نئی دہلی:کوروناوائرس کی وباکی وجہ سے کسی بھی طرح کے مذہبی ، معاشرتی ، ثقافتی اور سیاسی پروگراموں پر پابندی عائد ہے۔ اس کی وجہ سے قومی دارالحکومت میں رام لیلامشکل ہے۔ اب ریاست کی حزب اختلاف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اورراشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے رام لیلا کے انعقاد کی اجازت مانگ لی ہے۔بی جے پی کے دہلی کے صدرآدیش گپتااورآرایس ایس کی صوبائی یونین کلبھوشن آہوجا نے جھنڈی والان کے مندر میں رام لیلاکمیٹیوں کے صدر اور دیگرعہدیداروں سے ملاقات کی۔ اس میٹنگ میں رام لیلا کااہتمام کیسے ہو؟ اس موضوع پر تبادلہ خیال کیاگیاہے۔بحث کے بعدبی جے پی کے دہلی کے ریاستی صدر نے کہاہے کہ کم لوگوں کے ساتھ ، تھوڑے وقت کے لیے رہنمااصول طے کرکے را م لیلاکو منظم کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔انھوں نے کہاہے کہ رام لیلاکی اسٹیجنگ کے حوالے سے بہت ساری تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ اسے آن لائن بھی نشر کیا جاسکتا ہے۔ دہلی بی جے پی کے صدر نے کہاہے کہ رام لیلا کے اسٹیجنگ پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم ریاستی حکومت اورانتظامی عہدیداروں سے بھی بات کریں گے۔ انہوں نے حال ہی میں لال قلعے میں یوم آزادی کی تقریبات کے انعقاد کی مثال دی اور کہا کہ رام لیلا کے انعقادکی کم لوگوں کی موجودگی کے رہنمااصولوں پرعمل کرنے کی شرط کے ساتھ اجازت دی جانی چاہیے۔
Bjp
جے پور:بھارتیہ جنتا پارٹی اسمبلی میں راجستھان کی اشوک گہلوت حکومت کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک لائے گی۔یہ فیصلہ جمعرات کویہاں منعقدہ بی جے پی قانون ساز پارٹی کی میٹنگ میں کیا گیا۔قائد حزب اختلاف گلاب چندکٹاریہ نے میٹنگ کے بعدصحافیوں کوبتایاہے کہ جمعہ کوشروع ہونے والے اسمبلی سیشن میں حکومت کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک لائی جائے گی۔کانگریس میں صلح ہوچکی ہے۔
سری نگر:جموں وکشمیرمیں حال ہی میں دیہاتی سطح کے لیڈروں کو دہشت گردوں کے نشانہ بنانے کے بعدتقریباََ ایک درجن بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کے لیڈروںنے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس کے بعدپارٹی نے وادی کے ہر ضلع میں اپنے ممبروں اور ان کے اہل خانہ کوہاسٹل کی طرح محفوظ رہائش فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔ پیر کے اوائل میں بڈگام سے بی جے پی کے او بی سی محاذکے ضلعی صدر عبدالحمید نذر کی موت کے بعد تشویشات میں اضافہ ہواہے۔ ایک دن پہلے ہی نذر کو اس کے گاؤں میں گولی مار دی گئی تھی۔ بی جے پی کے پنچایت ممبروں اور سرپنچوں پر حالیہ حملوں کے بعدپچھلے کچھ دنوں میں متعددکارکنوں خصوصاََنچلے درجے کے کارکنوں کے استعفے کا اعتراف کرتے ہوئے ایک پارٹی لیڈرنے کہاہے کہ ان میں سے کچھ وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام سے ہیں۔ بی جے پی لیڈرز کے استعفے کا اعلان کرنے والے خطوط اور ویڈیوز سوشل میڈیاپرپوسٹ کی جارہی ہیں۔ بی جے پی لیڈر نے کہاہے کہ پارٹی کے دوپنچایت ممبران اور جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں ایک سرپنچ نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔انھوں نے مزیدکہاہے کہ ہندواڑہ ، کپواڑہ اور سوپور سے پارٹی کے ایک کارکن نے بھی استعفیٰ دے دیاہے۔
یہ ہندوستان پہلے والاہندوستان نہیں رہا،اس حقیقت کو دنیا بھی سمجھ رہی ہے:جے پی نڈا
نئی دہلی:بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے بدھ کے روز کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہندوستان کورونا وائرس کے ساتھ سرحد پر پاکستان اور چین کابھی مضبوطی سے مقابلہ کررہاہے۔ آج کا ہندوستان پہلے والا ہندوستان نہیں ہے۔ ہندوستان کی اس شبیہ کو دنیا بھی سمجھ رہی ہے۔نڈا نے ہریانہ میں نو تشکیل شدہ ضلعی پارٹی دفاتر کا افتتاح کرنے کے بعدلیڈران اور کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران بی جے پی جموں وکشمیر سے دفعہ 370 کی منسوخی، ٹرپل طلاق کے عمل کو منسوخ کرنے اور شہریت ترمیمی ایکٹ سمیت گذشتہ چھ سالوں میں مودی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وزیر اعظم مودی کی قوت ارادی اور امت شاہ کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مودی جی کی قیادت میں کئے گئے کام نے ملک کی تقدیر اور تصویر کو بدل دیا ہے۔ہندوستان کی شبیہ بین الاقوامی نقطہ نظر سے بنائی گئی ہے۔ آج جب چین کے ساتھ تعطل جاری ہے تو دنیا سمجھتی ہے کہ ہندوستان بدل گیا ہے۔ ہندوستان اس طرح نہیں ہے جیسا پہلے اسے دیکھا گیا تھا۔نڈا نے کہاکہ آج ہم کورونا سے لڑ رہے ہیں، آج ہم پاکستان کے ساتھ بھی لڑ رہے ہیں اور گلوان میں چین کے ساتھ تعطل کا شکار ہیں، ہماری فوج کھڑی ہے اور 130 کروڑ پورا ملک کھڑا ہے۔لاک ڈاؤن کے دوران بی جے پی تنظیم کی طرف سے ملک بھر میں چلائے جانے والے پروگراموں کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی صدر نے کہا کہ اس مدت کے دوران بھی پارٹی نے ڈیجیٹل ذریعہ کا استعمال کیا، وہ لوگوں سے رابطے میں رہی۔انہوں نے کہاکہ تمام سیاسی جماعتیں لاک ڈاؤن میں بند تھیں، آج بھی ہیں، بی جے پی ویڈیو کانفرنسنگ اور ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے رابطے کی مہم کو اوپر سے لے کر نیچے تک آگے بڑھایا۔ انہوں نے تنظیم سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے کام کو ایک نئی رفتار اور نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھائے۔ بی جے پی نے اتنی خدمت کبھی نہیں کی تھی جتنی اس نے لاک ڈاؤن کے وقت کی ۔
راجستھان کا سیاسی بحران:کانگریس نے مایاوتی کوگھیرا،بھگوابریگیڈکے ساتھ سازبازکاالزام
جے پور:پہلے بی ایس پی اوراب کانگریس کے ایم ایل اے لکھن مینانے پیرکوراجستھان میں ہونے والی سیاسی بحران کے لیے بی جے پی کو نشانہ بنایا۔بتادیں کہ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے اتوار کے روز اسمبلی میں اعتمادپرووٹنگ کے دوران گہلوت کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے پارٹی چھوڑنے والے 6 ایم ایل اے کو گذشتہ سال کانگریس (کانگریس) میں شامل ہونے کے لیے ایک وہپ جاری کیا تھا۔ اس پرلکھن مینانے بی ایس پی سے سوال کیا اور پوچھا کہ بی ایس پی نے ایک سال بعدہمیں کیوں یادکیا۔انہوں نے کہاہے کہ ہم نے قانون کی بنیادپرکیاہے۔انضمام کے لیے دوتہائی ایم ایل اے کی ضرورت ہے۔ہمارے پاس کانگریس میں سبھی 6 ایم ایل اے آئے۔ انہوں نے الزام لگایاہے کہ بی ایس پی بی جے پی کے کہنے پریہ سب کررہی ہے ۔ انہوں نے مزیدکہاہے کہ یہ کانگریس کی منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔ لکھن مینانے کہاہے کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ ہمارے خطے کی ترقی کے لیے کیاگیا ہے۔ ہم نے اس وقت مینا کو ان کے فیصلے کے بارے میں بتایاہے۔
جے پور:کانگریس کے ریاستی صدر اور نائب وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اب سچن پائلٹ کا کیا موقف ہوگا؟ اس بارے میں کافی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ ادھر بی جے پی نے کہا ہے کہ سچن پائلٹ کے لئے پارٹی کا دروازہ کھلا ہے۔جب بی جے پی کے راجستھان صدر ستیش پنیا سے پوچھا گیاکہ کیا سچن پائلٹ کے لئے بی جے پی کے دروازے کھلے ہیں؟ اس سوال پر پنیا نے کہا کہ یقینی طور پر مختلف خیالات رکھنے والے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوتے رہے ہیں، کسی بھی تجویز پر غور کیا جائے گا۔ بی جے پی کو کوئی پرہیز نہیں ہے، ہم مرکز کی ہدایات پر عمل کریں گے۔انہوں نے کہاکہ ہماری کوشش ہے کہ اشوک گہلوت کی حکومت جائے، اقلیت کی حکومت ہے، راجستھان کیلئے اچھا نہیں ہوسکتا۔ستیش پنیا نے کہا کہ لوگ اس حکومت سے ناراض اور مایوس ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اسے بچا نہیں سکتی، ہماری ترجیح یہ ہے کہ یہ حکومت اقتدار سے گر جائے، ہم محتاط ہیں، صورت حال کی نگرانی کر رہے ہیں اور اسی کے مطابق حکمت عملی کا فیصلہ کریں گے۔ بتادیں کہ کانگریس نے راجستھان کی اشوک گہلوت حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے پائلٹ کو نائب وزیر اعلی اور ریاستی صدر کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی نے پائلٹ خیمے میں گئے حکومت کے دو وزرا وشوندر سنگھ اور رمیش مینا کو بھی فوری طور پر ہٹا دیا۔
امفال:راجیہ سبھا کی واحد نشست جیتنے کے بعد ، منی پور میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اب ریاست میں حکومت بچانے کی مشق شروع کردی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ، حزب اختلاف کی جماعت کانگریس ایک نیا اتحاد سیکولر پروگریسو فرنٹ (ایس پی ایف) بنانے میں مصروف ہے۔ حکومت کو بچانے کی کوشش کے طور پر ، بی جے پی نے شمال مشرق میں اپنا مسیحا سمجھے جانے والے ہیمنت بسووا شرما کو میدان میں اتارا ہے۔ وہ منی پور کے صدر مقام امفال پہنچا۔ وہ تنہا نہیں ہیں۔ ان کے ہمراہ میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ اوراین پی پی لیڈرکونارڈ سنگمابھی ہیں۔بی جے پی اور این پی پی دونوں جماعتوں سے وابستہ ذرائع نے بتایاہے کہ دونوں لیڈران نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) کی بی جے پی اور منی پور یونٹ کے مابین پائی جانے والی دوری کوختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان اختلافات کے نتیجے میں گذشتہ ہفتے این پی پی کے چار ممبران اسمبلی نے استعفیٰ دے دیاہے۔وزیراعلیٰ بیرن سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی ہے۔تاہم ، این پی پی ذرائع نے بتایاہے کہ سنگما کااختلاف صرف بی جے پی ہی نہیں ہے بلکہ ان کی پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی صورتحال بھی ہے۔ انہیں امیدہے کہ وہ امفال کے دورے کے دوران منی پور یونٹ میں جاری بحران پر قابو پائیں گے۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شرما اور سنگما ایم ایل اے اور پارٹی عہدیداروں کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کریں۔ کہا جارہا ہے کہ سنگماکے اراکین اسمبلی سے حکومت سے حمایت واپس لینے اور کانگریس کے زیرقیادت اتحاد میں شامل ہونے کے فیصلے پر غور ہورہاہے۔
بنگلورو:کرناٹک میں راجیہ سبھا انتخابات کے ذریعے سیاسی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں۔ کانگریس اور جے ڈی ایس مل کر راجیہ سبھاسیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی ، بی جے پی میں بغاوت کے بڑھتے ہوئے آثار کودیکھ کرکانگریس اور جے ڈی ایس باغی رہنماؤں کی واپسی کے لیے سرگرم ہوگئی ہیں۔ کانگریس کے ریاستی صدر ڈی کے شیوکمارنے اس کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی ہے۔ اسی دوران ، کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ اورجے ڈی ایس لیڈر ایچ ڈی کمارسوامی نے کہاہے کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی پارٹی کے لوگ بی جے پی میں گئے ہیں اور انہیں وہاں کچھ نہیں ملے گا۔کرناٹک کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمارپارٹی کی کمان سنبھالتے ہی سرگرم ہوگئے ہیں۔ ڈی کے شیوکمارنے مقامی رہنماؤں سے رابطہ کرنے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی ہے۔ یہ نئی ٹیم ان لیڈران سے رابطہ کرے گی جوکانگریس چھوڑچکے ہیں۔ تاہم ، اہم سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس چھوڑ کربی جے پی میں شامل ہونے والے لیڈران پارٹی میں واپسی میں دلچسپی ظاہر کریں گے۔اسی کے ساتھ ہی ،سابق وزیراعلیٰ اورجے ڈی ایس لیڈرایچ ڈی کمارسوامی نے باغی لیڈروں پرنظرجماناشروع کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جے ڈی ایس چھوڑ کر بی جے پی جانے والے لیڈران کوایک دن پچھتاواہوگا۔ظاہر ہے ، بی جے پی ان لوگوں کو ایم ایل سی ٹکٹ دینے اور انہیں وزیربنانے پرراضی نہیں ہوگی۔
نیپالی سفارت کاروں سے نرم زبان میں کریں بات، وہ ہمارے خونی بھائی ہیں
نئی دہلی:بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی شاید نیپال کی جانب سے مل رہی دھمکیوں سے نمٹنے کے ہندوستان کے طریقوں سے خوش نہیں ہیں۔انہوں نے وزارت خارجہ کے سفارت کاروں کو نیپال کے لئے نرم زبان کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔تاہم، انہوں نے سفارت کاروں کو براہ راست خطاب کرنے سے بچتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ وزارت خارجہ کو یہ مشورہ دیں۔ انہوں نے ٹویٹ کرکے کہاکہ پی ایم کو چاہیے کہ وہ وزارت خارجہ کے سفارت کاروں کو اپنے نیپالی ہم منصبوں کے ساتھ نرم زبان کا استعمال کرنے کو کہیں۔سوامی نے نیپالیوں کو رکت بندھو (خونی بھائی) بتاتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان کے لئے بڑا دل رکھنا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ نیپالی ہمارے چھوٹے بھائی ہیں،اگر نیپالی خود کو الگ تھلگ محسوس کریں تو ہمیں اپنا دل بڑا کرکے ان کی تکلیف سمجھ کر ان کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے۔سوال اٹھتا ہے کہ آخر ڈاکٹر سوامی کو یہ مشورہ دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ اب تک ہندوستان کی جانب سے نیپال کے لئے سخت الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا۔اس کے برعکس نیپال کے وزیر اعظم کے پی اولی نے یہاں تک کہہ دیا کہ کورونا وائرس کا زیادہ خطرہ ہندوستان سے ہے۔اتنا ہی نہیں، نیپال کی حکومت نے نیا نقشہ جاری کرتے ہوئے ہندوستانی علاقوں کو اپنی حد میں بتا دیا۔
نئی دہلی:بی جے پی صدر جے پی نڈا نے اورنگ آباد میں مال گاڑی کی زد میں آنے سے مزدوروں کی موت پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حادثے سے انتہائی افسردہ ہیں اور اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع میں ریل کی پٹریوں پر سو رہے کم از کم 14 مہاجر مزدوروں کی جمعہ کی صبح ایک مال گاڑی کی زد میں آنے سے موت ہو گئی۔نڈا نے کہاکہ مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں المناک ٹرین حادثے کے بارے میں جان کر دکھی ہوں جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔بی جے پی صدر نے کہا کہ انہوں نے پارٹی کارکنوں سے تمام طبی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے انتظامیہ کو امدادی کام میں شامل ہونے اور مکمل تعاون دینے کو کہا ہے۔وہ اس واقعہ پر تعزیت ظاہر کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت مند ہونے کے متمنی ہیں۔
نئی دہلی:ملک میں جاری کورونا بحران کے درمیان ، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے پیرکواعلان کیاہے کہ کانگریس پارٹی ملک بھر میں پھنسے مزدوروں کی واپسی کے لیے ریل سفر کے اخراجات برداشت کرے گی۔ کانگریس نے ٹویٹ کیا ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس نے فیصلہ کیا ہے کہ ریاستی کانگریس کمیٹی کی ہر یونٹ ہر ضرورتمند مزدور کے وطن لوٹنے کے لیے ٹرین کے سفر کا خرچ اٹھائے گی اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرے گی۔سونیا گاندھی کی اس پیش کش کے بعد حکومت کی طرف سے ردعمل سامنے آیا ہے۔ حکومت کے اعلیٰ ذرائع کے ذریعہ اس کی تردید کی اور تبصرہ کیا کہ ہم ہندوستان کے دیہات کواٹلی نہیں بننے دیناچاہتے ہیں۔بے بنیاد اعلانات حزب اختلاف کی مدد کرسکتے ہیں ، لیکن لوگوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے حکومت کومناسب طریقہ کار کو یقینی بنانا ہوگا اور پورے احتساب کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔مزدوروں سے کرایہ وصولی کے مسئلے پرسرکارپوری طرح گھرگئی ہے تواس طرح کامنفی اورغیرسنجیدہ جواب دیاجارہاہے ۔اپوزیشن کاالزام ہے کہ اس کے مخلصانہ مشوروں جیسے فضول اخراجات میں تخفیف وغیرہ پرسرکارتوجہ نہیں دے رہی ہے۔بلکہ عوام سے وصولی کی جارہی ہے یہاں تک کہ ملازمین کی تنخواہ کاٹی جارہی ہے۔
میرٹھ:اتر پردیش کے میرٹھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی لیڈروں کو ہوم کورنٹائن کو لے کر نوٹس بھیجا گیا ہے۔ موجودہ کونسلر، سابق کونسلر سمیت شہر کے 76 پارٹی لیڈروں کو کوارنٹائن کا نوٹس ملا ہے۔ دراصل ایک بی جے پی لیڈر کے والد اور بھائی کی کرونا وائرس کی رپورٹ مثبت آنے کے بعد یہ کارروائی کی گئی ہے۔ اس دوران نوٹس دینے میں بھی محکمہ صحت کی غفلت سامنے آئی ہے۔ کیس کے انکشاف کے 10 دن بعد بی جے پی لیڈروں کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔واضح رہے کہ اتر پردیش میں کرونا وائرسکے سب سے زیادہ کیس آگرہ میں سامنے آئے ہیں۔گزشتہ جمعرات کوکرونا وائرس کے 22 نئے کیس سامنے آئے، جس سے یہاں ان کی کل تعداد بڑھ کر 455 ہو گئی۔ ان میں سے 14 لوگوں کی موت ہو چکی ہے، وہیں 98 مریض ٹھیک ہو کر گھر لوٹ چکے ہیں۔ محکمہ صحت کے حکام نے یہ معلومات دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جو نئے کیس سامنے آئے ہیں، وہ قریبی شخص سے انفیکشن کا شکار ہوئے ہیں۔ گزشتہ بدھ کوایک پولیس اہلکار کے متاثر ہونے کی تصدیق ہونے کے بعد ان کے ساتھ کے تین دیگر سپاہیوں اور قریبی لوگوں الگ جگہ میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس دوران آگرہ کے 11 ہاٹ اسپاٹ علاقے اب گرین زون میں شامل ہو گئے ہیں۔ گرین زون میں عام لاک ڈاؤن کے قوانین نافذرہیں گے۔11ہاٹ اسپاٹ علاقوں میں گزشتہ 28 دن میں کوئی نیا معاملہ سامنے نہیں آنے پر یہ ہہاٹ اسپاٹ علاقہ اب گرین زون میں بدل گیا۔ریاست میں گزشتہ جمعرات کو کرونا وائرس سے متاثر ہ افراد کی تعداد 2211 ہو گئی تھی۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ہدایت کی ہے کہ تقریبا 10 لاکھ لوگوں کے لئے فوری طور پر الگ مرکزتیار کئے جائیں، جہاں آنے والے مہاجر مزدوروں کو فوری طور پر رکھا جا سکے۔ محکمہ صحت کی جانب سے گزشتہ شام جاری بلیٹن میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہ افراد کی تعداد 2211 ہے اورتک کل 77 نئے کیس سامنے آئے۔
لکھنؤ: بی جے پی نے اتر پردیش کے دو ممبران اسمبلی کو وجہ بتاو نوٹس جاری کیا ہے۔ اس میں ایک ممبر اسمبلی کا نام سریش تیواری ہے۔ وہیں دوسرے رکن اسمبلی کا نام شیام پرکاش ہے۔ سریش تیواری کو مبینہ طور پر مسلم خریداروں سے سبزی نہیں خریدنے کی بات کو لے کر نوٹس جاری کیا گیا ہے۔وہیں شیام پرکاش ہردوئی طبی انتظامیہ پر طبی آلات کی خریداری میں کرپشن کے الزام لگانے کے لئے منگل کو وجہ بتاو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا گیا۔ اتر پردیش میں بی جے پی کے میڈیا انچارج منیش دکشت نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ممبران اسمبلی کا طرز عمل پارٹی کی پالیسی کے برعکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممبران اسمبلی سے ایک ہفتے میں جواب مانگا گیا ہے۔سرکاری ذرائع نے کہا کہ پارٹی کی اعلی قیادت نے ان کے تبصرے کو ‘انتہائی غیر ذمہ دارانہ پایا۔ پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا نے تبصرہ پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اس طرح کے تبصرے کو برداشت نہیں کرے گی اور پارٹی رہنمائوں کو اس طرح کا بیان نہیں دینا چاہئے۔ذرائع نے بتایا کہ نڈا نے اتر پردیش کی ریاست بی جے پی سربراہ آزاد دیو سنگھ سے بات کی اور ان سے تیواری کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا۔ ممبر اسمبلی سے ایک ہفتے کے اندر جواب بھیجنے کے لیے کہا گیا ہے۔تیواری کو عوام سے مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے کیمرے میں قید کیا گیا ہے کہ وہ مسلم دکانداروں سے سبزی نہیں خریدیں۔ سوشل میڈیا پر ممبر اسمبلی کا ویڈیو منگل کی صبح وائرل ہو گیا۔وہیں پیر کو ہردوئی کے گوپامئو سے بی جے پی ممبر اسمبلی شیام پرکاش نے اپنی فنڈ سے کرونا کی ادویات اور ماسک وغیرہ کے لئے دی گئی 25 لاکھ روپے کی رقم واپس دیئے جانے کا مطالبہ کیا۔ ممبر اسمبلی کا الزام تھا کہ ان کے پیسے کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
منصوبہ سوسال قبل بنا اس پر یکسوئی کے ساتھ عمل ہوتا رہا کبھی سامنے آکر کبھی پردے کے پیچھے رہ کر کبھی خود علم نفرت بلند کر کے تو کبھی مسند اقتدار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز اس مخصوص فکر سے متفق، ہمدرد اور بہی خواہوں کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر اپنا مشن آگے بڑھاتے رہے تا آنکہ خود اس حیثیت کے ہو گئے کہ ملک کے تانے بانے کے رنگ کیسے ہوں گے اس کےلئے بھی اس مخصوص فکری تنظیم کی رضامندی اعلانیہ یا پس پردہ لازمی ہو گئی۔
ہم اس حقیقت اور آج کے حالات پر اس اینگل سے غور و فکر کریں گے تو مستقبل کے لئے لائحۂ عمل بنانے کی سوچیں گے۔ جذباتی باتوں سے پرہیز کریں گے اور حقیقت پسندی اور عملی راہ تلاش کریں گے۔ جذبات کی رو میں بہہ کر ایسا تأثر نہ دیں کہ آپ کا اعتماد ہندوستان کی تہذیب اور اس ملک کے دستور پر نہیں رہا۔ آخر دم تک اس ملک کی تہذیب رواداری اور قابل احترام دستور کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھنا ہے۔ قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے اپنے ساتھ مذہب کی بنیاد پر ہر قسم کی مذہبی، معاشی اور سماجی تفریق اور امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھانی ہے۔ ایک مخصوص فکر کی کوشش جو بھی ہو ملک کا دستور ہم سب کے لئے یکساں ہے۔
حالیہ وبا کورونا وائرس جو ایک مہلک متعدی مرض ہے جس نے دنیا کے بیشتر ممالک کے باشندوں کو بلا تفریق رنگ،نسل، مذہب ،مسلک، خطہ ارضی، موحد مشرک خدا کو کسی نام سے پکارنے والے خداپرست یا خدا کے منکر دہریے اور ملحد، کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے،اس کے بارے میں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک کے فرقہ پرستوں کو اس کی سمجھ نہیں اور وہ نادانی کی بنا پر اس وبا اور مرض کو مسلمانوں سے ربط کر کے دیکھ رہے ہیں تو آپ یا تو سادہ لوح ہیں یا بہت بڑی غلط فہمی کے شکار ہیں۔ ہمارے ملک کیا،پوری دنیا میں عالمی ذرائع ابلاغ اینڈرایڈ موبائل نیٹ کنکشن کے ساتھ ہر شخص کی ہتھیلی میں ہے اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لوگ جہالت کی وجہ سے بعض مقامات پر مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ” گودی میڈیا” کی کرتوت ہے کہ اس نے اس عالمی وبا کو ہندوستان میں ہندو مسلم کا رنگ دیا اور دو فرقوں کے مابین نفرت پھیلانے کا کام کیا تو یہ بھی آپ کی سادہ لوحی ہے۔ ان دنوں میڈیا (بعض کے استثناکے ساتھ) خود مختار نہیں ہے کہ غیر جانبداری کے ساتھ واقعات کو معروضی انداز میں پیش کرے۔ اس کے ہینڈل کسی اور کے پاس ہوتے ہیں کیا چلانا ہے کیا ایجنڈا ہے کس بات کو فوکس کرنا ہے یہ سب کوئی اور طے کرتا ہے اسی لئے اس طرح کے تقریباً ہر چینلز پر ڈیبیٹ کا موضوع اور خبروں کا فوکس اسی ایجنڈے پر مرکوز ہوتا ہے۔ اس لئے ہر مسئلے کے لئے میڈیا کو ذمے دار ماننا میڈیا کو لعن طعن کرنا اینکرز کو کوسنا بند کریں وہ اپنی اخلاقی یا غیر اخلاقی ” ڈیوٹی” دے رہے ہیں۔ یہ تو شکر ہے سوشل میڈیا کا اور ان کم سرمایہ والے نیوز پورٹل کا جن کی وجہ سے نہ صرف صحیح باتیں ، مین اسٹریم چینلز کی طرح فی الفور لائیو نہیں قدرے تاخیر سے سہی ، لوگوں تک پہنچتی ہیں، مبنی برحقیقت اور دروغ گوئی فیک نیوز کی جانچ کے لئے بھی الٹ نیوز وغیرہ ویب سائٹس ہیں۔
ان کی افادیت سے انکار نہیں ہے تاہم ایک تو یہ کہ ان کی پہنچ محدود ہے عام مین اسٹریم چینلز کی طرح جو 24/7 "مان نہ مان میں تیرا مہمان ” کی طرح ہر گھر میں ہر فرد کو بغیر کسی زحمت میسر نہیں ہے اس لئے کہ دوسرے نیوز ویوز پورٹل اور یو ٹیوب چینلز کے لئے تھوڑی بہت زحمت کرنی پڑتی ہے اور 24/7 نہیں ہوتے۔ ان ہی حقائق کے پیش نظر کہنا پڑتا ہے کہ اپنا اردو ہندی اور انگریزی زبانوں میں اخبار اور خواہ ابتداء میں چند گھنٹوں کے لئے ہی سہی اپنا چینل ہونا ضروری ہے تاکہ ہم اپنا دفاع کر سکیں جھوٹ کا پردہ چاک کر سکیں اور اخبار و چینل کو اسلام اور مسلمان کا لبادہ اوڑھاۓ بغیر اس کی مصداقیت اتنا عام کر سکیں کہ لوگوں کو سچ جاننے اور سننے کے لئے یہ اخبار اور چینل ناگزیر بن جائیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی :بی جے پی صدر جے پی نڈا نے پارٹی کارکنوں سے آئندہ 14 اپریل کوآئین ساز ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے یوم پیدائش کے موقع پر اپنے حلقے میں غریبوں میں راشن اور ماسک تقسیم کرنے کوکہا ہے۔اتوارکے روز بی جے پی کارکنوں کو جاری ایک پیغام میں ، نڈانے بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں پارٹی کے ریاستی صدوروں اور وزرائے اعلیٰ سے بھی کہا ہے کہ وہ امبیڈکرکے یوم پیدائش پر پارٹی کارکنوں کو ویڈیو پیغام بھیجیں ، جس میں ان سے اپیل ہے کہ وہ غریبوں میں راشن اور ماسک تقسیم کریں۔نڈا نے کہاہے کہ پارٹی کارکن 14 اپریل کو اپنے گھر میں امبیڈکر کی تصویرپرگلہائے عقیدت پیش کریںاوراسے سوشل میڈیا پرشیئرکریں۔ اسی کے ساتھ ، تمام کارکنوں کو بھی آئین کے نظریات پر عمل کرنے اور کورونا کے خلاف جنگ میں حکومت کی ہدایت پر عمل کرنے کا حلف اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے کہاہے کہ کارکنان آئین ، معاشرتی مساوات اور ہم آہنگی کے بارے میں ڈاکٹر امبیڈکر کے خیالات پربھی مضمون لکھیں۔انہوں نے پارٹی کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ کورونا وائرس کے انفیکشن کو روکنے کے لیے’معاشرتی فاصلے پر عمل کرتے ہوئے اپنے علاقے کی غریب بستیوں میں راشن اور ماسک تقسیم کریں۔ نڈانے بھی اس کام میں صفائی ستھرائی کے معیارات کی تعمیل کو یقینی بنانے کی اپیل کی۔انہوں نے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سے مطالبہ کیا کہ وہ گندی کالونیوں میں مہم چلائیں تاکہ لوگوں کو کورونا وائرس کے انفیکشن سے آگاہ کیا جاسکے۔ بی جے پی صدر نے کہا کہ پارٹی لیڈران اور کارکنان کو کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں مرکزی حکومت کی کوششوں کے بارے میں زمینی سطح پر لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے
آج سے تقریباً پانچ سال قبل اردو صحافت کے میرے مرشد اور ہفت روزہ ھجوم کے چیف ایڈیٹر مرحوم جاوید حبیب صاحب کی خدمات پر معصوم مرادآبادی کی کتاب ” ہجوم سے تنہائی تک” کی رسم اجراء کے موقع پر مشہور صحافی اور یونائٹڈ کنگڈم میں ہندوستان کے سابق ہائ کمشنر (سفیر) آنجہانی کلدیپ نائر نے ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ "جب غیر متعصب لبرل ہندو اقلیتوں کے مسائل پر آواز اٹھاتے ہیں تو اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے اندر احساس تحفظ Sense of Security فروغ پاتا ہے۔ بدقسمتی سے پچھلے کچھ مہینوں سے یہ آوازیں ابھر کر نہیں ا رہی ہیں، ان کو دبا دی جاتی ہیں یا ہم جیسے صحافیوں اور دانشور طبقہ کو مین اسٹریم میڈیا میں اسپیس نہیں دیا جاتا۔”
یہ کہنا آسان ہے کہ مسلمان ہر وقت مظلومیت Victim Hood کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن زمینی حقیقت کا یہ ایک رخ ہے اور وہ بھی مبالغہ پر مبنی ہے۔ دوسرا تکلیف دہ رخ یہ بھی ہے کہ پچھلے پانچ چھ سالوں میں بتدریج ایسا میکانزم ڈیولپ ہوا ہے کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جائز شکایات اور مسائل پر بولنا ٢٠١٤ سے قبل کانگریس دور میں حکومت کو ” اقلیت نوازی Minority Appeasement کا طعنہ دیا جاتا تھا اور اب اسے دیش دروہ کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں تبلیغی جماعت کے جلسے اور کورونا وائرس کے تناظر میں میڈیا نے تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گرچہ بعد میں ریاستی حکومتوں نے اور گزشتہ کل یا پرسوں مرکزی حکومت نے تنبیہ کی ہے کہ اس وباء کو پھیلانے کا الزام کسی مخصوص فرقہ کو نہیں بنایا جائے، پھر بھی میڈیا اور بی جے پی کے بعض لیڈر اس تنبیہ کی ان سنی کر رہے ہیں فیک نیوز اور تصاویر ویڈیو کلپ چلا کر ڈیبیٹ کرا رہے ہیں حالانکہ الٹ نیوز پورٹل نے فیکٹ فائنڈنگ کے تحت ان خبروں کو فیک غلط بتایا ہے۔ صحافت کے اصول کے تحت ان نیوز ایجنسیوں اور چینلز کو نشر کرنے سے پہلے تحقیق کرنا چاہیے تھا مگر خود چھان بین کی اور نہ ہی الٹ نیوز کی تحقیق کو قابل اعتناء سمجھا۔ جب سوشل میڈیا پر کئی پورٹل نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کیا تو بھی ان کے ڈیبیٹ کی سوئی اسی جگہ اٹکی ہوئی ہے ہاں بعض چینلز نے یہ اضافہ کیا ہے ” یہ کیا ہو رہا ہے” لیکن زبان اور لہجہ وہی ہے اور یہی تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہندوستان میں اس وباء کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ تبلیغی جماعت ہے۔
تبلیغی جماعت نے ایسے وقت میں بین الاقوامی اجتماع کرنے کی غلطی کی جس کا اگر مگر سے کوئی جواز justification نہیں پیش کر رہا ہوں ان کے ایسے افراد کو خود رضاکارانہ طور پر جانچ کے لئے پیش کرنا چاہیے تھا۔
تاہم میڈیا کو یہ سوال کرنا چاہئے کہ ایسے حالات میں ان غیر ملکی تبلیغیوں کو ویزا کیوں دیا گیا؟ وبائی شکل اختیار کرنے سے پہلے ان کو ملک سے باہر کیوں نہیں بھیجا گیا؟ جو مقامی تبلیغی جماعت کے افراد اجتماع میں شریک ہوئے ان کو فوری طور پر Isolation Center میں کیوں نہیں رکھا گیا؟ جماعت والوں نے سفر کی اجازت مانگی تو کیوں نہیں دی گئی؟
لیکن ان سب میں سب سے زیادہ تکلیف دہ اور قابل مذمت میڈیا کا کردار ہے ، جس نے مصیبت کی گھڑی میں جب پورے ملک کو اس وباء کو پھیلنے سے روکنے میں متحد ہوکر کام کرنا ہے، پورے ملک میں ہندو مسلم تفریق اور نفرت کی ایسی فضا بنائی کہ بعض مقامات پر، شہر گاؤں اور دیہات تک میں، ایک قسم کا مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ ہونے لگا بعض کالونیوں میں سڑکیں بند کر دی گئیں اور بورڈ آویزاں کر دیا گیا کہ مسلمان اس طرف سےنہ گزریں۔ اس بیچ اچھی خبر یہ ہے کہ انتظامیہ نے اطلاع ملتے ہی پولیس کو چاق و چوبند کیا اور پولیس نے اپنی موجودگی میں راستوں سے بیریکیڈ ہٹوایا۔ یہ بھی راحت رساں ہے کہ پولیس محکمہ کے سینیئر افسران نے فیک نیوز چلانے والے ایجنسیوں اور چینلز کو بتایا کہ ان کی خبریں مبنی بر حقیقت نہیں ہیں۔لیکن آگ تو لگ چکی تھی نفرت پھیل چکی تھی اس پر عمل درآمد ہونے لگا تھا تو کیا چینلز کی اس طرح کی غیر اخلاقی اور غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کے لئے کوئی جوابدہی طے کی جائے گی ؟ کسی قسم کی سرزنش ہوگی؟ نام نہاد سیکولر پارٹیوں اور لبرلز دانشوروں کی طرف سے خاموشی یہ تاثر دیتی ہے کہ ہر شخص یا تو سہما ہوا ہے یا سماج کے یک رنگی بننے پر پس پردہ راضی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
کرشن کانت جھا
ترجمہ: محمدتوصیف
بی جے پی نے نوٹ بندی کے بعد محض دو سال کے اندر چھ سو سے زائد نئی عالیشان پارٹی آفس کی عمارتیں تعمیر کیں۔ پورے ملک کے ایک سو پینتیس کروڑ لوگوں کے لئے کتنے ہسپتال بنے؟ بچوں کے لئے کتنے اسکول بنے؟ نوجوانوں کے لئے کتنی یونیورسٹیز بنیں؟یہ سوال کرنے والوں کو ‘دیش دروہی’ کی صف میں ڈال دیا گیا تھا۔
آج کوئی بھی یہ صاف صاف نہیں بتا پا رہا ہے کہ ملک میں نہ تو اچھے ہسپتال ہیں، نہ ان ہسپتالوں میں معقول انتظامات۔ دیہی ہندوستان کی تین فیصد آبادی کو بھی اگر ہسپتال میں بستر کی ضرورت پڑ گئی تو وہ دستیاب نہیں ہے۔
بی جے پی کے نئے دفتروں میں دہلی کی وہ عالیشان عمارت بھی شامل ہے جو پارٹی کا نیا ہیڈ کوارٹر ہے۔ تب رویش کمار نے بی جے پی کو ‘بہومنزلہ جنتا پارٹی’ لکھا تھا۔ میڈیا میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ نہ ہی یہ سوال کرنا مناسب سمجھا گیا کہ ملک بھر میں سیکڑوں عالیشان عمارتیں کیسے بنوائی گئیں؟ اتنی رقم کہاں سے آئی؟ نہ یہ سوال پوچھا گیا کہ اپنے لئے دفتر تو بنوا لیےگئے لیکن ہسپتال کتنے بنے؟
یہ اسی وقت کی بات ہے جب اتر پردیش کے گورکھ پور میں آکسیجن کی کمی کے سبب درجنوں بچے ہلاک ہو گئے تھے۔
رویش کمار نے ۳۰ مارچ ۲۰۱۹ کو لکھا تھا کہ بی جے پی نے ۶؍اپریل کو اتر پردیش میں ۵۱ نئے دفتروں کا افتتاح کیا ہے۔ کل ۷۱ ضلعوں میں نئے دفتر بنائے گئے۔ این ڈی ٹی وی نے پرائم ٹائم میں فیض آباد، متھرا، شراوستی، بلند شہر، میرٹھ، اور فیروز آباد کے نئے دفتروں کی تصویریں بھی دکھائی تھیں ۔ سارے دفتر نئی خریدی گئی زمینوں پر بنائے گئے تھے۔
‘بھویہ رام مندر’ بنانے کے نعروں کے بیچ ‘بھویہ پارٹی آفس’ بنا دیے گئے۔ مندر آئندہ انتخاب کا انتظار کر رہا ہے۔
۲۰۱۵؍ میں ‘لائیو منٹ’ کی ایک رپورٹ میں یہ منکشف ہوا کہ بی جے پی دو سال کے اندر اندر ۶۳۰ ضلعوں میں نئے دفتر بنائےگی۔ اب تک ۲۸۰ ضلعوں میں ہی دفتر تھے۔ باقی کرایے کے کمروں میں چل رہے تھے، یا نہیں تھے۔ محض دو سال میں اس جادوئی ہدف کو حاصل کر لیا گیا۔ اور ۶۳۰ نئے دفتر بن کر تیار ہو گئے۔
۲۰۱۴؍ کے عام انتخاب میں ‘ایمس’ جیسے کئی ہسپتال کا وعدہ تھا، آج تک وہ وعدہ ہی ہے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ گزشتہ چھ سالوں میں کہیں، کسی قومی سطح کے ہسپتال کی شروعات بھی ہوئی ہو۔
” دہلی میں جب بھاجپا کا صدر دفتر بنا تو کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس پر کتنا پیسہ خرچ کیا گیا۔ دو ایکڑ زمین پر سات منزلہ دفتر بن کر تیار ہو گیا اور اسے اندر سے کسی نے دیکھا تک نہیں۔ مطلب میڈیا نے دفتر کے اندر کی شان و شوکت کو عام لوگوں اور بی جے پی کے ہی کارکنوں کو دکھایا تک نہیں..! دہلی کےاس عالیشان دفتر میں ۳ منزلہ عمارتوں والے مزید دو بلاک ہیں۔ کسی چینل نے اس کی رپورٹنگ نہیں کی۔ اجازت ہی نہیں ملی ہوگی۔”
"مدھیہ پردیش کے ۵۱؍ اضلاع میں نئے دفتر بنے۔ چھتیس گڑھ میں ۲۷ اضلاع میں۔ صرف تین صوبوں میں ہی نئے عالیشان پارٹی آفس کی تعداد سو سے زائد ہے۔ در اصل بی جے پی کے اندر ایک قسم کی ‘ریئل اسٹیٹ کمپنی’ چل رہی ہے۔ اور یہی چیز ہے جو بی جے پی کے کارکنوں اور حامیوں کو جاننا چاہئے۔ نوٹ بندی سے ٹھیک پہلے بی جے پی نے ملک بھر کے لاتعداد اضلاع میں زمینیں خریدی تھیں ۔ بہار میں کئی مقامات پر تو نقد پیسوں پر زمینیں حاصل کی گئیں۔”
کیا یہ جاننے لائق نہیں ہے کہ آخر بی جے پی کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟ یہ پارٹی ملک کے مسائل نمٹانے کے لئے کبھی آر بی آئی سے وصول کرتی ہے، تو کبھی عوام سے۔ ملک میں کورونا کی مصیبت آئی ہے تو پردھان منتری نے ‘راشٹریہ راحت کوش’ ہونے کے باوجود ایک نیا کوش یعنی اکاؤنٹ بنا دیا ہے، اور اس میں پیسہ ڈالنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ جبکہ ابتدائی ضروری انتظامات تک نہیں کئے گئے ہیں۔ خود ڈاکٹروں نے بنیادی انتظامات میں کمی کی شکایت کی ہے۔”
اگر سرکار کا خزانہ خالی ہی ہے تو سرکار میں بیٹھی پارٹی نے سیکڑوں دفاتر کیسے تعمیر کر لئے؟ یہ پیسے کہاں سے آئے؟ دفتر بنے تو بنے، پارٹی نے کتنے صوبوں میں ہسپتال بنوایا؟ کتنے اسکول بنے؟ کتنی یونیورسٹیز بنیں؟
جہاں ایک ہسپتال بنانا محال ہے وہاں چھ سو نئے دفاتر کیسے بنے ہونگے؟ آپ کہیں گے کہ کارپوریٹ چندے کا نوے فیصدی حصہ بی جے پی کو ہی ملا، تو آپ کو ہر مہینے ہونے والی درجنوں ریلیوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ پچاس پچاس کروڑ کی ریلیاں موضوع بحث رہی ہیں۔
اس بابت میڈیا میں نہ کے برابر چھپا۔ رویش کمار نے لکھا تھا: ” آپ کسی ایسی پارٹی کو جانتے ہیں جس نےدو سال سے کم کی مدت میں سینکڑوں نئے دفاتر بنا لئے ہوں؟ ہندوستان میں ایک سیاسی جماعت ان دس سالوں میں کئی سو عالیشان پارٹی آفس بنا رہی تھی، اس کی نہ تو کوئی خبر ہے نہ کوئی وضاحت۔ کئی سو دفتروں کی تصاویر ایک جگہ رکھ کر دیکھئے، آپ کو سیاست کا نیا چہرہ نہیں بلکہ وہ چہرہ دکھائی دےگا جس کے متعلق آپ کم جانتے ہیں۔” (کم کیا، جانتے ہی نہیں ہیں۔)
عوام کو ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ کا نعرہ دیا گیا۔ لیکن یہاں ‘ سب کا ساتھ ہمارا وکاس’ ہو رہا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
سندھیا کا کیس کھولنے والے اے ڈی جی کوہٹایاگیا
بھوپال:وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے اپنی کابینہ کی تشکیل بھی ٹال دی ہے ۔صحت سے منسلک حالات بہتر ہو جاتے ہیں توکابینہ کی تشکیل اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہوسکتی ہے۔پہلی بار میں ہی کانگریس سے بی جے پی میں جانے والے 22 میں سے نوباغیوںکوکابینہ میں جگہ ملے گی۔ ان میں چھ سندھیاحامی ہیں۔ دوسری طرف سندھیا کا کیس کھولنے والے اے ڈی جی کومعطل کر دیاگیاہے۔شیوراج کی ٹیم 24 سے 26 لوگوں کی بنے گی،جن میں 6 سے 8 وزرائے مملکت ہوسکتے ہیں۔اگرچہ شیوراج سنگھ کے سامنے یہ چیلنج ہوگاکہ وہ اپنے لوگوں میں سے کسے شامل کرتے ہیں۔گزشتہ اسمبلی انتخابات میں تقریباََ13 وزیر الیکشن ہارگئے، جبکہ کچھ کو ٹکٹ ہی نہیں ملا۔اس بار جگدیش دیوڑا، اجے وشنوی، کرن سنگھ ورما، کمل پٹیل، مینا سنگھ، برجیدرپرتاپ سنگھ، ہری شنکر اورگوپال جاٹوالیکشن جیت کر آئے ہیں۔یہ وزیر رہ چکے ہیں۔ان کے علاوہ ایسے بھی دعویدارہیں، جوتین یا چار باررکن اسمبلی بن گئے ہیں۔تین دلتوں کی وجہ سے بھی مساوات بگڑسکتی ہے۔کانگریس سے بی جے پی میں آنے والے تلسی رام سلاوٹ، امرتی دیوی اور پربھرام چودھری تینوں دلت ہیں۔ انہیں ایک ساتھ کابینہ میں جگہ دی جاتی ہے تو قبائلی کوبھی جگہ دینی ہوگی۔ریاستی حکومت نے اقتصادی جرائم ریسرچ بیوروکے ڈائریکٹر جنرل سشوبھن بنرجی کوہٹا کر انہیں اے ڈی جی ساگربنایاہے۔ ان کی جگہ اے ڈی جی سی آئی ڈی راجیو ٹنڈن کوانچارج ڈائریکٹر جنرل بنایا گیاہے۔ حکومت کے افسراے ڈی جی بھوپال کٹیار کو اے ڈی جی انٹیلی جنس کی اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔جیوتی رادتیہ سندھیا کے بی جے پی کا دامن تھامنے کے ساتھ ہی دوبارہ تحقیقات شروع کر دی تھی۔ اس جانچ کے لیے ایک ہفتے بعدہی انھیں ہٹایاگیاہے۔تبھی سے بنرجی کا سکڑ طے ماناجا رہا تھا۔اوپیندر جین بھی حکومت کے قریبی مانے جاتے ہیں۔
چار مہینے پہلے ریٹائر ہونے والے (سابق چیف جسٹس) رنجن گوگوئی کو حکومت کی سفارش پر صدر جمہوریہ رام ناتھ کوونڈ نے خصوصی زمرہ سے راجیہ سبھا کے لئے نامزد کرکے علی الاعلان یہ واضح کردیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ بھیانک نا انصافی کرنے کا ‘صلہ’ دینے میں حکومت کو کوئی عار نہیں ہے۔ رنجن گوگوئی نے بھی اس صلہ کو بعجلت تمام قبول کرنے میں کوئی عار نہیں دکھائی ۔
آزاد ہندوستان میں ایسی کھُلی ناانصافی اور ایسی کھلی بے حیائی کا واقعہ شاید پہلے کبھی رونما نہیں ہوا۔عدلیہ کی معتبریت کو جو زَک پہنچی اس کی تلافی اب دہائیوں تک نہ ہوسکے گی۔نا انصافی کا جو بیج رنجن گوگوئی نے بودیا ہے اس کی بیخ کنی آسانی سے نہ ہوسکے گی۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس زمرہ میں رنجن گوگوئی کو نامزد کیا گیا اس زمرہ میں ادب’ صحافت’ کھیل اور فلم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے کے اعتراف کے طور پر شخصیات کو راجیہ سبھا میں بھیجا جاتا ہے۔ جاوید اختر’ شبانہ اعظمی’ ریکھا’ سچن تیندولکر وغیرہ کو اسی زمرہ سے راجیہ سبھا کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔۔ مگر گوگوئی نے ان میدانوں میں سے کسی میدان میں کوئی نمایاں خدمت انجام نہیں دی۔۔۔ اگر بالفرض محال جوڈیشیری میں انہوں نے کچھ کارکردگی دکھائی بھی تو بھی انہوں نے یہ خدمت مفت انجام نہیں دی بلکہ ملکی خزانے سے اس کی تنخواہ لی۔وہ ملک کے ملازم تھے۔۔۔ انہوں نے ملک پر کوئی احسان نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے متنازعہ اور غیر منصفانہ فیصلوں سے ملک کی نیک نامی میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا۔
رنجن گوگوئی سپریم کورٹ کے ان چار ججوں میں شامل تھے جنہوں نے 12 جنوری 2018 کو ایک پریس کانفرنس کرکے کہا تھا کہ جمہوریت خطرہ میں ہے۔انہوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا پر الزام لگایا تھا کہ وہ اہم مقدمات میں بنچز کی تشکیل کے وقت سینئر ججوں سے مشورہ نہیں کرتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے ججوں کی تقرری کے لئے جو میمورنڈم آف پروسیجر بنایا تھا اسے حکومت نے ابھی تک کلیر نہیں کیا ہے۔جسٹس دیپک مشرا ہر حال اپنے رویہ پر قائم رہے اور کم وبیش 9 ماہ بعد ریٹائر ہوگئے ۔
3 اکتوبر 2018 کو رنجن گوگوئی چیف جسٹس بن گئے ۔۔ 12 جنوری 2019 کو Kewin James نے جائزہ لے کر بتایا کہ رنجن گوگوئی کے چیف جسٹس بننے کے بعد بھی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور رنجن گوگوئی بھی دیپک مشرا کے اسی نقش قدم پر قائم رہے جس کے خلاف وہ میڈیا کے سامنے آئے تھے۔
رنجن گوگوئی نے اپنے فیصلوں سے حکومت کی نہیں بلکہ بی جے پی کی خدمت کی۔حکومت کا کام نا انصافی نہیں ہے۔حکومت کی کوئی امتیازی آئیڈیالوجی نہیں ہوتی۔ گوگوئی نے اپنے فیصلوں سے بی جے پی کی متعصبانہ آئیڈیالوجی کے مطابق اپنے فیصلوں سے اسے راحت پہنچائی۔ انہوں نے نہ صرف اپوزیشن کے تمام خدشات اور اپیلوں کو مسترد کردیا بلکہ مظلوم فریقوں کو بھی کوئی انصاف فراہم نہیں کیا۔
انہوں نے (1) رافیل کی مہنگی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کے مطالبہ کو مسترد کردیا۔(2) انہوں نے سہراب الدین کے انکاؤنٹر کی سماعت کرنے والے جج کے پُراسرار قتل کی تحقیقات کے مطالبہ کو مسترد کردیا ۔ (3) انہوں نے کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس سلسلے میں دائر ہونے والی پٹیشنوں پر سماعت میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ (4) انہوں نے ہی NRC کا بیج بویا تھا اور آسام میں دسمبر 2014 سے اگست 2019 تک این آر سی کے عمل کی نگرانی کی۔اور (5) انہوں نے ہی تمام ثبوت وشواہد ہونے کے باوجود شہید بابری مسجد کو رام مندر کی تعمیر کے لئے متشدد عناصر کے حوالے کردیا۔
صدر جمہوریہ اس سوال سے نہیں بچ سکتے کہ انہوں نے آخر گوگوئی کو ان کی کس ادبی’ فلمی یا کھیل خدمت کے عوض راجیہ سبھا کے لئے نامزد کیا۔گوگوئی دوران سماعت خود اس خیال کا کئی بار اظہار کرچکے تھے کہ ججز کو سبکدوشی کے بعد کوئی سرکاری پوسٹ یا صلہ قبول نہیں کرنا چاہئے ۔ انہوں نے جب راجیہ سبھا میں حلف لیا تو تمام اپوزیشن نے Shame, shame کے نعرے لگاکر واک آؤٹ کیا۔۔۔ رنجن گوگوئی نے اپنی تو بے عزتی کرائی ہی خود عدلیہ کے وقار کو بھی مٹی میں ملوادیا۔ ان کے اس عمل کی خود ان کے ساتھی ججوں جسٹس کورین جوزف’ جسٹس جے چلمیشور اور جسٹس مدن بی لوکور نے بھی سخت الفاظ میں مذمت کی۔۔۔ جسٹس اے کے پٹنایک نے اسے عدلیہ پر شرمناک دھبہ قرار دیا۔
بی جے پی کہتی ہے کہ کانگریس بھی یہ کام کرتی رہی ہے ۔۔۔ مجھے کانگریس کا دفاع مقصود نہیں ۔۔۔ لیکن کانگریس نے جسٹس رنگناتھ مشرا کو 1991 میں ہونے والی ان کی سبکدوشی کے سات سال بعد 1998 میں پہلے کانگریس میں شامل کیا اور پھر انہیں ٹکٹ دیا۔۔۔ وہ باقاعدہ الیکشن میں جیت کر راجیہ سبھا پہنچے۔کانگریس نے انہیں اپنے کوٹے سے ممبر بنایا سرکاری کوٹے سے نہیں ۔اسی طرح جسٹس فاطمہ بی کو سبکدوشی کے 6 سال بعد گورنر بنایا۔اور اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کانگریس نے ان دونوں ججوں کو اپنے حق میں دئے جانے والے غیر منصفانہ فیصلوں کے انعام کے طور پر یہ عہدے دئے۔جبکہ مودی حکومت نے جسٹس سداشوم کو سبکدوشی کے فوراً بعد کیرالہ کا گورنر بنایا۔ جسٹس سداشوم نے چیف جسٹس رہتے ہوئے امت شاہ کو متعدد معاملات میں کلین چٹ دی تھی۔ انہیں ‘گجرات بدر’ کرنے کے گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی جسٹس سداشوم نے ہی کالعدم کیا تھا۔
اس حکومت نے نہ صرف یہ کیا کہ بی جے پی کو راحت پہنچانے والے ججوں کو بے شرمی کے ساتھ سرکاری قیمت پر اعزازات سے نوازا بلکہ بی جے پی اور پولیس کی گرفت کرنے والے ججوں کو ‘سزا’ بھی دی۔ پہلے قدم سے جہاں اس نے sitting ججوں کو یہ پیغام دیا کہ ہمارے ساتھ چلوگے توریٹائر ہوتے ہی انعام پاؤگے وہیں دوسرے قدم سے ساتھ نہ چلنے والے ججوں کو بھی پیغام دے دیا کہ ساتھ نہیں چلوگے تو سزا بھی پاؤگے۔ جسٹس کے ایم جوزف’ جسٹس عقیل قریشی’ جسٹس ارشاد علی’ جسٹس تاہل رمانی’ جسٹس مرلی دھر اور جسٹس دھرم ادھیکاری کے ساتھ کئے جانے والا سلوک اس کا ایک نمونہ ہے۔
لیکن یہ حکومت یہ بھول گئی کہ احکم الحاکمین کی سزا کا کوئی توڑ نہیں ہے۔۔۔ اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا ۔اس کی گرفت آکر رہے گی۔مسٹر گوگوئی تم نے اتنی بھاری بھرکم عبادت گاہ کا اتنا سستا سودا کرلیا؟ ۔۔ راجیہ سبھا پہنچ کر جو بے توقیری اور جو بے عزتی تمہیں ملی ہے وہ تمارے اسی کریہہ عمل کا فوری نتیجہ ہے۔۔۔ تاریخ تمہارا نام ایسے غلیظ کوڑے دان میں پھینک دے گی کہ جس پر مدتوں تک نسلیں تھوکتی رہیں گی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
اشعر نجمی
گزشتہ دنوں وزیر داخلہ امیت شاہ نے جب پارلیمنٹ میں کہا کہ NPR کے لیے شہریوں کو کاغذ نہیں دکھانے ہوں گے تو سادہ لوحوں کی اس طرح بانچھیں کھل گئیں جیسے سرکار اپنے موقف سے کئی انچ پیچھے ہٹ گئی ہو۔ حتیٰ کہ بیشتر اخباروں تک نے اسے اس طرح ہیڈلائن بنایا جیسے امیت شاہ نے کوئی نئی بات کی ہے۔ ارے بھائی! امیت شاہ تو شروع ہی سے کہہ رہے ہیں کہ NPR میں آپ کو کاغذ نہیں دکھانے ہوں گے، اس سے پہلے پرکاش جاویڈکر نے بھی پارلیمنٹ میں یہی کہا تھا کہ NPR میں آپ کو کوئی کاغذ نہیں دکھانا ہوگا، حتیٰ کہ آپ جن سوالوں کا جواب نہ دینا چاہیں، نہ دیں۔ آدھار کارڈ، پین کارڈ، ووٹر کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ کا نمبر نہیں دینا چاہتے ہیں تو نہ دیں۔ یہی بات وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں روز اول سے موجود ہے تو پھر اس پر خوشی سے اتنا اچھلنے کی کیا ضرورت ہے؟ کچھ خوش فہم حضرات تو ایسے بے قابو ہو رہے ہیں کہ انھیں لگ رہا ہے کہ ان کے احتجاج سے سرکار نے اپنے قدم پیچھے کرلیے ہیں اور وہ اس پر بغلیں بجا رہے ہیں۔
امیت شاہ نے دوسری بات یہ کہی کہ NPR میں دی گئی کسی معلومات پر ‘D’ یعنی Doubtful کا ریمارک نہیں لگایا جائے گا۔ لیکن ایسا صرف امیت شاہ کہہ رہے ہیں، نوٹیفیکیشن نہیں۔ وزارت داخلہ کی سائٹ پر جا کر چیک کریں، وہاں NPR والے خانے میں یہ آپشن موجود ہے کہ NPR میں دی گئی معلومات پر "مشتبہ شہریوں” کو نشان زد کیا جائے گا اور اسی بنیاد پر NRC کیا جائے گا۔ امیت شاہ کا بیان قانون نہیں ہے، قانون اب تک وہی ہے جو وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اگر واقعی امیت شاہ اپنے قول کے سچے ہیں تو پھر انھیں چاہیے کہ اسے قانونی شکل دیں اور وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر بھی اسے یقینی بنائیں جہاں ایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہوں پر بار بار مینشن کیا گیا ہے کہ NPRہی NRC کا زینہ ہے۔ قول و فعل میں تضاد مٹانے کے لیے امیت شاہ کو فوری طور پر یہ قدم اٹھانا چاہیے ورنہ سب جانتے ہیں کہ وہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کتنی روانی سے جھوٹ بولتے چلے آئے ہیں اور اپنے ہی بولے ہوئے ایک جھوٹ کو رد کرتا ہوا دوسرا جھوٹ بولنے میں بھی وہ پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
رام لیلا میدان میں نریندر مودی نے بڑا زور دے کر کہا تھا کہ ملک میں کوئی ڈٹینشن سنٹر ہی نہیں ہے جب کہ پارلیمنٹ میں ان ہی کے وزرا کہہ رہے ہیں کہ نہ صرف ڈٹینشن سنٹر ہے بلکہ وہاں 29 لوگوں کی موت بھی ہوچکی ہے۔ دوسری طرف امیت شاہ جب پارلیمنٹ میں CAB کو متعارف کراتے ہیں تو بڑے طنطنے سے کہتے ہیں کہ "اور اس کے بعد NRC آئے گا۔” لیکن جب ملک گیر پیمانے پر احتجاج شروع ہوا تو کہنے لگے فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ خیر، جھوٹ کی یہ داستان کافی طویل ہے لیکن ہمارا موضوع اس وقت کچھ اور ہے۔ فی الحال تو امیت شاہ سے صرف یہ گزارش کی جا سکتی ہے کہ اپنے اس "آخری جھوٹ” کو قانونی شکل دیں اور اپنے صاحب کردار ہونے کا ثبوت دیں۔اپنے قول کو سپریم کورٹ میں حلف نامہ کی شکل میں داخل کریں اور پارلیمنٹ میں تحریری شکل میں پیش کریں اور اس کے لیے نوٹیفکیشن جاری کریں۔ دوسری اہم بات یہ پوچھنی تھی کہ اگر آپ شہریوں کو یہ سہولت دے رہے ہیں کہ وہ جن معلومات کو شیئر نہیں کرسکتا یا شیئر نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے، تو پھر چھ اضافی سوالوں کی کسرت کیوں، جن میں والدین کی تاریخ اور جائے پیدائش بھی شامل ہے؟ جب آپ کے لیے ان اضافی سوالوں کی اہمیت نہیں تو پھر انھیں اپنے فارمیٹ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے؟ تیسری سب سے اہم بات یہ کہ جب آپ ان اضافی سوالوں کے جوابات کو شہریوں کی صوابدید پر ہی چھوڑ رہے ہیں اور اس پر ‘D’ کا بھی اطلاق نہیں کررہے تو پھر NPR کا جواز باقی ہی کہاں رہتا ہے؟ مردم شماری سے کام کیوں نہیں چلا لیتے؟
دراصل میرے تمام سوالوں کے جواب صرف NPR اور Census کی تعریف اور اس کے حدود میں ہی مضمر ہے جسے امیت شاہ چھپا رہے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان جو بنیادی فرق ہے، وہ یہ ہے کہ Census یعنی مردم شماری میں شہریوں کے دیے گئے معلومات کو راز میں رکھا جاتا ہے، سرکار یا کسی سرکاری ادارے کو ان معلومات کو افشا کرنے یا ان معلومات کی بنیاد پر کوئی دوسری سرکاری کاروائی کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے، جب کہ NPR میں اس کے برعکس سرکار شہریوں کی نجی معلومات کبھی بھی اور کہیں بھی شیئر کرسکتی ہے اور اس پر اسے کاروائی کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ تو اے میرے سادہ لوحو! اے میرے پیارے خوش فہمو! ایک بار جب سرکار کے پاس NPR کے ذریعے ڈیٹا پہنچ گیا، خواہ آپ اس میں شامل کسی مخصوص سوال کا جواب دیں یا نہ دیں، اس کا استعمال سرکار کبھی بھی NRC کے لیے کرسکتی ہے۔ مثلاً آپ نے افسر کو اپنے والدین کی تاریخ اور جائے پیدائش نہیں بتائی تو ظاہر ہے آپ کے سامنے نہیں بلکہ اس فارم کے verification کے دوران دی گئی ادھوری معلومات کے سبب افسر آپ کے فارم پر ‘D’ لگائے گا تو بھلا اسے کون روک پائے گا؟ پھر NRC، خواہ وہ کبھی بھی ہو، اس وقت آپ کے گھر ایک سرکاری لیٹر پہنچے گا کہ چلیے صاحب فرشتہ اجل آپ کا منتظر ہے، قطار میں کھڑے ہوجائیے۔ چنانچہ امیت شاہ کا بیان صرف بیان رہ جائے گا اور چونکہ وہ بیان قانونی شکل میں موجود نہ ہوگا تو آپ اسے چیلنج بھی نہیں کر پائیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ اب کیا کرنا ہے، سوچ لیجیے، سرکار کے پیچھے ہٹنے پر اپنی پیٹھ تھپتھپانی ہے یا اپنے موقف پر قائم رہنا ہے؟
احمد نور عینی
کل وزیر داخلہ نے سی اے اے اور این پی آر کے تعلق سے راجیہ سبھا میں جو بیان دیا ہے اسے لے کر کچھ لوگ کچھ زیادہ ہی خوش ہورہے ہیں، یہ بات تو سچ ہے کہ کل اس کا فرعون وقت کا لہجہ بہت حد تک بدلا ہوا تھا، اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، اس کے آواز کی گرج بھی کہیں غائب ہوچکی تھی، آمرانہ طمطراق بھی نظر نہیں آرہا تھا، اور جس طبقہ کو انتہائی حقارت کے ساتھ گھس پیٹھیا کہتے نہیں تھکتا تھا، کل اسی طبقے کو ایک سے زائد بار اس نے پیار بھرے انداز میں مسلمان بھائی بہن کہا، تانا شاہ کے الفاظ اور لہجے کی یہ تبدیلیاں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے اٹھنے والی آواز بے اثر نہیں گئی۔ ہماری تحریک نے فرعون وقت کا غرور کسی حد تک توڑا ہے۔ اس مثبت پہلو کے باوجود ہمیں یہ بات سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وزارت داخلہ کا پارلیمنٹ میں دیا ہوا یہ زبانی بیان نہ این پی آر کے نفاذ میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے اور نہ این پی آر کے خطرات کو ختم کرسکتا ہے۔
وزیر داخلہ نے کل سی اے اے اور این پی آر کے تعلق سے بات کی، این آر سی کا کوئی ذکر نہیں کیا، سی اے اے کے بارے میں ان کی بات کوئی نئی نہیں ہے، یہ بات برسر اقتدار طبقہ اور نیشنل میڈیا شروع ہی سے کہتا ہوا آرہا ہے، وہ یہ کہ سی اے اے شہریت دینے کا قانون ہے نہ کہ لینے کا ، اور اس سے مسلمانوں کا کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس بات کا جواب مستقل تین مہینوں سے دیا جارہا ہے، اس لیے ہم اسے چھوڑتے ہیں۔ این پی آر کے تعلق سے وزیر داخلہ نے بالترتیبب تین باتیں کہیں:
1۔ این پی آر میں ڈاکومنٹس نہیں مانگے جائیں گے۔
2۔ این پی آر میں تمام سوالوں کا جواب دینا ضروری نہیں ہوگا۔
3۔ این پی آر میں کسی کے فارم پر ڈی D نہیں لکھا جائے گا۔
سب سے پہلےہم آخری بات کو لیتے ہیں، وزیر داخلہ نے یہ بات کہی کہ کسی کے آگے ڈی نہیں لکھا جائے گا، یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ڈی لکھنا یا نہ لکھنا اہم نہیں ہے، کسی کو مشتبہ شہری بتانا یہ اہم ہے، مشتبہ شہری بتانے کے لیے چاہےڈی لکھا جائے یا کوئی اور علامت ڈالی جائے، این پی آر کے لیے 2003 میں جو رولز بنائے گئے ہیں اس میں مشتبہ شہری پر مناسب علامت ؤ لگانے کی بات واضح طور پر لکھی ہوئی ہے؛ چناں چہ رول 4 کی شق 4 کہتی ہے:
‘‘During the verification process, particulars of such individuals, whose Citizenship is doubtful, shall be entered by the local Register with appropriate remark in the Population Register for further enquiry and in case of doubtful Citizenship, the individual or the family shall be informed in a specified proforma immediately after the verification process is over’’.
اس میں یہ بات واضح ہے کہ جس پر شک ہوگا اس پر سرکاری آفیسر مشتبہ شہری کی کوئی علامت لگا دے گا۔ اس لیے وزیر داخلہ کی بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ اور مان لیجیے کہ وزیر داخلہ نے ڈی سے لفظ نہیں بل کہ اس کا مفہوم مراد لیا ہے، یعنی کہ کسی کو ڈاوٹ فل سیٹیزن نہیں بنایا جائے گا، تب بھی 2003 کے رولز میں سرکاری کارکنان کو جو ڈاوٹ فل سیٹیزن بنانے کا اختیار دیا گیا ہے وہ وزیر داخلہ کے زبانی بیان سے ختم نہیں ہوسکتا۔
وزیر داخلہ نے دوسری بات یہ کہی کہ تمام سوالوں کا جواب دینا ضروری نہیں ہے، بل کہ اسے اختیار ہوگا، جس کا جواب چاہے دے اور جس کا چاہے نہ دے۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے، کیوں کہ این پی آر کے 2003 والے رولز میں یہ بات کہیں نہیں ملتی کہ اسے اختیار ہوگا، بل کہ اس میں اس کے برعکس بات ملتی ہے:
‘‘it shall be the responsibility of the head of every family, during the period specified for preparation of the Population Register, to give the correct details of name and number of members and other particulars’’.
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ این پی آر میں ڈاکومنٹس نہیں مانگے جائیں گے تو یہ بات سچ ہے، مگر یہ آدھا سچ ہے، اس سچی بات سے ایک اور سچی بات جڑی ہوئی ہے جسے وزیر داخلہ نےعمدا بیان نہیں کیا، وہ یہ کہ جب ایک تعداد کا مشتبہ شہریوں کی لسٹ میں نام آجائے گا تو پھر اسے کورٹ کچہری میں اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی، اور ظاہر سی بات ہے کہ اس کے لیے ڈاکومنٹس دکھانے ہوں گے، جیسا کہ آسام میں ہوا۔ اور اس پوری کاروائی کا طریقہ 2003 کے رولز میں تفصیل سے موجود ہے۔ گویا این آر سی کا جو پہلا قدم این پی آر ہے اس میں ڈاکومنٹس بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی؛ لیکن این پی آر کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد جب این آر سی کا مرحلہ آئے گا تو ڈاکومنٹس کا چکر شروع ہوگا۔
اب تک کی تفصیل سے این پی آر کے تعلق سے وزیر داخلہ کے بیان کی حقیقت سمجھ میں آگئی ہوگی، اب یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ وزیر داخلہ نے جب راجیہ سبھا میں بیان دے دیا تو پھر 2003 کے رولز کو بیچ میں لاکر کنفیوژن پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ این پی آر کی بنیاد کیا ہے۔ این پی آر کی بنیاد در اصل 2003 کے سیٹیزن شپ رولز پر ہے، جو اٹل جی کی سرکار میں بنائے گئے تھے، این پی آر کی بنیاد امیت شاہ کا کوئی بیان نہیں تھا کہ موجودہ بیان سے وہ بیان منسوخ ہوجائے، این پی آر کے 2003 میں بنائے گئے اصول کسی وزیر کے ایوان میں دیے گئے زبانی بیان سے منسوخ نہیں ہوجاتے، اس لیے جب تک این پی آر اور این آر سی کے تعلق سے بنائے گئے 2003 کے رولز واپس (Repeal) نہیں ہوجاتے تب تک زبانی جمع خرچ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ جب تک این پی آر میں مشتبہ بنانے کا اختیار سرکار ی کارندوں کو حاصل ہوگا اور جب تک وہ این آر سی سےمربوط رہے گا تب تک این پی آر خطرناک سمجھا جائے گا، چاہے کوئی کچھ بھی بیان دے دے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں این پی آر کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ این پی آر کو این آر سی کے لیے ہی بنایا گیا ہے، چناں چہ 2003کے رولز میں جہاں این پی آر کا طریقہ کار سمجھایا گیا ہے اس کا عنوان ہی ہے Preparation of‘‘ National Registration of Indian Citizens یعنی این آر سی کی تیاری۔ اسی طرح وزارت داخلہ کی طرف سے شائع ہونے والی 19۔2018 کی سالانہ رپورٹ کے صفحہ 262 پر بہت واضح لفظوں میں موجود ہے:
‘‘The National Population Register (NPR) is the first step towards the creation of the National Register of Indian Citizens’’.
بعض حضرات اس خوش فہمی میں ہیں کہ وزیر داخلہ نے کہہ دیا کہ ڈاکومنٹس نہیں مانگے جائیں گے اور D نہیں لگایا جائے گا اس لیے اب این پی آر اور مردم شماری(census) میں کوئی فرق نہیں رہا، اور مردم شماری آزادی کے بعد سے ہوتی ہوئی آئی ہے، اس لیے ڈرنے اور ڈرانے کا کام بند ہونا چاہیے، یہ خوش فہمی بھی در اصل قانونی بنیادوں سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے، حقیقت یہ ہےکہ این پی آر اور مردم شماری دونوں الگ ہیں، دونوں دو مختلف قانون کے تحت آتے ہیں، این پی آر کا تعلق 1955 کے قانون شہریت (Citizenship_Act_1955)سے ہے، اور مردم شماری کا تعلق 1948 کے قانون (census_act_1948) سے ہے،مردم شماری کے ایکٹ سے شہریت لینے یا دینے کا تعلق نہیں ہے، جب کہ شہریت کے ایکٹ کا تعلق شہریت کے لینے اور دینے سے ہے، اور 2003 میں این پی آر کے جو رولز بنائے گئے اس کا تعلق شہریت ایکٹ سے ہے نہ کہ مردم شماری ایکٹ سے ، اور این پی آر کے یہ رولز این آر سی ہی کے لیے بنائے گئے ہیں، لہذا این پی آر کا عمل این آرسی ہی کے لیے ہے، اگر صرف مردم شماری ہی کرنا مقصد ہے تو پھر این پی آر کے بغیر بھی مردم شماری ہوسکتی ہے، اس کے لیے علیحدہ ایکٹ موجود ہے۔
ایک بات بہت مضبوطی کے ساتھ یہ کہی جاتی ہے کہ 2010 میں این پی آر ہوا تھا اگر انہی سوالات کے ساتھ 2020 میں بھی کرلیا جائے تو کیا حرج ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ 2010 میں ہمارے گھر میں سانپ آیا اورہمیں کانٹے بغیر نکل گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس سانپ کو 2020 میں بھی اپنے گھر میں آنے دیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قانونا 2010 کا این پی آر بھی این آر سی سے مربوط تھا مگر خوش قسمتی سے عملا وہ این آر سی سے ناآشنا رہا، دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت سی اے اے جیسا خلاف دستور قانون نہیں لایا گیا تھا اور نہ ہی اس وقت کے وزیر داخلہ کی طرف سے این آر سی کی کرونولوجی سمجھائی گئی تھی،اس لیے لوگوں میں شعور پیدا نہ ہوسکا اور لوگ اس کو مردم شماری کے ہی قبیل سے سمجھتے رہے؛ لیکن اب تو سب کچھ واضح ہوچکا ہے اس لیے ہم حتی الامکان 2010 والا فارمیٹ بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، ہاں اگر حکومت یہ گزٹ جاری کردے کہ جس طرح 2010 میں عملا اس کو این آر سی سے نہیں جوڑا گیا تھا اسی طرح 2020 میں بھی زائد سوالات نکالنے کے ساتھ ساتھ عملا اسے این آر سی سے بے تعلق رکھا جائے گا۔اور سی اے اے سے بھی اس کا رشتہ نہیں ہوگا ؛ بل کہ سی اے اے کو رد کیا جائے گا، اگر حکومت کی طرف سے ایسا ہوتا ہے تب تو ٹھیک ہے ورنہ ہم بھی دیکھیں گے ، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:اپوزیشن جماعتوں نے گزشتہ دنوں دہلی تشدد کے دوران وزارت داخلہ اور دہلی پولیس پر اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہنے کا الزام عائد کیا اور مطالبہ کیاہے کہ اس کی سپریم کورٹ کے موجودہ جج کو لے کر عدالتی جانچ کرائی جانی چاہیے۔یہ مطالبہ کرنے میں بی جے پی کی حلیف جدیوبھی شامل رہی،وہیں بیجوجنتادل نے سی اے اے میں مسلمانوں کوشامل کرنے کابھی مطالبہ کیاہے۔اپوزیشن نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ سی اے اے معاملے پرحکومت مظاہرین سے بات کرے۔دہلی تشددکے موضوع پر بدھ کو ایوان میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے ترنمول کانگریس کے سوگت رائے نے وزیر داخلہ امت شاہ کے استعفے کی مانگ اٹھائی۔انہوں نے کہا کہ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی کے کچھ دوسرے لیڈروں نے اشتعال انگیز بیان دیے جس سے کشیدگی بڑھی اورتشدد ہوا۔رائے نے وزیر داخلہ اور دہلی پولیس پرسرگرمی سے کام نہیں کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ دہلی تشدد کی عدالتی جانچ کرائی جائے اور یہ تحقیقات سپریم کورٹ کے کسی موجودہ جج سے کرائی جائے۔ڈی ایم کے نے کہاہے کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں سے حکومت کوبات چیت کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ دہلی تشدد کی عدالتی جانچ ہونی چاہیے۔شیوسینا کے راوت نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بھارت دورے کے وقت یہ فسادات ہوئے اورانتظامیہ روک نہیں پایا۔انہوں نے سوال کیاہے کہ کیاسیکورٹی ایجنسیاں ناکام رہی ہیں؟ بیجو جنتا دل کے مشرانے کہاہے کہ سی اے اے میں مسلم کمیونٹی کو بھی شامل کیا جائے اورحکومت اقلیتوں میں اعتماد سازی کے لیے اقدامات کرے تاکہ غلط فہمیاں دورہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ عدم تشدد لفظ کو آئین کے دیباچے میں شامل کیا جائے۔بی ایس پی کے رتیش پانڈے نے بھی وزارت داخلہ اور دہلی پولیس پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ تشدد میں پولیس کے کردار کو لے کر جوویڈیوسامنے آئے ہیں وہ شرمناک ہیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کسی موجودہ جج کی طرف سے دہلی تشدد کی جانچ کرائی جائے۔سماج وادی پارٹی کے شفیق الرحمن برق نے بھی دہلی تشدد کے معاملے کی عدالتی تحقیقات کامطالبہ کیا۔نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے بھی عدالتی جانچ کی مانگ اٹھائی اور کہاہے کہ دہلی پولیس نے اپنے کام کوپورا نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ مرکز کو راجدھرم پر عمل کرناچاہیے۔بی جے پی کی اتحادی جے ڈی یو کے راجیو رنجن سنگھ نے کہا کہ اس کی جانچ ہونی چاہیے کہ تشدد کے پیچھے کون لوگ ہیں۔اگر اس کی جانچ صحیح سے ہو گئی تو بہت سفید پوش لوگوں کے نام سامنے آجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتیں سی اے اے کے نام پر اقلیتوں میں خوف پیدا کرنے اور انہیں اکسانے کی کوشش کر رہی ہیں۔سنگھ نے کہا کہ کچھ لوگ سی اے اے کواین آرسی سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ وزیراعظم نے کہاہے کہ این آرسی کی ابھی کوئی تجویزنہیں ہے۔لیکن وزیرداخلہ کرونالوجی سمجھاچکے ہیں کہ سی اے اے اوراین آرسی اوراین پی آرکاکیامطلب ہے؟بی جے پی کے سنجے جیسوال نے الزام لگایا کہ کانگریس اقتدار میں باہر رہنے کی وجہ سے ایک بار پھر تشدد بھڑکا رہی ہے کیونکہ وہ بانٹواورراج کرو میں یقین کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ سپریم کورٹ شاہین باغ میں مظاہروں کو لے کر صرف مذاکرات کارمقرر کر رہا ہے جبکہ وہ پہلے کے اپنے بہت سے احکامات میں وہ کہہ چکاہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب سڑک بلاک کرنانہیں ہے۔
2014ء سے ہی ’ہندو راشٹر‘ کیلئے ہندوتو کے پجاری کوشاں ہیں۔ اس کیلئے ان کے پیش نظر ایک کام یہ ہے کہ مسلمانوں کا جینا ملک میں حرام کر دیا جائے۔ نئی نئی تدبیروں، چالوں اور سازشوں سے اس کام پر ان کے چھوٹے اور بڑے سب لگے ہوئے ہیں۔ 2014ء سے لے کر 2019ء تک مسلمان ظلم پر ظلم سہتے رہے لیکن کسی بڑی مخالفت کیلئے نہ وہ سڑک پر اترے اور نہ ہی صدائے احتجاج بڑے پیمانے پر بلند کی۔ صبر و تحمل سے کام لیتے رہے اور اس امید میں رہے کہ 2019ء کے لوک سبھا الیکشن میں نریندر مودی کو دوبارہ گدی پر بیٹھنے کا موقع نہیں ملے گامگر جارحانہ قومیت کے بل بوتے پر مودی-شاہ کو دوبارہ ملک میں انارکی اور فتنہ و فساد پھیلانے کا موقع مل گیا۔ مودی پہلے سے بھی بھاری اکثریت سے جیت کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے۔ نشہ اقتدار اس قدر چڑھا کہ قانون پر قانون بنانے لگے۔ ’تین طلاق‘ پر بھی قانون بنایا۔ کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کیلئے دفعہ 370 کو آناً فاناً ہٹایا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ اس پر بھی ملک میں سناٹا رہا لیکن جب شہریت ترمیمی بل دونوں ایوانوں میں منظور ہوکر قانونی شکل اختیار کرلیا تو ملک کا سناٹا ٹوٹا۔ خاموشی ختم ہوئی۔ احتجاج اور دھرنے کا دور شروع ہوا۔ دیکھتے دیکھتے ملک بھر میں دھرنا اور احتجاج غیر معمولی تحریک کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ دھرنے کا آغاز شاہین باغ دہلی سے ہوا۔ شاہین باغ کے طرز پر سیکڑوں شاہین باغ کالے قانون کے خلاف وجو دمیں آگئے۔
دسمبر 2019ء سے دہلی کے اسمبلی الیکشن کی ہمہ ہمی شروع ہوگئی۔ جیسے جیسے الیکشن کی تاریخ(8فروری2020ء) قریب آتی گئی الیکشن کی گرمی میں اضافہ ہوتا گیا۔جب الیکشن کو 10-15 دن باقی تھے تو بی جے پی نے انتخابی کامیابی کیلئے ساری قوت جھونک دی۔ دو سو سے زائد ایم پی، گیارہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، مودی کابینہ کے تقریباً سارے وزراء اور آس پاس کی ریاستوں کے بی جے پی کے لیڈران مودی-شاہ کی قیادت میں انتخابی میدان میں پوری طاقت سے اتر گئے۔ شاہین باغ ایک بڑا مدعا بی جے پی والوں کیلئے ہوگیا۔ ہر لیڈر شاہین باغ کا نام لینے لگا۔ مودی، شاہ، یوگی، گری راج سنگھ، کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما کے علاوہ بہت سے سنگھی لیڈروں نے شاہین باغ کوHotpotato (جھمیلے کی چیز) کی طرح استعمال کرنے لگے۔ اس سے بی جے پی والے اس سے دومقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ شاہین باغ کو ان لوگوں نے مسلمانوں کا دھرنا یا تحریک بتانے کی کوشش کی۔ حالانکہ غیر مسلم حضرات بھی بڑی تعداد میں شریک تھے اور ہیں۔ فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے شاہین باغ کا استعمال کثرت سے کرنے لگے۔ اس شاہین باغ سے سارے ملک بھر کے شاہین باغ کو ختم کرنے بلکہ تحریک کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ بی جے پی کا یہ مقصد پورا نہیں ہوا۔ دوسرا مقصد الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا تھا، عام آدمی پارٹی کی جیت سے اس مقصد پر بھی پانی پھر گیا۔ ان دونوں مقاصد کے پورے نہ ہونے سے بی جے پی نے دہلی میں مسلم مخالف فساد کا منصوبہ بنایا۔ شروعات جعفر آباد کے شاہین باغ سے کپل مشرا نے پولس کو الٹی میٹم دے کر کی۔ الٹی میٹم 23فروری کو دیا اور 24فروری سے فساد بڑے پیمانے پر شروع ہوگیا۔ پولس، حکومت اور بی جے پی سب نے مل کر غریب مسلم بستیوں کو نہ صرف جلایا بلکہ 40 مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا۔ سیکڑوں مسلمانوں کو زخمی کر دیا جو اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اربوں کی جائیدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔ چند ہندوؤں کی جانیں بھی تلف ہوئیں۔ ان کی جائیدادوں کو بھی نقصان پہنچا۔ فساد کرانے میں بی جے پی کی حکومت اور بی جے پی کے لیڈران ماہر ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ فساد کیسے برپا ہوتا ہے۔ پہلے وہ فرقہ وارانہ ماحول تیار کرتے ہیں اور جب پورے طور پر ماحول تیار ہوجاتا ہے تو ماچس کی تیلی سے فساد کی آگ لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
بی جے پی کے ایم پی پرویش ورما نے دہلی کے ہندوؤں کو خوف زدہ کرنے کیلئے انتخابی مہم کے دوران کہاکہ ”شاہین باغ کے لوگ تمہارے گھروں میں داخل ہوں گے اور تمہاری بہنوں اور بیٹیوں کا بلتکار کریں گے اور تمہیں قتل کریں گے“۔ کپل مشرا نے جن کو شاید بی جے پی والوں نے فساد کرانے کی ذمہ داری سونپی تھی، دہلی کے اسمبلی انتخاب کو ہندستان اور پاکستان کا نہ صرف مقابلہ بتایا بلکہ شاہین باغ سے پاکستانیوں کے داخل ہونے کا راستہ بتاتے ہوئے یہ کہاکہ دہلی میں یہیں سے پاکستانی داخل ہوں گے۔ امیت شاہ نے کہا تھا کہ ای وی ایم کے بٹن کو اس قدر زور سے دبانے کی بات کہی کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ والوں کو لگے۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر مسلمانوں کو غدار بتاتے ہوئے کہاکہ دیش کے غداروں کو گولی مارو۔ مجمع عام میں موجود سارے لوگوں نے اسے بار بار دہرایا۔
ان سب کے سردار 2002ء کے گجرات فساد کے ذمہ دار وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہاکہ ”جعفر آباد، سلیم پور اور شاہین باغ میں جو کچھ ہورہا ہے سنجوگ (اتفاق) نہیں ہے پریوگ (تجربہ) ہے۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بہت بڑی چال ہے“۔ بھلا یوگی ادتیہ ناتھ کیسے شاہین باغ کو بھولتے، انھوں نے کہاکہ ”کجریوال شاہین باغ والوں کو بریانی بھیجتے ہیں“۔ شاہین باغ اور بریانی یوگی کیلئے مسلمان کی علامت ہیں۔ مسلمان- مسلمان، پاکستان-پاکستان اور ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات، عصمت دری کے ساتھ قتل، یہ وہ سب چیزیں تھیں جس سے ماحول پورے طور پر فساد کیلئے تیار ہوگیا۔ کپل مشرانے جعفر آباد کے شاہین باغ کی خواتین و مرد سے محاذ آرائی (Confrontation) سے فساد کا آغاز کیا جو ابھی تھما نہیں ہے۔ انوراگ ٹھاکر کا گولی مارنے کا نعرہ کل بھی دہلی کے راجیو چوک میٹرو اسٹیشن پر دہرایا گیا۔ ایک روز پیشتر بی جے پی کے ایم ایل اے ابھئے ورما نے لکشمی نگر میں مارچ کیا اور نعرہ بلندکیا ”پولس کے ہتیاروں کو گولی مارو سالوں کو“۔
مشہور صحافی خاتون شوبھا ڈے کا مضمون آج (یکم مارچ) ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ میں شائع ہوا ہے، جس کا عنوان ہے:”Wanted: People who have the spine to confront hate-mongers.” (ضرورت ہے ایسے لوگوں کی نفرت پھیلانے والوں کا مقابلہ کرسکیں)۔ خاتون صحافی نے اپنے مضمون میں بی جے پی کی طرف سے نفرت پھیلانے والوں کا نام لے لے کر لکھا ہے کہ ان کی شرارت محض اس لئے بڑھ گئی ہے کہ ملک میں ان کے ساتھ محاذ آرائی نہیں ہورہی ہے۔ یہ خود محاذ آرائی کرکے فتنہ و فساد کو جنم دے رہے ہیں۔ یہ لوگ امن و انصاف اور ہندو مسلم اتحاد کے غارت گر ہیں۔
میرے خیال سے دہلی کا فساد بہت ہی اندوہناک اور غمناک ہے۔ جس طرح پولس نے فساد میں حصہ لیا اور بلوائیوں کو تین دنوں تک چھوٹ دی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی کیلئے اب فساد ہی ایک ایجنڈا ہے جس سے وہ احتجاج، دھرنے اور تحریک کو ختم کرنے کا منصوبہ اور عزم رکھتے ہیں۔ محترمہ شوبھا ڈے نے صحیح کہا ہے کہ ملک کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی نفرتوں کو صحیح جواب دے کر ختم کرسکیں۔ دنیا بھر میں اب ملک کی بھی بدنامی ہورہی ہے۔ مودی حکومت بھی بدنام زمانہ ہوگئی ہے۔ مودی اپنی شخصیت کو جس قدر چمتکار بتانا چاہ رہے تھے وہ ساری چمک دمک ماند پڑتی جارہی ہے۔ بدنام زمانہ، نام نہاد مسلمان ایم جے اکبر اور عمیر الیاسی کو جنیوا بھیج کر دنیا کو بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندستان کے مسلمان خیر و عافیت سے ہیں اور شہریت ترمیمی قانون کی بنیاد امتیاز اور تفریق پر نہیں ہے۔ یہ دونوں شخصیتیں بی جے پی کیلئے کارآمد محض اس لئے ہیں کہ دونوں بدنام زمانہ ہیں۔ ایم جے اکبر کو شاید ایک سال بعد نمودارہوئے ہیں۔ ان پر ایک نہیں بیسیوں خواتین کی طرف سے جنسی ہوس رانی کا الزام لگا خود بی جے پی نے ان کو کنارے لگادیا تھا۔ اب ان کی بے جان شخصیت کو مسلمانوں کی دشمنی کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ عمیر الیاسی کی بھی شخصیت جھوٹ اور فریب کی شاہکار ہے۔ اپنے آپ کو ملک کے سارے ائمہ کرام کی انجمن کا صدر بتاتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ دو چارامام بھی نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں سے مدد لینے کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی ایسے لوگوں کا سہار الے رہی ہے جو خود بے سہارا ہوگئے ہیں۔
مشہور مصنف اور قلم کار چیتن بھگت نے اپنے ایک مضمون میں جو آج (یکم مارچ) کے ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ”Why a prosperous, harmonious Hindu Rashtra is an impossibility” (ایک فلاحی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی ایک ہندو راشٹر کیوں ناممکن ہے)۔ چیتن بھگت ایک اچھے دانشوروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔انھوں نے دلائل اور شواہد سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندو راشٹر کی جدوجہد ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جائے گی اور لوگ جدید سائنسی سوچ اور سماجی ہم آہنگی سے محروم ہوجائیں گے۔ مضمون نگار نے حقیقت بیانی سے کام لیا ہے۔ جب سے مودی کی حکومت ہوئی ہے ہندستان کی معاشی حالت بحران کی شکار ہے۔بے روزگاری حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پچاس سال میں پہلی بار ایسی بے روزگاری ہوئی ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ پریشان کسان خودکشی کر رہا ہے۔ مذہبی دھماچوکڑی کچھ اس طرح ہے کہ مسلمان، دلت اور پسماندہ طبقہ پہلے سے کہیں زیادہ غربت اور افلاس میں مبتلا ہوگیا ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی پالیسی سے مذکورہ لوگوں کے کاروبار پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ کارخانے بڑی تعداد میں بند ہوگئے ہیں۔ کئی قسم کے کاروبار حکومت کی مذہبی پالیسی کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔ ان سب کے باوجود نہ موجودہ حکومت کے ذمہ داروں کی آنکھیں کھل رہی ہیں اور نہ حکمراں جماعت کی بیداری کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں بلکہ روز بروز معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ دہلی شہر میں جو لوگ تباہ و برباد ہوئے ہیں۔محنت و مشقت سے جنھوں نے اپنا گھر بنایا تھا، کاروبار شروع کیا تھا وہ سب کے سب تباہ و برباد کر دیئے گئے۔ ان کو پھر سے زندگی شروع کرنے میں کتنی دشواریاں اور مشکلیں پیش آئیں گی۔ ہر کوئی جانتا ہے مگر ان فرقہ پرستوں اور فسادیوں کو ذرا بھی خیال نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانیت ان کے اندر سے بالکل ختم ہوگئی ہے۔ حیوانوں سے بدتر ہوگئے ہیں۔ ان کو زیر کرنے کی اب ایک ہی شکل باقی رہ گئی ہے کہ امن پسندوں اور انصا ف پسندوں کا اتحاد بڑے پیمانے پر ہو۔ ساتھ ساتھ پر امن ماحول اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ یہی دو چیزیں یعنی امن اور ہندو مسلمانوں کا اتحاد ان کے ہندوتو اور راشٹر واد کیلئے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ فساد، فتنہ ان کیلئے مرعوب غذائیں ہیں۔ اسی سے ان کی سیاست، جماعت اور حکومت زندہ ہے۔ اگر فتنہ فساد نہ ہوں، امن و اتحاد بحال رہے تو ان کیلئے یہی چیز سامانِ موت ثابت ہوسکتی ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:اشتعال انگیز تقریر کرنے کے معاملے پر دہلی ہائی کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کورٹ کو بتایا کہ وہ فی الحال کسی بھی شخص کے خلاف جلدبازی کیس درج نہیں کرناچاہتی ہے۔ اگرچہ اشتعال انگیز تقریروں کی ویڈیوز کی جانچ کی جارہی ہے لیکن پولیس کی پہلی ترجیح دہلی کے حالات کو معمول پرلانے کی ہے جس کے بعد کیس کی سماعت کو 13 اپریل تک کے لیے ٹال دیا گیا۔بی جے پی کے تین متنازعہ لیڈروں انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کے اوپر اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگانے والی درخواست پر ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران دہلی پولیس نے عدالت میں اپنا جواب داخل کیاہے۔ دہلی پولیس نے اپنے جواب میں کہا کہ پولیس کے پاس صرف ان رہنماؤں کے ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ساری ویڈیوزموجودہیں جن کی پڑتال کی جا رہی ہے، اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ان پر کارروائی کی جائے گی. دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ جلد بازی میں کسی کے خلاف مقدمہ درج کرنا ٹھیک نہیں ہوگا. کیونکہ اس وقت دہلی پولیس کو حالات کو معمول پر کی کوشش کر رہی ہے اس کے کام کاج کے اوپر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔وہیں مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ دہلی میں قانون و انتظام کی ذمہ داری مرکزی حکومت کے تحت آتی ہے۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مرکزی حکومت کو پارٹی نہیں بنایاگیاہے،لہٰذامرکزی حکومت کو بھی اس میں پارٹی بنایا جائے تا کہ مرکزی حکومت بھی اپنا موقف عدالت کے سامنے رکھ سکے۔ مرکز کی اس مانگ کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو پارٹی بنا کر نوٹس جاری کیا اور 4 ہفتے میں جواب دینے کوکہا ہے۔سماعت کے دوران ہی دہلی پولیس نے کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ دہلی تشدد معاملے میں اب تک کل 48 ایف آئی آردرج کی جاچکی ہیں لیکن یہ تمام ایف آئی آر تشدد کے معاملے میں ہیں۔ پولیس علاقوں کے حالات کو جلد سے جلد معمول پرکرنے کی کوشش کر رہی ہے۔غور طلب ہے کہ کل دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس مرلی دھرنے دہلی پولیس کمشنر کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اشتعال انگیز تقریر معاملے میں اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف کن دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے اس بات پر غور کریں اور کورٹ میں آج دہلی پولیس کو وہ رپورٹ دینی تھی لیکن آج اس معاملے کی سماعت جسٹس مرلی دھرکے سامنے نہیں بلکہ چیف جسٹس کے سامنے ہوئی۔ بتا دیں کہ کل اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کرنے والے تھے لیکن کل چیف جسٹس کے چھٹی پر رہنے کی وجہ سے جسٹس مرلی دھر نے معاملے کی سماعت کی تھی۔وہیں آج اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس نے کی اور انہوں نے مرکزی حکومت کو پارٹی بناتے ہوئے نوٹس جاری کرکے 13 اپریل تک جواب دینے کو کہا ہے۔اس معاملے کی اگلی سماعت 13 اپریل کو ہوگی۔
لفظ دلال دلالت سے ماخوز لگتا ہے جس کے منطقی معنی کسی انجانی چیز کو متعارف کر نے والا ہوتے ہیں،منطق میں اسے ’دال‘ کہتے ہیں اور اس کے ذریعہ جس چیز کا علم ہو اسے ’مدلول‘ کہتے ہیں۔لیکن عام طور پر دلال تجارت میں معاونت کر نے والے کو کہتے ہیں،یہ لوگ دراصل تجارتی سودوں میں دونوں پارٹیوں کے درمیان رابطہ کا کام کرتے ہیں انہیں ’مڈل مین(middle man)‘ بھی کہا جا تا ہے۔تجارت کے نفع و نقصان سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا یعنی تجارت میں کسی کے نفع و نقصان سے دلال کی اجرت یا دلالی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔یوں تویہ لوگ فریقین سے ایک طے شدہ اجرت پر کام کرتے ہیں لیکن اس اجرت کے با وجود بھی اندرونی طور پر یہ لوگ کچھ نہ کچھ رقم فریقین کو معلوم کئے بغیر نکال لیتے ہیں اور در اصل اسی رقم کو ’دلالی‘کہا جاتا ہے۔ اور اسی لئے لفظ دلال اور دلالی کو سماج میں ایک مہذب گالی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ان میں سب سے زیادہ خراب جانوروں کے دلال ہوتے ہیں۔یہ لوگ توکسی بھی سودے کو صاف اور کھلے طور پر نہیں کرتے ان کی خاص زبان اور اشارے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سودے کی اصل کا پتہ فریقین کو نہیں ہو پا تا اور دلالوں کے متعلق یہ بات بڑی مشہور ہے کہ وہ خود کے باپ کو بھی نہیں چھوڑتے۔ آکسفورڈ ڈکشنری نے دلالوں کی دو اقسام درج کی ہیں ایک وہ جو دوسروں کے لئے خرید و فروخت کرتے ہیں انہیں بروکر (Broker) کہتے ہیں۔دوسرے وہ جو جسم فروش عورتوں کے کاروبار میں معاونت کرتے ہیں اور بدلے میں اجرت لیتے ہیں انہیں پمپ (Pimp)کہا جاتا ہے۔لیکن ایک تیسری قسم کے دلال بھی ہیں جن کا ذکر آکسفورڈ ڈکشنری میں نہیں ہے، دلالوں کی یہ قسم مذکورہ دونوں اقسام سے مختلف بھی ہے اور سب سے زیادہ خراب و تباہ کن بھی۔یہ اشیاء اور جانوروں کی دلالی نہیں کرتی اور نہ ہی عصمت فروشی کی دلالی کرتی ہے۔دلالوں کی یہ قسم قوموں کی دلالی کرتی ہے سماج اور سوسائٹی کی دلالی کرتی ہے، اپنے لوگوں کی دلالی کرتی ہے ان لوگوں کی دلالی کرتی ہے جو ان پراتنا بھروسہ رکھتے ہیں کہ اپنے معاملات ان کی صوابدید اور ان کے فیصلوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔دلالوں کی یہ قسم محض اپنی دلالی کے لئے پوری قوم کو بیچ دیتی ہے قوم کی عزت و ناموس کا سودا کر لیتی ہے۔ان دلالوں کی سودے بازی میں قوم کو کچھ بھی نہیں ملتا مگر نقصان لیکن قوم کے اس نقصان کی کچھ نہ کچھ قیمت ان دلالوں کی جیب میں ضرورجاتی ہے۔ دلالوں کی یہ قسم سیاسی ہے یہ سیاسی دلال ہیں۔سیاسی دلال اپنے آپ کو ’اپنے لوگوں‘ کا لیڈر کہتے اور سمجھتے ہیں اور اپنے لوگوں یا قوم کو ورغلانے کے لئے ان کے پاس بہت سی باتیں دعوے اور وعدے ہو تے ہیں جن میں قوم کے جذبات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔یہ سیاسی دلال اپنے لوگوں کو کبھی زمینی حقائق سے آشنا نہیں ہونے دیتے بلکہ انہیں مذہب اور فریق مخالف کے خوف میں اور اپنی پر پیچ باتوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ یہ لوگ خود ہی مسائل پیدا کرتے ہیں اور خود ہی انہیں حل کرنے کا کریڈٹ لے کر ہیرو بن جاتے ہیں۔اور عوام کی اکثریت حقیقت کو نظر انداز کر کے انہیں ہی اپنا مسیحا سمجھ لیتی ہے،اور انہی کے کہنے سے اپنے معاملات طئے کرتی ہے۔انتخابات کے زمانے میں تو ان لوگوں کی دوڑ دھوپ کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے، یہ اپنے آپ کو لوگوں کا سب سے بڑا ہمدرد اور مسیحا بتانے لگتے ہیں اور لوگ بھی انتخابی حکمت عملی انہی کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں اگر کوئی سچا ہمدرد ان لوگوں کو صحیح صلاح دے اور ان دلالوں کے خلاف کچھ کہہ دے تو اسے نہ صرف یہ کہ مسترد کردیا جاتا ہے بلکہ الٹے اسی پر دلال ہونے کی پھٹکار بھی لگا دی جاتی ہے اس طرح عوام بھی انہی سیاسی دلالوں کا ساتھ دیتی ہے اور یہ لوگ اپنے پیچھے چلنے والوں کو کسی عہدے یا کچھ نقد رقم کی دلالی لے کر تھوک کے بھاؤفروخت کر دیتے ہیں۔جو لوگ دلالی میں کوئی عہدہ لیتے ہیں وہ اپنے لوگوں کو اپنے رعب اور ظلم و زیادتی کے سوا کچھ بھی نہیں دے پاتے،دلالی انہیں اہم ترین معاملات میں بھی زبان کھولنے سے باز رکھتی ہے عملی اقدام تو بہت دور کی بات ہے۔جو لوگ عہدے تک پہنچ نہیں رکھتے وہ اپنی اوقات کے مطابق نقد رقم لے کر اپنے لوگوں کے ووٹ بیچ دیتے ہیں۔ کچھ دلال تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو سب طرف سے دلالی لے لیتے ہیں خود ان کی تو کوئی عزت نہیں ہوتی وہ قوم کو بھی بے عزت کر دیتے ہیں۔ سیاسی دلالوں کی طرح دلال مذہبی بھی ہو سکتے ہیں لیکن مذہبی دلالی بھی سیاسی فریقین کے لئے ہی کی جا تی ہے اس لئے اس کو سیاسی دلالوں کی ذیلی قسم میں ہی شمار کیا جا نا چاہئے۔مذہبی دلال بھی اپنی پر پیچ اور جو شیلی تقاریر و وعظ کے ذریعہ لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کر لیتے ہیں اور موقع بہ موقع ان کی دلالی کھاتے رہتے ہیں۔
یہ مضمون ہمیں ۴۱۰۲ کے لوک سبھا انتخابات کے وقت سوجھا تھا، لیکن اب پھر دو اسباب کے باعث یاد آگیا ایک تو یہ کہ پچھلے دنوں ’متنازعہ‘ اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک نے ایک دعویٰ کے ذریعہ الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے کشمیر کے خصوصی درجہ کو ختم کر نے کے فیصلے کی حمایت کے بدلے ان پر درج سبھی مقدمات واپس لینے ان کے اثاثے بحال کرنے اور انہیں انڈیا واپس آنے کا آفر دیا تھا جو انہوں نے ٹھکرا دیا۔ یعنی حکومت ہند نے ’دلالی‘ کے عوض ان سے اپنی کشمیر پالیسی کی حمایت چاہی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے اس الزام کے بعد ہماری آنکھوں کے سامنے وہ تمام چہرے گھوم گئے جنہوں نے کشمیر میں دفعہ ۰۷۳ ہٹائے جانے کی پرزور حمایت کی تھی، وہ ’دانشور‘ بھی یاد آگئے جنہوں نے پریس کانفرنس اور جوائنٹ اسٹیٹمنٹ کے ذریعہ حکومت کے اس اقدام کی حمایت کی تھی اور مودی جی کے ’نئے کشمیر‘ کو سپورٹ کیاتھا۔ وہ مذہبی جماعتیں بھی یاد آگئیں جنہوں نے خود ہوکر وزیر داخلہ سے ملاقات کی تھی اور ان کے اقدام کو اپنی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ وہ لوگ بھی یاد آگئے جنہوں نے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کے منھ پر کالک پوتنے والے کو انعام دینے کا اعلان کیا تھا کیونکہ چدمبرم نے کہا تھا کہ ’اگر کشمیر ہندو اکثریتی علاقہ ہوتا تو بی جے پی ۰۷۳ کو ٹچ بھی نہیں کرتی تھی‘۔ اس مضمون کے یاد آنے کی دوسری وجہ وہ لوگ بنے جنہوں نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف پچھلے دوماہ سے چل رہے احتجاج کا کریڈٹ لینے کے لئے دوڑ دھوپ شروع کر دی ہے۔جو اپنی اپنی ایکشن کمیٹیاں بناکر احتجاج کو اپنے نام کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں، جو حکومت کے آشواسن کے نام اس احتجاج کو ختم کر نے کی بات کر رہے ہیں، جو اپنی دال نہ گلتی دیکھ احتجاج کرنے والوں کو ڈرا رہے ہیں،ان کی ہمت پست کر رہے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سب لوگ ’دلال‘ ہیں انہوں نے کسی’دلالی‘ کے عوض ہی حکومت کی کشمیر پالیسی کی حمایت کی یا وہ کسی دلالی کے لالچ میں ہی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کو اپنے نام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کا دعویٰ آنکھ بند کر کے مان لیا جانا چاہئے، ہمارا کہنا صرف اتنا ہے کہ ہم کو آنکھیں اور دماغ دونوں کھلے اورپوری طرح جاگے ہوئے رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ’اپنوں‘سے بھی اتنے ہی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے جتنا غیروں سے چوکنا رہنا چاہئے۔ ہمیں اپنوں کے اقدامات کے متعلق بھی اتنے ہی حساس رہنا چاہئے جتنا حساس رہتے ہوئے ہم غیروں کے اقدامات میں سب سے پہلے سازش کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ کوئی اپنا ہی حقیر دلالی اور خود کے مفاد کے عوض ہمیں اغیار کے دام فریب میں نہ پھنسوا سکے۔ [email protected]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کے نے نعرہ لاگایا’دیش کے غداروں کو۔۔گولی مارو سالوں کو‘لیکن جب لوگوں نے اپنے ووٹ کی گولی ماری تو معلوم ہوا وہ گولی بی جے پی کولگی۔ اوزیر داخلہ امت شاہ نے دلی کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ای وی ایم کا بٹن اس زور سے دبائیں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ کو لگے۔ لوگوں نے بٹن ایسا دبایا کہ کرنٹ خودامت شاہ کو لگا اور بی جے پی پر عام آدمی پارٹی کی جھاڑو پھر گئی۔ بی جے پی کے امیدوار کپل مشرا نے ان انتخابات کو انڈیا پاکستان کا مقابلہ قرار دیتے ہوئے دراصل یہ کہا تھا کہ بی جے پی انڈیا ہے اور اس کے مخالفین پاکستان، لیکن لوگوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ نہ صرف کپل مشرا کو دھول چٹائی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ صرف بی جے پی ہی انڈیا نہیں ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنے والے بھی انڈیا ہیں شاہین باغ بھی انڈیا ہے اور وہاں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ بھی انڈیا ہیں۔ بی جے پی نے دہلی انتخابات کی شروعات وہاں کی غیر قانونی کالونیوں کو قانونی بنانے کے اعلان سے کیا تھا لیکن جیسے جیسے انتخابات قریب آتے گئے بی جے پی اپنی اوقات کی طرف گرتی گئی۔ وہ وکاس کو چھوڑ کر ہندو مسلم منافرت، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ہندوؤں کے دشمن یا دیش کے غدار یا پاکستان کے حامی قرار دے کر دلی کے لوگوں کو ہندو مسلمان میں تقسیم کر نے کی اپنی روایتی گندی سیاست کی طرف آگئی۔ آخر میں مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے سب سے نچلے درجہ پر آتے ہوئے دلی کو’اسلامک اسٹیٹ‘بننے سے بچانے کے لئے بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔لیکن ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں،لوگوں نے ان کے منھ پر زوردار طمانچہ جڑتے ہوئے بتادیا کہ وہ غلط سمجھتے ہیں ان کے مخالفین کو ووٹ دینے سے دلی اسلامک اسٹیٹ تو نہیں بنے گی لیکن وہ انہیں ووٹ دے کر اسلامک اسٹیٹ طرز کی ’ہندو اسٹیٹ‘ بھی نہیں چاہتے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں نے بی جے پی کے ساتھ اس کی آئیڈیا لوجی کو بھی ٹھکرادیا؟ کیا اس انتخاب میں بی جے پی کے ساتھ ہندوتوا بھی ہار گیا؟کیا نفرت کی سیاست کو شکست ہوئی؟کیا کیجریوال کی جیت ہندوتوا مخالف آئیڈیا لوجی کی جیت ہے؟کیا یہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عوام کا مینڈیٹ ہے؟ ہمیں نہیں لگتا، ہمارا خیال ہے کہ باوجود اس کے کہ بی جے پی نے یہ الیکشن سی اے اے کے اشو پر لڑا اور ہاری پھر بھی یہ سی اے اے کے خلاف عوام کا مینڈیٹ نہیں، بی جے پی کی آئیڈیالوجی کی ہار نہیں،ہندوتوا کا استرداد نہیں۔ اروند کیجریوال بی جے پی کے خلاف کوئی آئیڈیا لوجی لے کر نہیں اٹھے وہ اپنے کام کو لے کر بی جے پی سے لڑے ان کی جیت ہندوتوا کے مقابلہ کام کی جیت ہے۔ بی جے پی نے ان کے گرد سی اے اے، شاہین باغ، دیش بھکتی اور ہندوتوا کا جال بنا تھا لیکن اروند کیجریوال بڑی چالاکی سے اس جال میں پھنسنے بچے رہے۔ اگر وہ بی جے پی کی کسی بات کا جواب دیتے،ہندوتوا کی مخالفت نہ بھی کرتے سیکولرازم کا دم ہی بھرلیتے، سی اے اے کے خلاف یا شاہین باغ کی حمایت میں ایک لفظ بھی بول دیتے تو بی جے پی کے جال میں بری طرح جکڑجاتے اور ان کا اپنا روایتی یا ترقی پسند ووٹ کھسک جاتا،لوگ انہیں مسلمانوں کے حمایتی سمجھ کر مسترد کردیتے۔ چلئے یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ انہوں نے بڑی چالاکی سے بی جے پی کی سیاسی بساط الٹ دی، وہ کوئی آئیڈیا لوجی لے کر نہیں اٹھے اس سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن فرق اس سے پڑتا ہے کہ انہوں نے بھی اپنی ’کام کی سیاست‘ کو ہندوتوا کا تڑکا دیا۔ گو کہ یہ ہندوتوا بی جے پی کا سخت گیر ہندوتوا مسلم مخالف یا منافرت آمیز ہندوتوا نہیں، وہ نرم ہندوتوا بھی نہیں جو کانگریس اپناتی رہی لیکن ہندوتواہی کی ایک ہلکی قسم ضرور ہے جسے ’سرد ہندوتوا‘ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے اس ہندوتوا کے اظہار کے لئے پچھلے سال ہی دلی کے اسکولوں میں دیش بھکتی کا پاٹھ پڑھوانے کا اعلان کیا تھا۔ شاہین باغ کے معاملے میں انہوں نے کہاکہ وزیر داخلہ با اختیار ہونے کے باوجود شاہین باغ روڈ اس لئے خالی نہیں کروار ہے ہیں کہ الیکشن میں اس کا استعمال کیا جا سکے، یعنی انہوں نے امت شاہ کے سر ٹھیکرہ پھوڑا کہ انہوں نے پولس کے ذریعہ روڈ خالی کروانا چاہئے، یہی نہیں انہوں نے آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ ’اگر دلی پولس ہمارے ماتحت ہوتی توہم نے دو گھنٹے میں وہ علاقہ خالی کروا دیا ہوتا‘ چہ معنی؟ یعنی بزور قوت خالی کروادیا ہوتا؟انہوں نے سی اے اے اور شاہین باغ پر کوئی اسٹینڈ نہیں لیا لیکن کچھ ایسے اشارے ضرور کئے کہ سمجھنے والے سمجھتے رہیں کہ ان کا اسٹینڈ کیا ہے؟ یعنی بین السطور یہ کہا کہ جس طرح بی جے پی کانگریس کو مسلمانوں کی منھ بھرائی کرنے والی پارٹی کہتی ہے وہ کانگریس کی طرح مسلمانوں کی منھ بھرائی نہیں کرتے۔ اسی طرح ’ہندومخالف‘ ہونے کے بی جے پی کے الزام کے جواب میں جہاں انہوں نے ہندوؤں کی تیرتھ یاتراؤں کے لئے کئے گئے کام کا تذکرہ کیا وہیں اپنے آپ کو ہندو بھی ثابت کیا یہ کہہ کر کہ وہ ہنومان جی کے کٹر بھکت ہیں، روز ہنومان مندر جاتے ہیں اور انہیں ہنومان چالیسا یاد بھی ہے۔ اسی طرح ان کی بیٹی نے بھی کہا ہے کہ اس کے والد بچپن ہی سے انہیں بھگوت گیتا پڑھاتے رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے کسی کو کسی کے مذہبی ہونے سے کوئی پرابلم نہیں ہو سکتا ہے، اسی طرح سیاسی لیڈران کے مذہبی ہونے سے بھی کسی کو کوئی پرابلم نہیں ہونا چاہئے، لیکن سیاسی لیڈروں کے ذریعہ اپنے مذہبی ہونے کا عوامی اعلان دراصل اپنے آپ کو کچھ خاص لوگوں سے جوڑنا اور کچھ خاص لوگوں سے الگ کرنا ہے۔ کیجریوال جی نے اپنے آپ کو ہنومان بھکت کہہ کر صرف یہی نہیں کہا کہ وہ ہندو ہیں، ہندوؤں میں سے ہی ہیں بلکہ یہ کہا کہ وہ مسلمانوں سے الگ ہیں اور یہی دراصل ہندوتوا کی ابتدا ہے اروند کیجریوال نے اپنی ’کام کی سیاست‘ میں جس کا رنگ بھرا ہے۔ویسے اب بی جے پی نے پورے ملک میں ایسی مضبوط زہریلی فضا تیار کردی ہے کہ ہندوتوا کی مخالفت کر کے بی جے پی کو شکست دینا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگیا ہے۔کام کی بنیاد پر جس نئی سیاست کی شروعات کیجریوال نے کی ہے اس میں ان کے’سرد ہندوتوا‘ کی آمیزش کے باوجود ان کی ستائش کی جانی چاہئے کہ ان کی اس چالاک سیاست کی وجہ سے بی جے پی اپنے ووٹ فیصداور چند سیٹوں میں اضافے کے باوجود وہ شاہین باغ سے فائدہ نہیں اٹھا سکی ہمارے ہی احتجاج کو ہمارے خلاف استعمال نہیں کرسکی۔ بی جے پی کے سخت ہندتوا کے مقابلہ کیجریوال کانرم ہند توا قابل قبول ہو سکتا ہے یہاں تک کہ وہ کانگریس کی طرح اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال نہ کریں۔ لیکن اس نئی سیاست پر غور کیا جانا چاہئے اور اسی کے مطابق اپنی سیاسی پالسی بھی طے کرنی چاہئے۔
[email protected]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی: دہلی الیکشن کے متوقع نتائج پربی جے پی کے تعلق سے بڑی خبرآئی ہے۔ انتخابی نتائج سے پہلے بی جے پی میں کل دیر رات ایک بڑی میٹنگ چلی ہے۔یہ میٹنگ صبح تین بجے تک چلتی رہی۔اس میں بی جے پی صدر جے پی نڈا، وزیرداخلہ امت شاہ، دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری شامل تھے۔ میٹنگ میں دہلی کی ایک ایک سیٹ کا جائزہ لیاگیاہے۔بتادیں کہ دہلی میں انتخابات ختم ہونے کے بعد تقریباََتمام ایگزٹ پول نے عام آدمی پارٹی کی حکومت بننے کا دعویٰ کیاہے۔ ایگزٹ پول سامنے آنے کے بعد عام آدمی پارٹی مکمل طور پرپر اعتماد نظر آرہی ہے تو بی جے پی ایگزٹ پولز کے برعکس نتائج آنے کی بات کر رہی ہے۔بی جے پی کو اتنا اعتماد ہے کہ دہلی میں ووٹنگ ختم ہونے کے بعد ایگزٹ پول کے اعداد و شمار کو غلط بتا رہی ہے۔بی جے پی کو تو یہ بھی لگتا ہے کہ11 فروری کو دہلی میں انہی کی حکومت بنے گی۔لیکن اگرایگزٹ پول کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو دہلی میں بی جے پی کے ارمان پورے ہوتے نہیں دِکھ رہے ہیں۔ووٹنگ ختم ہونے کے بعد سب کو نتائج کا انتظار ہے۔ ایگزٹ پول صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ دہلی میں تیسری بار عام آدمی پارٹی اقتدارپرقابض ہوگی، لیکن بی جے پی کی جانب سے مسلسل اس سے انکار کیا جا رہاہے۔ دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری نے بھی بی جے پی کی جیت کا دعویٰ کیاہے۔
بی جے پی کی حمایت میں اترے گریٹ کھلی، کہا: وزیراعلیٰ کے لیے بی جے پی کے پاس کئی چہرے
نئی دہلی:بی جے پی کے لئے انتخابی مہم میں ریسلر کھلی اترے۔ انہوں نے کہا کہ اپنا فرض بنتا ہے کہ ہندوستانی ہونے کے ناطے اس ملک میں جو ہو رہا ہے،اس سے آگاہ رہیں اور جو ہندوستان کی بات آگے رکھتا ہے،اس کی حمایت کی جائے، سیکورٹی کی بات کرنا ضروری ہے،اسی لیے بی جے پی کی حمایت کرتا ہوں۔بی جے پی میں وزیر اعلی کے چہرے کو لے کر کہا کہ بہت سارے چہرے ہیں بی جے پی میں۔اعلی کمان کے ہاتھ میں ہے دہلی سے وزیر کون بن کر آتا ہے،بہت سے لوگ ہیں بی جے پی میں جو وزیراعلی کا چہرہ بن سکتے ہیں۔
( ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی، حیدرآباد،)
وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی نے 6/فروری 2020ء کو لوک سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطبہ کے جواب میں اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس بات کا تیقن دیتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون سے کسی بھی ہندوستانی چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان، سکھ‘ عیسائی ہو یا جین، بدھ اس کی شہریت چھینی نہیں جائے گی۔ ان کے لئے ہر شہری صرف ہندوستانی ہے‘ کانگریس کے لئے یہ شہری ہندو یا مسلمان ہیں۔ ایوان پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر کی اہمیت اس لحاظ سے ہوتی ہے کہ ہر لفظ باقاعدہ ریکارڈ میں شامل ہوتا ہے۔ رسمی تقریر سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اپوزیشن نے وزیر اعظم کی تقریر کو ”الف لیلوی داستان“ کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ سوائے بی جے پی کے کوئی اور ملک میں مذہبی تفریق کا ذمہ دار نہیں ہے۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں میں ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے‘ ہمیشہ رہے گا۔ عہدہ کے اعتبار سے وزیر اعظم کی اپنی ذمہ داری ہے‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو۔ مگر ان کے وزراء اور پارٹی لیڈرس کا زہر آلود لہجہ، اشتعال انگیز بیانات اور مسلم دشمن رویہ شرمناک رہا ہے۔
عام ہندوستانی کے لئے ایک طرف وزیر اعظم کی تقریر اس میں کئے گئے وعدوؤں اور تیقنات پر غور و فکر کرنے‘ یقین کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔ ساتھ ہی وہ وزیر اعظم کی تقریر کو اپوزیشن کی تنقید کی کسوٹی پر پرکھ کر بھی دیکھ سکتا ہے۔ یہ تیقنات، دعوے، وعدے دہلی الیکشن سے کچھ گھنٹوں پہلے ہوئے ہیں اس کا کیا اثر ہوگا وہ آنے والے دنوں میں نظر آئے گا۔ البتہ یہ بات طئے ہے کہ بی جے پی قائدین نے حالیہ عرصہ کے دوران جو رویہ، لب و لہجہ اختیار کیا وہ شرمناک رہا ہے۔
دارالحکومت میں اقتدار کے لئے وہ جتنا گرسکتے تھے‘ گرچکے۔ عوام کی نظروں سے تو پہلے گرچکے تھے‘ اپنی نظروں سے اس لئے نہیں گریں گے کہ گراوٹ ہی ان کی پہچان بن چکی ہے۔ یہ ان کی بدبختی ہے۔ ان کی ہر کوشش‘ ہر سازش ناکام ہورہی ہے۔ ہر نشانہ چوک رہا ہے۔ ان کا ہر حربہ عوام سمجھنے لگے ہیں‘ وہ جو کہتے ہیں اس کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ کیوں کہ عوام جان چکے ہیں کہ وہ جھوٹ کے پتلے ہیں۔ کلاکار ہیں۔ اداکار ہیں۔ بازی گر ہیں اور ایسے جادوگر کہ انہی کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سیاسی مفادات کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ گولیاں چلائی جارہی ہیں‘ اور اس کے الزام اپوزیشن پر لگائے جارہے ہیں۔ پہلے الزام لگایا گیا کہ پیسہ لے کر خواتین احتجاج کررہی ہے جب ایماندار، فرض شناس، میڈیا نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کیا تو اپنی ایک خاتون کارکن کو برقع پہناکر ان خواتین میں پہنچادیا گیا تاکہ اسٹنگ آپریشن کے ذریعہ غلط سلط باتیں منظر عام پر لائی جائیں۔ مگر یہاں بھی وہ مات کھاگئے۔ کیوں کہ انہوں نے اس مرتبہ شاہین باغ کی خواتین سے متعلق اندازہ لگانے میں غلطی کی۔ یہ خواتین جو لگ بھگ دو مہینوں سے اپنے گھروں کے چین و سکون کو قربان کرکے اپنے بعض ارکان خاندان کی ناراضگی کے باوجود ایک عظیم مقصد کے لئے چٹان کی طرح ڈٹی ہوئی ہیں۔ وہ صرف نعرے نہیں لگارہی ہیں‘ بلکہ انہوں نے اپنی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور مسلسل تھکن‘ آنے والے حالات کے اندیشوں کے باوجود اپنے دماغوں کو روشن رکھا ہے۔ شاہین باغ دہلی کی خواتین کی چوکسی نے سنگھی پریوار کی گونجا کپور کی سازش کو بے نقاب کیا۔ اس سے پہلے لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے پاس بھی احتجاج دھرنے میں شامل ہونے والی اس سنگھی پریوار کی مہیلا کو اِسی طرح پکڑا گیا تھا۔ فرض شناس میڈیا نے شاہین باغ کی باعزت خواتین کو سلام کیا جس نے اپنے دشمن کی حفاظت کی اور اُسے پوری سلامتی کے ساتھ پولیس کے حوالے کیا۔ وہی پولیس جس نے جامعہ کے طلبہ پر گولی چلانے والے گوپال کے ساتھ شفقت آمیز سلوک کیا۔ جو شاہین باغ کے پاس فائرنگ کرنے والے کپل گوجر کو بھی پوری محبت کے ساتھ لے گئے اور پھر اس کا رشتہ عام آدمی پارٹی سے جوڑ دیا۔ جبکہ کپل کے باپ نے علی الاعلان یہ کہہ دیا ہے کہ عام آدمی پارٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کا بیٹا مودی کا بھکت ہے۔ دہلی پولیس کی جانب داری اور عام آدمی پارٹی کیساتھ ان کا امتیازی سلوک کا پردہ بھی فاش ہوگیا جب الیکشن کمیشن نے یہاں کے ڈی سی پی کو الیکشن ڈیوٹی سے ہٹادیا۔ویسے بھی دہلی پولیس جامعہ ملیہ واقعہ اور شاہین باغ کے معاملہ میں اس قدر بدنام ہوچکی ہے کہ خاکی وردے پر لگے داغ مٹنے کے لئے ایک طویل عرصہ لگ جائے گا۔ جہاں تک شاہین باغ میں برقع پہن کر جانے والی گونجا کپور کی جگہ اگر کوئی مسلم خاتون آر ایس ایس کی ریالی یا بی جے پی کی کسی خفیہ میٹنگ میں نظر آتی تو اُسے کسی دشمن ملک سے جوڑ دیا جاتا۔ گونجا کپور کو تو جو ایک یوٹیوب چیانل چلاتی ہے‘ جو اپنے چہرے سے ہی عیار اور مکار نظر آتی ہے۔ آزاد کردیا گیا اور یہ احسان فراموش جسے صحیح سلامت شاہین باغ کی خواتین نے وہاں سے جانے دیا۔ ایک بار پھر گمراہ کن پروپگنڈہ میں مصروف ہوگئی ہے جس سے ان کے ذہن فکر اور اخلاق اور اقدار اور آنے والے دنوں میں ان کے عزائم کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات طئے ہے کہ موجودہ حالات ہمیں مستقبل کے اندیشوں سے خوفزدہ کررہے ہیں۔ اس لئے کہ جمہوریت کے چاروں ستون ہمارے خلاف کام کررہے ہیں۔ جہاں ہمارے مخالفین کی حکومت ہے وہاں بھی وہی حال ہے‘ اور جہاں ہمارے نام نہاد دوستوں کاراج ہے وہاں بھی کم از کم پولیس اور انصاف کے اداروں کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ اس لئے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کھلا دشمن زیادہ خطرناک ہے یا سیکولرزم کے لبادے میں۔ہماری تاریخ کے اوراق ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں اور ساتھ ہی ہمت بندھاتے ہیں کہ ہر دور میں ہر قوم ہماری دشمن رہی۔ حالات ہمیشہ آزمائشی رہیں۔ نشیب و فراز آتے رہے‘ کئی بار ہم بلندی پر پہنچے مگر وہاں ڈٹے رہنے کی کوشش نہیں کی۔ جب اللہ رب العزت نے ہمیں تمام نعمتوں سے سرفراز کیا تو ہم نے اس کاشکر ادا کرنے کے بجائے فخر کیا۔ اس کے دین کو پھیلانے کے بجائے ہم نے اپنے مفادات کے لئے دوسروں کے دین کو اختیار کیا۔ اپنے اقتدار کے لئے ہر قسم کے سمجھوتے کئے۔ جس کردار اور اخلاق کی بدولت ہمیں اقتدار ملا تھا اُس اخلاق اور کردار کا دامن ہم نے چھوڑا اور جنہوں نے اُسے تھاما انہیں اقتدار بھی مل گئی۔ ہم بلند و بالا عمارتیں بناتے رہے‘ اپنی حرم سراؤں کو آباد کرتے رہے‘ اِن عمارتوں پر ایک ہم ہی کیا‘ سبھی فخر کرتے ہیں مگر جن کے ساتھ ہم نے رشتے بنائے تھے آج وہ ترشول کے امیتابھ کی طرح باغی بن کر ہم ہی سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔
جو حالات آج کے ہیں‘ وہ اس لحاظ سے پہلے کے مقابلے میں مختلف ہیں کہ پہلے ہماری نسل کشی بھی کی جاتی رہی اور ہمیں معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے ہماری دکانوں، مکانوں اور اداروں کو تہس نہس کیاجاتارہا۔ ملازمتوں سے محروم کیا گیا۔ اس کے باوجود ہم دوبارہ اپنے پیروں پر آپ کھڑے ہونے میں کامیاب رہے۔اس مرتبہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جائے۔شاید وہ کامیاب بھی ہوجاتے مگر اس مرتبہ قوم خواب غفلت سے بیدار ہوئی ہے۔ اس نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ اسے جینابھی یہیں ہے اور پیوند خاک بھی یہیں پر ہونا ہے۔ اس جذبہ کی بیداری نے انسانی خوف کو دلوں سے نکال دیا ہے اور اس کی جگہ خوفِ نے خدا لے لی ہے۔ اور جب خوف خدا پیدا ہوتا ہے اور انسانوں کا ڈر نکل جاتا ہے توہم ایک بار پھر ناقابل تسخیر بن جائیں گے۔انشاء اللہ
اس کیلئے شاہین باغ کی خواتین کی طرح چوکسی اور قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اِن خواتین کو ان کے شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کی مدد بھی ضروری ہے بلکہ ہر فرد کو دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے۔ احتجاج کب تک جاری رہے گا‘ یہ کہانہیں جاسکتااس احتجاج کے دوران جو بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے‘ جو شعور جاگا ہے جینے اور مرمٹنے کا جو جذبہ پیدا ہوا ہے اسے ہر حال میں زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ 2014 اور 2019ء کے الیکشن میں مسلم ووٹ بینک کا تصور ختم ہوچکا تھا۔ مسلمان اپنے آپ کو بے بس بے وزن محسوس کرنے لگے تھے مگر بھلا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا کہ انہیں سیا ہ قوانین کو روشناس کراتے ہوئے ایک طرح سے مسلمانوں کو دوبارہ اہمیت دلانے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔گذشتہ دو مہینوں سے جو ہندوستانی مسلمانوں کو دیکھ کر سب حیران و پریشان ہیں‘ کیوں کہ ہر ہندوستانی مسلمان کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ کہہ رہا ہو:
آج پھر جینے کی تمناہے،آج پھر مرنے کا ارادہ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
زمین پر فساد برپا کرنے والے ہمیشہ اپنے آپ کو مصلح یا ریفارمر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دیر یا سویر ان کی قلعی کھل جاتی ہے اور آخر میں بڑے بے آبرو ہوکر زندہ رہتے ہیں یا تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کیلئے دفن کر دیئے جاتے ہیں یا دفن ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں جو پارٹی سب سے زیادہ ظلم و ستم ڈھا رہی ہے اور جو اپنے آپ کو Party with difference (پارٹی جو دوسروں سے مختلف ہے) کہتی ہے اقتدار سے پہلے یا اقتدار پانے کے بعد اس کے چہرہ سے پردہ اٹھتا رہا ہے اور اب تو بالکل اس کی ایک ایک حرکت دنیا کے سامنے عیاں ہوتی جارہی ہے۔ اس کو اب اقتدار، طاقت اور دولت بچائے ہوئے ہے ورنہ یہ کب کی راندہئ درگاہ ہوجاتی۔
دہلی کے اسمبلی الیکشن میں اس پارٹی نے ہر طرح کا حربہ آزمایا مگر ہر حربہ میں اسے بالآخر شرمندگی اٹھانی پڑی۔ شرارت کھلے بھی، شرارت چھپ کر بھی، شرارت پردہ میں بھی مگر ’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘۔
پہلے ان کے ایک ایم پی کپل شرما نے شاہین باغ کو چھوٹا پاکستان کے نام سے پکارا۔ وہاں سے پاکستانی داخل ہوتے ہوئے انھیں نظر آئے۔ جب ان کی باتوں کا دہلی والوں نے مذاق اڑایا تو پرویش ورما ایم پی نے جن کے والد صاحب ورما دہلی کے وزیر اعلیٰ تھے شاہین باغ کی خواتین اور مرد کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ ان کے بارے میں بتایا کہ وہ اتنے بلوان (طاقتور) ہیں کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہونے لگیں گے تو ان کے اور دوسروں کے گھروں میں داخل ہوکر ریپ اور بلتکار (عصمت دری) ماؤں اور بہنوں کی کریں گے“۔
تیسرا کردار انوراگ ٹھاکر وزیر ہند کا نمودارہوا جوکرکٹ کے بھی شوقین ہیں۔ کرکٹ کے ادارے سے کبھی جڑے رہے ہیں وہ چھکا مارنے کے چکرمیں ”گولی مارو سالوں کو“کا نعرہ دیا شاہین باغ کی خواتین اور راہل سب کو ایک سانس میں غدارِ وطن کہنے میں ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں کی۔
ورما اور ٹھاکر کو الیکشن کمیشن نے قانون کی ہلکی چھڑی سے ان کی پیٹھوں پر ضرب لگانے کے بجائے اسے چھوکر اپوزیشن کے منہ کو بند کرنے کی کوشش کی۔ قابل مبارکباد ہے سی پی ایم اوران کی برندا کرات جنھوں نے پولس تھانہ میں دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی مگر امیت شاہ کی لاڈلی پولس بھلا کیسے امیت شاہ کے لاڈلے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہمت کرتی، لہٰذا اس نے انکار کردیا۔ محترمہ برندا کرات نے جرأت دکھائی اور دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہائی کورٹ نے پولس کو نوٹس دے کر پوچھا کہ آخر ایف آئی آر درج کرنے میں کیا قباحت یا دقت پیش آئی؟
اب چوتھا کردار نقاب پوشی کی حالت میں شاہین باغ میں نظر آیا۔ پہلے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں نقاب پوشوں نے طلبہ اور طالبات پر رات کے اندھیرے میں ظلم و ستم ڈھایا۔ اب یہ دیس بھکتنی گنجا کپور نقاب میں شاہین باغ کی خواتین کی جاسوسی کرتی ہوئی پکڑی گئی۔ اپنے آپ کو مودی بھکتنی بتائی اورمودی کے ٹوئٹر میں حصہ لینے والی کو ظالم کہا۔ اچھا ہوا کہ شاہین باغ کی عقلمند خواتین نے گنجا کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور چھیڑ چھاڑ سے کام نہیں لیا۔ جب وہ پکڑی گئی تو پولس درمیان میں بیچ بچاؤ کیلئے آگئی اور اسے بحفاظت شاہین باغ سے بچاکر لے گئی۔
قصہ مزیدار کپل گرجر کا ہے جسے پولس محکمہ کے افسر نے پریس کانفرنس میں عام آدمی پارٹی کا آدمی بتایا۔ بعد میں بی جے پی نے اس کی خوب تشہیر کی۔ یہاں تک کہ مودی کابینہ کے ایک منجھے ہوئے وزیر پرکاش جاوڈیکر نے پریس کانفرنس کرکے اسے اروند کجریوال کی پارٹی کا خاص ممبر اور ورکر بتایا اور اس کے باپ کو بھی اس کے ساتھ جوڑ دیا مگر دوسرے روز ہی بی جے پی کے غبارے سے ہوا نکل گئی جب کپل گرجر کے باپ اور بھائی نے پریس کے سامنے صاف صاف کہا کہ کپل گرجر یا ان لوگوں کا عام آدمی پارٹی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تھوڑی بہت جو ہوا غبارے میں رہ گئی تھی اسے اروند کجریوال نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں یہ کہہ کر نکال دی کہ غیر قانونی یا بدامنی کرنے والے شخص کی خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو اسے سخت سے سخت دی جائے اور اگر وہ عام آدمی پارٹی کا ہو تو اسے اسے ڈبل سزا دی جائے۔ اسی پریس کانفرنس میں اروند کجریوال نے مجرموں کے ماں باپ کو بھی للکارا اور چیلنج کیا کہ ”اگر بی جے پی کے پاس وزیر اعلیٰ کیلئے دہلی میں کوئی چہرہ نہیں ہے اور امیت شاہ جی کہتے ہیں کہ جیتنے کے بعد وہ وزیر اعلیٰ بنائیں گے؟ تو میں ان کو دہلی کی صورت حال پر اس کے ہر مسئلہ اور ہر پہلو پر ڈیبیٹ یا ڈسکشن (بحث و مباحثہ) کی دعوت دیتا ہوں“۔
امیت شاہ جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں وہ بھلا کیسے اروند کجریوال جیسے تعلیم یافتہ شخص سے ٹکر لینے کیلئے سامنے آتے۔ انھوں نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ آج 6فروری ہے۔ 8فروری کو دہلی اسمبلی کا انتخاب ہے۔ اب سب کو 11فروری کا انتظار رہے گا کہ دہلی میں کام کی جیت ہوگی یا پروپیگنڈے، جھوٹ، اشتعال انگیزی اور نفرت انگیزی کی جیت ہوگی۔ کجریوال، مودی-شاہ کی جوڑی کو مات دیں گے یا جوڑی کجریوال کو وزیر اعلیٰ کی گدی سے اتارنے میں کامیاب ہوگی؟
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)