ملک کی موجودہ صورت حال بھارت واسیوں کے لئے پریشانی اور پشیمانی کا باعث ہے ۔ ٹو اِن ون سے مشہور اور عصبیت پرستی سے معمور مودی و امیت حکومت نے پورے دیش واسیوں کولہو لہان کر رکھا ہے ۔ مٹھی بھر نام نہاد مودی بھکتوں کو چھوڑ کر ملک کی ستر فیصد سے زائد آبادیاں موجودہ حکومت سے بیزار ہیں ۔ یکے بعد دیگرے نوٹ بندی سے لیکر سی اے بی اور لاک ڈاؤن تک کا سفر بھارت واسیوں کے لئے تھکا دینے والا ثابت ہواہے ۔ مبینہ لاک ڈاؤن میں خوف و دہشت سے کوئی سڑک پر تو نہیں آیا، مگر حقیقت میں لوگ سڑک پر آگئے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں عوام حکومت میں تبدیلی کی خواہاں ہے ۔ فاشزم پر مبنی مرکزی حکومت کو سبق سکھانے اور اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے بہار کی عوام کو اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کا بے صبری سے انتظار ہے ۔ عام طور پر تمام سیکولرپارٹیاں انتخابات میں اکیلے قسمت آزمائی کرتی آرہی ہیں ، جس سے تمام سیکولر ووٹ منقسم ہونے کے باعث بی جے پی ہی کو اس کا بھر پور فائدہ ملتا آرہا ہے ن،تیجے کے طور پروہ حکومت سازی میں کامیاب ہوتی آرہی ہے ۔ جبکہ بی جے پی کے ووٹ حاصل کرنےکی شرح ۳۰/ فیصد تک ہی محدود ہے ،جو ۷۰/ فیصدی ووٹ پر بھاری ثابت ہو تی ہے ۔ وقت کا اہم تقاضہ یہ ہے کہ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ سیاسی سطح پر بھی سیکولر پارٹیوں کو آپس میں متحد ہوکر سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ میدان عمل میں آنا ہوگا ؛تاکہ سیکولرووٹ کی طاقت فیصلہ کن ثابت ہوسکے ۔ سیاسی پارٹیوں کے آپسی اتتحاد سے ہی بی جے پی مکت بھارت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے ۔ بہار میں جب موجودہ سیکولر سیاسی جماعتوں کا تجزیہ کرتے ہیں، تو افسوس ناک حد تک ان تمام پارٹیوں کی زبوں حالی کا معاملہ بھی ایک الگ پریشان کن مسئلہ ہے ۔ کوئی بھی پارٹی اتنی طاقت ور نظر نہیں آتی، جو تن تنہا بی جے پی کا مقابلہ کر سکے ۔ سچائی یہ ہے کہ جنتا دل یونائیٹڈ بھی اسی خوف سے بی جے پی سے دوستی کرنے پر مجبور ہے۔ نتیش کمار جو پارٹی کے بزرگ اور تجربہ کار سیاست دانوں میں سے ایک ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بی جے پی دم چھلے کی طرح پارٹی کا ساتھ دےرہی ہے ،جوکبھی بھی ان کی گردن تک پہنچ سکتی ہے ۔ کشمیر میں فاروق عبداللہ کی مودی سے کی گئی دوستی کا انجام سب کے سامنے ہے ۔ یہاں بھی کانگریس کی بے بسی افسوسناک حد تک قابل رحم ہے ۔ ہاں ایک زمانے میں بہار میں ضرور ان کی طوطی بولتی تھی جو اب قصۂ پارینہ بن گئی ہے ۔ اب رہا سوال لالو پرساد یادو کی پارٹی آر جے ڈی کا وہ بھی تیجسوی کی طفل مکتبی اور اقربا پرستی کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔
ایک زمانے میں بہار کو لوگ لالو راج سے جانتے اور پکارتے تھے ۔ ستا کے سنگھاسن پر لالو کو براجمان کرنے کے لئے رگھوونش کمار سنگھ اور علی اشرف فاطمی کا نمایاں کردار اور پارٹی کو عوامی سطح تک لانے میں ان دونوں کی قربانیاں محتاجِ بیان نہیں ہیں ، مگر پارٹی کی بد قسمتی یہ ہے کہ آج وہ دونوں پارٹی سے الگ ہو چکے ہیں ۔ مگر باجود اسکے آج بھی اگر خلوص کے ساتھ سیکولر پارٹیاں بہار میں متحد ہوکر بی جے پی کے خلاف صف آرا ہوں تو ممکن ہے کہ سیکولر پارٹیوں کا یہ اتحاد بی جے پی کے لئے نقصان دہ ثابت ہو ، اور کوئی عجب نہیں کہ بی جے پی کی ہزیمت سلسلہ بہار سے چل پڑے جیسا کہ نتیش -لالو کی سابقہ دوستی بی جے پی کے لئے ہتک آمیز ثابت ہو چکی ہے ۔ پھر وقت آگیا ہے کہ بہار میں تمام سیکولر پارٹیاں مل جل کر انتخابات میں اپنی ذمے داریاں نبھائیں اور بی جے پی کو شکست فاش دیکر اسے اس کی اوقات بتا دیں؛ تاکہ دیگر ریاستوں میں بھی سیاسی اتحاد کا چلن عام ہو اور یہ اتحادملک کی جمہوری کے تحفظ کا ذریعہ ثابت ہو۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)