نئی دہلی:دہلی ہائی کورٹ نے پنجرا توڑ گروپ کی ایک خاتون رکن کی درخواست کے جواب میں دائر پولیس حلف نامے میں لگائے گئے الزامات کو جمعرات کو غیر منصفانہ قرار دیا۔پنجراتوڑممبرکومتنازع شہریت ترمیم قانون (سی اے اے )کے خلاف مظاہروں کے دوران یہاں فرقہ وارانہ تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ ایجنسی نے ان کے خلاف کچھ مبینہ ثبوت کومیڈیا کے ذریعہ عام کیا۔ جسٹس وبھو باکھرو نے کہاکہ پٹیشن کے محدود دائرے کو دیکھتے ہوئے حلف نامے میں لگائے گئے الزامات غلط ہیں۔ عدالت نے کہا کہ پولیس یہ نہیں کہہ سکتی کہ درخواست گزار میڈیا میں ٹرائل چاہتی ہے، اس لئے وہ میڈیا کو معلومات دے رہی ہے۔ عدالت نے کہاکہ آپ کسی بھی میڈیا ٹرائل کی حمایت نہیں کرسکتے۔ یہ پولیس کا موقف نہیں ہوسکتا،کچھ پابندی ہونی چاہئے اور انہیں (پولیس) کو ماننا ہوگا۔ آپ کا حلف نامہ بہت آگے ہے۔ عدالت نے کہا کہ حلف نامے میں متعدد الزامات لگائے گئے ہیں جو درخواست کے دائرے سے باہر ہیں، عدالت نے اسے واپس لینے کا مشورہ دیا۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں وہ صرف اس بات کی تحقیقات کرنے والی ہے کہ کس حالت میں اور کس انداز میں پولیس کسی معاملے کے بارے میں سرکاری ریلیز یا پریس نوٹ جاری کرسکتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ وہ پولیس کو کسی بھی معاملے میں سرکاری پریس ریلیز جاری کرنے سے منع نہیں کررہی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر حلف نامہ ریکارڈ پر موجود ہے اور کوئی بھی اہلکار ان الزامات کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا ہے تو وہ اس کے مندرجات پر تبصرہ کرے گی۔ عدالت نے کہاکہ ہمیں نہیں معلوم کہ (حلف نامے میں) حقائق کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں، کچھ الزامات غیر ذمہ دارانہ طور پر لگائے گئے ہیں۔
caa nrp
نئی دہلی:( محمد علم اللہ) جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے ہفتہ کے روز کورونا وائرس پھیلنے کے اندیشے کو دیکھتے ہوئے شہریتی ترمیمی ایکٹ کے خلاف سودن سے جاری اپنے احتجاج کو عارضی طو رپر بند کرنے کا اعلان کیا ہے ۔جامعہ ملیہ کے موجودہ اور سابق طلبہ پر مشمل کمیٹی ’جامعہ کورآرڈی نیشن کمیٹی ‘نے یہ اعلان کیا ہے۔ یہ گروپ ۱۵؍دسمبر ۲۰۱۹ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولس حملے کے بعد تشکیل دیاگیا تھا۔ کمیٹی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ہم گیٹ نمبر ۷ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ۲۴ گھنٹے جاری احتجاج کو عارضی طو رپر بند کرتے ہیں اور مظاہرین سے اپیل کرتے ہیں کہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے خود کے تحفظ اور بیماریوں سے بچنے کےلیے ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ کمیٹی نے اپنے اعلامیہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہمارا یہ احتجاج ملک کے آئین کی حفاظت اور حق وانصاف کےلیے جاری رہے گا۔ جامعہ کورآرڈی نیشن نے مزید لکھا ہے کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ہماری یہ جدوجہد جاری رہے گی، ہم اس سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے یہ ہمارے ادارےکی تاریخ رہی ہے کہ جب بھی ملک اور قوم کو ہماری ضرورت پیش آئی جامعہ ملیہ اسلامیہ ہمیشہ ملک و قوم کے ساتھ ہمیشہ کھڑی رہی ہے۔ ۱۹۴۷ میں فسادات کے دوران جامعہ کیمپس کو نذرآتش کردیاگیا تھا، اس وقت بھی ہماری یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ نے پورے ہندوستان کے مہاجر کیمپوں میں مسلسل کام کیا تھا۔ یونیورسٹی تو بعد میں بھی بنائی جاسکتی ہے لیکن انسانیت پہلے ہے۔
غوث سیوانی، نئی دہلی
email:[email protected]
دلی پولس نے شاہین باغ کی احتجاجی خواتین سے کہا کہ کورونا وائرس کا خطرہ بڑھ گیا ہے لہٰذا وہ احتجاج ختم کردیں۔ اس کے جواب میں عورتوں نے کہا کہ ’کورونا سے بڑا خطرہ سی اے اے ہے لہٰذا پہلے حکومت، شہریت قانون کو ختم کرے۔‘ اس میں شک نہیں کہ کورونا وائرس کے سبب ملک بھر میں چوکسی برتی جارہی ہے اور پچاس سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی ہے، عوام میں خوف ودہشت بھی ہے مگر شاہین باغ میں احتجاج کر رہی خواتین پر اس کا کوئی اثر نہیں نظر آتا۔ کچھ بھکت نیوز چینلوں نے ایسی خبریں بھی چلائیں کہ خواتین، احتجاج میں نہیں آرہی ہیں مگر میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ اس قسم کی خبریں سراسر جھوٹی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ احتجاج میں مزید شدت آگئی ہے اور بھیڑ میں اضافہ ہوگیا ہے۔میں نے باربارمحسوس کیا ہے کہ جب جب نیوز چینلوں پر منفی خبریں آتی ہیں اور بحثوں میں احتجاجیوں کو گالیاں دی جاتی ہیں تب تب شاہین باغ کے دھرنا میں بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔ شاہین باغ کے احتجاج کاآغاز میرے سامنے ہوا اور آج جب اس مسلسل مظاہرے کو ساڑھے تین مہینے ہونے کو آئے ہیں تب پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تقریباً ہر روز احتجاج گاہ پر جاتا رہا ہوں اور اس کے ہر روپ کو دیکھتا رہا ہوں۔
آخرکب تک؟
دھرنا دینے والی تمام خواتین اور شاہین باغ میں رہنے والے ہر فرد کی زبان پر یہ سوال ہے کہ آخرکب تک یہ احتجاج چلے گا؟ مگر اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہم عدالت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب تک عدالت کا فیصلہ نہیں آتا، ہولی ہو یا عید، ہم سب پنڈال میں منائیں گے۔ مظاہرین میں سے ایک مسکان کا کہنا ہے کہ3 مارچ کی رات کو اچانک سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن ہم سے بات کرنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ آپس میں بات کرنے کے بعد انہیں کوئی حل نکالنا چاہئے، انہوں نے سڑک کو خالی کرنے کی درخواست بھی کی، لیکن اس سلسلے میں ابھی تک ہماری آپس میں کوئی میٹنگ نہیں ہو ئی ہے۔ جب تک CAA اور NRC واپس نہیں لیا جاتا ہے ہم اپنی تحریک واپس نہیں لیں گے۔ مذاکرات کاراحتجاجیوں سے مسلسل سڑک خالی کرنے کی اپیل کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے آپ کو ایک اور موقع دیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں لگتا ہے کہ یہ اپیل اب تک کارگر ثابت ہوئی ہے۔ لوگ سڑک سے ہٹنے یا کسی اور جگہ منتقل ہوکر احتجاج کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ گرمی میں بھی اضافہ ہواہے لیکن احتجاجیوں کے عزائم میں کوئی کمی نہیں دیکھی جارہی ہے۔ اسٹیج سے انقلابی نعرے لگاتار جاری ہیں۔ایسے میں کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ احتجاج ختم کردینا چاہئے تو بعض کا خیال ہے کہ ان کی مانگ اب تک پوری نہیں ہوئی ہے لہٰذا مظاہرہ ختم کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
سڑک کب کھلے گی؟
سروری دادی کہتی ہیں کہ ہم نے اپنا پورا معاملہ مذاکرات کاروں کے سامنے رکھ دیا ہے، جب تک عدالت ہماری شرائط پر راضی نہیں ہوتی، ہم اسی طرح بیٹھے رہیں گے۔ دہلی میں ہونے والے تشدد پر، انہوں نے کہا کہ’فسادیوں کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ ہم تشدد کی مخالفت کرتے ہیں اور یہاں ہم پرُ امن احتجاج جاری رکھیں گے۔‘ واضح ہوکہ سڑک کھلنے کے بارے میں لوگوں میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ ایک طبقہ وہاں سے منتقل ہونا چاہتا ہے، جبکہ دوسراطبقہ کہتا ہے کہ اگر ہم یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں تو ہماری سیکورٹی کو کون یقینی بنائے گا؟اس سے پہلے احتجاجیوں نے مذاکرات کاروں کے سامنے ایک طرف کا راستہ کھولنے کے لئے شرط رکھی تھی کہ سپریم کورٹ پولس کو حکم دے کہ دھرنا کے مقام پر موجود لوگوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری پولس لیگی۔ واضح ہوکہ آس پاس کے کئی راستے پولس نے بند کردیئے تھے جنھیں حال ہی میں کھول دیا گیاہے۔ اس طرح دھرنا کے باوجود دلی اور نوئیڈا کو جوڑنے والا پل کھل گیا ہے۔ اب دھرنا کے سبب صرف ایک سڑک ہی نصف کلومیٹر تک بند ہے۔ اسے بھی ایک سائڈ کھولنے کے لئے احتجاجی تیار ہیں مگر جس طرح سے ماضی میں ان پر حملے ہوچکے ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے وہ تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
جوش اب بھی کم نہیں ہوا
مجھے یہ جاننے میں دلچسپی تھی کہ آیا مظاہرین میں وہی جوش و جذبہ باقی رہا یا پھر وہ بھی وقت کے ساتھ مدھم ہوگیا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر قدرے حیرت ہوئی کہ بدلتے ماحول میں بھی شاہین باغ کا جوش کم نہیں ہواہے۔احتجاج کی جگہ پرآج بھی لنگر جاری ہے اور کچھ خواتین لوگوں کے کھانے کے انتظام میں مصروف ہیں۔ ان میں کچھ برقعے والی خواتین بھی ہیں۔البتہ یہاں بعض مظاہرین کو ا س بات کی فکر ضرور ہے کہ گرمیاں شروع ہوچکی ہیں اور جس شامیانے میں دھرنا چل رہا ہے، اب وہ مقام تپنے لگا ہے، ایسے میں شدید گرمیوں کے بیچ اس سلسلے کو جاری رکھنا کیسے ممکن ہوگا؟ ایک احتجاجی خاتون فرحانہ نے کہا کہ گرمیوں کے لئے شامیانے کو ازسرنو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح سردیوں میں ہیٹرلگائے گئے تھے، اسی طرح گرمیوں میں کولر، پنکھے اور اے سی کا انتظام ہونا چاہئے۔
شوروم کب تک بند رہیں گے؟
شاہین باغ میں احتجاج کے سبب نصف کلومیٹر تک روڈ کے کنارے واقع تمام بڑے بڑے شوروم بند ہیں جس سے مالکان کا روزانہ کروڑوں روپئے کا نقصان ہورہا ہے۔ ایسے میں شوروم مالکان بھی چاہتے ہیں کہ سڑک کم ازکم ایک طرف کھول دی جائے تاکہ وہ کاروبار شروع کرسکیں۔ ایک شوروم مالک غوث محمد کہتے ہیں کہ اب تک ہمارا بہت نقصان ہوچکا ہے مگر ہم سی اے اے کے خلاف احتجاج کی مخالفت بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اگر یہ سیاہ قانون نافذ ہوگیا تو اس سے بھی بڑا نقصان ہوگا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر صرف ایک طرف کی سڑک کھول دی جائے تو بہتر ہے۔ احتجاج بھی جاری رہے اور سڑک بھی چلتی رہے۔
میڈیا سے ناراضگی
شاہین باغ میں میڈیا کے تعلق سے ابتدا سے ایک عجیب طرح کی ناراضگی رہی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ میڈیا ہمیں مسلسل غلط پروپیگنڈے کا نشانہ بناتا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرنے کے معاملے میں بیشترلوگ حساس ہیں اور اگر کوئی میڈیا والا لوگوں سے بات کرنا چاہے تو بیشتر لوگ منع کردیتے ہیں اور جو بات کرتے ہیں، وہ بھی دس قسم کے سوال پوچھتے ہیں۔ یہاں سے اگرکوئی نیوزچینل لائیوکرتا ہے تو کئی لوگ آکر بیچ میں ہی روک بھی دیتے ہیں۔ انھیں اندیشہ لگا رہتاہے کہ حکومت حامی میڈیا،انھیں بدنام کرنے کی کوشش نہ کرے۔ کئی نیوز چینلوں کے لوگو دیکھتے ہی مقامی لڑکے’گودی میڈیا گو بیک‘ کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں اور تب تک خاموش نہیں بیٹھتے جب تک اسے بھگا نہ دیں۔ نیوز نیشن اوور زی نیوز کے اینکرس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ میڈیا کی سرخیوں میں رہا ہے۔حالانکہ اس کے برخلاف یہ نظارہ بھی یہاں دیکھا گیا کہ این ڈی ٹی وی کے رویش کمار جب رپورٹنگ کے لئے آئے تو لوگوں نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا،ان کے ساتھ تعاون کیا اور سیلفی لینے والوں کی ایسی بھیڑ جمع ہوگئی کہ صحافی کو اپنی گاڑی چھوڑ کر آٹو سے جانے پر مجبور ہونا پڑا۔ عوام کے جوش وخروش کے سبب وہ اپنی گاڑی تک نہ پہنچ سکے تھے۔
پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
ابتدا سے ایک سوال میڈیا اٹھاتا رہا ہے کہ مظاہرے کے اخراجات کے لئے پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ کو ن دیتا ہے؟ بریانی اور کھانے پینے کی اشیاء کون دیتاہے؟در حقیقت، مختلف محلوں کے لوگ کچھ آپس میں پیسہ جمع کرکے سامان خریدتے ہیں اور انہیں یہاں دے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں لنگر چل رہا ہے۔یہاں سکھوں کی طرف سے بھی لنگر چلتا رہا ہے۔
صفائی کا مسئلہ
ہر روز ہزاروں افراد احتجاج کی جگہ پر نقل و حرکت کرتے ہیں،جس کی وجہ سے، یہاں کوڑے کا مسئلہ ہے، کچھ لوگ رضاکانہ طور پر یہاں صفائی کرتے نظر آتے ہیں۔علی رضا، شاہین باغ میں رہتے ہیں اور بلبھ گڑھ میں کام کرتے ہیں۔ وہ آفس کے بعد اپنا بیشتر وقت یہاں دیتے ہیں اور اکثر صفائی کراتے دکھ جاتے ہیں۔ وہ ان سامان بیچنے والوں کو بھی یہاں آنے سے روکتے ہیں جو یہاں کچرے پھیلاتے ہیں۔یہاں جن لوگوں کوصفائی کرتے دیکھا جاتا ہے ان میں سماجی کارکن، طالب علم، مقامی لوگ اور مولانابھی شامل ہیں۔
تصویری نمائش
یہاں تصویروں کی ایک نمائش بھی لگائی گئی ہے۔ جس میں وہ تصاویر شامل ہیں جو CAA مخالف مظاہروں کے بیچ لی گئی ہیں۔ ان تصویروں میں پولس اور حکومت کے مظالم کو پیش کیا گیاہے۔ یہاں بس اسٹاپ پرایک چھوٹی سی لائبریری بھی دیکھی جاسکتی ہے حالانکہ سڑک کی دوسری جانب کے بس اسٹاپ کو گھیرکر اسکول بنایا گیا ہے۔ اس میں چھوٹے بچوں کے لئے تعلیم کا انتظام ہے۔لیگل کیمپ اور مفت ہیلتھ کیمپ بھی موجود ہیں۔
کیسے چل رہی ہے تحریک؟
یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں ہے کہ شاہین باغ تحریک اتنے دنوں تک کیسے چلی؟ اس کی فطری وجہ یہ ہے کہ اقلیتی طبقے میں سی اے اے کے خلاف شدید ناراضگی ہے اور اسی کے ساتھ یہ احتجاج ایک ایسے مقام پر چل رہا ہے جہاں بڑی تعداد میں خواتین کا پہنچنا ممکن ہے۔یہاں مجھے ایک چھوٹی سی بچی فاطمہ،ہاتھ میں ترنگا لئے نظر آئی جو اپنے دادا کے ساتھ آئی تھی۔دادا روزانہ یہاں آتے ہیں۔یہاں آئے دن پنجاب سے سکھوں کے جتھے آتے ہیں اور جب تک رہتے ہیں ماحول میں فرقہ وارانہ یکجہتی کی مٹھاس گھلتی محسوس ہوتی ہے۔ اسٹیج سے اکثر گروبانی کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ حاضرین میں کرسچن برادر الگزینڈر بھی اکثر پرجوش نظر آتے ہیں۔جب ہم نے الگزینڈر سے وہاں آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ جب سے تحریک شروع ہوئی ہے وہ یہاں موجود ہیں اور جب تک حکومت سی اے اے کو واپس نہیں لیتی تب تک وہ یہاں موجود رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوجائے، وہ اس تحریک سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وہ اپنے گلے میں ایک تختی ٹانگے نظر آتے ہیں جب کہ ہاتھ میں بائبل کا ایک نسخہ ہوتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
اروند کجریوال کی شخصیت اور کردار سے عوام کی اور خاص طور پر دہلی کے عوام کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں لیکن دہلی فسادات کے موقع پر کجریوال اوران کے نمائندوں نے جس طرح کا کردار ادا کیا اس سے عوام میں بڑی مایوسی اوربد دلی پیدا ہوگئی۔ الیکشن سے پہلے کجریوال کی تقریروں اور ان کے بیانات کچھ اس طرح تھے کہ ہر اہل علم و دانش یہ سمجھتا رہا کہ ممکن ہے الیکشن کی وجہ سے ان کا رویہ محتاط اور مصلحت آمیز ہو۔ الیکشن کے بعد انتخابی مصلحت مصلحت نہیں رہے گی۔ مصلحتوں سے پرے ہٹ کر حقیقت پسندی سے کام لیں گے۔ لیکن الیکشن کے نتائج کے بعد ہی سے جس طرح بجرنگ بلی کے مندر میں جانا، ہنومان چالیسا پڑھناان کے نرم ہندوتو کی جھلک نظر آئی۔ دہلی فسادات کے موقع پر تین روز تک وہ خاموش رہے۔ ان کی پارٹی کے نمائندے بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ بعد میں مہاتما گاندھی کی سمادھی پر اپنے کچھ لوگوں کے ساتھ ستیہ گرہ کیلئے پہنچے۔ ایسے موقع پر ستیہ گرہ بے معنی سی چیز ہے کیونکہ گاندھی جی فسادات کے دوران جائے وقوع پر چلے جاتے تھے۔ جواہر لعل نہرو بھی 1947ء کے دہلی کے فسادات میں بلوائیوں کو روکنے کیلئے بھیڑ میں چلے گئے تھے۔ جان جوکھم میں نہ ڈال کر ستیہ گرہ کرنا یا دعا کرنا ایک رسم کی ادائیگی ہے یا نمائش اور دکھاوا ہے۔ اس سے فسادیوں پر نہ کوئی اثر ہوتا ہے، نہ فسادزدگان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر کجریوال اپنے لوگوں کو جو ان کے دہلی میں ایم ایل اے اور کونسلر ہیں میدان میں اتار دیتے تو پولس نے جو حرکتیں کی ہیں شاید اس میں بہت کمی آتی اور بلوائیوں کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
دہلی میں 70 ایم ایل اے ہیں، 7 لوک سبھا کے ممبر اور 3راجیہ سبھا کے ممبر ہیں۔ سب کے سب ہندستان کی سلامتی اور استحکام کا حلف اٹھاتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ حلف اٹھانے والے لوگوں میں ایک فرقہ کو دوسرے فرقے، ایک مذہب کے ماننے والوں سے دوسرے مذہب کے ماننے والوں میں نفرت، شک و شبہ اور اشتعال انگیزی کے جذبات بھڑکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا یہ حلف وفاداری سے روگردانی نہیں ہے؟ گزشتہ چند ہفتے میں دہلی نفرت اور فساد کی آگ میں جلتا رہا۔ تناؤ اور کشیدگی قائم رہی۔ تشدد اور انتہا پسندی کا دور دورہ رہا۔ خوف و ہراس کا ماحول چھایا رہا۔ فسادزدگان میں سے بہتوں کو مجبوراً خوف و ہراس کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ دہلی کے شمال مشرقی علاقے سے فساد کی ابتدا ہوئی۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ 70 ایم ایل اے اور کئی کونسلرزمیں سے کسی نے بھی میدان میں اترنے کی ہمت نہیں دکھائی ۔ فسادکے وقت سب کے سب چپی سادھے رہے اور دہلی میں فسادی اور بلوائی دندناتے پھرتے رہے۔ سوشل میڈیا پر پیغامات آتے رہے مگر عوامی نمائندے منظر سے بالکل غائب رہے۔ کسی بھی پارٹی کے نمائندے زمین پر نظر نہیں آئے۔ گھروں میں بیٹھے رہے اور ٹیلی ویژن دیکھتے رہے کہ بلوائی ایک خاص فرقے کو نشانہ بنارہے ہیں۔ جو لوگ دہلی میں رہتے ہیں یا جنھوں نے 1984ء کا فساد دیکھا ہے وہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ 1984ء کے فسادات کو دہرایا جارہا ہے۔ تشدد کے واقعات رونما ہورہے تھے ، لوگ زخموں سے نڈھال تھے۔ آتشزدنی، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ قتل و غارت گری ہورہی تھی۔ چاروں طرف ہاہاکار مچا ہوا تھا۔ ایم ایل اے، ایم پی سب کو استحقاق، اختیارات اور تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ سب کو تنخواہیں ملتی ہیں۔ گھر ملتا ہے۔ مختلف سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ سب سہولتیں اس لئے حاصل ہوتی ہیں کہ یہ پبلک کے نمائندے ہوتے ہیں، پبلک کی خدمت کریں گے۔ لیکن اگر یہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے، عوامی خدمت نہیں کرتے تو یہ عوام کے ساتھ بے وفائی اور غداری نہیں تو کیا ہے؟ اس لئے کہ ووٹرز مصائب و مشکلات کے وقت اپنے نمائندوں کی طرف دیکھتا ہے اور نمائندوں کا وعدہ رہتا ہے کہ ہر تکلیف اور مصیبت میں وہ کام آئے گا۔ یہ لوگ صرف نمائندے ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ انتظامیہ میں ان کے اثر و رسوخ ہوتے ہیں، ان کی اپنی حیثیت ہوتی ہے۔ پولس کو بہت سے معاملات میں روک سکتے ہیں اور بعض کام کرنے سے مجبور کرسکتے ہیں جو عام آدمی نہیں کرسکتا ہے۔ کجریوال یا ان کے نمائندوں کا یہ کہنا کہ پولس مرکز کی نگرانی میں کام کرتی ہے یہ ایک بہانہ ہے اور اس بہانے سے کام سے روگردانی اورمنہ موڑنے کے مترادف ہے۔ پولس نمائندوں کی بات ایک دم نہیں سنے گی، پولس پر کجریوال کا کچھ بھی اثر نہیں پڑے گا یہ کہنا درست نہیں ہے۔ کجریوال اپنے مطلب اور مقصد کیلئے پولس سے لڑ جاتے ہیں، انشن کرتے ہیں، بھوک ہڑتال پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن فساد کو روکنے کیلئے نہ ان میں کوئی جذبہ پیدا ہوا اورنہ ہی ان کے نمائندوں میں کوئی احساس اورجذبہ دکھائی دیا۔
سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ وہ اپنے ایک کونسلر کی بھی وہ مدافعت نہ کرسکے۔میڈیا کے غلط پرچار نے کونسلر طاہر حسین کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ وہ اپنی صفائی دیتے رہے کہ انکیت شرما کا قتل 25فروری کو ہوا اور 24 کو ہی ان کو پولس کی مدد سے گھر چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ لینا پڑا۔ ان کی بلڈنگ کی چھت پر جو بہت سے ناپسندیدہ سامان پائے گئے اس کے بارے میں انھوںنے بتایا کہ پولس نے پورے طور پر چھان بین کی اور پولس کو انھوںنے گھر کی چابھی تک حوالے کردی۔ عام آدمی پارٹی ایک دو دن تک اپنے ترجمان کے ذریعے طاہر حسین کی مدافعت کرتی رہی لیکن تیسرے دن نہ صرف مدافعت کرنا چھوڑ دیا بلکہ ان کو پارٹی کی رکنیت سے معطل کردیا۔ جب اپنی پارٹی کے آدمی کے ساتھ عام آدمی پارٹی کا یہ سلوک ہوگا تو عام آدمی کے ساتھ پارٹی کا کیا سلوک ہوسکتا ہے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ کجریوال نے پولس محکمہ کے دو مقتول کے ورثاء کو ایک ایک کروڑ روپئے دینے کا اعلان کیا لیکن جو لوگ فساد میں مارے گئے اور پولس کی گولیوں سے بھی بے قصور لوگ مارے گئے ان کے ورثاء کیلئے انھوں نے کچھ بھی اعلان نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اکثریت کو خوش کرنے کا جذبہ ان کے دل میں کچھ زیادہ ہے۔ ابھی بھی وہ الیکشن مہم کے دوران نظر آتے ہیں یا وہ دوسری ریاستوں کے انتخابات میں اپنے نرم ہندوتو پالیسی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
معلوم ہواہے کہ دہلی کی ملی تنظیموں کے ذمہ داران وزیر اعلیٰ اروند کجریوال سے مل کر اپنے خیالات واحساسات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں لیکن کجریوال ملاقات کا وقت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اقلیت سے ہمدردی کرنا نہیں چاہتے اورنہ اقلیت کی بات سننا چاہتے ہیں۔ کجریوال بی جے پی کے ممبران اور لیڈران کی نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقریروں پر بھی ابھی تک اپنے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ کپل شرما جو کبھی عام آدمی پارٹی کی حکومت میں وزیر تھے جو دہلی فساد کے ایک طرح سے ماسٹر مائنڈ ہیں ان کے بارے میں بھی کجریوال نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ انوراگ ٹھاکر جو مرکزی حکومت کے وزیر ہیں جنھوں نے ’غداروں کو گولی مارنے‘ کی بات کہی تھی ان کے متعلق بھی کجریوال خاموش ہیں۔ پرویش ورما جنھوںنے انتہائی نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیانات دیئے ان کے بارے میں بھی کجریوال کی حکومت چپی سادھے رہی۔ الیکشن سے پہلے مصلحت ہوسکتی ہے لیکن الیکشن کے بعد کیا مصلحت ہوگی کہ جن لوگوں نے دہلی کے فساد کو ہوا دی ہو ان کو دہلی کی حکومت سزا دلانے یا ان کے خلاف ایف آئی آر کرانے کا مطالبہ تک کرنے سے بھی قاصرہے۔
گزشتہ روز دہلی حکومت نے ایک اچھا کام ضرور کیا ہے کہ ’این پی آر‘ کے خلاف اسمبلی میں قرار داد پاس کی۔ کجریوال نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ اسمبلی میں 61 ممبران ایسے ہیں جن کے پاس پیدائشی سرٹیفیکٹ نہیں ہے تو پھر عام آدمی کے پاس کیسے پیدائشی سند ہوسکتی ہے۔ کجریوال کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ حکومت سازی کے بعد وزیر داخلہ امیت شاہ سے ان کی بڑے اچھے اور خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات س ان کے اندر کسی وجہ سے تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ اس تبدیلی کے دور رس نتائج ہوسکتے ہیں۔ تبدیلی یکایک کیوں آئی یہ کہنا مشکل ہے۔ شاید کوئی ایسی کمزوری کجریوال کی ہو جس سے ان کی دُکھتی رگ دبتی ہو۔ بہر حال جو کچھ بھی ہو بعد میں ظاہر ہوگا۔ پہلے نتیش کمار کے بارے میں بڑی امیدیں اپوزیشن کی طرف سے تھیں لیکن نتیش کمار نے مہا گٹھ بندھن کے ساتھ بے وفائی کرکے بی جے پی کے ساتھ گٹھ بندھن کرکے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح اروند کجریوال سے بھی عوام اور اپوزیشن کی بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن الیکشن کے نتائج اور حکومت سازی کے بعد کجریوال کا رنگ ڈھنگ بالکل بدل گیا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں بھی مایوس ہے اور اپوزیشن پارٹیوں میں بھی وہ امید باقی نہیں رہی جو کجریوال کے بارے میں تھی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ہاں بھئی خواتین کے عالمی دن پر سب کو تجسس ہے کہ انڈین وومین کیا کرتی ہےـ سو لے چلتے ہیں کچھ دیر پچھلے سالوں کی طرف، پہلے ہم انڈین خواتین کی عمومی بات کریں بلاتفریق مذہب و ملت پھر خالص مسلم خاتون اور 2020 کے یوم خواتین پر آجائیں گے۔ اچھا
انڈیا میں خواتین کی کچھ درجہ بندیاں ہیں ـ وہ خواتین کیا عالمی دن جانیں جو اپنے خاندان کی پرورش کے لیے کما کر کھانے پر مجبور ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو اعلی تعلیم حاصل تو کرلیتی ہیں ذہانت اور دلچسپی کی بنیاد پر اور سر اٹھاکر ابھی زندگی کی راہ بھی طے کرنے کی عمر میں بھی نہیں ہوتی ہیں اس سے پہلے ہی کسی اچھے پروفیشن کے مقابلہ جاتی امتحان کامیاب کرکے جاب فیلڈ میں اتر جاتی ہیں اور وہ جاب انکے متعلقین کے لیے ضرورت بن جاتی ہے اس بات سے پرے کہ وہ کتنی دشواریاں فیس کررہی ہیں، چاہ کر بھی اس جاب سے نکل نہیں پاتی ہیں ۔کچھ وہ ہیں جو اعلی تعلیم کے باوجود اپنے شوہر کے مزاج میں ڈھل کر گھر گرہستی سے جڑی رہتی ہیں۔انکی شخصیت ہی انٹرورٹ ہوتو وہ اس حال میں بھی خوش رہتی ہیں اور بعض ایکسٹرورٹ ہوں اور گھر میں رکھا جائے تو شاکی نظر آتی ہیں ۔
بعض ناگہانی حالات کی وجہ سے کسی نہ کسی پیشے کو اختیار کرتی ہیں ۔بعض نے سٹیٹس کو بلند کرنے کے لیے کوئی پروفیشن اختیار کیا ہوتا ہے ۔
غرض یہ کہ خواتین اپنی مرضی سے جو چاہے،انڈیا کہ سندھی خواتین ، مارواڑی،بوہرہ، کھوجہ، میمن خواتین اکثر بزنس کرتی ہیں، مائیکرو فائنانس میں وہی چھائی ہوئی ہیں۔یہ کبھی آپ کو جاب میں نظر نہیں آئیں گی ۔
دلت خواتین ہر قسم کی جاب کے شعبے میں نظر آئیں گی ۔ایلیٹ کلاس کی وہ عورتیں جو فارغ وقت میں NGOs چلارہی ہوتی ہیں جو ایسے دن مناتی ہیں اور اس میں بھی ان کے سیاسی مفادات سے جڑی سرگرمیاں رہتی ہیں ۔
مسلم خواتین اعلی تعلیم کے باوجود بہت ہی کم جاب کرتی ہیں اس میں بھی ہر ریاست کا ریشو الگ ہےـ ساؤتھ انڈیا میں محنت کش کھلے مزاج کی خواتین ہیں سو ہر شعبے میں نظر آتی ہیں۔شمال بھارت میں خواتین نے معلم اور طب کے پیشے کو اپنا یا ہوا ہے ۔
رہی بات عالمی یوم خواتین کی تو جو فیلڈ میں ہیں وہ اپنے اپنے شعبےمیں اپنے انداز سے منالیتی ہیں، اکثر تو بات خواتین ریزویشن تعلیمی و سول سروسیز میں ہوتی ہے، چونکہ سیاست میں بھی 50 پرسنٹ ریزرویشن کی باتین چل نکلتی ہیں، تو کبھی رحم مادرمیں قتل کی روک تھام ۔بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم ، تو کبھی جہیز کے خلاف، قوانین کا اعلان اس دن ہوتا ہے۔اس میں وہ قوانین بھی پاس ہوئے جس میں قحبہ خانوں کو ریزرویشن دیئے گئے
ورنہ کہیں گے سب اچھا اچھا ہی بتارہی ہیں آپ ۔
سو اس دن پر بھی خواتین کی سرگرمیاں اپنے سیاسی ، سماجی ، و ثقافتی ، مذہبی مفادات پر منحصر ہوتی ہیں ـ مذہبی مفاد میں ہم لوگ بھی اس دن پروگرام رکھاکرتے ہیں۔اسلام کے عطا کردہ عورت کے حقوق سمجھایا کرتے،جو بھی ایشو ماحول میں چل رہاہوتا ہم مسلم خواتین اس موقع پر اسلام کاموقف پیش کرنے کی اپنی سی سعی کیاکرتے ہیں ـ تاہم اس کے باوجود مسلم خواتین پر تنقید کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا جو ہے اور چلا آرہا ہے ۔
مسلم خواتین تعلیم میں پیچھے ہیں،
مسلم خواتین پردہ کروا کر قید میں رکھی جاتی ہےـ مسلم خواتین کو آزادی نہیں ہے،مسلمان خواتین گھروں میں ظلم سہتی ہیں،ان کی آواز بند کردی گئی ہے اور شاید ہماری آواز جو ان کے جواب میں اٹھتی نقار خانے میں طوطی کے بول ہی تھی ۔ جس سے ملیں وہ یہی کہے گا اور ہم بساط بھر کوشش بھی کرتے اور کچھ مسکرا کر خاموش ہورہتے ۔
کچھ دن پہلے مبارک کاپڑی کا لیکچر سنا،فرمانے لگے ھندوستان میں موجود حالات نے ہر مسلم لیڈر اور ہر مسلم دانشور کو ہلا کر رکھ دیاکہ کیا فیصلہ کریں۔کشمیر مسئلے کے بعد بابری مسجد کے موقع پر نوجوانوں کو خاموش رکھا تو اب یہ قانون۔CAA ایک کے بعد دوسرے مسئلے اور حکومت کے متعصب وار نے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔۔جامعہ کے حملے کے بعد وہ رات تو درد کے احساس کے ساتھ گزری کہ قوم کا ہر فرد اشارے کا منتظر ہے بتاؤ کیا کرنا ہے کچھ کہیں تو احساس تھا کہ نہتے نوجواں مار ڈالے جائیں گے ، کوئی اینٹی سوشل کام کچھ نہیں کرنا بھی ہے جیل بھردئیے جائیں گے ہر گھر میں صف ماتم بچھے گا ،، برسوں میں سنبھلے نوجواں راتوں رات صدیوں پیچھے دھکیلے جائیں گے۔کرب کی اس رات میں ہماری صبح خواتین کے شاہین باغ سے طلوع ہوئی ـ
ہمارا عالمی دن تو وہی تھا جب ہماری خواتین اپنی نسلوں اور خاندان کی بقا کے لیے میدان عمل میں اتر آئیں ہماری صبح تو اس دن طلوع ہوئی جب مسلم خواتین پر اٹھنے والے ہر سوال کا سراپا جواب پورے انڈیا کو دینے کے لیے ہر شہر ہر کو چے اور ہر گلے میں ایک شاہین باغ بن گیاـ
یہ جواب تھا ،مسلم خاتوں تعلیم یافتہ نہیں ہوتی ہیں۔یہ خواتین میڈیا پر بائٹ دے رہی تھیں سیاسی نکتے حکومت کو سمجھا رہی تھیں ۔
گودوں میں مسکراتی ہوئی بچیاں غماز تھیں کہ یہ کتنی چاہت سے بیٹیاں پالتی ہیں ۔
برقعہ انکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ حائل نہیں کرتا بلکہ انہیں علم کے میدان میں بھی آگے رکھے ہوئے بغیر کسی نقصان کے ۔
ہاں یہ باوجود تولیم یافتہ ہونے کے دہری ذمہ داریوں سے لدی ہوئی بھی نہیں ہشاش بشاش ہیں جب ان پر حکومت کے نئے بننے والے قانون پر کہا گیا کہ یہ خواتین ۔۔۔500 روپیئے کے لیے بیٹھیں تو بڑے طمطراق سے انہوں نے کہا کہ:ہم پانج ہزار اپنی گھر کی خانسماؤں کو دیتے ہیں ذرا گھرمیں آکر دیکھیں ۔
اس بات کی بھی تردید تھی کہ صرف نیو جنریشن پڑھی لکھی ہیں 90 اور 80 سال کی بوڑھیاں بھی اس شاہین باغ احتجاج کی روح رواں تھیں ـ
ہاں تواس سال خواتین کا عالمی دن ہندوستان میں مسلم شاہین بہنوں کے نام،جنھوں نے ایک نئی صبح کا آغاز کیاہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
جمعہ جمعہ آٹھ دن وزیر اعلیٰ بنے نہیں ہوئے، اروند کیجریوال نے دہلی فسادات پرطلبا اور اپنے ووٹروں سے ملنے سے انکار کردیا۔ نتیجتاً مایوس لوگوں نے رات کو ہی ان کے گھر کے سامنے دھرنا دے دیا، بھیڑ بڑھتی چلی گئی، نعرے لگنے شروع ہوگئے۔ امیت شاہ، جن کو دہلی کے فسادات میں پولیس کی مناسب تعداد بھیجنے میں دو روز لگ گئے تھے، انھوں نے اروند کیجریوال کی حفاظت کے لیے بس بھر کے پولیس بھی جلدی سے بھیج دی، جس نے آتے ہی لوگوں پر پانی کی تیز بوچھاڑ مارنی شروع کردی، پھر لاٹھی چارج کردی، جن میں کافی عورتوں کو چوٹ آئی۔ عورتوں کا کہنا ہے کہ پولیس کھلے عام انھیں للکار رہی تھی کہ "تم لوگ پاکستان جاؤ”۔ کئی لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اروند کیجریوال جی! آپ نے اپنا نقاب اتارنے میں بڑی جلدی دکھائی؟ مودی جی نے بھی کم از کم 6 سال لگائے تھے، لیکن آپ تو نقاب اتار پھینکنے میں ان سے بھی بازی مار گئے۔ کیا قصور تھا ان لوگوں کا؟ آپ ہی تو کہتے تھے کہ دہلی والے آپ کا پریوار ہیں، رات کے کسی بھی پہر دہلی کا کوئی بھی شہری آپ کے گھر آئے تو آپ اس کی تکلیف سنیں گے، یہاں تو پوری دہلی ہی اٹھ آئی ہے لیکن آپ نے اپنے پریوار کے لیے دروازہ تک نہیں کھولا؟ وہ آپ سے بات کرنے آئے تھے، اپنے پریوار کے مکھیا کے سامنے ہی تو اپنے دکھ درد بانٹے جاتے ہیں۔لیکن ان بیچاروں کو کیا پتہ تھا کہ آپ کا اور امیت شاہ کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ذرا سوچیے آپ کے ووٹروں کے دلوں پر اس وقت کیا گزری ہوگی جب آپ کے گھر ہی کے سامنے ان پر پولیس لاٹھیاں برسا رہی تھی، تب بھی آپ گھر سے باہر نہیں نکلے۔اروندجی! آپ کا یہ بہانہ بھی اب نہیں چلے گا کہ دہلی پولیس آپ کی سرکار کے اختیار میں نہیں ہے۔ بے شک دہلی پولیس آپ کی نہیں ہے لیکن دہلی تو آپ کی ہے، اس کی عوام تو آپ کی ہے، آپ ان کی چیخوں، سسکیوں اور کراہوں کے درمیان کیسے سو سکتے ہیں؟آپ جو کل تک چھوٹی چھوٹی سی بات پر اپنے لوگوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ جایا کرتے تھے، آج اپنے تمام ووٹروں کے ساتھ دہلی فسادات کے خلاف، مرکزی حکومت کی بے حسی کے خلاف، دہلی پولیس کی فرقہ واریت کے خلاف، کپل مشرا کے خلاف دھرنے پر کیوں نہیں بیٹھتے؟ آپ اگر آج بھی دھرنے پر بیٹھ جائیں تو آپ کے 62 سیٹوں کے لاکھوں ووٹرز آپ کے ساتھ سڑکوں پر ہوں گے، مایوس اور خوف زدہ شہریوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور شرپسندوں کا زور ٹوٹے گا۔ لیکن اب تو آپ اپنے ہی گھر کے سامنے اپنے "پریوار” کو لاٹھیوں سے پٹوا رہے ہیں، ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ آپ کے لیے تو الیکشن کا کھیل ختم ہوچکا ہے اور 62 سیٹوں کے ووٹرز بھی ہضم کرچکے ہیں، پھر بھلا آپ کو تشکر کا ڈکار لینے کی ضرورت بھی کیا ہے۔
لوگوں کو بھلا کہاں پتہ تھا کہ”کام کی راجنیتی” کا نعرہ دے کر آپ ٹوئٹر سرکار بنانے جارہے ہیں۔
سنو اروند کیجریوال! اگر آپ نے یہ سوچ لیا ہے کہ ہنومان چالیسا پڑھتے ہوئے آپ پانچ سال گزار دیں گے تو بھول جائیے، جو آپ کو جھولی بھر بھر کے ووٹ دے سکتے ہیں، وہی ووٹر مرکزی سرکار کے ساتھ آپ کو بھی اپنے احتجاج کا نشانہ بنا سکتے ہیں، جس کی شروعات آج آپ کے گھر سے ہوچکی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
مودی کی پہلی انتخابی ریلی،شاہین باغ و جامعہ کے مظاہرین کوسازشی عناصرقراردیا
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی کے کرکرڈوما کے سی بی ڈی گراؤنڈ میں پیر کو منعقدہ انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جہاں دیگر فرقہ وارانہ موضوعات کو چھیڑا وہیں سی اے اے این آرسی کے خلاف دہلی خصوصاً شاہین باغ میں جاری احتجاج پر بھی نشانہ سادھا۔ انہوں نے کہا کہ سلیم پور ہو ، جامعہ ہو یا شاہین باغ ، پچھلے کئی دنوں سے سی اے اے پر احتجاج ہورہا ہے۔ کیا یہ احتجاج محض ایک اتفاق ہے؟ نہیں ، یہ اتفاق نہیں ہے ، یہ ایک تجربہ کیاجارہاہے، اس کے پیچھے سیاست کا ایک ایساڈیزائن ہے ، جو قومی یکجہتی کوختم کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ اور کانگریس سیاست کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ آئین اور ترنگا کو سامنے رکھ کر گیان بانٹا جارہا ہے اوربنیادی مسئلوں سے دھیان بھٹکایاجارہا ہے۔ اس ذہنیت کو یہیں روکنا ضروری ہے۔ اگر سازشیوں کی طاقت بڑھ جاتی ہے، تو کل کسی اور اور گلی اور کسی اوراور سڑک کو روکا جائے گا، دہلی میں انتشارنہیں پھیلنے دیا جائے گا۔انہوں نے واضح طورپر کہاکہ جو لوگ احتجاج کررہے ہیں وہ ملک کے دستور اور سپریم کورٹپر یقین نہیں رکھتے ،یہ بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات کرتے ہیں۔ مودی نے اپنی تقریر میں سرجیکل اسٹرائک سے لے کر کشمیر سے آرٹیکل370کے خاتمے اور رام جنم بھومی پر سپریم کورٹ کے فیصلے تک کوبی جے پی حکومت کی حصولیابیوں میں شمار کروایا۔واضح رہے کہ وزیر اعظم مودی منگل کو دوارکا میں دوسری ریلی سے خطاب کریں گے۔ اس بار دہلی میں مودی کی صرف 2 انتخابی ریلیاں ہیں۔ دہلی کی 70 نشستوں پر 8 فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ نتائج 11 فروری کو آئیں گے۔
خورشیداکبر
ایک تیرا نظام چل رہا ہے
ساری دنیا میں کام چل رہا ہے
ایک تو شاہ چل رہا ہے یہاں
ایک اس کا غلام چل رہا ہے
ایک سے شہر صاف ہو گئے ہیں
جانے کیا اہتمام چل رہا ہے
اک محبت تھی ختم ہو گئی ہے
اور اک انتقام چل رہا ہے
ایک تلوار تھی سو کھو گئی ہے
صرف خالی نیام چل رہا ہے
ایک دنیا ٹھہر گئی ہے مگر
ایک وہ تیزگام چل رہا ہے
ایک بیٹا : بلند ہے اتنا
باپ انگلی کو تھام چل رہا ھے
ایک سکہ اندھیر گردی کا
رات دن صبح و شام چل رہا ہے
اک چھری سے حلال ہر گردن
سب کا جینا حرام چل رہا ہے
ایک خورشید روز اگتا ہے
روز قصہ تمام چل رہا ہے
مولانا احمد حسین قاسمی،معاون ناظم امارت شرعیہ،پھلواری شریف،پٹنہ
اقتدار کے نشہ میں چور مرکزی حکومت نے آر ایس ایس) (RSS سے ملنے والی فکری رہنمائی کے نتیجہ میں سی اے اے (CAA) جیسا متنازع اور ناقابل عمل قانون بنا کر ایک بڑی غلطی کر رہی ہے، جس کا اسے احساس نہیں ہے، اس ملک کے لیے طلبا کا سی اے اے(CAA)کے خلاف اولین اقدام کے طورپرپرچم احتجاج بلند کرنا ایک مثبت اور خوش آئند عمل ہے،وہ اس ملک کے مستقبل اور کل کے قائد ہیں،پورے ملک کا بوجھ ان کے کندھوں پر آنے والا ہے، وہ حال کے آئینہ میں مستقبل کے تمام حالا ت کو بخوبی دیکھ رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس سیاہ اور کالے قانون کی ناپاک دھمک کو سب سے زیادہ انہوں نے ہی محسوس کیا۔کئی ہفتے ہوگئے، مگر ان کے طرز احتجاج میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا،بلکہ دن بدن مزید اس میں استحکام ہی پیدا ہو رہا ہے۔ جس پا مردی اور عزیمت وحوصلے کے ساتھ ان غیور و جرأت مند طلبہ وطالبات نے حکومت کی بر بریت کا ڈٹ کر مردانہ وار مقابلہ کیا ہے وہ آنے والے دنوں میں آزاد بھارت کا تاریخ ساز کارنامہ شمار کیا جائے گا۔ جس احتجاج کا آغاز جامعہ ملیہ اور جے این یو سے ہوا تھا، اس نے صرف ملک کی یونیورسیٹیوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ وہ آواز بیرون ملک کی عظیم یونیورسیٹیوں آکسفورڈ اور کیمبرج میں بھی گونج رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ ان کی شان میں عظمت کے قصیدے پڑھ رہے ہیں، اوران کے حوصلوں کو سلام پیش کر رہے ہیں۔
CAA اور NRCکے خلاف اٹھنے والی تحریک کی ابتدا ملک کے انہی طلبہ وطالبات سے ہوئی ہے، ہم ان کے اس جرأت مندانہ قدم کو ملک کے دستور کی حفاظت کے حوالے سے”صور اسرافیل“ سمجھتے ہیں۔سیاسی پارٹیاں اور اس ملک کے سیکولر عوام بھی در اصل طلبہ پر پولس انتظامیہ کی جانب سے ہونے والے مظالم کو دیکھنے کے بعد ہی میدان میں آئے؛چناں چہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ طلبہ نے اپنی قربانیوں او رشجاعت وبہادری سے عوام کو بیدار کرنے کا ایک عظیم فریضہ انجام دیا ہے، جو ”نعرے“ وہ اپنے کیمپس اور جامعات کے سامنے لگا رہے تھے، اب وہ امریکہ،کناڈا اور یوکے کی سڑکوں پر سننے کو مل رہے ہیں، آپ نے سیاسی پارٹیوں کے دھرنے اورمظاہرے خوب دیکھے ہوں گے، مگر ان کا مقابلہ طلبہ کے ان مظاہروں سے کسی طرح نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ کہ طلبہ کے سینوں میں فقط ذوق جنوں،سرشاری کی کیفیت اور زندہ جذبات ہی نہیں بلکہ ان کے دل ملک کے تئیں بے لوث محبت،وارفتگی،جاں نثاری،فدائیت اور بے پناہ خلوص سے معمور ہیں،جن کا اظہار وہ ماہ دسمبر اور جنوری کی ریکارڈتوڑ ٹھنڈک میں بھی کرتے نظر آرہے ہیں،بر سر اقتدار جماعت کے لیے اس میں ایک بڑا سوال بھی ہے اورنصیحت آموز سبق بھی۔
طلبہ اس قدر احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟وہ تھکتے کیوں نہیں؟وہ ڈرتے کیوں نہیں؟ وہ رکتے کیوں نہیں؟انہیں کیا ہوگیا ہے؟وہ ان نعروں سے باز کیوں نہیں آتے؟ہم نے تو ان کے قدموں میں ہزار زنجیر یں ڈالنے کی کوششیں کیں، انہیں روکنے کے لیے ہر ممکن اپنی طاقتوں کا بھر پور استعمال کیا، مگر وہ پا بہ جو لاں دار ورسن کی طرف بڑھے جارہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ جہاں یہ طلبہ پڑھتے ہیں وہ ہندوستان کا ایک خوبصورت نمونہ ہے اگر کسی کو ہندوستان کی اصلی تصویر دیکھنی ہو تو وہ ا ن یونیورسیٹیوں کے کیمپس میں چلا جائے،وہاں گنگا جمنی تہذیب،صا ف ستھر ی اور سچی انسانیت،درمندی،بھائی چارگی اور کینہ ونفرتوں سے دورباہمی اخوت ومحبت پر مشتمل بھارت کا جمہوری دستورانسانی شکلوں میں چلتا پھرتا نظر آئے گا، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں نوع بنوع ذات،برادری،اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے صاف وشفاف ذہن کے طلبہ ایک کالج،ایک کلاس روم میں،ایک ساتھ ایک پروفیسر سے پڑھتے ہیں، اور ایک ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھتے ہیں،وہاں کتنی خوبصورت جمہوریت ہوگی،ابوالکلام اور گاندھی جی کے دیش کی کیسی دل فریب تصویر ہوگی، اور ملی جلی تہذیب کا کتنا حسین سنگم ہوگا، اس کا اندازہ طلبہ ہی کر سکتے ہیں،ہمارے طلبہ دراصل اپنے ملک کی اسی خوبصورتی کو بچانے کے لیے مستقل یہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ نفرت کے سوداگروں اور مذہبی شدت پسندوں کو ملک کی تعلیم گاہوں کی یہ جمہوری تہذیب بھی راس نہیں آئی اور یہ ان کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھنے لگا۔
یہی وجہ ہے ABVPکے ذریعہ ملک کی فاسسٹ،نازی اور فرقہ پرست طاقتوں نے یونیورسیٹی کی پاکیز ہ فضا کو مسموم اور زہر آلود کردیا ہے۔طلبہ اس حقیقت کوسمجھ رہے ہیں،اس لئے ملک کی اکثر یونیورسیٹیزمیں طلبہ یونین کے انتخاب میں اے بی وی پی کو کامیابی نہیں ملی، یہ اس ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے والوں کے لیے درس عبرت ہے۔مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں نے ہر محاذ پر اپنی ذہنیت کے خاص لوگوں کو رکھنا چاہا ہے اس کے پیش نظرانہوں نے شروع سے ہی اپنا کیڈر تیار کرنے کے لیے کالج اور یونیورسیٹیوں کا بھی سہارا لیا،اوراکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (ABVP)کے نام سے طلبہ کی ملکی سطح پر ایک جماعت تشکیل دی جو مرکزی حکومت کے زیر سایہ تعلیم گاہوں اور جامعات میں غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا کام کر رہی ہے،گذشتہ اتوار ۵/جنوری ۰۲۰۲ء جے این یو کے طلبہ پر دہشت گردانہ حملہ اس کا واضح ثبوت ہے۔”ہندو رکشا دل“ نے اس کی ذمہ داری لے کر بہت کچھ چھپایا ہے تو بہت کچھ ظاہر بھی کیا ہے،اس سے پہلے بھی روہت ویمولا اور نجیب کے دردناک واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کررکھ دیا تھا۔ملک کی عدالت سے درخواست ہے کہ ان وارادات کے مدنظر ان تنظیموں پرپابندی عائد کی جائے۔طلبہ ملک کی شان اور آبرو ہیں اور بھارت کے مستقبل بھی، ان کی آواز کو پولس کی سفاکانہ اوروحشیانہ رویوں کے ذریعہ دبانا اور ان کوABVP کے دہشت گرد غنڈوں کے حملوں سے لہو لہان کرانا بزدلانہ عمل ہے۔ عدالت کو اس پر سخت نوٹس لینی چاہئے اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے والے ملک دشمن عناصر کو عبرت ناک سزا دینی چاہئے۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ہمیں اس کی عظمت کو پامال کرنے والوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا، یہ ایک عظیم لڑائی ہے، جو پر امن طریقے پر آئین اورجمہوریت کی روشنی میں لڑی جارہی ہے۔ ملک کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے خلاف احتجاج کرناہمارا قانونی اوردستوری حق ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ملک کے ارباب اقتدار ان کے مطالبات کو پورا کریں،غلط فیصلوں سے رجوع کریں،اور احتجاج سے ملک کی روز مرہ زندگی کو متأثر ہونے سے قبل اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں،اور عوام کو مذہبی بنیادوں پر دوخانوں میں تقسیم کر کے ملک کی یک جہتی اورسا لمیت کے لیے خطرہ نہ پیدا کریں۔واضح رہے کہ حکمراں جماعت ملک کے آئین کی قسم کھا کر عوامی خدمت کے فریضہ کی ادائیگی کا اقرار کرتی ہے، لہذا حکومت کوہر لمحہ اپنے اس قول وقرار کا پابند رہنا چاہئے اور اپنے اس حلف کو ذہنوں میں مستحضر رکھنا چاہئے۔
یقیں ہے مجھکو بازی جیتنے کا ،فتح میری ہے
میں گلدستے بناتا ہوں ، وہ شمشیریں بناتے ہیں
ہماری محبتوں پر تم نے مسجدیں ڈھائیں ، ننگی سیاست کا ننگا ناچ کیا۔ہماری بہنوں بیٹیوں کے شکم چیر کر ان کی اولاد کو اپنے نوک خنجر پر اچھالا ۔
ہماری مسجدوں کی حرمت کو پامال کیا ۔
ہمارے داڑھی ٹوپی اور کرتوں میں ملبوس مردوں اور بزرگوں کو نذر آتش کیا اپنی جیلوں کو ہمارے جوانوں سے پاٹ دیا۔
ہماری معیشت کو تم نے جلاکر خاک میں ملانے کی بارہا کوشش کی ہے۔
یہ بابری کی جھلک ہے ،یہ گودھرا کی جھلک ہے یہ یوپی کی جھلک ہے، یہ جامعہ ملیہ ، جے این یو اور ملک کے دوسرے نہتے طلبا اور عوام کی جھلک ہے جن پر تمہارے غنڈوں نے شب خون مارا۔
تم نے اقتدار میں آتے ہی اپنے سادھووں اور سوامیوں کو باعزت بری کروادیا، ملک کی سب بڑی قومی تحقیقاتی ایجنسی کو ہی ملزمین کے باعزت بری کرانے ہر مامور کرادیا اب بھی تم یہی سب کررہے ہو لیکن اب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے، ہم سبھی سمجھ چکے ہیں کہ اس ملک میں انصاف کی اندھی دیوی کن پر مہربان اور کن لوگوں کو تہہ تیغ کردیناچاہتی ہے:
تیغ منصف ہو جہاں دار رسن ہوں شاہد
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا
اسی لئے آج ہم نے پھر سے اپنی بکھری ہوئی انگلیاں ملا لی ہیں تاکہ اپنی ہتھیلیاں مضبوط کرسکیں اور پھر سے کوئی” انگولی مال ” یا "کیسری آدم خور” ہماری انگلیاں نہ کاٹ لے جائے یا ہمارے ہاتھوں کو کمزور نہ کرسکے ۔
کے آر نارائنن کی "انڈتوا ” کی تعبیر آج بھی تمہاری "ہندتوا” پر بھاری ہے
ہم سب آج بھی اسی ہندوستان کا حصہ ہیں جہاں بابری دھماکوں میں ہم نے ہر اس ہندو کی حفاظت کی،جو ہمارا پڑوسی تھا جو بے قصور تھا جو ہمارا حصہ تھا اورہندو بھائی ہماری حفاظت کے لئے فرقہ پرستوں کے آگے ڈھال بنے ہوئے تھے ۔
مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے جب آدھی آدھی رات کو ایک بے ہنگم سا شور اٹھتا اور لوگ سراسیمہ ہونے کی بجائے گھروں سے لاٹھی ڈنڈے سریے لیکر نکل پڑتے کہ اگر کسی نے محلے میں داخل ہوکر کسی قسم کا فساد پیدا کیا تو اس کی خیر نہیں ۔
لوگ الاؤ جلا جلا کر اپنے علاقوں کی پہرے داری کرتےرہے ۔ان میں ہندو بھی تھے کچھ ہندو بزرگ بڑی شفقت سے خواتین اور بچوں سے کہتے تھے بچو!!! گھبرانا نہیں جو آئےگا پہلے ہم سے نپٹے گا پھر تم تک پہنچے گا، دروازے اندر سے بند کرو اور بچوں کو لے کر سو جاؤ۔ہم یہاں بیٹھے ہیں تمہاری رکشا کے لئےـ ایک پڑوسی اصلا بنیا تھے بابری کے دنگوں میں انہوں نے اپنا سارا گودام خالی کردیا اور محلے والوں کو راشن تقسیم کردیا کہ جانے کتنے دنوں تک فساد کا زور رہے:
اک غزل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی میری دیوار میں در آتی ہے
میں نے ایسا ہندوستان دیکھا ہے بلکہ ہم سب نے ایسا ہی ہندوستان دیکھا ہے ۔ جانے یہ ستّا کے تین منحوس بندر آنے والے دنوں میں ہندوستان کو کیا دکھلانا چاہتےہیں ؟
ہم سب ایک ساتھ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں بن دھوئیں والی رسوئی کا سنہرا سپنہ دکھاکر آپ نے ہمارے توے پر پڑی ہوئی روٹی بھی غائب کردی ہے اور آج ہمیں کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔
بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کی آڑ میں تم نے اپنے نر بھکشی نیتاؤں کو چھوڑ رکھا ہے کہ پہلےان سے بیٹی بچاکر دکھاؤ، پھر بچ گئی تواسےپڑھا بھی لینا۔
اب ہمیں کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا، ہم نے سب کے اصلی چہروں کو پہچان لیا ہے ۔
وزیر اعظم مودی اگرچہ رام لیلا میدان سے یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت این آر سی پر غور نہیں کر رہی ہے، لیکن ان کے وزیر داخلہ امت شاہ اپنے پارلیمانی وغیرپارلیمانی بیانات کے ذریعے این آر سی کے نفاذ پر اصرار کرتے آئے ہیں۔ حکومت این آر سی کے پہلے قدم این پی آر کے نفاذ کا اعلان کرچکی ہے۔ ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور فاشسٹ تنظیمیں اپنے تمام تر وسائل اس پورے قضیے کو مسلمان بنام حکومت بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ 9 اگست 2019 کو ہم نے این آر سی کے تعلق سے ایک تفصیلی تحریر لکھی تھی، جس کو کچھ لوگوں نے افواہ اور ڈر پھیلانے کا الزام لگاکر مسترد کردیا تھا۔ ہم نے اپنی اُس تحریر کا آغاز اس دعا سے کیا تھا کہ خدا کرے جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں وہ کبھی سچ ثابت نہ ہو۔ اِس تحریر کا آغاز بھی میں اسی دعا کے ساتھ کرنا چاہوں گا کہ اللہ تعالی مسلمانان ہند کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور کبھی ان کو مصیبتوں میں گرفتار نہ کرے۔
کچھ باتیں ناگوار ہونے کے باوجود ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان کا تحلیل وتجزیہ نہ کیا جائے، تو حقیقی صورتحال کا ادراک نہیں ہوپاتا۔ ایک بڑی تعداد اب اس بات کو تسلیم کرنے لگی ہے کہ اگر این آر سی ملک میں نافذ ہوتا ہے، تو لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ حق شہریت سے محروم ہوسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کو جائیدادوں سے بے دخل کیا جا سکتا ہے، ملازمتوں سے برطرف کیا جاسکتا ہے اور ڈٹینشن کیمپس میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ جو لوگ ان خدشات کو آج بھی افواہ تسلیم کرتے ہیں، انہیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس پورے قصے میں جس لفظ کا ذکر نہیں ہے وہ ہے نسل کشی۔ این آر سی نافذ ہونے کی صورت میں نسل کشی فوری شروع نہیں ہوگی، بلکہ گزشتہ سو سال میں ہونے والی مختلف نسل کشیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو ظالم معاشرہ مظلوموں پر ظلم کی بنیاد پڑنے کے تیس سال کے آس پاس حملہ آور ہوتا ہے اور کمزوروں کی نسل کشی کر دیتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ظلم وستم کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہتا ہے۔ گزشتہ سو سال میں ہونے والی تین بڑی نسل کشیوں کو ہم بطور مثال پیش کر سکتے ہیں:
1- زار روس کی موت کے بعد ولادیمیرلینن نے سوویت یونین کی بنیاد رکھی۔ زار کی موت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یوکرین نے روس سے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ لینن نے 917 میں یوکرین پر دوبارہ قبضہ کی مہم کا آغاز کیا اور تین چار سال کی جدوجہد کے بعد قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 1924 میں لینن کے مرنے کے بعد اسٹالن اس کا جانشین بنا۔ اس ظالم حکمران کو یہ برداشت نہیں تھا کہ اس کے ماتحت علاقوں میں کسی بھی طرح کی آواز اس کے خلاف اٹھے۔ چنانچہ 1929 میں اس نے پانچ ہزار سے زائد یوکرینی پروفیسرز، سائنس داں، ماہرین تعلیم اور مذہبی قائدین کو گرفتار کرلیا اور ان کی بڑی تعداد کو بغیر کسی مقدمے کے قتل کر دیا گیا یا باقی بچ جانے والوں کو ڈیٹینشن کیمپس میں بھیج دیا گیا۔ یوکرین کی 80 فیصد آبادی زراعت پیشہ تھی۔ ان کسانوں میں کچھ ایسے بھی تھے جن کی ملکیت میں 24 ایکڑ سے زائد زمینیں تھیں اور یہ لوگ نسبتا امیر تھے۔ یوکرین میں ان لوگوں کو "کُلاک” کہا جاتا تھا۔ اسٹالن کو یہ خدشہ تھا کہ زمین داروں کے اسی طبقے کے ذریعے دوبارہ بغاوت ہو سکتی ہے، لہذا اس نے اس طبقہ کے افراد کو تمام انسانی اور شہری حقوق سے محروم کردیا۔ ان کو سرکاری طور پر "عوام دشمن” اور "ملک دشمن” قرار دیا گیا، ان کی نسل کشی کی گئی اور بچ جانے والوں کو سائبیریا کے جنگلات میں قائم ڈیٹینشن سینٹرز میں بند کردیا گیا۔ اسٹالن کے ذریعے کی جانے والی اس نسل کشی میں سات لاکھ لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ظلم کی بنیاد پڑنے کے بارہ سالوں بعد یہ نسل کشی ہوئی۔
2- سنہ 1933 میں، دس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد ہٹلر نے جرمنی کا اقتدار سنبھالا۔ یہودی اس ملک میں صدیوں سے رہتے چلے آرہے تھے، وہ اپنے آپ کو وطنی اعتبار سے جرمن اور مذہبی اعتبار سے یہودی قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے ملک کے لیے دوسرے جرمنوں کے شانہ بشانہ قربانیاں بھی دیں تھی۔ لیکن ہٹلر نے نسل پرستی کا سہارا لیکر اقتدار پر قبضہ کیا اور انیس سو پینتیس میں نوریمبرگ لا ملک میں نافذ کردیا، جس کے نتیجے میں یہودیوں کی جرمن شہریت چھین لی گئی، غیر یہودیوں کے ساتھ ان کے شادی بیاہ کو غیر قانونی قرار دیا گیا، فوج اور پولیس کی ملازمتوں سے ان کو نکالا گیا، اسکولوں اور کالجوں سے بھی ان کو محروم کر دیا گیا۔ اس عرصے میں یہودیوں کے خلاف ہٹلر کے وزیر جوزف جوبیلس نے جرمنی میں پروپیگنڈا مہم شروع کی، ان کو جرمنوں کا دشمن اور ملک کا غدار قرار دیا گیا۔ اخبارات میں یہود مخالف مضامین شائع ہونے لگے، جگہ جگہ ان کے خلاف پوسٹرز لگنے لگے، جرمن فلم انڈسٹری بھی ان کے خلاف میدان میں آگئی، فلموں میں ان کو ملک دشمن دکھایا جانے لگا اور آخرکار اسکولوں کا نصاب بھی بدل دیا گیا۔ انیس سو انتالیس میں ہٹلر نے اپنے زیر نگیں علاقوں میں کانسنٹریشن کیمپس کی تعمیر کا حکم دیا اور 1942 سے سرکاری فوجیوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا۔ لاکھوں کی تعداد میں ان کو کانسنٹریشن کیمپس میں لایا جاتا اور گیس چیمبرز میں بند کرکے ہلاک کردیا جاتا۔ ان کی ہلاکت پر نفرت کے پروپیکینڈے سے متاثر جرمنوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ یہودیوں سے جرمنی کی شہریت چھینے جانے کے سات سال کے بعد ان کی نسل کشی کی گئی۔
3- برما نے انیس سو بیاسی میں سٹیزن شپ قانون ملک میں متعارف کرایا اور روہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیا۔ اس قانون سے پہلے بھی روہنگیا کوئی اچھی حالت میں نہیں تھے۔ دو سے زائد بچے پیدا کرنا قانونا جرم تھا، ان کی بہت سی زمینیں چھین لی گئیں تھی اور ان کی ایک بڑی تعداد کو صفائی کرمچاری قرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن 1982 کے شہریت قانون کے بعد ان پر ظلم میں اضافہ ہوا اور دو ہزار سترہ میں ان کی نسل کشی شروع ہوگئی، خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی، گھروں کو مسمار کردیا گیا اور روہنگیا کی پوری نسل کو ملک دشمن قرار دے دیا گیا۔ اس ظلم میں برمی فوج کے ساتھ مقامی بودھ آبادی نے بھی پورا حصہ لیا۔ مقامی لوگوں کو یہ لالچ تھا کہ روہنگیا کے خاتمہ کے بعد ان کی زمینیں مقامی لوگوں کے ہی قبضے میں آنی ییں۔ روہنگیا کے خلاف نسل کشی ظلم کی بنیاد پڑنے کے 35 سال کے بعد شروع ہوئی۔
ان تین مثالوں سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ نسلی یا مذہبی آبادی کی شہریت ختم کرنے کے فورا بعد اس کی نسل کشی کا آغاز نہیں ہوا، بلکہ چند سالوں تک اکثریتی آبادی میں نفرت کا پروپیگنڈا کرکے پہلے ماحول بنایا گیا اور پھر مقصد کو انجام دیا گیا۔ نسل کشی اچانک نہیں ہوتی ہے، بلکہ فاشسٹ طاقتیں اس کے لیے اسٹیج تیار کرتی ہیں، اس کے پیچھے کئی سالوں کی محنت ہوتی ہے، تب جاکر نسل کشی کا جرم انجام دیا جاتا ہے۔
"جینوسائڈ واچ” نامی ادارے کے صدر ڈاکٹر جارج اسٹانٹن نے نسل کشی کے دس ادوار لکھے ہیں۔ ذیل میں مختصراً ان ادوار کو بھارت کی موجودہ صورت حال سے موازنہ کرکے ذکر کیا جاتا ہے۔ آپ ان ادوار کو غور سے پڑھیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ بھارت اس وقت کہاں کھڑا ہے۔ کیا نسل کشی محض ایک فریب ہے یا واقعی ایک خوفناک امکان ہے۔ یہ ادوار کچھ اس طرح ہیں:
1- کلاسیفیکیشن: ملک کے عوام کو نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے، "ہم اور وہ” کے درمیان آبادی کو بانٹ دیا جاتا ہے، نسل کشی کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔
بھارت میں یہ تقسیم یوں تو بہت پرانی ہے، لیکن آزادی کے بعد سے اب تک اس تقسیم میں شدت ہی پیدا ہوئی ہے۔
2- سمبلائزیشن: یہ نسل کشی کی طرف دوسرا قدم ہے، اس درجے میں آکر مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے مختلف لباس اور رنگ متعین ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ چیز فطری ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ الگ رنگ ولباس کا نتیجہ نسل کشی ہی ہو، لیکن جب رنگ ولباس سے اچھے اور برے کی پہچان ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ نسل کشی کی طرف دوسرا قدم اٹھا لیا گیا ہے۔
کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، ملک کے وزیراعظم نے حال ہی میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچاننے کی بات کہی ہے۔
3- ڈسکریمنیش: یعنی نسلی امتیاز۔ غالب گروہ اقلیتوں کے معاشرتی اور قانونی حقوق رفتہ رفتہ چھیننا شروع کردیتا ہے۔ حتی کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مغلوب گروہ کی شہریت بھی سلب کرلی جاتی ہے، جس سے ان پر ظلم وستم کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ بھارت میں چند ماہ کے اندر، طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون لاکر شریعت میں مداخلت کا راستہ کھول دیا گیا، بابری مسجد کو اکثریتی معاشرے کی تسلی کی خاطر عدالتی نظام کے تحت چھینا گیا، یکساں سول کوڈ کسی بھی وقت لایا جاسکتا ہے، این آر سی اور این پی آر کے ذریعے شہریت چھینے جانے کا آغاز ہوچکا ہے۔ آسام میں بہت سے بھارتیوں کی شہریت پہلے ہی ختم کی جاچکی ہے۔
4- ڈی ہیومنائزیشن: اس درجے پر آکر غالب گروہ مغلوب کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا شروع کردیتا ہے۔ مغلوب گروہ کو جانور کے برابر سمجھ لیا جاتا ہے اور ان کو معاشرے کا ناسور اور کینسر تصور کیا جاتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کو بڑھاوا دینے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی سرگرم ہوجاتا ہے۔
اس اصول کا بھارت کے موجودہ حالات سے موازنہ کیجیے۔ گائے کے مقابلے ایک مسلمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اب تک سینکڑوں لوگوں کو ایک جانور کی وجہ سے ہجومی تشدد کے ذریعے ہلاک کردیا گیا۔ میڈیا میں کھلم کھلا یہ کہا جارہا ہے کہ اگر گائے کا احترام نہیں کرسکتے تو جاؤ پاکستان۔ اکثریت کو اقلیت کے خلاف غیر انسانی سلوک پر بھڑکانے کے لیے میڈیا مکمل طور پر سرگرم عمل ہے اور کھلم کھلا مسلمانوں کو ذلیل کیے جانے کا عمل دن رات جاری ہے۔
5- آرگنائزیشن: نسل کشی ہمیشہ منظم ہوتی ہے، اس کے لیے کبھی حکومت کھل کر میدان میں آجاتی ہے اور کبھی ملیٹنٹ گروہوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور ان کو تیار کیا جاتا ہے۔ جارج اسٹانٹن کے مطابق دارفور میں سوڈانی فوج کے ذریعے "جنجاویڈ” نامی گروپ کا اسی لیے استعمال کیا گیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ بھارت میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو بھی مختلف مواقع پر حکومتی سرپرستی حاصل رہی ہے۔
یہ واضح رہے کہ دو ہزار سترہ میں سی آئی اے نے بجرنگ دل کو ملیٹنٹ گروپ قرار دیا ہے اور حالیہ مظاہروں کے بعد پولیس ایکشن میں بجرنگ دل نیز آر ایس ایس کے کارندوں کی بربریت اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔
6- پولرائزیشن: اس اسٹیج پر اکثریت اور اقلیت کے تعلقات کو بری طرح سے مجروح کیا جاتا ہے، بین المذاھب شادیوں پر پابندی عاید کی جاتی ہے، اکثریتی سماج کی معتدل شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کو گرفتار یا قتل کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اقلیتی سماج کی لیڈر شپ کو ختم کیا جاتا ہے۔
بھارت میں گوری لنکیش اور ان جیسی بہت سی آوازوں کو دبایا جارہا ہے۔ جن کو قتل نہیں کیا جاسکتا، ان پر مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔ مسلم لیڈر شپ اولا تو موجود نہیں ہے اور جو ہے، اس کا نمبر ابھی نہیں آیا ہے، کیوں کہ اکثریتی سماج میں ابھی بہت سی معتدل اور انصاف پسند آوازیں باقی ہیں جو فاشسٹ طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔
7- پرپریشن: اس مرحلے میں نسل کشی کی ٹریننگ ہوتی ہے، لوگوں کو ہتھیار چلانے کی مشق کرائی جاتی ہے، ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آخری حل یہی ہے۔ جرمنوں میں یہود کے خلاف فائنل سلوشن کی صدا بلند کی گئی تھی۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اگر ہم نے یہ قدم نہیں اٹھایا تو ہم ختم ہوجائیں گے۔
بھارت میں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ کس تنظیم کے افراد منظم طریقے سے حاصل کررہے ہیں، یہ بتانے اور ثابت کرنے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ ان فاشسٹ طاقتوں کی طرف سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور دوہزار پچاس تک مسلمان اکثریت میں آجائیں گے۔ سی اے اے نامی قانون کے ذریعے اکثریت کو یہ میسج دیدیا گیا کہ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں انھوں نے اقلیتوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں، پاکستان میں آزادی کے وقت تیئیس فیصد ہندو تھے جو اب صرف تین فیصد رہ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مشہور جرنلسٹ پرسوں واچپئ کے مطابق آر ایس ایس حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ ہندو راشٹر کا قیام اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
8- پرسیکیوشن: یعنی اقلیتی گروہ کو سب سے پہلے اکثریتی سماج سے ممتاز کردیا جاتا ہے، ان کے علاقے الگ کردیے جاتے ہیں، اپنے علاقوں میں ان کو جگہ نہیں دی جاتی ہے، بلکہ اقلیتی برادری کے لوگوں کی زمینیں اور جائدادیں ضبط کرلی جاتی ہیں، ان کو ڈٹینشن یا کانسنٹریشن کیمپس میں ڈال دیا جاتا ہے۔
بھارت میں اقلیتیں اپنے لباس اور بہت سی معاشرتی خصوصیات کی بنا پر پہلے ہی ممتاز ہیں۔ تقریبا ہر شہر میں مسلم آبادی الگ ہے۔ مسلمانوں کو اکثریتی علاقوں میں رہنے کے لیے مکانات مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ مختلف صوبوں میں ڈٹینشن کیمپس کی تعمیر جاری ہے۔ آسام میں بہت سے لوگوں کو پہلے ہی ڈٹینشن کیمپ میں ڈالا جاچکا ہے۔
9- ایکسٹرمنیشن: یعنی اس مرحلے پر آکر قتل عام شروع ہوتا ہے، جس کو عالمی قانون کی زبان میں نسل کشی کہا جاتا ہے۔ عورتوں کا ریپ کیا جاتا ہے، لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے، اس مرحلے پر فوج بھی ملیٹنٹ گروپس کے ساتھ مل جاتی ہے اور اقلیتوں کے خلاف غیر انسانی سلوک کرتی ہے اور لاکھوں لوگوں کو قتل کردیتی ہے اور ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
10- ڈینایل: یعنی انکار۔ عموما مندرجہ بالا تمام مراحل میں اور خصوصا نسل کشی کے بعد حکومت کی طرف سے انکار کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی نسل کشی سر زد ہوئی ہے۔ حکومت آزادانہ انکوائری میں رکاوٹ بنتی ہے اور کبھی اپنا جرم تسلیم نہیں کرتی۔ وہ امتیازی قانون بناتی بھی ہے اور اس کو تسلیم بھی نہیں کرتی ہے۔
آپ سی اے اے کو ہی دیکھ لیجیے کہ یہ واضح طور پر ایک امتیازی قانون ہے، لیکن حکومت اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ دس ادوار ہمارے خود ساختہ نہیں ہیں، بلکہ ڈاکٹر جارج اسٹانٹن کی ریسرچ کا حصہ ہیں، البتہ ہم نے بھارت کے حالات سے موازنہ کرکے کچھ اضافات ضرور کیے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ ہم ان دس ادوار میں سے کس دور میں چل رہے ہیں۔ جس طرح فاشسٹ طاقتوں کے لیے یہ صورت حال "ابھی نہیں تو کبھی نہیں” کا مصداق ہے، ملک کے انصاف پسند لوگوں اور اقلیتوں کے لیے بھی "کرو یا مرو” جیسی صورت حال ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سی اے اے کا ملک کے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ وزیر اعظم بھی زور دیکر یہ بات کہہ چکے ہیں، تو ایسے لوگ یا تو خواب خرگوش میں گرفتار ہیں، یا اپنے پرانے کرپشن اور دنیوی مفادات کی وجہ سے "مجبور” ہیں۔ آج اگر ملک خاموش بیٹھ گیا اور این پی آر کا عمل شروع ہوگیا تو حالات آئندہ چند سالوں میں کیا ہوں گے، اس کا اندازہ ان سطور کے پڑھنے کے بعد بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن میری دعا یہی ہے کہ خدا کرے کہ میں غلط ہوں، خدا کرے کہ میں غلط ہوں، خدا کرے کہ میں غلط ہوں۔