نئی دہلی:بہار اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہورہی ہیں ۔ نتیش کمار کی زیرقیادت این ڈی اے میں حلیف پارٹیوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) کے سربراہ چراغ پاسوان نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی بہار کی تمام 243 نشستوں پر انتخابات لڑنے کے لئے تیار ہے۔ صرف یہی نہیںچیراغ پاسوان نے نتیش کمار کی حکومت سے کورونا بحران سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں۔چراغ پاسوان اپنے ایجنڈے پر پوری طرح قائم ہیں۔ چراغ پاسوان نے اس بات کو دوہرایا ہے کہ اب بہار میں کسی بھی شخص کا ایجنڈا نہیں چلنے والا ہے۔ اگر این ڈی اے کی تین جماعتیں ایک ساتھ مل کر انتخابات میں حصہ لینے جارہی ہیں تو ایجنڈا ان تینوں کا ہوگا۔ چراغ پاسبان نے کہا ہے کہ این ڈی اے میں ایک مشترکہ کم سے کم پروگرام کرنا ہوگا۔ وہ بھی الیکشن سے پہلے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اب اس کا فیصلہ نہیں کیا گیا تو انتخابات کے بعد اس کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بہار میں این ڈی اے یا ایسے کسی اتحاد کی حکومت بنے گی جس میں لوک جن شکتی پارٹی شامل ہوگی تو کامن اور کم سے کم پروگرام کی بنیاد پر بنے گی اور چلے گی۔ چراغ پاسوان نے ایک بار پھر کہا کہ بہار میں انتخابات کرانے کا ابھی وقت نہیں ہے، لہٰذا انتخابات ملتوی کردیئے جائیں۔ تاہم چراغ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ لینا ہے، لیکن موجودہ صورتحال ایسی نہیں ہے کہ بہار میں انتخابات ہوں۔
Bihar election 2020
بہار: آر جے ڈی نے الیکشن کمیشن سے کی اپیل : کورونا وبا میں بیلٹ پیپر سے کرائیے ووٹنگ
پٹنہ:
راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر کووڈ 19 وبا کے دوران بہار اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں تو ای وی ایم کی جگہ بیلٹ پیپر کااستعمال کیا جانا چاہیے۔آر جے ڈی کے قومی جنرل سکریٹری عبدالباری صدیقی نے 30 جولائی کو الیکشن کمیشن کو لکھے گئے ایک خط میں مشورہ دیا ہے کہ اگر بہار میں وبا کے دوران اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں تو بیلٹ پیپر کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ تحقیق کے مطابق یہ پتہ چلا ہے کہ کورونا وائرس پلاسٹک اور دھات پر کئی دن زندہ رہتا ہے۔آر جے ڈی کے ترجمان تیواری نے کہاکہ کووڈ 19 وبائی امراض کے دوران اگربہار اسمبلی انتخابات کرانا نہیں ہے تو پھر انتخابات ورچوئل اور ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہئے بلکہ روایت کے مطابق ہونے چاہئیں یہاں پر بیلٹ پیپر کا استعمال ہونا چاہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے اس وبا کے دوران اسمبلی انتخابات کے حوالے سے بہار کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپنی رائے طلب کی تھی۔ اس کے بارے میں آر جے ڈی کی جانب سے عبدالباری صدیقی نے الیکشن کمیشن کو بتایا ہے کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپر کا استعمال کیا جائے تاکہ ووٹنگ کے دوران انفیکشن پھیلنے کے خدشات کو کم کیا جاسکے۔آر جے ڈی نے الیکشن کمیشن سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ذریعہ ورچوئل کمپیننگ پر پابندی لگائے۔ آر جے ڈی نے کہا ہے کہ ورچوئل ریلی کا فائدہ صرف ان سیاسی جماعتوں کو ملے گا جن کے پاس وسائل ہیں۔ لیکن چھوٹی سیاسی جماعتوں کے پاس جن کے پاس وسائل کی کمی ہے، ان کے لیے تشہیری مہم ناممکن ہے ۔
آر جے ڈی نے انتخابی قواعد میں تبدیلی کی شدیدمخالفت کی،منوج جھاکاالیکشن کمیشن کومکتوب
نئی دہلی:الیکشن کمیشن نے کوروناکی وباکے بعدانتخابی قواعد میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اس کی مخالفت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ترنمول کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے بعد اب بہار کی اپوزیشن جماعتیں بھی اس کے خلاف نکل آئی ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل نے ان تبدیلیوں کی مخالفت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھا ہے۔ ان تبدیلیوں کا پہلا اثربہارمیں ہونے جارہا ہے جہاں اس سال اکتوبر سے نومبر میں اسمبلی انتخابات ہونے کا امکان ہے۔ پارٹی کے رکن پارلیمنٹ منوج جھانے بھی الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھ کر ان تبدیلیوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور اس موضوع پر فوری طور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے کل جماعتی اجلاس طلب کیاہے۔منوج جھا نے لکھا ہے کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے انتخابی عمل کی معتبریت پرسوال اٹھائے جائیں گے کیونکہ پوسٹل بیلٹ کے قواعد میں یہ تبدیلیاں رائے دہندگان کی تفتیش کے عمل میں سمجھوتہ کرنے کا امکان پیدا کردیں گی۔ آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ کے مطابق ان تبدیلیوںسے حکمران اتحاد کو براہ راست فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، کیونکہ انتظامیہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ منوج جھاکہتے ہیں کہ ان تبدیلیوں کے انتخابی نظام پر دور رس اثرات مرتب ہونے والے ہیں ، اس لیے پہلے تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی جانی چاہیے۔
پٹنہ:سابق بی جے پی لیڈریشونت سنہاکی قیادت میں بہارمیں تیسرے محاذکی کوششیں تیزہیں۔جن کے آگے پیچھے کچھ انتخابی مسلمان بھی لگے ہیں۔واضح ہوکہ یشونت سنہاسنیئربی جے پی لیڈررہے ہیں جب کہ ان کے بیٹے جینت سنہامودی حکومت میں وزیررہ چکے ہیں اورابھی بھی وہ بی جے پی سے ممبرپارلیمنٹ ہیں۔ایسے میں سمجھاجاتاہے کہ تیسرے محاذکاہنگامہ سیکولرووٹ کوتقسیم کرنے کے لیے کیاجارہاہے۔’اس بار بدلو بہار’’کے عزم کے ساتھ سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کی قیادت میں آج سے 9 دنوں کے لیے جن سنواد یاترا شروع ہو گیا ہے۔منگل کوجے پی کے مجسمہ پر گل پوشی کے بعد پٹنہ سے اس یاترا کا آغاز ہوا۔یشونت سنہا نے اس موقع پر کہا کہ بہار کے سبھی اضلاع میں جن سنواد کے ذریعہ عوام سے جڑیں گے۔اس یاترا میں یشونت سنہا کے ساتھ چل رہے اکلوتا مسلم چہرا جنتا دل راشٹروادی کے قومی کنوینر اشفاق رحمن ہیں۔جوالیکشن کے وقت سرگرم ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہاہے کہ ہم نے عزم لیا ہے کہ ان سرکاروں کو اکھاڑ پھینکیں گے ،جنہوں نے غیر آئینی طور سے سی اے اے قانون بنایا اور اس کی حمایت کی۔لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایاہے کہ یشونت سنہااپنے فرزندکوبی جے پی سے کیوں نہیں واپس لارہے ہیں۔جہان آباد میں منعقد جن سنواد سے خطاب کے دوران اشفاق رحمن نے کہا کہ خود ساختہ سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کو صرف ٹھگنے کا کام کیا۔ان کی بنیادی ترقی پر کسی نے توجہ نہیں دی۔72 سال سے صرف مسلمانوں کو ووٹ بینک کی شکل میں استعمال کیا گیا اور مسلمان بھی استعمال ہوتے رہے۔وقت آگیا ہے کہ اب اپنی سیاسی تقدیر مسلمان خود لکھیں۔انہوں نے جیل میں بند سی اے اے ،این آر سی،این پی آر کے خلاف احتجاج کرنے والے تحریک کاروں کی رہاء کی مانگ بھی اٹھائی۔ یاترا کا پہلا پڑاؤ جہان آباد تھا جبکہ رات کا قیام بودھ گیا میں رہا۔بدھ کو یہ یاترا گیا سے اورنگ آباد کے لئے نکلے گی۔ اس بعد سہسرام، بکسر، بھوجپور، گوپال گنج، موتیہاری، مظفر پور،حاجی پور ہوتے ہوئے پٹنہ لوٹ جائے گی۔یاترا میں سابق مرکزی وزیرناگمنی،دیویندرپرساد یادو،بہار کے سابق وزیر نریندر سنگھ،رینو کشواہا،سابق ایم پی ارون کمار شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن کا حکم:داغدار اور بدعنوان افسران انتخابی ڈیوٹی میں نہیں ہوں گے
پٹنہ:آزادانہ اور منصفانہ اسمبلی انتخابات کے دعوے کے ساتھ الیکشن کمیشن نے ایک ضلع میں 3 سال مکمل کرنے والے افسران کے تبادلہ کی ہدایت کی ہے۔ کمیشن نے اس کے لیے 31 اکتوبر تک کٹ آف تاریخ طے کی ہے۔ اس رینج میں آئی جی ، ڈی آئی جی، ڈی ایم ، ایس ایس پی ، ایس پی ، کمانڈنٹ ، اے ایس پی ، اے ڈی ایم ، ایس ڈی ایم ، ڈپٹی کلکٹر،جوائنٹ کلکٹر،تحصیلدار،انسپکٹر ، سب انسپکٹر اور سارجنٹ میجر سطح کے افسران شامل ہوں گے۔کمیشن نے چیف سکریٹری اورچیف الیکٹورل آفیسر کو جاری ایک خط میں کہا ہے کہ جن افسران کے خلاف الیکشن کمیشن نے گذشتہ انتخابات میں تادیبی کارروائی کی سفارش کی ہے یا ان کے خلاف کوئی جرمانہ عائد کیا گیا ہے ، وہ ڈیوٹی پرنہیں ہوں گے۔ تاہم افسران کوبھی انتخابی کاموں سے دور رکھا جائے گا ، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے پچھلے انتخابات میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ ریٹائرمنٹ میں چھ ماہ باقی رہنے والے افسران کو اس سے خارج کردیاجائے گا۔اس کے علاوہ ٹرانسفر پوسٹنگ کا یہ حکم ان پولیس افسران پربھی لاگونہیں ہوگاجوکمپیوٹرائزیشن یا خصوصی برانچ اور تربیت میں تعینات ہیں۔ ایک افسر میں 3 سال کی مدت مکمل کرنے والے افسران دوسرے ضلع میں تعینات ہوں گے۔ کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں کمیشن کی سفارش پرجوافسران تعینات ہیں ، ان کو اس پالیسی سے الگ رکھاجائے گا۔
ڈائرکٹر و چیرمین انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی
جھارکھنڈ اور دہلی کے بعد اب بہار اسمبلی کا انتخاب سامنے ہے۔ بعض پہلو سے یہ انتخاب خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ فرقہ پرست قوّت کے خلاف بہار نے کبھی زبردست مورچہ لیا تھا اور آج بھی سیاسی صف بندی اور گٹھ جوڑ میں کوئی زیرک اور ہوش مند قیادت سامنے آجائے تو یہ ریاست ہندتوا پالیٹکس کے لیے بہت زرخیز نہیں ہے۔ یہاں کے سماجی تانے بانے ،کاروباری زندگی ،تعلیمی و ادارہ جاتی سرگرمی اور سیاسی داو -پیچ میں کاسٹ کا کلیدی رول ہے ۔ لہٰذا الیکشنی سیاست میں بھی اونچی نیچی ذات کے ساتھ ایس ۔سی۔، ایس۔ ٹی اور دلت طبقے، ان کی آپسی رقابت اور بنتے بگڑتے سمی کرن کی بنیادی اہمیت ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے اندر بھی یہ رشتے نازک وقت پر معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ مسلمان بھی اپنی علاحدہ سیاسی پارٹی کے بغیر اقتدار کے بنانے اور سنوارنے میں ہمیشہ ایک رول ادا کرتے رہے ہیں۔ ایک زمانے میں انجمن ترقیِ اردو، بہار نے ڈاکٹر عبد المغنی صاحب مرحوم کی قیادت میں لسانی بنیاد پر اردو آبادی کو منظم کرکے پریشر پالیٹکس کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ امارت شرعیہ بھی مسلم ووٹرس اور حکومت کے درمیان روایتی انداز سے رابطے کا کام کرتی رہی ہے۔ ادارۂ شرعیہ بھی مسلکی بنیاد پر یہ فرض انجام دے رہی ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے جب سے الیکشنی سیاست پر اَثر انداز ہونے کا فیصلہ کیا ہے ،تب سے مسلمانوں کی مختلف جماعتوں اور انجمنوں کا متحدہ پلیٹ فارم بناکر انتخاب پر اثر انداز ہونے کا ایک نیا تجربہ جاری ہے۔ مسلمانوں میں برداری کی بنیاد پر سیاسی تجربے بھی ہو رہے ہیں۔ انصاری لابی کے علاوہ پسماندہ محاذ بھی الیکشنی سیاست میں ایک حد تک اپنا رول ادا کرتا ہے۔ ایک زمانے میں کیرالا کی مسلم لیگ نے بھی اپنی شاخ یہاں قائم کی تھی لیکن وہ تجربہ کامیاب نہیں ہوسکا ۔اب ایم آئی ایم، حیدر آباد الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہر انتخابی سیاست کی طرح اس مرتبہ بھی وہ سارے کو ٗکرم، جوڑ توڑ، لین دین، خرید وفروخت اور جھوٹ سچ ہوں گے جو ہوتے رہے ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہوں گے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس وقت کرپشن اور کوٗ کرم کی سب سے زیادہ طاقت بی جے پی کے پاس ہے۔ اس لیے اس کا اور اس کے حلیف کا کارنامہ اس معاملے میں دوسری پارٹیوں سے زیادہ’ روشن‘ ہوگا۔ بہار میں الیکشن کے موسم کی ابتدا ہوچکی ہے ۔چراغ پاسوان تو ’پدرنہ تواند پسر تمام کند ‘کی مہم میں ایک برس پہلے سے لگے ہوئے ہیں ۔جیتن مانجھی، اُپیندر کشواہا سب کی لَو اَب تیز ہوگی۔ جگدا نند اور للّن جی نے کھیل شروع کردیا ہے۔ ہر برادری میں شخصیت کا ٹکراو بھی سامنے آئے گا۔ پارٹی کے اندر کی لابی بھی کام کرے گی۔ پرشانت کشور اپنے گنا بھاگ میں لگے ہوئے ہیں اور ادھر کنھیّا کمار لیفٹ میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ذات پات کی سیاست میں طبقاتی کشمکش نے بہت پہلے پتوار ڈال دیے ہیں۔ شاید طوفان کے نئے تھپیڑوں میں کچھ تبدیلی آئے۔ جھارکھنڈ میں تو زیادہ سیٹوں کی ڈیمانڈ کی وجہ سے سیکولر گٹ بندھن کے ساتھ ان کا سودا نہیں ہوسکا تھا۔ بہار میں شاید نوجوان قیادت کی وجہ سے کچھ عملی حقیقت پسندی آئے ۔اصل میں ہاتھی دُبلا ہوجاتا ہے لیکن جگہ گھیرنے میں اپنی سونڈھ تک اسپیس لینا چاہتا ہے۔
اسی طرح آخر آخر وقت تک لوگ پارٹیوں کی وفاداریاں بدلتے، خریدتے اور بیچتے رہیں گے۔ ٹکٹ ملنے کی امید اور نہ ملنے پرنا امید ہوکر کون کہاں، کب اور کیسے جائے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ اقتدار کا کھیل اور کوٹھے کا تماشا دونوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ ایک میں جسم کے گندے پانی کا نالا بہتا ہے، دوسرے میں دماغ کے گندے کوٗڑے کا ڈھیر لگتا ہے۔ ابھی ابھی جھارکھنڈ میں کیا ہوا سب جانتے ہیں۔ کتنے فیک امیدوار کھڑے کیے گئے اور سیاسی پارٹیوں سے زیرِ زمین کس طرح سودے ہوتے ہیں ۔اگر کوئی پارٹی تین امیدوار کھڑے کرسکتی ہے تو اس سے کہا جائے گا کہ تیس امیدوار کھڑے کیجیے۔ ہر امیدوار پر پانچ سے دس کروڑ دیں گے۔ اس طرح آم کے آم گٹھلیوں کے دام پر معاملہ ہوتا ہے۔ لوگ’ قوم‘کے درد میں ’نعرۂ تکبیر اللہ اکبر‘ کہہ کر الیکشن میں نہیں جنگِ بدر میں شریک ہونے کا ثواب حاصل کریں گے۔ کھوٗنٹی میں ایک عوامی خاتون دَیامُنی بِرلا اُمّیدوار کو سارے وعدے وعید کے بعد کانگریس نے ٹکٹ نہیں دیا اور بی جے پی امّیدوار کو جیتنے کے لیے کمزور امّیدوار کھڑا کردیا۔ تمام سیاسی پارٹیوں کی اپنی اپنی سیاسی مصلحت، تجارت اور پارٹی کی مجبوری اور ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نیک دل اور سادہ لوح عوام ہمیشہ ’دام ہم رنگ زمین‘ کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ہندو مسلمان پر مت جائیے ،مولوی اور پنڈت مت کیجیے ،عالمِ اسلام میں اقتدار کے کھیل کو دیکھ لیجیے کیسے کیسے ’مولانا ڈیزل اور حسینائیں‘اپنے اپنے جلوہ ہاے صد رنگ دکھا تی رہتی ہیں۔ پاس پڑوس کی بات ہے لہٰذا جمہوری سیاست کے چال پینترے اور قلا بازی کو سمجھیے، اقتدار کی ہوس اور اس کے حصول کا نشہ اگر چڑھ جاتا ہے توانسان ’ظلوماً جہولا‘ کی بلند ترین چوٹی پر پہنچ جاتا ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ناامید ہوجائیں فرشتوں کے اعتراض پر اللہ کا ارشاد ’اِنّیِ اَعلم مالا تعلموٗن‘ کے راز کو ہم سمجھتے ہیں۔ ’وَجْعلنی مِن لّدُنکَ سُلطاناً نصیراً‘ کی دعا کی مقبولیت کا راز بھی ہم کو معلوم ہے اس لیے ہم کنارے نہیں لگ سکتے۔ وُسعتِ افلاک میں تکبیر مسلسل کا عہد کیا ہے لہٰذا کیا کرنا چاہیے؟ یہ بہت اہم ہے جس پر بات ہوگی۔ نتیجہ اور بے معنی کام نہیں کریں گے۔ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈساجاتا۔اس لیے ہمیں اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ایک اچھے انسان، معقول شہری اور خیرِ اُمّت کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ہمیں کیا کچھ کرنا چاہیے اورہم کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ جھارکھنڈ کے حالیہ تجربے کی روشنی میں چند نکات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے:
۱۔جماعت اسلامی، بہار کی تنظیمی شاخ اور معاون ادارے کی سطح پر جماعت کے الیکشنی فیصلے کی بحسن وخوبی بجا آوری تو ہوسکتی ہے اور خانہ پری کے سب کام انجام بھی پاسکتے ہیں لیکن ریاستی انتخاب پر اَثر انداز ہونے کا دائرہ محدود سے اوربھی محدود تر ہوجائے گا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک نیا فورم، گروپ، زمینی سطح پر کام کرنے والوں کا ڈیولپ کیا جائے۔ جس میں مختلف سماجی گروپس کے ہندو مسلمان اور دیگر نظریاتی گروہ کے وابستگان ہوں۔ بس اتنا نقطۂ اتّحاد واضح ہو کہ ہونے والے انتخاب میں وہ این ڈی اے کو شکست دینا چاہتے ہوں۔ فرقہ پرستی کے مخالف اور جمہوری قدروں کے طرف دار ہوں۔ اس گروپ کی تشکیل مرحلہ وار ہوگی اور عملی میدان میں کام کے رشتے کے ساتھ بڑھتی جائے گی۔ اُنھی میں سے ایک کُور گروپ بھی تیّار ہوگا۔ بہار میں آسانی یہ ہے کہ ایف ڈی سی آئی کی تشکیل کے وقت سے ہی وہاں ایک گروپ تشکیل پاتا رہا ہے۔ نئے حالات میں وسیع تر بنیاد پر اس کی تجدید کی جاسکتی ہے۔ بیش تر افراد موجود ہیں۔ بس پروفیسر سہیل صاحب مرحوم اللہ کو پیارے ہوگئے ،اس وقت کام آتے۔ پھر ادھر کچھ نئے نوجوان بھی سامنے آئے ہیں۔ نیّر الزّماں صاحب، سابق امیر حلقہ نے بھی ایسے ایکٹوسٹ لوگوں سے رشتہ بحال رکھا تھا اور موجودہ امیر حلقہ بھی سماجی روابط اور سیاسی تعلق کے معاملے میں چست درست ہیں۔ البتہ یہ ٹیم اور گروپ کس طرح پھر روٗبہ عمل ہو؟ اس کے لیے کیا فطری پروسس اختیار کیا جائے ؟یہ بات پٹنہ اور آس پاس کے احباب کے مشورے سے طے کرلینا چاہیے۔ جھارکھنڈ سے بھی ورما جی پرانے جے پی موومنٹ کے آدمی ہیں اور اس وقت تو گویا ہمہ وقتی طور پر کمیونلزم کے خلاف زمینی لڑائی لڑ رہے ہیں، جانے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔اور بھی لوگ ہیں۔ جھارکھنڈ میں تو ہم لوگوں نے دو روزہ سیاسی ورک شاپ کیا تھا جس میں آدی باسی کرشچن ہندو مسلمان میڈیا پرسن عورت اور مرد شریک تھے۔ بہار سے بھی لوگ شریک ہوئے تھے جس میں ایک گروپ بناکر انتخاب پر اَثر انداز ہونے کے لیے ایک لائحۂ عمل بنایا گیا تھا۔ وہاں بہار میں کیا شکل کورونا وائرس کے اس ماحول میں مناسب ہوگی،یہ جلد طے کرلینا چاہیے۔
۲۔اسی کے ساتھ باصلاحیت نوجوانوں اور میڈیا سے وابستہ ایک ٹیم بنانا بھی ضروری ہے جونئے نئے مواد فراہم کرنے اور موثر طریقے پر عوام تک پہنچانے میں مدد کرے،یوٗ ٹیوب پر مضامین کو اَپ لوڈ کرے اور اہم خبروں پر نظر رکھے۔ اس سلسلے میں مرکز جماعت بھی مدد کرسکتا ہے۔ بعض افراد مرکز کے مشورے سے تین ماہ کے لیے بہار بھی آسکتے ہیں۔ یہ کام تو دوسری جگہ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ داکٹرمحمد سلیم انجینئر صاحب، مجتبیٰ فاروق صاحب جناب معتصم صاحب سے رابطہ کرکے پورا ایک گروپ ڈیولپ کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ بہت سارے تجربہ کار افراد مل جائیں گے اور بہار کا تعاون کرنے میں خوشی محسوس کریں گے۔
۳۔انتخابی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے مذکورہ دونوں باتیں ستوٗن کا کام کریں گی لیکن میدان میں کام کی ابتدا سوشل ایڈٹ کے پروگرام سے کرنا چاہیے ۔ موجودہ نتیش حکومت کا اجتماعی احتساب، عوامی عدالت ؛ مختلف ناموں سے ایک سیریز آف پروگرام کرنا ہوگا۔ جماعت بھی مدد کرے گی۔ اپنے ساتھ اس مرحلے میں امارت شرعیہ، ادارہ شرعیہ اور مختلف مذہبی حلقوں کے ساتھ سماجی انجمنیں اس کام کو کریں گی ۔ڈِسکورس صحیح سمت میں آگے بڑھے، اتحاد اورنا منٹل نہ ہو اور شو کیس کی چیز بن کر نہ رہ جائے، اس لیے عملی پروجیکٹ کو مل کر انجام دینے اور وسائل و ذرایع بھی مل جل کر خرچ کریں۔ کسی مرحلے میںکنفیوژن نہ ہو۔
۱۵؍ برس لالوٗ اور ۱۵؍ برس نتیش یہ مباحثہ بہت چالاکی سے تیّار کیا گیا ہے۔ اس جال میں نہیں پھنسنا چاہیے کہ لالو کے کارنامے کو جواباً گنایا جانے لگے ۔۲۵؍ برس کے نوجوانوں کو تیار کیجیے۔ وہ کہیں ۱۸؍ برس میں پہلی دفعہ نتیش کے وعدے پر ووٹ دیا تھا، اب بتاؤ تم نے کیا کِیا۔ میرے باپ چچا سے جو وعدہ لالو نے کیا تھا وہ انھوں نے پوچھ لیا۔ تم ہم کو حساب دو۔ ٹھیک سے تیاری ہو تو مواد بہت ہے۔ ڈوکیو مین ٹیشن بھی ہو، پھر جہاں تک ہوسکے حلقہ ہاے انتخاب میں منسٹرس اور ایم ایل اے کا بھی احتساب ہو ۔ بعض کرپٹ لوگوں کو نشانہ بنایا جائے۔ اس طرح پورے مسلم سماج کے ساتھ دوسرے سماج میں کام ہوگا اور سیاسی رابطہ بھی بڑھے گا۔ یہ کام ایسا ہے کہ این ڈی اے کے علاوہ ساری پارٹیاں کسی نہ کسی حد تک کام آسکتی ہیں۔ احتساب اور عوامی جائزے کے ذریعے عوامی تربیت بھی ہوگی اور رابطہ بھی وسیع ہوگا۔ مشترکہ فورم میں بھی وسعت آئے گی۔ نرے ٹیو(Narrative) غلط رخ نہ اختیار کرلے ،اِیشوز دوسری طرف نہ چلے جائیں ۔ کمیونلزم کا وائرس بڑھنے سے پہلے دبا دیا جائے۔ افسوس ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کے ریاستی صدر نے ۱۵؍ برس نتیش اور۱۵؍ برس لالوٗ کے ساتھ ۳۰-۴۰ برس کانگریس کا بھی جوڑ دیا ہے۔ اس طویل عرصے کا کیا احتساب کریں گے۔ہسٹری پڑھانا تھوڑے ہے۔ اس سے کنفیوژن پیدا ہوگا اور فائدہ دشمن اُٹھا لیں گے۔ اے آئی ایم آئی ایم فیکٹر(Factor) پر علاحدہ سے بات ہوگی۔
الیکشن پر نتیجہ خیز اوربامعنی طور پر اَثر انداز ہونے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ زبان وبیان اور موقع ومحل کی بڑی اہمیت ہے یعنی کب، کہاں اور کس موقعے پر کیسے اظہارِ خیال کیا جائے۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ بے احتیاطی اور سہل انگاری مسلمانوں کے موسمی، مذہبی اور کبھی کبھی منجھے ہوئے لیڈر وں سے بھی ہوجاتی ہے۔ ردِّعمل میں جذباتیت کے شکار ہونے سے اظہار بے قابو ہوجاتا ہے۔ اس لیے حالات حاضرہ اور سیاسی اُتار چڑھاو پر الیکشن کے موسم میں اظہارِ خیال کب اور کیسے کِیا جائے ،اس پر بھی ٹریننگ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جذباتی بیان سے پرہیز کرنا لازمی ہے اور قومی کشمکش کی فضا کوجس زبان اور ادا سے غذا ملے ،ان پر سخت پہرہ بٹھا نا بھی ضروری ہے۔ جماعت اسلامی بہار کا یہ بڑا کنٹری بیوشن (Contribution)ہوگا اگر وہ مسلم پالیٹکس کی گرامر، لینگویج ایشوز اور اسلوب کی تربیت کرنے میں اپنا رول ادا کرسکے۔آل انڈیا ایم آئی ایم کے مسئلے کا حل بھی اسی سے ہوگا۔ وہاں چھوٹے ’قطرے‘ بھی سیاست کے میدان میں ’خطرے خطرے‘ ہوجاتے ہیں۔
بہ ہرحال جہاں تک انتخابی فضا اور فیصلے پر اثر انداز ہونے کے لیے ایک لائحۂ عمل کی بات ہے۔ سمجھنے سمجھانے کی آسانی کے لیے اس کو پانچ مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلے مرحلے کا ذکر اوٗپر ہو چکا ہے جس میں تفصیل سے اجتماعی احتساب اور عوامی جائزے پر گفتگو کی ہے۔ دوسرا مرحلہ عوامی منشور تیار کرنے، اسٹوڈنٹس چارٹراور مختلف سطح کے مے نی فیسٹو مل جل کر بنانے کا ہوتا ہے ۔اس سے الیکشنی سمواداور مکالمہ نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ پھر اسی کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کے مے نی فیسٹو پر تنقید اور اس میں لوگوں کو شریک کرنے سے عوامی اَثر بڑھتا ہے اور تب سیاسی لیڈروں اور امیدواروں سے باوقار رابطے کی راہ ہم وار ہوتی ہے۔ بے اَثر گروہ کی طرح ملنا اور کچھ وعظ وپند کا اثر پارٹی لیڈروں اور سیاسی امید واروں پر نہیں ہوتا ہے۔
پارٹی لیڈروں سے ملنا امیدواروں سے تبادلہ خیال کرنا، سیاسی کارکنوں سے شناسائی ہوجانا اور مختلف حلقہ ہاے انتخاب کے حوالے سے امیدواروں کے بارے میں رائے عامہ جاننا اور بنانا، ان سے اِن پٹ(Input) لینا اس اسکیم کاتیسرا مرحلہ ہے۔ اس مرحلے میں مختلف سماجی گروہ اور مذہبی حلقوں کے مشترکہ پلیٹ فارم کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ یاد رہے اس وقت تک صوٗبے میں کام کرنے والے چھوٹے چھوٹے گروہوں اور اکٹیوسٹ حلقوں سے عملی روابط مستحکم ہوجانے چاہیے تاکہ امیدوارو ں کے بارے میں فیصلہ کرنا اور اس امیدوار کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں ان سب لوگوں کے تعاون سے ہی کامیابی کا امکان بڑھتا ہے اور مَین پاور اور ہر طرح کی صلاحیت سماج سے ملتی ہے۔ ہندو مسلمان اکٹیوسٹوں کی مقامی ٹیم مل کر کام کرتی ہے تو ایک فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا بنائے رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اس مرحلے تک انتخابی عمل کلائیمکس پر پہنچ جاتا ہے۔ بہت ساری الٹی سیدھی خبریں سامنے آتی ہیں۔ کچھ منافقین کے راز کھلتے ہیں، کچھ سودا ہوتا ہے ۔واقعات برپا کیے جاتے ہیں یاگڑھے جاتے ہیں۔پُلواما ہوجاتا ہے،چھیڑ چھاڑ کی خبریں اُڑائی جاتی ہیں، مسجد مندر میں گوشت آسمان سے برس جاتا ہے۔ غرض سارے الیکشنی ہتھ کنڈے چال بازیوں اور عیّاریوں کے کھیل اور پینترے کھیلے جاتے ہیں۔ ان سب کے سلسلے میں ہرجگہ کا کُور گروپ مشترکہ فورم اور مخلص کارکنوں کا باہمی تعاون اور مچیور(Mature) رویہ حالات کو سنبھالتا ہے ۔ فرقہ پرست قوّتیں کوئی داو خالی نہیں جانے دیتیں بلکہ الیکشن کے روٗلس آف گیم میں جتنے جھوٗٹ اور فریب ہیں، سب کا استعمال پارٹیاں اور امیدوار کر لیتے ہیں۔ اس لیے قانونی اور انتظامی پہلو سے ہر پارٹی حریف کو پھنسانے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔
اس کے ساتھ چوتھا مرحلہ شروع ہوتا ہے جہاں اپنی قوّت ِکار، مواقع، حالات، آبادی اور امیدوار کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کہاں کتنی قوّت لگانے سے نتیجے پر اثر انداز ہونے کے امکانات ہیں۔ کہاں امکانات زیادہ ہیں اور کہاں کم ہیں۔ کہاں سرِدست بس مناسب امیدوار کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔ یہ مرحلہ بہت اہم ہوتا ہے۔ الیکشنی درجۂ حرارت بہت بڑھ جاتا ہے اور اس بخار میں صحیح اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اس معاملے میں جھارکھنڈ کا تجربہ یہی ہے کہ آدمی خوش فہمی میں بہت مبتلا ہوجاتا ہے اور ذوق و شوق بھی بہت بڑھ جاتا ہے اور ایک نشہ سا طاری ہوجاتا ہے اور پانچ حلقۂ انتخاب کی جگہ پر پندرہ کا انتخاب کرلیتا ہے۔ اس سلسلے میں جو بہت تجربہ کار اور زمینی حقائق سے واقف لوگ ہوتے ہیں وہ صحیح مشورہ دے سکتے ہیں۔ اس مرحلے میں غلطی کی بہت قیمت چکانی پڑتی ہے مثلاً آپ دس حلقۂ انتخاب میں مؤثر ہوسکتے ہیں۔ آپ نے جوشِ عمل اور کر گزرنے کے حوصلے سے بیس کا انتخاب کرلیا تو گویا آپ نے اپنی قوّت چوتھائی کردی اور دس کے بدلے پانچ نہیں اب ڈھائی حلقۂ انتخاب میں آپ موثر رول ادا کرسکیں گے اور ایک ہی امیدوار کو کامیاب کراسکیںگے۔ حلقۂ انتخاب کے ساتھ امیدوار وں میں بھی ترجیح قائم کرنی چاہیے۔ جتانے کے لیے بھی اور شکست دینے کے لیے بھی کچھ امیدوار ایسے ہوتے ہیں جن کا اسمبلی میں ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کا ہارنا بہت ضروری ہوتا ہے اور ایسے بھی امیدوار ہوسکتے ہیں جن کی پارٹی کے ہارنے سے آپ کی دلچسپی ہے لیکن ان کے لیے سرِدست آپ نیوٹرل ہیں۔ اس طرح کچھ امیدواروں کو ہر طرح کی مدد کرنی چاہیے اور کچھ حلقہ ہاے انتخاب اور امیدوار وںکے لیے آپ کوبوٗتھ مینجمنٹ تک جانا چاہیے۔یہی پانچواں مرحلہ ہوتا ہے جہاں بوٗتھ مینجمنٹ تک آپ مدد کر رہے ہیں۔ اس کی اسٹریٹیجی(Strategy) الگ سے بنانی ہوگی ۔اس طرح عوامی احتساب سے لے کر منشورپھر مشترکہ فورم اورنِٹ ورکنگ (Networking)کے ذریعے رائے عامہ کے بنانے سے لے کر بوٗتھ مینجمنٹ تک پانچ مرحلے ہوتے ہیں۔
اس وقت جماعت اسلامی، بہار کے سامنے یہ پانچ کٹھن مراحل ہیں۔ آپ چاہیں تو کاغذ پر یہ مراحل روشنائی کی مدد سے حل کرسکتے ہیں۔ آپ چاہیںتو دفتر میں نشستن برخواستن ،آمدن رفتن اور بیان کردن کے ذریعے بھی انجام دے سکتے ہیں ۔اس کو انجام دینے کے درجات بھی بہت ہیں۔ آپ چاہیں تو پورے عزم، پالیٹیکل وِل(Political Will)، حوصلۂ ایمانی، حرارتِ ملّی، جذبۂ انسانی و خیرخواہی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ساتھ لے کر پوری کوشش کرسکتے ہیں۔’پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے)۔ صبر اور توکل یہی دو ہتھیار ہیں۔کورونا وائرس کی طرح فرقہ پرست اور تنگ دل ہندتوا کی لڑائی اَبھی آگے بھی لڑنی ہے۔ یہ الیکشن آخری ہار جیت نہیں ہے۔ اس لیے الیکشن کو ایک طویل سیاسی جِدّوجُہد کا ایک مرحلہ ہی سمجھنا چاہیے جس میں ہار جیت کا اثر آگے کی لڑائی پر ضرور پڑے گا لیکن: ’ہم ہیں تو ابھی راہ میں سنگ گراں اور‘
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ملک کی موجودہ صورت حال بھارت واسیوں کے لئے پریشانی اور پشیمانی کا باعث ہے ۔ ٹو اِن ون سے مشہور اور عصبیت پرستی سے معمور مودی و امیت حکومت نے پورے دیش واسیوں کولہو لہان کر رکھا ہے ۔ مٹھی بھر نام نہاد مودی بھکتوں کو چھوڑ کر ملک کی ستر فیصد سے زائد آبادیاں موجودہ حکومت سے بیزار ہیں ۔ یکے بعد دیگرے نوٹ بندی سے لیکر سی اے بی اور لاک ڈاؤن تک کا سفر بھارت واسیوں کے لئے تھکا دینے والا ثابت ہواہے ۔ مبینہ لاک ڈاؤن میں خوف و دہشت سے کوئی سڑک پر تو نہیں آیا، مگر حقیقت میں لوگ سڑک پر آگئے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں عوام حکومت میں تبدیلی کی خواہاں ہے ۔ فاشزم پر مبنی مرکزی حکومت کو سبق سکھانے اور اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے بہار کی عوام کو اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کا بے صبری سے انتظار ہے ۔ عام طور پر تمام سیکولرپارٹیاں انتخابات میں اکیلے قسمت آزمائی کرتی آرہی ہیں ، جس سے تمام سیکولر ووٹ منقسم ہونے کے باعث بی جے پی ہی کو اس کا بھر پور فائدہ ملتا آرہا ہے ن،تیجے کے طور پروہ حکومت سازی میں کامیاب ہوتی آرہی ہے ۔ جبکہ بی جے پی کے ووٹ حاصل کرنےکی شرح ۳۰/ فیصد تک ہی محدود ہے ،جو ۷۰/ فیصدی ووٹ پر بھاری ثابت ہو تی ہے ۔ وقت کا اہم تقاضہ یہ ہے کہ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ سیاسی سطح پر بھی سیکولر پارٹیوں کو آپس میں متحد ہوکر سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ میدان عمل میں آنا ہوگا ؛تاکہ سیکولرووٹ کی طاقت فیصلہ کن ثابت ہوسکے ۔ سیاسی پارٹیوں کے آپسی اتتحاد سے ہی بی جے پی مکت بھارت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے ۔ بہار میں جب موجودہ سیکولر سیاسی جماعتوں کا تجزیہ کرتے ہیں، تو افسوس ناک حد تک ان تمام پارٹیوں کی زبوں حالی کا معاملہ بھی ایک الگ پریشان کن مسئلہ ہے ۔ کوئی بھی پارٹی اتنی طاقت ور نظر نہیں آتی، جو تن تنہا بی جے پی کا مقابلہ کر سکے ۔ سچائی یہ ہے کہ جنتا دل یونائیٹڈ بھی اسی خوف سے بی جے پی سے دوستی کرنے پر مجبور ہے۔ نتیش کمار جو پارٹی کے بزرگ اور تجربہ کار سیاست دانوں میں سے ایک ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بی جے پی دم چھلے کی طرح پارٹی کا ساتھ دےرہی ہے ،جوکبھی بھی ان کی گردن تک پہنچ سکتی ہے ۔ کشمیر میں فاروق عبداللہ کی مودی سے کی گئی دوستی کا انجام سب کے سامنے ہے ۔ یہاں بھی کانگریس کی بے بسی افسوسناک حد تک قابل رحم ہے ۔ ہاں ایک زمانے میں بہار میں ضرور ان کی طوطی بولتی تھی جو اب قصۂ پارینہ بن گئی ہے ۔ اب رہا سوال لالو پرساد یادو کی پارٹی آر جے ڈی کا وہ بھی تیجسوی کی طفل مکتبی اور اقربا پرستی کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔
ایک زمانے میں بہار کو لوگ لالو راج سے جانتے اور پکارتے تھے ۔ ستا کے سنگھاسن پر لالو کو براجمان کرنے کے لئے رگھوونش کمار سنگھ اور علی اشرف فاطمی کا نمایاں کردار اور پارٹی کو عوامی سطح تک لانے میں ان دونوں کی قربانیاں محتاجِ بیان نہیں ہیں ، مگر پارٹی کی بد قسمتی یہ ہے کہ آج وہ دونوں پارٹی سے الگ ہو چکے ہیں ۔ مگر باجود اسکے آج بھی اگر خلوص کے ساتھ سیکولر پارٹیاں بہار میں متحد ہوکر بی جے پی کے خلاف صف آرا ہوں تو ممکن ہے کہ سیکولر پارٹیوں کا یہ اتحاد بی جے پی کے لئے نقصان دہ ثابت ہو ، اور کوئی عجب نہیں کہ بی جے پی کی ہزیمت سلسلہ بہار سے چل پڑے جیسا کہ نتیش -لالو کی سابقہ دوستی بی جے پی کے لئے ہتک آمیز ثابت ہو چکی ہے ۔ پھر وقت آگیا ہے کہ بہار میں تمام سیکولر پارٹیاں مل جل کر انتخابات میں اپنی ذمے داریاں نبھائیں اور بی جے پی کو شکست فاش دیکر اسے اس کی اوقات بتا دیں؛ تاکہ دیگر ریاستوں میں بھی سیاسی اتحاد کا چلن عام ہو اور یہ اتحادملک کی جمہوری کے تحفظ کا ذریعہ ثابت ہو۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
جب سے بہار میں انتخابات کا اعلان ہوا ہے سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں ۔ تمام پارٹیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے گویا اپنی اپنی کمر کس چکی ہیں اور ہر ایک پارٹی حکومت سازی کے لئے اپنے آپکو دعویدار اور عوام کی پسند بتا رہی ہیں ۔ آج تک کسی بھی سیاسی پارٹی کی امیج اس کے منشور کے مطابق نہیں بنی اور نہ ہی اس پر کار بند نظر آئیں ۔ کیوں کہ سیاسی منشور کے مطابق اگر فلاحی کام کاج عام رواج پا جائے تو پھر عوام کی خوشحالی اور فلاح و بہبود یقینی ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کا نام نہاد انتخابی منشور صرف خانہ پری کےلئے مرتب کیا جاتا ہے ۔ عجب اتفاق ہے کہ منشور کے عین خلاف بہار کا الیکشن آج بھی ذات پات اور خاندان و بھائی چچا واد کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے ۔ ٹکٹیں بھی امیدواروں کو ذات پات کی بنیاد پر ان علاقوں کے لئے ہی مختص کی جاتی ہیں جہاں امیدواروں کے ذات پات والے رائے دہندگان زیادہ تعداد میں آباد ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بہار میں سیاست کا اعلی معیار آج تک قائم نہیں ہو سکا اور موجودہ سیاست اپنی ذات پات کی خول سے اب تک باہر نکل نہیں پائی ۔ لالو پرساد یادو ایک عرصے تک بہار کے اقتدار پر قابض رہے مگر اس دوران صرف انہوں نے اپنی ذات والوں کو ہی فوقیت دی اور آج بھی تیجسوی یادو کی سیاست اسی کے ارد گرد گھوم رہی ہے ۔ پارٹی کا ہندو مسلم اتحاد تو محض ایک دکھاوا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایک لمبی مدت تک اقتدار میں رہنے کے باوجود آج بھی آر جے ڈی عوام میں اپناتشخص برقرار رکھنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہی ہے ۔ ذاتی واد کی وجہ سے آر جے ڈی کے سینیر لیڈران ماضی میں اور آج بھی پارٹی کو خیر باد کہہ کر یا تو اپنی الگ پارٹی بنا چکے ہیں یا دوسری پارٹیوں میں شامل ہو رہے ہیں ۔ بہار کی سیاست صرف ذات پات کے ارد گرد چکر کاٹنے کی وجہ سے عوام الناس کا صرف استحصال ہوتا رہا ہے اور عام غریب ہندو اور مسلمان دونوں غیر منصفانہ اور جانب دارانہ سیاست کی چکی میں آج بھی پس رہے ہیں اور ان غریب عوام کی فلاح بہبود ذات پات اور بھائی واد کی سیاست میں گم ہو چکی ہے ۔ دوسری طرف بہار کے موجودہ وزیر اعلی بھی کم و بیش اسی نہج پر گامزن ہیں اور اپنی سیا سی شطرنجی چال اعلی ذاتوں کو فروغ دینے میں استعمال کررہے ہیں ۔ جے ڈی یو میں وہ اپنے تمام پیا دوں کو موقع پرستی کے گر سکھا رہے ہیں کہ پارٹی کے ہر غیر منصفانہ فیصلے کا ساتھ دیتے رہنا ہے ،خواہ پارٹی کا فیصلہ ان کے مذہب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ اور حرف آخر کی طرح انکے حامیوں نے اس کا مظاہرہ بھی کیا جس کی مثال سی اے بی کی شکل میں موجود ہے ۔ موقع پرستی کے دلدادہ وزیر اعلی نتیش کمار ایک زمانے میں لالو اور سونیا سے بھی ہاتھ ملا کر بہار کے عوام کو بیوقوف بنا چکے ہیں۔ موصوف نتیش کمار جی اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد پھر ایک ایسی سیاسی پارٹی بی جے پی کو گلے لگا چکے ہیں جس کا پورا وجود اقلیت و مسلم دشمنی پر ہی قائم ہے ۔ جنتادل یونائیٹڈ کا منشور اقلیت اور مسلمانوں کے فلاح وبہبود سے بھرا پڑا ہے مگر یہاں ایک ایسی پارٹی سے سانٹھ گانٹھ کرنا مسلم اور تمام اقلیتوں کے ساتھ محض دھوکا اور مذاق ہے ۔ مثال کے طور پر نتیش کمار کی ذہنی فتینی اور اقلیت و مسلم دشمنی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا دیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے پیادے سمیت پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیکر متنازعہ قانون نافذ کرنے کے موجد قرار پا چکے ہیں ۔ اس موقعہ پر بہار کے وزیر اعلی سے سب کو یہ امیدیں تھیں کہ نفرتوں پر قائم مبینہ غیر آئینی بل کو پارلیمنٹ میں مسترد کرنے کا اہم ذریعہ بنیں گے مگر افسوس صد افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ شرمندگی اور حیرت و افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ نتیش کمار کی پارٹی کے پانچ نام نہاد مسلم ارکان پارلیمان بھی سی اے بی کے نفاذ میں پیش پیش تھے ۔ جے ڈی یو اس نازک موقعے پر اگر پارلیمنٹ سے صرف واک آؤٹ کو ترجیح دیتی تو شاید بھارتی آئین کے خلاف مذکورہ متنازع بل نافذ نہیں ہو پاتا اور نہ ہی موجودہ لاک ڈاؤن میں ان بے قصور اور انصاف پسند دانشور حضرات جو سی اے بی کے خلاف پورے ملک میں صف آرا تھے ان کی گرفتاریاں عمل میں نہیں آتیں جو فی الوقت جیل کی کوٹھریوں میں قیدو بند کی مشقتیں جھیل رہے ہیں ۔ بہار میں محض اپنی سرکار بچانے کے لئے نتیش کمار نے ستر فیصد ہندومسلم قوم کو سی اے بی کی بھٹی میں جھونک دیا اور وہی نتیش کمار آج اقلیتوں کے مسیحا کہے جا رہے ہیں ۔ نتیش کمارنےبے شک بہار کے لئےکچھ اچھے کام کئے خاص کر سڑک اور بجلی گاؤں گاؤں تک پہچا ئی جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر سی اے بی کی حمایت ان کی تمام تر کار کردگیوں پر نہ صرف پانی پھیر دیتی ہے بلکہ ان کے اس عمل سے ان کے برہمن واد کی بھر پور نشاندہی بھی ہوتی ہے،وہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر نفرتوں کی سیاست میں بی جے پی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
پٹنہ:بہار میں اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کے بیچ، ریاستی الیکشن آفس نے 26 جون کو ایک کل جماعتی اجلاس طلب کیا ہے۔ اس اجلاس میں تمام منظور شدہ پارٹیوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ کمیشن بہار میں انتخابات کرانے کے لئے سیاسی جماعتوں سے تجاویز طلب کرے گا۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈیجیٹل تیاریوں پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ الیکشن میں رونما ہونے والی نئی تبدیلیوں کے بارے میں معلومات شیئر کریں گے۔ریاستی ڈپٹی چیف انتخابی افسر بیجوناتھ کمار سنگھ نے کہا کہ بہار میں انتخابات کی تیاریوں کو سیاسی جماعتوں کی رائے کی بنیاد پر حتمی شکل دی جائے گی۔ کل جماعتی اجلاس میں تمام منظور شدہ جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ ہر ایک سے تجاویز طلب کی جائیں گی۔
نئے فارمیٹ میں بہارالیکشن،ممکن ہےووٹروں کوپولنگ بوتھ نہ جاناپڑے:سشیل کمارمودی
پٹنہ:نائب وزیراعلیٰ سشیل کمار مودی نے دعویٰ کیاہے کہ اس بار بہار اسمبلی کا الیکشن مکمل طور پردوسری شکل میں ہو سکتا ہے۔ اس بارنہ تو ہیلی کاپٹر پرواز کریں گے، نہ ہی لیڈر پہلے کی طرح گھوم پھر سکیں گے۔سب سے بڑی تبدیلی تو یہ ہوسکتی ہے کہ ووٹروں کوبوتھوں پر جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔اس کے لیے الیکشن کمیشن بھی جائزے میں مصروف ہے۔لیکن اب تک الیکشن کمیشن نے ایساکچھ نہیں بتایاہے توسوال یہ کے الیکشن کمیشن کے جائز ہ کی بات سشیل کمارمودی تک کیسے پہونچی۔مودی صحافیوں سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہاہے کہ اس بار انتخابات میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہی اہم ہتھیارہوں گے۔ اب تک ہیلی کاپٹرکابڑاکردارہوتاتھا۔گزشتہ 20-25 سالوں سے یہ انتخابی مہم کا مضبوط حصہ رہاہے۔لیکن اس بار ایسا ہوتا نظرنہیں آتاہے۔ اب پرانے طور طریقے سے الیکشن ہونا ممکن نہیں لگتاہے۔ بڑی بھیڑ، لیڈروں کے ساتھ ہجوم اور بوتھوں پرلمبی قطار کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔پوری دنیا بدل گئی ہے۔ اب تک جس طرح الیکشن ہوتا آیا ہے، اب ویساہوناممکن نہیں لگتاہے۔
بہار کا تعلیمی نظام چوپٹ ،بہترتعلیم اورروزگارکے لیے نوجوان نقل مکانی پرمجبور:چراغ پاسوان
پٹنہ:
تین انجن کی سرکارمیں شامل لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) کے قومی صدر چراغ پاسوان نے کہاہے کہ بہتر تعلیم اورروزگارکے لیے بہار کے نوجوانوں کو مجبوراََجانا پڑتاہے۔بہار فرسٹ بہاری فرسٹ سفر کے دوران چراغ نے کہاہے کہ بہار کے باہر بہاریوں کو احساس کمتری سے دیکھا جاتا ہے، جس کا انہیں کافی دکھ ہے۔ چراغ نے کہاہے کہ ایک وقت تھا،جب ملک-دنیا سے لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے بہارآتے تھے۔ نالندہ اور وکرم شیلا یونیورسٹیوں کی پوری دنیا میں پہچان تھی،لیکن آج بہارکے نوجوان بہتر تعلیم اور روزگارکے لیے دوسرے علاقوں میں جانے پر مجبور ہیں۔ اس صورت حال کوتبدیل کرناہے۔ بتا دیں، چراغ ان دنوں بہارفرسٹ بہاری فرسٹ سفرکے لیے بہار کے دورے پرہیں۔اس سفر کے دوران وہ ریاست کے تمام اضلاع میں پہنچ کر رابطہ مہم چلا رہے ہیں اور 14 اپریل کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں ہونے والی ایل جے پی کی بہار فرسٹ بہاری فرسٹ ریلی کے لیے لوگوں کومدعوبھی کررہے ہیں۔سفر کے دوران منعقد عوامی جلسوں میں امڑ رہی بھیڑاور لوگوں کے عوامی حمایت سے ایل جے پی کارکن کافی پرجوش ہیں۔اس سفرکونتیش کمار پرزیادہ سیٹوں کے لیے دبائوبنانے کی کوشش بھی سمجھاجاسکتاہے ۔سفرکے دوسرے مرحلے میں شمالی بہار کا دورہ کر رہے چراغ اس سے پہلے سمستی پوراور دربھنگہ پہنچے تھے، جہاں ایل جے پی کارکنوں اور حامیوں کی بھاری بھیڑ کی طرف سے نوجوان لیڈر کا پختہ خیر مقدم کیاہے۔یہاں انہوں نے کہا کہ آزادی کے ستر سال بعد بھی بہارکی اتنی ترقی نہیں ہو پائیی ہے، جتنی ہونی چاہیے۔سوال یہ ہے کہ چھ سال سے مرکزاورپندرہ سال سے ریاستی حکومت میں شامل ایل جے پی اس کے لیے کیوں ذمے دارنہیں ہے؟کیانتیش حکومت ناکام ہوئی ہے۔ایل جے پی صدر نے کہا کہ وزیراعلیٰ نتیش کمار کی قیادت میں گزشتہ 15 برسوں میں بہارمیں کافی کام ہواہے۔لیکن ابھی اور بھی کام ہونا باقی ہے، جس سے بہارتیار صوبہ بن سکے۔ اس کے لیے تعلیم، صحت اوربنیادی ڈھانچہ کومضبوط کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاہے کہ اگلے اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے اتحاد کی جیت پکی ہے اورپھرسے نتیش جی کی قیادت میں ایک مضبوط حکومت کا قیام ہوگا۔ نتیش جی نے 15 برسوں میں بہار میں ترقی کی مضبوط زمین تیار کر دی ہے۔ اب اسی پلیٹ فارم سے ترقی کی نئی پرواز درج کرناہے۔ دوسرے ترقی یافتہ علاقوں کے مقابلے میں بہار صرف کافی پیچھے ہے۔