ایمبولینس اور اسکول بسوں کے لیے راستہ کھولنے پر رضامندی،گورنرنے مظاہرین کے مطالبات مرکزی حکومت کوپہنچانے کی یقین دہانی کروائی
نئی دہلی: شاہین باغ مظاہرہ کے سلسلے میں آنے والی متعدد خبروں کے بیچ آج شاہین باغ مظاہرین کے نمایندہ وفد نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم کیے جائیں تومظاہرے کی وجہ سے راستہ بند ہونے کے معاملے کے حل کے لیے کوئی بھی مناسب پیش رفت کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے ایل جی سے کہاکہ ایمبولینس اور اسکول بسوں کے لیے ہم راستہ کھولنے کوتیارہیں اور اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون پیش کریں گے۔ایل جی نے مظاہرین کے وفد کی باتیں سنیں اور انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ وہ ان کے مطالبات وزارتِ داخلہ کے سامنے پیش کریں گے۔قابل ذکرہے کہ 20جنوری کو دہلی پولیس نے شاہین باغ مظاہرین سے اپیل کی تھی کہ چوں کہ اسکولوں میں امتحانات قریب ہیں اور اس مظاہرے کی وجہ سے کئی ہفتوں سے بچوں کو پریشانی ہورہی ہے اس لیے مظاہرین اسکول کی بسوں کے گزرنے کے لیے راستہ کھول دیں۔دہلی پولیس نے شاہین باغ مظاہرین اور ایل جی کی ملاقات کو خوش آیند قراردیاہے اورامید جتائی ہے کہ مسئلے کا بہتر حل نکلے گا۔
bhu
فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’’ ہم دیکھیں گے‘‘جو سیاست کی بالادستی اور ناانصافیوں کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ بن چکی ہے ،چونکہ اردو میں لکھی گئی ہے اور شاعر اپنے عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہے، اس کا مطالعہ مشرقی علوم اور مشرقی زبانوں کا بہت زیادہ ہے اس لیے لازمی طور پر ایسا ہے کہ نظم کی زمین مشرقی مہا بیانیوں کے علامتی لفظ وصوت اور تصوروخیال سے بھر گئی ہے۔ اور یہ بالکل فطری ہے ، کوئی بھی نظم جس زبان میں لکھی جاتی ہے اسی زبان کے مہاوروں، کہاوتوں،علامتوں ،استعاروں اور تشبیحات وتلمیحات بلکہ خود شاعر کے ایمان و مذہب کو ظاہر کرنے والی علامتوں او ر صوتیات سے مملو ہوتی ہے اور جب تک لفظ اور علامتوں کا برتاوا منفی نہیں ہے، تب تک اس میں کچھ برائی بھی نہیں۔ اس کے برعکس اگر ظلم کی مخالفت اور آزادیوں کی حمایت کی با ت ہے تو یہ ہر طرح سے پروگریسو ہے اور اس کی ہر حال میں تائید کی جانی چاہیے۔
یہ نظم اس وقت لکھی گئی تھی جب فیض امریکہ میں مقیم تھے اور وطن سے دور اپنے اس قیام کو جلا وطنی سے بھی تعبیر کرتے تھے ، یہ نظم فیض کے دیوان ’’مرے دل مرے مسافر‘‘ میں شامل ہے۔ اس کا عنوان ’ویبقیٰ وجہ ربک‘‘ہے، جو سورۂ رحمان کی آیت کا ایک ٹکڑاہے۔ یہ نظم ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ ہے اور جمہور کی حکومت کا مژدہ سنانے والی ہے۔ ا س میں یہ دعویٰ بہت یقین کے ساتھ دوہرایا گیا ہے کہ حالات ایک دن یقینا بد لیں گے۔شاعر کے دل میں یقین کی یہ کیفیت قرآن کے بیانیے اور اس پر اعتماد ویقین سے بھی پیدا ہوئی ہے ۔ اور ان ادبی وسیاسی سرگرمیوں اور وابستگیوں سے بھی، جن سے وہ عمر بھر وابستہ رہے۔اقبال اور رومی تو ان کے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔
اس نظم میں جتنے بھی ایسے الفاظ آئے ہیں جو مذہبی شعار اورعلامات کے حوالے سے جانے پہچانے ہیں جیسے کعبہ وبُت اور حرم وانا الحق وغیرہ ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب الفاظ علامتی اور استعاراتی معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنیٰ میں استعمال نہیں ہوا ۔ بُت سے مراد بھی ہندو مذہب کےدیوی ودیوتاؤں کی کوئی مورتی نہیں ہے بلکہ ظالم حکمراں اور نامراد اہل سیاست مراد ہیں۔اردو شاعری میں بُت کا استعمال بہت کثرت اور بہتات کے ساتھ ملتا ہے۔اور اکثر جگہ اس سے معشوق مراد ہوتا ہے، خاص کر وہ ،جو شوخ اوربے پرواہ ہے جو محبت کا مثبت جواب نہیں دیتا۔پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی نے کہا ہے:
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
نسیم کے اس شعر میں ’’ بُت‘‘ سے مراد کوئی مورتی نہیں ہے اور نہ ہی ’’کفر ‘‘کا اشارہ کسی غیر مسلم کی طرف ہے، بلکہ بت سے مراد معشوق ہے اور کفر سے مراد اس کی ضد اور ’نہیں نہیں‘ ہے۔
فیض کی نظم میں اللہ کا نام بے شک حقیقی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے اوراس نظم کی یہی لائن ’’ بس نام رہے گا اللہ کا‘‘ اس نظم اور اس کے عنوان میں ربط پیدا کرتی ہے۔مگر یہاں لفظ ’اللہ‘ کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ نظم اردو زبان میں ہے اورشاعر اللہ کی ذات میں عقیدہ (آستھا) رکھتا ہے۔ اگر شاعر غیر مسلم ہوتا یا نظم دوسری زبان میں ہوتی تو اللہ کے سوا کوئی دوسرا لفظ ہوسکتا تھا جیسے مالک ،بھگوان اور گاڈ وغیرہ۔ اسی طرح ’حرم ‘اور ’کعبہ ‘ بھی ایوان سیاست کی اعلی مسندوں کے معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ اسی طرح ہے جس طرح عدالتِ عالیہ کو’’ انصاف کا مندر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسا کہتے وقت حقیقی مندر مراد نہیں ہوتا اور نہ ہی عدالت ِعالیہ کو مندر بتانا مقصود ہوتا ہے۔
’’ہم دیکھیں گے/لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے‘‘
ان لائن میں دو نوعیت کا مضمون ہے۔ ایک یہ کہ دیکھتے ہیں اللہ ظلم کو مٹانے اور انصاف قائم کرنے کا اپنا وعدہ کس طرح پورا فرماتا ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ کا یہ وعدہ سچ ہوکر رہے گا اور ہم (یعنی انسان، نہ کہ خود فیض) اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
’’وہ دن کے جس کا وعدہ ہے/جو لوح ازل میں لکھا ہے‘‘
یہاں وعدے کے دن سے قیامت کا دن مراد نہیں ہے اور نہ ہی لوح ازل سے محض قرآن مراد ہے، جیسا کہ بعض اہل قلم نے بتانے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے قوانین فطرت میں بھی اور قوانین شریعت میں بھی اللہ کا یہ اصول اور وعدہ ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب ظالم بے موت مارا جاتا ہے اور مظلوم سرخ رو ہوتا ہے۔ موسیٰ وفرعون کی لمبی داستان ِ دلخراش میں ایک دن وہ بھی آیا جب فرعون غرقاب ہوا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سرخ روہوئی ۔ یہی بات قرآن میں اس طرح لکھی ہے۔ جاء الحق وذہق الباطل۔ جس طرح فرعون کا غرق ہونا دنیا میں ہی ہوا ، اسی طرح یہ بھی دنیا ہی میں ہوتا ہے کہ باطل کا چراغ گل ہوتا ہے اور حق کی شمع روشن ہوتی ہے۔اس لئے ’’وعدے کے دن ‘‘سے قیامت کا دن مراد لینا درست نہیں اور’’ لوح ازل ‘‘سے قرآن ہی سمجھنا بھی غلط ہوسکتا ہے۔اس میں ابتدائےآفرینش کے معنی بھی ہوسکتے ہیں۔اسی طرح نظم میں زمین کے دھڑدھڑ دھڑکنے اور بجلی کے کڑکڑ کڑکنے کی صوتیات کی خام بنیادیں قرآنی بیانئے میں تلاش کرنا بھی دور کی کوڑی لانےکے مترادف ہے۔مگر کئی قلم کاروں نے یہ کوشش بھی کرڈالی ہے۔
’’جب ارضِ خدا کے کعبے سے /سب بت اٹھوائے جائیں گے‘‘
ارضِ خدا کے کعبے سے یعنی اللہ کی زمین کے قابل احترام مقامات اور ایوان سیاست سے ، جب ظالم حکمرانوں کو بے عزت کرکے نکالا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بیت اللہ سے بتوں کو نکالا گیا تھا۔ یہا ں تلمیحاً اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جب بیت اللہ الحرام کو بتوں سے پاک کیا گیا تھا ، مگر مقصود آج کے زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سیاست کے ایوانوں کو پاک کرنا ہے۔ اور مردودِ حرم، (سیاست کے محل اور ایوانوں سے دھتکارے ہوئے لوگ) یعنی عوام کو ایوان سیاست کی اعلیٰ مسندوں پر بٹھایا جائے گا۔آج کی دنیا میں جو دھتکارے ہوئے لوگ ہیں اور دبے کچلے انسان ہیں ، جلد ہی وہ دن بھی آئے گا جب وہ سیاسی و مذہبی محلوں اورایوانوں کی اعلی مسندوں پر جلوہ افروز ہوں گے اور یہ ہوکر رہے گا کیونکہ قدرت کے کارخانے میں ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے۔
اس نظم کا عنوان اور پھر نظم میں موجود بعض الفاظ اور تلمیھات اس کو مذہب اسلام ،اسلامی تہذیب اور پھر اسلامی بیانیے سے جوڑ دیتی ہیں۔عنوان کے لیے تو قرآن کے الفاظ من وعن لے لیے گئے ہیں۔ اس میں منصور کے نعرے ’انا الحق‘ کا ذکر بھی بطور تلمیح آگیا ہے ۔یہ نعرہ بھی بنیادی طور پر کسی غیراسلامی مذہب کے مخالف نہیں ہے، بلکہ اُس وقت جب یہ نعرہ حسین بن منصور حلاج کی زبان سے اداہواتھا ، اسے اسلامی توحید کے خلاف ہی سمجھا گیا تھا ، بعد میں سیاست بھی اس کے خلاف ہوگئی اور منصور کو دار پر کھینچا گیا۔ اور پھر مزید بعد کے زمانوں میں یہ نعرہ سیاست گردی کے خلاف اور غلامی کے خلاف ’انقلاب زندہ باد ‘ جیسا نعرہ بن گیا ۔ اور فیض کی نظم میں اس نعرے کی گھن گرج نعرۂ انقلاب کی گھن گرج کے ہم معنیٰ ہی ہے۔اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ فیض اس نعرے سے فی الواقع کیا معنیٰ سمجھتے تھے، وہ بھلے ہی منصور کو درست مانتے ہوں اور اپنے من میں ’انا الحق‘ کی کوئی توجیہ کرتے ہوں جیسے کہ بہت سے صوفیاء اور علماء نے کی ہے ،مگر نظم میں یہ محض عزم واستقلال اور انقلاب کے معنیٰ میں ہی ہے۔ اس میں اس عزم کا اظہار ہے کہ منصور حلاج کی طرح ہم بھی خوشی خوشی تختہ دار کو چوم لیں گے مگر اپنے دعوے سے سرمو انحراف نہ کریں گے۔
ایک جملۂ معترضہ کے طورپر یہ بھی سن لیں کہ نعرۂ اناالحق سے کوئی کچھ بھی سمجھے اور جو چاہے معانی نکالے مگر’ اناالحق‘ فرعون کے نعرے ’انا ربکم الا علیٰ‘ سے بہت مختلف ہے۔ اس میں غرور اور خدائی کا دعویٰ ہے جبکہ’ اناالحق‘ میں عاجزی اور فنا کا تصور ہے۔دونوں قلبی واردات کی سطح پر ایک دوسرے کے متضاد ہیں، ایسے ہی جیسے کفر اور ایمان ایک دوسرے کے کھلے متضاد ہیں۔
اورجس طرح کوئی فلم، ناول یا افسانہ وغیرہ جس کی زمین مذہبی علامتوں پر استوار ہو، یا اس کی کہانی مندر، مسجد، گردوارہ یا چرچ وغیرہ کے ارد گرد گھومتی ہو تو محض اس بات سے وہ افسانہ، ناول یا فلم مذہبی نہیں ہوجاتی،اسی طرح کوئی نظم، فن پارہ یا ادب مذہبی علامتوں کی وجہ سے مذہبی نہیں ہوجاتا۔انہیں اگر کوئی چیز مذہبی بناتی ہے تو وہ لفظوں ، استعاروں اور تلمیحات کا برتاوا ہے کہ ان میں معنیٰ کو کس کیف ونوع کے ساتھ برتا گیا ہے۔اگر کسی نے یہ بات نہیں جانی تو اس نے آرٹ اور ادب کو نہیں جانا۔
اس نظم کو یا اس کی کسی لائن کو ہندومخالف بتاناشعر وادب سے سراسر ناآشنائی والی بات ہے یا پھر یہ کہ سیاست چلانا مقصود ہے اور کچھ نہیں، کوئی بھی ادب وساہتیہ کا آدمی اس نظم کو ہندومخالف نہیں کہہ سکتا ۔اور جبکہ یہ معلوم ہے کہ یہ نظم خود پڑوسی ملک کے حکمراں جنرل ضیاء الحق کی بعض پالیسیوں کے خلاف کہی گئی تھی ،تب تو اور بھی کوئی تُک نہیں بنتی کہ اسے ہندو مخالف بتایا جائے۔
تعجب ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان میں جس شاعر کو ہندوستان نواز کہا گیا، آج اسی کے چند بول ہندو مخالف قرار دئے جارہے ہیں۔اس نظم سے ایک زمانے میں پاکستان کی حکومت خوف کھاتی تھی اور آج ہندوستان کی حکومت کو اسی نظم سے ڈر ستارہا ہے۔ سیاسی اکھاڑوں کے پہلوان بھی کتنے بہادر ہوتے ہیں، کہ لفظ وصوت کی گھن گرج سے ڈرجاتے ہیں ، حالانکہ ان کے اپنے پاس توپوں ، میزائیلوں اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ ہوتی ہے اور پھر بھی وہ کمزور اور سریلی آوازوں سے خوف کھاتے ہیں۔ کیا یہ اپنے آپ میں کچھ کم تعجب خیز بات ہے۔
موبائل نمبر: 8860931450
اسلامیات کے ماہرین اس بات کو جانتے ہیں کہ بعض سنگین حالات میں عورتوں کو گھر چھوڑکر مورچہ سنبھالنے کی اجازت ہے اور وہ بھی بغیر شوہر کی اجازت کے۔ 12-12-19کو CAAبنادیاگیا، یہ قانون اولاً تو آئین کی روح کے خلاف ہے، دوسرے قانونی ماہرین اس کو آئین کی دفعہ 14اور 21کے خلاف قرار دے رہے ہیں، تیسرے یہ قانون ہندتوا آئیڈیالوجی کی طرف ملک میں پہلا عملی اور قانونی قدم ہے، چوتھے مستقبل میں ہونے والی NRCکے نتیجے میں عدم دستاویز کے باوجود بھی تمام غیرمسلم CAAکی وجہ سے بدستور بھارتی شہری قرار پائیں گے لیکن مسلمان معمولی خامیوں کی وجہ سے غیرملکی قرار دیدیے جائیں گے۔ اس لیے یہ قانون اپنی وسعت و پھیلاؤ میں امت مسلمہ کے لیے سنگین نتائج رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ آسام کے ڈٹینشن کیمپ کی بدترین تصویر نے اس قانون کی بربریت کو اپنی انتہا پر پہنچادیا۔ خیال رہے کہ وہاں پر ایسا بھی ہواکہ بہن کوکہیں اور بیوی کو کہیں بندوق کی نوک پر ڈٹینشن کیمپ میں داخل کردیاگیا، اس لیے اس قانون کے خلاف جو ہماری محترم مسلم خواتین احتجاج کررہی ہیں، بالخصوص شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وہ بالکل عین تقاضائے وقت ، تقاضائے فطرت اور تقاضائے شریعت ہے۔
دنیا کے تمام ماہرین قوانین حق خود حفاظتی کے اصول کو مانتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے بھی اس عالمی اصول کی قدر کی ہے اور اسی کے مطابق ”جہاد و قتال“ کی تفصیلی ہدایات جاری کی ہیں۔ CAAکے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئی ہماری بہنیں اور ان کے اعزہ واقارب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسلامی تاریخ میں خواتین عین میدانِ جنگ میں لڑی ہیں، اس سلسلے میں حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب اور حضرت خولہؓ کے واقعات بطور استدلال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ صفیہ بنت عبدالمطلب نے جو کہ حضور ﷺ کی پھوپھی تھیں، جنگ اُحد اور جنگ خندق میں مردانہ وار دشمنوں پر ہتھیارچلاٸے، حضرت خولہؓ نے 30دیگر مسلم خواتین کے ساتھ خیمے کی لکڑیوں سے حملے کیے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
ملک میں 30کروڑ مسلمان ہیں، جن میں 15کروڑ مسلم خواتین ہیں، دہلی اور دیگر شہروں میں بھی ہماری بہنوں کو اسلامی قدروں کے ساتھ باہر نکلنا چاہیے اور مکمل طورپر پُرامن رہتے ہوئے احتجاج کرنا چاہیے۔ اہل خانہ کو چاہیے کہ ان کو سیفٹی فراہم کریں۔ شاہین باغ کی بہادر خواتین سے حوصلہ پاکر دیوبند کی عیدگاہ میں ہماری مائیں، بہنیں نکل کھڑی ہوئیں۔ مشرقی دہلی کے خوریجی علاقے میں چند علماء اور نوجوانوں کی محنت رنگ لائی اور 13 جنوری 2020سے یہاں پر بھی ہماری مائیں ، بہنیں دھرنے پر بیٹھ چکی ہیں اور پوری طاقت سے آئین ہند کی حفاظت کا عہد کررہی ہیں۔ No NPR, No NRC, No CAA کا نعرہ لگارہی ہیں۔ سبزی باغ پٹنہ ، روشن باغ الٰہ آباد میں بھی خواتین مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ غرض پورے ملک میں مسلم و غیرمسلم حضرات کےگھروں کی ’’عزتیں ‘‘ آئین ہند کی حفاظت کے لیےبے گھر ہورہی ہیں۔ معلوم نہیں فراعِنۂ وقت پر کب ’’بجلی کڑکڑکڑکے گی ‘‘ ؟؟؟
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ NRC, CAAوغيرہ جس قدر خطرناک آٸین ہند کیلٸے ہیں اسی قدر بھارتی مسلمانوں کیلٸے ہیں ، اب تک کی کوئی بھی ’’حکومتی وضاحت ‘‘مندرجہ ذیل سوالات کو حل نہیں کرتی:1 CAAکے ذریعےغیرمسلم پناہ گزینوں Refugeeکو CAAبچالے گیا، مگر مسلم پناہ گزینوں کا کیا ہوگا؟ ڈٹینشن کیمپ؟ وطن واپسی؟ یا دریابُرد ؟؟
2 ملکی سطح پر ہونے والے NRCکا بھی یہی معاملہ ہے، غیرمسلم حضرات کو تو دستاویز نہ ہونے یا ان میں خامیاں ہونے کے باوجود بھی CAAمحفوظ مستقبل Safe Future کی گارنٹی دے گا، جب کہ مسلمان دستاویز نہ ہونے یا ان میں خامیاں ہونےکی وجہ سے بدترین مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ خیال رہے کہ صرف 28فیصد بھارتیوں کے پاس سند پیدائش Birth Certificateہے، جب کہ 99فیصد بھارتیوں کے دستاویز نامکمل ہیں یان میں غلطیاں ہیں۔
3 ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ڈٹینشن کیمپ کا کیا مطلب ہے؟ غیرمسلم پناہ گزینوں کو تو CAAبچالے گیا اور ان کو شہریت دے دی جائے گی، صاف مطلب ہے کہ یہی ڈٹینشن کیمپ بھارتی مسلمانوں کا مستقبل ہوں گے۔ خیال رہے کہ آسام میں 6ڈٹینشن کیمپ قائم ہوچکے ہیں،بنگلور میں تیار ہوچکا، مہاراشٹر میں زیرتعمیر ہے، دیگر صوبوں میں مرکزی حکومت نے تیار کرنے کے لیےبولا ہے۔ اسدالدین اویسی کے بقول مودی حکومت نے ڈٹینشن کیمپ کے لیے بجٹ بھی مختص کردیا ہے۔
اس لیے ہم بھارتی مسلمانوں کو حکومت کے کسی بھی بہکاوے میں نہیں آنا ، ہم کو جان لینا چاہیے کہ موجودہ مودی حکومت100سال پہلے دیکھے ہوئے خوابوں کو پورا کرنا چاہتی ہے، پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت (303نشست 2019) کا بھوت بار بار بی جے پی کے کان میں پھونکتاہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ (Now and never)۔ یہ حکومت مہینے دو مہنے کی چیخ و پکار اور گنتی کے چند دھرنوں سے رعب نہیں کھانے والی، اس بھوت (مودی حکومت) کو 15فیصد کی بوتل میں بند کرنا 85فیصد بھارتیوں پر ضروری ہے، اس لیے تحریک میں تیزی لائی جائے، نظم و ضبط لایاجائے۔ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جو مسلمان خواہ وہ علماء ہوں یا غیرعلماء NRC, CAAاور NPRکی حمایت کررہے ہیں یا خاموش ہیں، وہ ملک و ملت کے غدار ہیں، وہ ابورغال ہیں، وہ سراج الدولہ کے غدار میر جعفر ہیں، وہ ٹیپوسلطان کے غدار میر صادق ہیں۔ اور جو خاموش ہیں ان کو ان کے سیاہ کارناموں کی وجہ سے بلیک میل کردیاگیا ہے اور مودی حکومت نے اِن ساکت علماء و قائدین Silent leadersکو وارننگ دے دی ہے کہ اگر تم کچھ بولے تو تم کو ننگا کردیا جائے گا، یہ باتیں اس لیے کہی جارہی ہیں کہ مودی اور امت شاہ نے عظیم داعی اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو بھی مختلف قسم کے لالچ دے کر حکومت کے موقف کی حمایت کرنے کو کہا، لیکن اس وفادار بندۂ خدا نے انکار کردیا اور بھارتی مسلمانوں سےمکمل وفاداری نبھاتے ہوئے اس ا”دروازہ بند مکاری“ کو فاش بھی کردیا۔
خیال رہے کہ آر ایس ایس کی نمک خوارتنظيم ’’مسلم راشٹریہ منچ ‘‘ بھی متحرک ہوچکی ہے اور 16جنوری 2020کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں علماء کا ایک اجلاس طلب کیاہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کے مطابق ملک بھر سے 200سے زائد علماء و مذہبی راہنمائوں کو مدعو کیاگیا ہے۔ بھارتی مسلمان اپنے شعور کو بیدار رکھیں، حکومت کے حمایتی کسی بھی حضرت، کسی بھی قائد، کسی بھی لیڈر کے بہکاوے میں آکر ہرگز ہرگز اپنی تحریک کو واپس نہ لیں، صرف ایک ہی نعرہ ہونا چاہیے :ـCAAواپس لو، NPRواپس لو، NRCواپس لو! اپنی خواتین کو باہر نکالو، نوجوانوں کو باہر نکالو ، بچوں کو باہر نکالو، پوری طاقت سے تحریک اُٹھائو کہ ہر شہر اور قصبہ ’’واپس لو، واپس لو ‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھے، امن کے ساتھ محبت کے ساتھ۔
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)
تحریر: تولین سنگھ
ترجمہ: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
وہ ایک بہت ہی سرد اور ٹھٹھرتی ہوئی اور سیاہ اندھیری رات تھی۔ ان خواتین نے اپنے بچوں کو بڑی مضبوطی سے اپنے جسم سے چمٹالیا تھا تاکہ انہیں سردی کی شدت سے کچھ راحت دی جا سکے۔ لیکن کوئی بھی احتجاجی مظاہرے سے اس وقت تک ایک پل کے لئے بھی نہیں ہٹا جب تک دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں سے قومی ترانہ گانے کے ساتھ جلسہ کا اختتام نہیں ہوا۔
سوشل میڈیا آرمی بے بس: یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہواتھا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں نے احتجاج کی علامت کے طورپر قومی ترانہ گایا ہو۔ اور یہ بھی پہلی مرتبہ نہیں ہواتھا کہ ملک کے آئین اور ترنگے جھنڈے کو احتجاج کی علامتوں کے طورپر اپنایا گیا ہو۔ لیکن جو بات وزیراعظم نریندرمودی اور ان کے قریب ترین ساتھی امت شاہ کو معلوم ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اب کی بار احتجاجیوں نے قومیت یا نیشنلزم کا اظہارکرنے والی علامتیں ان کے ہاتھ سے اُچک لی ہیں، اور انہوں نے ان علامتوں کو اپنے احتجاج کے مظہر کے طور پر تھام لیا ہے۔ احتجاجیوں کے اس اقدام کی وجہ سے بی جے پی کی سوشل میڈیا آرمی بڑی مشکل میں پھنس گئی ہے۔اور اب ان لوگوں کے لئے احتجاج کررہے مسلمانوں، کمیونسٹوں (لیفٹسٹس)،آزاد خیال(لبرلس)اور حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت میں کھڑے ہونے والوں پر ’ملک دشمن‘ جیسا ٹھپّہ لگانا آسان نہیں رہا ہے۔ یہ احتجاجی مظاہرین کی ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔
ایک اداکارہ کے مقابلے میں وزیر:اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مودی کے وزیروں میں مایوسی جھلکنے لگی ہے، جسے وہ اپنی ہذیانی تقریروں اور نفرت انگیز بیانو ں میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ کی طرف سے احتجاج کے ریلے کوروکنے اور روندنے کی ناکام کوششوں کے بعد وہ خود اور ان کے بغلی ساتھی یوگی آدتیہ ناتھ نے خود کو صف اول سے ذرا پیچھے ہٹالیا ہے اور کچھ دیگر عوامی مقبولیت حاصل کرنے لائق چہروں کو آگے بڑھادیا ہے۔جیسے کہ سمرتی ایرانی نے دیپیکا پڈوکون(فلم ایکٹریس) کی یہ کہتے ہوئے مذمت کی کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ(جے این یو نقاب پوش حملے میں زخمی طلبہ) کھڑی ہوگئیں، جو ’ملک کو توڑنا‘ چاہتے ہیں اور جو’جب کبھی کوئی سی آر پی ایف کا جوان مارا جاتا ہے تو خوشیاں مناتے ہیں۔‘
یہ تھوڑی شرم کی بات ہے کہ ایک مرکزی حکومت کی وزیر کو بالی ووڈ کی ایک اداکارہ کے ساتھ مقابلے پرآمنے سامنے آناپڑا ہے۔ لیکن یہی چیز ان کی گھبراہٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اس کے علاوہ حالیہ دنوں پرکاش جاوڈیکر اور نتین گڈکری جیسی ذرا نرم اور معتدل آوازیں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ شاید بی جے پی کو امید تھی کہ ان لوگوں کی وجہ سے وزیر اعظم کی بگڑی ہوئی شبیہ کو سدھارا جاسکے گا۔ مگر اب تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
منھ بند کرنا آسان نہیں: وزیر اعظم نے خود اپنی طرف سے ہندوستانی مسلمانوں کوایک سے زیادہ مرتبہ یقین دلایا ہے، ان کو اپنی شہریت کھوجانے کے خوف میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اور کسی بھی حالت میں مستقبل قریب میں این آر سی جاری کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ لیکن جب ایک قوم نے چھ برسوں تک گائے کے محافظوں اور ہجومی قاتل گروہوں (لنچنگ گروپس) کی جانب سے اپنے خلاف برپا کیے گئے خوفناک تشدد کو خاموشی سے گزاراہے، اب ان کے منھ بند کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ مسلمانوں کو اب اپنی آواز مل گئی ہے۔
’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘: کسی بھی ریاستی حکومت نے مسلم احتجاجیوں کو خاموش کرنے کے لئے اس قدر تشدد کا سہارا نہیں لیا ہے، جتنا کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے لیا،پولیس فورس کوتقریباً 30لوگوں کوقتل کرنے کی کھلی چھوٹ دینے کے باوجود بھی وہ ناکام رہ گئے۔مظاہرین اب صرف مسلمان نہیں رہ گئے ہیں۔ ان کی صفوں میں اب وہ لوگ بھی جڑ گئے ہیں جنہیں بی جے پی کے شور مچانے والے بریگیڈس ’لیبٹارڈس‘ اور ’سِکّولرسٹس‘(libtards/sickularists) جیسے طنزیہ خطابات سے نوازا کرتے تھے۔ وہ لوگ اس احتجاج میں اس خوف کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے ہیں کہ جب شہریت کا معائنہ کرنے والے آئیں گے تو انہیں ملک سے باہر نکال دیا جائے گا۔ بلکہ ان کے شامل ہونے کا سبب یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ مودی حکومت جو کچھ کرنا چاہتی ہے وہ بہت غلط ہے۔ اتنا غلط کہ اگر کسی کو ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کے نام سے پکارا جاسکتا ہے تو یہی(برسراقتدار) لوگ ہیں۔
اختیارات کا غلط استعمال: میں یہ بات پوری طرح غور وفکر کے بعد کہہ رہی ہوں، کیونکہ ایک رپورٹر کی حیثیت سے میں نے کئی دہائیوں تک پاکستان میں کام کیا ہے۔ اور بہت سارے بڑے بڑے فوجی افسران سے میری ملاقاتیں رہی ہیں۔ ان سب نے مجھے یہی بات بتائی کہ ہندوستان کے مسلمانوں پر مشتمل کثیر آبادی کا ساتھ بدل گیا تو پھر یہ ملک دوبارہ تقسیم ہوسکتا ہے۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ جے این یو کے طلبہ کی نعرے بازی کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ یہ اس لئے ہوگا کیونکہ ہمارے سب سے سینئر منتخب لیڈروں نے اپنے بے پناہ اختیارات کا بے جا استعمال کیا۔
احتجاج کیوں جاری ہے:مجھے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ سپریم کورٹ نے کشمیر کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے یہ کہا ہے کہ غیر معینہ مدت کے لئے انٹرنیٹ بندکردینا اور دفعہ 144 جیسے نوآبادیاتی قانون نافذکرکے غیر معینہ مدت کے لئے پابندیاں لگانا’اختیارات کے غلط استعمال‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ بات یہی ہے اور جب سے دوسری مرتبہ مودی وزیر اعظم بن گئے ہیں، سیاسی طاقت کا غلط استعمال بہت ہی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہمارے شہر کے محلّوں اور تعلیمی اداروں کے کیمپسس کے اندر پورے ملک میں ایک مہینے سے زیادہ عرصے کے لئے اگر احتجاجی مظاہرے جاری رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ لوگوں نے محسوس کرلیا ہے کہ انفرادی طور پر وہ حکومت کی طاقت کے آگے کس طرح بے بس ہوگئے ہیں۔
وزیرا عظم کی شبیہ کو نقصان: اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال اس حد تک کیا ہے کہ مظاہرے کے مقام پر جن لوگوں کے موجود ہونے کی شناخت ڈیجیٹل ذرائع سے ہوئی ہے ان کی جائدادیں ضبط کرنا شروع کیا ہے۔ وہ جو چاہے کردینے کے جنون میں اس طرح مست ہوگئے ہیں کہ انہوں نے مصنفوں، شاعروں، اداکاروں اور عام گھریلو خواتین تک کو جیلوں میں ٹھونس دیا ہے۔ اس عمل سے انہوں نے جس شخصیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، وہ ہیں وزیر اعظم مودی۔
وزیر اعظم کو سوچنا ہوگا: مودی جب پہلی بار وزیراعظم بنے تھے تو انہوں نے بین الاقوامی سطح پر ایک بڑے اور جدید دور کے لیڈر کے طور پر اپنی پہچان بنالی تھی۔ مگر اب وہ شبیہ ناقابل مرمت حد تک بگڑ چکی ہے۔لیکن وزیراعظم کے لئے سب سے زیادہ اس بات کی فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے اندر ان کی شخصیت اور شبیہ کا کیا حال ہے۔ انہیں ’قومیت پرستوں‘ کے جنونی حجرے سے باہر نکلناہوگا، اور احتجاج کرنے والوں سے آگے بڑھ کربات چیت کرنی ہوگی۔انہیں اس پر توجہ دینی ہوگی کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کے آئین کو اپنے احتجاج کا لائحۂ عمل اور ہندوستانی جھنڈے کو اپنی شناخت بنائے ہوئے ہیں۔
(بشکریہ دی انڈین ایکسپریس)
مولانا احمد حسین قاسمی،معاون ناظم امارت شرعیہ،پھلواری شریف،پٹنہ
اقتدار کے نشہ میں چور مرکزی حکومت نے آر ایس ایس) (RSS سے ملنے والی فکری رہنمائی کے نتیجہ میں سی اے اے (CAA) جیسا متنازع اور ناقابل عمل قانون بنا کر ایک بڑی غلطی کر رہی ہے، جس کا اسے احساس نہیں ہے، اس ملک کے لیے طلبا کا سی اے اے(CAA)کے خلاف اولین اقدام کے طورپرپرچم احتجاج بلند کرنا ایک مثبت اور خوش آئند عمل ہے،وہ اس ملک کے مستقبل اور کل کے قائد ہیں،پورے ملک کا بوجھ ان کے کندھوں پر آنے والا ہے، وہ حال کے آئینہ میں مستقبل کے تمام حالا ت کو بخوبی دیکھ رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس سیاہ اور کالے قانون کی ناپاک دھمک کو سب سے زیادہ انہوں نے ہی محسوس کیا۔کئی ہفتے ہوگئے، مگر ان کے طرز احتجاج میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا،بلکہ دن بدن مزید اس میں استحکام ہی پیدا ہو رہا ہے۔ جس پا مردی اور عزیمت وحوصلے کے ساتھ ان غیور و جرأت مند طلبہ وطالبات نے حکومت کی بر بریت کا ڈٹ کر مردانہ وار مقابلہ کیا ہے وہ آنے والے دنوں میں آزاد بھارت کا تاریخ ساز کارنامہ شمار کیا جائے گا۔ جس احتجاج کا آغاز جامعہ ملیہ اور جے این یو سے ہوا تھا، اس نے صرف ملک کی یونیورسیٹیوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ وہ آواز بیرون ملک کی عظیم یونیورسیٹیوں آکسفورڈ اور کیمبرج میں بھی گونج رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ ان کی شان میں عظمت کے قصیدے پڑھ رہے ہیں، اوران کے حوصلوں کو سلام پیش کر رہے ہیں۔
CAA اور NRCکے خلاف اٹھنے والی تحریک کی ابتدا ملک کے انہی طلبہ وطالبات سے ہوئی ہے، ہم ان کے اس جرأت مندانہ قدم کو ملک کے دستور کی حفاظت کے حوالے سے”صور اسرافیل“ سمجھتے ہیں۔سیاسی پارٹیاں اور اس ملک کے سیکولر عوام بھی در اصل طلبہ پر پولس انتظامیہ کی جانب سے ہونے والے مظالم کو دیکھنے کے بعد ہی میدان میں آئے؛چناں چہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ طلبہ نے اپنی قربانیوں او رشجاعت وبہادری سے عوام کو بیدار کرنے کا ایک عظیم فریضہ انجام دیا ہے، جو ”نعرے“ وہ اپنے کیمپس اور جامعات کے سامنے لگا رہے تھے، اب وہ امریکہ،کناڈا اور یوکے کی سڑکوں پر سننے کو مل رہے ہیں، آپ نے سیاسی پارٹیوں کے دھرنے اورمظاہرے خوب دیکھے ہوں گے، مگر ان کا مقابلہ طلبہ کے ان مظاہروں سے کسی طرح نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ کہ طلبہ کے سینوں میں فقط ذوق جنوں،سرشاری کی کیفیت اور زندہ جذبات ہی نہیں بلکہ ان کے دل ملک کے تئیں بے لوث محبت،وارفتگی،جاں نثاری،فدائیت اور بے پناہ خلوص سے معمور ہیں،جن کا اظہار وہ ماہ دسمبر اور جنوری کی ریکارڈتوڑ ٹھنڈک میں بھی کرتے نظر آرہے ہیں،بر سر اقتدار جماعت کے لیے اس میں ایک بڑا سوال بھی ہے اورنصیحت آموز سبق بھی۔
طلبہ اس قدر احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟وہ تھکتے کیوں نہیں؟وہ ڈرتے کیوں نہیں؟ وہ رکتے کیوں نہیں؟انہیں کیا ہوگیا ہے؟وہ ان نعروں سے باز کیوں نہیں آتے؟ہم نے تو ان کے قدموں میں ہزار زنجیر یں ڈالنے کی کوششیں کیں، انہیں روکنے کے لیے ہر ممکن اپنی طاقتوں کا بھر پور استعمال کیا، مگر وہ پا بہ جو لاں دار ورسن کی طرف بڑھے جارہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ جہاں یہ طلبہ پڑھتے ہیں وہ ہندوستان کا ایک خوبصورت نمونہ ہے اگر کسی کو ہندوستان کی اصلی تصویر دیکھنی ہو تو وہ ا ن یونیورسیٹیوں کے کیمپس میں چلا جائے،وہاں گنگا جمنی تہذیب،صا ف ستھر ی اور سچی انسانیت،درمندی،بھائی چارگی اور کینہ ونفرتوں سے دورباہمی اخوت ومحبت پر مشتمل بھارت کا جمہوری دستورانسانی شکلوں میں چلتا پھرتا نظر آئے گا، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں نوع بنوع ذات،برادری،اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے صاف وشفاف ذہن کے طلبہ ایک کالج،ایک کلاس روم میں،ایک ساتھ ایک پروفیسر سے پڑھتے ہیں، اور ایک ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھتے ہیں،وہاں کتنی خوبصورت جمہوریت ہوگی،ابوالکلام اور گاندھی جی کے دیش کی کیسی دل فریب تصویر ہوگی، اور ملی جلی تہذیب کا کتنا حسین سنگم ہوگا، اس کا اندازہ طلبہ ہی کر سکتے ہیں،ہمارے طلبہ دراصل اپنے ملک کی اسی خوبصورتی کو بچانے کے لیے مستقل یہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ نفرت کے سوداگروں اور مذہبی شدت پسندوں کو ملک کی تعلیم گاہوں کی یہ جمہوری تہذیب بھی راس نہیں آئی اور یہ ان کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھنے لگا۔
یہی وجہ ہے ABVPکے ذریعہ ملک کی فاسسٹ،نازی اور فرقہ پرست طاقتوں نے یونیورسیٹی کی پاکیز ہ فضا کو مسموم اور زہر آلود کردیا ہے۔طلبہ اس حقیقت کوسمجھ رہے ہیں،اس لئے ملک کی اکثر یونیورسیٹیزمیں طلبہ یونین کے انتخاب میں اے بی وی پی کو کامیابی نہیں ملی، یہ اس ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے والوں کے لیے درس عبرت ہے۔مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں نے ہر محاذ پر اپنی ذہنیت کے خاص لوگوں کو رکھنا چاہا ہے اس کے پیش نظرانہوں نے شروع سے ہی اپنا کیڈر تیار کرنے کے لیے کالج اور یونیورسیٹیوں کا بھی سہارا لیا،اوراکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (ABVP)کے نام سے طلبہ کی ملکی سطح پر ایک جماعت تشکیل دی جو مرکزی حکومت کے زیر سایہ تعلیم گاہوں اور جامعات میں غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا کام کر رہی ہے،گذشتہ اتوار ۵/جنوری ۰۲۰۲ء جے این یو کے طلبہ پر دہشت گردانہ حملہ اس کا واضح ثبوت ہے۔”ہندو رکشا دل“ نے اس کی ذمہ داری لے کر بہت کچھ چھپایا ہے تو بہت کچھ ظاہر بھی کیا ہے،اس سے پہلے بھی روہت ویمولا اور نجیب کے دردناک واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کررکھ دیا تھا۔ملک کی عدالت سے درخواست ہے کہ ان وارادات کے مدنظر ان تنظیموں پرپابندی عائد کی جائے۔طلبہ ملک کی شان اور آبرو ہیں اور بھارت کے مستقبل بھی، ان کی آواز کو پولس کی سفاکانہ اوروحشیانہ رویوں کے ذریعہ دبانا اور ان کوABVP کے دہشت گرد غنڈوں کے حملوں سے لہو لہان کرانا بزدلانہ عمل ہے۔ عدالت کو اس پر سخت نوٹس لینی چاہئے اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے والے ملک دشمن عناصر کو عبرت ناک سزا دینی چاہئے۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ہمیں اس کی عظمت کو پامال کرنے والوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا، یہ ایک عظیم لڑائی ہے، جو پر امن طریقے پر آئین اورجمہوریت کی روشنی میں لڑی جارہی ہے۔ ملک کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے خلاف احتجاج کرناہمارا قانونی اوردستوری حق ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ملک کے ارباب اقتدار ان کے مطالبات کو پورا کریں،غلط فیصلوں سے رجوع کریں،اور احتجاج سے ملک کی روز مرہ زندگی کو متأثر ہونے سے قبل اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں،اور عوام کو مذہبی بنیادوں پر دوخانوں میں تقسیم کر کے ملک کی یک جہتی اورسا لمیت کے لیے خطرہ نہ پیدا کریں۔واضح رہے کہ حکمراں جماعت ملک کے آئین کی قسم کھا کر عوامی خدمت کے فریضہ کی ادائیگی کا اقرار کرتی ہے، لہذا حکومت کوہر لمحہ اپنے اس قول وقرار کا پابند رہنا چاہئے اور اپنے اس حلف کو ذہنوں میں مستحضر رکھنا چاہئے۔
مختلف سیاسی وسماجی شخصیتوں کی آمد،سخت سردی اور بارش کے باوجود مظاہرین پرجوش ، یواین اوکی تحقیقاتی ٹیم کا دورہ کل
نئی دہلی۔ ۱۰؍جنوری ( جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی و این پی آر کے خلاف احتجاج کا آج ۲۹؍واں دن تھا۔ سخت سردی اور بارش کے باوجود لوگوں کا جوش ولولہ قابل دید تھا۔ آج جمعہ ہونے کی وجہ سے مظاہرین کی کچھ زیادہ ہی بھیڑ تھی۔ طلبا نے مجموعی طورپر اپنے عزم وہمت کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس تحریک کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ اس موقع پر طلبانے پرزور آواز میں حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ طلبا کی ایک بڑی تعداد بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی درمیان طلبا کو حمایت دینے اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے والوں کا بھی تانتا بندھا ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں سماجی کارکنان، دانشوران اور ملی قائدین ، یونیورسٹی وکالج کے پروفیسران طلبہ کے ساتھ اظہار یگانگت کےلیے گیٹ نمبر 7 باب مولانا ابوالکلام آزاد پر پہنچ رہے ہیں۔ آج کے اس احتجاج میں جن شخصیتوں نے خطاب کیا ان میں معروف دانشور پروفیسر زویا حسن، سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ ڈاکٹر زیڈ کے فیضان، معروف قلمکار اشوک کمار پانڈے، آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار، معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی، یوتھ فور پیس کے جنرل سکریٹری علی نسیم رضی ، یوپی کانگریس کے نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ، ایم ای ای ایم کے صدر سید فرمان احمد اور شعرا میں حسین حیدری، سومیہ دیپ مرشدآباد کے نام قابل ذکرہیں۔ آج کے احتجاج میں خطاب کرتے ہوئے معروف دانشورو جامعہ کے سابق وائس چانسلر مشیرالحسن کی اہلیہ پروفیسر زویا حسن نے کہاکہ آزادی کے بعد سے میں نے اتنی بڑی تحریک نہیں دیکھی ہے، نربھیا اور انا احتجاج بھی صرف دہلی تک ہی محدود تھا لیکن یہ احتجاج ملک بھر میں ہے۔ انہو ں نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے وکیل زیڈکے فیضان نے کہاکہ یہ سیاہ قانون آئین مخالف ہے، حکومت آپ کے احتجاج سے بوکھلائی ہوئی ہے، جامعہ کیمپس میں گھر کر دہلی پولس کے ذریعے تشدد پر انہو ں نے کہاکہ جو بھی جامعہ میں ہوا وہ وائس چانسلر اور پولس کی ملی بھگت سے ہوا۔ مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار نے کہاکہ میں یہاں سیاست کرنے نہیں بلکہ اپنی ذمے داری نبھانے آیا ہوں کہ ہم اپنے حقوق اور آئین کے تحفظ کےلیے لڑیں، جس سے ملک کی روح بچی رہے، انہوں نے مظاہرین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہاکہ آپ سب اکیلے نہیں ہیں ہماری پارٹی آپ کے ساتھ ہے،یہ لڑائی صرف مسلم اور حکومت کے درمیان نہیں بلکہ یہ ملک اور حکومت کے درمیان کی لڑائی ہے۔ معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی نے کہاکہ آپ جو کررہے ہیں زیادہ تر لوگ یہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ اس تحریک کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ایک زبان، ایک نعرہ ہے ہم سب ایک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جامعہ نے پورے ملک کو جگا دیا ہے۔ اس موقع پر سبھی مقررین نے جامعہ کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور تحریک جاری رکھنے پر مبارک باد دی۔ڈاکٹر شکیل احمد خان ، کدوہ ، بہار سے ممبر قانون ساز اسمبلی نے کہا ، “یہ احتجاج اگلی نسل کے لئے ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی ایک اور عنوان لے کر آئے گی اور ہماری توجہ دوبارہ ہٹانے کی کوشش کرے گی لیکن ہمیں اپنے معاملے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگا اور لڑائی جاری رکھنا ہوگا۔ نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں بابا صاحب امبیڈکر اوران کے آئین کو مانتا ہوں، انہوں نے کہاکہ ہم تعلیم یافتہ ہیں اور ہماری تعلیم بے کار ہے اگر ہم فرقہ پرست حکومت کے خلاف نہیں لڑے ، انہوں نے مظاہرین سے کہاکہ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اس تحریک کو اتحاد کے ساتھ جاری رکھیں ـ ادھر دوسری جانب جنوبی دہلی کے شاہین باغ کا احتجاج بھی انتہائی جوش وخروش کے ساتھ جاری رہا۔ دہلی ہائی کورٹ نے شاہین باغ کے مظاہرین کو راحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں سے مظاہرین نہیں ہٹیں گے۔ جس سے مظاہرین میں خوشی کی لہر ہے۔ ہائی کورٹ میں دائر عرضداشت میںں کہاگیا تھا کہ شاہین باغ علاقے میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کو لے کر ہورہے احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ڈی این ڈی فلائی اوور پر روز عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد لوگوں میں خوشی کے آثار دیکھے گئے، اس موقع پر مظاہرین نے کہاکہ اب جو ہوجائے ہم اس کالے قانون کو واپس لیے جانے سے پہلے یہاں سے جانے والے نہیں ہیں، ہم پولس کی گولی کھانے کو بھی تیار ہیں، لیکن بنا سی اے اے قانون کو ہٹوائے ہم یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔ قابل ذکرہے کہ اتوارکو شام 7:30 بجےشاہین باغ کے احتجاج میں یو این او کی ٹیم اس احتجاج اور ملک کے موجودہ منظر نامے کا جائزہ لینے کے لئے آرہی ہےـ منتظمین نے اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے شرکت کی درخواست کی ہےـ
شاعروں ، ادیبوں اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی نہ تو کوئی ذاتی سرحد ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اپنا خاص’ مذہب‘ اورنہ کوئی واجبی شعار؛بلکہ یوں کہہ لیں کہ اکثر تو اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ’بے دین‘، ’مذہب بیزار ‘اور ملحد ہی واقع ہوئے ہیں ۔ان لوگوں کو ایک رنگ و قوم اورمذہب میں قید کرکے رکھنا ’بے معنی‘اوران کے نظریے کے ساتھ زیادتی ہے۔ان کی طبیعت جس چیز کی طرف مائل ہوگئی ، وہ اسی رنگ میں رنگ گئے۔کبھی انہیں حرم میں دیکھا گیا ، تو کبھی انہوں نے ’مے خانہ ‘ کو ہی اپنا ’حرم‘ بنالیا، حرم و کلیسا کی کشاکش میں اس قدر مغلوب ہوئے کہ ان کے لیے نعوذباللہ حرم کی’ حقانیت‘ پر کلیسا کی ’مکاری‘ بازی لے گئی۔وہ تو اس قدر مغلوب الحال واقع ہوئے کہ محبوب کی شکل کو ہی خدا مان لیا اور اپنا سر بصد عجز و نیاز خم کردیا۔محبوب کبھی بتوں میں عیاں نظرآتا ہے تو کبھی یہی محبوب فضاؤں میں رقصاں نظر آتا ہے ۔ در اصل شعرا کی برادری اپنی خود وضع یا ’خداداد‘ دنیا میں مگن رہتی ہے ، ان کے نظر میں دنیا تمام حدود و قیود سے مبرا اور تمام موجودہ رسوم و رواج سے عاری ہے ۔ہر رنگ میں شعراکو ان کا اپنا مطلوب و محبوب نظرآجاتا ہے:
جدھر دیکھتا ہوں ، جہاں دیکھتا ہوں
تجھی کو عیاں اور نہاں دیکھتا ہوں
غالبؔ بیچارہ آخر عمر تک کلیسا کی دیوار سے چپکا رہا ،حرم انہیں آواز دیتا رہا،مگر ا س آواز کو التفات کے قابل نہ سمجھا ، گرچہ بعد از مرگ خواجہ نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ کی نگری میں آخری جگہ ملی ۔ بیچارے میر ؔ تو قشقہ کھینچ کر ایسے دیر نشیں ہوئے کہ ترک اسلام بھی کرلیا،گرچہ وہ ساری عمرمسلم ’عطار کے لونڈے ‘ سے اپنے مرض کی دوالیتے رہے ۔ بالآخر انہیں بھی اسلامی طور طریقہ سے پیوندِ خاک کیا گیا ۔ ان دونام کے علاوہ کئی اسما ایسے ہیں جنہوں نے مکمل طور پر مذہبی شعائر سے خوب خوب استعارہ کیا۔اور اس پر دینی حلقہ کی طرف سے میرے علم کے مطابق ’نکیر ‘ بھی نہیں کی گئی ۔ علاوہ ازیں شعرا کی جماعت نے مذہبی شعائر سے استعارہ کے ساتھ تضحیک و تذلیل کا کوئی دقیقہ فروگزاشت بھی نہ کیا، اس سے اردو ادب بھرا پڑا ہے ، جس سے خواجہ حالی ؔ سخت نالاں بھی ہوئے ۔ جب یہ دیوانے اردو کےشعرااپنے محبوب کے ’آبِ زنخداں‘ کو کوثر و تسلیم سے فائق و افضل تصور کرسکتے ہیں ،تو پھر ان جیسے لوگوں سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے؟۔تاہم یہ بات سچ اور تلخ ہے کہ جتنی تضحیک اردو مع فارسی کے شعرا نے اسلامی شعائر کی، کی ہے ، اتنی شاید ہمارے دشمنوں نے بھی نہیں کی ہوگی ،لیکن اس کے بعد بھی ہم ان شعرا کے کلام کو پڑھتے ہیں ، اور اسے اپنا ادبی ورثہ بھی قرار دیتے ہیں ، یہ ہماری وسعت ظرفی کی ایک مثال ہے ۔
گزشتہ دنوں معروف ترقی پسند شاعر؛بلکہ ترقی پسندتحریک کے سربراہوں میں سےایک فیض احمد فیضؔ کی نظم ’ ہم دیکھیں گے ‘ پر تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ تنازع نہیں تھا؛بلکہ تنازع پیدا کرنے والوں کی ابلہی ، حماقت ، جہالت ، کور مغزی ،شدت پسندی اور زعفرانیت تھی کہ وہ صرف ایک مصرع پر بھڑک گئے ،فیاللعجب، جب کہ ہم نے تو برسوں سے ترقی پسندوں کی ’لفظی شرانگیزی‘ قلم کی شدت پسندی اور اسلام کے مقدس شعائرکی ’تضحیک و تذلیل ‘ برداشت کی ہے ، ان کا ظرف اتنا بے مایہ ٹھہرا کہ وہ ’بت ‘ ، ’اللہ ‘، ’کعبہ ‘ ، وغیرہم اسلامی شعائر سے استعارہ کے طنز کو سمجھ نہ سکے ۔تنازع پیدا کرنے والوں کو کم از کم فیض احمد فیضؔ کی شاعری کا پس منظر ،ان کی ذاتی زندگی، شخصیت نیز خصوصی طورپر اس نظم کاپس منظرتلاش کرنا چاہیے کہ یہ نظم کس پس منظر میں کہی گئی ہے ۔ اردو ادبی دنیا اس سے واقف ہے کہ فیضؔ احمد فیضؔ کی یہ نظم جنرل ضیاء الحق کی ملوکیت و قلمرو کیخلاف لکھی گئی تھی ۔ ضیاء الحق چونکہ اسلام پسند واقع ہوئے تھے ، اس لیے اسلامی شعائر سے استعارہ کے ذریعے جنرل ضیاء الحق پر طنز کیا گیاہے اور طنز و تنقید کا ہر ایک کو حق ہے ،البتہ جذبات کا خیال رکھنا لازم ہے۔یہ المیہ ہے کہ ہم برسوں سے اردوشعرا کی ذہنی عیاشی ،قلمی دھینگا مشتی ،فکری ابلہی اور ترقی پسندی کے نام پر اسلامی شعائر کی تضحیک و تذلیل اور اس سے بڑھ کر ’انکار و منع‘ کو برداشت کرتے آرہے ہیں ؛لیکن وہ ایک استعارہ کی زبان نہ سمجھ سکے؟اس فہم پر تُف ہے ۔ یہ ان کی کم ظرفی ہے کہ اپنے ہی ہم مشرب و ہم مسلک فیض احمد فیضؔ سے بھڑک گئے اوربت پرستی کے زعم کے باوجود ’بت ‘ ، ’ارضِ خدا‘ اور ’ کعبہ ‘ کی تفہیم سے کلی گریز کا عندیہ دے دیا ۔ خیال رہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ تو اردو کی ابجد کا علم ہے اورنہ ہی شاعری سے کوئی واسطہ رکھتے ہیں ، نہ استعارہ کی زبان سمجھتے ہیں اور نہ کبھی ان فنون سے ان عقل کے ماروں کو واسطہ پڑا ہے ۔بس ہنگامہ آرائی اور ماحول کو نفرت کے زہر سے مسموم کئے رکھنا ہے ۔ واقعی وہ اپنے عمل میں حق بجانب ہیں، توکم ازکم ایک باربنظر انصاف برج نرائن چکبست، آنند ملاؔ ،اور فیضؔ کے ہم عصر سمجھے جانے والے رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری کی شاعری اور ان کی شاعری میں استعمال کئے ہوئے استعاروں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ؛لیکن یہ سچ ہے کہ وہ ان کی شاعری لغات و شروحات کے بعد بھی سمجھنے سے قاصررہیں گے؛کیوں کہ خدا نے ان کی فکری نجاست وذہنی پراگندگی کے باعث اس کی مبارک و مستحسن تفہیم سے محروم کر رکھا ہے ۔درحقیقت وہ قرآنی آیت ’صم بکم عمی فہم لا یعقلون‘ کی عملی و صوری تفسیر ہیں ، تو پھر کیوں کر انہیں اس کی بصارت و بصیرت میسر ہو؟وہ تمام عقل و فکر اور فہم و فراست سے کلیۃً عاری ہیں ۔
فیض احمد فیضؔ ایک اشتراکی شاعر تھے ، ان کا نظریہ بہت حدتک سات سمندر پار روسی اشتراکیت کا آمیزہ تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا خمیر اس مٹی سے بنا تھا ، جس مٹی سے شاعرمشرق علامہ اقبالؔ کاخمیر تیا رہوا تھا ، دونوں بزرگوار پاکستان کے ’سیالکوٹ ‘ سے تعلق رکھتے تھے ۔ دونوں کی پیدائش متحدہ ہندوستان میں ہوئی تھی ،وہ سچے ہندوستانی تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ جناح اور نہرو کی نظریاتی جنگ کے باعث فیضؔ پاکستان کے ہوکر رہ گئے۔ فیضؔ کی شاعری کل بھی زندہ تھی ، آج بھی زندہ ہے ۔ اسی زندگی نے فیضؔ کی نظم کو وہ ’ہتھوڑا‘بنادیا ہے جس سے بھگوائی سکون سے محروم ہیں ۔ خوف کا عالم یہ ہے کہ ان کے طنزکو وہ حقیقت سمجھنے لگے ، ان کے استعارہ کو ’تلوار‘ سمجھنے لگے اور ’ارضِ خدا‘ سے وہ اس’ حقیقت ‘کا ادراک کر بیٹھے کہ جس کی پیشین گوئی سرورکائنات ﷺ نےفرمائی ہے۔جیسا کہ فیضؔ کی شاعری سے منشرح ہوتا ہے ۔ ابوداؤد شریف اور نسائی شریف میں وہ حدیث مبارک درج ہے، وہاں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔درحقیقت یہ تنازع سرے سے ہی بے بنیاد ہے ؛کیوں کہ فیض احمد فیضؔ ایک اشتراکی نظریہ کے شاعر تھےاورانہوں نے کبھی بحیثیت مسلمان اس امر کو قبول و تسلیم کیاہی نہیں ، جس کی وضاحت ہمارے ملک کے بھگوا دھاری شدت پسند اور انتہاپسندکرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ فیضؔ کے مبینہ ’ بت ، کعبہ ، حرم،ارضِ خدا اور ’نعرۂ اناالحق ‘ سے خوف کھا گئے، فیضؔ نے تو ہمیشہ جس خلق خدا کی بات کی ہے، خوداس خلقِ خدا کی حقوق کے لئے لڑائی آرایس ایس کرچکی ہے،حکومتِ وقت کے کارندوں کے ہاتھوں پٹ چکی ہے، جس کی شہادت ممبئی کی سرزمین دیتی ہے ۔فیض ؔ کے نزدیک حرم جو تھا ، وہ حرم تو آج ان کے گھروں میں موجود ہے ۔تو پھر یہ ہنگامہ کیا بپا ہے ؟ دراصل جو بزدل ہے ، وہ فیضؔ کے الفاظ کی کاٹ اور انقلابی خو سے خوف کھا گیا ہے ، وہ اس بات سے ڈر گیا ہے کہ مبادا کہیں اس کے سیاہ کارناموں کیخلاف جو طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ، اس طوفان میں اس کے تخت و تاج بھی خس و خاشاک کی طرح اڑ نہ جائیں ۔ ان کا خوف اور ان کی سراسیمگی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ:
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
جامعہ کے طلبہ نےاحتجاج کے ۲۳؍ ویں دن حراستی کیمپ بناکر حکومت کی عصبیت کو بیان کیا
نئی دہلی: (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف جامعہ ملیہ میں جاری احتجاج کا آج ۲۳؍واں دن تھا۔طلبا کے بھوک ہڑتال کا چوتھا دن ۔ حسب معمول آج کے احتجاج میں بھی بڑی تعداد میں جامعہ کے طلبہ سمیت اطراف واکناف کے شہریوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر جہاں لوگوں نے شہریت ترمیمی بل کے خلاف نعرے لگا کر اپنے غم وغصے کا اظہار کیا وہیں کئی نامور ہستیوں نے مظاہرین کو خطاب کیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔ آج کے اس احتجاج میں جن شخصیتوں نے خطاب کیا ان میں ایس ایف آئی دہلی کے صدر سمیت کٹاریہ ، معروف سماجی کارکن رادھیکا گنیش، زی نیوز سے استعفیٰ دینے والے ناصر اعظمی،فلمی دنیا کے مشہور ویلن ناصر علی، بی اے پی ایس اے کے ممبر قریش احمد، الہ آباد یونیورسٹی ٹیچرایسوسی ایشن کے سابق صدر رام کشور شاستری، ایڈوکیٹ انس تنویر صدیقی، دہلی یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن کے سابق صدر ادت نارائن مشرا اور جامعہ اسلامیہ اسٹونڈنٹس اکٹویسٹ کمیل فاطمہ شامل ہیں ۔آج بھی حسب معمول طلبہ نے الگ الگ انداز میں اپنا احتجاج درج کرایا۔جامعہ گیٹ نمبر ۱۰ پر طلبۂ جامعہ نے پنجرہ نما حراستی کیمپ بناکر ڈٹینشن سینٹر کی عقوبت اور حکومت کی عصبیت کو دکھانے کی کوشش کی ۔اس موقع پر طلبہ نے بتایاکہ یہ بھی مخالفت کے لیے ہی بنایاگیا ہے، انہوں نے کہاکہ ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے، اور نا ہی ہم ڈٹینشن سینٹر جائیں گے، یہیں پیدا ہوئے ہیں یہیں دفن ہوجائیں گے۔ دوسری جانب جامعہ سے منسلک فٹ پاتھ لائبریری ، مختلف النوع آرٹ اور کرافٹ بناکر بھی طلبہ نے اپنا احتجاج درج کرایا۔ آج کے اس احتجاج میں تقریباً سبھی مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان میں امن اور بھائی چارے کے قیام ہی میں ملک کی سالمیت وبقا ہے۔ مقررین نے کہاکہ ہندوستان ایک کثیر جہتی اور کثیر ثقافتی اور مذہبی ملک ہے جس پر کسی ایک کلچر اور ثقافت کو زبردستی نہیں تھوپا جاسکتا۔ موجودہ حکومت جس انداز میں ایک خاص کمیونٹی کو ٹارگیٹ کرنے کی کوشش کررہی ہےہم اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کا یہ احتجاج ایک انمول اور انوکھا احتجاج ہے۔ جس کے ذریعے انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نوجوان واقعی کسی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں اور وہ بذات خود اپنی اور اپنے آس پاس کے ماحول کی حفاظت کرناجانتے ہیں۔ ادھر شاہین باغ کا احتجاج بھی پورے جوش وخروش ،عزم وولولے کے ساتھ جاری رہا، بزرگ خواتین سے لے کر چھوٹی چھوٹی بچیاں ہم لے کر رہیں گے آزادی ، ہم لڑ کر لیں گے آزادی، ہم بھی دیکھیں گے ، انقلاب زندہ باد جیسے نعرے لگا رہی تھیں اور اپنا احتجاج پوری شدت سے جاری رکھنے کا بھی عندیہ دیا، انھوں نے کہا کہ حکومت جب تک یہ قانون واپس نہیں لے لیتی ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے ۔
ہندوستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہواجب لوگ کسی نئے آنے والے قانون کی حمایت میں سڑکوں پرآئےہوں،بی جےپی اوراس کی اتحادی پارٹیوں کے لیے انتہائی شرم کی بات ہےکہ وہ جوابی ردعمل کےطورپر عوامی طاقت اورجمہوری حق کو دبانے کےلیے زبردستی CAA اورNRCکےسپورٹ میں ناسمجھ لوگوں کوکرایہ پرلاکرحکومت کی حمایت کروارہی ہیں اور اسےمذہبی رنگ دےکرملک بھرمیں فرقہ وارانہ تناؤ پیداکرنےکی ناکام کوشش کررہی ہیں،اس سیاہ بل کےخلاف جہاں جہاں سپورٹ میں ریلی اورجلوس نکالےگئےہیں،ان میں مذہبی تعصب اورنفرت کی وجہ سے ایسےنعرےلگاۓگئےجونہ صرف قابل مذمت بلکہ ملک دشمنی پرمبنی اورآئین کےخلاف تھے،یہ لڑائی ہندو بنام مسلم ہرگزنہیں ہےـ اس بات کو اچھی طرح جانتےہیں کہ ہم گاندھی اور امبیڈکر کےنظریات کوکل بھی تسلیم کرتےتھےاورآج بھی کرتے ہیں، جنہیں گاندھی کاہندوستان پسندنہیں وہ چاہےکہیں بھی جاسکتےہیں،ان فرقہ پرست طاقتوں سےنہ ہم کل ڈرتےتھےاورنہ آج ڈرتےہیں،سچائی تویہ ہےکہ اب ہمارےدلوں سےڈراورخوف نکل چکاہے،جس طرح ہمارے آباواجدادنےملک کی آزادی کےلیے قربانی دی، اسی طرح ہم دستورکےتحفظ کیلئےہرطرح کی قربانی دینےکوتیارہیں،کرسی کاغرور اورگھمنڈکرنےوالوں کاہردورمیں کیاحشرہواہے، تاریخ اس کی گواہ ہے،بی جےپی کےچندلیڈران نےمل کرملک میں نفرت کی جوآگ لگائی ہے، ہماری خاموشی اورمحبت اوراچھےاخلاق اسےبجھانےکے لیے کافی ہیں،بس چنددنوں کی بات ہےپھراوقات اورحیثیت کاخودبخوداندازہ ہوجائےگا،کیوں کہ اب ہندوستانی عوام بیدارہوچکی ہے،مزیدبہکاوےمیں نہیں آنےوالی ہے،جب کسی کابراوقت آتاہےتوایسی ہی غلطیاں کرتاہےجو جواس کی موت اورتباہ کن مستقبل کےلیے کافی ہوتی ہیں ـ
امیدہےکہ ہم سب بلاتفریق بھارتی آئین کوبچانےاورنفرت کی سیاست کےخلاف اس عوامی تحریک کوآخری انجام تک پہنچانےمیں تن من دھن سےسرگرم رہیں گےـ اس وقت کسی قیادت کاانتظارمت کیجے،آپ جہاں بھی ہیں،خودقائداوررہبرہیں،ملک وملت کی صحیح رہنمائی اوررہبری آپ کافریضہ ہےجس سے خود کوپیچھے رکھناملک کےساتھ دھوکہ اورملت کےساتھ غداری کےمترادف ہےـ آپ کی بیداری ہی اس تحریک کی کامیابی کی علامت اورضمانت ہےـ
جھارکھنڈ میں نومبر – دسمبر 2019 میں ہوئے حالیہ اسمبلی الیکشن کے نتائج سیکولر پارٹیوں ،اور اقلیتوں کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں ـ تین دہائیوں کے بعد یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بی جے پی انچاس سے پچیس پر سمٹ گئی ہے ، تین دہائیوں سے بی جے پی اس علاقے کی سب سے بڑی پارٹی رہی ہے ، اس علاقے کی کل اکیاسی نشستوں میں سے اٹھارہ (18) تا سینتیس (37) سیٹیں اسے اسمبلی انتخابات میں ملتی رہی ہیں،اورنومبر دو ہزار میں جھارکھنڈ کے قیام کے وقت وہ بتیس سیٹوں کے ساتھ جھارکھنڈ کی سب سے بڑی پارٹی تھی ،(فروری دوہزار میں ہونے والے بہار اسمبلی الیکشن میں کل تین سو چوبیس ارکان والی اسمبلی میں بی جے پی کو کل سڑسٹھ (67) سیٹیں ملی تھیں ،اور ان میں بتیس جھارکھنڈ میں آگئی تھیں ،)اور اس نے جنتادل یو اور سمتا پارٹی اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی ـ
اس علاقے کی دوسری سب سے بڑی پارٹی جھارکھنڈ مکتی مورچہ ہے اور اس کو بارہ تا انیس سیٹیں ملتی رہی ہیں ، جھارکھنڈ بننے کے وقت اس پارٹی کے پاس صرف بارہ سیٹیں تھیں ـ
تیسرے نمبر کی پارٹی کانگریس ہے اور اس کو اس علاقے میں چھ تا چودہ سیٹیں ملتی رہی ہیں، جھارکھنڈ کے قیام کے وقت کانگریس کے پاس جھارکھنڈ میں کل گیارہ سیٹیں تھیں ـ
چوتھے نمبر کی پارٹی راشٹریہ جنتادل ہے، فروری دو ہزار کے بہار اسمبلی الیکشن میں آر جے ڈی کو کل ایکسو چوبیس سیٹیں ملی تھیں جھارکھنڈ کے قیام کے وقت اس کے پاس جھارکھنڈ میں کل نو سیٹیں تھیں ، دوہزار پانچ(2005) میں سات ،اور دوہزار نو(2009) میں پانچ سیٹیں ملی تھیں ،دوہزار چودہ میں آر جے ڈی کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی ـ
کانگریس اور آر جےڈی نے دوہزار پانچ تا دوہزار تیرہ چار بار جے ایم ایم کو وزارت علیا کی کرسی تک پہنچایا، مگر ان تینوں کے ممبران اسمبلی مل کر بھی اکتالیس ممبران اسمبلی نہیں ہوتے تھے ،اور دیگر چھوٹی پارٹیاں ہمیشہ جے ایم ایم کو دھوکہ دے دیتی تھی ـ
جے ایم ایم کے شیبوسورین نے تین بار وزارت علیا کا حلف اٹھایا ،وہ پہلی بار دس دن ،دوسری بار چار ماہ تیئیس دن اور تیسری بار پانچ ماہ دودن وزیر اعلی کے منصب پر براجمان رہےـ
جھارکھنڈ میں کسی ایک پارٹی کی اکثریت نہ ہونے کا فائدہ ایک آزاد ممبر مدھو کوڈے نے بھی اٹھایا اور وہ بھی جے ایم ایم،کانگریس،اور آر جے ڈی ، اور دیگر پارٹیوں کی مدد سے 14/ ستمبر 2006 تا 23/ اگست 2008 ایک سال گیارہ ماہ آٹھ دن جھارکھنڈ کےوزیر اعلی رہےـ
جنوری دوہزار نو تا دوہزار تیرہ تین بار وہاں صدر راج بھی نافذ ہوا، وہاں صدر راج کی کل مدت بیس ماہ ایک دن ہےـ
جون دوہزار تیرہ میں جے ایم ایم ،کانگریس ،اور آر جے ڈی نے مل کر حکومت بنائی اور شیبوسورین کے منجھلے بیٹے ہیمینت سورین کو وزیر اعلی بنایا ،جے ایم ایم کے پاس اٹھارہ،کانگریس کے پاس چودہ اور آر جے ڈی کے پاس پانچ سیٹیں تھیں،یہ کل ملا کر سینتیس سیٹیں ہوئیں ، اکثریت کا اکتالیس کا آنکڑا پورا کرنے کے لیے چار پانچ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے ممبران کی حمایت حاصل کی گئی تھی ، یہ حکومت دسمبر دوہزار تک چلتی رہی ـ
جو حکمت عملی جے ایم ایم ، کانگریس اور آرجے ڈی نے دوہزار انیس کے اسمبلی الیکشن میں اپنائی ہے وہ دوہزار پانچ ،دوہزار نو اور دوہزار چودہ کے اسمبلی الیکشن میں اپنائی ہوتی تو جھارکھنڈ میں بی جے پی اتنی مضبوط نہیں ہوتی ،اور اسے مزید دس سال جھارکھنڈ میں حکومت کرنے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی تقریبا دوسال وہاں صدر راج نافذرہتاـ
دوہزار پانچ میں جے ایم ایم اور کانگریس نے متحد ہوکر اسمبلی الیکشن لڑا اور ان کو کل چھبیس سیٹیں حاصل ہوئیں ،سترہ جے ایم ایم کو اور نو(9) کانگریس کو، دوہزار نو(2009) میں کانگریس نے جھارکھنڈ وکاس مورچہ سے اتحاد کیااور کل پچیس سیٹیں حاصل کیں ،چودہ کانگریس نے اور گیارہ جھار کھنڈ وکاس مورچہ نےـ
اس الیکشن میں جے ایم ایم کو اٹھارہ اور آر جے ڈی کو پانچ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ـ
جے ایم ایم ،کانگریس اور ارجے ڈی نے بعض آزاد اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر دوہزار تیرہ میں حکومت بنائی ،مگر چودہ سال میں دو بار کے اسمبلی الیکشن کے تجربات کے باوجود الائنس بناکر الیکشن نہیں لڑا ،اور دوہزار چودہ میں بی جے پی اور زیادہ مضبوط ہوگئی ،اس کو جھارکھنڈ کی تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ سیٹیں ملیں، اسےکل سینتیس(37) سیٹیں ملیں, اسے دوہزار میں بتیس (32)، دوہزار پانچ میں تیس (30) ، اور دوہزار نو میں اٹھارہ، سیٹیں ملی تھیں ـ
دوہزار نو کے مقابلے بی جے پی کو دوہزار چودہ میں انیس سیٹیں زیادہ ملیں ،بی جے پی دوہزار چودہ کا الیکشن ،جے ڈی یو، ا اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کے ساتھ مل کر لڑا تھا ،جے ڈی یو کو کوئی سیٹ نہیں ملی تھی ،مگر آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کو پانچ سیٹیں ملی تھیں ، اور بی جے پی نے آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ،ان دونوں پارٹیوں کے ارکان کی کل تعداد بیالیس تھی ، چند ماہ کے بعد دو ہزار پندرہ میں جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے کل آٹھ(8) ممبران اسمبلی میں سے چھ (6)کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کرلیا ، اور دوسری پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو توڑ توڑ کر بی جے پی نے دوہزار انیس تک اپنے ارکان اسمبلی کی تعداد انچاس کرلی ،اب اس نے اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ،جس کے نتیجے میں جے ڈی یو ،ایل جے پی اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین نے الگ الگ انتخاب لڑا، جھارکھنڈ میں جے ڈی یو اور ایل جے پی کی تو زیادہ مقبولیت نہیں ہے ، مگر بی جے پی کو آل انڈیا جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کو نظر انداز کر نا مہنگا پڑا ،اور دونوں پارٹیوں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو نقصان ہوا ،ال جھار کھنڈ اسٹوڈنٹ یونین پانچ(5) سے دو (2)پر اور بی جے پی انچاس(49) سے پچیس(25) پر سمٹ گئی ـ
واضح رہنمائی:
دوہزار انیس کےجھارکھنڈ اسمبلی الیکشن میں سیکولر پارٹیوں کے لیے بہت واضح رہنمائی ہےـ دوہزار چودہ کے جھارکھنڈ اسمبلی انتخاب میں جے ایم ایم کو تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں،اس نےکل انیس سیٹیں حاصل کیں ، دوہزار نو کے مقابلے میں ایک سیٹ زیادہ تھی ، کانگریس کو صرف چھ سیٹیں حاصل ہوئیں تھیں اسے دوہزار نو میں چودہ سیٹیں ملی تھیں ،آرجے ڈی کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ،اس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی ،وہ دوہزار سے دوہزار چودہ تک نو(9) سے زیرو پر آگئی ـ
جھارکھنڈ بننے کے بعد ہوئے تین اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ان تینوں پارٹیوں کو اکٹھا ہونے پر اور کانگریس اور آر جے ڈی کو جے ایم ایم کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کر دیاـ
اگر یہ تینوں پارٹیاں اپنی روش پر اڑی رہتیں تو بی جے پی کی جیت یقینی تھی ، اس الیکشن میں بھی بی جے پی کو تینتیس فیصد سے زائد 33.37 ووٹ ملے ہیں ،اور یہ ووٹ اسے انہتر(79) سیٹوں پر ملے ہیں ،جب کہ جے ایم ایم اتحاد کو کل اکیاسی (81) سیٹوں پر پینتیس فیصد سے زائد 35.35 ووٹ ملے ہیں ـ
جمشید پور ایسٹ سے وزیر اعلی رگھوبر داس اپنے ساتھی اور وزیر سرجو رائے سے ہارے ہیں، سرجو رائے گزشتہ پانچ سال سینیر کیبینیٹ وزیر رہے ہیں ،اس الیکشن میں انہیں بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا تو وہ اپنی پرانی سیٹ چھوڑکر وزیر اعلی کے خلاف ہی کھڑے ہوگئےاور وزیر اعلی کو پندرہ ہزار آٹھ سو تینتیس ووٹوں سے ہراکر دکھادیا انہوں نے کل تہتر ہزار نو سو پینتالیس ووٹ حاصل کیےـ
دوہزار انیس کے جھار کھنڈ اسمبلی الیکشن کے نتائج سیکولر پارٹیوں کو چیخ چیخ کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وقت کے راون کو شکست دینے کے لیے متحد ہونا ہوگاـ دہلی ،بہار اور دیگر صوبوں میں بھی جھارکھنڈی نمونے پر عمل ہوـ
رواں سال دوہزار بیس(2020) کے فروری میں دہلی اسمبلی اور نومبر ،دسمبر میں بہار اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں ـ دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کو متحد ہوکر الیکشن لڑنا چاہیے ، جس طرح جھارکھنڈ میں کانگریس نے جے ایم ایم کو اکیاسی (81) میں سے تینتالیس (43) سیٹیں دیں اور خود اکتیس (31) سیٹیں لیں ، اسی طرح دہلی میں عام آدمی پارٹی کو زیادہ سیٹیں دےاور عام آدمی پارٹی کو کانگریس کی اہمیت سمجھنی ہوگی ، عام آدمی پارٹی کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی خود اسے بھی نقصان پہنچا سکتی ہےاور کانگریس کو بھی اور مجموعی طور پر ہندوستان کے سیکولر زم اور گنگا جمنی تہذیب کوـ
انیس سو سڑسٹھ سے دہلی میں فسطائی طاقتوں کا بول بالا ہے ،انیس سڑسٹھ سے دوہزار انیس تک جن سنگھ اور بی جے پی ماں بیٹی کے کل اڑتالیس ممبران اور 1977میں کامیاب ہوئے جنتاپارٹی کے چھ اور بھارتیہ لوک دل کے ایک ممبر کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ پچپن ہوجاتے ہیں ـ انیس سو سڑسٹھ تا دوہزار انیس کانگریس کے کل ممبران کی تعدادصرف بیالیس ہے،
دوہزار چودہ اور دوہزار انیس میں عام آدمی پارٹی کی وجہ سے کانگریس سات میں سے ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی ہے ، عام آدمی پارٹی بھی دونوں انتخابات میں ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کرپائی ہےـ
دوہزارچودہ اور دوہزار انیس کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ اگر بی جے پی کا مقابلہ کرنا ہے توعام آدمی پارٹی اور کانگریس کو فروری دوہزار بیس (2020) کا اسمبلی انتخاب متحد ہوکر لڑنا ہوگاـ
عام آدمی پارٹی کو دوہزار تیرہ کے اسمبلی انتخابات میں 29.30٪ ،دوہزار چودہ کے لوک سبھا انتخابات میں 32.90٪، دوہزارپندرہ کے اسمبلی انتخابات میں سب سے زیادہ 54.30٪ اور دوہزارانیس کے لوک سبھا انتخابات میں صرف اٹھارہ فیصد ووٹ ملے ہیں ، چارسال میں ہی چھتیس فیصد سے زائد ووٹ کا کم ہوجانا بہت خطرناک ہے،اگر اس خطرناکی کو عام آدمی پارٹی نے محسوس نہیں کیا تو یہ اس کے لیے بہت خطرناک ہوگاـ دوہزار تیرہ تا دوہزار انیس کے درمیان ہوئے چارانتخاب (دو اسمبلی کے،اور دو پارلیمان کے) ووٹ فیصد کو دیکھتے ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو کل چھیالیس سیٹوں پر اور کانگریس کو کل چوبیس سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارنے چاہئیں، اگر دونوں میں اتحاد نہ ہوسکا تو بی جے پی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں ـ
ہرش مندر کہتے ہیں کہ یوپی میں حالات بہت خطرناک رُخ اختیار کرگئے ہیں اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں کے خلاف ایک جنگ چھیڑ دی ہے۔ان کا خیال ہے کہ یوپی میں آج وہی ہورہا ہے جو کشمیر میں ایک طویل عرصہ سے ہوتا رہا ہے کہ گھروں میں گھس کر فورس توڑ پھوڑ مچاتی ہے اور بے گناہوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔
2 اور 3 جنوری کے انڈین ایکسپریس کے شماروں میں بھی اس کے کچھ شواہد پیش کئے گئے ہیں۔۔ہرش مندر ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس ہیں۔۔ وہ یوپی کے نو مختلف اضلاع کے کلکٹر بھی رہے ہیں ۔ لہذا وہ یوپی کے حالات پر برابر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔حال ہی میں انہوں نے مظفر نگر اور دوسرے متاثرہ مقامات کا دورہ بھی کیا ہے۔۔۔ وہ مسلمانوں کے خلاف یوپی پولیس کے تعصب کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں ۔
ٹی وی چینلوں میں این ڈی ٹی وی کچھ حد تک یوپی کی اصل تصویر دکھا رہا ہے۔اس کے علاوہ ’دی وائر‘ اور انفرادی طورپر ونود دوا‘ابھسار شرمااور رویش کمار بھی حوصلہ مندی کے ساتھ سرکاری مظالم کی قلعی کھول رہے ہیں۔
جب سے وزیر اعلی نے پر امن مظاہرین سے ’بدلہ‘لینے اور نقصان کا ہرجانہ انہی سے وصول کرنے کی دھمکی دی ہے اسی وقت سے یوپی پولس بے خوف ہوکر نہتے اور بے قصور لوگوں پر ظلم کر رہی ہے۔۔۔ میں نے اس وقت بھی اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ اب یوپی کے بے قصور لوگوں پر قیامت گزرنے والی ہے اور بہت سے قائدین کا نام لے کر ان سے درخواست کی تھی کہ یوپی کے ان بے کس وبے بس لوگوں کی مدد کے لئے باہر نکلیں۔
انڈین ایکسپریس کی 2 جنوری کی اشاعت میں سنبھل (مغربی یوپی) کے تعلق سے ‘کونین ایم شریف’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پولس نے ’فسادیوں‘کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی ہیں ان میں بڑی وضاحت کے ساتھ واقعات کو بیان کیا گیاہے۔باقاعدہ ٹائم لائن کے ساتھ یعنی لمحہ بہ لمحہ اور Minute to minute حملوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہی نہیں ایف آئی آر کے مرحلہ پر ہی پولس کو کلین چٹ بھی دیدی گئی ہے۔اس کے برخلاف جو لوگ جاں بحق ہوئے ہیں ان کے تعلق سے بہت کمزور اور بے دم سی ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور اس میں بھی صرف ایک پیرا گراف لکھا گیا ہے۔
سنبھل کے 23سالہ محمد شہروز خان کو 20 دسمبر کے مظاہرہ کے دوران گولی لگی تھی‘اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے دوسرے بڑے ہسپتال کو ریفر کردیا گیا۔اس بڑے ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے شہروز کا دم نکل گیا۔۔۔ پولس نے اس تعلق سے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں نہ تو ملزم کا نام ہے اور نہ کسی گواہ کا کوئی ذکر ہے۔۔۔یہی نہیں آج 14روز گزرجانے کے بعد بھی اس کے اہل خانہ کو اس کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں دی گئی ہے۔ایف آئی آر میں دفعہ 302کے تحت معاملہ درج نہیں کیا گیا ہے۔یہ دفعہ قتل سے بحث کرتی ہے۔ایسی کمزور‘بے جان اور لا یعنی ایف آئی آر کا جو نتیجہ نکلنا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔۔۔عدالت میں اہل خانہ کو یہ ثابت کرنا ہی مشکل ہوجائے گا کہ شہروز کا قتل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
پولس نے اپنے اوپر ہونے والے مبینہ حملوں میں جن17 افراد کو نامزد کیا ہے ان کے خلاف (سچی یا جھوٹی) تمام دستاویزات جمع کی گئی ہیں اور ایک ایک واقعہ کی تفصیلات کو باریکی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔پولس نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔یہ حال جب ہے کہ جب دونوں ایف آئی آر 24 گھنٹے کے اندر رونما ہونے والے واقعات کے تعلق سے ایک ہی تھانہ میں لکھی گئیں۔انڈین ایکسپریس کو ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ فساد مچانے کے تعلق سے جو ایف آئی آر تیار کی گئی ہے وہ اس مضبوطی کے ساتھ کی گئی ہے کہ پولس کو معقول شک کا فائدہ مل جائے گا جبکہ گولی لگنے سے نوجوانوں کی موت کی ایف آئی آر اتنی بودی لکھی گئی ہے کہ کسی کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ گولی چلانے کا ملزم کون ہے۔
انڈین ایکسپریس کی صحافی ارنیا شنکر نے آج اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مظفر نگرپولس نے چار لوگوں کو 10دنوں تک اپنی گرفت میں رکھنے کے بعد رہا کردیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ان پر پتھر بازی اور پولس پر حملہ کے الزامات عاید کئے گئے تھے۔یہ مظاہرے 20 دسمبر کو ہوئے تھے۔ان رہا شدگان میں ایک 50 سالہ سرکاری کلرک بھی ہے لیکن ابھی اس کے 20 سالہ بیٹے کو رہا نہیں کیا گیا ہے۔سرکاری کلرک کا دعوی ہے کہ 20 دسمبر کی شب 10.30 پر ان کے گھر پر 50 پولس والوں اور قرب وجوار کے رہنے والے کوئی 60 لوگوں نے دھاوا بول دیا اور انہیں بہت زدوکوب کیا گیا۔اس کے بعد پولس انہیں گرفتار کرکے لے گئی۔ انہوں نے ارنیا شنکر کو بتایا کہ پولس نے ان کے ساتھ بہت وحشیانہ سلوک کیا اور جب انہوں نے پانی مانگا تو کہا گیا کہ اپنا پیشاب پی لو۔انہوں نے بتایا کہ اس رات تھانہ پر کوئی 100لوگ پکڑ کر لائے گئے تھے۔انہیں جب اگلے روز عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو عدالت نے انہیں جیل بھیج دیا۔
ارنیا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ میرٹھ میں رہنے والا ایک خاندان بھی اسی روز یعنی 20 دسمبر کو شام سات بجے اپنی گاڑی میں سوار ہوکر نکلا۔لیکن مظفر نگر کے میناکشی چوک پر انہیں پولس نے روک لیا۔شہر میں اس خاندان کی بہت سی اسٹیل کی فیکٹریاں ہیں۔اس گاڑی میں ایک 53سالہ مریض بھی تھا۔اس کے پاس تمام میڈیکل کاغذات تھے لیکن پولس والوں نے ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی اور انہیں گالیاں دیتے ہوئے تھانہ لے گئی۔
یہ رپورٹ مزید بہت سی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ یہ تفصیلات پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ایسے ایک دو نہیں درجنوں بلکہ سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہوں گے۔ پولیس نے جب نامی گرامی ہندو شہریوں کے ساتھ انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کیا ہے تو عام مسلمانوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔۔۔ لکھنؤ میں بزرگ ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری کو مظاہرہ میں شرکت کی پاداش میں پولیس نے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔ وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن عدالت سے بھی انہیں کوئی راحت نہیں ملی۔اسی طرح ایک اور ہندو جوڑے کو بھی گرفتار کرکے بہت سخت دفعات لگادی گئی ہیں ان کی ایک سال کی بچی ایک ہفتہ تک تڑپتی رہی، اب جاکر محض ماں کو ضمانت مل سکی ہے۔
حیرت ہے کہ عدالتوں نے محض پولیس کی داستان پر یقین کیا اور لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ اب جن لوگوں کو ثبوت نہ ہونے کے سبب پولیس نے رہا کردیا ہے کیا وہ ان پولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ بالکل کرسکتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ایسے متاثرہ لوگوں کو ضرور کارروائی کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ہر قصبہ’ شہر اور ہر ضلع کے درد مند وکلاء کو گروپ تشکیل دے کر ان متاثرین کی مدد کرنی چاہئے۔ مسلم وکلا کو چاہئے کہ وہ گروپ بناکر مشہور ہندو وکیلوں کے گھروں پر جائیں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ اس ‘لیگل گروپ’ کی قیادت کریں ۔
دہلی میں محمود پراچہ نے ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ وہ بڑے پیمانے پر پولیس کے خلاف شواہد جمع کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ چن چن کر ایک ایک خاطی پولیس افسر کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائر کریں گے اور انہیں سزا دلوائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کو منظم پیمانہ پر کرنا ضروری ہے۔ یوپی کے متاثرین بھی انہیں اپنی روداد بمع شواہد ارسال کرسکتے ہیں۔ اس کام میں صاحبِ ثروت افراد متاثرین کا خاموشی سے تعاون کرسکتے ہیں۔محمود پراچہ کے دفتر کا نمبر یہ ہے
: 011-24358560
وزیر اعظم مودی اگرچہ رام لیلا میدان سے یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت این آر سی پر غور نہیں کر رہی ہے، لیکن ان کے وزیر داخلہ امت شاہ اپنے پارلیمانی وغیرپارلیمانی بیانات کے ذریعے این آر سی کے نفاذ پر اصرار کرتے آئے ہیں۔ حکومت این آر سی کے پہلے قدم این پی آر کے نفاذ کا اعلان کرچکی ہے۔ ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور فاشسٹ تنظیمیں اپنے تمام تر وسائل اس پورے قضیے کو مسلمان بنام حکومت بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ 9 اگست 2019 کو ہم نے این آر سی کے تعلق سے ایک تفصیلی تحریر لکھی تھی، جس کو کچھ لوگوں نے افواہ اور ڈر پھیلانے کا الزام لگاکر مسترد کردیا تھا۔ ہم نے اپنی اُس تحریر کا آغاز اس دعا سے کیا تھا کہ خدا کرے جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں وہ کبھی سچ ثابت نہ ہو۔ اِس تحریر کا آغاز بھی میں اسی دعا کے ساتھ کرنا چاہوں گا کہ اللہ تعالی مسلمانان ہند کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور کبھی ان کو مصیبتوں میں گرفتار نہ کرے۔
کچھ باتیں ناگوار ہونے کے باوجود ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان کا تحلیل وتجزیہ نہ کیا جائے، تو حقیقی صورتحال کا ادراک نہیں ہوپاتا۔ ایک بڑی تعداد اب اس بات کو تسلیم کرنے لگی ہے کہ اگر این آر سی ملک میں نافذ ہوتا ہے، تو لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ حق شہریت سے محروم ہوسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کو جائیدادوں سے بے دخل کیا جا سکتا ہے، ملازمتوں سے برطرف کیا جاسکتا ہے اور ڈٹینشن کیمپس میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ جو لوگ ان خدشات کو آج بھی افواہ تسلیم کرتے ہیں، انہیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس پورے قصے میں جس لفظ کا ذکر نہیں ہے وہ ہے نسل کشی۔ این آر سی نافذ ہونے کی صورت میں نسل کشی فوری شروع نہیں ہوگی، بلکہ گزشتہ سو سال میں ہونے والی مختلف نسل کشیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو ظالم معاشرہ مظلوموں پر ظلم کی بنیاد پڑنے کے تیس سال کے آس پاس حملہ آور ہوتا ہے اور کمزوروں کی نسل کشی کر دیتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ظلم وستم کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہتا ہے۔ گزشتہ سو سال میں ہونے والی تین بڑی نسل کشیوں کو ہم بطور مثال پیش کر سکتے ہیں:
1- زار روس کی موت کے بعد ولادیمیرلینن نے سوویت یونین کی بنیاد رکھی۔ زار کی موت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یوکرین نے روس سے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ لینن نے 917 میں یوکرین پر دوبارہ قبضہ کی مہم کا آغاز کیا اور تین چار سال کی جدوجہد کے بعد قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 1924 میں لینن کے مرنے کے بعد اسٹالن اس کا جانشین بنا۔ اس ظالم حکمران کو یہ برداشت نہیں تھا کہ اس کے ماتحت علاقوں میں کسی بھی طرح کی آواز اس کے خلاف اٹھے۔ چنانچہ 1929 میں اس نے پانچ ہزار سے زائد یوکرینی پروفیسرز، سائنس داں، ماہرین تعلیم اور مذہبی قائدین کو گرفتار کرلیا اور ان کی بڑی تعداد کو بغیر کسی مقدمے کے قتل کر دیا گیا یا باقی بچ جانے والوں کو ڈیٹینشن کیمپس میں بھیج دیا گیا۔ یوکرین کی 80 فیصد آبادی زراعت پیشہ تھی۔ ان کسانوں میں کچھ ایسے بھی تھے جن کی ملکیت میں 24 ایکڑ سے زائد زمینیں تھیں اور یہ لوگ نسبتا امیر تھے۔ یوکرین میں ان لوگوں کو "کُلاک” کہا جاتا تھا۔ اسٹالن کو یہ خدشہ تھا کہ زمین داروں کے اسی طبقے کے ذریعے دوبارہ بغاوت ہو سکتی ہے، لہذا اس نے اس طبقہ کے افراد کو تمام انسانی اور شہری حقوق سے محروم کردیا۔ ان کو سرکاری طور پر "عوام دشمن” اور "ملک دشمن” قرار دیا گیا، ان کی نسل کشی کی گئی اور بچ جانے والوں کو سائبیریا کے جنگلات میں قائم ڈیٹینشن سینٹرز میں بند کردیا گیا۔ اسٹالن کے ذریعے کی جانے والی اس نسل کشی میں سات لاکھ لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ظلم کی بنیاد پڑنے کے بارہ سالوں بعد یہ نسل کشی ہوئی۔
2- سنہ 1933 میں، دس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد ہٹلر نے جرمنی کا اقتدار سنبھالا۔ یہودی اس ملک میں صدیوں سے رہتے چلے آرہے تھے، وہ اپنے آپ کو وطنی اعتبار سے جرمن اور مذہبی اعتبار سے یہودی قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے ملک کے لیے دوسرے جرمنوں کے شانہ بشانہ قربانیاں بھی دیں تھی۔ لیکن ہٹلر نے نسل پرستی کا سہارا لیکر اقتدار پر قبضہ کیا اور انیس سو پینتیس میں نوریمبرگ لا ملک میں نافذ کردیا، جس کے نتیجے میں یہودیوں کی جرمن شہریت چھین لی گئی، غیر یہودیوں کے ساتھ ان کے شادی بیاہ کو غیر قانونی قرار دیا گیا، فوج اور پولیس کی ملازمتوں سے ان کو نکالا گیا، اسکولوں اور کالجوں سے بھی ان کو محروم کر دیا گیا۔ اس عرصے میں یہودیوں کے خلاف ہٹلر کے وزیر جوزف جوبیلس نے جرمنی میں پروپیگنڈا مہم شروع کی، ان کو جرمنوں کا دشمن اور ملک کا غدار قرار دیا گیا۔ اخبارات میں یہود مخالف مضامین شائع ہونے لگے، جگہ جگہ ان کے خلاف پوسٹرز لگنے لگے، جرمن فلم انڈسٹری بھی ان کے خلاف میدان میں آگئی، فلموں میں ان کو ملک دشمن دکھایا جانے لگا اور آخرکار اسکولوں کا نصاب بھی بدل دیا گیا۔ انیس سو انتالیس میں ہٹلر نے اپنے زیر نگیں علاقوں میں کانسنٹریشن کیمپس کی تعمیر کا حکم دیا اور 1942 سے سرکاری فوجیوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا۔ لاکھوں کی تعداد میں ان کو کانسنٹریشن کیمپس میں لایا جاتا اور گیس چیمبرز میں بند کرکے ہلاک کردیا جاتا۔ ان کی ہلاکت پر نفرت کے پروپیکینڈے سے متاثر جرمنوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ یہودیوں سے جرمنی کی شہریت چھینے جانے کے سات سال کے بعد ان کی نسل کشی کی گئی۔
3- برما نے انیس سو بیاسی میں سٹیزن شپ قانون ملک میں متعارف کرایا اور روہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیا۔ اس قانون سے پہلے بھی روہنگیا کوئی اچھی حالت میں نہیں تھے۔ دو سے زائد بچے پیدا کرنا قانونا جرم تھا، ان کی بہت سی زمینیں چھین لی گئیں تھی اور ان کی ایک بڑی تعداد کو صفائی کرمچاری قرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن 1982 کے شہریت قانون کے بعد ان پر ظلم میں اضافہ ہوا اور دو ہزار سترہ میں ان کی نسل کشی شروع ہوگئی، خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی، گھروں کو مسمار کردیا گیا اور روہنگیا کی پوری نسل کو ملک دشمن قرار دے دیا گیا۔ اس ظلم میں برمی فوج کے ساتھ مقامی بودھ آبادی نے بھی پورا حصہ لیا۔ مقامی لوگوں کو یہ لالچ تھا کہ روہنگیا کے خاتمہ کے بعد ان کی زمینیں مقامی لوگوں کے ہی قبضے میں آنی ییں۔ روہنگیا کے خلاف نسل کشی ظلم کی بنیاد پڑنے کے 35 سال کے بعد شروع ہوئی۔
ان تین مثالوں سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ نسلی یا مذہبی آبادی کی شہریت ختم کرنے کے فورا بعد اس کی نسل کشی کا آغاز نہیں ہوا، بلکہ چند سالوں تک اکثریتی آبادی میں نفرت کا پروپیگنڈا کرکے پہلے ماحول بنایا گیا اور پھر مقصد کو انجام دیا گیا۔ نسل کشی اچانک نہیں ہوتی ہے، بلکہ فاشسٹ طاقتیں اس کے لیے اسٹیج تیار کرتی ہیں، اس کے پیچھے کئی سالوں کی محنت ہوتی ہے، تب جاکر نسل کشی کا جرم انجام دیا جاتا ہے۔
"جینوسائڈ واچ” نامی ادارے کے صدر ڈاکٹر جارج اسٹانٹن نے نسل کشی کے دس ادوار لکھے ہیں۔ ذیل میں مختصراً ان ادوار کو بھارت کی موجودہ صورت حال سے موازنہ کرکے ذکر کیا جاتا ہے۔ آپ ان ادوار کو غور سے پڑھیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ بھارت اس وقت کہاں کھڑا ہے۔ کیا نسل کشی محض ایک فریب ہے یا واقعی ایک خوفناک امکان ہے۔ یہ ادوار کچھ اس طرح ہیں:
1- کلاسیفیکیشن: ملک کے عوام کو نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے، "ہم اور وہ” کے درمیان آبادی کو بانٹ دیا جاتا ہے، نسل کشی کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔
بھارت میں یہ تقسیم یوں تو بہت پرانی ہے، لیکن آزادی کے بعد سے اب تک اس تقسیم میں شدت ہی پیدا ہوئی ہے۔
2- سمبلائزیشن: یہ نسل کشی کی طرف دوسرا قدم ہے، اس درجے میں آکر مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے مختلف لباس اور رنگ متعین ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ چیز فطری ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ الگ رنگ ولباس کا نتیجہ نسل کشی ہی ہو، لیکن جب رنگ ولباس سے اچھے اور برے کی پہچان ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ نسل کشی کی طرف دوسرا قدم اٹھا لیا گیا ہے۔
کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، ملک کے وزیراعظم نے حال ہی میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچاننے کی بات کہی ہے۔
3- ڈسکریمنیش: یعنی نسلی امتیاز۔ غالب گروہ اقلیتوں کے معاشرتی اور قانونی حقوق رفتہ رفتہ چھیننا شروع کردیتا ہے۔ حتی کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مغلوب گروہ کی شہریت بھی سلب کرلی جاتی ہے، جس سے ان پر ظلم وستم کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ بھارت میں چند ماہ کے اندر، طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون لاکر شریعت میں مداخلت کا راستہ کھول دیا گیا، بابری مسجد کو اکثریتی معاشرے کی تسلی کی خاطر عدالتی نظام کے تحت چھینا گیا، یکساں سول کوڈ کسی بھی وقت لایا جاسکتا ہے، این آر سی اور این پی آر کے ذریعے شہریت چھینے جانے کا آغاز ہوچکا ہے۔ آسام میں بہت سے بھارتیوں کی شہریت پہلے ہی ختم کی جاچکی ہے۔
4- ڈی ہیومنائزیشن: اس درجے پر آکر غالب گروہ مغلوب کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا شروع کردیتا ہے۔ مغلوب گروہ کو جانور کے برابر سمجھ لیا جاتا ہے اور ان کو معاشرے کا ناسور اور کینسر تصور کیا جاتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کو بڑھاوا دینے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی سرگرم ہوجاتا ہے۔
اس اصول کا بھارت کے موجودہ حالات سے موازنہ کیجیے۔ گائے کے مقابلے ایک مسلمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اب تک سینکڑوں لوگوں کو ایک جانور کی وجہ سے ہجومی تشدد کے ذریعے ہلاک کردیا گیا۔ میڈیا میں کھلم کھلا یہ کہا جارہا ہے کہ اگر گائے کا احترام نہیں کرسکتے تو جاؤ پاکستان۔ اکثریت کو اقلیت کے خلاف غیر انسانی سلوک پر بھڑکانے کے لیے میڈیا مکمل طور پر سرگرم عمل ہے اور کھلم کھلا مسلمانوں کو ذلیل کیے جانے کا عمل دن رات جاری ہے۔
5- آرگنائزیشن: نسل کشی ہمیشہ منظم ہوتی ہے، اس کے لیے کبھی حکومت کھل کر میدان میں آجاتی ہے اور کبھی ملیٹنٹ گروہوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور ان کو تیار کیا جاتا ہے۔ جارج اسٹانٹن کے مطابق دارفور میں سوڈانی فوج کے ذریعے "جنجاویڈ” نامی گروپ کا اسی لیے استعمال کیا گیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ بھارت میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو بھی مختلف مواقع پر حکومتی سرپرستی حاصل رہی ہے۔
یہ واضح رہے کہ دو ہزار سترہ میں سی آئی اے نے بجرنگ دل کو ملیٹنٹ گروپ قرار دیا ہے اور حالیہ مظاہروں کے بعد پولیس ایکشن میں بجرنگ دل نیز آر ایس ایس کے کارندوں کی بربریت اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔
6- پولرائزیشن: اس اسٹیج پر اکثریت اور اقلیت کے تعلقات کو بری طرح سے مجروح کیا جاتا ہے، بین المذاھب شادیوں پر پابندی عاید کی جاتی ہے، اکثریتی سماج کی معتدل شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کو گرفتار یا قتل کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اقلیتی سماج کی لیڈر شپ کو ختم کیا جاتا ہے۔
بھارت میں گوری لنکیش اور ان جیسی بہت سی آوازوں کو دبایا جارہا ہے۔ جن کو قتل نہیں کیا جاسکتا، ان پر مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔ مسلم لیڈر شپ اولا تو موجود نہیں ہے اور جو ہے، اس کا نمبر ابھی نہیں آیا ہے، کیوں کہ اکثریتی سماج میں ابھی بہت سی معتدل اور انصاف پسند آوازیں باقی ہیں جو فاشسٹ طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔
7- پرپریشن: اس مرحلے میں نسل کشی کی ٹریننگ ہوتی ہے، لوگوں کو ہتھیار چلانے کی مشق کرائی جاتی ہے، ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آخری حل یہی ہے۔ جرمنوں میں یہود کے خلاف فائنل سلوشن کی صدا بلند کی گئی تھی۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اگر ہم نے یہ قدم نہیں اٹھایا تو ہم ختم ہوجائیں گے۔
بھارت میں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ کس تنظیم کے افراد منظم طریقے سے حاصل کررہے ہیں، یہ بتانے اور ثابت کرنے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ ان فاشسٹ طاقتوں کی طرف سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور دوہزار پچاس تک مسلمان اکثریت میں آجائیں گے۔ سی اے اے نامی قانون کے ذریعے اکثریت کو یہ میسج دیدیا گیا کہ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں انھوں نے اقلیتوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں، پاکستان میں آزادی کے وقت تیئیس فیصد ہندو تھے جو اب صرف تین فیصد رہ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مشہور جرنلسٹ پرسوں واچپئ کے مطابق آر ایس ایس حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ ہندو راشٹر کا قیام اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
8- پرسیکیوشن: یعنی اقلیتی گروہ کو سب سے پہلے اکثریتی سماج سے ممتاز کردیا جاتا ہے، ان کے علاقے الگ کردیے جاتے ہیں، اپنے علاقوں میں ان کو جگہ نہیں دی جاتی ہے، بلکہ اقلیتی برادری کے لوگوں کی زمینیں اور جائدادیں ضبط کرلی جاتی ہیں، ان کو ڈٹینشن یا کانسنٹریشن کیمپس میں ڈال دیا جاتا ہے۔
بھارت میں اقلیتیں اپنے لباس اور بہت سی معاشرتی خصوصیات کی بنا پر پہلے ہی ممتاز ہیں۔ تقریبا ہر شہر میں مسلم آبادی الگ ہے۔ مسلمانوں کو اکثریتی علاقوں میں رہنے کے لیے مکانات مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ مختلف صوبوں میں ڈٹینشن کیمپس کی تعمیر جاری ہے۔ آسام میں بہت سے لوگوں کو پہلے ہی ڈٹینشن کیمپ میں ڈالا جاچکا ہے۔
9- ایکسٹرمنیشن: یعنی اس مرحلے پر آکر قتل عام شروع ہوتا ہے، جس کو عالمی قانون کی زبان میں نسل کشی کہا جاتا ہے۔ عورتوں کا ریپ کیا جاتا ہے، لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے، اس مرحلے پر فوج بھی ملیٹنٹ گروپس کے ساتھ مل جاتی ہے اور اقلیتوں کے خلاف غیر انسانی سلوک کرتی ہے اور لاکھوں لوگوں کو قتل کردیتی ہے اور ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
10- ڈینایل: یعنی انکار۔ عموما مندرجہ بالا تمام مراحل میں اور خصوصا نسل کشی کے بعد حکومت کی طرف سے انکار کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی نسل کشی سر زد ہوئی ہے۔ حکومت آزادانہ انکوائری میں رکاوٹ بنتی ہے اور کبھی اپنا جرم تسلیم نہیں کرتی۔ وہ امتیازی قانون بناتی بھی ہے اور اس کو تسلیم بھی نہیں کرتی ہے۔
آپ سی اے اے کو ہی دیکھ لیجیے کہ یہ واضح طور پر ایک امتیازی قانون ہے، لیکن حکومت اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ دس ادوار ہمارے خود ساختہ نہیں ہیں، بلکہ ڈاکٹر جارج اسٹانٹن کی ریسرچ کا حصہ ہیں، البتہ ہم نے بھارت کے حالات سے موازنہ کرکے کچھ اضافات ضرور کیے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ ہم ان دس ادوار میں سے کس دور میں چل رہے ہیں۔ جس طرح فاشسٹ طاقتوں کے لیے یہ صورت حال "ابھی نہیں تو کبھی نہیں” کا مصداق ہے، ملک کے انصاف پسند لوگوں اور اقلیتوں کے لیے بھی "کرو یا مرو” جیسی صورت حال ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سی اے اے کا ملک کے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ وزیر اعظم بھی زور دیکر یہ بات کہہ چکے ہیں، تو ایسے لوگ یا تو خواب خرگوش میں گرفتار ہیں، یا اپنے پرانے کرپشن اور دنیوی مفادات کی وجہ سے "مجبور” ہیں۔ آج اگر ملک خاموش بیٹھ گیا اور این پی آر کا عمل شروع ہوگیا تو حالات آئندہ چند سالوں میں کیا ہوں گے، اس کا اندازہ ان سطور کے پڑھنے کے بعد بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن میری دعا یہی ہے کہ خدا کرے کہ میں غلط ہوں، خدا کرے کہ میں غلط ہوں، خدا کرے کہ میں غلط ہوں۔
ڈکٹیٹروں کے پاس طاقت اس لئے ہوتی ہے کہ عوام کو خوفزدہ کیا جا سکے ، لیکن جب عوام خوف کا مقابلہ کرنا سیکھ جاتے ہیں تو یہی حکمران حبیب جالب اور فیض کی نظموں سے بھی ڈرنے لگتے ہیں ، یہی آج اس ملک میں ہو رہا ہے، ملک کے ہر خطّے میں ، ہر چوراہے سے فیض و جالب کی نظمیں نئے سویرے کو آواز دے رہی ہیں اور حزب اختلاف کو پاکستان کا لالی پاپ تھمانے والی حکومت پریشان ہے کہ ان نعروں کی موجودگی ، تیور اور گونجتی آواز انکے ہدف کو ناکام کر رہی ہے ۔ یہ آوازیں جمہوریت اور آئین اور ملک کی سلامتی کا درس دے رہی ہیں ،ان آوازوں میں اتنی طاقت ہے کہ فسطائیت کے قلعے ڈھا جائیں، آج اردو نغمے ، اردوکی انقلابی شاعری نے وہی کام کیا ہے، جو اردو زبان نے ملک کی غلامی کے دوران کیا تھا اور فرنگی زنجیریں اس حد تک کمزور ہو گئیں کہ انگریزوں کو اس ملک سے جانا پڑا ، فرنگیوں کے بعد اب ان شر پسندوں کی باری ہے ، کہ ظلم و ستم نے صبر کے پیمانے چھلکا دیے اور جب پیمانہ چھلک گیا اور چھلکے ہوئے پیمانے سے اردو کی انقلابی شاعری کے ساتھ فیض و جالب کا جن سامنے آ گیا اور کمال حقیقت کہ کیا ہندوکیا مسلم ،اس انقلاب کو گھر گھر پہنچانے میں پورا ملک ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے۔
منظر ۔ پس منظر:
سیاسی پس منظر یہ کہ جنگ کا ماحول تیار کرو اور مسلمانوں کو بے دخل کرو۔ امیت شاہ ہزاروں بار ان چھ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف نہ صرف بیان دیتے آئے ہیں بلکہ مہم بھی چلاتے آئے ہیں ۔ہم اس سیاست سے واقف ہیں کہ جنگوں کو بہانا کیوں بنایا جاتا ہے ؟دوستی اور محبت بھری باتوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔یہ کام ہم مل کر بہ خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ملک ایک نئی صورتحال سے گزررہا ہے، فسطائیت کا غلبہ ہے، مسلم مخالف رنگ شدید ہوچکا ہے، ان کے منصوبے خطرناک ہیں، ملک ہندوستان کو شام بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے ، اب یہ ملک زعفرانی ہے، مگر ان کی نظر میں۔ہم اس ملک کو زعفرانی نہیں ہونے دیں گے۔ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ جمہوری قدروں پر یقین رکھتا ہے، لیکن پہلے وہ بھی خوف زدہ تھا، اب سڑکوں پر آ کر فیض کی نظمیں گا رہا ہے ۔’’ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ پھر یہ آواز جالب کی آواز میں تبدیل ہو جاتی ہے’’ایسے دستور کو ، صبحِ بے نور کو میں نہیں جانتا ، میں نہیں مانتا‘‘ انقلابی نظموں نے ثابت کیا کہ انقلاب کو سرحدوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ، جو نغمہ جالب نے پاکستان کی ضیا الحق حکومت کے لئے لکھا ، آج وہی نغمہ مودی اور امیت شاہ کی مخالفت میں گونج رہا ہے۔مسلمان ، مسلمان اور پورا ملک ایک زبان ،میری سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ نوٹ بندی ہو یا جی ایس ٹی ، جس کی کمر سب سے زیادہ ٹوٹے گی ، وہ مسلمان ہوں گے۔ معاشی اعتبار سے جو سب سے زیادہ ذبح کیاجائے گا، وہ بھی مسلمان ہوں گے۔ اس ملک میں آر ایس ایس کی سوچ کی پہلی منزل مسلمان ہیں۔ اور اسی لئے آر ایس ایس بار بار یہ بیان دیتی آئی ہے کہ اس ملک کے تمام مسلمان کنور ٹیڈ ہیں۔ اور یہ بیان بھی برسوں سے دیتی آئی ہے کہ اس کی دشمنی مسلمانوں سے نہیں ، اسلامی فکر رکھنے والوں سے ہے۔ کیونکہ ایک دن مسلمانوں کی گھر واپسی ہوکر رہے گی۔ 2014کے بعد کے سیاسی منظر نامہ پر غور کریں تو مسلمانوں کے لئے ہر دوسرا دن ، پہلے دن سے زیادہ بھیانک ثابت ہوا ۔ ان چھ برسوں میں مسلمانوں کو ہلاک کرنے والے ، فرضی انکاؤنٹر کرنے والے ، مسجدیں شہید کرنے والے ، کریمنل ریکارڈ والے تمام مجرم جیل سے بری کردیے گئے۔ اور معصوم مسلمانوں پر جیل کی سلاخیں سخت ہوگئیں۔ آسمان میں ناچتے گدھ شکاری بن گئے کہ کیسے مسلمانوں کا شکار کیاجائے۔ نئے نئے طریقے ایجاد کئے جانے لگے۔مسلمان سبز اسلامی پرچم لہرائے تو وہ پاکستان کا ترنگا ہوجاتا ہے۔ہر دوسرے دن ایک بیان آر ایس ایس کے کسی نہ کسی لیڈر کی طرف سے آجاتا ہے ، جس میں صاف صاف اور کھل کر یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان ملک دشمن ہیں۔بار بار مسلمانوں سے یہ صفائی مانگی جاتی ہے کہ وہ محب وطن ہونے کا ثبوت پیش کریں اور ثبوت کے طورپر دادری میں رہنے والے محمد اخلاق کی فریج کا مٹن ، بیف بن جاتا ہے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ اپنی حد میں رہنے والے ، قانون کا پاس رکھنے والے محمد اخلاق کی فریج میں رکھے مٹن کو عدلیہ بھی بیف ثابت کرنے پر تل جاتی ہےاور اخلاق اپنے گھر میں بے دردی اور بے رحمی سے ذبح کردئے جاتے ہیں اور اب شہریت کے نام پر ڈیٹینشن کیمپ کا کھلا دروازہ ہے، ووٹنگ کے حق سے محروم کرنے کی سازش ہے، مگر درمیان میں فیض و جالب آ گئے ۔یوگی ، امیت شاہ اور مودی کا کھیل بہت حد تک بگڑ گیا، اب انھیں ملک کا اعتماد حاصل کرنے میں صدیاں لگیں گی، فسطائیت کا ہمنوا کویئی نہیں ہوتا۔میڈیا ، میڈیا اور میڈیا ،اس برس ایسا بہت کچھ ہوا ، جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔لیکن یہ سب کس نے کیا ؟ ان ہلاکتوں کے پیچھے کون ہے ؟ کیا مرکزی حکومت کو ذمے دار ٹھہرانا صحیح ہوگا ؟ کیا کانگریس اور کمزور اپوزیشن کو ان الزامات سے بری کیا جا سکتا ہے ؟ اصل مجرم کون ہے ؟2019 کا اصل مجرم ہے ہندوستانی میڈیا ،پہلے ہماری نہ ختم ہونے والی خاموشی میڈیا کے خلاف مورچہ لینے سے گھبراتی تھی ،اب عوام سڑکوں پر ہیں،شاہین باغ سے لے کر پورے ہندوستان میں،ہندوستان کی ہربربادی ، ہر قتل و غارت کے پیچھے میڈیا ہے۔ہندوستانی جمہوریت اور آزادی کا خون اسی میڈیا نے کیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک میں دلت ،عیسائیوں سے زیادہ بڑا خطرہ مسلمانوں کو ہے ۔آزادی کے بعد سکھ ،جین ،عیسای مذہب کے پیروکار بہت حد تک ہندو مذہب میں ضم ہو چکے ہیں۔آر ایس ایس لابی بار بار مسلمانوں کی گھر واپسی کا اعلان کر رہی ہے۔میڈیا ایسے نعروں کو فروغ دے رہی ہے۔ آج ہندی اور انگریزی کے نناوے فیصد اخبارات حکومت کی اشتعال انگیزی کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔انڈیا ٹوڈے جیسی نیشنل میگزین نے اپنا وقار کھو دیا،تمام چینلس حکومت کی زبان بولنے لگے۔نیوز اینکر سڑکوں چوراہوں پر انٹرویو لیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اشتہار بازی کی مہم میں جٹ گئے،پرائم ٹائم کے تمام نیوز پروگراموں میں مسلمانوں کے خلاف عام اکثریت کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی ،یہ پہلے نہیں ہوا،دنیا کے کسی بھی میڈیا نے کسی بھی ملک میں غدارانہ اور دہشت گردانہ تیور نہیں اپنایا ۔امر یکہ اور برٹین میں بھی میڈیا کی آزادی فروخت نہیں ہوئی۔ میڈیا کا کام حکومت پر تنقیدکرنا ہے ،ملک میں توازن پیدا کرنا ہے ۔ اس ملک میں مسلمانوں کی جو بھی بربادی ہوئی ، جو بھی ہلاکتیں سامنے آئی ہیں ،انکے پیچھے یہی میڈیا ہے،یہ میڈیا اب بھی اپنی دہشت گردیوں میں مصروف ہے۔یہ حقیقت ہے کہ نفسیاتی سطح پر بھی اب میڈیا خوف کے انجکشن لگا رہا ہے۔ میڈیا آہستہ آہستہ ایسے خوفناک راکشس میں تبدیل ہو چکا ہے کہ ٹی وی چینلس کی خبریں سنتے ہوئے دل کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں۔اس ملک میں اب اصل بغاوت میڈیا کے خلاف ہونی چاہیے اور یہ شروعات بھی ہو چکی ہے،جھارکھنڈ شکست کے بعد میڈیا کی خاموشی بہت کچھ کہتی نظر آتی ہے، حقیقت کہ ابھی 2024 تک میڈیا میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، لیکن یہ بھی عام تبدیلی نہیں کہ اس وقت ہندوستان جاگ چکا ہے ،فیض و جالب کے نغموں کا طوفان اُبل رہا ہے اور حکومت حیران کہ پانسہ تو صحیح چلا تھا ،نشانہ کیوں نہیں لگا ،عوام بیدار ہوں، تو شر پسندوں کا ہر نشانہ ناکام ثابت ہوتا ہے۔
جامعہ کے طلبہ کی تحریک ۱۸؍ویں دن بھی جاری، مختلف تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے افراد کی شرکت، قانون واپس لیے جانے تک جنگ جاری رکھنے کا عزم
نئی دہلی۔ ۳۰؍دسمبر: (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) شہریت ترمیمی ایکٹ ، این آر سی اور این آر پی کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کی تحریک کا آج ۱۸؍واں دن تھا۔ آج کے دن سخت سردی کے باوجود طلبہ اور اوکھلا کے عوام ہزاروں کی تعداد میں اپنا احتجاج درج کرایا۔ ایک طرف جہاں احتجاج میں کئی سماجی کارکنان اور طلبہ لیڈران شامل ہوئے وہیں ہندوستانی سیاست کے کچھ پرانے چہرے بھی نظر آئے ان سبھوں نے حکومت کی مسلم مخالف پالیسی اور ملک کو تقسیم کرنے والی سازش کی مخالفت کی۔ احتجاج کو خطاب کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کے سابق ریاستی وزیر رما شنکر سنگھ نے کہاکہ مسلمان ہمیشہ سے ملک کے ساتھ تھا اور رہے گا، اس موقع پر انہوں نے مسلمانوں کو ملک سے باہر نکالنے کی بات کرنے والوں کی سخت مذمت کی اور کہاکہ جو جامعہ آزادی کی جنگ میں شامل تھا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا ، ان فرقہ پرستوں کے ارادے ٹوٹ جائیں گے لیکن جامعہ نہیں ٹوٹے گا۔ سماجی کارکن اویس سلطان خان نے کہاکہ جس مسلم قوم کو ملک کے اندر دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی سازش ہوتی تھی آج وہ قوم ملک کے آئین کو بچانے کے لیے سڑکوں پر ہے اور اس وقت تک سڑکوں سے و اپس نہیں لوٹے گی جب تک کہ انہیں ان کا حق نہیں مل جاتا۔ آج اس لڑائی میں مسلمان قیادت کررہے ہیں او رجمہوریت کےلیے دوسرے مذاہب کے افراد اس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے احتجاج کے دوران سبھی کو مولانا ابوالکلام آزاد کی وہ قسمیں بھی یاد دلائیں جو انہوں نے ملک کی تقسیم کے وقت مسلمانوں کو کھلائی تھیں۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے جامعہ کے طلبہ اور اوکھلا کے عوام کو سلام پیش کرتے ہوئے کہاکہ جب تک اس تحریک میں ان کمیونٹی کا سہارا ملتا رہے گا جنہیں حکومت نے شہریت دینے کا وعدہ کیا ہے پھر اس تحریک کو کوئی نہیں توڑ پائے گا۔ اے آئی ایس اے دہلی کی صدر کنول پریت کور نے کہاکہ جو لوگ ملک کے شہری کو ان کے کپڑوں سے پہچانتے ہیں اور ان کے خلاف تشدد کی حمایت کرتے ہیں یہ اقتدار میں بیٹھے وہ فاشسٹ ہیں جو ملک کو توڑناچاہتے ہیں لیکن طلبہ نے ، شاہین باغ کی غیرت مند خواتین نے انہیں زور دار جواب دیا ہے۔ ڈی یو ٹی اے کی سابق صدر نندتا نارائن نے کہاکہ اقتدار میں آج جو سنگھی ذہنیت والے ہیں وہ ہر اس آواز کو دبانا چاہتے ہیں جو اس کے خلاف ہے او رجمہوریت کے ساتھ لیکن جامعہ اور تمام یونیورسٹیوں کے طلبا ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ سی اے اے کے خلاف شروع اس تحریک کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی باہر نکل آئے ہیں جو اپنے آپ کو غیر سیاسی کہتے تھے۔ جے این یو کے طالب علم فاروق عالم نے مودی اور امیت شاہ کو ’ٹوایڈیٹس‘ کی جوڑی بتایا انہو ںنے موجودہ حکومت اور اس کےچہرے پر ایک گیت بھی پڑا جو انہوں نے خود لکھا تھا۔ بی ایس سی ای ایم کی صدر راجویر نے کہاکہ ہم طلبہ قوم پرست ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی پرست بھی ہیں دنیا میں جہاں جہاں ناانصافی ہوتی ہے اس کے خلاف ہم بولتے ہیں اور جو ناانصافی ملک کے اندر بی جے پی کی حکومت کررہی ہے اس کے خلاف بھی ہم بولیں گے۔ آج کے احتجاج میں ان مقررین کے ساتھ مقامی عوام اور دہلی کی مختلف یونیورسٹی سے آئے طلبہ نے بھی اپنی بات رکھی اور حکومت کی طلبہ مخالف یونیورسٹی پر حملہ کرنے والی پالیسیوں کی مخالفت کی۔ کئی طلبہ نے آج بھی ’ریڈ فار رولیوشن‘ کے نعرے کے ساتھ ریڈنگ سیشن کا انعقاد کیا۔ جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی کے اراکین او رجامعہ کے طلبا کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت جمہوریت مخالف قانون واپس نہیں لے لیتی تب تک یہ تحریک جاری رہے گی اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پوری تحریک میں انہیں جامعہ الومنائی اورملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ کا مکمل تعاون مل رہا ہے۔
شہر کرے طلب اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو
شہریت قانون ترمیمی بل (اب ایکٹ) کیخلاف احتجاج کا سلسلہ 4/دسمبرکو آسام اورپھر تریپورہ وغیرہ شمال مشرقی ریاستوں سے شروع ہوا۔ 13/دسمبرکو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء نے اسکے خلاف ایک پرامن مارچ نکالا۔ یہ بات قابل ذکرہے کہ جامعہ کی تاریخ،ہماری تحریک آزادی کا ایک زریں باب ہے۔ اس کے نام کے ساتھ اگرچہ’اسلامیہ‘شامل ہے، لیکن اس کے کردار کی عظمت اور نظریہ کی وسعت یہ ہے کہ پہلے دن سے ہی اس نے بلاتفریق مذہب وملت ہر قوم کے افراد کو اپنے دامن میں سمیٹا ہے۔ اس کے بانیوں میں مولانا آزاد،شیخ محمودحسن، حکیم اجمل خاں، مولانا محمد علی جوہروغیرہ کے ساتھ گاندھی جی کا نام بھی نمایاں ہے۔ وہ گجراتی تھے۔برطانیہ میں پڑھے تھے۔ تاجرگھرانے سے تعلق تھا۔بقول امت شاہ ’وہ بڑے چَتُر بنیا تھے۔‘بیشک وہ دوراندیش سیاستداں تھے۔ اسی لئے جامعہ کی تحریک کے ساتھ جڑے۔
جامعہ کی تعلیمی بنیادیں استوارکرنے والوں میں ڈاکٹرذاکر حسین، مختاراحمدانصاری اور عابد حسین جیسی شخصیات کا خون جگرشامل ہے۔ یہ ہمارے ملک اورقوم کے وہ روشن ستارے ہیں، جن کی نظرمیں کسی ایک فرقہ کی نہیں، پورے ملک کی عظمت اوربہبود مقدم تھی۔ مسلم ذہن کو جدید تعلیم سے روشناس کرانااسی فکرمندی کا حصہ ہے۔ مگر اس طرح کہ قدیم صالح قدریں، جن کی بنیادیں اسلامی معاشرت میں ہیں، منہدم نہ ہونے پائیں بلکہ مستحکم ہوں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ آج بھی انہی قدروں کا پاسپان ہے۔ اس کے طلباء میں 50فیصد غیرمسلم ہیں۔اساتذہ اوراسٹاف میں بڑی تعداد میں دیگر قوموں کے افراد ہیں۔اورسب گھل مل کررہتے ہیں۔ اس میں بی ایچ یوکی طرح کوئی فیکلٹی ایسی نہیں جس میں غیرمذہب کا داخلہ ممنوع ہو۔ حتیٰ کہ اردو، فارسی اورعربی ہی نہیں، شعبہ اسلامیات بھی سب کیلئے کھلا ہے۔
جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء اوراساتذہ احتجاج کرنے نکلے، تب وہ کسی ایک فرقہ کے درد میں نہیں بلکہ ایک صالح قومی نظریہ کی حفاظت کیلئے نکلے تھے، اوربلاتخصیص تمام فرقوں، علاقوں اور مذہبوں کے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں قدم سے قدم ملاکر نکلے تھے۔ میں دل کی گہرائیوں سے جامعہ کے بانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اوران طلباء وطالبات، اساتذہ اور اسٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جنہوں نے شہریت ترمیمی بل پر، جو دراصل ہماری قومی روح کو مجروح کرتاہے، پرامن احتجاج کی ٹھانی۔ احتجاج کایہ طریقہ ہمیں اپنی تحریکِ آزادی سے ورثہ میں ملا ہے۔جامعہ کو اس ورثے میں کچھ زیادہ حصہ ملاہے۔ یقینا اس احتجاج سے جامعہ کے بانیوں، خیرخواہوں اورفیض پانے والوں کی روحوں کو بڑاسکون ملا ہوگا کہ جامعہ نے اس سبق کو پھردوہرایا ہے جس سے اس کی بسم اللہ ہوئی تھی۔ شاباش طلباء وطالبات، جو اس میں شامل ہوئے پولیس کی زیادتیوں کے باوجود عدم تشدد کی راہ پر اٹل رہے، بالکل گاندھی جی کی طرح۔خاص طورسے طالبات نے مضبوط رویہ اختیار کیا۔ہم جے این یواورمسلم یونیورسٹی کے جیالوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اگرانہوں نے جبراورظلم کے اس اندھیرے میں اپنے ضمیر کی شمعیں روشن نہ کی ہوتیں تو ممکن ہے کہ تحریک کچل دی جاتی۔
کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہمیں ان کے پس پشت وہ مصلحت نظرنہیں آتی جو خالق کائنات کی نظر میں ہوتی ہے۔ بھلا غورکیجئے اگر’اوپر‘ کے اشارے پر پولس نے جامعہ کے طلباء کے ساتھ زیادتی نہ کی ہوتی، غیرقانونی طورسے یونیورسٹی کمپس میں گھس کرلائبریری، مسجد اورٹائلٹس میں مارپیٹ اورتوڑ پھوڑ نہ کی ہوتی تو کیا اس مہم کو ایسی قومی تائید مل جاتی کہ کم وبیش 33 یونیورسٹیوں کے طلباء حمایت میں نکل آئے۔ان میں سمپورنانند سنسکرت یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ بیرون ملک بھی احتجاجو کی جھڑی سی لگ گئی۔اس کی بدولت سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپ نے دیکھا بڑے بڑے شہروں میں ہی نہیں چھوٹے بڑے قصبوں اوردیہات تک میں اس شمع کی شعائیں پہنچیں، حالانکہ کال دینے والا کوئی نہیں تھا۔ ایسے پرہجوم مظاہرے ہوئے کہ حکومت ہڑبڑا گئی اوربھاجپا کی سرکاروالی ریاستیں تشدد پر اتر آئیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کی یہ تائید وحمایت دراصل اس قومی نظریہ کی تائید ہے جس کی بنیاد پرہم نے آزادی کی جنگ جیتی تھی۔ بھلا یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے جنہوں نے تحریک آزادی کی مخالفت اورفرنگیوں کی حمایت کی تھی۔ آخرڈی این اے بھی توکوئی چیز ہے۔نوٹ کیجئے احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات صرف بھاجپا سرکار والی ریاستوں میں ہوئے۔ شواہد بتارہے ہیں کہ زیادتی پولیس یا اس کے گماشتوں نے کی۔د ہلی میں بسیں بھی کسی اورنے جلائیں۔تقریباسبھی موتیں پولیس کی گولی سے ہوئیں۔ سب سے زیادہ 19یوپی میں جہاں وزیراعلیٰ نے اعلان کیا تھا، ’سرکاربدلہ لیگی‘ چنانچہ تحریک کوفرقہ ورانہ رنگ دینے کیلئے ایک ہی طبقہ کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔میرٹھ،مظفرنگر، بجنور، سنبھل، فیروزآباداورلکھنؤ وغیرہ میں عوام پر قہرنازل کیاگیا۔ مگرکاٹھ کی ہانڈی زیادہ دیر نہیں چلاکرتی۔ جھارکھنڈ کے رائے دہندگان نے اس کا جواب دیدیا ہے جس نے تنگ نظر ہٹلر پرست حکمرانوں کوسوچنے پرمجبورکردیا ہے۔
بہت سے لوگ سوال کررہے ہیں کہ ملک بھرمیں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ان پرہجوم احتجاجو ں کا کیا فائدہ ہوا؟ حکومت تواس کو واپس لینے کو تیارنہیں؟ بیشک قانون کی واپسی کا امکان نہیں۔ اگرسرکاربدل گئی تب بھی نہیں۔ لیکن دو بڑے فائدے ہوئے ہیں۔ پہلی بارمودی سرکارکے کسی اقدام کے خلاف ملک بھرمیں عوامی آواز اٹھی۔ ان کے حامی پست ہوئے۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ اس کی محرک کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی۔ کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ سب عوام نے خود کیا۔ موجودہ ماحول میں ایسا جو ش وجذبہ ابھرآنا ایک بڑی تبدیلی ہے۔ بعض سیاسی پارٹیوں نے تواس کی ملک گیروسعت اور شدت کے بعد ہی اس کو بھنانے کی تگ ودوشروع ہوئی۔ جب شورپوری بلندی پر پہنچ گیا اورعوام کا موڈ خوب صاف ہوگیا تب نتیش کماربھی بولے،دیگروزرائے اعلی نے بھی این آرسی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ورنہ اکیلی آواز ممتابنرجی کی سنائی دیتی رہی۔مگریہ بھی اچھا ہوا کہ سیاسی لیڈرشروع میں نہیں بولے۔ اگربول پڑتے تو پانسہ الٹا پڑسکتاتھا۔ ہماری چندہ بٹورنے والی قیادت خاموش رہی۔اگروہ بول پڑتی تو تحریک کوفرقہ ورانہ رنگ دیدیا جاتا۔
ہاں سب کے ساتھ مسلمان اس تحریک میں شریک ہوئے۔ایسا ہی ہونا چاہئے۔ ازلی مخالفوں نے بھی نوٹ کیا کہ تین طلاق، دفعہ 370 اور اجودھیا فیصلے کے بعد بھی خاموش رہنے والا فرقہ، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کیوں اٹھ کھڑا ہوا؟ اسی لئے اس تحریک پر فرقہ پرستی کا لیبل لگانے میں کامیابی نہیں ملی۔ حالانکہ مودی جی نے جھارکھنڈ کی ریلی میں یہ کہہ کر کہ قانون کے مخالفوں کو کپڑوں سے پہچانو، اس کو فرقہ ورانہ رخ دینے کی چال چلی تھی۔ بھاجپا کے کچھ چھوٹے لیڈروں کے بھی ایسے ہی بیا ن آئے تھے جن سے ظاہرہوا کہ ان کو عوام کی موڈ کی سمجھ ہی نہیں آئی۔
بھاجپا کی دہلی ریلی:اس ملک گیر تحریک کا توڑ کرنے کیلئے بھاجپا نے گزشتہ اتوار 22دسمبر دہلی میں ایک ریلی کی۔ کرسیاں دورتک لگی تھیں مگربہت سی خالی رہیں۔ بعض شرکا نے کیمرے پربتایا کہ ان کو دو، دو سوروپیہ دے کرلایا گیا۔ جب ان سے پوچھا کہ کیا دہلی کے چناؤمیں بھاجپاکو ووٹ دوگے تونا کہہ دیا۔ دہلی والوں کا جواب تھا، مودی جی نے وعدے پورے نہیں کئے۔ لیکن اگلی کرسیوں پرپارٹی کے ورکر ضرورنعرے لگاکر نمایاں ہونے کی کوشش کرتے رہے۔
اس ریلی میں مودی جی نے اعلان کیا کہ ملک بھرمیں این آرسی (شہریت کا قومی رجسٹر)لانے پر حکومت نے غور ہی نہیں کیا۔انہوں نے الزام لگایا کہ یہ افواہ اپوزیشن نے پھیلائی ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ خود وزیر داخلہ اورپارٹی کے صدرامت شاہ اوردیگروزیروں نے پارلیمنٹ میں کئی بار اعلا ن کیا کہ این آرسی پورے ملک میں لاگوکیا جائے گا۔امت شاہ نے شہریت ترمیمی بل پر بحث کے دوران کہا تھا،’ترتیب سمجھ لیجئے۔ اس کے بعد این سی آرآئے گا جو پورے ملک پرلاگوہوگا۔‘ ایک جلسہ میں کہاکہ1924سے پہلے، تمام’گھس پیٹھیوں‘ کو نکال باہر کیا جائے گا۔ یہی بات مغربی بنگال میں پارٹی کارکنوں کے جلسے میں اور جھارکھنڈ کی انتخابی ریلی میں کہی۔ پارٹی کے کارگزارصدر جے پی نڈا نے بھی دہلی ریلی سے دو دن پہلے 20/دسمبرکو کہا کہ این آرسی تولایا جائے گا۔ لیکن اب پردھان منتری کے اس اعلان اور وزیر داخلہ امت شاہ کے اے این آئی کو انٹرویو سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کیڑے نے اپنے پنجے سمیٹ لئے ہیں جو اس شرکو پھیلانے کیلئے ذہنوں میں کلبلارہا تھا۔ یہ اس ملک گیر تحریک کی بڑی کامیابی ہے۔ اگریہ تحریک اس قدر زور دار طریقے سے نہ اٹھتی اورساتھ ہی جھارکھنڈ میں پارٹی کا جھنڈا نہ اکھڑ گیا ہوتا تو پوری قوم آسام کی طرح اس عذاب میں مبتلا کی جاتی۔ پریشان توسبھی ہوتے مگراس کے زدقبائلی باشندوں، دلتوں، غریبوں،ناخواندہ لوگوں اورخاص طور سے اقلیتوں پر پڑتی۔ غیرمسلموں کو شہریت دیدی جاتی اورمسلمان حق رائے دہی سے محروم کردئے جاتے۔ اس الٹ پھیر کا سہرا طلباء اوراُس نظریہ کے سرہے جس کی اساس ہندستان کا آئین ہے۔یہ ظلم کے خلاف حق کی جیت ہے، جو ہندستان جیسے ملک میں ہی ممکن ہے، جس کے باشندو ں کے خمیر میں مہمان نوازی اورتواضع شامل ہے۔
آپ کویاد ہوگا کہ مئی میں پارلیمانی چناؤ کے بعد مودی جی نے کہا تھا کہ اس چناؤ کی خاص بات یہ رہی کہ کسی نے سیکولر زم کا نام تک نہیں لیا۔ انہوں نے ٹھیک کہا تھا۔ بیشک یہ لفظ سیاستدانوں کے زبانوں پر نہیں آیا تھا، لیکن لاکھوں دلوں اور دماغوں میں محفوظ تھا جس کا مظاہرہ اس تحریک کے دوران ہوگیا۔ یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں۔ بعض لوگ سیکولرزم کا مطلب مذہب سے بے تعلقی اوردین بیزاری سمجھتے ہیں۔ ہندستان کے پس منظرمیں اورہمارے آئین کے مطابق سیکولر ریاست کا مطلب ہے، مذہب کی بنیاد پرکسی شخص سے کوئی بھید بھاؤ نہیں۔ سرکار کا اپنا کوئی مذہب نہیں اور ہرکسی کو پھلنے پھولنے کی آزادی۔ ہمیں برادرانِ وطن کا ممنون ہونا چاہئے کہ نہایت سخت مخالف ماحول اورہندتووا کا زور ہونے کے باجود ریاست کے سیکولرکردار پر حملہ کرنے والے قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اوربرملا اہل اسلام سے اظہاراتحاد کیا۔ ہر شب کا خاتمہ نئی سحرسے ہوتا ہے۔ ہم اپنے عمل اورکردار سے امن ومحبت اوردینی قدروں کا پیغام دیتے رہیں تو وہ سحرنمودار ہوکر رہے گی۔ بقول سروربارہ بنکوی:
نہ ہو مضمحل میرے ہم سفر، تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہی ظلمتوں کے دوش پر ابھی کاروانِ سحر بھی ہے