرامریکہ جارج واکر بش کے ایک فون آنے سے پرویز مشرف ڈھیر ہوجایا کرتے تھے۔ پرویز مشرف کی مدد سے پاکستان کا اچھا خاصا استحصال امریکہ نے کیا۔ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ امریکی حملے سے افغانستان میں شہید ہوئے۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہئے کہ اب وہاں جمہوریت کی ایک حد تک جلوہ نمائی ہے۔ عمران خان امریکہ کی غلامی کو ملک وقوم کیلئے ذلت سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہئے کہ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ کی غلامی عروج پر ہے۔ مودی ہندستان میں اپنی محبوبیت اور مقبولیت کیلئے امریکہ کا کئی دورہ کرچکے ہیں۔ ان کے آخری دورے پر دونوں ملکوں کے لیڈروں نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کیلئے ‘Howdy, Modi!’ (ہاؤڈی مودی) کا پروگرام منعقد کیا تھا جس پر کروڑوں کا صرفہ آیا اور شاہی خرچ غریب ہندستان نے برداشت کیا۔ آئندہ 24 فروری کو دو روزہ دورے پر صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان آرہے ہیں۔ آقا کی آمد سے پہلے مودی چشم براہ ہیں اورایسا لگتا ہے کہ ملک میں کوئی شہنشاہ آرہا ہے اور ملک کی رعایا ان کے استقبال میں کہہ رہی ہے کہ ؎
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
احمد آباد (گجرات) کے غریبوں کی غریبی چھپانے کیلئے اونچی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ کئی جگہوں سے غریبوں کی جھی جونپڑی کو زور زبردستی ہٹایا جارہا ہے تاکہ بادشاہ سلامت کی نظر مودی کی ریاست یا ملک پر نہ پڑے اور بادشاہ سلامت ناراض نہ ہوجائیں۔ صدر ٹرمپ تاج محل دیکھنے آگرہ بھی جائیں گے۔ آگرہ میں بھی راستوں کی مرمت بھی زوروں پر ہورہی ہے اور دیواروں کی لیپاپوتی بھی ہورہی ہے۔ یوگی کو تاج محل کی خوبصورتی اور تاریخ سے نفرت ہے لیکن سینے پر پتھر رکھ کر تاج محل کے آس پاس کے علاقے کی صفائی ستھرائی اور تزئین وآرائش کا کام زوروں پر ہے۔ یوگی ہوں یامودی ایک ایسے کلچر اور ایک ایسی ذہنیت سے تعلق رکھتے ہیں کہ ان کے دل و دماغ میں غلامی رچی بسی ہے بلکہ غلامی وراثت میں ملی ہے۔ برطانیہ دنیا کا سامراج تھا تو ان کے پرکھے برطانیہ کے وفادار تھے اور برطانیہ کی غلامی پر ناز کرتے تھے۔ مودی کو یقین تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے سے ان کی پگڑی اونچی ہوجائے گی لیکن گزشتہ روز (19فروری) ایک ایسی تقریر کی کہ مودی کی آرزوؤں اور امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندستان میں امریکہ سے اچھا برتاؤ نہیں کیا ہے لیکن میں مودی کو بیحد پسند کرتا ہوں۔ انھوں نے مزید کہاکہ تجارتی یا دفاعی معاہدے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد ہندستان سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ”نریندر مودی نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ہوائی اڈے سے احمد آباد تک 70لاکھ لوگ میرے استقبال کیلئے کھڑے رہیں گے“۔ اس تقریر سے ہوسکتا ہے کہ اگر مودی اپنے آپ کوہندستان سے بڑا سمجھتے ہوں تو دل میں خوشی محسوس کر رہے ہوں کہ آقا نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی ہے۔حالانکہ آقا کے دورہئ ہند کا سارا مقصد اپنے صدارتی انتخاب کیلئے ہے۔ امریکہ میں بسنے والے ہندستانی یا گجراتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کو کامیاب کرنے کیلئے ووٹ دیں۔ ’ہاؤڈی موڈی‘ کے پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے ایک کارکن کی طرح اپنے آقا کے حق میں نعرہ بلند کیا تھا کہ ”دوسری بار ٹرمپ سرکار“۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی ہندستان میں اسی نعرے کو دہراتے ہیں یا کوئی نیا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکن ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کا کوئی دوسرا امیدوار ہوگا۔ ضروری نہیں ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ دوسری بار کامیاب ہوں۔ مودی جی کو اس نکتہ پر غورکرنے کا وقت شاید نہیں ملا اور نہ ہی کسی نے ان کو یہ سجھاؤ دیا کہ ایک دوسرے ملک میں کسی دوسرے ملک کے وزیر اعظم کو نعرہئ انتخاب بلند کرنا انتہائی غلط ہے اور ملک کے مفاد میں صحیح نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے مودی کو اوپر اٹھا دیا لیکن ہندستان کو نیچے گرانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ملک کاکوئی بھی سربراہ ہو اور جب وہاں جمہوریت ہوتی ہے تو سربراہ مستقل نہیں ہوتا بلکہ ملک کی حیثیت مستقل ہوتی ہے۔ ملک سے بیزاری اور سربراہ سے پیار محبت کی نمائش ڈونالڈ ٹرمپ اور مودی جی ہی کرسکتے ہیں۔دونوں کی ذہنیت تقریباً یکساں ہے۔ دونوں انسان دشمنی اور عوام دشمنی پر یقین رکھتے ہیں۔نریندر مودی کا اگر آر ایس ایس سے تعلق ہے تو ٹرمپ کا تعلق یہودیوں سے ہے۔ ٹرمپ کی رگِ جاں پنجہئ یہود میں ہے اور مودی کی رگِ جاں آر ایس ایس کے پنجے میں ہے۔ مودی جب بھی ڈونالڈ ٹرمپ سے ملے ہیں تو ان کا Body Language (جسم کی زبان) بچکانہ ہی نظر آیا۔ ان کی مرعوبیت بھی عیاں تھی۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان آرہے ہیں مودی جی اپنے ملک میں رہیں گے، یقینا ان کی کوشش ہوگی کہ اپنے مہمان کے سامنے جھکے رہیں اور اس کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ یہاں بھی وہ شاید ہی اپنے معیار کو بلند رکھ سکیں اور پرواز میں کوتاہی نہ کریں۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ غربت اور افلاس میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔بے روزگاری اور مہنگائی آسمان چھو رہی ہے مگر مودی جی کی شاہ خرچی اپنے آپ کو بڑا بنانے کیلئے پہلے ہی کی طرح ہے کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ جمہوریت میں رائے، مشورہ اور آزادیِ اختلاف و انحراف، حقوق اور حریت کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے لیکن دونوں ملکوں کے دونوں سربراہوں کو انسانیت اور جمہوریت کی ان قدروں سے دوردور کا واسطہ نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا مواخذہ کچھ ایسا ہورہا تھا کہ وہ شاید ہی امریکہ کی صدارت کی کرسی پر فائز رہ سکیں لیکن وہ بال بال بچے۔ مودی جی کے خلاف پورے ملک میں انسانی قدروں کی پامالی اور سیاہ قانون کی وجہ سے مخالفت اورمزاحمت ہورہی ہے۔ غور کیاجائے تو ان دونوں سربراہوں کی اپنے ملک میں پہلے جیسی مقبولیت نہیں ہے۔ دونوں اپنی مقبولیت کیلئے کوشاں ہیں۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں کیا سوچا اورسمجھا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے لیکن ہندستان کے وزیر اعظم کی شاہ خرچی غریب ملک کے پیسے سے اور غریبوں کی غربت اور افلاس کو اونچی دیواروں سے چھپانے کی کوشش سے مودی کی نیک نامی پر بٹا لگ رہا ہے ؎’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟‘
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نایاب حسن
ہمارے وزیراعظم مسٹرنریندرمودی کی بڑی آرزو تھی کہ موجودہ امریکی صدرڈونالڈٹرمپ ہندوستان کادورہ کریں، وہ ان کی مہمان نوازی کی شدید خواہش رکھتے ہیں؛ چنانچہ گزشتہ سال ہی یومِ جمہوریہ کےموقعے پر امریکی صدرکوبطورمہمانِ خصوصی بلایاگیاتھا، مگربوجوہ وہ نہیں آسکے، گزشتہ ستمبرکے اپنے دورۂ امریکہ میں مودی نے انھیں پھر یاد دلایا اوربھارت آنے کی دعوت دی، اب اسی دعوت پروہ 24فروری کواپنی اہلیہ ملینیاٹرمپ اورایک مکمل ڈیلی گیشن کے ساتھ ہندوستان کے دوروزہ دورے پرآرہے ہیں، ان کے استقبال میں "نمستے ٹرمپ "پروگرام احمدآبادکے تقریباسوالاکھ لوگوں کی گنجایش والے نوتیارشدہ موتیراسٹیڈیم میں کیاجائے گااوررپورٹس کے مطابق ایئرپورٹ سے سٹیڈیم تک پانچ سے سات ملین لوگ ٹرمپ کے لیے لبِ سڑک چشم براہ رہیں گےـ یہاں توٹرمپ کے استقبال کی تیاریاں زوروشورسے جاری ہیں، احمدآباد سٹیڈیم کو سجایا سنوارا جا رہاہے، شہربھرسے پسماندگی وبدحالی کی علامتوں کومٹانے یاچھپانے کی کوشش کی جارہی ہے اور جھگیوں کے محلّوں کے سامنے "دیوارِہند ” کھڑی کردی گئی ہے؛ تاکہ امریکی صدرکی نگہہِ نازپر کٹے پھٹے لوگ بارنہ بننے پائیں یاہم ایک ترقی یافتہ ملک کے صدرکے سامنے”ایکسپوژ "نہ ہونے پائیں ، مسٹرٹرمپ کے دورے میں تاج محل کی سیاحت بھی شامل ہے،مگرچوں کہ تاج جتناخوب صورت ہے، اس کے اردگردکاماحول اتناہی بدصورت ہے اوراس کے ایک طرف واقع جمناندی بھی خشکی سے دوچارہے؛اس لیے ٹرمپ کے پدھارنے سے پہلے تاج کے گردواقع اس ندی کو یوپی حکومت کی جانب سے "گنگاجل "بھردیاگیاہے،تاکہ مناظرکی خوب صورتی تاج محل سے گزرکرآس پاس کے علاقے تک وسیع ہوجائےـ
ٹرمپ کی آمدسے قبل وزارتِ خارجہ، حکومتِ ہندکابیان آیاہے کہ امریکی صدرکے اس دورے سے ہندـ امریکہ تعلقات میں مضبوطی آئے گی اوراس دوران اسٹریٹیجک، سلامتی،دہشت گردی سے مقابلہ،دفاع، تجارت وغیرہ کے شعبوں پربات چیت اورمعاہدے طے پائیں گےـ مگردوسری طرف بھارت آنے سے قبل امریکی صدرنے اس دورے کے حوالے سے وہاں کی میڈیاسے جوگفتگوکی ہے، اس میں وہ صرف اس بات کاباربارتذکرہ کررہے ہیں کہ بھارت میں ہمارے استقبال کے لیے پانچ سے سات ملین لوگ اکٹھاہوں گےـ تجارتی معاملات کے بارے میں انھوں نے یہ توکہاکہ ہم بھارت کے ساتھ ایک بڑی تجارتی ڈیل کرنے والے ہیں، مگرساتھ ہی یہ بھی کہاکہ اِس دورے میں وہ ڈیل نہیں ہوگی، ممکن ہے وہ نومبرمیں امریکی انتخابات کے بعدہوـ
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ابھی اسی ماہ امریکہ نے ہندوستان کو ترقی پذیرممالک کی فہرست سے نکال دیاہے، جس کی وجہ سے تجارت اوربرآمدات کے شعبے میں ہندوستان کو دوسوملین ڈالرسالانہ سے زائد کا خسارہ برداشت کرناپڑسکتاہےـ
کانگریس اوردیگراپوزیشن پارٹیاں امریکی صدرکے بیان اوردورے سے قبل بھارت کے ساتھ کیے گئے امریکی سلوک کی وجہ سے نالاں ہیں اور اس کی ذمے داری مودی سرکارپرڈال رہی ہیں ـ سی پی آئی نے توباقاعدہ ٹرمپ کے دورۂ ہندکے دوران احتجاج کااعلان کردیاہےـ اسی طرح ٹرمپ کے یہاں آنے سے عین قبل امریکی کانگریس کے ایک نمایندہ وفدنے دورۂ کشمیرکے بعدوہاں کی صورت حال پرتشویش کااظہارکیاہے اور حکومتِ ہندسے مطالبہ کیاہے کہ کشمیرمیں حالات کومعمول پرلانے کے ساتھ وہاں مہینوں سے قائم سیاسی اسارت کاسلسلہ ختم کیاجائے اورمقامی سیاست دانوں پرسے پابندیاں ختم کی جائیں ـ اسی طرح چارامریکی ممبران پارلیمنٹ نے امریکی وزیرخارجہ کوباقاعدہ تحریردی ہے، جس میں ہندوستان کے موجودہ مسائل خصوصاکشمیرکے حالات اورمتنازع شہریت ترمیمی قانون کی وجہ سے پیداہونے والی پیچیدگیوں پرتوجہ دلائی گئی ہےـ
ان تمام چیزوں کومدنظررکھتے ہوئے یہ کہنامشکل ہے کہ ٹرمپ کادورۂ ہندخودہندوستان کے لیے کتنامفید ثابت ہوسکتاہےـ ٹرمپ اپنے دورےکے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں، وہ ان کی باتوں سے پتاچلتاہے اوریہ بھی پتاچلتاہے کہ وہ اس دوران کوئی بڑادوطرفہ معاہدہ کرنے کے موڈمیں نہیں ہیں،بہرکیف یہ دیکھنے لائق ہے کہ اس دورے کے تئیں ہماری حکومت جن توقعات کااظہارکررہی ہے، وہ محض خوش فہمیاں ثابت ہوں گی یاان کی کسی حدتک تکمیل بھی ہوگی ـ
تحریر:ڈاکٹرمازن مطبقانی
ترجمہ:نایاب حسن
اس مضمون میں علمِ استشراق کے بالمقابل علمِ استغراب پر گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی،علم استغراب کی اجمالی تعریف یہ ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے،جس میں مغرب(امریکہ و یورپ) کا اعتقادی، قانونی، تاریخی،جغرافیائی،اقتصادی،سیاسی و ثقافتی تمام پہلووں سے مطالعہ کیاجائے۔اب تک یہ شعبہ مستقل علم کی حیثیت اختیار نہیں کر سکاہے؛لیکن اسلامی و عربی ممالک میں جونئی علمی علمی بیداری پیدا ہورہی ہے،اس کی روشنی میں امکان ہے کہ علمی تحقیق کے ادارے اور عالمِ اسلامی کی اعلیٰ تعلیم کی وزارتیں اس سمت میں ہمت کریں گی،قدم بڑھایاجائے گا اور ایسے علمی شعبے قائم کیے جائیں گے،جہاں مغرب کاعقیدہ و فکر و تاریخ اور اقتصاد و سیاست تمام شعبوں میں علمی و اختصاصی مطالعہ کیا جائے گا۔
کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتاہے کہ ہم مغرب کا مطالعہ کیسے کرسکتے ہیں،ہم ایسی دنیا کے بارے میں کیسے پڑھ سکتے ہیں جوہم سے میلوں ؛بلکہ صدیوں آگے پہنچ چکی ہے؟تو معاملہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے؛کیوںکہ اگر ہم دعوتِ اسلامی کے ابتدائی دور کی طرف رجوع کرتے ہیں ،تو دیکھتے ہیں کہ قرنِ اول کے مسلمان جب اسلامی دعوت لے کر دنیا کی طرف نکلے،تو وہ دوسری قوموں کے عقائد ،رسم و رواج اور روایات سے واقف تھے،وہ جہاں دعوت و تبلیغ کے لیے جارہے تھے،اس سرزمین کی سیاست،معیشت و جغرافیہ سے انھیں آگاہی ہوتی تھی۔آپ پوچھ سکتے ہیں کہ انھیں ان باتوں کا علم کیسے حاصل ہوتا تھا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اہلِ قریش تاجر لوگ تھے،سردی و گرمی کے موسموں میں دنیاکے مختلف ممالک کا تجارتی سفر کیاکرتے تھے،مگر ان کے یہ اسفار محض تجارتی اور خرید و فروخت کے نقطۂ نظر سے نہیں ہوتے تھے؛وہ ان اسفار کے دوران ان ملکوں کے نظامِ حکومت اور سماجی ،سیاسی و اقتصادی احوال سے بھی آگاہی حاصل کرتے تھے۔مختلف قوموں سے اختلاط کی وجہ سے ان کے عقائد سے بھی انھیں واقفیت ہوگئی تھی،پھر قرآن کریم نے بھی انھیں یہود و نصاریٰ وغیرہ کے عقائد کے بارے میںتفصیل سے بتایا۔ اسی وجہ سے قرنِ اول کے مسلمانوں کو دیگر اقوام سے متعارف ہونے اور ان کے ساتھ تعامل اور دوسری قوموں کے پاس موجود مفیدوسائلِ تمدن سے استفادے میں کوئی دقت نہیں پیش آئی؛چنانچہ انھوں نے دیوان،ڈاک،بعض اہم صنعتوں مثلاً کاغذسازی وغیرہ کا علم حاصل کرکے انھیں اتنی ترقی دی کہ ان صنعتوں پر مسلمانوںکی چھاپ لگ گئی۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مطالعۂ مغرب کے کچھ نقوش ہمیں اسامہ بن منقذکی کتاب’’الاعتبار‘‘میں ملتے ہیں ،جس میں انھوں نے صلیبیوں کی زندگی کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیاہے،ان کے طبائع و اخلاق اور خصوصیات و عیوب بیان کیے ہیں ۔ایک دلچسپ بات انھوں نے اُس معاشرے میں عورت و مرد کے تعلقات کے حوالے سے یہ بیان کی ہے کہ ان مردوں میں غیرت کا فقدان ہے؛چنانچہ ایک مردکواس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوتاکہ اس کی بیوی کسی غیر مرد سے ملے،اس سے بات چیت کرے،حتی کہ اس سے تنہائی میں ملے؛بلکہ وہ شخص خوداپنی بیوی کی کسی اجنبی سے ملنے پر حوصلہ افزائی کرتاہے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم مغرب کے بارے میں جانیں۔اس سلسلے کی ابتدا غالباً رفعت رفاعہ طہطاوی اور خیر الدین تونسی وغیرہ نے یورپ کے حوالے سے کی تھی،انھوں نے مغرب کی جن چیزوں کے مطالعے پر زوردیاتھا،وہ وہاں کا سیاسی نظام تھا،جو انتخاب و سیاسی آزادی پر قائم ہے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے مغرب کی اجتماعی زندگی اور عورت و مرد کے باہمی تعلقات پر بھی توجہ دی تھی۔تونسی و طہطاوی کی کتابیںایسے وقت میں منظر عام پر آئیں،جب عالمِ اسلامی پس گردی کی تباہیوں سے دوچار تھا،ایسے میں ان کا مغربی نمونۂ حیات سے متاثر و متحیر ہونا لازمی تھا،گرچہ انھوں نے اپنے زعم میں مغرب کی خوبیوں کواسلامی خوبیوں اور خصائص سے ہم آہنگ کرنے کی بھی کوشش کی۔
اس صدی کے نصف میں دوبارہ مطالعۂ مغرب کی آواز مستشرقین کے ایک عالمی سمینار میں اٹھائی گئی۔رودی بارت نے اپنی اہم تصنیف’’الدراسات العربیۃ والاسلامیۃ في الجامعۃ الالمانیۃ‘‘(ص:15)میں اس طرف توجہ دلائی کہ عالم اسلامی کو اُسی طرح مطالعۂ مغرب کی طرف متوجہ ہونا چاہیے،جیسے مغرب عالمِ اسلامی کا مطالعہ کرتا ہے۔ڈاکٹر سید محمد شاہدنے اپنے ایک علمی لیکچر میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی، جوانھوں نے کنگ سعود یونیورسٹی میں 1414ھ میں دیاتھا،اس کی تلخیص رسالہ’’مرآۃ الجامعۃ‘‘میں شائع ہوئی تھی،پھر ڈاکٹر حسن حنفی کی کتاب’’مقدمۃ في علم الاستغراب‘‘کے نام سے سامنے آئی۔میں مطالعۂ مغرب کے اہداف کے سلسلے میں اس کتاب سے ایک اقتباس پیش کرناچاہتاہوں:
’’اپنے اورغیرکے درمیان تعلق کے تاریخی نقص کو دور کرنا،دوسرے کو دارِس کی بجاے مدروس بناکراس کے احساس ِ عظمت کو دور کرنا،اپنے احساسِ کمتری کومدروس کی بجاے دارس بناکر دور کرنا،چاہے مغرب کی زبان کو پڑھنے کا معاملہ ہویا وہاں کی ثقافت،علوم،مذاہب اور نظریات و افکارکوجاننے اور پڑھنے کا‘‘۔
مطالعۂ مغرب کی اہمیت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس نے ایک ایسی تہذیب و تمدن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے،جو آج سارے عالم پر چھائی ہوئی ہے اور طہ حسین و لطفی سید کی کتابوںکی وجہ سے مغرب کی طرح مسلمانوں کی ازسرِ نو ترقی کے سلسلے میں تردداورتشکک پھیلایاگیا اور یہ تلقین کی گئی کہ وہ اپنی خصوصیات و شناخت سے دست بردار ہوجائیں ،اپنے آپ کو مغرب کے حوالے کردیں اور مغربی طرزِ زندگی کو اس کی تمام تر اچھائیوں اور برائیوں سمیت اختیار کرلیں۔حالاں کہ بعد میں طہ حسین نے اپنے س قسم کے افکار سے رجوع کرلیاتھا؛چنانچہ ان کی کتاب’’مستقبل الثقافۃ في مصر‘‘دوبارہ شائع نہیں ہوئی۔ اسی طرح اس کتاب کے بارے میں ان سے جب ایک بار سوال کیاگیا،تو انھوں نے جواب دیا کہ:وہ پرانی کتاب ہے۔
سوال پیدا ہوتاہے کہ ہم مغرب کا مطالعہ کیسے کریں؟اگر ہم حقیقی معنوں میں مغرب سے واقفیت حاصل کرنااور مغربی تہذیب کی مثبت حصول یابیوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ،تواس سلسلے میں ایک مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔اس کے لیے مختلف عربی و اسلامی یونیورسٹیز میں مطالعاتِ مغرب کی خاکہ سازی کے لیے دسیوں انجمنیں اور کمیٹیاں بنانی ہوں گی۔مگر یہ کام کرنے سے قبل ہمیں مطالعۂ مغرب کے بہترین طریقوں کے بارے میں غوروفکر کرنا ہوگا۔مجھے یاد آتاہے کہ امریکہ نے اپنے یہاں انیسویں صدی کے آغاز میں مطالعۂ مشرق(استشراق)کا سلسلہ شروع کیاتھا،مگر دوسری عالمگیر جنگ کے بعد غیر اختیاری طورپر مشرقِ وسطیٰ یا عربی و اسلامی ملکوں میں اس کی حیثیت برطانیہ جیسی ہوگئی،جس کے بعد امریکی حکومت نے عربی،ترکی،فارسی،اردو اور مختلف ملکوں اور خطوں کے خصوصی مطالعے کے سینٹرزمیں سرمایہ کاری کی تجویز پاس کی۔
عربی زبان کی تدریس وتحقیق کے پروگرام شروع کرنے کے بعد امریکی یونیورسٹیز نے خصوصاً برطانوی اورعموماً یورپی یونیورسٹیز کے اساتذہ سے مدد لی کہ وہ امریکی یونیورسٹیز میں پڑھائیں،اسی طرح مشرقِ بعید کے مطالعات کے شعبوں میں پڑھانے کے لیے اس علاقے کے لوگ بلائے گئے،جیساکہ پرنسٹن یونیورسٹی نے فلپ کے ہتی کو مشرقی مطالعات کا شعبہ قائم کرنے کے لیے بلایاتھا۔پھرمشرقِ وسطی کے مطالعات کے شعبوں اور دوسرے علمی اداروں کے مابین دیگر سماجی و انسانی مطالعات کی طرح علمی و تحقیقی تعاون کا سلسلہ شروع ہوا۔اس وقت بیس سے زائد امریکی یونیورسٹیز کے عربی و اسلامی شعبے وفاقی حکومت سے امداد پارہے ہیں ؛تاکہ وہ امریکی حکومت کی ضروریات کی تکمیل کے منصوبے پر مضبوطی سے کا م کرتے رہیں۔
عالمِ اسلام میں یورپی زبانوں کی تدریس و تعلیم کم نہیں ہے،مگر ہمیں ضرورت ایسے لوگوں کی ہے،جو ان زبانوں میں مہارت حاصل کرکے اعلیٰ مقام تک پہنچیں،پھر مغربی یونیورسٹیز میں پڑھیں اور مغرب کے موضوعات و مسائل پر ریسرچ کریں،صرف ایسے موضوعات پر نہیں ،جو اسلامی دنیاسے تعلق رکھتے ہیں۔ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جومغربی ادب کو اس طرح سمجھتے ہوں،جیسے مثال کے طورپر پروفیسر ایڈرورڈ سعید سمجھتے تھے،انھوں نے مغربی ادب کے دیدہ ورانہ مطالعے کے ذریعے مغربی عقلیت کے اَعماق میں اترکراسے سمجھاتھا۔اسی طرح ہمیں ایسے انسان کی بھی ضرورت ہے جو مغربی علم ِسماجیات کا گہراعلم رکھتاہو؛ تاکہ وہ مغربی معاشرے کواس طرح جان سکے گویاوہ اسی کا ایک فردہے۔یہ مسئلہ مشکل بھی نہیں ہے؛کیوںکہ آج مغربی دنیامیں یورپی و امریکی نسل کے بہت سے مسلمان رہتے ہیں،جوان کے معاشرے کوحقیقی طورپرسمجھ سکتے اور جس قسم کی معلومات بھی حاصل کرناچاہیں ،آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں،انھیںکوئی مشکل نہیں پیش آئے گی۔
دھیان دینے کی ایک بات یہ ہے کہ ہمارامطالعۂ مغرب ان ملکوں سے مستفاد ہونا چاہیے،جو اس سلسلے میں سبقت رکھتے ہیں،ایسے متعدد یورپی ممالک موجودہیں، جہاں امریکی اسٹڈیزکے ادارے کھولے گئے ہیں؛چنانچہ لندن یونیورسٹی کے اکانومک و پولٹیکل کالج میں امریکی اسٹڈیز کا ادارہ قائم ہے،اسی طرح مونٹریال یونیورسٹی میں امریکی اسٹڈیز کا شعبہ ہے،جرمنی میں بھی ہے،پاکستان نے بھی امریکی اسٹڈیز کا ادارہ قائم کیاہے۔
البتہ ہمارا مطالعۂ مغرب، مغرب کے مطالعۂ مشرق سے مختلف ہونا چاہیے؛کیوںکہ مغرب نے تو مشرق کا مطالعہ اس لیے شروع کیاتھا کہ اس کا حکم وہدایت عیسائی مذہبی اداروں او رپاپائیت کی طرف سے تھااور مقصدیہ تھا کہ مسلمانوں کی قوت اور عیسائیوں کے زیرنگیں ممالک میںاسلام کی اشاعت کا راز معلوم کیاجائے۔وہ صرف مسلمان اور اسلام سے شناسائی نہیں حاصل کرنا چاہتے تھے؛بلکہ ان کے دواور مقاصد تھے:ایک یہ کہ عیسائیوں کو اسلام سے متنفر کیاجائے اور دوسرا یہ کہ اسلامی ممالک میں عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مذہبی مبلغین تیار کیے جائیں۔
اس آغاز کے بعد یورپی استعمار کا ظہور ہوا اور اس نے بھی اس کی ہم نوائی؛ بلکہ اس سے آگے نکلنا ضروری سمجھا؛تاکہ اسے وہ استحکام حاصل ہوجواس کا مقصد تھا؛چنانچہ اہل مغرب کے پاس ایسے کئی عالم اسلامی کے ماہرین ہوئے ،جنھوں نے استعمار کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں حصہ لیا۔پھرایک زمانے کے بعد استعماری لہریں محدود اور ختم ہوتی چلی گئیں،مگر مغرب کی یہ خواہش برقراررہی کہ وہ عالمِ اسلامی میں داخل ہو، تاکہ مغربی ملکوں کا خام مواد وہاں آسانی سے داخل کیاجاسکے،پھراسے تیارشدہ سامان کی شکل میں اسلامی دنیامیں رائج کیاجاسکے؛چنانچہ ان ملکوںکیسماجی طرززندگی میں بدلاؤآنااور مخصوص قسم کے طرزِاخلاق کواختیار کرنااوراسے مضبوطی سے تھامنا یقینی تھا،پھر ہمارے ممالک ان کے وسائل و اسباب ومصنوعات کی کھلی مارکیٹ بن گئے۔(الاماشاء اللہ)
پس ہم اگر مغرب کا،مغربی اداروں کا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں توپہلے ہمیں مادی قوت کے ان اسباب ووسائل کو اختیار کرنا ہوگا،جو ان کے پاس ہیں،خود قرآن کریم میں اس کی ہدایت دی گئی ہے کہ’’ان سے مقابلے کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے ہتھیار سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو،تاکہ تم اس کے ذریعے ان لوگوں پر اپنا رعب جمائے رکھوجوکہ اللہ کے دشمن ہیں اور تمھارے دشمن ہیں‘‘۔(الانفال:60)توجس طرح امریکی مثلاً اس کوشش میں ہیں کہ وہ جاپانی مینجمنٹ اور اس کی تخلیقی اور تیز رفتارترقی کی قوت کارازمعلوم کرسکیں،اسی طرح ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ان کی قوت کے اسباب کا پتالگائیں۔جس طرح انھوں نے اپنی زندگی میں مینجمنٹ،صنعت،معیشت،تعلیم وثقافت کے شعبوں کے نظام کے اطلاق ونفاذکا میکانزم تیارکیاہے،ایسےہی ہمیں کرناہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم جب مغرب کا مطالعہ کریں گے، تو ہمارا کوئی استعماری مقصد نہیں ہوگا،ویسے بھی مسلمانوں کا مزاج کبھی استعمارینہیں رہا۔مجھے سلطنت عثمانیہ کے دفاع میں لکھی گئی محمد جلال کشک کی یہ بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ وہ نہ تو استعماری حکومت تھی اورنہ اسے ایسا کہاجاسکتاہے، انھوں نے اپنے اس دعویٰ کی متعدددلیلیں بھی پیش کی ہیں۔مغرب کے مطالعے سے ہمارا مقصد محض اپنے مفادات کا تحفظ کرناہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس تصور کوسمجھناہے، جسے مغرب نے ایجادکیااور دنیاکی بہت سی حکومتوں سے زیادہ طاقت ورہوگیا۔
تیسری بات جو خاص اہمیت کی حامل ہے ،یہ ہے کہ یہی امت، امتِ دعوت و شہادت ہے، حضور اکرمﷺکے پہلے کے انبیاعلیہم السلام اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے،پھر تمام مسلمانوں کو یہ ذمے داری دی گئی (قل ہذہ سبیلي أدعوإلی اللّٰہ علی بصیرۃ أناومن اتبعن)اورحدیث میں ہے کہ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو شاداب رکھے، جس نے میری بات سنی،پھر اسے ذہن میں بٹھالیا،پھراسے ان لوگوں تک پہنچایا، جنھوں نے نہیں سنی تھی؛کیوںکہ بہت سے وہ لوگ، جنہیں وہ بات پہنچائی جائے گی وہ اس سننے والے سے زیادہ باشعور و بیدار مغزہوںگے‘‘۔حضورﷺکایہ آخری پیغام محض ایک اعتقادی سسٹم کا حصہ نہیں ہے، جس کا تعلق انسان اوراس کے رب سے ہے،جیساکہ عیسائیت میں ہے اور اسے ماننے والوں کا خیال ہے کہ عیسی علیہ السلام نے فرمایاہے’’جوقیصر کا ہے وہ اس کے لیے چھوڑدواور جو اللہ کا ہے،وہ اس کے لیے خاص رکھو‘‘۔اس کے برخلاف حضورﷺکایہ پیغام سماجی،سیاسی،معاشی،اخلاقی و فکری الغرض زندگی کے ہرپہلو میں نافذہوگااورہمیں جب امتِ شہادت بنایاگیاہے،توان لوگوں کے بارے میں ہم کیسے گواہی دے سکیں گے،جنھیں حقیقی معنوں میں جانتے ہی نہ ہوں؟
مغرب کا مطالعہ دنیا کی نظرمیں مغرب کی شبیہ مسخ کرنے کے لیے بھی نہیں ہونا چاہیے؛کیوںکہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ’’کسی قوم سے دشمنی تمھیں ناانصافی پرنہ ابھارے،تم انصاف کرو،یہی تقوی کے قریب ہے اور اللہ سے ڈرو‘‘۔اسی طرح ہمیں اپنے رشتے داروں اور والدین کے معاملے میں بھی انصاف کا حکم دیاگیاہے۔اس حوالے سے ہمارے لیے حضرت عمروبن العاصؓکایہ قول نمونہ ہونا چاہیے،انھوں نے رومیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا:’’ان کے اندر چار خصلتیں ہیں:آزمایش کے وقت وہ نہایت بردباراورمتحمل ہوتے ہیں،مصیبتوںسے بہت جلد باہرنکل آتے ہیں،جنگ میں پیچھے ہٹنے کے بعد تیزی سے پلٹتے ہیں،مسکینوں اور یتیموں کے خیرخواہ ہیں اور پانچویں اچھی بات یہ ہے کہ اللہ نے انھیں بادشاہوں کے ظلم سے محفوظ رکھاہے‘‘۔
عورتوں کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ وہ نازک ہونے کے ساتھ ساتھ مردوں کے مقابلے میں بزدل ہوتی ہیں، بطور خاص گھریلو عورتیں جو چھپکلیوں اورجھینگروں تک کو دیکھ کر چیخ مار دیتی ہوں، ان کی ساری ہیکڑی ختم کرنے کے لیے ریوالور، گولی، ہوائی فائرنگ وغیرہ جیسی چیزوں کو کافی سمجھنا فطری ہے۔ شوہر کا ایک زناٹے دار تھپڑ جس مخلوق کو ساری زندگی پا بہ زنجیر رکھ سکتا ہے، بھلا اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ظالم حاکم وقت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر اسے چیلنج دے سکے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ باد مخالف میں وہ پورے ہمت و استقلال کے ساتھ ان لوگوں کو چنوتی دینے کے لیے پورے 50 دنوں تک اپنی جگہ پر جمی رہے؟سرد راتوں اور گرم طعنوں کے تھپیڑوں کے باوجود اسی طرح ان لوگوں کے سامنے کھڑی رہے جو دُرگا اور کالی کو نمن کرنے کے باوجود "ناری شکتی” کے انکاری ہوں۔ رضیہ سلطان، رانی لکشمی بائی اور جھانسی کی رانی کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے باوجود جو لوگ آج بھی اکیسویں صدی میں عورتوں کو صرف "گھریلو نوکرانی” یا "استعمال کرنے کی چیز” سمجھتے ہیں، ان کے لیے تو بہرحال یہ شاہین باغ کی عورتیں ان کی مردانہ ایگو کے لیے تازیانے سے کم نہیں، اسی لیے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت عورتوں کو گھر بار سنبھالنے کا مشورہ دیتے ہیں تو کبھی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردوں نے اپنی عورتوں کو چوراہے پر بٹھا دیا ہے اور خود رضائی میں دبکے پڑے ہیں، پھر کبھی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ ان عورتوں سے ڈر کر انھیں "بکاؤ” کہہ کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ عورتیں پتہ نہیں، کس چیز سے بنی ہیں کہ ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا اورپورے پچاس دنوں سے راون کی پوری فوج کو للکار رہی ہیں اور بیچارہ راون اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ "ویدک کال” کی نہیں، بلکہ اکیسویں صدی کی عورتیں ہیں۔ان عورتوں کا نہ تو "سیتا ہرن” کیا جا سکتا ہے اور نہ اب وہ "اگنی پریکشا” دینے کے لیے تیار ہے، بلکہ وہ خود مجسم اگنی کا روپ دھار چکی ہے جو سرکار کو اندر ہی اندر بھسم کررہی ہے۔ لہٰذا کبھی گوپال شرما نامی شخص کو چھپکلی سے ڈرنے والی مخلوق کو ڈرانے کے لیے بھیجا جاتا ہے جو بھٹکتے بھٹکتے شاہین باغ کے بغل میں ہی واقع جامعہ ملیہ یونیورسٹی پہنچ کرصرف ایک گولی داغنے کا ناٹک کرتا ہے اور بزدلوں کی طرح پیچھے کھسکتا ہوا خود کو تقریباً پولیس کے حوالے کردیتا ہے جو اس کے پیچھے ہی اسے گود لینے کو تیار کھڑی تھی، پھر کپل گجر نامی ایک شخص شاہین باغ کے باہر نمودار ہوتا ہے اور جان بوجھ کر دو یا تین راؤنڈ ہوائی فائر کرنے کے بعد پستول جھاڑیوں میں پھینک کر بالکل گوپال شرما کی طرح پولیس کی طرف جست لگا تا ہے اوران کی شفقت بھری بانہوں میں یہ کہہ کر سما جاتا ہے کہ "یہ ہندوؤں کا دیش ہے اور یہاں صرف ہندوؤں کی چلے گی۔”جامعہ ملیہ میں گولی چلانے والے گوپال شرما کو نابالغ قرار دے کر پولیس اس کیس کو پہلے ہی مرحلے پر کمزور کردیتی ہے،ممکن ہے ایک دو روز بعد کپل گجر کو ذہنی طور پر پاگل قرار دے کر اس کا کیس بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر میں پہلے بھی کافی کہہ چکا ہوں اور اس کی پوری کرونولوجی بھی بیان کرچکا ہوں۔ لیکن جس طرح 48 گھنٹوں کے اندر جامعہ اور شاہین باغ میں سانحے ہوئے، ان دونوں میں ایک مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں حملہ آوروں کا مقصد شاید کسی کوگولی مارنا نہیں بلکہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرنا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں کاروائیاں شاہین باغ کی عورتوں کو محض ڈرانے کے لیے تھیں تاکہ ان میں افراتفری پھیلے، وہ اپنی جان اور آبرو بچانے کے لیے گھر لوٹ جائیں یا ان میں سے بیشتر کے شوہر اور ان کے گھر والے ان عورتوں پر گھر لوٹنے کا دباؤ ڈالیں، اس طرح سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ یہ سب اس دن ہوا جب پارلیامنٹ میں مودی سرکار بجٹ پیش کرتے ہوئے "بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ” کے منصوبے کے گذشتہ ایک سال کے فائدے گنوا رہی تھی۔ مجال ہے جو ذرا بھی زبان کانپی ہو، مجال ہے گذشتہ سال میں عورتوں اور طالبات پر ہونے والے مظالم کے اعداد و شمار کا خیال بھی سرکار کے ذہن میں آیا ہو اور مجال ہے کہ ہندوستان بھر میں لاکھوں شاہین باغوں میں بیٹھی عورتوں کے درد اور ان پر پولیس کے مظالم اور بدزبانیوں کو یاد کرکے پیشانی پر پسینے کے کچھ قطرے ہی جھلملائے ہوں۔ چونکہ سرکار کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا مرد اب تک عورتوں کو ان کی برسوں پرانی امیج کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور مطمئن ہے کہ بھلا چھپکلی اورجھینگروں سے ڈرنے والی عورتوں کی اتنی مجال کہاں کہ وہ ان سے سوال کر سکیں، ان سے حساب کتاب مانگ سکیں۔ یہی خود اعتمادی انھیں لے ڈوبی اور لے ڈوبے گی، چونکہ موجودہ صورت حال بالکل شفاف اور واضح ہے۔جب کسی ملک کا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ اس کی پوری پلٹن اپنی سیاست کا مرکزی نقطہ شاہین باغ میں بیٹھی کچھ عورتوں پر مرکوز کردیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب سرکار ان سے ڈرنے لگی ہے لیکن چونکہ صدیوں پرانا مردانہ غرور عورتوں سے شکست مان کر اپنی وراثت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو وہ کبھی کرنٹ لگانے کی بات کرتا ہے، کبھی گوپال شرما کو بھیجتا ہے تو کبھی کپل گجر کو اور کبھی "ہندو سینا” کے ذریعہ 2 فروری کو شاہین باغ اکھاڑنے کا اعلان کراکے انھیں ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن افسوس انھیں پتہ ہی نہیں کہ شاہین باغ میں بیٹھی عورتیں مذہبی صحائف اور تاریخ کے صفحات سے نکل کردرگا، کالی، رضیہ سلطان، جھانسی کی رانی،لکشمی بائی جیسے کردار کے روپ میں مجسم ہوچکی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
سی اے اے ، این پی آراوراین آر سی کے خلاف متحدہ لڑائی لڑی جائے گی: امارت شرعیہ
پھلواری شریف: (عادل فریدی) بہار خصوصی طور پر اور عمومی طور پر پورے ملک میں سی اے اے ،این پی آر اور این آر سی کے خلاف لڑائی کو متحد و منظم بنانے،اور اس کو پوری مضبوطی کے ساتھ پورے ملک میں پھیلانے کی حکمت عملی تیار کرنے کی غرض سے بہار کی این ڈی اے مخالف سیاسی پارٹیوں کی ایک اہم میٹنگ آج مورخہ ۲۸؍ جنوری کو امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی، سی پی آئی کے ستیہ نارائن سنگھ، رالوسپا کے قومی صدر اپیندر کشواہا، جن ادیکھار پارٹی کے قومی صدر راجیش رنجن عرف پپو یادو، بام سیف کے ریاستی صدر رام لگن مانجھی، کرشن دیو یادو ریاستی صد ر کسان مہا سبھاولیڈر بھاکپا مالے ، اور ابھیودیے ممبر مرکزی کمیٹی بھاکپا مالے، وی آئی پی کے قومی صدر مکیش سہنی اورریاستی ذمہ دار سنتوش کشواہا،آنند مدھوکر یادو وی آئی پی، سابق وزیر اور شہید جگ دیو سینا کے قومی صدر ناگمنی ،ہم کے ریاستی صدر بی ایل بنستری، آر ایل ایس پی کے فضل امام ملک اور ای روشن راجا، جن ادھیکار پارٹی کے اعجاز احمد اور بھاکپا مالے کے کنال جی کے علاوہ دیگر لوگ بھی شریک ہوئے ۔ حضرت امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کی لڑائی سب کی مشترکہ لڑائی ہے اور اس کو این ڈی اے مخالف سبھی پارٹیوں کو مل کر لڑنا ہے ۔یہ بات حقیقت ہے کہ مسلمان پوری طرح اس لڑائی میں ہیں اس کی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو ان تینوں قانون کے خطرات اور مستقبل کے اندیشوں سے امارت شرعیہ نے پوری طرح واقف کرایا ہے ، غیر مسلموں کے اندر ابھی پوری بات نہیں پہونچی ہے ، اس لیے وہ پوری طرح میدان میں نہیں ہےں، اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ سب کے اندر واقفیت پیدا کریں ۔آر ایل ایس پی کے صدر اپیندر کشواہا نے کہا کہ جو کام سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہئے ، وہ آج امارت شرعیہ کر رہی ہے ، این ڈی اے کی یہ کوشش ہے کہ اس مسئلہ کو مذہبی بنیاد پربانٹ دیا جائے اور اس کو ہندو مسلم کا مسئلہ بنا دیا جائے ، اس لیے ہمیں ان کی حکمت عملی کے مقابلہ میں اپنی الگ حکمت عملی بنانی ہو گی ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کامن ایجنڈا پر سبھی پارٹیوں کو اکٹھا ہونا چاہئے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی کی کوشش ہے کہ بنیادی مدوں سے ملک کو بھٹکا دیا جائے، اس لیے ہمیں بنیادی مدوں کو بھی سامنے لانا ہے ۔شری پپو یادو نے کہا ہے کہ آج سارا دلت اور مائنورٹی ذہنی اور جسمانی طور پر سی اے اے این پی آر اور این آر سی کے خلاف ہو چکا ہے ، ہمیں ضرورت ہےکہ دوسرے طبقہ کو بھی سامنے لایا جائے ۔ ستیہ نارائن سنگھ نے کہا کہ لیفٹ کا اسٹینڈ بالکل واضح ہے کہ ہم ان تینوں کی مخالفت کرتے ہیں ۔اور ان کے مخالف ہونے والے ہر پروگرام کی حمایت کرتے ہیں ۔مکیش سہنی قومی صدر وی آئی پی نے بھی کہا کہ مشترکہ پروگرام میں وہ ساتھ ہیں ۔ اس میٹنگ میں مولانا محمد شبلی قاسمی ،رام لگن مانجھی ، ناگمنی جی ،کے ڈی یادو، بی ایل بسنتری اور ابھیودے جی نے بھی اپنی رائے رکھی اور مل کر لڑائی لڑنے پر اتفاق کا اظہار کیا۔اس میٹنگ میں متفقہ طور پر یہ بات طے ہوئی کہ ایک کوآرڈینیشن کمیٹی کی تشکیل دی جائے اور اس کے تحت پورے صوبے میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف لڑائی لڑی جائے ۔یہ بات بھی طے ہوئی کہ اپنی لڑائی میں بنیادی مدوں کو بھی شامل کیا جائے اور سی اے اے نہیں تعلیم ، این آر سی نہیں روزگار اور این پی آر نہیں صحت کا نعرہ عام کیا جائے 10 فروری کوبہار کے ہر ضلع ہیڈ کوارٹر پر سبھی پارٹیوں کی جانب سے مشترکہ طور پر دھرنا دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ بام سیف کی جانب سے سی،اے،اے ،این،آرسی اور این پی آر کے خلاف مورخہ ۲۹؍جنوری ۲۰۲۰ء کوبھارت بند میں سبھی پارٹیاں شامل ہوںگی۔میٹنگ میں شریک سبھی پارٹیوں کی جانب سے امیر شریعت کو کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دینے کا اختیار دیا گیا۔
ممبئی: (نمائندہ خصوصی) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ریڈیو کلب قلابہ میں پرچم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک احتجاجی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف اداکارہ پوجا بھٹ نے کہا کہ نہ ہماری خاموشی ہمیں بچائے گی، اور نہ ہی حکومت کی خاموشی اسے بچائے گی‘‘۔ اس اجلاس سے پوجا بھٹ کے علاوہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دینے والے آئی پی ایس افسر عبدالرحمان، فہد احمد (ٹی آئی ایس ایس)، عمر خالد(طلبہ لیڈر) ڈاکٹر کفیل احمد خان، مشکور احمد عثمانی (طلبہ لیڈر) پروفیسر سراج چوگلے، ارشد صدیقی (ریڈ کریسنٹ سوسائٹی) نے بھی خطاب کیا۔پوجا بھٹ نے مزید کہاکہ میرے خون میں ہندوستان کی روح ہے اور میں کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ مجھ سے کہے کہ میں کس سے محبت کروں؟ کس کو چاہوں؟ گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں، تو کیا ہندوستان ہمارا گھر نہیں ہے؟ اگر کوئی شکایت ہے تو ہم سرکار سے ہی کہیں گے۔ میں اس سرکار کی شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں متحد کردیا ہے، یہ میرا دیش ہے، یہ میرا گھر ہے یہ میرے اپنے لوگ ہیں اگر میں اپنے گھر میں سوال نہیں پوچھوں گی تو کہاں جاؤں گی سوال پوچھنے۔ انہوں نے کہاکہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان جائیے ، جاؤں گی، مگر چھٹیاں منانے ویزہ لے کر، میرے بہت پیارے دوست وہاں رہتے ہیں، وہاں بہت پیار ملتا ہے مجھے، وہاں بھی ایسے عجیب لوگ ہیں جو پوچھتے ہیں کیوں آئے ہو؟ یہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کیوں گئے ہو؟ انہوں نے کہاکہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ طلباکی تحریک کے تعلق سے آپ کا کیا کہنا ہے؟ تو میرا جواب ہے کہ طلبا نے کہدیا ہے کہ ’جاگ جاؤ‘ ۔
خورشیداکبر
ایک تیرا نظام چل رہا ہے
ساری دنیا میں کام چل رہا ہے
ایک تو شاہ چل رہا ہے یہاں
ایک اس کا غلام چل رہا ہے
ایک سے شہر صاف ہو گئے ہیں
جانے کیا اہتمام چل رہا ہے
اک محبت تھی ختم ہو گئی ہے
اور اک انتقام چل رہا ہے
ایک تلوار تھی سو کھو گئی ہے
صرف خالی نیام چل رہا ہے
ایک دنیا ٹھہر گئی ہے مگر
ایک وہ تیزگام چل رہا ہے
ایک بیٹا : بلند ہے اتنا
باپ انگلی کو تھام چل رہا ھے
ایک سکہ اندھیر گردی کا
رات دن صبح و شام چل رہا ہے
اک چھری سے حلال ہر گردن
سب کا جینا حرام چل رہا ہے
ایک خورشید روز اگتا ہے
روز قصہ تمام چل رہا ہے
مِلان کندرا ایک جگہ لکھتا ہے’a man’s struggle against power is the struggle of memory against forgetting‘ یعنی ’اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدو جہد فراموشی کے خلاف یاد داشت کی جدوجہد ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر آپ طاغوتی مقتدرہ کے جبروتی نظام کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اسے یاد رکھیں، فراموش مت کریں، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ارض موعود کو یاد رکھا تھا اور دانتوں سے زمین پکڑے اِنچ بہ اِنچ چلتے ہوئے ’منزل مرام‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، آپ بھی جنونی اقتدار کی ہذیانی نرگسیت میں بدمست مودیوں، شاہوں، یوگیوں اور مردودوں، کو مت بھولئے گا، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ہٹلر کے’مرگ انبوہ‘ کو اقوام عالم کی آشوب گاہ ثابت کرتے ہوئے دنیا کو مظلومیت کا نیا بیانیہ عطا کیا۔ اب دنیا میں کوئی بھی ملک اپنی رعایا یا اقلیت پر خواہ آگ کی ہی بارش کیوں نہ کرے اس کے بیان کی شدت ’ہولوکاسٹ‘ پر جاکر دم توڑ دیتی ہے۔ اگر آپ کی پوری کمیونٹی کے سر پر آسمان آتش فگن ہے، نیچے ’ جُبِّ الْحَزَن‘ہے، آگے موت کا دوزخ اور پیچھے ذلتوں کا برزخ ہے تو کوئی بات نہیں کہ یہ ہولوکاسٹ نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر اب مابعد جدید و متمدن دنیا آپ کی مدد کے لئے آگے نہیں آنے والی ہے، ایسے ہی جیسے فلسطین، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، روہنگیا اور اویغور میں شرمندگانِ خاک بوند بوند لہو پی رہے ہیں، اقوام مغرب کشتوں کے پشتے دیکھ رہی ہیں اور سر مژگاں تک نم نہیں ہورہی ہے ۔وجہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کشتگان ستم ، یہ صاحبانِ خار و خس، یہ سگانِ تیرہ شب، یہ شہیدانِ آمد سحر کوئی اور نہیں ہم ہیں، یعنی کہ مسلمان ہیں، افتگادگان خاک ہیں۔ ہم ’ہولوکاسٹ‘ نہیں ہیں اور ہوں گے بھی نہیں۔اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دل سے نکال دیں کہ کشمیر جیسی ایک چھوٹی سی ریاست کو 9 لاکھ جواں شیر فوجوں کی بکتر بند گاڑیاں تاخت و تاراج کرنے میں ناکام رہیں، آہنی بوٹوں کی جگر فگار چاپ دشتِ دہشت میں جوان ہونے والوں کو بھی اپنا مطیع و فرمانبردار نہیں بنا سکی، اور جب کوئی صورت بن نہیں پائی تو بہشت کو اٹھا کر دوزخ میں ڈال دیا تو پھر یہ ایک کروڑ کشمیریوں کا نہیں پچیس سے تیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اگر روز آپ پانچ ہزار مسلمانوں کو جان سے ماریں گے تو کل پچاس ہزار دن لگیں گے اور جہاں تک حراستی مراکز کی بات ہے تو یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہوگا کہ مسلمان ایک طرح سے حراستی مراکز میں ہی رہتا ہے اور پھر کتنے حراستی مراکز قائم کریں گے اور کیا وہ محفوظ بھی رہ پائیں گے، کیا ایک دن خوف کی طاقت ان تمام آہنی دیواروں کو مسمار نہیں کرے گی؟
ہمارا وزیراعظم ’اربن نکسل‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے یوں گویا ’رورل نکسل‘ کا ’آتنک‘ ختم ہوگیا ہو۔ تاریخ سے نابلد ناہنجاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ’اربن‘ لفظ ہی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ نکسلزم دیہات کو فتح کرتا ہوا شہر و قصبات میں داخل ہوچکا ہے۔ ہندوتو کی بھانگ پینے والے دونوں کور بھکتوں کو اگر ’گھر گھر مودی‘ کے علاوہ کچھ اور دکھائی دے تو انہیں معلوم ہوکہ ’رورل نکسل‘ نکسلی علاقوں میں نہ صرف اپنے بنیادی تصورات کے ساتھ زندہ ہے بلکہ آج بھی حکومت کے لئے اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ وہ چارو مجمدار کے وقت تھا۔ نکسلزم اب صرف آدیواسیوں اور قبائلیوں کے حقوق کی لڑائی تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک نظریے میں تبدیل ہوچکا ہے، ایک ایسا نظریہ جو اب اربن نکسل کی شکل میں ’بھگوائیوں‘ کے لاشعور میں کابوس کی صورت جاگزیں ہوگیا ہے۔ شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں چینیوں سے مشابہ چپٹی ناک والوں نے تو آزادی کے وقت سے ہی ہندوستان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ دو سال قبل ڈوکلاہام کا واقعہ آپ کیسے بھول سکتے ہیں، چین اندر گھستا چلا آرہا ہے اور ہمارا وزیراعظم خیالی پروجیکٹوں کے فیتے کاٹ رہا ہے؟ ہندوستان جغرافیائی اور تہذیبی اعتبار سے ایک بڑا و اعلیٰ ظرف ملک ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلقات پڑوسیوں کے ساتھ کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ مغرب میں پاکستان، مشرق میں بنگلہ دیش، شمال میں چین اور جنوب میں سری لنکا کے ساتھ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ٹھنی رہی ہے۔ ایک بڑا ملک جب اپنی تہذیبی اقدار کا احترام کرنے کے بجائے پڑوسیوں کے ساتھ ’بگ بردر‘ کا سلوک اپنانے کی کوشش کرے اور علت ہائے نافرجام کہ ایک سطح پر اندرونی شورش کا شکار بھی ہو تو اسے کمزور ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ ’بھگوائیوں‘ اور ان کے دونوں مائی باپ کو یہ بات آج نہیں تو کل سمجھ میں آجائے گی کہ وہ امریکہ نہیں، ہندوستان میں رہتے ہیں اور اقتدار کا نشہ مثال قطرہ شبنم بہت جلد اتر جاتا ہے، برطانیہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، عہد جدید کے جیوپولیٹیکل منظرنامے میں دنیا اسے ’کتے کا دُم‘ سمجھتی ہے جس کے پاس بین الاقوامی مسائل میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رہ گیا ہے۔ سرمایہ داروں کے لئے صارفین کی کھیپ تیار کرکے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سپرپاور بن گئے ہیں تو اس سوچ پر صرف رحم ہی کیا جاسکتا ہے۔
سماجی،سیاسی اور معاشی بحران کے اس دور میں این آر سی اور سی اے اے کے نام پر ہندوستان کے پچیس سے تیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف’ بھگوائیوں‘ کا اعلان جہاد نشے میں مست ہونے کی حماقت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ ابھی تو یہ تحریک ابتدائی مرحلے میں ہے، اس آغاز کو اختتام نہ سمجھا جائے، یہ ممکن ہے کہ اگلے کچھ وقتوں میں تحریک سمٹ کر صرف مسلم شاہینوں تک محدود ہوجائے، دلت، پسماندہ و دیگر روشن خیال سیکولر طبقہ تاخیر کی سیاست’delay tactics‘ سے عاجز ہوکر واپس اپنے اپنے گوشہ عافیت کے اسیر ہو جائیں لیکن جیسا کہ کہاوت ہے ’phoenix rises from the ashes‘ یعنی ققنس اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لیتا ہے، ہر ققنس اپنی تین سو چونچوں میں ابابیلوں والی کنکریاں لے کر اپنی اسی راکھ سے جنمے گا۔ امت شاہ کی توند، مودی کی کوٹ، یوگی کی لنگوٹ سب ٹھاٹ پڑے رہ جائیں گے۔ یہ سچ ہے کہ ابھی ہم خوف میں ہیں لیکن ابھی ہم نے اپنے خوف کی طاقت کو استعمال نہیں کیا ہے جیسا کہ کافکا نے کہا ہے۔ ’ “My ‘fear’ is my substance, and probably the best part of me‘۔ یہ ہمارا خوف ہے جو ہماری غیرت و انانیت کو مجروح ہونے سے بچاتا ہے، یہ بقا کا خوف ہے جو ہمیں مسترد اور رائیگاں ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ ہمارا خوف ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ خوف کی طاقت یہ ہے کہ سانپ کے حملہ کرنے سے قبل ہی اس کا سر کچل دو جو اس وقت بھگوائی حکومت کررہی ہے۔ابھی اس طاقت کو ہم نے استعمال نہیں کیا ہے۔اس مصاف میں اگر جان سے جانا ہی شرط ٹھہرا تو پھر وہ بھی ہوگا۔ بے فکر رہیں، ہم قانون کو ہاتھ میں لینے والے نہیں لیکن ہاں قانون کا نوالہ بھی بننے والے نہیں ہیں۔
نئی دہلی۔ ہندوستان کے عہد ِوسطی کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا ساراسرمایہ فارسی زبان وادب میں محفوظ ہے۔ آٹھ سو سالہ تاریخ پر محیط عہدوسطیٰ میں فارسی زبان وادب کے حوالے سے مختلف النوع کتابیں اردومیں لکھی گئی ہیں۔ اس کے باوجود فارسی زبان وادب کی مربوط تاریخ کا فقدان ہے۔اس کمی کو دیکھتے ہوئے قومی اردو کونسل نے ایک مبسوط اور معتبر تاریخ کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ فارسی اورعہدِوسطیٰ کے سرمائے کونئی نسل تک پہنچایاجاسکے۔یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کونسل کے صدردفترمیں منعقدہ فارسی زبان وادب کے پینل کی میٹنگ میں کہیں۔انھوں نے کہا کہ اردو میں صلاحیت پیدا کرنے کے لیے فارسی کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بغیر فارسی کی افہام وتفہیم کے اردو زبان وادب پر عبور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ گزشتہ کئی سالوں سے زیرِ غور رہا ہے، تاہم اب اسے حتمی طورپر آئندہ چھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ فارسی زبان وادب کی تاریخ کو چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے اورہر باب کے کئی ذیلی ابواب ہوں گے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے ماہرینِ فارسی کی مدد لی جارہی ہے۔
اس موقع پر سید پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ فارسی زبان ادب کی تاریخ کے منظر عام پر آنے کے بعد واقعی قومی اردو کونسل کی تاریخ میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ ہوگااورنئی نسل ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے پڑے فارسی زبان وادب سے متعلق علوم وفنون سے آشنا ہوگی۔پروفیسر ایچ ایس قاسمی نے کہاکہ ہم قومی اردو کونسل، بالخصوص جواں سال ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کے ممنون ہیں جو ہندوستان کی گزشتہ سات سوسالہ تاریخ کو قلم بند کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو یقینا ایک غیر معمولی کام ہے۔ پینل کی صدارت پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس پر کونسل نے کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔عہد وسطیٰ کے ہندوستان کے مختلف خطوں میں فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا اور شعرا وادبا نے اپنی جو تخلیقات پیش کی ہیں، وہ اس عہد کی ترجمانی کرتی ہیں جسے ایک مربوط اور مبسوط شکل میں لانے کی بات ہورہی ہے۔پینل میں پروفیسر عراق رضا زیدی،پروفیسر عبدالحلیم کے علاوہ کونسل کے اکیڈمک اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، ڈاکٹر فیروز عالم اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر،جناب ساجد الحق کے ساتھ ڈاکٹر شاہد اختر نے شرکت کی۔