پٹنہ:مرکزی حکومت ملک میں جاری لاک ڈاؤن کی مدت کا تجزیہ کر رہی ہے، جہاں ریاستوں نے بھی اپنی حالات کے مطابق مرکزکوتجاویزبھیجی ہیں۔اسی کڑی بہار نے مرکزی حکومت کو مشورہ بھیجا ہے کہ بہار میں لاک ڈاؤن کو 31 مئی تک بڑھایاجائے۔مرکزی وزارت داخلہ نے ریاستوں سے تجاویزمانگی تھیںجس کے جواب میں بہار حکومت نے مرکزکولکھاہے کہ بڑی تعداد میں مزدور بہار آ رہے ہیں۔ اگر ریاست میں لاک ڈاؤن لاگو رہاتوان تارکین وطن محنت کشوں پر نگرانی آسان نہیںہوگی۔مزدوروں سے نتیش سرکارپہلے بھی گھبرائی ہوئی ہے اس لیے انھیں لانے کے لیے پہلے بھی مختلف حیلے کیے گئے ہیں۔اب جب کہ گائیڈلائنس میں ترمیم ہوگئی اورٹرینوں کاانتظام ہوگیاتوبھی یہ نتیش کمارسرکارپربھاری پڑرہاہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ جن علاقوں میں تارکین وطن محنت کشوں کے لیے کوارنٹائن سینٹر بنائے گئے ہیں انہیں ریڈ زون قراردیاجائے تاکہ وہاں کسی بھی قسم کی سرگرمی ممکن نہ ہو۔
Bihar Government
صرف تخمینہ سے کام چلایاجارہاہے،رام ولاس پاسوان نے نتیش حکومت کامطالبہ مستردکیا
پٹنہ:بہار میں عوامی تقسیم کے نظام کے ذریعے غریبوں کو راشن دینے کا معاملہ وزیر اعظم کی دہلیزپرپہنچاہے۔بہارحکومت کی تین انجن کی سرکارپران کے ہی ایک انجن سوال اٹھارہے ہیں،اس سے پہلے چراغ پاسوان نے بھی دس لاکھ راشن کارڈپرنتیش سرکارکوگھیراہے۔اب مرکزی وزیررام ولاس پاسوان نے سوال اٹھائے ہیں۔ مرکزی وزارت خوراک نے بہارحکومت کی طرف سے 30 لاکھ نئے کنبوں کے لیے اضافی غذائی اجزاء کے مطالبے کومستردکردیا ہے۔ اس کے بعد، بہارکے فوڈ اینڈ کنزیومر پروٹیکشن وزیر، مدن ساہنی نے وزیر اعظم سے اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی ہے۔مرکزی وزیر برائے خوراک رام ولاس پاسوان نے کہاہے کہ اناج کاالاٹمنٹ تخمینے پر نہیں کیاجاسکتا ہے۔ قومی فوڈ سیکیورٹی ایکٹ، جو 2013 میں بنایاگیاتھا، واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ مستفید ہونے والوں کی تعداد میں کسی بھی قسم کی ترمیم آئندہ مردم شماری کے اعداد وشمار پر مبنی ہوگی۔ ایسی صورتحال میں، اس میں ترمیم کیسے کی جاسکتی ہے؟ پہلے ہی، بہارکے لوگوں کی ایک فہرست دی جاچکی ہے، اس میں صرف لاکھوں کا نام باقی ہے۔ ایسے میں، مردم شماری کے نئے اعداد و شمار کے بغیر نئے نام کیسے شامل کیے جائیں گے؟ مرکزنے”پردھان منتری غریب کلیان یوجنا“کے تحت فوری طور پر تین ماہ کے لیے اناج دیا ہے، لیکن اگر ریاستی حکومت ان غیرمندرج افراد کی ایک فہرست بھیجتی ہے تو ان کو مستقل طور پر قومی فوڈ سکیورٹی ایکٹ کے تحت شامل کیا جائے گا۔ بہارکے وزیر خوراک نے 2021 کی باضابطہ آبادی کی بنیاد پر 150 لاکھ نئے مستفدین کے لیے 75 ہزار ٹن اناج کی رقم مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق پہلے ہی 14.04 لاکھ مستفیدافرادکم ہیں۔بہار کے فوڈ سپلائی منسٹرمدن ساہنی نے کہاہے کہ کورونا بحران کے موجودہ دور میں، بہار حکومت تعاون کے عمل کو انجام دینے میں مصروف ہے۔مرکزی حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ریاست میں راشن کارڈز سے محروم نئے خاندانوں کو ہر ماہ 75000 ٹن اضافی اناج فراہم کرے۔ بہار حکومت کے تیار کردہ اعداد و شمار مکمل طور پر درست ہیں۔ مرکزی وزارت برائے خوراک غیرضروری طور پر اس پر اعتراض کر رہی ہے۔ ہم نے دو سطح کے راشن کارڈ سے محروم خاندانوں کو جمع کیا ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا اس وقت تک غریبوں کو راشن نہیں ملے گا؟ کون پہلے ہی جانتا تھا کہ مردم شماری سے پہلے کورونا آئے گا؟ اگرمرکزی وزارت برائے خوراک مکمل نام اور پتے کے ساتھ فہرست چاہتی ہے تو وہ بھی فراہم کردی گئی ہے۔ لیکن، وہ ہمارے بھیجے گئے ڈیٹا کو کیسے خارج کرسکتے ہیں؟ ہم وزیر اعظم سے گزارش کر رہے ہیں کہ وہ اب ایک گائیڈ لائن دیں۔
ہارٹ سرجری، سیٹی اسکین تک میں پریشانی،مریض سخت پریشان
پٹنہ:بہارمیں طبی نظام چوپٹ ہے۔کوورناوائرس کا دبائواس قدرہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی سروس ٹھپ ہے۔کوروناکی بات ہی چھوڑدیجیے ،مرکزی حکومت سے جتنی ضروری طبی اشیاء مانگی گئی تھیں،وہ سب بہت کم دستیاب کرائی گئی ہیں۔ہارٹ سرجری ،ڈائلیسز،سیٹی اسکین ،الٹراسائونڈکے لیے مریض پریشان ہیں۔ سرکاری ہسپتال میں 30 مارچ کو ہارٹ اٹیک کے فوراََبعد ایمرجنسی بھرتی لینے والے بزرگ کے آپریشن پرٹال مٹول کیاجا رہاہے۔17 سال کے بچے کی ڈالیسیز پہلے پی ایم سی ایچ میں نہیں ہو سکی تو پرائیویٹ میں دو دن مسلسل 80 ہزار خرچ میں عمل کرانے کے بعد لواحقین خالی جیب بھگوان بھروسے واپس یہیں واپس آئے۔پی ایم سی ایچ میں 3 دن میں پہلی بار جمعہ کو ڈالیسیزکیاگیا۔اسی طرح حادثے میں زخمی 14 سال کے بچے کو 1 اپریل کو نیورومیں بھرتی لے کر اب تک کوئی جانچ نہیں کی گئی ہے، خون تک نہیں دھویاگیاہے ۔ حاملہ پیٹ میں بچے کے الٹے ہونے کا خدشہ لے کر پریشان ہے۔لاک ڈاؤن میں تیسری بار آ چکی، مگر الٹراساؤنڈ نہیں کیاگیا۔ ٹی بی مریضوں کاحال بھی براہے۔ ایک مریض 24 مارچ کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے ڈسچارج نہیں ہو سکا اور پھر دواپیسے ختم ہوگئے توضروری دوا تک نہیں دی گئی۔چھپرہ کے17 سالہ نشانت کمار کو ماما ابھے سنگھ نے 30 مارچ کی صبح پی ایم سی ایچ ایمرجنسی میں داخل کرایاتھا۔ ڈاکٹروں نے گردے میں پریشانی کی معلومات دی۔دوا کے ساتھ ڈالیسیز کی ضرورت بتائی۔ 31 مارچ کودوپہر تک کچھ نہیں ہوا تو لواحقین پرائیویٹ میں لے گئے۔وہاں اسی رات اور پھر اگلے دن ڈالیسیزہوئی۔ 80 ہزار روپے خرچ ہو گئے تو لواحقین پھر پی ایم سی ایچ واپس آ گئے۔بھاری بھاگ دوڑ کے بعد جمعہ کی صبح ڈالیسیز ہوئی۔ نشانت کے ماما ابی سنگھ نے کہاہے کہ اسپتال کے جونیئر ڈاکٹر ہی دیکھ رہے ہیں، وہ بھی بہت مشکل سے۔سونپورکا رہائشی 14 سالہ لڑکا ایک اپریل حادثے کا شکار ہوکر پی ایم سی ایچ آیاہے۔سر کے پچھلے حصے اور منہ پر سنگین چوٹ کے تین دن گزر چکے لیکن نیوروسیکشن میں اس کے ٹوٹے دانت سے نکلے خون تک صفائی نہیں ہوئی ہے۔ اسے بار بار جھٹکے آ رہے ہیں۔دولوگ ہمیشہ پکڑے رہ رہے ہیں۔ اس کے باوجود نہ تو اب تک نیوروکے نقطہ نظر سے کوئی جانچ کی گئی ہے اور نہ مریض اب تک صحیح علاج ملنے کی بات ہی کہہ رہے ہیں۔ جونیئرڈاکٹرز بھی صرف صبح ہی راؤنڈمارتے ہیں جوکہہ جاتے ہیں، وہ بھی کوئی کرنے کرانے والانہیں۔
ماسک اور ادویات خریدی جائیں گی: نتیش نے کہا، ہر ممکن اقدامات جاری ہیں
پٹنہ: نقل مکانی کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے بڑا فیصلہ لیاہے۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار کی سربراہی میں 1، اے راہ میں ہوئی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں وزیراعلیٰ مقامی علاقے ترقیاتی فنڈ (ایم ایل اے اور ایم ایل سی فنڈ) کے تحت فی ممبر اسمبلی اورقانون ساز رکن 50-50 لاکھ روپے فوری لیے جانے پر اتفاق رائے ہوگیا۔ اس کے لیے علاقے کی ترقی کی منصوبہ بندی کی گائیڈلائن میں باقاعدہ ترمیم کی گئی ہے۔ رقم کے استعمال کیے لیے محکمہ صحت کے تحت فنڈقائم کیاگیاہے۔ اس کے ذریعے کوروناوائرس سے متاثراورلاک ڈائون سے متاثر افراد کی مددکی جائے گی۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت اپنی طرف سے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ممبران اسمبلی اوراراکین قانون ساز کونسل چاہیں تو اپنی خواہش کے مطابق اس سے زیادہ رقم کی بھی سفارش کرسکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار نے کہا کہ جہاں بھی پرندوں کی غیرفطری موت ہو رہی ہے، اس پرنظررکھناضروری ہے۔ جانوروں اور ماہی وسائل کے سیکشن اور محکمہ صحت کو بہتر تال میل کے ساتھ کام کرناہوگا۔لاک ڈائون سے پہلے ہی 13 مارچ کو ریاستی حکومت نے 100 وینٹیلیٹر خریدنے کی اجازت دی تھی۔ اگر اس سے زیادہ وینٹیلیٹر مل پاتے ہیں ہے تومحکمہ صحت اوروینٹیلیٹر کی خریداری کرے گا۔ماسک بنائے جارہے ہیں۔حاجی پور میں سینیٹائزر بنائے جا رہے ہیں۔ دس ہزار ٹیسٹنگ کٹ دستیاب ہوجائیں گے۔ اس سے جانچ میں سہولت ملے گی۔
پٹنہ:بہارکے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے جمعہ کو برڈ فلو اور سوائن ٖفلوکولے کرجانوروں اور ماہی وسائل کے سیکشن کے ساتھ اعلیٰ سطحی میٹنگ کی ہے۔میٹنگ میں جانوروں اور ماہی وسائل کے سیکشن کے سیکرٹری این سرون کمار نے برڈ فلو اور سوائن بخار کے سلسلے میں وزیراعلیٰ کوتفصیلی معلومات دی ہیں۔میٹنگ کے دوران وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ جہاں بھی پرندوں کی غیر معمولی موت ہو رہی ہے اس پرنظررکھیں۔فلوکے اثرات کو روکنے کے لیے ضروری قدم اٹھائیں۔محکمہ صحت کے ساتھ بھی رابطہ بنائے رکھیں۔اس سے قبل جانوروں اور ماہی وسائل کے سیکشن کے سیکرٹری نے کہاہے کہ پٹنہ، نالندہ اور نوادہ ضلع میںکچھ پرندوں کے مرنے کی اطلاع ملی ہے، جن میں برڈفلوکی تصدیق ہوئی ہے۔ ان تین اضلاع میں مرغی فارم پر بھی نگرانی کی جا رہی ہے اوراس کے لیے ضروری کارروائی کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کے مختلف اضلاع سے پرندوں کے دیگر نمونے جمع کریں پوچھے گئے ہیں جنہیں تحقیقات کے لیے کولکاتہ بھیجا جا رہاہے۔سرون نے کہاہے کہ برڈ فلو کو دیکھتے ہوئے ویٹرنری سائنس یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم تشکیل کرکے اس پر فوری کارروائی کی جا رہی ہے۔بھاگلپور اور روہتاس میں سوائن بخارکی بھی معلومات ملی ہیں اوراس تناظر میں بھی ضروری کارروائی کی جا رہی ہے۔
آج ملک ایک شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ مفاد پرست عناصر کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے جس کی وجہ سے ملک کی فضا مسموم ہوچکی ہے۔ایک مخصوص طبقے کو مذہب کے نام پرمسلسل ٹارچر کیا جارہا ہے،ان کی ہر چیز اکثریتی طبقے کی آنکھوں میں چبھنے لگی اور ان میں سب سے زیادہ جو چیز کھٹکتی ہے وہ ہندوستان میں مدارس کا وجود ہے۔
اس میں ایک طرف جہاں مذہبی عصبیت کارفرما ہے وہیں دوسری طرف مدارس اور مدارس کے نصاب تعلیم میں کچھ ایسی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے اکثریتی طبقے کو ان کا وجود بے معنی سا لگنے لگا۔عالم اسلام کم از کم تین سو برسوں سے فکری زوال کا شکار ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ بلا شبہ ہمارا تعلیمی نظام ہے،کیوں کہ اسلامی فکر کی تعمیر میں تعلیمی نصاب کا ایک بڑا کردار ہے۔یقینا ماضی میں مدارس نے اسلامی افکار کی ترویج اور ایک مہذب و باقار سماج کی تشکیل میں نمایاں کردار اداکیا۔لیکن موجود ہ دورمیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ مدارس نے اپنا وقار کھودیا ہے اور جس قیادت کی مدارس سے امید کی جاتی رہی ہے وہ اب ناپید ہوچکی ہے نیز مدارس کی اہمیت اور ان کی سرگرمیوں کا دائرہ مدارس کی چاردیوار ی تک ہی محدو د ہوکر رہ گیا ہے۔لیکن اس کے باوجود بعض روایتی علما اپنے مفاد کی خاطراب بھی مدارس کے ثنا خواں ہیں اور وہ ببانگ دہل یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ اگر مسلمان دینی و دنیوی ترقی چاہتے ہیں تو انھیں مدارس کی اپنی جان سے بھی زیادہ حفاظت کرنی ہوگی اور ان کے نصاب میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی ہر گز برداشت نہیں کی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مدارس کے نصاب میں ذرہ برابر بھی تبدیلی آئی تو یقینا مسلمانوں کی عاقبت خراب ہوجائے گی اور ان کا رشتہ اللہ سے ٹوٹ جائے گا۔لیکن جب یہی علمائے کرام مدارس کی چار دیواری سے باہر نکلتے ہیں اور عملی میدان میں آتے ہیں تو انھیں اپنی حقیقت اور کم مائیگی کاشدید احساس ہونے لگتا ہے۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مدارس کی اہمیت و افادیت کا انکارمقصود ہے لیکن ذمے داران مدارس سے شکوہ ضرور ہے کہ انھوں نے ان طلبہ کو جہاں بہت سارے علوم سے مستفید کیا وہیں انھیں بہت سارے علوم سے محروم بھی کر دیا۔مدارس کے طلبا اپنی زندگی کے دس، بارہ سال کے قیمتی اوقات مدارس کی چار دیوار میں گزارتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کی ذہنی نشو ونما بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے۔لیکن انھیں مدارس کی چار دیواری تک ہی محدود کر دیا جاتا ہے۔اگر ان میں سے بعض خالی اوقات میں مدرسے کی چار دیواری کے باہر جدید علوم (انگریزی یا کمپیوٹر) سیکھنا چاہتے ہیں تو انھیں یہ موقع نہیں دیا جاتا۔بسا اوقات اس کام کو جرم عظیم سمجھا جاتا ہے اور ان کو مدارس سے خارج بھی کردیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں عموماً دو طرح کے مدارس ہیں۔ ایک وہ مدارس جو مکمل طور پر سرکاری مراعات سے دور ہیں۔ دوسرے ایسے مدارس جو ملک کی مختلف ریاستوں میں قائم مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں۔ اگر نصاب کی بات کریں تو بورڈ سے آزاد مدارس کے نصابات سے بورڈ سے ملحقہ مدارس کے نصاب قدرے بہتر ہے، مگر اکثر بورڈ کے مدارس میں بورڈ کے نصاب کا بہت زیادہ پاس ولحاظ نہیں رکھا جاتا، جس کی وجہ سے بورڈ سے ملحق مدارس بھی عصری تعلیم سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہو پاتے ہیں۔
اس سلسلے میں بہار مدرسہ بورڈ کے چیئرمین محترم عبد القیوم انصاری کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی بورڈ سے ملحقہ مدارس میں جو اصلاحات کرنے کی کوشش وہ خوش آئند ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ برسوں سے چلی آرہیں روایات اور بدنظمیوں کو ختم کرنا یک لخت آسان نہیں اور ان میں بہت سی اصلاحات ابھی باقی ہیں۔ خصوصاً مدرسہ بورڈ کے طلبا کو قومی تعلیم کے دھارے سے جوڑنے اورانہیں اسکول کے طلبا کے مدمقابل کھڑا کرنے بلکہ برتر کرنے کے سلسلے میں یونیسیف (Unisef)کی رہنمائی لیتے ہوئے نصاب تعلیم میں تبدیلی کرکے این سی ای آرٹی (NCERT)سے جوڑا گیا وہ نہایت ہی قابل قدر ہے۔ جس میں وسطانیہ، فوقانیہ اور مولوی درجات کے نصاب تعلیم کو از سر نو کو مرتب کیا گیا ہے اوران کے ہی مطابق 2021کے امتحانات منعقد ہوں گے۔ اسی طرح اسکول کے طرز عمل پر مولوی آرٹس، مولوئی سائنس، مولوی کامرس اور مولوی اسلامیات کے نصاب بھی تیار ہیں۔
اورجہاں تک اساتذہئ کرام کو سہولیات فراہم کرنے کی بات ہے تو اس میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔ لیکن پنشن (Pension) انکریمنٹ (increment)اور گریجویٹی(Gratuity)کی جانب توجہ دینے اور ان میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح قدرتی آفات وانتظامات (Desarter Managment)کی ٹریننگ کی شروعات، یواین ایف پی اے کے تعاون اور مدرسہ بورڈ کے اشتراک سے تعلیم نوبالغان پروگرام کا آغاز،مدارس کے پرنسپل کا ورکشاپ اور تعلیمی واصلاحی کانفرنس کا افتتاح، علاقائی دفتر کا قیام اور مدارس کو کمپیوٹر سے جوڑنے کے ساتھ آن لائن فارم بھرنے اور ایڈمیٹ کارڈ ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولیات قابل ذکر ہیں۔
ظاہر ہے ان خطوط پر اگر مدرسہ بورڈ گامزن رہے تو بہت جلد نمایاں کامیابیوں سے بورڈ کے فارغین لیس ہوں گے،لیکن ان عزائم اور اہداف کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے کام بھی ہیں جن پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ان کے بغیر تعلیمی نظام میں نہ شفافیت آسکتی ہے اور نہ ہی بورڈ کے تیارشدہ کارآمد نصاب سے خاظر خواہ فائدہ برآمد ہوسکتا ہے۔یقینا بورڈ کا نصاب اسی وقت مفید ہوگا جب اس کے پڑھانے والے بھی ذی فہم اور باشعور ہوں۔ نصاب میں موجودہ تبدیلی سے پہلے بھی بہار مدرسہ بورڈ کا نصاب بہترین تھا، مگر بورڈ کے اعلی عہدیدان نے حالات کے مدنظر جو اقدامات کیے ان سے بورڈ کا تعلیم نظام مزید بہتر ہوگا، کیوں کہ یہ تبدیلی وقت کا تقاضاہے، اس صورت حال میں لازمی کام یہ کہ بہترین اساتذہ کی تقرری عمل میں لائی جائے۔ بہترین اساتذہ کی تقرری کے لیے بورڈ کے افراد چند ہدایات بھی جاری کریں، تاکہ بورڈ سے ملحقہ مدارس انہیں مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ بحال کریں۔ اگر بہترین اساتذہ کی تقرری عمل میں آئے گی تو وہ وقت کی قدر وقیمت کو بھی سمجھیں گے۔ کیوں کہ وقت شناسی کے بغیر تعلیمی نظام کو مستحکم کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ مجھے امید ہے کہ اساتذہ کی تقرری میں جتنی شفافیت برتی جائے گی، ہمارا مدرسہ بورڈ اتنا ہی فعال ہوگا۔ جس طرح تعلیمی صحت کی بحالی کے لیے بہترین اساتذہ کی ضرورت ہے، اسی طرح ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے مڈڈے میل میں بھی بہتری لانا لازمی ہے۔ یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن پر فوری توجہ درکار ہے، تاکہ نئے نصاب سے ہم زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔
موبائل:09013049075
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نتیش کمار نے بہار اسمبلی میں کہاتھا کہ ابھی ہم جل،جیون،ہریالی مہم میں لگے ہیں،19جنوری کی انسانی زنجیر کے بعد این پی آر اور سی اے اے پر اسٹینڈ لیں گے،این آرسی کا تو سوال ہی نہیں ہے(ہاں نتیش کابینہ کے وزیر کہتے ہیں کہ بہار میں ہرحال میں این آرسی لاگو ہوگی سوال یہ بھی ہے کہ جھوٹ کون بول رہاہے؟)نتیش کہتے ہیں کہ اس پر بحث کریں گے،سشیل کمارمودی این پی آر لاگو کرنے کی تاریخ بتاتے ہوئے دھمکی دیتے ہیں کہ جو ملازمین اس میں حصہ نھیں لیں گے انھیں سزا ملے گی،وزیرشیام رجک کہتے ہیں کہ ابھی چرچا ہی نہیں ہوئی ہے،پرشانت کشور،کے سی تیاگی کچھ اور کہتے ہیں،یہ سب دھوکہ نہیں ہے؟پھر کیوں نہیں نتیش سرکار کو گھیراجائے؟ان کی کسی بات پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتاجب تک کہ اسمبلی این پی آر،سی اے اے،این آرسی کے خلاف تجویز منظور نہ کرلے اور این پی آر کا گزٹ واپس نہ لیاجائے کیوں کہ این پی آرہی این آرسی ہےـ
19جنوری سے آج 27 جنوری ہوگئی ہے لیکن کرسی کمار کو فرصت نہیں ملی،اس سے صاف ہے کہ وہ احتجاج کے کمزور ہونے کا انتظار کررہے ہیں اور ٹال مٹول کرکے جھوٹ بول رہے ہیں اور دھوکہ دے رہے ہیں یا پھر دہلی الیکشن میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے والے نتیش کمار سوچ رہے ہیں کہ اگر این پی آر کی حمایت میں گئے تو جو دو سیٹیں خیرات میں ملی ہیں اور دہلی آکر ابھیان کا ارادہ ہے،سب چوپٹ ہوجائے گا اس لیے دہلی الیکشن تک خاموش رہنابہتر ہے،اس کے بعداقلیت،دلت اور غریب مخالف اقدام یعنی این پی آر کو جاری رکھ کر سنگھی وفاداری کا ثبوت پیش کریں گے،این آرسی پر بار بار جدیو اور ان کے مسلم نما لیڈران کہہ رہے ہیں کہ ان کی سرکار لاگو نہیں کرے گی لیکن اب تک اس سوال کا جواب نہیں ملاہے کہ این آرسی لاگو نہ کرنے کا اختیار ریاست کو ہے ہی نہیں تو جس چیز کا اختیار نہیں ہے اس پر وعدہ دھوکہ کیوں نہیں ہے؟بہار کی عوام اس دھوکے کو سمجھ رہی ہے اور جس چیز کا اختیار تھا اس پر راجیہ سبھا میں جدیو نے کھلی غداری کی،سی اے اے پر تو دھوکہ دیا ہی،طلاق بل پر بھی پارلیمنٹ سے بھاگ کر اسے پاس کرایا اور حد تو یہ ہوگئی ہے کہ بہار سرکار نے این پی آر کا گزٹ بھی جاری کردیاہے اس سے کرسی کمار کی نیت سمجھی جاسکتی ہے،پرشانت کشور،پون ورمااور شیام رجک سے بیان جھانسہ دینے کے لیے دلائےجارہے ہیں،اندر کی ملی بھگت ہےـ
یہ بات نوٹ کرلینے کی ہے اور عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر این پی آرروکا نہیں گیا،سی اے اے کے خلاف اسمبلی سے تجویز منظور نہیں کی گئی اور دھوکہ دینے پر واضح معافی نہیں مانگی گئی تو بہار کے دلت،پچھڑے اور مسلمان،جدیو کو ووٹ دینا تو دور کسی مسلم نما لیڈر کو اپنے علاقے میں گھسنے بھی نہ دیں اور جو لوگ جدیو کی حمایت کریں،علاقے کے مسلمان،ان کا بائیکاٹ کریں ـ
دہلی میں بھی ان دونوں سیٹوں پر ایک مسلم ووٹ جدیو کو نہیں پڑناچاہیے، چاہے ان کے دلال کچھ بھی سمجھائیں ـ نعرہ جاری ہے:
جھانسے میں نھیں آئیں گے
جدیو کو ہرائیں گے