(اِس وقت دل ودماغ کی کیفیت دگر گوں ہے۔شمال مشرقی دہلی کے فسادکی اتنی تفصیلات سامنے ہیں کہ اس تحریرکے بہت طویل ہوجانے کا اندیشہ ہے۔دنیا بھر میں مقیم میرے احباب اور قارئین درست اور سلسلہ وارصورتحال جاننا چاہتے ہیں۔۔اردو میڈیا کے وسائل بہت محدود ہیں۔۔انگریزی میڈیا کے وسائل جہاں بہت ہیں وہیں اس کے صحافی نسبتاً بے خوف بھی ہیں۔اس لئے انگریزی میڈیا میں اور خاص طورپر Print Media میں آنے والی رپورٹوں‘ خبروں‘ مضامین‘انٹرویوز اور ممتاز شخصیات کی آراء سے واقفیت بہت ضروری ہے۔۔۔ میں اللہ کا نام لے کر یہ سلسلہ شروع کر رہا ہوں۔۔۔نہیں معلوم کہ یہ سلسلہ منظم طورپر جاری رہ سکے گا یا نہیں لیکن نیت یہی ہے کہ اپنے احباب کو تمام تفصیلی نکات سے باخبر کیا جائے۔ اس سلسلہ کا پہلا حصہ آج اس التماس کے ساتھ پوسٹ کر رہا ہوں کہ احباب زیادہ سے زیادہ دوستوں تک اسے پہنچائیں۔)
پہلی قسط
".23 فروری 2020 کی شب شروع ہونے والے شمال مشرقی دہلی کے فسادات میں اب تک 49 افراد کی موت کی تصدیق ہوچکی ہے۔۔۔ہر روز ایک دو لاشیں نالوں سے برآمد ہورہی ہیں۔۔۔ 400 سے زیادہ زخمی ہیں۔۔۔ان زخمیوں میں بتایا جاتا ہے کہ آدھے سے زیادہ لوگوں کو گولی لگنے سے زخم آئے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر کی حالت نازک ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 200 سے زیادہ لوگوں کو گولی لگی ہے۔تین سو سے زیادہ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور ایک ہزارسے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔اسی طرح سینکڑوں مکانات کو جلاکر خاکستر کردیا گیا ہے۔بڑی تعداد میں دوکانوں کو بھی لوٹا اور جلایاگیا ہے۔صرف گوکل پوری میں ہی پرانے ٹائروں کی 224 دوکانوں کو جلاکر تباہ کردیا گیا ہے۔۔۔شو وہار سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے۔اس علاقہ میں کمزور اور متوسط طبقے کے ان لوگوں کی آبادی ہے جو مغربی یوپی‘خاص طورپر بجنور وغیرہ سے آکر آباد ہوئے تھے۔اس علاقہ میں این ڈی ٹی وی کے رویش کمار کے مطابق 1500سے دوہزارتک چھوٹی بڑی بیکریاں تھیں جنہیں پوری طرح برباد کردیاگیا ہے۔۔۔یہاں کے لوگ اس صورت حال کا موازنہ ملک شام میں ہونے والی بربادی سے کر رہے ہیں۔رویش کمار کہتے ہیں کہ یہ سب متاثرین مسلمان ہیں۔
اس صورتحال سے فوری طورپر تین سوالات پیدا ہوتے ہیں:
-1 یہ 200 یااس سے زیادہ گولیاں کس نے چلائیں؟
-2 کیا ان گولیوں کے چلنے کی آواز ان علاقوں کے پولیس تھانوں اور پولیس چوکیوں تک نہیں پہنچی؟
-3 اور ان گولیوں کے چلنے کے دوران پولیس کہاں تھی؟
مذکورہ سوالات کو ذہن میں رکھ کر یہ اطلاع پڑھئے گا کہ بہت سے علاقوں میں پڑوس میں رہنے والے ہندوؤں نے‘ مسلمانوں کی اور مسلمانوں نے ہندؤں کی حملہ آوروں سے جان بھی بچائی۔ایک درجن سے زائد بیانات یہ ہیں کہ حملہ آور علاقہ کے نہیں تھے بلکہ باہر سے آئے تھے۔ان کے ہاتھوں میں سبھی کچھ تھا۔لاٹھی“ڈنڈے‘ترشول‘تلواریں‘بندوق اور پٹرول سے بھری ہوئی بوتلیں۔۔۔یہی نہیں انہیں جرم انجام دے کر باہر نکلنے کے محفوظ راستوں کا بھی پیشگی علم تھا۔ظاہر ہے کہ یہ کام اچانک نہیں کیا جاسکتا۔اس کے لئے ایک طرف جہاں پہلے سے راستوں کا گہرا جائزہ لیا گیا ہوگا وہیں دوسری طرف کچھ مقامی شرپسندوں کی بھی مدد لی گئی ہوگی۔۔۔ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک خاص پہچان کے لوگوں کے مکانات اور دوکانوں کو برباد کرتے وقت دوسروں کے مکانوں اور دوکانوں کو بخش دیا گیا۔رویش کمار نے بتایا ہے کہ ایک مسلمان حجام کی دوکان اس لئے نہیں جلائی گئی کہ اس کے اوپر ایک ہندو وکیل کا دفتر تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگریہ حملہ آورمتاثرہ علاقوں کے نہیں تھے تو اتنی تیاری کے ساتھ یہ بھیڑ کہاں سے آئی تھی؟ کیا اس مسلح ہجوم کو آتے ہوئے اور پھر جاتے ہوئے کسی ایک پولیس والے نے بھی نہیں دیکھا؟ پھر دہلی میں جگہ جگہ دہلی حکومت نے جو CCTV کیمرے لگائے تھے ان میں سے کسی کیمرے میں اس بھیڑ کو آتے ہوئے نہیں دیکھا گیا؟
ایک بڑاسوال یہ ہے کہ ان سوالات کا جواب کون دے گا؟اس لئے کہ خود مرکزی حکومت فسادکی نوعیت کے تعلق سے ایک رائے نہیں ہے۔وزیر مملکت برائے داخلہ کرشنا ریڈی نے 25 فروری کوکہا تھا کہ یہ فسادات منظم منصوبہ کے تحت رونما ہوئے ہیں۔لیکن اگلے ہی روز مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ فسادات اچانک پھوٹ پڑے۔۔۔اول الذکر کی بات درست ہوسکتی ہے۔اس لئے کہ بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے تو 23 فروری کو دن میں ہی کھلی دھمکی دے کر اس بات کا عندیہ دے دیا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھ آنے والا ہجوم کس قسم کی تیاری کر رہا ہے۔کیا آپ نے وہ ویڈیو دیکھی جسے خود کپل مشرا نے اپلوڈ کیا تھا۔اس ویڈیو میں کپل مشرا کے پیچھے شاہدرہ کے ڈی سی پی کھڑے ہیں اور کپل مشرا کہہ رہا ہے کہ ابھی تو ہم جارہے ہیں۔ٹرمپ (امریکی صدر) کے جانے کے بعد پھر آئیں گے۔ سی اے اے کے خلاف جمنار پارمیں جو مظاہرے ہورہے ہیں انہیں پولس ہٹوادے نہیں تو تین دن کے بعد پھر ہم آپ کی بھی نہیں سنیں گے ڈی سی پی صاحب!
کیا کپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے اس کا اتنا کہنا کافی نہیں تھا؟ کیا اس سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ کپل مشرا اور اس کے حامیوں نے پہلے سے ہی تیاری کر رکھی تھی۔مان لیجئے کہ یہ فساد نہ پھوٹ پڑتا اور پولس مظاہرین کو بھی نہ ہٹواسکتی تو تین دن کے بعد کپل مشرا کیا کرتا؟کیا وہی کرتا جو اب ہوا؟ یا اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور پرامن طریقہ تھا؟ دہلی کے سابق پولس کمشنر اجے راج شرما نے "دی وائر” کے لئے معروف صحافی کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں ہوتا تو بی جے پی لیڈروں کو فوراً گرفتار کرلیتا۔انہوں نے کہا کہ ڈی سی پی کو چاہئے تھا کہ وہ اسی وقت کپل مشرا کو گرفتار کرلیتے۔ اور جب ڈی سی پی نے کوتاہی برتی تو پولیس کمشنر کو چاہئے تھا کہ اسے عہدہ سے ہٹادیتے۔سابق چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس کے جی بالا کرشنن نے بھی کہا ہے کہ منافرت انگیز تقریریں کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرکے پولس نے خلاف قانون کام کیا۔جبکہ معروف کالم نگار بھانو پرتاپ مہتا نے تو خود ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ پر ہی سخت تنقید کی ہے۔
اب آئیے دوسری طرف چلتے ہیں۔۔۔23 فروری کو دن میں کپل مشرا نے کھلے عام وہ دھمکی دی تھی جس کا اوپر ذکر ہوا۔23 فروری کی شب 12بجے دہلی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبرحِمال اختر صدیقی ایڈوکیٹ نے مجھے فون کرکے بتایا کہ جعفر آباد میں سی اے اے کے حامی اور مخالف لوگ آمنے سامنے ہیں۔ایک طبقہ نے دوسرے طبقہ پر حملہ کردیا ہے۔لوگ گھروں میں بند ہیں۔کپل مشرا بھی اپنے لوگوں کو لے کر آیا تھا۔پتھراؤ بھی ہوا ہے۔اس سے قراول نگراور بھجن پورہ کے علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں۔
اب پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پولس کپل مشرا کی کھلی دھمکی کے بعد یہ سوچ کر آرام سے بیٹھ گئی تھی کہ ابھی تو تین دن کی مہلت ہے‘بعد میں دیکھیں گے؟ آخر اسی وقت کیوں احتیاطی اقدامات نہیں کئے گئے جب مشتعل بھیڑ کی قیادت کرتے ہوئے کپل مشرا ڈی سی پی کی موجودگی میں دھمکی دے رہا تھا؟ ان تمام سوالات اور حالات سے ایک اندازہ تو ضرور ہوتا ہے کہ یہ سب منظم منصوبہ کے تحت ہواجس کی طرف امت شاہ کے جونیر وزیر نے اشارہ بھی کیا۔اس قتل عام اور نسل کشی کی تیاری بہت پہلے سے ہورہی تھی۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیاری پڑوسی ریاست یوپی میں ہورہی تھی۔۔۔ یوپی کا وزیر اعلیٰ مظاہرین سے جس انداز سے نپٹا ہے اس کی روشنی میں یہ کچھ بعید بھی نہیں ـ
اب ذرا کچھ پیچھے چلتے ہیں۔ایسٹ دہلی کے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ گوتم گمبھیر نے کھلے طورپرکپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔انہوں نے پارٹی سے بھی کہا تھا کہ وہ ایسے بدزبان اور مشتعل کرنے والے لیڈروں کے خلاف کارروائی کرے۔اس کے ساتھ دہلی بی جے پی کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ منوج تیواری نے بھی اسی طرح کا بیان دیا۔
اس صورتحال سے مندرجہ ذیل سوالات پھر جنم لیتے ہیں:
-1 کپل مشرا کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟
-2 اس کی تحقیقات کیوں نہیں کی گئی کہ اس نے تین دن کی مہلت کے بعد کی دھمکی کس بنیاد پر دی تھی اوریہ کہ اس کا منصوبہ کیا تھا؟
-3 جس ڈی سی پی نے سامنے ہوتے ہوئے بھی کوئی کارروائی مشرا کے خلاف نہیں کی خود اس کے خلاف دہلی کے پولس کمشنر نے کارروائی کیوں نہیں کی؟
-4 فرض سے کوتاہی کرنے والے پولس کمشنر کے خلاف وزارت داخلہ نے کیا کارروائی کی؟
-5 اور پتھراؤ کرنے والی بھیڑ کو نہ روکنے والے بلکہ خود بھیڑ کو پتھراؤ کرنے پرحوصلہ افزائی کرنے والے پولیس عملہ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
کیا ان تمام سوالات کے جواب خود وزیر داخلہ امت شاہ کو نہیں دینے چاہئیں؟ لیکن وہ اس سلسلہ میں بالکل لاتعلق بنے ہوئے ہیں۔محض دوتین میٹنگیں کیں اور بس۔حیرت انگیز طورپر ان میں سے ایک میٹنگ میں دہلی کے وزیر اعلی اروند کجریوال کو بھی مدعو کیا گیا۔حالانکہ دہلی کے وزیر اعلی کے پاس نہ پولیس محکمہ ہے اور نہ لااینڈ آرڈر کا نظام۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کجریوال اپنی ذمہ داری سے بچ جائیں گے۔ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ فوری طورپران بے یارومددگار لوگوں کے درمیان جاکر ان کے احوال پوچھتے جنہوں نے چند ہفتوں پہلے ہی انہیں تیسری بار دہلی کی باگ ڈور سونپی ہے۔گوکہ وہ دیر سے ہی سہی لیکن کچھ علاقوں میں گئے اور ان کے نائب منیش سسودیا نے بھی کچھ علاقوں کا دورہ کیا۔لیکن یہ کام نہ علاقوں کے اعلی پولس افسران نے کیا اور نہ پولس کمشنر نے۔بلکہ یہ کام نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزراجیت دووال نے کیا۔اجیت دووال براہ راست وزیر اعظم کے تحت کام کرتے ہیں اور انہیں کابینی وزیر کا درجہ بھی حاصل ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں وزیر اعظم نے ہی بھیجا ہوگا۔اس کے بغیر وہ آبھی نہیں سکتے۔۔۔کیوں کہ یہ کام ان کا ہے بھی نہیں۔۔۔تو کیا ان دنوں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے درمیان تال میل ٹھیک نہیں ہے؟
کیا یہ اطلاعات وزیر داخلہ تک نہیں پہنچیں کہ ایسٹ دہلی کے مختلف مقامی ہسپتالوں میں جو شدید زخمی داخل ہیں انہیں ضروری علاج کی خاطر بڑے ہسپتالوں تک جانے نہیں دیا جارہا ہے؟ ان زخمیوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کو گولیاں لگی تھیں۔کیا پولس والوں نے یہ بات اپنے کمشنر کو نہیں بتائی؟آخر کارسماجی خدمت گار ہرش مندر اور فرح نقوی نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور شب کے ساڑھے بارہ بجے ایک دوسرے جج کے ساتھ جسٹس ایس مرلی دھر نے اپنی رہائش گاہ پر سماعت کرکے پولس کو حکم جاری کیا کہ زخمیوں کو مقامی شفاخانوں سے بڑے ہسپتالوں تک لے جانے کا انتظام کیا جائے اور کل دن میں اس کی رپورٹ پیش کی جائے۔اس حکم کے بعد ہی شدید قسم کے زخمیوں کو الہند جیسے چھوٹے ہسپتالوں سے جی ٹی بی جیسے بڑے ہسپتالوں کو منتقل کیا جاسکا۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام عدالت کا تھا؟کیا زخمیوں کے مناسب اور موثر علاج کو یقینی بنانا حکومت کا کام نہیں تھا؟دہلی اور مرکزی حکومتیں آخر کیسے اس ذمہ داری سے جان بچاسکتی ہیں؟ اگر پولس اور حکومت ان زخمیوں کی مدد نہیں کر رہی تھی تو کیا وہ انہیں مارنا چاہتی تھی؟ ایسے میں حکومت اور فسادیوں میں کیا فرق رہ گیا؟ یکم مارچ کو کئی ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ پولس شدید زخمیوں کو خود ہی دیکھ رہی تھی اور انہیں بڑے ہسپتالوں کو منتقل کرنے میں جان بوجھ کر روڑے اٹکا رہی تھی۔ اروند کجریوال نے اب مابعد فساد کئی موثر فلاحی اقدامات اور اعلانات کئے ہیں ۔۔۔ لیکن جب فساد جاری تھا اس وقت وہ کیوں نکل کر نہیں آئے۔۔۔۔؟ کیوں انہوں نے اپنے نہتے عوام کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا؟
پولس نے آفت زدگان کی کس طرح مددکی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین دنوں تک پولس کو دس ہزار فون کال موصول ہوئیں لیکن زیادہ تر کال کا یا تو جواب نہیں دیا گیا یا پھر وعدہ کرکے پولس مدد کو نہیں پہنچی۔اس ضمن میں عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کا واقعہ مثالی ہے۔انہوں نے این ڈی وی کو بتایا کہ انہوں نے 24فروری کی شب پولس کو بہت مرتبہ کال کی۔انہوں نے کال کی ریکارڈنگ بھی این ڈی ٹی وی کو سنوائی ہیں۔انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ جب ان کے مکان پر شرپسندوں نے قبضہ کرلیا تو پولس نے ہی انہیں اور ان کی بیوی کو بچاکر کسی دوسری جگہ منتقل کیا۔لیکن اب طاہر حسین پر ہی فساد میں ملوث ہونے کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ان پر آئی بی افسر انکت شرما کے گھروالوں نے انکت شرما کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔اسی طرح کانگریس کی کونسلر عشرت جہاں ایڈوکیٹ کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان کی درخواست ضمانت بھی عدالت نے مسترد کردی۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ منعقد کرایا تھا۔
اس سلسلہ میں یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ ایک طرف جہاں بی جے پی کے ساتھ ساتھ حکومت اور پولس سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کوکسی بڑے جرم کا مرتکب سمجھ کر کارروائی کر رہی ہے وہیں ملک کی مختلف عدالتوں میں بھی اب یہی رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔مظاہروں کے سلسلہ میں ماخوذ لوگوں کو ضمانت نہیں دی جا رہی ہے۔۔۔لیکن بعض عدالتوں نے پولس کی سخت گوشمالی کرتے ہوئے ماخوذ لوگوں کو ضمانتوں پر رہا بھی کیا ہے۔ان میں سب سے شاندار تبصرہ دہلی کی تیس ہزاری کورٹ کی جج کامنی لاؤ نے دلت لیڈر چندر شیکھر کی گرفتاری کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران کیا تھا۔۔۔دو دن کی سماعت کے بعد انہوں نے چندر شیکھر کو ضمانت بھی دیدی تھی۔چندر شیکھر پر الزام تھا کہ انہوں نے دہلی کی جامع مسجد شاہ جہانی کے باہر مظاہرہ منعقد کیا تھا۔عدالت نے پولس کے اس الزام پر سخت تنقید کی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا شہریوں کو احتجاج کا حق نہیں ہے؟ اس کے علاوہ کرناٹک ہائی کورٹ کا تبصرہ بھی بہت عمدہ ہے۔کرناٹک ہائی کورٹ نے مظاہرہ کرنے کی پاداش میں گرفتار 21 لوگوں کو ضمانت دیدی تھی اورایک طویل تبصرہ میں پولس کو بہت سخت سست کہا تھا۔
اتر پردیش کے بعض اضلاع میں بھی عدالتوں سے ایسی ہی خبریں موصول ہوئیں۔۔۔دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر نے بھی پولس کی سخت گوشمالی کی تھی۔خود سپریم کورٹ میں بھی بنچ نے مظاہرین کے حق احتجاج کو تسلیم کیا ہے۔لیکن اس کے باوجود مظاہرین پر پولس اور حکومت کا ظلم جاری ہے۔افسوس ناک پہلو یہی ہے کہ حکومت نے جہاں پُر اسرار طورپر جسٹس ایس مرلی دھر کا آدھی رات کو تبادلہ کردیا وہیں اگلے روز کی سماعت میں دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بنچ نے پولس کو ایک مہینے کی مہلت دے کر جسٹس مرلی دھر کے ذریعہ کی گئی گرفت کو ہلکا کردیا۔۔۔یہی نہیں سپریم کورٹ میں بھی سماعت کے لئے لمبی لمبی تاریخیں دی جارہی ہیں اور حوصلہ شکن تبصرے کئے جارہے ہیں اور سب کا محور شاہین باغ ہے۔ (جاری)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)