نئی دہلی:بہار اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہورہی ہیں ۔ نتیش کمار کی زیرقیادت این ڈی اے میں حلیف پارٹیوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) کے سربراہ چراغ پاسوان نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی بہار کی تمام 243 نشستوں پر انتخابات لڑنے کے لئے تیار ہے۔ صرف یہی نہیںچیراغ پاسوان نے نتیش کمار کی حکومت سے کورونا بحران سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں۔چراغ پاسوان اپنے ایجنڈے پر پوری طرح قائم ہیں۔ چراغ پاسوان نے اس بات کو دوہرایا ہے کہ اب بہار میں کسی بھی شخص کا ایجنڈا نہیں چلنے والا ہے۔ اگر این ڈی اے کی تین جماعتیں ایک ساتھ مل کر انتخابات میں حصہ لینے جارہی ہیں تو ایجنڈا ان تینوں کا ہوگا۔ چراغ پاسبان نے کہا ہے کہ این ڈی اے میں ایک مشترکہ کم سے کم پروگرام کرنا ہوگا۔ وہ بھی الیکشن سے پہلے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اب اس کا فیصلہ نہیں کیا گیا تو انتخابات کے بعد اس کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بہار میں این ڈی اے یا ایسے کسی اتحاد کی حکومت بنے گی جس میں لوک جن شکتی پارٹی شامل ہوگی تو کامن اور کم سے کم پروگرام کی بنیاد پر بنے گی اور چلے گی۔ چراغ پاسوان نے ایک بار پھر کہا کہ بہار میں انتخابات کرانے کا ابھی وقت نہیں ہے، لہٰذا انتخابات ملتوی کردیئے جائیں۔ تاہم چراغ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ لینا ہے، لیکن موجودہ صورتحال ایسی نہیں ہے کہ بہار میں انتخابات ہوں۔
Bihar election
آر جے ڈی نے انتخابی قواعد میں تبدیلی کی شدیدمخالفت کی،منوج جھاکاالیکشن کمیشن کومکتوب
نئی دہلی:الیکشن کمیشن نے کوروناکی وباکے بعدانتخابی قواعد میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اس کی مخالفت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ترنمول کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے بعد اب بہار کی اپوزیشن جماعتیں بھی اس کے خلاف نکل آئی ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل نے ان تبدیلیوں کی مخالفت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھا ہے۔ ان تبدیلیوں کا پہلا اثربہارمیں ہونے جارہا ہے جہاں اس سال اکتوبر سے نومبر میں اسمبلی انتخابات ہونے کا امکان ہے۔ پارٹی کے رکن پارلیمنٹ منوج جھانے بھی الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھ کر ان تبدیلیوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور اس موضوع پر فوری طور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے کل جماعتی اجلاس طلب کیاہے۔منوج جھا نے لکھا ہے کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے انتخابی عمل کی معتبریت پرسوال اٹھائے جائیں گے کیونکہ پوسٹل بیلٹ کے قواعد میں یہ تبدیلیاں رائے دہندگان کی تفتیش کے عمل میں سمجھوتہ کرنے کا امکان پیدا کردیں گی۔ آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ کے مطابق ان تبدیلیوںسے حکمران اتحاد کو براہ راست فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، کیونکہ انتظامیہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ منوج جھاکہتے ہیں کہ ان تبدیلیوں کے انتخابی نظام پر دور رس اثرات مرتب ہونے والے ہیں ، اس لیے پہلے تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی جانی چاہیے۔
پٹنہ:سابق بی جے پی لیڈریشونت سنہاکی قیادت میں بہارمیں تیسرے محاذکی کوششیں تیزہیں۔جن کے آگے پیچھے کچھ انتخابی مسلمان بھی لگے ہیں۔واضح ہوکہ یشونت سنہاسنیئربی جے پی لیڈررہے ہیں جب کہ ان کے بیٹے جینت سنہامودی حکومت میں وزیررہ چکے ہیں اورابھی بھی وہ بی جے پی سے ممبرپارلیمنٹ ہیں۔ایسے میں سمجھاجاتاہے کہ تیسرے محاذکاہنگامہ سیکولرووٹ کوتقسیم کرنے کے لیے کیاجارہاہے۔’اس بار بدلو بہار’’کے عزم کے ساتھ سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کی قیادت میں آج سے 9 دنوں کے لیے جن سنواد یاترا شروع ہو گیا ہے۔منگل کوجے پی کے مجسمہ پر گل پوشی کے بعد پٹنہ سے اس یاترا کا آغاز ہوا۔یشونت سنہا نے اس موقع پر کہا کہ بہار کے سبھی اضلاع میں جن سنواد کے ذریعہ عوام سے جڑیں گے۔اس یاترا میں یشونت سنہا کے ساتھ چل رہے اکلوتا مسلم چہرا جنتا دل راشٹروادی کے قومی کنوینر اشفاق رحمن ہیں۔جوالیکشن کے وقت سرگرم ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہاہے کہ ہم نے عزم لیا ہے کہ ان سرکاروں کو اکھاڑ پھینکیں گے ،جنہوں نے غیر آئینی طور سے سی اے اے قانون بنایا اور اس کی حمایت کی۔لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایاہے کہ یشونت سنہااپنے فرزندکوبی جے پی سے کیوں نہیں واپس لارہے ہیں۔جہان آباد میں منعقد جن سنواد سے خطاب کے دوران اشفاق رحمن نے کہا کہ خود ساختہ سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کو صرف ٹھگنے کا کام کیا۔ان کی بنیادی ترقی پر کسی نے توجہ نہیں دی۔72 سال سے صرف مسلمانوں کو ووٹ بینک کی شکل میں استعمال کیا گیا اور مسلمان بھی استعمال ہوتے رہے۔وقت آگیا ہے کہ اب اپنی سیاسی تقدیر مسلمان خود لکھیں۔انہوں نے جیل میں بند سی اے اے ،این آر سی،این پی آر کے خلاف احتجاج کرنے والے تحریک کاروں کی رہاء کی مانگ بھی اٹھائی۔ یاترا کا پہلا پڑاؤ جہان آباد تھا جبکہ رات کا قیام بودھ گیا میں رہا۔بدھ کو یہ یاترا گیا سے اورنگ آباد کے لئے نکلے گی۔ اس بعد سہسرام، بکسر، بھوجپور، گوپال گنج، موتیہاری، مظفر پور،حاجی پور ہوتے ہوئے پٹنہ لوٹ جائے گی۔یاترا میں سابق مرکزی وزیرناگمنی،دیویندرپرساد یادو،بہار کے سابق وزیر نریندر سنگھ،رینو کشواہا،سابق ایم پی ارون کمار شامل ہیں۔
ملک کی موجودہ صورت حال بھارت واسیوں کے لئے پریشانی اور پشیمانی کا باعث ہے ۔ ٹو اِن ون سے مشہور اور عصبیت پرستی سے معمور مودی و امیت حکومت نے پورے دیش واسیوں کولہو لہان کر رکھا ہے ۔ مٹھی بھر نام نہاد مودی بھکتوں کو چھوڑ کر ملک کی ستر فیصد سے زائد آبادیاں موجودہ حکومت سے بیزار ہیں ۔ یکے بعد دیگرے نوٹ بندی سے لیکر سی اے بی اور لاک ڈاؤن تک کا سفر بھارت واسیوں کے لئے تھکا دینے والا ثابت ہواہے ۔ مبینہ لاک ڈاؤن میں خوف و دہشت سے کوئی سڑک پر تو نہیں آیا، مگر حقیقت میں لوگ سڑک پر آگئے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں عوام حکومت میں تبدیلی کی خواہاں ہے ۔ فاشزم پر مبنی مرکزی حکومت کو سبق سکھانے اور اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے بہار کی عوام کو اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کا بے صبری سے انتظار ہے ۔ عام طور پر تمام سیکولرپارٹیاں انتخابات میں اکیلے قسمت آزمائی کرتی آرہی ہیں ، جس سے تمام سیکولر ووٹ منقسم ہونے کے باعث بی جے پی ہی کو اس کا بھر پور فائدہ ملتا آرہا ہے ن،تیجے کے طور پروہ حکومت سازی میں کامیاب ہوتی آرہی ہے ۔ جبکہ بی جے پی کے ووٹ حاصل کرنےکی شرح ۳۰/ فیصد تک ہی محدود ہے ،جو ۷۰/ فیصدی ووٹ پر بھاری ثابت ہو تی ہے ۔ وقت کا اہم تقاضہ یہ ہے کہ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ سیاسی سطح پر بھی سیکولر پارٹیوں کو آپس میں متحد ہوکر سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ میدان عمل میں آنا ہوگا ؛تاکہ سیکولرووٹ کی طاقت فیصلہ کن ثابت ہوسکے ۔ سیاسی پارٹیوں کے آپسی اتتحاد سے ہی بی جے پی مکت بھارت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے ۔ بہار میں جب موجودہ سیکولر سیاسی جماعتوں کا تجزیہ کرتے ہیں، تو افسوس ناک حد تک ان تمام پارٹیوں کی زبوں حالی کا معاملہ بھی ایک الگ پریشان کن مسئلہ ہے ۔ کوئی بھی پارٹی اتنی طاقت ور نظر نہیں آتی، جو تن تنہا بی جے پی کا مقابلہ کر سکے ۔ سچائی یہ ہے کہ جنتا دل یونائیٹڈ بھی اسی خوف سے بی جے پی سے دوستی کرنے پر مجبور ہے۔ نتیش کمار جو پارٹی کے بزرگ اور تجربہ کار سیاست دانوں میں سے ایک ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بی جے پی دم چھلے کی طرح پارٹی کا ساتھ دےرہی ہے ،جوکبھی بھی ان کی گردن تک پہنچ سکتی ہے ۔ کشمیر میں فاروق عبداللہ کی مودی سے کی گئی دوستی کا انجام سب کے سامنے ہے ۔ یہاں بھی کانگریس کی بے بسی افسوسناک حد تک قابل رحم ہے ۔ ہاں ایک زمانے میں بہار میں ضرور ان کی طوطی بولتی تھی جو اب قصۂ پارینہ بن گئی ہے ۔ اب رہا سوال لالو پرساد یادو کی پارٹی آر جے ڈی کا وہ بھی تیجسوی کی طفل مکتبی اور اقربا پرستی کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔
ایک زمانے میں بہار کو لوگ لالو راج سے جانتے اور پکارتے تھے ۔ ستا کے سنگھاسن پر لالو کو براجمان کرنے کے لئے رگھوونش کمار سنگھ اور علی اشرف فاطمی کا نمایاں کردار اور پارٹی کو عوامی سطح تک لانے میں ان دونوں کی قربانیاں محتاجِ بیان نہیں ہیں ، مگر پارٹی کی بد قسمتی یہ ہے کہ آج وہ دونوں پارٹی سے الگ ہو چکے ہیں ۔ مگر باجود اسکے آج بھی اگر خلوص کے ساتھ سیکولر پارٹیاں بہار میں متحد ہوکر بی جے پی کے خلاف صف آرا ہوں تو ممکن ہے کہ سیکولر پارٹیوں کا یہ اتحاد بی جے پی کے لئے نقصان دہ ثابت ہو ، اور کوئی عجب نہیں کہ بی جے پی کی ہزیمت سلسلہ بہار سے چل پڑے جیسا کہ نتیش -لالو کی سابقہ دوستی بی جے پی کے لئے ہتک آمیز ثابت ہو چکی ہے ۔ پھر وقت آگیا ہے کہ بہار میں تمام سیکولر پارٹیاں مل جل کر انتخابات میں اپنی ذمے داریاں نبھائیں اور بی جے پی کو شکست فاش دیکر اسے اس کی اوقات بتا دیں؛ تاکہ دیگر ریاستوں میں بھی سیاسی اتحاد کا چلن عام ہو اور یہ اتحادملک کی جمہوری کے تحفظ کا ذریعہ ثابت ہو۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نتیش سے پرشانت کشور کا سوال:آپ بہار کی قیادت کرنا چاہتے ہیں یا پچھلگو بنےرہنا چاہتے ہیں؟
پٹنہ :(قندیل نیوز)
بہار اسمبلی انتخابات کے لئے پارٹی کا اعلان کرنے یا اتحاد کی حمایت کرنے کی قیاس آرائیوں کے درمیان انتخابی حکمت عملی کار پرشانت کشور نے ایک پریس کانفرنس میں ایسے کسی بھی امکانات کو مسترد کردیا۔ پٹنہ میں میڈیا سے خطاب کے دوران ، پرشانت کشور نے نتیش کمار کے ساتھ اختلافات کی وجوہات کی بھی وضاحت کی اور کہا کہ نتیش کمار گوڈسے ذہن رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ہیں ، جبکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ گاندھی ، لوہیا اور جے پی پر یقین رکھتے ہیں۔ پرشانت کشور نے نتیش کمار سے سوال کیا کہ کیا آپ بہار کی قیادت کرنا چاہتے ہیں یا پچھلگو بن کرکرسی پر برقرار رہنا چاہتے ہیں؟
پرشانت کشور نے کہا کہ نتیش جی کے ساتھ ان کے تعلقات خالص سیاسی نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب سے ہم 2015 میں ملے تھے ، نتیش جی نے مجھے بیٹے کی طرح رکھا ہے۔ جب میں ٹیم میں تھا تو کوئی دوسرا نہیں تھا۔ نتیش کمار میرے والد کی طرح ہیں۔ انہوں نے جو بھی فیصلہ لیا ہے میں اسے دل سے قبول کرتا ہوں۔ پرشانت کشور نے کہا کہ جتنا میں نتیش جی کو جانتا ہوں ، انہوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ گاندھی ، جے پی اور لوہیا کو نہیں چھوڑ سکتے۔ مجھے ایک مخمصہ ہے کہ جب نتیش جی گاندھی کے نظریات پر آواز اٹھا رہے ہیں ، تو وہ بیک وقت گوڈسے نظریہ کے ساتھ کیسے کھڑے ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی اور گوڈسے ساتھ نہیں چل سکتے۔
انہوں نے کہا کہ گاندھی اور گوڈسے کے نظریہ کے مابین اختلاف رائے رہا ہے۔ ہمارے درمیان اختلافات کی پہلی وجہ گاندھی اور گوڈسے کا نظریہ تھا۔ نتیش کمار گوڈسے ذہن رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جس بھاجپاکے ساتھ وہ 2004 سے رہے ہیں اور آج جس طرح سے آج رہ رہے ہیں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پرشانت کشور نے کہا کہ اگر آپ کے جھکنے کی وجہ سے بہار ترقی کر رہا ہے تو پھر ہمیں کوئی دقت نہیں ہے۔ کیا بہار میںاتنی ترقی ہو گئی جتنی امید تھی؟۔ کیا بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا؟
پرشانت کشور نے کہا کہ نتیش کمار نے پٹنہ یونیورسٹی میں مرکزی حکومت سے ہاتھ جوڑ کر التجا کی تھی ، لیکن مرکز نے آج تک خصوصی ریاست کا درجہ نہیں دیا۔ جہاں تک بہار کی ترقی کا تعلق ہے ، جب بھی میں ان کے ساتھ ہوتا تھا ، مجھے بھی یقین تھا کہ ان کے دور میں بہار میں ترقی ہوئی ہے۔ میں آج بھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔ ان کے 15 سال کے اقتدار کے دوران بہار میں بہت ترقی ہوئی ہے۔ لیکن کیا یہ ترقی آج کے معیار پر پورا اترتی ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست بہار ابھی بھی دیگر ریاستوں سے پچھڑا ہے۔ نتیش نے سائیکل تقسیم کی ، کپڑے دیئے ، لیکن اچھی تعلیم نہیں دے سکے۔ تعلیم کے معاملے میں بہار اب بھی ایک نچلی سطح کی ریاست ہے۔ کیا بہار حکومت اچھی تعلیم مہیا نہیں کرسکتی؟۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے دس سالوں میں بجلی ہر گھر تک پہنچی ہے ، لیکن گھریلو سطح پر بجلی کے استعمال میں بہار ملک کی سب سے پسماندہ ریاست ہے۔ پرشانت کشور نے کہا کہ نتیش کمار لالو راج سے موازنہ کرکے اپنی ترقی کو کم کر رہے ہیں۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ وہ ہریانہ گجرات کی ترقی کے ساتھ موازنہ کیوں نہیں کرتے ہیں؟ 2005 کا موازنہ کیوں کر رہے ہیں۔
پرشانت کشور نے بتایا کہ دہلی میں 40 سے زیادہ افراد جل کر ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر لوگ بہار اور یوپی کے رہنے والے تھے۔ اگر 15 سالوں میں بہت ترقی ہوئی ہے تو پھر بہار کے لوگ وہاں جاکر کیوں مر رہے ہیں۔ کوئی بھی پسماندہ قیادت کے بغیر بہار کی پوزیشن تبدیل نہیں کرسکتا۔
لوگ یہ سن کر تھک گئے ہیں کہ لالو راج میں یہ برا تھا ، برا تھا ، اب لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ نے دوسری ریاستوں کے مقابلے کیا کیا اور آپ کا بہار کیسا ہے؟
انہوں نے کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں میں بہار کے لیے مختص ہوں۔ چاہے کتنا وقت لگے۔ ہم بہار کے ہر گاؤں جائیں گے اور ان نوجوانوں کو بیدار کریں گے جو بہار کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ میں بہار کے انتخابات میں لڑنے کے لئے نہیں بیٹھا ہوں۔ اپنا سیاسی سفر آخری دو سال قبل شروع کیا تھا۔ میں ان نوجوانوں کو شامل کرنا چاہتا ہوں جو سیاست میں آنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ میں ان نوجوانوں کو شامل کرنا چاہتا ہوں جو اچھے سربراہ بن کر آئیں۔ میں بیس تاریخ سے ایک نیا پروگرام شروع کرنے جا رہا ہوں ، بہار کے بارے میں بات کریں۔ اس کے تحت ، ایک ہزار ایسےنوجوانوں کو شامل کریں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگلے دس سالوں میں بہار کو ایک سرکردہ ریاست بننا چاہئے۔ ترقی کے بعد بہار میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے 22 ویں نمبر پر ہے۔ وہ بہار کو چلائے گا جو کچھ کرنے کا خواب اور بلیو پرنٹ رکھتا ہے۔
پرشانت کشور نے کہا کہ بہار کیسے بہتر بننا چاہئے ، اگر نتیش کمار بھی شامل ہیں تو ان کا بھی خیرمقدم ہے ، میں نہیں چاہتا کہ بہار ہمیشہ پوسٹ کارڈ ریاست بنے رہے۔ فیس بک اور ٹویٹر صرف گجرات کے عوام کی اجارہ داری نہیں ہیں۔ گجرات کے لوگوں کو پڑھانے والے لوگ بھی بہار سے تھے۔ میں چاہتا ہوں کہ بہار کے لڑکے بھی ٹویٹر اور فیس بک چلائیں۔ ہم بیوقوفوں کی حالت سے نہیں ہیں؟ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ بہار ہمیشہ غریب ہی رہے۔
پرشانت کشور نے نتیش کمار سے کہا کہ آپ آگے آئیں۔ اگر آپ بہار کے ہر فرد کو یہ بتاتے ہیں کہ اگلے دس سالوں میں کس طرح کی آمدنی بڑھاسکے ، بہار کی ترقی کیسے کی جائے ، بہار کے لوگوں کی زندگی کیسے بڑھے گی ، اگر وہ بہار کے لئے اس طرح کا نقشہ لاتے ہیں تو آپ سب کی حمایت کریں گے۔ . پرشانت کشور نے سوال کیا کہ کیا آپ بہار کی قیادت کرنا چاہتے ہیں یاپچھلگوبن کر کرسی پر قائم رہنا چاہتے ہیں؟ مجھے کسی بھی اتحاد یا سیاسی جماعت کے پروگرام میں دلچسپی نہیں ہے۔ میں یہاں کسی کی پارٹی خراب کرنے یا تعمیر کرنے نہیں آیا ہوں۔
سچ ہے کہ عوام کے اتحاد اور ان کی آواز میں زبردست طاقت ہے،سی اے اے کے خلاف احتجاج کی شروعات میں کئی نام نہاد سیکولرپارٹیوں کا رخ دوسرا تھا،اب عوامی رنگ دیکھ کر لوگ ڈھنگ بدلنے لگے ہیں،چہرے چھپانے کی کوششیں ہورہی ہیں،جدیو اپنے کچھ لیڈروں کے منع کرنے کے باوجود اس ترمیم کی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں حمایت کرتی ہے بلکہ راجیہ سبھا میں اسی جدیو کی وجہ سے سی اے بی،سی اے اے ہوجاتاہے لیکن اب عوامی رخ دیکھ کر نتیش این آرسی پر آئیں بائیں کررہے ہیں اور جس کا اختیاریعنی این آرسی لاگو نہ کرنے کا اختیار انھیں ہے ہی نھیں،اس پر جھانسہ دے رہے ہیں جب کہ متنازعہ این پی آر کاگزٹ اسی نتیش سرکارنےجاری کیا ہے،نائب وزیر اعلی اور وزیر اعلی میں کون جھوٹ بول رہاہے،اب تک سمجھ میں نھیں آسکاہے-
اب اس کے کچھ لیڈران،مثلا اشوک چودھری،ماسٹرمجاہد،بلیاوی جیسے دلال سی اے اے،این آرسی اور این پی آر کے خلاف احتجاج میں شریک ہوکر جدیو کا ووٹ بچانے کی کوشش میں ہیں،آخر اتنی بے شرمی یہ لوگ لاتے کہاں سے ہیں؟جس کی پارٹی نے کھل کراس قانون پر فرقہ پرستی کا ساتھ دیا اس کے لیڈران کس منہ سے سامنے آتے ہیں،ذرہ برابر حس نھیں ہے؟
حیرت ان کو بلانے والوں پر ہوتی ہے،ایسے دلالوں کو اسٹیج پر آنے ہی کیوں دیاجاتاہے جو ریت میں گردن چھپانے کی کوشش میں ہیں،مسلمانوں،دلتوں اور پسماندہ طبقات کو حلف لیناہوگا کہ اسی سال ہونے والے الیکشن میں اس پارٹی کے ایک ایک امیدوار سے غداری کا بدلہ لیں گے،ان کے چہروں کو پہچانیں،ان کے گرگٹی بیانات پر نہ جائیں ـ
ابھی اشوک چودھری کی ایک پوسٹ دیکھ رہاتھا،نتیش ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ بہار میں این آرسی لاگو نہیں ہوگا،اسی دبائو میں مرکزی وزارت داخلہ نے بھی کہہ دیا کہ این آرسی نھیں ہوگاـ
یہ انتہائی چالاکی کے ساتھ کنفیوژڈ کرنے کی کوشش ہے اور ہمارے کچھ سادہ لوح بھی خوشی سے پھولے نھیں سمارے ہیں،سمجھناچاہیے کہ مرکز نے یہ کبھی نھیں کہاہے کہ اب کبھی این آرسی لاگو نھیں ہوگا،بلکہ فی الحال اور ابھی نھیں کا لفظ بتارہاہے کہ آگے ہوگاجیساکہ امت شاہ نے 2024 تک کی تحدید کی تھی،اس لیے ان دلالوں کے جھانسے میں آنے کی ضرورت نھیں ہے ـ
اگر نتیش کمار جملے بازی نہیں کررہے ہیں تو این پی آر کا گزٹ واپس کیوں نھیں لیتے؟والدین کی تفصیل پر وہ اعتراض تو کرتے ہیں لیکن این پی آر کی سب سے خطرناک شق لوکل رجسٹرار کو ڈی ووٹر یعنی مشکوک شہری لکھنے کے اختیار پر وہ خاموش کیوں ہیں؟یہی این آرسی کا اہم زینہ ہے،جدیو اور اس کے چمچے بتائیں کہ این پی آر سے اس شق کو کب ہٹوارہے ہیں،اگر آپ کے اسٹیج کے قریب کوئی بھی ایسا دلال بھٹکے تو ضرور پوچھیے کہ این پی آر کاگزٹ کیوں جاری کیا؟ڈی ووٹر سمیت ساری قابل اعتراض شقوں کی جدیو مخالفت کیوں نھیں کررہی ہے؟سی اے اے پاس کرانے کے بعد نتیش کے لوگ کس شرم سے اب احتجاج میں شریک ہورہے ہیں،یہ کتنا بھی ڈرامہ کرلیں،بہار پوری طرح فیصلہ کرچکاہے کہ دوہری چال،مکاری اوردھوکے کابدلہ لیاجائے گاـ