نئی دہلی:دہلی پولیس کی طرف شرجیل امام کے خلاف جامعہ میں وطن کے ساتھ غداری کرنے اور فسادات بھڑکانے کے الزام میں چارج شیٹ فائل کی گئی۔ شرجیل کو اسی الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے بتایا کہ ثبوتوں کی بنیاد پر، شرجیل پر سیکشن 124 اے اور تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے لگایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مبینہ طور پر ملک مخالف بیان بازی کرنے والے جے این یو طالب علم شرجیل امام کو بہار کے جہان آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ شرجیل امام کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا، جس میں وہ مبینہ طور پر ملک مخالف بیان بازی کرتے نظر آئے تھے۔پولیس کے مطابق وائرل ویڈیو میں شرجیل امام تقریر کرتے نظر آ رہے تھے۔ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ویڈیو 16 جنوری کو اے ایم یو میں ایک عوامی تقریر کے دوران ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویڈیو میں شرجیل کو ملک مخالف بیان بازی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ جس میں امام شمال مشرق ہندوستان کو باقی ہندوستان سے الگ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ شرجیل امام دہلی کے شاہین باغ میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے ابتدائی دور میں اس کے منتظمین میں سے ایک ہیں۔
bhu
نئی دہلی:دہلی میں ہوئے تشددکی تحقیقات کے لیے خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) کی تشکیل کی گئی ہے۔ یہ ایس آئی ٹی کرائم برانچ کی ہوگی۔ دہلی پولیس کے ایڈیشنل سی پی کرائم بی سنگھ کی قیادت میں یہ ایس آئی ٹی کام کرے گی۔ کرائم برانچ کی ایس آئی ٹی کی دوٹیمیں بنائی گئی ہیں جو مل کر نارتھ ایسٹ دہلی میں تشدد کی تحقیقات کریں گی۔دہلی میں ہوئے تشددمیں اب تک مرنے والوں کی تعداد 38 ہو گئی ہے۔تشددکے معاملات میں اب تک 48 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 اورکیسزدرج کیے جارہے ہیں۔تقریباََایک ہزار سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ کی جا رہی ہے۔ایس آئی ٹی (خصوصی تفتیشی ٹیم) کی جانچ ٹیموں کے سربراہ دوڈپٹی کمشنر ہوں گے۔ایک ٹیم کے سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوں گے اور دوسری ٹیم کے سربراہ ڈپٹی کمشنر راجیش دیوہوں گے۔ دونوں ٹیموں میں چار چار اے سی پی ہوں گے۔یعنی کل آٹھ اے سی پی شامل ہوں گے۔ ان ٹیموں میں تین تین انسپکٹر، چار چار سب انسپکٹر اور پولیس اہلکار شامل رہیں گے۔دہلی پولیس کے ترجمان ایم ایس رندھاوا نے بتایاہے کہ دہلی میں ہوئے تشدد کے معاملے میں اب تک 48 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 اور کیسز درج کیے جارہے ہیں۔انہوں نے بتایاہے کہ ایک ہزار سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ کی جا رہی ہے۔رندھاوا نے بتایا کہ شمال مشرقی دہلی میں حالات کنٹرول میں ہیں اورحالات بالکل عام ہیں۔ پہلے کے مقابلے پی سی آر کال بہت کم آ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امن کمیٹی کے ساتھ مل کر امن کی اپیل کی جا رہی ہے۔ہر زاویہ سے تشدد کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔کئی جگہ چھاپے ماری چل رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ تشددکی مکمل تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی سے ہوگی۔ یہ ایس آئی ٹی کرائم برانچ کی ہوگی۔
(وائس چانسلرنلسار یونیورسٹی آف لا،حیدرآباد)
ترجمہ:نایاب حسن
بتیسویں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے ایک بارکہاتھاکہ ”ایسی جمہوریت زیادہ دن باقی نہیں رہ سکتی،جواپنی اقلیتوں کے حقوق کے اعتراف کواپنے وجودکی بنیادنہیں سمجھتی“۔دہلی کے حالیہ فسادات میں تیس سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں،گھروں کونذرِ آتش کیاگیااور ایک پوری مارکیٹ کوجلادیاگیاہے،مگر جو منظرلمبے عرصے تک لوگوں کے ذہن و دماغ کودہشت زدہ رکھے گا،وہ اشوک نگرکی بڑی مسجد کی شہادت کا منظر ہے،اس نے6دسمبر1992میں بابری مسجد کی شہادت کی یادیں تازہ کردی ہیں۔
سپریم کورٹ نے پروفیشنلزم کے فقدان پر دہلی پولیس کوڈانٹ پلائی ہے،دہلی ہائی کورٹ نے بھی کہاہے کہ وہ دہلی میں دوسرا1984نہیں ہونے دے گا۔مسلمانوں نے بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کوتسلیم کیا، حالاں کہ اس فیصلے میں کئی خامیاں تھیں۔اب دیکھیے کہ اس فیصلے پر چار ماہ سے بھی کم کا عرصہ گزراہے کہ دہلی میں ایک اور مسجد شہید کردی گئی۔عہدِ وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں نے مندروں کو منہدم کیاہوگا،مگر اُس وقت اِس ملک میں وہ آئین نہیں تھا،جوکہ اب ہے۔
دستورسازی میں شامل ہمارے ملک کے دوراندیش رہنماؤں کواقلیتوں کے اندیشوں کا ادراک تھا؛اسی وجہ سے انھوں نے ان کواپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے اوراس کی تشہیر وتبلیغ کا حق دیا اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی۔مہاتما گاندھی نے تو اس سے آگے بڑھ کریہ کہاتھاکہ ایک ملک کے مہذب ہونے کے دعوے کی صداقت اس میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسابرتاؤ کرتاہے۔دستور ساز اسمبلی میں بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق پر ایڈوائزری کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں تجویز پیش کرتے ہوئے جی بی پنت نے کہاتھا”اقلیتوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کااطمینان بخش حل ہی آزاد ہندوستان کی صحت،ترقی اور مضبوطی کو یقینی بنائے گا،جب تک کہ ملک کی اقلیتیں پوری طرح مطمئن نہ ہوں،ہم ترقی نہیں کرسکتے؛بلکہ ہمارے لیے اچھی طرح ملک میں امن و امان قائم رکھنا بھی مشکل ہوگا“۔
دستورکے آرٹیکل25سے30تک کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیاجائے۔اس کے باوجود گزشتہ کم ازکم پانچ سالوں کے دوران ایک کے بعد دوسرے الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران ملک کے مسلمانوں کو”اینٹی نیشنل“ اورملک کے لیے خطرہ بناکر پیش کیاگیا۔2014کے جنرل الیکشن میں ”گلابی انقلاب“کا حوالہ دینا،2016میں آسام الیکشن کے دوران تمام بنگلہ دیشی مہاجرین کو ملک سے باہر کرنے کی بات کرنا،انھیں دیمک قراردینااور حالیہ دہلی الیکشن کے دوران”گولی مارو…“جیسے نعرے لگانا سب اسی منظم نفرت انگیز مہم کا حصہ ہیں۔مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر وارث پٹھان بھی اشتعال انگیز بیان دینے کے مجرم ہیں،گرچہ انھوں نے بعد میں اپنے بیان پر معافی مانگی اوراسے واپس لے لیا،جبکہ انوراگ ٹھاکر یا کپل مشرانے ایسانہیں کیا۔
منگل کے دن الہ آباد ہائی کورٹ نے بنارس کی ایک نچلی عدالت کو ایک کیس پرآگےکارروائی سے روکاہے،جس میں یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ گیان واپی مسجد1664میں اورنگ زیب کے ذریعے کاشی وشوناتھ مندر کوتوڑکربنائی گئی تھی۔حتی کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کہاگیاہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ(1993)میں ”عدمِ رجوع کا تحفظ“ملک کے سیکولر اقدار کا ایک لازمی جز ہے۔ کورٹ نے تبصرہ کیاتھاکہ”عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ بنیادی طورپرایک سیکولرسٹیٹ کے فرائض کاحصہ ہے۔یہ تمام مذاہب کی برابری کے تعلق سے ہندوستان کے عہد کی عکاسی کرتاہے۔اس سب سے اوپر عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ اس پختہ ذمے داری کا اعتراف ہے جوکہ ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ وہ لازمی دستوری قدر کے طورپرتمام مذاہب کی برابری کا تحفظ کرے،یہ ہمارے دستورکاایک بنیادی وصف ہے“۔
اس ایکٹ میں تمام عبادت گاہوں کی صورتِ حال کو15اگست1947کی حالت پر برقراررکھنے کی بات کی گئی ہے۔اسی وجہ سے کورٹ نے تبصرہ کیا کہ”قانون تاریخ اور قوم کے مستقبل سے خطاب کرتا ہے، تاریخی غلطیاں ان لوگوں کے ذریعے نہیں ٹھیک کی جاسکتیں،جو قانون کواپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔عوامی عبادت گاہوں کے تحفظ کے سلسلے میں پارلیمنٹ نے واضح طورپر کہاہے کہ تاریخ اور تاریخی غلطیوں کو حال اورمستقبل کوبربادکرنے کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا“۔
سپریم کورٹ نے22-23دسمبر1949کاحوالہ بھی دیاتھا،جب کچھ بیراگی زبردستی بابری مسجد میں جاگھسے اور مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے خفیہ طورپررام کی مورتیاں نصب کردی تھیں۔کہاجاتاہے کہ مورتیوں کی تنصیب ہی”مسجدکے انہدام اور کسی قانونی کارروائی کے بغیر مسلمانوں کو اس سے بے دخل کرنے کاسبب بنی“۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاتھا کہ اس وقت بی جے پی کے ریاستی وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کی مسجد کے تحفظ کے سلسلے میں یقین دہانی کے باوجود اسے منہدم کردیا گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ کورٹ اب تک عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے کلیان سنگھ کو کوئی سزانہیں دے سکاہے۔اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی پانچ رکنی بنچ نے صاف طورپر کہا تھا کہ”مسجد کا انہدام اوراسلامی ڈھانچے کو گراناقانون کی حکمرانی(rule of law)کی شرمناک خلاف ورزی تھی“۔
بابری مسجد شہادت کے دوملزمین اب نئے رام مندر ٹرسٹ کے ممبرہیں،اگریہ مسجد کومنہدم کرنے کاانعام نہیں توکیاہے؟حقیقت یہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے متعلق مجرمانہ کیسز میں عدالتِ عظمیٰ کی ہدایت کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ایک حقیقت جس پر زیادہ بات نہیں ہوتی،وہ یہ ہے کہ خود سپریم کورٹ نے بارہااُس کارسیواسے منع کیاتھا،جوبابری مسجد کے انہدام پر منتج ہوا۔یہ اطلاعات تھیں کہ مسجد کو منہدم کرنے کے آلات بڑی تعداد میں ایودھیا پہنچائے جارہے ہیں،مگرایسالگتاہے کہ فیصلہ سازی میں غلطی ہوئی۔2017میں سپریم کورٹ نے ریاستِ گجرات بنام آئی آرسی جی کیس میں 2002کے گجرات فسادات کے دوران 567 مذہبی مقامات،مساجد،درگاہوں اور خانقاہوں کوہونے والے نقصانات کی بھرپائی کی ذمے داری حکومتِ گجرات پر ڈالنے سے منع کردیا،جبکہ گجرات ہائی کورٹ نے نہ صرف ریاستی حکومت کوان مقامات کی مرمت اور تعمیرِ نوکا حکم دیاتھا؛بلکہ یہ بھی کہاتھاکہ اگر ان جگہوں کے متولی اور دیکھ ریکھ کرنے والوں نے ان کی تعمیر یا مرمت کروالی ہے،تواس پر ہونے والا خرچہ حکومت اٹھائے۔اس کیس میں جسٹس دیپک مشرااورجسٹس پی سی پنت کی دورکنی بنچ نے پرائیویسی فیصلے میں نو ججوں کی بنچ کے اس نظریے کو نظرانداز کردیاکہ بنیادی حقوق کوایک ساتھ پڑھنا چاہیے، گودام میں بند ہوکر نہیں۔دوججوں کی بنچ نے یہ بھی کہاتھاکہ معاوضہ صرف اس صورت میں دیاجائے گا،جب زندگی اور شخصی آزادی کا حق تلف کیاجائے،دیگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر معاوضہ نہیں دیاجاسکتا،حالاں کہ اصل بات یہ تھی کہ معاوضہ اس لیے دیاجاناتھاکہ ریاستی حکومت مذہبی مقامات کے تحفظ میں ناکام رہ گئی تھی۔
کورٹ نے یہ بھی کہاتھاکہ اگرمذہبی مقامات کی مرمت کے لیے سرکار کی طرف سے پیسہ دیاجائے،تواس سے سیکولر سٹیٹ کے دستور کے آرٹیکل27کی خلاف ورزی ہوگی،مگر ایسا لگتاہے کہ یہ موقف تجاہلِ عارفانہ کے ساتھ اختیارکیاگیا گیا؛کیوں کہ کیرالا حکومت آرٹیکل290Aکے تحت تراونکور دیوسوم فنڈ کو سالانہ46.5لاکھ روپے دیتی ہے اور تمل ناڈوحکومت دیوسوم فنڈکومندروں کی دیکھ بھال کے لیے سالانہ13.5لاکھ روپے دیتی ہے،اس کے علاوہ متعدد حکومتیں مندرسمیت مساجد، مدارس اور چرچوں پر بہت ساراپیسہ خرچ کرتی ہیں۔
سی اے اے کی دستوری حیثیت کے سلسلے میں دائر پٹیشن کو نہ سن کراورطلبہ کے ساتھ دہلی پولیس کی زیادتی پر توجہ نہ دے کرعدالتِ عظمیٰ نے صورتِ حال کی حساسیت کے تئیں غفلت کا اظہار کیاہے۔سپریم کورٹ نے اوبی سیز کے ریزرویشن کے تعلق سے منڈل کمیشن کی سفارشات ماننے سے اس لیے انکارکردیاتھاکہ اونچی ذات کے ہندواحتجاج کریں گے،اسی طرح اگرسی اے اے پر روک لگادیاجاتا،توملک بھر میں جاری احتجاجات بھی ختم ہوجاتے۔آج اقلیتیں خوف کے سایے میں ہیں،دستور کے آرٹیکل25سے 30میں ان سے جو وعدے کیے گئے ہیں،ان کی بے رحمی کے ساتھ خلاف ورزی ہورہی ہے۔سینٹ زویرس کالج،احمد آباد فیصلے (1974)میں جسٹس ایچ آرکھنا کے الفاظ میں ”یہ قوانین اقلیتوں کے حق میں ایک پختہ عہد کی طرح ہیں…جب تک دستور اپنی موجودہ حالت میں باقی رہے گا،ان حقوق کونظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔اگر ایسی کوئی بھی کوشش کی جائے،تویہ نہ صرف اس عہد کی خلاف ورزی ہوگی؛بلکہ یہ قانونی طورپر ایک ناقابلِ معافی عمل ہوگا“۔لہذاعدالتِ عظمی اور حکومت کوچاہیے کہ وہ اقلیتوں کا اعتماد بحال کریں؛ تاکہ یہ حقوق محض دستورِ ہند کے صفحات کی زینت بن کرنہ رہ جائیں۔
(بہ شکریہ روزنامہ انڈین ایکسپریس)
ایسے ماحول میں جب مذہبی نفرت کا بول بالا ہو، وہاں لاشوں کا مذہب طے کرکے امن نہیں قائم کیا جا سکتا۔ لیکن افسوس یہی ہو رہا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ اپنی اپنی لاشوں کو گننے اور انھیں دوسرے سے زیادہ مظلوم قرار دینے میں مصروف ہیں۔ ویڈیو اور تصویروں کو شیئر کرتے ہوئے اس بات کو دھیان میں رکھا جارہا ہے کہ کسے مظلوم دکھانا اور کسے ظالم؟ کس کی جارحیت پر پردہ ڈال دینا ہے اور کس کے حملے کو فوٹو شاپ کی مدد سے ایک خاص قوم کے سر پر منڈھنا ہے؟ حملہ آور کا نام شاہ رخ ہے یا انوراگ مشرا؟ سوشل میڈیا ہی نہیں، بیشتر اردو ہندی اخبار بھی یہی کررہے ہیں، ظاہر ہے انھیں اپنے قارئین کے مذہب اور اس مذہبی نفسیات کا خوب اچھی طرح علم ہے، اس لیے وہ بھی نیوز چینلوں کی طرز پر اپنا اپنا خیمہ منتخب کرچکے ہیں۔ نتیجتاً عوام کے درمیان سنسنی، مایوسی، دل گرفتگی، بیچارگی، بے بسی اور ساتھ ساتھ غصہ بڑھ رہا ہے۔ یہ غصہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے، اس سے یہ اخبار خوب اچھی طرح واقف ہیں لیکن انھیں بھی اپنا رزق حلال کرنا ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ خبریں پیش نہ کی جائیں لیکن سنسنی خیز خبریں کیسے پیش کی جائیں، سرخیاں کیسے لگائی جائیں، کالم کیسے طے کیے جائیں، تجزیے کس طرح کے ہوں، اس آرٹ سے بیشتر پروفیشنل اردواور ہندی صحافی بے خبر ہیں۔ معاف کیجیے گا، سوائے ایک خاص قوم یا فرقے کے جذبات سے یہ اخبارات اسی طرح کھیلتے ہیں جس طرح ہمارے قومی لیڈر۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندی اور اردو صحافت میں جری اور انصاف پسند صحافیوں کی کمی ہے، لیکن اس ٹرینڈ کے لوگ اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب وہ اپنے موقف یا تحفظات کے خلاف سننا ہی نہیں چاہتے۔ میں اس سلسلے میں صرف ایک مثال دیتا ہوں۔”ممبئی اردو نیوز” کے ایڈیٹر شکیل رشید کے قلم سے جب جب ایسی تحریریں نکلیں جو ہماری قومی لیڈرشپ کا محاسبہ کرتی نظر آتی ہیں یا مذہبی قیادت کے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کے مداح بھی ان کے خلوص کو طعنہ مارتے نظر آئے، گویا ایک اردو اخبار کو صرف مسلمانوں کا دفاع کرنا چاہیے نہ کہ حقائق کی گرفت کرنی چاہیے، یا ایک اردو اخبار کو مسلمانوں کی کمزوریوں اور غلطیوں کی جواز جوئی کرنی چاہیے نہ کہ ان پر تنقید کرکے ان کی صفوں کو درست کرنا چاہیے۔
کیا وجہ ہے کہ دہلی فسادات میں مرنے والے ہندوؤں کی فہرست اردو اخباروں میں نظر نہیں آتی؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مارنے والوں کی قوم کے نام پر بٹہ لگتا ہے جسے بچانے کا کام اردو اخباروں کا ہے؟ اسی لیے میں نے شروع میں کہا تھا کہ فساد اور بربریت کا مذہب بھی اب طے ہوچکا ہے، جب کہ ابھی کچھ دنوں پہلے تک ہم یہ سنتے آئے تھے کہ دہشت گردی اور فسادی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اس جملے کا استعمال حسب ضرورت اور حسب مصلحت جگہ جگہ بدلا بھی جا سکتا ہے؟ بلاشبہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کا ہی زیادہ نقصان ہوا یا مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن پھر یہاں سوال کرنے کا جی چاہتا ہے کہ کیا ایک جان کی قیمت نہیں ہے؟ کیا اب ترازو کے دونوں پلڑوں پر لاشوں کو رکھ کر تول کر فیصلہ کیا جائے کہ کس قوم کی لاشوں کا پلڑا بھاری ہے؟ کیا اب تعداد کے اعتبار سے مظلوم اور ظالم طے کیے جائیں گے؟ اگر 85 سال کی بوڑھی اکبری کو زندہ جلانے کی خبرسنسنی خیز ہے تو کیا 19 سالہ وویک چودھری جس کے بائیں طرف ڈرلنگ مشین گھسیڑ دی گئی، وہ کم خوفناک ہے؟ اگر 22 سالہ اشفاق کی گردن میں دو بار وار اور اسے پانچ گولیوں کا نشانہ بنایا جانا ہمارے دلوں کو مٹھیوں میں جکڑنے کے لیے کافی ہے تو کیا دوسری طرف 25 سالہ نتن کمار اور اس کے ضعیف والد پر جنونی بھیڑ کا حملہ ہمارے دل و دماغ دونوں کو نہیں جھنجھوڑتا؟ اگر ایک طرف اسحاق خان (24)، محمد مدثر (30)، محمد مبارک حسین (28)، شان محمد (35)، مہتاب (22)، شاہد (25)، محمد فرقان (30)، دلبر محسن علی (24)، اور معروف علی (30) وغیرہ جیسے مرنے والوں کے نام ہیں تو دوسری طرف دیپک کمار (34)، ویر بھان (50)، پرویش (48)، راہل سولنکی (26)، راہل ٹھاکر (23)، رتن لال (42)، انکت شرما (26)، ونود کمار (50) اور امن (17) جیسے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں تو کیا آپ ان لاشوں کو گنیں گے کہ اس میں کتنے مسلم ہیں اور کتنے ہندو؟ اور پھر الیکشن میں جس طرح ووٹنگ کی تعداد پر جیت اور ہار طے کی جاتی ہے، کیا اسی طرح ظالم اور مظلوم طے کیے جائیں گے؟ آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سامنے جو لاشیں پڑی ہیں وہ مذہبی شدت پسندی اور جارح قوم پرستی کا شکار انسانیت کی لاشیں ہیں اور آپ کو باور کرارہی ہیں کہ نہ ہندو خطرے میں ہے اور نہ مسلمان، اگر کچھ خطرے میں ہے تو صرف انسانیت خطرے میں ہے، جسے بچانا ہمارا کام ہے۔ سرکار، پولیس، سیاسی پارٹی اور نیتا جب بے کار ہوجائیں تو انسانیت حرکت میں آتی ہے اور وہ اپنا کام اپنی صفوں اور اپنے گھر سے شروع کرتی ہے۔ اس کی آنکھوں پر تعصب کا اور قوم پرستی کا چشمہ نہیں ہوتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کو صرف کپل مشرا نظر آتا ہے لیکن وہ ہندو افسر نظر نہیں آتا جس نے اس کے خلاف رپورٹ کی تھی جس کے پاداش میں اسے سسپنڈ کردیا گیا؟ آپ کو گوتم گمبھیر بھی نظر نہیں آتا جسے اب ٹوئٹر میں غدار کہا جارہا ہے؟ آپ کو وہ ہندو بھی نظر نہیں آتا جو 9 مسلم خاندانوں کو بچاتے ہوئے خود فسادیوں کی نذر ہوگیا۔ آپ دہلی بھر کے گردواروں پر نظر کیوں نہیں ڈالتے جن کے دروازے مسلمانوں اور دیگر فسادزدگان کے لیے کھول دیے گئے۔ آپ کو وہ دلت بھی نہیں دکھتے جو حملہ آوروں کو روکنے کے لیے مسلم محلوں کے سامنے بیری کیڈ لگا کر سینہ سپر ہوگئے۔یہ کہانی یک طرفہ نہیں ہے، ہمیں دوسری طرف ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جو مظلوموں کی شناخت ان کے مذہب سے نہیں کرتے۔ کئی مسلمانوں نے ہندو خاندانوں کی جان بچائی، انھیں اپنے گھروں میں پناہ دی اور بعد میں انھیں ان کے لوگوں کے پاس بحفاظت پہنچا دیا۔ ایک ویڈیو تو ایسا بھی میری نظروں سے گزرا جس میں مسلمانوں نے ایک فسادی کی بھی حفاظت کی، اس سے کوئی بدلہ نہیں لیا بلکہ اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ ذرا سوچیے یہ کیسے ہندو اور مسلمان تھے جنھوں نے نفرتوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے بیچوں بیچ محبت کا جزیرہ بنایا تھا۔یہ لوگ لاشوں کو گننے والوں میں سے نہیں تھے، یہ انسانیت کی تسبیح پڑھتے تھے اور انھی کے دم سے یہ ملک قائم ہے اور قائم رہے گا۔ لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب سماج کی ہم آہنگی اور اس کے اعتبار پر چوٹ لگائی جارہی ہو اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس کے تانے بانے کو بکھیرا جا رہا ہو تو ہمارا کیا فرض بنتا ہے؟ کیا ہم بھی اس جلتی ہوئی آگ میں گھی ڈال کر اس کی تپش بڑھاتے رہیں گے یا ہم ٹوٹے بکھرے اور خوفزدہ سماج میں حوصلے اور خود اعتمادی کی شمع روشن کریں گے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نایاب حسن
دہلی میں گزشتہ دوتین دنوں کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا،جو2002میں گجرات میں ہوا تھا،تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور امیت شاہ وہاں کے وزیر داخلہ تھے،اب مودی پورے ملک کےوزیر اعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات،دکانوں اور املاک کو جلایاگیا،لوٹاگیااور محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں،جن میں سے دوتہائی سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔مودی ٹرمپ کے استقبال واعزاز میں مصروف تھے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیند منگل کے دن ٹوٹی جب سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا، میڈیارپورٹس ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں انھوں نے دہلی کے حالات کو قابو کرنے کے لیے تین بار ہائی لیول میٹنگیں کی ہیں،اپنا کیرالہ دورہ منسوخ کردیاہے اور دہلی میں امن وامان کی بحالی کا ذمہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کے حوالے کردیاگیاہے،وہ ڈائریکٹ مودی اور کیبینیٹ کو رپورٹ کریں گے،خبر ہے کہ انھوں نے کل رات اورآج بھی فسادمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لیااور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔یہ سب ہورہاہے مگر حالات اب بھی تقریباًجوں کے توں ہیں،سیلم پور،جعفرآباد،شاہدرہ،کردم پوری،موج پور،کھجوری خاص،گوکل پوری وغیرہ میں تاحال وقفے وقفے سے سنگ باری اور شورش کی خبریں آرہی ہیں۔مودی نے ٹرمپ سے فارغ ہونے کے بعد آج ٹوئٹ کرکے دہلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرکے بڑی مہربانی کی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے وزیر داخلہ سےدہلی میں فوج اتارنے کی اپیل کی تھی،مگر وزارت نے اسے مسترد کردیاہے،البتہ فساد زدہ علاقوں میں مزیدریزروپولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
مختلف میڈیاویب سائٹس اورنیوزچینلوں کے رپورٹرز کے ذریعے فساد متاثرین کی جوروداد سامنے آرہی ہے اور سوشل میڈیاپر جو ویڈیوز،تصاویر اور آڈیوزسامنے آئے ہیں،وہ لرزہ خیز اوردل دہلانے والے ہیں۔باقاعدہ نشان زدکرکے مسلم گھروں اور دکانوں کو نذرِآتش کیاگیا اور بوڑھوں، بچوں، عورتوں سب کو زدوکوب کیاگیاہے۔ابھی خبر بیس لوگوں کے مرنے کی آرہی ہے،مگر فی الحقیقت کتنے لوگ اس قتل و غارت گری کے شکارہوئے اور ہورہے ہیں،اس کاپتانہیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دوماہ سے سی اے اے،این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے تھے اور یہ سارے احتجاجات پرامن تھے،شروع میں سیلم پور کے علاقے میں شورش ہوئی تھی اور جامعہ و شاہین باغ کے مظاہرین پر ہندوشدت پسندتنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی،مگر خود مظاہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا،جس سے ملک کے امن وامان یا قانون و آئین کو ٹھیس پہنچے اورقومی سالمیت کو نقصان ہو،مگر22فروری کی رات کوخبر آئی کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین نے جعفرآباد میٹرواسٹیشن کو گھیرلیاہے،اگلے ہی دن بی جے پی کے شکست خوردہ لیڈرکپل مشرانے پولیس کی پشتیبانی میں دھمکی آمیز انداز میں یہ بیان دیاکہ پولیس جعفرآبادسے مظاہرین کو ہٹائے،ورنہ ٹرمپ کے آنے تک توہم خاموش رہیں گے،مگراس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔اس کے بعد اسی رات(پیر کی رات) شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے،یہ سلسلہ پیر کے دن اور اس کے بعد بھی جاری رہا،شروع میں سی اے اے مخالف و حامی گروپ آمنے سامنے آئے اور ان کے درمیان پتھربازی ہوئی،مگر اس کے بعد یہ ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حملے کی شکل اختیارکرگیا،بعض مخلوط آبادی والے محلوں میں ہندوشدت پسندوں نے مسلمانوں کے مکانات کوباقاعدہ نشان زد کیااور بعد میں انھیں لوٹااور آگ کے حوالے کردیا۔ اشوک نگر کی ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے،جس میں پندرہ بیس سال کے لڑکے ایک مسجدکے مینارپر چڑھ کر بھگواجھنڈالہرارہے ہیں اورنیچے مسجد کے مختلف حصوں کو تہس نہس کردیاگیاہے،ایک مدرسے کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ اسے جلادیاگیا؛بلکہ اس کے کئی طلبہ کوبھی شہید کردیاگیاہے۔ایک ویڈیومیں ایک دس بارہ سال کا لڑکابھجن پورہ کے ایک مزارکوآگ لگاتانظر آرہاہے۔الغرض ایسے دسیوں انسانیت سوز و شرمناک مناظر سامنے آچکے ہیں،مگر کتنے ہی ان سے زیادہ خوفناک مناظر ہیں،جوسامنے نہیں آسکے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مودی حکومت کا رویہ نہایت ہی سردمہری والارہا،مودی کی ناک کے نیچے ملک کی راجدھانی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،مگر وہ پوری بے حسی کے ساتھ سرکاری پیسے بہاکر امریکی صدرسے اپنی دوستی نبھاتے رہے،وزیر داخلہ نہ معلوم کس گپھامیں گم تھے کہ پورے دودن بعد ان کا ری ایکشن آیااور اگر بات کریں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی،توانھوں نے بھی نہایت شرمناک ردعمل کا اظہار کیا۔پہلے تو اس پورے معاملے سے پہلو تہی کرتے رہے کہ لااینڈآرڈرہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،پھر ہلکا پھلاٹوئٹ کرکے کام چلایا،اس کے بعد ڈراماکرنے کے لیے راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور دہلی جلتی رہی،منگل کو وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،اس کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں فوج اتاری جائے،جاننے والے جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کیجریوال ہیں جواپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے گھر کے باہر دھرنابھی دے چکے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں توکیجریوال نے خالص منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیاہواہے۔الیکشن سے پہلے جامعہ و شاہین باغ میں ہونے والی فائرنگ یا سی اے اے واین آرسی کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں؛بلکہ اس پورے معاملے پر ہی گول مول موقف اختیار کیے رکھا،شروع میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے این آرسی پر ایسی باتیں کیں،جن سے مسلمان خوش ہوئے اور بعد میں عام آدمی پارٹی کے لوگ ان کادفاع کرتے رہے کہ اگر وہ شاہین باغ یا سی اے اے پر کھل کر بولیں گے،توانتخابی خسارہ ہوجائے گا،مگر اب جبکہ دوبارہ زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی حکومت آچکی ہے،پھر بھی ان کی زبان میں آبلہ پڑاہواہے،اب تک ایک لفظ ایسا ان کے منھ سے نہیں نکلا،جس سے اقلیتی طبقے کو دلاسہ و تسلی حاصل ہو،امیت شاہ اور مودی سے تو خیر کوئی توقع بھی نہیں کہ یہ دونوں اسی پروفیشن کے لوگ ہیں،مگر کیجریوال کو توایک امید کے ساتھ مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیاہے،پچھلی بار بھی دیاتھا اوراس بار بھی دیاہے،عملاً نہ سہی،زبانی تو اظہارِ ہمدردی کرتے۔فسادمتاثرین سے ملنے کے لیے جی ٹی بی ہسپتال گئے،مگر بیان ایسا دیا، جس کی ایک وزیر اعلیٰ سے ہرگزتوقع نہیں کی جاسکتی، بالکل ڈھیلاڈھالا اور لچر،بزدلانہ،حالاں کہ خودکبھی شیلا دکشت کو بزدلی کے طعنے دیاکرتے تھے۔کیجریوال کی جیت بلکہ اس سے پہلے دہلی الیکشن کے دوران ہی متعدد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھاکہ کیجریوال بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اسی جیسا طرزِ عمل اختیار کررہے ہیں،اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ہوتا،تب تو ٹھیک تھا،مگر ان کے چال چلن سے ایسا لگتاہے کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوتواکااپنا ایک نیا ایڈیشن لانچ کررہے ہیں،رام کے مقابلے میں ہنومان اور بجرنگ بلی کی باقاعدہ سیاست میں انٹری کرواچکے ہیں،دہلی اسمبلی میں ان کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے آئین و دستور کی بجاے بجرنگ بلی کے نام پرحلف اٹھائی،اس کے علاوہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں ہرماہ کے پہلے منگل کو”سندرکنڈ“کے پاٹھ کا پروگرام شروع کرچکے ہیں۔گرچہ ہر شخص کواپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے،مگر ایک سیاسی نمایندہ جب باقاعدہ اس کوایک شوکی شکل دیتاہے،تواس عمل کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔کیجریوال یاان کی پارٹی کے لیڈران اس طرح کی حرکت بس اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بی جے پی کے مذہبی چیلنج کااپنے مذہبی اپروچ سے مقابلہ کیا جائے۔ممکن ہے ان کی یہ حکمت عملی درست ہو،مگرانھیں یہ تو پتاہونا چاہیے کہ ان کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور انھوں نے انھیں ووٹ اس لیے دیاہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کوبھی ایڈریس کیاجائے،کیجریوال عملاً پوری طرح طوطاچشم ثابت ہورہے ہیں۔
حالیہ فسادکاسرامختلف راہوں سے گزرکربھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد تک بھی پہنچتاہے۔اسے سمجھنے سے پہلے 15دسمبر سے لے کر اب تک کے احوال اوران میں اس بندے کی موجودگی کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔15دسمبر کوجامعہ سانحے کے بعد یہ شخص اچانک آئی ٹی اوپر احتجاج کررہے طلبہ و طالبات کے بیچ جاپہنچااور دوچار بھڑک دار جملے بولے کہ جہاں کسی مسلم بھائی کا پسینہ بہے گا،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے اور سب سے پہلے ہم گولی کھائیں گے۔اس بیان کے بعد مسلمانوں نے اسے سرآنکھوں پر بٹھایا،محمودپراچہ جیسے لوگوں نے اسے مسلمانوں کی مسیحائی سونپ دی،19دسمبر کووہ جامع مسجد دہلی پہنچا اور مسجد کی سیڑھیوں سے ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کیا، تب بہت سے جذباتی مسلمانوں نے اندوہناک ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے چندر شیکھر آزاد اور ابوالکلام آزاد کوہم پلہ قراردینے کی کوششیں کیں۔جب دہلی پولیس نے اسے گرفتارکیااور کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوئی،توبعض ضرورت سے زیادہ قابل مسلمانوں نے ٹوئٹرپر ”امام اِزبیک“کے عنوان سے ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی۔اب حالیہ حادثے میں ان کے رول کی طرف آتے ہیں،23فروری کوبھیم آرمی نے بھارت بند بلارکھاتھا اوراس کی شروعات اسی رات سے تب ہوتی ہے،جب سی اے اے مخالف عورتیں (جن میں تقریباً سبھی مسلمان تھیں)جعفرآباد میٹرواسٹیشن پر جمع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیاپر خبریں آنے لگتی ہیں کہ جعفر آباد سے بھارت بند کی شروعات ہوچکی ہے،یعنی خواتین نے جوکچھ کیا،اس میں بھیم آرمی کی کال کا راست دخل تھا،اگلے دن کپل مشراکی زہریلی تقریر ہوئی اور پھر اس کے بعدکی وارداتِ کشت وخون سب کے سامنے ہے۔اس پورے عرصے میں چندرشیکھرآزاد منظرنامے سے غائب رہے،بس ٹوئٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کو ہدایت دیتے اور حکومت پر تنقید کرتے رہے۔حالاں کہ جو لڑکے مزارکو آگ لگاتے،مسجدکومسمار کرتے اور نہتے لوگوں پر لاٹھیاں برساتے نظرآرہے ہیں،یہ یقینی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دلت ہی ہوں گے۔
مسلمانوں کو اپنی خود سپردگی والی ذہنیت پر غوروفکر کرنی چاہیے۔ہمارے حق میں ہمارے ہی بیچ آکرہمدردی و تسلی کے دولفظ بولنے والے لوگ ہمارے ہیروبن جاتے ہیں اور ہم گویاان کے بے دام غلام بن جاتے ہیں،ہمیں ہوش تب آتاہے جب سب کچھ لٹ چکاہوتاہے۔آزادی کو اتنا لمبا عرصہ گزرگیا،مگر ہم تاحال اپنی کوئی سیاسی اسٹریٹیجی نہیں بناسکے،نہ ہم نے اپنی کوئی سیاسی قوت کھڑی کی اور نہ پریشر گروپ کی شکل میں ہندوستانی سیاست میں خود کو سٹیبلش کرسکے،ہمارے افتراق و انتشار نے قومی و ریاستی سطح پر کتنے ہی افراد اورجماعتوں کوآفتاب وماہتاب بنادیا،مگر ہم خود تاحال تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔ہر پانچ دس سال بعد ہماراسیاسی قبلہ بدلتاہے،امیدوں کا مرکز تبدیل ہوتاہے اورناکام ہوکر ہم پھرکسی نئے قبلۂ امید کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔چندرشیکھر آزادمایاوتی کا متبادل بنناچاہتے ہیں اوراس کے لیے انھیں اسٹیج ہم فراہم کررہے ہیں، کنہیا کمارسیاسی کریئر بنانے کے لیے ہمارے بیچ آکر آزادی کے نعرے لگارہاہے اور خود اس کی برادری کے لوگ اسے نجسِ عین سمجھتے اورجہاں کھڑا ہوکروہ تقریرکرتاہے،اس جگہ کی دھلائی،صفائی کرتے ہیں،بائیں بازوکے سیاست دان اور لبرل دانش وران اوردیگر مبینہ سیکولرسیاسی طالع آزما ہماری تحریک کے سہارے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اپنی جان بچانے کی فکرمیں ہیں…تعلیم،ترقی و خوشحالی کی طرف ہمیں دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملایاہم نے خود ایسا موقع پیداکرنے کی فکرنہیں کی!
احمد علی برقی اعظمی
ہے سبھی کے ان دنوں ورد زباں شاہین باغ
ہے جہاں میں مظہر عزم جواں شاہین باغ
جامعہ نے ملک وملت کو دکھائی جس کی راہ
بن گیا ہے اس کا میر کارواں شاہین باغ
ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، نے آج کی ہے جو رقم
ولولہ انگیز ہے اک داستاں شاہین باغ
محو ہو سکتا نہیں جو صفحہ تاریخ سے
حریت کا ہے وہ نقش جاوداں شاہین باغ
گونجتی ہے ہر طرف جس کی صدائے احتجاج
پوچھتے ہیں لوگ ہے آخر کہاں شاہین باغ
آج تک جن کا نہ تھا کوئی کہیں پرسان حال
ایسے مظلوموں کی ہے تاب و تواں شاہین باغ
اپنے حق کی بازیابی کی بصد جوش و خروش
لڑ رہا ہے جنگ بے تیر وکماں شاہین باغ
ہندو مسلم سکھ عیسائی ہیں سبھی اس میں شریک
آج جس تحریک کا ہے ترجماں شاہین باغ
دیکھ کر سب کچھ جو برقی اعظمی خاموش تھے
آج ہے ان بے زبانوں کی زباں شاہین باغ
جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگاہم خاموش بیٹھنے والے نہیں، ممبئی میں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں مولانا سید ارشدمدنی کا اعلان
نئی دہلی:مذہب کی بنیادپر تفریق کرنے والے قانون سی اے اے، این آرسی اور این پی آرکی موجودہ شکل کو ہم مستردکرتے ہیں، ہمیں ایسا کوئی قانو ن منظور نہیں جو آئین کی بنیادکو زدپہنچاتا اورشہریوں کے حقوق کو صلب کرتاہو، ہندومسلم اتحاد جمعیۃعلماء ہند کی بنیاد ہے اور آج انسانوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمند رمیں بھی ہندومسلم اتحاد کا عملی مظاہرہ ہورہا ہے، جمعیۃعلماء ہند اسی اتحادکے سہارے ان قوانین کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلائے گی ہم اب رکنے والے نہیں جب تک حکومت ان تینوں کو واپس نہیں لیتی ہماری تحریک جاری رہے گی ہم جھکنے والے نہیں، جس طرح ملک کے ہندواور مسلمانوں نے متحدہوکر انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا تھا ہم اس حکومت کو بھی جھکنے پر مجبورکردیں گے یہ الفاظ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی اس تقریر کا ابتدائیہ ہیں جو انہوں نے مجلس منتظمہ کے اجلاس کے اختتام پر ممبئی کے تاریخی آزادمیدان میں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہی، تقریر کیاتھی ایسامحسوس ہورہا تھا کہ سامعین کے دلوں کی آواز تھی اورلوگ ہمہ تن گوش تھے، انہوں نے اس پس منظرمیں آسام کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں کے ہندواور مسلمان اس امتحان سے گزرچکے ہیں جمعیۃعلماء ہند پچھلے پچاس برس سے اس مسئلہ میں ان لوگوں کے ساتھ عملی طورپر شریک رہی ہے،نشانہ وہاں کے 70۔80لاکھ مسلمانوں کو ریاست سے دربدرکردینے کا تھا چنانچہ شہریت کے حصول کے عمل میں ان کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکائے گئے، جمعیۃعلماء ہند نے اس کو لیکر مسلسل قانونی جدوجہد کی یہاں تک کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جب 48لاکھ خواتین کے سروں پر شہریت کھونے کی تلوار لٹکی تویہ جمعیۃعلماء ہندہی تھی جو سپریم کورٹ گئی اور اس فیصلہ کے خلاف کامیابی حاصل کی، پنچایت سرٹیفیکٹ کو قانونی دستاویز تسلیم کرلیا گیا ان 48لاکھ میں تقریبا 20لاکھ ہندوخواتین تھیں، جمعیۃعلماء ہند نے یہ کام اس لئے کیا کیونکہ وہ ہندواور مسلمان میں کوئی تفریق نہیں کرتی اپنے قیام سے لیکر اب تک وہ ہندومسلم اتحادکے راستہ پر چل رہی ہے، مولانامدنی نے آگے کہا کہ اس جماعت کو قائم کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے اس کے منشورمیں ہندومسلم اتحادکو ہی اولیت دی تھی تب سے یہ جماعت ہندومسلم اتحاد کی راہ پر گامزن ہے اور آئندہ بھی وہ اسی راہ پر چلتی رہے گی انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سی اے اے کے ذریعہ کسی کو شہریت دیتی ہے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں لیکن مذہب کی بنیادپر آپ اس ملک میں صدیو ں سے آبادلوگوں کی شہریت چھین لیں یہ ہمیں منظورنہیں، جمعیۃعلماء ہند ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض صوبائی حکومتوں نے اسمبلی میں تجویز پاس کرکے کہا ہے کہ وہ این پی آرکولاگونہیں کریں گی اس میں وہ کامیاب ہوں گی یانہیں یہ سوال بعد کاہے، اہم بات یہ ہے کہ عوام نے بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو مستردکردیا ہے، پہلے جھارکھنڈاوراب دہلی میں اسے دھول چاٹنی پڑی ہے، یہ تنہامسلمانوں کا کارنامہ نہیں ہے اگر ہندومسلم اتحادنہ ہوتاتو اس طرح کا نتیجہ کبھی نہیں آسکتاتھا ہم اسے اس لئے خوش آئند سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، بی جے پی نے ان دونوں ریاستوں میں جیتنے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی انہوں نے جو کچھ مسلم مخالف فیصلے کئے تھے اسے الیکشن میں ہر طرح سے کیش کرنے کی کوشش بھی کی دہلی میں تو ملک کے وزیر داخلہ نے سڑکوں سڑکوں گلیوں گلیوں گھوم کر ووٹ کی بھیک بھی مانگی، لیکن انہیں نہ تو ہندووں نے ووٹ کی بھیک دی اور نہ مسلمانوں نے، مولانا مدنی نے کہا کہ اسی لئے میں کہا کرتاہوں کہ ہندومسلم اتحاد ہی ہندوستان کی اصل طاقت ہے، اللہ نے چاہاتو بہار اور بنگال میں بھی ان کا یہی حشرہونے والا ہے اس کے لئے ہندومسلم اتحاد بہت ضروری ہے آپ تنہااس لڑائی کو جیت نہیں سکتے اس اتحادکو مضبوط کرنے کے لئے ہم پورے ملک میں کام کریں گے کیونکہ ہمارایہ یقین ہے کہ اگر ہندومسلم اتحادرہے گا تو یہ ملک چلے گا اور اگر یہ ٹوٹا تو ملک ٹوٹ جائے گا، انہوں نے حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جس طرح 1951 سے 2010 تک مردم شماری ہوتی رہی ہے اگر اسی طرز پر مردم شماری کراؤ گے توہم تمہارے ساتھ ہیں مگر موجودہ شکل میں این پی آرکو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں عوام کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے ہماراووٹ حکومت بناتاہے اور یہی ووٹ حکومت گرابھی سکتاہے، حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے مولانامدنی نے کہا کہ تمہیں ہماری طاقت کے آگے جھکنا پڑے گا، یہ طاقت ہندومسلم اتحادکی طاقت ہے، سی اے اے،این پی آراور این آرسی کے خلاف پورے ملک میں ہورہے تاریخی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مظاہرہ کررہی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پردہ دار مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سڑکوں پر سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے کئی مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں ہم ان کے جذبے اور حوصلہ کو سلام کرتے ہیں، وزیراعظم نریندرمودی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی جی دیکھ لویہ وہی خواتین ہیں جنہیں کل آپ اپنی بہن کہتے تھے اورجن کو انصاف دینے کے نام پر آپ نے ہماری شریعت میں مداخلت کی،طلاق کا قانون لائے اور تب آپ نے کہا تھا کہ ہم نے صدیوں سے ظلم کا شکارمسلم بہنوں کو انصاف دیا ہے آج وہی بہنیں آپ کے ذریعہ لائے گئے سیاہ قانون کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں اور آپ ان کی آوازتک سننے کو تیارنہیں ہیں اس سے ثابت ہوا کہ آپ مسلم خواتین کے ہمدردنہیں بلکہ مسلم دشمنی میں آپ نے طلاق کو قابل سزا جرم بنایا ہے انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ ہرگز نہ دیں بلکہ اسے ہندومسلم ملاجلااحتجاج بنائیں انہوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ دیں گے تواس کامطلب ہوگا کہ آپ بی جے پی کے نظریہ کو تقویت دے رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آگ کو آگ سے نہیں پانی سے بجھایا جاتاہے اس لئے منافرت کی اس آگ کو محبت کی بارش سے بجھانے کی ضرورت ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی اے اے، این پی آراور این آرسی کی صورت میں جو مصیبت ملک پر مسلط کی گئی ہے یہ تنہامسلمانوں کیلئے مصیبت نہیں بلکہ یہ سب کی لڑائی ہے کیونکہ اس سے دلت اور دوسرے کمزورطبقات بھی متاثرہوں گے انہوں نے آخرمیں ایک بارپھرحکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اوراعلان کیا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوتاوہ خاموش نہیں بیٹھیں گے انہوں نے کہا کہ ہم اسی طرح کے جلسے پورے ملک میں کریں گے ہندوّں اورمسلمانوں کو ایک ساتھ لاکر تحریک چلائیں گے اور حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبورکردیں گے۔
دوسرے دن بھی مذاکرات کار شاہین باغ پہنچے
نئ دہلی:دہلی کے شاہین باغ میں راستہ کھلوانے کے لیے آج پھر ثالث سادھنا رام چندرن اور سنجے ہیگڑے پہنچے۔ انہوں نے مظاہرین سے بات چیت کی۔سادھنا رام چندرن نے کہاہے کہ آپ نے بلایا تو ہم واپس آئے ۔کل ہمیں حوصلہ ملا۔ہم سب ہندوستان کے شہری ہیں۔ہم سمجھ کرچلے جائیں گے۔آپ کوسمجھنا ہوگا کہ سی اے اے کامسئلہ سپریم کورٹ کے سامنے آئے گا۔انہوں نے بند سڑک کے معاملے پر بات چیت شروع کی۔ سنجے ہیگڑے نے کہاہے کہ کسی کو تکلیف ہورہی ہے توسب مل جل کر راستہ نکالیں۔کچھ ہی دیر بعد سادھانا رام چندرن نے میڈیا کی موجودگی پراعتراض کیا۔ اس کے بعدمیڈیاکے نمائندے دھرناکی جگہ سے باہرچلے گئے۔غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے شاہین باغ کے بند راستے کو کھلوانے کے لیے مظاہرین سے بات چیت کے لیے ثالثوں کی تقرری کی ہے۔جب کہ نوئیڈاکی طرف سے دوکلومیٹردورسے ہی متبادل راستوں کوپولیس نے ہی بندکررکھاہے۔مذاکرات کارسنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن نے بدھ کو بھی شاہین باغ میں دھرنا دے رہے لوگوں سے بات چیت کی تھی لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔دونوں ثالث جمعرات کو بھی دھرناکی جگہ پرپہنچے اور لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ سادھنا رام چندرن نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے وہ مسئلہ ہے، ہم اس پر بات نہیں کریں گے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مظاہرہ کرنے کاحق سب کوہے۔ ہمیں سڑک بند ہونے کے معاملے پر بات کرنے کے لیے بھیجاگیاہے۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شاہین باغ برقرار رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ شاہین باغ میں ہی رہیں اور لوگوں کو پریشانی نہ ہو، تو آپ کو منظورہے؟ اس پر وہاں موجود لوگوں نے کہا، نہیں، سڑک نہیں چھوڑیں گے۔اس کے بعد سادھنا رام چندرن نے کہا کہ ہم ہندوستان کے شہری ہیں، ایک دوسرے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔ہمارا ایمان ہے کوشش کرنا۔پوری کوشش کے بعد اگر یہ مسئلہ نہیں سلجھا تو یہ کیس واپس سپریم کورٹ جائے گا، پھر حکومت جو کرنا چاہے گی کرے گی۔ہر مسئلے کا حل ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ حل نکلے اورشاہین باغ کو برقرار رکھ کر نکلے، تو صحیح رہے گا۔سنجے ہیگڑے نے کہاہے کہ سپریم کورٹ یہ دیکھ رہا ہے کہ شاہین باغ ایک مثال ہوناچاہیے۔ یہ ہوکہ کسی کو تکلیف ہوئی تو سب نے مل جل کر راستہ نکالا۔ہم سن رہے تھے کہ دوماہ سے بیٹھے ہیں، کہ آپ کیامصیبت ہے۔ہم ایک دوسرے کی مددکرنے کے لیے ہیں۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مظاہرے کا حق برقرار رہے۔شاہین باغ برقرار رہے پر کسی کو پریشانی نہ ہو۔اس کے بعد مظاہرین نے اختلاف کیا۔سنجے ہیگڑے نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں سے ہٹیں گے کو کوئی سننے والا نہیں آئے گا؟ یہی تو کہہ رہے ہیں نہ آپ۔ہم کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ہم آپ کی آوازاٹھائیں گے۔ہم آپ کے درمیان آکر آپ کی بات سنیں گے، ہم پر یقین رکھیں۔اس کے بعدسادھنارام چندرن نے کہاکہ مذاکرات کارنہیں چاہتے کہ وہاں میڈیا موجود رہے۔ اس کے بعد میڈیا اہلکار دھرناکی جگہ سے باہرچلے آئے۔ذرائع کے مطابق بعد میں سنجے ہیگڑے نے کہا کہ سپریم کورٹ کے لیے بہت آسان تھا کہ پولیس کو بول کر ہٹوا دے، لیکن کورٹ نے ایسانہیں کیاہے۔کورٹ بھی آپ کی بات سمجھتا ہے۔ شاہین باغ میں اور کہیں بھی لوگوں کو تکلیف ہو تو مظاہرہ ہونا چاہیے لیکن کورٹ کہتا ہے کہ کل نوئیڈا والے ڈی این ڈی جام کرکے بیٹھ جائیں تو ایسے ملک نہیں چلے گا۔ سپریم کورٹ بھی سمجھتا ہے کہ چھوٹے سے کورٹ روم میں سب کونہیں سناجاسکتا، اس لیے ہمیں بھیجاگیا۔انہوں نے کہاہے کہ آپ کے ہاتھ میں تاریخ ہے، آپ کے ہاتھ میں فیصلہ ہے۔جہاں عورتوں کا غلبہ ہوتا ہے وہی ملک آگے بڑھتاہے۔ ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے، یہ میں مانتا ہوں۔آپ کے ہاتھوں میں طاقت ہے، سب کے لیے سوچیے۔آپ سے گزارش ہے کہ آپ یہ بتائیے کہ آگے معاملہ کس طرح بڑھ سکتا ہے؟
ملک کے ظالمانہ قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے _ نوجوانوں کے جو مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے شروع ہوئے تھے وہ بہت سی دیگر یونی ورسٹی میں بھی ہوئے ، اس کے بعد پورے ملک میں پھیل لگے _ جلد ہی جنوبی دہلی کے ‘شاہین باغ’ میں خواتین نے محاذ سنبھالا ، جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور اس کے طرز پر ملک میں جگہ جگہ ‘شاہین باغ’ قائم ہو گئے _ ان مظاہروں کی شدّت میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے اور امید ہے کہ یہ ابھی کچھ اور عرصہ جاری رہیں گے _
مظاہروں کا ایک فائدہ تو یہ سامنے آیا کہ حکم راں جماعت کی جو ہیبت عوام کے دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی اس میں بہت حد تک کمی آئی ، مظاہروں میں ظلم اور نا انصافی پر مبنی حکومتی پالیسیوں کا کھل کر تجزیہ کیا گیا ، جس سے عوام میں بیداری آئی اور وہ اپنے بھلے بُرے کی تمیز کرنے لگے _ ان کا دوسرا فائدہ یہ دکھائی دیا کہ نوجوانوں کی قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ، مسائل کا ادراک اور تجزیہ کرنے اور ان پر پورے اعتماد کے ساتھ اظہارِ خیال کرنے کی ان کی صلاحیت بڑھی _ مختلف چینلس اور نیوز پورٹلس نے ان مظاہروں کو کَوَر کرنے کی کوشش کی تو ان کے اینکرس اور رپورٹرس کے سوالات کے جوابات نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے جس خود اعتمادی اور مہارت کے ساتھ دیے ہیں اس سے ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں محفوظ ہونے کی امید بندھتی ہے _ ان مظاہروں سے حاصل ہونے والے کچھ اور فائدے بھی بیان کیے جاسکتے ہیں ، لیکن امّت کے باشعور طبقے کو ان نقصانات کی بھی فکر کرنی چاہیے جو ان مظاہروں سے مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پہنچ سکتے ہیں _ ممکنہ نقصانات کے کچھ اشارے ملنے لگے ہیں _ ان کے تدارک کی ابھی سے فکر کرنی ضروری ہے _ اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی اور غفلت برتی گئی تو بعد میں بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اس وقت کفِ افسوس ملنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا _
جاری مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی غالب اکثریت مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہے ، اگرچہ مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی قلیل تعداد میں شریک ہیں _ ان میں اظہارِ خیال کرنے والے وہ تمام لوگ ہیں جو حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے نالاں ہیں اور انہیں ظالمانہ و جابرانہ سمجھتے ہیں _ مقرّرین کی بڑی تعداد کمیونسٹ فکر و فلسفہ والوں کی ہے ، جو اگرچہ ہندوتوا کے سخت خلاف ہیں ، لیکن وہ تمام مذاہب سے فاصلہ بناکر رکھتے ہیں اور ان پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے _ اسلام کا بھی اس سے استثنا نہیں ہے _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مظاہروں کو مذہبی شناخت کے اظہار سے دور رکھا جاتا اور سب مل کر صرف اصل مقصد (ظالمانہ قوانین کی مخالفت) پر فوکس کرتے ، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے ، چنانچہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسے کام کیے جانے لگے اور ایسی سرگرمیاں انجام دی جانے لگیں جو وحدتِ ادیان تک لے جانے والی ہیں _ تمام مذاہب کے مراسم سب مل کر انجام دیں ، یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مظاہرہ کا درست طریقہ نہیں ہے _ اسلام عقائد اور طرزِ معاشرت کے معاملے میں بہت حسّاس ہے _ وہ اپنے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ نام نہاد ہم آہنگی کے اظہار کے لیے آنکھ بند کرکے شرکیہ نعرے لگائیں اور دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرلیں _ ظلم کے خلاف مشترکہ جدّوجہد کی متعدد مثالیں سیرت نبوی سے پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن یہ دوسروں کی شرائط پر اور ان کے ہرکارے اور پیادے بن کر نہیں ، بلکہ اپنی شرائط پر اور اپنے دین کی بنیادی قدروں کی رعایت کرتے ہوئے ہونا چاہیے _
اس سلسلے میں وہ لوگ زیادہ مفید نہیں ہوسکتے جو ان مظاہروں میں عملاً شامل نہیں ہیں اور محض دور کے تماشائی ہیں ، بلکہ وہ نوجوان لڑکے ، لڑکیاں اور خواتین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو ابتدا سے ان مظاہروں کو منظّم کررہے ہیں ، ان میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اور انھیں صحیح سمت دینے پر قادر ہیں _ انہیں ابھی سے اس کی فکر کرنی چاہیے کہ کچھ عرصے کے بعد جب یہ مظاہرے ختم ہوں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کا اغوا ہوچکا ہو اور غیر اسلامی افکار و نظریات ان کے ذہنوں میں گھر کر چکے ہوں _
میں بہ خوبی جانتا ہوں کہ ان مظاہروں میں شامل نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کی خاصی تعداد اسلام پسند ہے _ وہ بغیر کسی تکلّف اور جھجھک کے دینی شعائر پر برملا عمل کرتے ہیں _ اس موقع پر ان کی ذمے داری بڑھ کر ہے _ انہیں ابھی سے ان اندیشوں کا تدارک کرنے کی فکر کرنی چاہیے جو ان کے ساتھیوں پر مستقبل میں ان مظاہروں کے پڑنے والے اثرات کے سلسلے میں لاحق ہیں _ اللہ تعالیٰ انھیں توفیق مرحمت فرمائے ، آمین _
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ظالمانہ قوانین کے خلاف پورے ملک میں جو احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں ان میں خاص طور پر طلبہ ، طالبات ، نوجوانوں ، دوشیزاؤں اور خواتین کی شمولیت بہت خوش آئند ہے _ جنوبی دہلی کے علاقے ‘شاہین باغ’ کو اس معاملے میں عالمی طور پر شہرت حاصل ہوئی ہے ، جہاں دو ماہ سے خواتین ڈٹی ہوئی ہیں اور دن رات مسلسل احتجاجی مظاہرہ کرکے ان ظالمانہ قوانین کے خلاف اپنی ناراضی اور بے اطمینانی ظاہر کررہی ہیں _ ان کی نقل میں پورے ملک میں تقریباً دو سو ‘شاہین باغ’ آباد ہوگئے ہیں _
یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ ملک کے تمام طبقات ان مظاہروں میں شریک ہیں ، خواہ وہ سیکولر ہوں یا کمیونسٹ یا کسی مذہب کو ماننے والے _ چنانچہ ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ سکھ بھائیوں کی بھی بڑی تعداد ہم قدم ، ہم دوش اور ہم آواز ہے اور کمیونسٹ لوگ بھی پوری طاقت کے ساتھ مخالفت کررہے ہیں _ اس طرح حکم رانوں تک یہ پیغام جا رہا ہے کہ اس قانون کی مخالفت صرف مسلمان ہی نہیں کررہے ہیں ، بلکہ پورا ملک شریک ہےـ
ابتدا میں ان مظاہروں میں بعض پُرجوش مسلم نوجوانوں نے لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کے نعرے لگائے تھے تو ان سے کہا گیا کہ مظاہروں کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے _ یہ بات کہنے والوں میں میں بھی شامل تھاـ اس لیے کہ میرے نزدیک یہ حکمتِ عملی کے خلاف ہے _ اس وقت یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ ان قوانین کی مخالفت صرف مسلمان ہی نہیں کررہے ہیں ، بلکہ ان کے ساتھ ملک کے تمام شہری شامل ہیں ، اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ ان میں ایسے نعروں کو رواج دیا جن سے ملک کے تمام شہریوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا اظہار ہوتا ہوـ
موجودہ حالات میں ملک کے تمام طبقات کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے _ فرقہ وارانہ ہم آہنگی یہ ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوـ اس کے ساتھ وہ باہم شِیر و شَکر ہوکر رہیں _ لیکن بعض لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اپنی مذہبی شناخت ترک کردیں اور برادرانِ وطن کے رنگ میں رنگ جائیں ـ چنانچہ انھوں نے کمال ہوشیاری سے ان مظاہروں میں اس چیز کو رواج دینے کی کوشش کی اور سادہ لوح مسلم نوجوان اور خواتین بغیر سوچے سمجھے اس کا شکار ہوگئےـ
دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ ان مظاہروں میں بعض لوگوں نے ‘بھارت ماتا کی جے’ یا اس جیسے دوسرے شرکیہ نعرے لگائے تو مسلمان بھی وہ نعرے لگانے لگے ، ہَوَن اور پرارتھنا کی گئی تو مسلمان بھی ان میں شامل ہوگئے ـ ایک مسلم خاتون نے پیشانی پر بندیا لگالی اور اپنی ہیئت غیر مسلم عورت کی بناکر پریس رپورٹر سے کہنے لگی : پہچانو ، میں کون ہو؟ یہاں تک کہ آج مسلم خواتین سے وہ کام کروالیا گیا جسے کسی طرح پسندیدہ نہیں قرار دیاجاسکتاـ 14 فروری کو پوری دنیا میں ‘ویلنٹائن ڈے’ (یومِ عاشقان) کے نام سے منایا جاتا ہے _ اس دن غیر شادی شدہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں محبت کے جھوٹے عہدوپیمان کرتے ہیں _ یہ اصلاً عالمی سطح پر بے حیائی کو فروغ دینے کی کوشش ہے _ آج کے دن کمال عیّاری کے ساتھ شاہین باغ کی بہنوں اور بیٹیوں کے ہاتھوں میں ویلنٹائن ڈے کے پوسٹر تھما دیے گئےـ
میرے لیے خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ متعدد نوجوانوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا ان مظاہروں میں شرکیہ نعرے لگانے میں مسلمانوں کی شرکت درست ہے؟ میں نے صاف الفاظ میں انہیں جواب دیا ہے کہ بالکل درست نہیں ـ
میرے لیے خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی متعدد خواتین نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا مسلم خواتین کا دیگر مذاہب کے شِعار اپنانا اور غیر اسلامی کلچر کے مظاہر اختیار کرنا درست ہے؟ میں نے انہیں صاف الفاظ میں جواب دیا ہے کہ بالکل درست نہیں ـ
یہی بات میں اپنی دوسری بہنوں اور بیٹیوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں ـ عِفّت مآب بہنو اور پیاری بیٹیو ! آپ ظالمانہ قوانین کے خلاف دو ماہ سے ڈٹی ہوئی ہیں ـ واقعہ یہ ہے کہ آپ اس معاملے میں مردوں سے آگے بڑھ گئی ہیں _ آپ کا جذبہ مبارک _ اللہ تعالیٰ آپ کی جدّوجہد کو قبول کرے اور اس کے اجر سے نوازے _ لیکن آپ کو ہوشیار رہنا ہے _ ایسا نہ ہو کہ کچھ عیّار اور مکّار لوگ آپ کی معصومیت اور سادہ لوحی کا فائدہ اٹھا کر آپ کو بہکادیں اور غلط راہ پر ڈال دیں _ ان مظاہروں کو فرقہ واریت سے بچانا اور ان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ایسے نعرے لگانے لگیں جو آپ کے ایمان و عقیدہ کے خلاف ہوں ، آپ ایسے کام کرنے لگیں جن سے آپ کی مسلم شناخت گُم ہوجائے ، آپ اپنی ایسی ہیئت بنالیں کہ آپ کو دوسرے مذہب کا سمجھا جانے لگے ، آپ اپنے ہاتھوں میں ایسے پوسٹر ، بینر اور پلے کارڈ اٹھالیں جن سے عِفّت اور شرافت پر حرف آنے لگےـ
اگر آپ نے ہوشیاری اور بیدار مغزی نہ دکھائی اور اپنی مسلم شناخت گُم کردی تو یہ بڑے خسارے کا سودا ہوگاـ اللہ تعالٰی آپ کو محفوظ رکھے- آمین
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دہلی الیکشن کے نتائج آنے کے بعد سوشل میڈیا میں یوں طوفان برپا ہوگیا ، جیسے یہ عام انتخابات (لوک سبھا) کے نتائج ہوں۔ مہاراشٹر اور جھاڑ کھنڈ کے فیصلوں کے بعد بھی اتنا جوش خروش نظر نہیں آیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ملک بھر میں CAA، NPR اور NRC کے خلاف تحریکوں اور اس کے ردعمل میں مرکزی حکومت کے سخت رویے کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف صوبوں بطور خاص اتر پردیش میں جس طرح احتجاج کرنے والوں پر یوگی سرکار کا قہر برسا، اس نے ہندوستان کی عوام کے اندر عدم تحفظ کا احساس بھر دیا۔اگر یہ کہا جائے کہ دہلی ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کا مرکز رہا تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک طرف جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں دہلی پولیس کی بربریت ، پھر جے این یو کے طلبا پر نقاب پوشوں کا حملہ ، شاہین باغ کے مظاہرے کا قیام، گوپال شرما اور کپل گجر کے ذریعہ جامعہ اور شاہین باغ پر گولی باری جیسے کئی واقعات پے درپے ہوئے تو دوسری طرف اسی دہلی میں مرکزی سرکار کے وزرا اور بی جے پی نے مظاہرین کا حوصلہ پست کرنے اور انھیں بدنام کرنے کے لیے کئی چرکے لگائے، بطور خاص شاہین باغ کو ٹارگیٹ بنا لیا گیا۔ اس اختلاف میں بی جے پی نے اپنے ترکش کے تمام تیر آزمالیے، تمام اخلاقی حدود توڑ دیے ، حتیٰ کہ عوامی نمائندوں نے اپنے عہدوں کے وقار تک کو اپنے ہی پاؤں تلے روند دیا۔ کبھی وزیر داخلہ نے شاہین باغ کو کرنٹ لگانے کی بات کی، کبھی اس کے مرکزی وزرا نے "گولی مارو” کے نعرے لگا کر اپنے بھکتوں کو فرقہ وارانہ دنگوں کے لیے اُکسایا، کبھی شاہین باغ کو منی پاکستان کہا گیا اور کبھی انھیں ریپسٹ اور لٹیرا کہا گیا۔ اس پورے پس منظر میں مرکزی سرکار، خود وزیر اعظم اور دہلی پولیس کی خاموشی اور بے حسی نے نفرت کے ان شعلوں کو ہوا دینے میں کلیدی رول ادا کیا۔ نتیجتاً شاہین باغ ظلم و جبر کے خلاف پورے ملک میں ایک استعارہ بنتا چلا گیا اور اس طرح پورے ملک کی عوام دہلی سے جذباتی طور پر جڑتی چلی گئی۔ یہ وابستگی روز بہ روز اتنی بڑھتی چلی گئی کہ ایک وقت آیا جب دہلی سے ہزاروں کیلو میٹر دور بیٹھا شخص بھی خود کو شاہین باغ کی عورتوں اور جامعہ ملیہ کے طلبا کے ساتھ کھڑا ہوا محسوس کرنے لگا۔ دہلی کی ہر چیخ میں اس کی آواز شامل ہوتی چلی گئی ، حتیٰ کہ ملک کے مختلف شہروں سےلوگ بھی یہاں پہنچنے لگے جن میں پنجاب کے سکھ مردوں اور عورتوں پر مشتمل سینکڑوں لوگ بھی شامل ہیں۔اس صورت حال کو دیکھ کر مرکزی حکومت اور بی جے پی لیڈروں کے اوسان خطا ہوگئے ، انھوں نے بوکھلاہٹ میں دہلی الیکشن کو "ہندوستان بنام پاکستان” قرار دے دیا ، امیت شاہ نے شاہین باغ کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کردیا، یہاں تک کہ نریندر مودی نے بھی شاہین باغ کو دہلی الیکشن کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اپنے وزارت عظمیٰ کے وقار کو خاک میں ملادیا۔ اس پس منظر میں اب دہلی کا الیکشن صرف دہلی کا نہیں رہا، پورے ہندوستان کا بن گیا۔ اب یہ کوئی صوبائی الیکشن نہیں رہا بلکہ دو بیانیوں (Narratives) کے درمیان کی جنگ ہوگئی جس کا فیصلہ 11 فروری کو ہونا تھا کہ اس ملک کو کس طرف جانا ہے اور کیسے جانا ہے؟ چنانچہ تماشہ ہوا اور خوب جم کر ہوا، پورا ملک سانس روکے اس تماشے کو دیکھ رہا تھا جس میں بی جے پی نے فتح حاصل کرنے کے لیے اپنے تمام اہم لیڈروں کو جھونک دیا ، یعنی خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے علاوہ اپنے 200 سے زائد پارلیمنٹ ممبر، مختلف صوبوں کے 11وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعلیٰ اور متعدد مرکزی وزرا کی فوج کو اپنے قریبی حریف اروند کیجری وال اور ان کی عام آدمی پارٹی کے مقابلے میں کھڑی کردی۔ بی جے پی نے ایسا زبردست محاذ نہ مہاراشٹر میں کھڑا کیا تھا، نہ جھاڑ کھنڈ میں؛ اس کی وجہ صاف ہے کہ دہلی کا اسمبلی الیکشن صرف کسی ایک صوبے کو جیتنے سے زیادہ تھا، یہ الیکشن بی جے پی کے نظریاتی وجود کی بقا سے منسلک ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس الیکشن کے نتائج سامنے آئے اور اروند کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کو شاندار فتح نصیب ہوئی تو صرف دہلی میں ہی اس کا جشن نہیں منایا گیا بلکہ ہندوستان کی عوام نے اطمینان کی لمبی سانس چھوڑی اور اس کا چہرہ گلنار ہوگیا۔
نتائج آنے کے بعد مختلف چینلوں اور سوشل میڈیا میں اس پر گفتگو کا دور شروع ہوا، مختلف نقطہ نظر سے ان نتائج کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ان میں سے کچھ تجزیے مختلف و متضاد دلائل پر مبنی ہیں لیکن زیادہ تر بحثیں جذباتی اور ہنگامی ہیں ۔ اگر ان تمام بحثوں اور دعوؤں کو نچوڑا جائے تو اس سے تین بڑے سوال ابھر کر سامنے آتے ہیں:
(1) کیا دہلی کے الیکشن کے نتائج نے بی جے پی کے بیانیے کو ختم کردیا ہے یا اس پر لگام لگا دیا ہے؟
(2) کیا عام آدمی پارٹی کی جیت میں شاہین باغ کے مظاہرے کی شراکت صفر تھی؟
(3) کیا ان نتائج نے اروند کیجریوال کو ہندوستانی سیاست میں ایک متبادل کے طور پر مستحکم کیا ہے؟
فی الحال ہم انھی تین سوالوں کو اس تجزیے کی بنیاد بناتے ہیں ، بقیہ ضمنی نکات پر پھر کبھی ہم گفتگو کرلیں گے۔
پہلے سوال کے جواب میں صرف یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ دہلی الیکشن کے نتائج نے نہ تو بی جے پی کے بیانیے کو ختم کیا اور نہ اس پر لگام لگائی ہے اور نہ بی جے پی دوسرے صوبوں میں ہونے والے انتخابات پر اپنا لائن آف ایکشن بدلنے والی ہے اور نہ وہ بیانیہ جس پر اس کا وجود قائم ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو خود دہلی کے نتائج ہی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو بلاشبہ 62 سیٹیں ضرور ملی ہیں لیکن 2015 کے مقابلے میں 5 سیٹیں کم ہیں اور ووٹ میں ایک فیصد کی کمی بھی آئی ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی کو 2015 کے مقابلے اس الیکشن میں 5 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے اور اس کے 5 فیصد ووٹوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے دہلی کی ان سیٹوں پر ہی زیادہ تر کامیابی حاصل کی ہے جہاں اترپردیش ، بہار اور جھاڑ کھنڈ کے لوگوں کی اکثریت ہے، گویا بی جے پی کی ان سیٹوں پر جیت بتا رہی ہے کہ وہ بے شک دہلی الیکشن میں ہار ضرور گئی ہے لیکن ملک گیر سطح پر اس کا بیانیہ کمزور نہیں پڑا بلکہ اسے قدرے مضبوطی بھی ملی ہے۔مذہبی بنیادوں پر بی جے پی کی سیاست نے اس الیکشن میں اروند کیجریوال کو بھی متاثر کیا اور انھیں بھی اپنی دفاع میں "جے شری رام ” کے سامنے "بجرنگ بلی” کو کھڑا کرنا پڑا۔ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے بی جے پی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ایسا کیا لیکن بہرحال انھیں بیک فٹ ہو کر اپنا بچاؤ اسی قسم کی سیاست سے کرنا پڑا جو صرف بی جے پی کے لیے مخصوص ہے۔ گویا نہ چاہتے ہوئے بھی اروند کیجریوال کو بی جے پی کے بیانہ میں شراکت کرنی پڑی اور انھیں خود کو ہندو ثابت کرنے کے لیے "ہنومان چالیسا” تک پڑھنا پڑا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بی جے پی نے اروندکیجریوال کا وہی حشر کیا جو کافی پہلے اس نے انھی خطوط پر چل کر کانگریس کا کیا تھا ۔
یاد کیجیے ان دنوں کو،جب بی جے پی نے کانگریس پر حملہ بولا کہ وہ ہندو مخالف پارٹی ہے اوروہ صرف مسلمانوں کے ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے تو کانگریس کے لیڈر کس قدر پریشان ہوگئے تھے کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے اکثریتی ووٹ کی زمین کھینچی جارہی ہے ۔چنانچہ کانگریس کو اپنی امیج کو درست کرنے کے لیے کانگریس کو صفائی دینی پڑی تھی کہ یہ افواہ ہے، وہ مسلم پارٹی نہیں ہے اور اس کے بعد اس نے آنے والے دنوں میں مسلمانوں اور ان کے مسائل کو نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔ کانگریس کے ان اقدام سے اس نظریے کو تقویت ملی کہ ایک جمہوری ملک میں مسلمانوں یا کسی دوسری اقلیت کے حقوق کے لیے لڑنا کسی سیاسی پارٹی کا لڑنا شرمندگی اور بدنامی کا باعث ہے۔ چنانچہ کانگریس اپنی امیج بدلنے کی کوشش کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کا یقین کھوتی چلی گئی جو اب تک وہ بحال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ بی جے پی نے بالکل اسی طرح کا وار دہلی کے الیکشن میں اروند کیجریوال کے ساتھ کیا، انھیں پاکستانی دلال کہا، آتنک وادی کہا، شاہین باغ میں بریانی پہنچانے والا ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا سرپرستی کرنے والا کہا وغیرہ وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اروند کیجریوال بھی بیک فٹ پر ہوئے اور انھوں نے یہاں تک بیان دے دیا کہ اگر دہلی پولیس ان کی ماتحتی میں ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں شاہین باغ خالی کراسکتے تھے۔ شاہین باغ کی عورتوں کے دل ٹوٹے لیکن یہ سوچ کر صبر کرلیا کہ ممکن ہے کہ ان کی یہ چناوی حکمت عملی ہو۔ لیکن جب نتائج سامنے آگئے تو میڈیا نے عام آدمی پارٹی کے قد آور لیڈر سنجے سنگھ کا دل ٹٹولتے ہوئے پوچھا کہ اب نتائج سامنے آچکے ہیں تو پھر کیا اروندکیجریوال شاہین باغ جائیں گے؟ اس کے جواب میں سنجے سنگھ صرف آئیں بائیں شائیں کرکے رہ گئے۔ واضح رہے کہ اروند کیجری وال نے 7 صوبوں کی اسمبلیوں کی طرز پر دہلی کی اسمبلی میں CAA، NPRاور NRCکے خلاف قرار داد پاس کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اروند کیجریوال نے دہلی میں جامعہ، جے این یو اور شاہین باغ پر ہونے والے تشدد کی مذمت بھی کی، سرکار اور دہلی پولیس کو ٹوئیٹ کرکے پھٹکار بھی لگائی لیکن زمینی سطح پر اسے محض رسمی کاروائی ہی سمجھا جائے گا ۔ اس کے برخلاف پرینکا گاندھی کا ردعمل ذرا مختلف نظر آیا ، وہ نہ صرف جامعہ کے طلبا سے ملیں، انھوں نے دھرنا دیا ، صدر جمہوریہ ہند کو میمورنڈم دیا، فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی تشکیل کی اور اتر پردیش کے مختلف علاقوں میں گھوم گھوم کر زخمیوں اور مقتولین کے پریواروں سے ملاقات بھی کی اور انھیں فوری راحت بھی پہنچائی۔
اروند کیجریوال ، عام آدمی پارٹی کے دوسرے لیڈر اور اسی رو میں بہہ جانے والے ان کے حمایتی بھی چناؤ کے درمیان یہی تاثر دینے لگے کہ شاہین باغ کا اس الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان کے لیےکوئی ایشو ہے۔ اسے بھی عام آدمی پارٹی کی چناوی حکمت عملی سے تعبیر کیا گیا ، جب کہ اس کے برخلاف بی جے پی نے دہلی الیکشن شاہین باغ کے ہی ایشو پر لڑا۔ نتائج آنے کے بعد سنجے سنگھ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کا داؤ الٹا پڑا اور لوگوں نے شاہین باغ کو خواہ مخواہ ایشو بنانے پر عام آدمی پارٹی کوو وٹ دے دیا۔ گویا ناک گھما کر پکڑی جارہی ہے۔ اگر شاہین باغ ایشو ہی نہیں تھا تو داؤ کیسے الٹا پڑا؟ شاہین باغ پر بی جے پی کے جارحانہ اسٹینڈ کی مخالفت میں عوام کا غصہ بھی تو شامل تھا جو دہلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے ووٹوں کی شکل میں کیش ہوا۔ جن گالیوں کے زہر کا گھونٹ شاہین باغ کی عورتوں نے صبر سے پی لیا تھا، جس طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبا کو پاکستانی،غدار، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کہہ کر پولیس نے ان پر جم کر تشدد کیا، جس طرح کھلے عام گوپال شرما اور کپل گجر کی گولیوں کے جواب میں ہاتھوں میں ترنگا لہراتا رہا اور زبان پر انقلاب زندہ بعد کے نعرے ہی گونجتے رہے، کیا واقعی اس کا دہلی کے ووٹروں پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ صرف اوکھلا میں، جہاں جامعہ اور شاہین باغ کے علاقے واقع ہیں، وہاں 80 فیصد ووٹنگ ہوتی ہے جو دہلی کے تمام علاقوں میں ہونے والی فیصد سے کافی زیادہ ہے، حتیٰ کہ خود اروند کیجریوال کے علاقے میں ووٹ کی فیصد بھی اوکھلا کی فیصد سے کم تھی اور دوسری طرف دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش ششودیا تو بیچارے ہارتے ہارتے بچے، اور بہت کم ووٹوں سے انھیں کامیابی ملی۔ خود اروندکیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے امیدوار امانت اللہ خان نے اوکھلا علاقے میں ایک کافی بڑے فرق سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد کھل کر اعتراف کیا کہ یہ شاہین باغ کی جیت ہے، لیکن آخر یہ ہمت اور یہ اعتراف عام آدمی پارٹی کے بڑے نیتاؤں میں کیوں نہیں نظر آ رہی ہے، وہ شاہین باغ کو Discredit کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھوں نے دہلی میں کام کیا اور بنیادی طور پر اپنی رپورٹ کارڈ کے بل پر ہی انھیں کامیابی ملی ہے لیکن انھیں اتنی شاندار کامیابی ہرگز نہ ملتی ، اگر اس میں شاہین باغ ، جامعہ اور جے این یو کے اثرات کی شراکت نہ ہوتی۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر اروند کیجریوال کو الیکشن سے پہلے ، اس کے پرچار کے دوران اور الیکشن کے بعد کناٹ پیلس کے ہنومان مندر جا کر اور نیشنل میڈیا میں ہنومان چالیسا سنانے سے عار نہیں ہے تو شاہین باغ جانے میں کیسی قباحت ؟ کیا شاہین باغ کسی مسجد کا نام ہے، کیا شاہین باغ میں کوئی مذہبی اجتماع چل رہا ہے؟ کیا اروند کیجریوال نہیں جانتے کہ پنجاب کے سینکڑوں سکھوں اور وہاں ہَون کرانے والے ہزاروں ہندوؤں، کشمیری پنڈتوں، چرچ کے نمائندوں کی موجودگی نے شاہین باغ کو ہندوستان کی یک جہتی کا ایسا استعارہ نہیں بنادیا جو ایک طرح سے اب پورے ہندوستانی عوام کے لیے "تیرتھ استھان” کا روپ دھارتا چلا جا رہا ہے۔ پرینکا گاندھی جامعہ کے زخمی طلبا کی عیادت کرنے دہلی کے اسپتال کا دورہ کرسکتی ہیں، اتر پردیش جا کر زخمیوں سے ملاقات کرسکتی ہیں، مقتولین کے پسماندگان کی دلجوئی کرسکتی ہیں لیکن آپ دہلی کے وزیر اعلیٰ بلکہ ایک انسان ہونے کے ناطے بھی جامعہ اور جے این یو کے زخمی طلبا کی عیادت کرنے دہلی کے اسپتال تک پہنچنے کی زحمت نہیں اٹھا سکتے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اروند کیجریوال کی پوری سیاست صرف ووٹ کی سیاست کے گرد گھومتی ہے جو ظاہر ہے موقع پرستی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے؟ اروند کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایک الگ قسم کی سیاست سے ہندوستان کو متعارف کرایا ہے ، خود کیجریوال نے اس سیاست کو نام دیا ہے: "کام کی سیاست۔” اسی بنیاد پر اب کچھ مبصرین یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ دہلی کے الیکشن کے نتائج نے اروند کیجریوال کا چہرہ مرکزی سیاست میں متبادل کے طور پر پیش کردیا ہے، یعنی وہ نریندر مودی کا ایک مضبوط متبادل ہوسکتے ہیں۔ چلیے اس پر بھی تھوڑی بات کرلیتے ہیں۔
فیس بک میں موجود ایک تجزیہ کار پنکج مشرا کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اروند کیجریوال "ٹی 20 "کے کھلاڑی ہیں، ٹیسٹ میچ کے نہیں، لہٰذا وہ ہمیں بہت مطمئن نہیں کرتے۔ بلاشبہ کیجریوال نے دہلی الیکشن میں ایک زبردست جیت حاصل کی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی اس جیت سے narrative بدلنے والا نہیں ہے، چونکہ خود اروند کیجریوال نے محتاط طریقے سے اکثریت کی ہی سیاست کی ہے۔ عام آدمی پارٹی میں "اسٹریٹ اسمارٹ” قسم کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، لہٰذا بی جے پی انھیں بار بار اپنی طرف کھینچتی رہی اور وہ ہاتھ چھڑا کر پھر اسی پالے میں دوسری طرف کبڈی کبڈی کرنے لگے۔ بی جے پی کو اپنے "مرکزی بیانیے” پر کیجریوال کی خاموش سیاست عزیز ہے، مثلاً جس طرح وہ تین طلاق پر خاموش رہے یا گول مول اسٹینڈ لیا ، یا CAA کے معاملے میں کیا، یا پھر 370 کے وقت کیا۔ ریزرویشن جیسے ایشوز پر بھی کیجریوال کی خاموشی بی جے پی کو پسند ہے کیوں کہ ترقی یافتہ ہندو اور مسلم ووٹ تو بی جے کی مخالفت کے نام پر انھیں مل ہی جائیں گے جہاں وہ براہ راست مقابلے میں ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے کانگریس کے مقابلے میں عام آدمی پارٹی غنیمت ہے جو اس کے کلیدی narrative پر براہ راست اثر انداز نہیں ہونے والی۔ اس طرح بی جے پی کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں کم از کم ایک آواز کم ہوجاتی ہے۔
میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ خود عام آدمی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ "اسٹریٹ اسمارٹ پارٹی” ہوگی۔ اس نے پروفیشنل اور تجربہ کار سیاستدانوں کے مقابلے "اسٹریٹ اسمارٹٗ "لوگوں کو ترجیح دی ہے۔ ایسے لوگ اقداری سیاست کی بجائے مقداری سیاست کرتے ہیں یعنی منافع پر مبنی سیاست کے خوگر ہوتے ہیں۔ لہٰذا پارٹی نے سب سے پہلے اقدار پر مبنی سیاست اور کسی حد تک نظریاتی سیاست پر یقین کرنے والے لوگوں کو کنارے کیا کیوں کہ وہ فوری منافع حاصل کرنے والی مقبولیت و شہرت پسند سیاست (Populist Politics) پر بغیر غور و فکر کیے مہر لگانے کے حق میں نہیں ہوتے ہیں۔
کیجریوال کے کام کے طریقوں سے اتنا واضح ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک آمر (Authoritarian) ہیں۔ انھیں سُر ملانے والے لوگ ہی پسند ہیں، لہٰذا انھوں نے جلدہی ٹھیک ٹھاک لوگوں کو ٹھکانے لگادیا۔
یہ درست ہے کہ انتخابی سیاست میں نیا ہونے کے ناطے، کیجریوال کو اگلی دس نسلوں کو سیاست کے ذریعے آباد کرنے کا کاروبار کرنا ابھی نہیں آتا۔ یہ خوبی دھیرے دھیرے ہی پروان چڑھتی ہے۔ ان میں بھی دھیرے دھیرے آ جائے گی۔ چونکہ انھوں نے ایمانداری کو اپنا USP بنایا ہے، لہٰذا وہ اور بھی زیادہ آہستہ آہستہ آئے گی۔ لیکن بہرحال اروندو کیجریوال نے جس طرح کی سیاست کا دامن پکڑا ہے، دیر سویر انھیں اسی سمت لے جائے گی، وہ کوئی نیا راستہ بنانے نہیں جا رہے ہیں۔
چونکہ یہ اسٹریٹ اسمارٹ لوگ ہیں ، لہٰذا انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس ملک کی عوام کو اتنی بار دھوکا دیا گیا ہے، اتنا دبایا گیا ہے کہ وہ یہ تک بھول چکی ہے کہ جمہوریت میں عوامی حقوق کیا ہوتے ہیں۔ نتیجتاً لوگوں نے متفقہ طور پر تسلیم کرلیا کہ سب چور ہیں، سب ڈاکو ہیں، کوئی کچھ نہیں کرتا، سب اپنی جھولی بھرنے آئے ہیں، اور یہ کہ سیاست کا مطلب صرف عوام کو بیوقوف بنانا اور اپنا الّوسیدھا کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی بے یقینی کے ماحول میں اگر عوام کے ان مغالطوں کو سسٹم کے بنیادی ڈھانچے کو چھوئے بغیر اور بڑے کارپوریٹس سے ٹکرائے بنا تھوڑا بہت بھی دور کردیا جائے تو ظاہر ہے وہ ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک چھوٹا سا چراغ جلانے کے مترادف ہوگا جو عوام کے لیے کسی مرکری ٹیوب لائٹ سے زیادہ روشن ہوگا۔
دہلی ایک متمول ریاست ہے جہاں پیسوں کی کمی نہیں ہے، لہٰذا کیجریوال کو ایسے کاموں کو عملی جامہ پہنانے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سرکاری اسکول، جو کبھی تعلیم کی ریڑھ کی ہڈی تھے،اسے بہتر کیا گیا،بجلی اور پانی جیسے بنیادی ضرورتوں میں بہتری لائی گئی، پرائمری ہیلتھ سنٹر کے منہدم ڈھانچے کو محلہ کلینک بنادیا گیا۔ وائی فائی، کیمرے وغیرہ اسی طرح کے مقبولیت پسند کام ہیں جن کی تشہیر کی جاسکتی تھی۔
آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ کیجریوال کس طرح کی متبادل سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خوابوں کا ملک کیسا ہے، وہ ملک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں؟ ابھی وہ جو کچھ کررہے ہیں، وہ بنیادی طور پر ایک ایگزیکٹیویا زیادہ سے زیادہ نوکر شاہی (Bureaucracy) نوعیت کا کام ہے، وہ اپنی حدود میں اچھی انتظامیہ دے رہے ہیں، لیکن سیاست بنیادی طور پر قانون سازی اور نظری بصارت کا نام ہے جو ان میں نظر نہیں آتی ہے۔
اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی پر اس تنقید کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انھیں نااہل قرار دے دیا جائے یا دہلی میں ان کی شاندار جیت کو کمتر کرکے آنکا جائے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی انتخابی سیاست ہمیں "کم برے” (Better Evil) کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ انتخابات؛ مختلف سیاسی پارٹیوں کے تقابلی مطالعے کے ایک موقعہ سوا کچھ نہیں ہیں۔ تقابلی طور پر دیکھیں تو فی الحال ایک طرف تفرقہ بازی کی سیاست ہے اور دوسری طرف ایک ایسی پارٹی ہے جو چھوٹے چھوٹے عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کی بنیاد پر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انحطاط اور کرپٹ سیاست کے دور میں، جب دکھی عوام مایوسی اور سیاست کے ایک طویل عرصے سے گزر رہی ہو، تو ایسی چھوٹی چھوٹی سیاسی فلاحی جماعتیں بھی ایک بڑی راحت ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ ایسی فلاحی سیاسی جماعتیں جو کام کریں گی، اس سے زیادہ اس کام کی تشہیر کریں گی، لیکن ان کی ضرورت عوام کو اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ سیاست میں کم از کم عوامی مفاد اور ان کی بہتر زندگی کو ایک ایشو کی حیثیت سے مضبوطی مل جائے گی۔ اگرعوامی مسائل سیاسی ایشو بنیں گے تو لوگوں کی امنگوں میں اضافہ ہوگا اورلیڈروں کو بھی اس پر قائم رہنا پڑے گا۔ یہ ایک جامع اور ہمہ گیر جمہوریت کے لیے نیک شگون ہوگا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کم از کم اروند کیجریوال کی سیاست زہر کاشت کرنے والی نہیں ہے،معاشرتی ڈھانچے میں ہم آہنگی کوختم کرنے کے لیے بھی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ چالاک لوگ ہیں لیکن مکار نہیں ہیں۔ فی الحال یہی بہت ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:دہلی کے انتخابی موسم میں شاہین باغ پرجم کرسیاست کی گئی اورترقیاتی امورچھوڑکربی جے پی نے بس شاہین باغ کوبدنام کرنے اوراس کاانتخابی فائدہ اٹھانے کی ہرممکن کوشش کی،طرح طرح سے میڈیاٹرائل کیاگیالیکن ان کے عزم میں کمی نہیں آئی بلکہ فائرنگ،اشتعال انگیزیوں،فرقہ پرستوں کی گرفتاریوں کے باوجودان خواتین نے نہایت عزم وحکمت عملی کامظاہرہ کیاہے جس سے متاثرہوکرپورے ملک میں پرامن احتجاج ہورہاہے۔ شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں خاتون مظاہرین نے دہلی میں ہونے والے انتخاب کے ایام کو شاہین باغ کے تعلق سے تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ اب انتخاب ہوچکا ہے امید ہے کہ اب شاہین باغ خاتون مظاہرین کے بارے میں غلط بات نہیں کہی جائے گی۔شاہین باغ خاتون مظاہرین نے کہاکہ دہلی میں جب سے انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہوا تھا اس وقت تک سے اب تک اس کے بار میں طرح طرح کی باتیں کرکے ہمیں ذہنی طور (مینٹل ٹارچر) پرپریشان کیا گیا۔ کبھی ہمیں 500روپے لیکر بیٹھنی والی بتایا گیا تو کبھی بریانی کھانے والی بتایا گیا۔کبھی گولی چلاکر ہمیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی گئی، تو کبھی کسی کو بھیج کر ہمارے خلاف سازش کی گئی۔ کبھی جینے کی آزادی کے نعرے کو جناح کی آزادی کا نعرہ کا الزام لگاکر ہمیں ملک کا غدار بتایاگیا۔انہوں نے کہاکہ ہم لوگ سب کچھ سہتے رہے اورپرامن طریقے سے مظاہرہ کرتے رہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم لوگ سمجھ رہی تھیں کہ یہ سب دہلی میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔اب جب کہ الیکشن ختم ہوگیا ہے اور حق رائے دہی کا عمل پورا ہوگیا ہے اب امید ہے کہ ہمارے احتجاج کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کہی جائے گی۔ بلکہ ہماری آواز سنی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ 56ویں دن کے اس دھرنے میں ہمیں تمام لوگوں کا ساتھ ملا ہے اور سب کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ یہ دھرنا دراصل صلح کل اور کل مذاہب کے احترام کی علامت بھی رہا ہے اور تمام طبقوں نے یہاں آکر قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ہمارے موقف کی تائید کی ہے اور اس قانون کو مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے لئے خطرناک بتایا ہے خاص کر دلتوں، قبائیلیوں، بنجاروں اور کمزور طبقوں کے لئے جن کے پاس نہ گھر ہے نہ ہی زمین اور نہ ہی کوئی دستاویزات۔ انہوں نے کہاکہ یہ دھرنا ہر طرح کے نشانے پر ہونے کے باوجود ہر روز کچھ نیا کرتا گیا اور تمام طبقوں کو جوڑنے میں کامیاب رہا ہے۔ خواتین مظاہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت ان کی آواز کو ضرور سنے گی اور اس قانون میں جو تفریق ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت(ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری 24 گھنٹے احتجاج کررہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر مظاہرین نے سات اور آٹھ فروری کو جامعہ کے گیٹ نمبر سات سے مظاہرہ ہٹالیا تھا کل رات سے دوبارہ اسی مقام پر دھرنا شروع ہوگیا ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔کل دیر رات مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لئے سابق وزیر سلمان خورشید جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مظاہرہ پر پہنچے اور مظاہرین کا حوصلہ بڑھایا۔ اس کے علاوہ دہلی میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف خاتون مظاہرین کا دائرہ پھیلتا جارہاہے اور دہلی میں ہی درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ مسلسل جاری ہے اور اس فہرست میں ہر روز نئی جگہ کا اضافہ ہورہا ہے،نظام الدین میں شیو مندر کے پاس خواتین کامظاہرہ جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے جس میں شیو مندر سے بھی مدد لے لی جاتی ہے۔اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری میں خواتین کے احتجاج جاری ہے اور وہاں خواتین نے ایک نیا شاہین باغ بناکر احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔اسی طرح راجستھان کے کوٹہ، جے پور اجمیر اور دیگر مقامات پر خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔مدھیہ پردیش کے اندورمیں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے۔ ملک میں اترپردیش قومی شہریت(ترمیمی) قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے لئے سب سے مخدوش جگہ بن کر ابھری ہے۔ وہاں 19دسمبر کے مظاہرہ کے دوران 22لوگوں کی ہلاکت ہوچکی ہے۔بلیریا گنج (اعظم گڑھ) میں پرامن طریقے سے دھرنا دینے والی خواتین پر پولیس نے حملہ کردیا تھا اور مولانا طاہر مدنی سمیت 20سے زائد خواتین پر ملک سے غداری سمیت کئی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں اس میں ایک نابالغ بھی شامل ہے۔ایف آئی آر، ملک سے غداری کامقدمہ،دھمکی اور دباؤ کے باوجود خواتین گھنٹہ گھر میں اور دیگر مقامات پر مظاہرہ کر رہی ہیں ور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کروارہی ہیں۔ شاہین باغ دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور ہر روز یہاں ایک نیا شاہین باغ بن رہا ہے دیگر مقامات کے علاوہ ارریہ کے جوگبنی میں بھی خواتین کا مظاہرہ جاری ہے، اسی کے ساتھ مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے۔بھاگلپور میں بھی احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ سہسرام میں بھائی خاں کے باغ میں 15ویں دن سے دھرنا جاری ہے۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29دسمبر سے خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔
شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی سے متعلق ملک بھرمیں احتجاج و مظاہروں کی جو انقلابی صورت حال سامنے آرہی ہے، وہ ہم سب کے لیے عیاں را چہ بیاں کی مصداق ہے ۔ یوں تو آئے دن این آرسی اور سی اے اے کے حوالے سے مختلف دانشوروں کے بیانات سننے اور تحریریں پڑھنے کا موقع ملتا رہتاہے ؛ مگر گذشتہ ہفتے صوبۂ کرناٹک کے ضلع ٹمکور سے تعلق رکھنے والے محترم مولانامحمد خالد بیگ ندوی صاحب(جو ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وسیع پیمانے پراسلامی مزاج کے ساتھ عصری اسکولس قائم کرنے اور چلانے کی تحریک سے وابستہ ہیں)بعض مقامی علماء کی دعوت پر حیدرآباد تشریف لائے اور علماء و دانشوران کے بڑے مجمع سے مختلف مقامات پر پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعہ تفصیل کے ساتھ مدلل گفتگوفرمائی،الحمدللہ سارے ہی پروگرام توقع کے مطابق کامیابی سے ہم کنار ہوئے ، بالخصوص این آرسی کے سلسلے میں بہت سے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں تھیں ان کا ازالہ ہوا اور آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے ؟اس پر بھی خاطرخواہ روشنی ڈالی گئی ۔زیرنظرتحریر میں مولانا محترم کی گفتگو کو افادۂ عام کے لیے قدرے ترمیم وتفصیل کے ساتھ تحریرکے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب ہماراملک برطانوی تسلط سے آزادہوا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد تقسیم کا ناگوارسانحہ پیش آیا،اور مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد ہجرت کرکے پاکستان چلی گئی۔ چوں کہ 1924ء میںآرایس ایس کی بنیاد رکھی جاچکی تھی؛اس لیے تقسیم کے نازک موقع پرتعصب پسند ہندؤوں کی جانب سے پوری شدومد کے ساتھ یہ آواز اٹھائی گئی کہ مسلمانوں نے اپنے لیے الگ ملک بنالیا ہے ؛لہذا بھارت اب ہندوراشٹر ہوگا۔ اس وقت گاندھی جی اور دیگر جمہوریت پسندرہنماؤں نے اس کی سختی سے مذمت کی اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی سربراہی میںمختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا دستور مرتب کیا گیا جو انصاف،مروت اور مساوات پر مبنی تھا۔
گاندھی جی کی حیثیت باشندگان وطن کے درمیان مہاتما کی تھی اور وہ ہندومسلم اتحاد کے نقیب سمجھے جاتے تھے ؛ اس لیے انہیں ایک سازش کے تحت قتل کرنے کا پلان بنایاگیا اور ایسا کھیل کھیلاگیا کہ گاندھی جی کو قتل تو آرایس ایس کرے ؛مگر تہمت مسلمانوں کے سر آئے ، اس طرح مسلم اقلیت تمام باشندگان وطن کے عتاب کا شکارہوجائے اورمسلمانوں کو ملک بدر ہونے پرمجبورکیاجاسکے ۔ چناں چہ اس کام کے لیے گوڈسے کو تیار کیا گیا اور اس کے ایک ہاتھ پر محمد سلیم گودوایا گیا اس نے پوری تیاری کے ساتھ گاندھی جی کو شوٹ کرنے کا پروگرام بنایا اور موقع پاکرکام تمام کردیا۔ اس کے فوراً بعد یہ افواہ عام کردی گئی کہ ایک مسلمان شخص محمد سلیم نے گاندھی جی کو قتل کردیا۔ اس سانحے کے بعد عوام کی بڑی تعداد بھپرگئی اور ممبئی میں ہندو مسلم فساد شروع ہوا۔ ادھر ہمارے قائدین شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی اور امام الہندمولاناابوالکلام آزاد نے فوری حرکت کی اور اعلی پیمانے پرتحقیقات کا آغاز کیا پھرمسئلہ کی تہہ تک رسائی کے بعدصرف دو گھنٹوں کے اندراندر سردار پٹیل کے ذریعہ اس بات کااعلان کروایا گیاکہ گاندھی جی کا قاتل مسلمان نہیں تھا؛ بل کہ آرایس ایس کانمائندہ گوڈسے تھا۔ جوں ہی اعلان ہوا غیظ وغضب کا سارا رخ آرایس ایس کی طرف ہوگیا ۔اس طرح ایک بنا بنایا منصوبہ خاک آلود ہوگیااور ہندو راشٹر کا جو خواب دیکھا گیاتھا وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ آرایس ایس کی اس شکست فاش کے بعد19 افراد پرمشتمل ایک خفیہ میٹینگ بلائی گئی؛ جس میں آئندہ کے لیے نظام العمل ترتیب دیاگیا، جملہ شرکاء نے اس بات پر قسم کھائی کہ ہم تعلیم کے لیے اپنی زندگی وقف کردیں گے ؛ کیوں کہ تعلیم ہی ایک ایسی راہ ہے جس کے ذریعہ پیمانے پر ذہن سازی کا کام کیا جاسکتا ہے اور کئی غیر ہندو اقوام کو ہندوباورکرایاجاسکتا ہے ،اس نصب العین کے مطابق کام کا آغاز ہوا اور گورکھپور سمیت ملک بھر میںاسکولس کا قیام عمل میں آیا۔جب بات آرایس ایس کی نکل پڑی تو برسبیل تذکرہ چنداورحقائق بھی ملاحظہ فرمائیں!
آر ایس ایس ایک خفیہ تحریک:
جناب عبدالغفور نورانی صاحب ایک اچھے قانون داں ،معروف دانشور اوربے باک قلم کار ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے آر ایس ایس کی تشدد پسندذہنیت کوعیاں کرنے والوں میں آپ کا نام سرفہرست ہے ۔ حال ہی میں اس’پراسرار‘ سمجھی جانے والی تحریک پر آپ کے اشہب قلم سے انگریزی میں ایک معرکۃ الآرا کتاب شائع ہوکر دادتحسین حاصل کرچکی ہے ۔ یہ کتاب اپنے اندر آر ایس ایس کے تعلق سے مختلف اہم اور بنیادی معلومات کا ذخیرہ لیے ہوئے ہے ۔ درج ذیل اقتباس ان ہی کی ریسرچ کا خلاصہ ہے ۔
آر ایس ایس کی تقریباً 100سے زائدشاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی،حفاظت یا سکیورٹی کے لیے بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ،دانشوروں کے لیے وچار منچ، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے ۔ حتیٰ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ اورجماعت علماء نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیاہے ۔ پچھلے انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموںکے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے ، اور ان کے لئے ا سکولوں اور کالجوںسے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاؤں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے ۔ آر ایس ایس ہندوستان کے 88 فیصد بلاک میںاپنی شاکھاؤں کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے ۔
قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سا ل میںآر ایس ایس نے 113421 تربیت یافتہ سوئم سیوک سنگھ تیار کیے ہیں۔ہندوستان سے باہران کی کل39 ممالک میں شاکھائیں ہیں۔ یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام رہی ہیں۔ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاکھائیں نیپال میں ہیں۔اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھاؤں کی تعداد146 ہے ۔ برطانیہ میں 84 شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے ۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ‘ یوگانڈا‘ماریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کی پانچ شاکھائیںمشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے اس لئے وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الکٹرانک شاکھا ہے جہاںویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پرآر ایس ایس کی باضابطہ شاکھا موجود نہیں ہے ۔
ان سب تفصیلات کو ذکر کرنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کی پیہم کامیابیوں کے پیچھے آرایس ایس کی مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کارفرماہے ؛یہی وجہ کہ آج ہر اہم اور بڑے عہدے پر ان ہی کے پروردہ افراد براجمان ہے ، جس کے خوف ناک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ نیز یہ ہمارے لیے جائے عبرت و احتساب ہے کہ مضبوط منصوبہ بندی اور عزم و استقلال کے سبب مٹھی بھربرہمن محض پروپیگنڈوں کی بنیاد پرملک بھر میں تباہی مچا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ سیکولرقوموں کی کثرت کے باوجود مقصد و ہدف کو متعین نہ کرنے اورزمینی سطح پر کام کوفروغ نہ دینے کے سبب آپسی انتشار کا شکار اور ذلت و پستی سے دوچارہیں۔
کچھ باتیں سی اے اے کے حوالے سے :
یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ ملک کے دستور کا نفاذ 1950ء میں عمل میں آیا اور دستور میں شہریت کے حوالے سے جودفعہ مرتب کی گئی ابتداً اس میں کافی لچک رکھی گئی، پھر بعد میں موقع اور حالات کے لحاظ سے ترمیمات اور وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلی ترمیم 1986ء میں ہوئی۔دوسری ترمیم 1992ء میں ہوئی۔تیسری ترمیم2003ء اور چوتھی ترمیم 2005ء میں ہوئی۔ اس وقت شہریت کے سلسلہ جو متنازع ترمیم پاس کرائی گئی اور جس کے فوری بعد ملک بھر میں مخالفت و احتجاج کی صدائیںبلند ہوئیں وہ اس حوالے سے ہونے والے پانچویں ترمیم ہے ۔ مذکورہ ترمیم کی رو سے تین پڑوسی اسلامی ممالک ؛ پاکستان، افغانستان، اور بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پررہائش پذیر افراد اگر ہندو، سکھ، عیسائی، جین، بدھسٹ اور پارسی ہیں تو ان کو ’این آرسی‘ میں ہندوستانی شہری تسلیم کرکے شامل کرلیا جائے گا، اور اگر مسلمان ہیں تونہیں!۔اس طرح یہ قانون جو فی الوقت عدالتِ عالیہ میں زیرِ غور ہے ‘ عام دانشوروں کی رائے میں دستورِ ہند کی اہم اور حساس آئینی شقوں کے خلاف ہے ،اور اس سے ملک کی سیکولرحیثیت ختم ہوتی محسوس ہوتی ہے ۔ لیکن یہاں ایک غور طلب پہلو یہ ہے کہ کیا ہمارے احتجاج کا صرف یہی ایک سبب ہے کہ اس ترمیم میں مہاجرین کی فہرست سے مسلمانوں کو علیحدہ رکھاگیا اور ان کے ساتھ سوتیلا رویہ برتا گیایا کچھ اور بھی؟؟
اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات سمجھیںکہ آئین کی رو سے کسی بھی شہری کو شہریت دینے کی چار بنیادیں ہیں۔ 1:ولادت ،2:وراثت،3:رجسٹریشن ،4:نیچرلزیشن۔
ان چاروں میں ابتدائی دوبنیادیں تو واضح ہیں ،البتہ اخیرکی دو بنیادوں کو سمجھنے اور فرق کرنے کی ضرورت ہے ۔تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی غیرملکی شخص اپنے ملک میں ہونے والے ظلم وجبرسے بچنے کے لیے ہمارے ملک میں آگیا ہو یاہمارا ملک اسے پسند ہو اور وہ یہاں رہنے کا خواہاں ہونیزاس کے آباء واجداد میں سے کوئی ہندوستانی بھی رہے ہوں تو اس کو حکومت پہلے سات سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکے قیام کی اجازت دے گی،اس دوران اس کی نقل وحرکت پرنظر رکھے گی ،سات سال بعد وہ مزید رہنا چاہتا ہے تو اس کے مطالبے پرجوشہریت اسے دی جائے گی اسے رجسٹریشن کی بنیاد پرشہریت کہاجائے گا۔چوتھی صورت بھی اسی کے قریب قریب ہے یعنی یہ شہریت بھی غیرملکی کو ملے گی بس فرق اتنا ہے کہ اگر وہ غیرملکی ہمارے ملک میں غیر قانونی طورپررہ گیا ہو اور اس کے آباء واجداد میںسے کوئی بھی اس ملک کے نہ ہوں توحکومت گیارہ سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکے قیام کی اجازت دے گی پھر اطمینان کے بعداس غیرملکی کے مطالبے پر جو شہریت دی جائے گی اسے نیچرلزیشن کہاجائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ جب پہلے سے یہ سب قوانین بنے ہوئے ہیں اور اسی بنیاد پر شہریت دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے تو پھرسی اے اے کا کیا مطلب ہے؟اس کو لانے کے کیا مقاصدہیں؟اوراس پر اصرارکی کیا وجوہات ہیں ؟
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ صرف مسلمانوں کا چہرہ سامنے لاکر دوسری اقوام کو طفل تسلی دینا اور خواب خرگوش میں مست رکھنا چاہتی ہے ؛تاکہ یہ مسئلہ ہندو مسلم بن کررہ جائے اور ملک فسادات کی بھینٹ چڑھ جائے ،پھر آزادی کے وقت جو منصوبہ بھار ت کو ہندوراشٹر بنانے کا ہواتھا اس کو پایۂ تکمیل تک پہونچایا جاسکے ۔یاد رکھیں !آگے چل کر اگر این آرسی لاگو ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے غیر مسلم اقوام ہی کوغیرملکی ماناجائے گا اورسی اے اے کے ذریعہ دلت، سکھ ،جین اور پارسیوں کو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ہم ہندو ہیںاور فلاں ملک سے قانونی یا غیرقانونی طورپر آئے ہوئے ہیں،اس طرح ان دلتوں اور آدی واسیوں کو ہندو دھرم قبول کرنے پرمجبورکیا جائے گا اور برہمنوں کی طرح انہیں حقوق ومراعات حاصل نہیں ہوں گی۔
ہمارے لیے لائحہ عمل :
ہمیں احتجاج کی موجودہ حرارت کو مزیدتیز کرنے اور ملک بھر میں منظم طور پر اس فضا کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہاں ایک بات یہ بھی ذہن میںرکھیں کہ ہمارے احتجاج کا عنوان ظلم سے مقابلہ اور فسطائی نظام کاخاتمہ ہے ؛اس لیے اس کو ہرگز ہندو مسلم مسئلہ نہ بننے دیں، اور اس کے لیے مسلمان اپنے ساتھ دلتوں، آدی واسیوں اور سیکولر قوموں کولے کر آگے بڑھیں؛ بل کہ قیادت کی کمان ان ہی افراد کے سپرد کردیں۔اب تک سیکولر قوموں کے صرف لیڈران ہمارے پروگراموں میںبہ حیثیت مہمان شریک ہوتے رہے اور ساتھ نبھانے کا تیقن دیتے رہے ؛مگر اب ضرورت ہے ایسی ملک گیر تحریک کی جس میں ساری برہمن مخالف عوام منظر عام پر آئے اور اپنا احتجاج درج کرائے ۔ اگر ایسا ہو(اور خداکرے کہ ایسا ہی ہو)تو امید ہے کہ بہت جلد اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اورایک زبردست انقلاب برپا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیںغیرمسلموں سے ملاقات کے ذریعہ درج بالاتفصیلات وضاحت کے ساتھ بتلانی ہوں گی ؛تاکہ انہیں غور وفکر کا موقع ملے اور وہ بھی ان دسیسہ کاریوں کا جواب دینے کے لیے تیارہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے سرکاری دستاویزات تیار ہیں یا نہیں۔اگر ہیں تواپنا نام اور والد کا نام وغیرہ سب میں یکساں ہے یا حروف کی کمی زیادتی ہے ؟یہ کام اس لیے ضروری نہیں کہ ہمیںاین آرسی کا خوف ہے ،یا ہم این آرسی کے نفاذ کوقبول کررہے ہیں؛ بل کہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں این آر سی کا بائیکاٹ کرنا ہے اور ہمارا بائیکاٹ اسی وقت موثر ومعتبرہوسکتا ہے جب ہمارے پاس مطلوبہ دستاویز موجودہوں اور ہم پھر بھی بتانے سے انکارکردیں؛ لیکن ہمارے پاس سرے سے دستاویز ہی نہ ہوں تو پھر بائیکاٹ کے کیا معنیٰ۔اس لیے خاموش انداز میں بغیر کسی شور و ہنگام کے اپنے اپنے کاغذات بنانے یا ان میں یکسانیت پیداکرنے کا کام مکمل کرلیں۔ دستاویزبنانے کے سلسلہ میں تھوڑی بہت محنت اور صبروضبط کی ضرورت ہے ان دو باتوں کو پیش نظر رکھیں تو بہت سے غیر ضروری مصارف سے بچا جاسکتا ہے ۔یہاں اس بات کاتذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ این آرسی کے سلسلہ میں کس سال سے کس سال تک پیداہونے والوں کے لیے کیا مطلوبہ دستاویز ہوں گے ؟اس حوالے سے درج ذیل تفصیل ملاحظہ فرمائیں!
26؍جنوری 1950 سے یکم جولائی 1987 کے درمیان پیدا ہونے والوں کا صرف اپنی پیدائش ثابت کردینا کافی ہے ،اتنے سے اس کی شہریت ثابت ہوجائے گی۔یکم جولائی 1987 سے 3؍دسمبر 2004کے درمیان پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی پیدائش کے ساتھ ساتھ والدین میںسے کسی ایک کی شہریت ثابت کرنا ضروری ہے ۔پھر3؍ دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی ولادت کے ساتھ ساتھ والد اور والدہ دونوں کاہندوستانی ثابت کرنا ضروری ہے اسی بنیاد پر انہیں شہریت دی جائے گی۔ان تمام اسباب کو اختیار کرنے کے بعد جب ہم حق تعالی سے مدد کی امید رکھیں گے اور دعائیں کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ ضرورمدددآئے گی اورہم کامیاب و کامران ہوں گے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:شاہین باغ میں شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) اور قومی شہریت رجسٹر (این آرسی) مظاہرے کے دوران بچے کی موت کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔بہادری ایوارڈ یافتہ ساتویں کی طالبہ جین گرتن سداورتے نے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کو خط لکھ کرمظاہرے میں معصوم بچوں کو لانے کو لے کر ہدایات دینے کی فریادکی۔بتا دیں کہ قومی دارالحکومت کے شاہین باغ میں شہریت ترمیم ایکٹ (سی اے اے) کو لے کر گزشتہ سال دسمبر سے ہی مظاہرہ مسلسل جاری ہے۔یہاں مظاہرہ کر رہے ایک خاندان کے 4 ماہ کے بچے کی موت ہو گئی۔ بچے کی موت کی وجہ مسلسل سرد ی میں رہنا بتایا گیا۔بچے کے والد ارشد نے کہاکہ ہم لوگ 29 تاریخ تک احتجاج میں تھے،دھرنا مظاہرہ سے دیر رات ہم واپس آئے اور ہم نے قریب ڈھائی بجے بچے کو دودھ پلایا تھا،جب صبح کے وقت ہم اٹھے تو دیکھا کہ بچہ بالکل خاموش تھا،اس کے بعد ہم فوری طور پر پہلے بٹلہ ہاؤس کلینک لے گئے، لیکن وہاں ہمیں بولا گیا کہ اسے ہولی فیملی ہسپتال لے جاؤ،ہماری اس ہسپتال میں جانے کی حیثیت نہیں تھی، اس لئے ہم بچے کو الشفا ہسپتال لے گئے،وہاں جب ڈاکٹر نے دیکھا تو کہا کہ بچے کی موت 5 گھنٹے پہلے ہی ہو چکی تھی۔
نئی دہلی: دہلی کے شاہین باغ میں شہریت قانون کو لے کر چل رہے مظاہرے کے خلاف بی جے پی کے سابق ممبر اسمبلی نند کشور گرگ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔یہ لوگ ہائی کورٹ میں پھٹکارکھانے اورپولیس کولاء اینڈآرڈربحال رکھنے کی ہدایت کے بعداب سپریم کورٹ گئے ہیں۔ عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ شاہین باغ میں مظاہرین کو ہٹایا جائے تاکہ کالندی کنج اورشاہین باغ کا راستہ پھر سے کھل سکے۔عرضی میں عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ عدالت مرکزی حکومت اور متعلقہ محکمہ کوراستہ خالی کروانے کا حکم دے۔ساتھ ہی عوامی مقامات پر دھرناکی پابندی لگانے کی بھی مانگ کی گئی ہے اور عدالت سے اس معاملے پر مرکزی حکومت سے گائیڈلائن بنانے کے لیے بھی حکم دینے کی درخواست کی گئی ہے۔بی جے پی لیڈر کی جانب سے دائر درخواست میں کہاگیاہے کہ طویل عرصے سے جاری دھرنے کی وجہ سے لوگوں کو بے حد پریشانی کاسامناکرناپڑرہاہے۔
گوڈسے سے گوپال تک،دہشت گردوں کا ایک ہی ٹولہ،ملک مخالف گروہ کا ایک ہی مقصد،امن کے پجاریوں کو مارنا ۔۳۰ جنوری ۱۹۴۸ کو گاندھی جی کا قتل کیاگیا اور ۷۲ سال بعد ۳۰ جنوری ۲۰۲۰ کو گاندھی جی کے ماننے والوں کے قتل کی کوشش کی گئی۔ گوڈسے مرا نہیں وہ زندہ ہے ، اس کی فکر زندہ ہے اور جب تک اس فکر کو پھانسی نہیں دی جائے گی ، ملک میں گاندھی کا قتل ہوتا رہے گا؛ لیکن اس فکر کو پھانسی کون دے گا جو اقتدار میں ہیں وہ سر عام نعرہ لگا رہے ہیں "دیش کے غداروں کو، گولی مارو۔۔۔۔۔۔کو” پھر کیسے اس ذہنیت کا خاتمہ ہوگا، کیسے گوڈسے کی فکر کا قتل کیا جائے گا؟ جب اس طرح کے نعرے لگائے جائیں گے کھلے عام نفرت بانٹی جائے گی وہ جن کے آباء و اجداد نے خون جگر سے اس ملک کی آبیاری کی انکو غدار سمجھا جائے گا اور وہ جنہوں نے انگریزوں کی مخبری کی وہ محب وطن ٹھہریں گے تو پھر کیسے اس سوچ کا خاتمہ ہوگا کیسے ملک میں نفرت ختم ہوگی ؟ اب تو یہ مزید بڑھے گی اگر اسی دن جس دن گوڈسے نامی دہشت گرد نے باپو کا قتل کیا تھا اس کے حامیوں سمیت اس کو پھانسی دی گئی ہوتی، اس سوچ کا قتل کردیا گیا ہوتا، وہ پارٹی جو اسے سپورٹ کررہی تھی اس کا خاتمہ کردیا جاتا تو شاید آج کوئی یونیورسٹی کا طالب علم بندوق کے دہانے پر نہ کھڑا ہوتا، بندوق کا نشانہ نہ بنتا، زخمی نہ ہوتا؛ لیکن اس ملک میں یہ ناممکن ہے جہاں انصاف کے پیمانے دوہرے ہوں، جہاں نظریات و افکار شخصیات دیکھ کر ، مذہب دیکھ کر بدل دی جاتی ہوں وہاں یہ سب نہیں ہوسکتا۔ آپ نے گوپال نامی بجرنگ دل کے ہندو دہشت گرد کو گولی چلاتے ہوئے دیکھا تھا آپ نے اندازہ لگایا ہوگا کہ کس طرح پولس وہاں خاموش تماشائی کا کردار نبھا رہی ہے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کھڑی ہے اور لاشوں کے گرنے کی منتظر ہے اگر اسی گوپال کی جگہ کوئی کمال ہوتا مظاہرین کی بھیڑ جامعہ کے طلبہ کے علاوہ خالص ہندو بھیڑ ہوتی تو آپ سوچ سکتے ہیں نظارہ کیا ہوتا ! کیا پولس اسی طرح کھڑی رہتی یا انکاونٹر کردیا جاتا۔
ملک کی تاریخ گواہ ہے دہشت گردوں کا ٹولہ یہی گوڈسے فکر کے حامل افراد رہے ہیں، دہشت گردی کے الزام میں بے قصور اور معصوم مسلمانوں کو پھنسایا گیا، نفرت کی وہ بیج بوئی گئی کہ اگر قوم مسلم کے علاوہ کوئی اور قوم ہوتی تو وجود مٹ چکا ہوتا مسجد میں دھماکہ ہوا نمازی شہید ہوئے پھر بھی مجرم مسلمان بنائے گئے۔ درگاہ میں دھماکہ ہوا مسلمان جاں بحق ہوئے پھر بھی مجرم مسلمان بنائے گئے ، قبرستان میں دھماکہ ہوا قبروں کی بے حرمتی ہوئی مسلمان جان سے گئے پھر بھی الزام ان پر ہی ڈالا گیا۔ آنجہانی کرکرے نے سب سے پہلے ہندو دہشت گردی کو متعارف کرایا اور اس کے پیچھے چھپے چہروں کو بے نقاب کرنا شروع کیا ہی تھا کہ انہیں بھی شہادت کے رتبے پر پہنچا دیا گیا۔ لیکن دنیا کو معلوم ہوچکا تھا کہ دہشت گرد کون ہے؟ کون ملک میں فساد مچاتا ہے ، کون سرعام قبر سے لاش نکال کر عصمت دری کرنے کی دھمکی دیتا ہے ، گجرات میں مسلمانوں کا قاتل کون ہے ، جج لویا کو کس نے مروایا؟ نجیب کو کس نے غائب کیا، گوری لنکیش کیوں قتل ہوئی ، دابھولکر کیوں بھونے گئے ، پنسارے کو کس نے مارا۔۔۔۔سبھی کے پیچھے اسی شدت پسند دہشت گرد گروہ کا ہاتھ ہے جو گوڈسے حامی ہے۔ کل ہی گوڈسے کی ناجائز اولاد نے جامعہ کے طالب علم پر حملہ کیا اور آج ہی اسے اعزاواکرام سے نوازنے کا شدت پسندت تنظیم کی طرف سے اعلان کردیا گیا۔ مودی جی گوپال نامی دہشت گرد کو کپڑے سے نہیں پہچانیں گے؛ کیوں کہ وہ ان کی ہی فکر کا ماننے والا ہے ان کی فکر اس لیے کہا کہ ان ہی کی پارٹی میں گوڈسے کو محب وطن ٹھہرانے والی مالیگاوں بم بلاسٹ کی ملزمہ سادھوی پرگیہ ہے جس نے کہا تھا کہ میرے شراپ سے ’کرکرے ‘مر گیا جس نے ایک شہید کی توہین کی، جو سر عام گوڈسے کو محب وطن قرار دیتی ہے اسے رول ماڈل بناتی ہے وہ ممبر پارلیمنٹ ہے اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ ایک دہشت گردانہ دھماکے کی ملزمہ قانون ساز اسمبلی کی رکن ہو اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات ملک کے لیے کیا ہوگی کہ ایک اہم عہدیدار سر عام گولی مارنے کا حکم دیتا ہو ،اب کیا خیر کی امید لگائی جاسکتی ہے اب کچھ نہیں بچا جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ذہن و دماغ میں مسلمانوں سے نفرت ، گاندھی جی کے افکاروخیالات سے نفرت اور گوڈسے ساورکر گوروگوالکر سے محبت بٹھائی جائے وہاں یہی سب ہونا ہے اب یہ سلسلہ رکنے والا نہیں دیش کے غداروں کو گولی مارو ۔۔۔۔کو کا سلسلہ اب گوڈسے وادی سرعام جسے چاہیں گے گولی ماریں گے جسے چاہیں گے موت کے گھاٹ اتاریں گے؛ کیونکہ انہیں حکومت اور گودی میڈیا کا مکمل تعاون حاصل ہے وہ مظاہرین سے نپٹنے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں؛ اس لیے سیکولرازم پسند ملک کے عوام سے گزارش ہے کہ وہ چوکنا رہیں اپنی حفاظت کو یقینی بنائیں، گاندھی جی کے افکارونظریات پر ملک کو لیجانے کی ہر ممکن کوشش کریں، نفرت کے پجاریوں کو قانون کے دائرے میں رہ کر انجام تک پہنچائیں، آپ کی کامیاب تحریک سے فرقہ پرست بوکھلاہٹ کے شکار ہیں آپ کے نعرہ آزادی سے ان کے خیموں میں ہلچل ہے اب آپ پوری شدت سے نعرہ لگائیں "دیش کے غداروں کو پھانسی دو گوڈسے والوں کو” اور ملک کے سیکولر کردار کی حفاظت کریں خاموش نہیں بیٹھیں پوری شدت سے اٹھیں اور ملک کو فرقہ پرستوں سے آزادی دلائیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
دہلی پولس نے وضاحت کردی ہے
’’ہمارے پاس ردّ عمل کا وقت نہیں تھا‘‘!
اگر اس کے پاس ردّ عمل کا وقت ہوتا تو سنیچر کے روز شاہین باغ میں گولی نہ چلتی ۔ پر رکئے شاہین باغ میں گولی چلنے کی بات سے پہلے دہلی پولیس کی ’وضاحت ‘ کی بات کرلیں ۔
بات ۳۰؍ جنوری کی ہورہی ہے جب رام بھکت گوپال نے پستول لہراتے اور نفرت انگیز نعرے لگاتے ہوئے جامعہ مِلّیہ اسلامیہ کے طلباءپر گولی چلائی تھی اور شاداب فاروق نامی ایک طالب علم کو اس کی گولی زخمی کرگئی تھی۔ زخم ہاتھ پر آیا تھا۔ دہلی پولیس کی وضاحت دلچسپ بھی ہے اور شرمناک بھی ۔ دلچسپ اس لئے کہ یہ ’وضاحت‘ جو سُنتا ہے وہ ہنس پڑتا ہے اور شرمناک اس لئے کہ وہ اپنی بے حسی ،لاپروائی یا کھلی ہوئی جانبداری کی پردہ پوشی کیلئے ایسی ’وضاحت‘ کررہی ہے جسے قبول کرنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے بلکہ سن کر لوگ پہلے تو حیرت میں پڑجاتے ہیں پھر ’وضاحت ‘ کی مضحکہ خیزی پر ہنستے ہیں اور آخر میں دہلی پولیس کی بے حسی اور جانبداری کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ہندوستان کے حالات پر ایک ’آہ‘ بھر کر خاموش ہوجاتے ہیں ۔
پولیس کی ’وضاحت‘ کتنی لچر ہے اس کا اندازہ انگریزی کے ایک کالم نگار دشینت کے ایک مضمون So who is traitor?’تو کون غدّار ہے ؟‘ کی ابتدائی سطروں سے خوب لگایا جاسکتا ہے ۔ وہ تحریر کرتے ہیں ’’کوئی درجن بھر پویس والوں کی نظروں کے سامنے 50 میٹر کی دوری پر پستول لہراتے ہوئے شخص پر نہ ہی تو اس وقت جب اس نے مجمع پر فائر کیا لاٹھی چارج کیا گیا ، نہ ہی اس کے پیروں پر گولی ماری گئی اور نہ ہی پولیس والے اس پر قابو پانے کیلئے دوڑے آئے ۔انھوں نے اسے کالر سے پکڑا، اس کی پستول اس کے ہاتھ سے لی اور اسے ایک کار میں بِٹھا کر چلے گئے ۔اس کے گولی چلانے اور ایک طالب علم ( گولی اس کے ہاتھ پر لگی تھی) کو زخمی کرنے سے کوئی 20 سیکنڈ قبل وہ پیدل چلتے ہوئے پستول کو اپنے سر سے اوپر ہوا میں لہرا رہا تھا اور سی اے اے کی حمایت میں نعرہ بازی کے ساتھ وہ ’’دہلی پولیس زندہ باد ‘‘ ’’ہندوستان زندہ باد‘‘’ اور ’’لے لو آزادی ‘‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ پولیس نے نہ ہی تو آنسو گیس کا استعمال کیا ، نہ لاٹھی چارج کیا اور نہ ہی فائرنگ کی !‘‘
مذکورہ سطر یں پڑھ کر یہ بات بالکل عیاں ہوکر آجاتی ہے کہ دہلی پولیس کے پاس پورا موقع تھا کہ پستول لہراتے ہوئے نوجوان پر بغیر آنسو گیس چھوڑے ، لاٹھی چارج کے اور گولی چلائے ،قابو پالے ۔ مگر رام بھکت گوپال نعرے لگاتا رہا، پستول ہوا میں لہراتا رہا اور دہلی پولیس اسے خاموشی کے ساتھ ’ہاتھ باندھے‘ دیکھتی رہی ، اس پر قابو پانے کی اس نے کوئی کوشش نہیں کی۔ لہٰذا دہلی پولیس کی یہ ’وضاحت‘ کہ ’’ہمارے پاس ردّ عمل کا وقت نہیں تھا‘‘ بودی اور پھسپھسی کہلائے گی ، ایک بے جان بے دم ’وضاحت‘ ۔ پر دہلی پولیس کی ’وضاحت‘ پر کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ وہی دہلی پولیس ہے جس نے جامعہ مِلّیہ اسلامیہ کے اندر گھس کر نہتے طلباءپر ڈنڈے برسائے اور کیمپس کے اندر دہشت پھیلائی تھی ، یہ وہی دہلی پولیس ہے جس نے جامعہ کی لائبریری کو تہس نہس کردیا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے منگولوں نے غرناطہ کی لائبریری تہس نہس کردی تھی ۔ یہ وہی دہلی پولیس ہے جس نے جامعہ کی طالبات کو نشانہ بناتے ہوئے بھی کسی طرح کی شرم نہیں محسوس کی تھی اور یہ وہی دہلی پولیس ہے جس نے بالکل اسی طرح جیسےجامعہ میں فائرنگ کرنے والے نوجوان کو چند قدموں کے فاصلے سے دیکھ رہی تھی ، جے این یو میں اے بی وی پی کے شرپسندوں کو طلباءکو نشانہ بناتے ہوئے دیکھتی رہی تھی ،جوپیٹے جارہے تھے اور پٹائی بھی لوہے کی چھڑوں ، ہتھوڑیوں، اور بڑے بڑے پتھروں سے ! مگر پولیس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ اس وقت بھی اس نے انتہائی مضحکہ خیز وضاحت کی تھی کہ چونکہ اسے کیمپس کے اندر وائس چانسلر نے بلایا نہیں تھا اس لئے وہ کیمپس میں داخل نہیں ہوسکتی تھی ۔ کہاں تو جامعہ میں یہ بغیربلائے داخل ہوئی تھی اور کہاں جے این یو میں یہ طلباءکی پٹائی کو دیکھ کر بھی اندر داخل نہیں ہوئی ۔ تو یہ ہے دہلی کی وہ پولیس جس نے جامعہ میں طلبا پر رام بھکت گوپال کو گولی چلاتے ہوئے دیکھا اور خاموش کھڑی رہی ۔ شاید اسے اس ’خاموشی‘ کی تنخواہ ملتی ہے یا باالفاظ دیگر دہلی پولیس مجبور ہے کہ خاموشی سے ’ہاتھ باندھ‘ کر یرقانیوں کی شرپسندی کو دیکھتی رہے ۔ اس نے جے این یو معاملے میں اے بی وی پی کے شرپسندوں کو بچانے کی کوشش کی ہے ، شر پسندی کا الزام ان طلباءپر ہی لگایا ہے جنہوں نے مار کھائی ہے لہٰذا اگر کل کو جامعہ کی یہ فائرنگ جامعہ والوں کے سر ہی مڑھنے کی کوشش کی گئی تو حیرت نہیں ہوگی ۔
جامعہ میں ۳۰؍ جنوری کو جو فائرنگ ہوئی اس کی کڑی ۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ءسے جاکر مِل جاتی ہے ۔ اُس روز بابائے قوم مہاتما گاندھی پر ناتھو رام گوڈسے نے گولی چلائی تھی اور حال کی فائرنگ گاندھی واد ی طلباءپر گوڈسے وادی نے کی۔ یہ واقعہ ملک میں ان دنوں ان دو نظریات کے ٹکرائو کا ہے جن میں سے ایک کو گوڈسےنظریہ یا وسیع پیمانے پر سنگھی نظریہ کہا جاتا ہے ۔ اور دوسرا گاندھی جی کا نظریہ ہے جو ہندوستان کو ایک ایسے پُر امن ملک کے طور پر دیکھتا ہے جس میں ہر مذہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رواداری اور بھائی چارہ کے ساتھ زندگی گذاریں ۔ یہ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر اس بھائی چارے پر ضرب ہے لہٰذا یہ شہریت ترمیمی قانون ، یہ این آر سی اور این پی آر گوڈسےنظریہ یا سنگھ نظریہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔ ۳۰؍ جنوری کے روز جامعہ کے طلباءدہلی کی دیگر یونیورسٹیوں کےطلباءاور شاہین باغ کے مظاہرین کے ساتھ مل کر مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ تک جلوس لے جارہے تھے ۔ اس جلوس کا مقصد جہاں بابائے قوم کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا وہیں گوڈسے اور سنگھ کے نظریئے اور شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت بھی کرنا تھا۔ لہٰذا اس کی مخالفت میں جو بھی آواز اُٹھی وہ مہاتما گاندھی کی مخالفت میں آواز تھی ۔ اور جو فائرنگ ہوئی وہ بابائے قوم کے نظریات پر کی گئی تھی لیکن اس کا ایک بڑا مقصد شاہین باغ میں احتجاج کرنے والی خواتین کو ڈرانا تھا۔دو تین دن پہلے ایک شخص جس کا نام لقمان چودھری تھا وہاں پستول لے کر پہنچا تھا اور شاہین باغ کا مظاہرہ ختم کرنے کیلئے لوگوں کو دھمکا رہا تھا۔ لقمان ان لوگوں سے ایک ہے جو شاہین باغ کا مظاہرہ چاہتے تو نہیں ہیں لیکن اس کیلئے وہ طاقت کا استعمال کرنا نہیں چاہتے یہ عام سے لوگ ہیں۔ لیکن سنیچر یکم فروری کے روز جس شخص نے شاہین باغ پہنچ کر گولی چلائی تھی وہ گوڈسے اور سنگھ کے نظریات سے متاثر تھا۔ گولی چلاتے ہوئے اس نے ’’جئے شری رام‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ گولی چلاتے اور ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے وہ دہلی پولیس کے ذریعے لگائی گئی روک کے قریب با الفاظ دیگر پولیس کی حفاظت کی چھائوں میں کھڑا ہوا تھا وہ چیخ رہا تھا ’’ہمارے دیش میں صرف ہندوئوں کی چلے گی اور کسی کی نہیں‘‘ ۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس نے پولیس کے قریب کھڑے ہوکر نعرہ لگاتے ہوئے دو بار گولیاں داغیں، اس کے ہاتھ میں سیمی آٹو میٹک پستول تھی جو تیسری فائرنگ کے وقت جام ہوگئی لہٰذا اس نے اسے قریب کی جھاڑیوں میں پھینک دیا اور فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اسے پکڑ لیا گیا اور پولیس اسے لوگوں کے درمیان سے گھسیٹ کر لے گئی ،ا س کا نام کپل گُجّر ہے ۔ اور پولیس اسے بھی رام بھکت گوپال کی طرح نابالغ ثابت کررہی ہے ۔ گویا یہ کہ نابالغوں کو گولی باری کی مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے ۔ جامعہ کی گولی باری بھی شاہین باغ کے خلاف تھی اوریہ گولی باری تو شاہین باغ پر ہی ہوئی ۔ یہ بھی اللہ کا ایک احسان ہے کہ کوئی زخمی نہیں ہوا جبکہ شاہین باغ میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے موجود تھے ۔
یقیناً نشانے پر شاہین باغ ہے ۔ اور ممکن ہے کہ جس طرح دہلی کے شاہین باغ میں گولی چلا کر لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کی گئی ہے اسی طرح سے ملک کے دوسرے شاہین باغوں میں بھی گولیاں چلا کر احتجاجی مظاہرین کوڈرانے کی کوشش کی جائے ۔ یہ ڈر اور خوف اس لئے پھیلایا جارہا ہے کہ شاہین باغ کی تحریک ختم کی جاسکے ۔ یہ وہ تحریک ہے جس نے وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیندیں اُڑا دی ہیں ۔ اور ان کی اقلیت دشمن پالیسیوں کو سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے پس پشت مذموم عزائم کو اُجاگر کردیا ہے ۔ ایک مہم شاہین باغ کے خلاف شروع ہے ۔ امیت شاہ شاہین باغ ہٹانے کے نام پر دہلی میں ووٹ مانگ رہے ہیں اور مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر’’دیش کے غداروں کو گولی ماروں سالوں کو ‘‘ کا نعرہ لگا کر لوگوں کو احتجاجی مظاہرین پر گولی باری کیلئے اکسا رہے ہیں ۔ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے جلسوں میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ’’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘‘ کے نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں ۔ گویا یہ کہ شاہین باغ اب بی جے پی اور بھاجپائی وزراء کے حواس پر طاری ہوچکا ہے ۔ اور اسی سے اس تحریک کی ، جو ہندوستان کے بے بسوں اور مجبوروں کی جدوجہد کی علامت بن گئی ہے ،اہمیت کا بھی اور طاقت کا بھی خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ سنگھی ، یرقانی اور بھاجپائی احتجاجیوں کو ’’دیش کا غدار‘‘ بتاتےرہیں گے ۔ انہیں بکنے دیں کہ دنیا جانتی ہے کون اس ملک کا حقیقی غدار ہے ۔ بھلے ہی یہ گوڈسے کو دیش کا غدار نہ مانیں پر گوڈسے تو دیش کا غدار ہی ہے۔ اس لحاظ سے گوڈسے بھکت بھی دیش کے غدار ہی ٹھہرے۔ دو گولی باریوں ، امیت شاہ کے شاہین باغ ہٹانے کے نام پر ووٹ کی اپیلوں اور دیش کے غداروں کو گولی مارنے کے نعرے سے ایک بہت بڑاسچ ابھر کر سامنے آیا ہے،یقین کریں کہ شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرین اور سی اے اے کے مخالفین کی قوم پرستی ،نفرت اور عصبیت پرمبنی نقلی قوم پرستی پر بھاری پڑ گئی ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عورتوں کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ وہ نازک ہونے کے ساتھ ساتھ مردوں کے مقابلے میں بزدل ہوتی ہیں، بطور خاص گھریلو عورتیں جو چھپکلیوں اورجھینگروں تک کو دیکھ کر چیخ مار دیتی ہوں، ان کی ساری ہیکڑی ختم کرنے کے لیے ریوالور، گولی، ہوائی فائرنگ وغیرہ جیسی چیزوں کو کافی سمجھنا فطری ہے۔ شوہر کا ایک زناٹے دار تھپڑ جس مخلوق کو ساری زندگی پا بہ زنجیر رکھ سکتا ہے، بھلا اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ظالم حاکم وقت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر اسے چیلنج دے سکے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ باد مخالف میں وہ پورے ہمت و استقلال کے ساتھ ان لوگوں کو چنوتی دینے کے لیے پورے 50 دنوں تک اپنی جگہ پر جمی رہے؟سرد راتوں اور گرم طعنوں کے تھپیڑوں کے باوجود اسی طرح ان لوگوں کے سامنے کھڑی رہے جو دُرگا اور کالی کو نمن کرنے کے باوجود "ناری شکتی” کے انکاری ہوں۔ رضیہ سلطان، رانی لکشمی بائی اور جھانسی کی رانی کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے باوجود جو لوگ آج بھی اکیسویں صدی میں عورتوں کو صرف "گھریلو نوکرانی” یا "استعمال کرنے کی چیز” سمجھتے ہیں، ان کے لیے تو بہرحال یہ شاہین باغ کی عورتیں ان کی مردانہ ایگو کے لیے تازیانے سے کم نہیں، اسی لیے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت عورتوں کو گھر بار سنبھالنے کا مشورہ دیتے ہیں تو کبھی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردوں نے اپنی عورتوں کو چوراہے پر بٹھا دیا ہے اور خود رضائی میں دبکے پڑے ہیں، پھر کبھی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ ان عورتوں سے ڈر کر انھیں "بکاؤ” کہہ کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ عورتیں پتہ نہیں، کس چیز سے بنی ہیں کہ ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا اورپورے پچاس دنوں سے راون کی پوری فوج کو للکار رہی ہیں اور بیچارہ راون اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ "ویدک کال” کی نہیں، بلکہ اکیسویں صدی کی عورتیں ہیں۔ان عورتوں کا نہ تو "سیتا ہرن” کیا جا سکتا ہے اور نہ اب وہ "اگنی پریکشا” دینے کے لیے تیار ہے، بلکہ وہ خود مجسم اگنی کا روپ دھار چکی ہے جو سرکار کو اندر ہی اندر بھسم کررہی ہے۔ لہٰذا کبھی گوپال شرما نامی شخص کو چھپکلی سے ڈرنے والی مخلوق کو ڈرانے کے لیے بھیجا جاتا ہے جو بھٹکتے بھٹکتے شاہین باغ کے بغل میں ہی واقع جامعہ ملیہ یونیورسٹی پہنچ کرصرف ایک گولی داغنے کا ناٹک کرتا ہے اور بزدلوں کی طرح پیچھے کھسکتا ہوا خود کو تقریباً پولیس کے حوالے کردیتا ہے جو اس کے پیچھے ہی اسے گود لینے کو تیار کھڑی تھی، پھر کپل گجر نامی ایک شخص شاہین باغ کے باہر نمودار ہوتا ہے اور جان بوجھ کر دو یا تین راؤنڈ ہوائی فائر کرنے کے بعد پستول جھاڑیوں میں پھینک کر بالکل گوپال شرما کی طرح پولیس کی طرف جست لگا تا ہے اوران کی شفقت بھری بانہوں میں یہ کہہ کر سما جاتا ہے کہ "یہ ہندوؤں کا دیش ہے اور یہاں صرف ہندوؤں کی چلے گی۔”جامعہ ملیہ میں گولی چلانے والے گوپال شرما کو نابالغ قرار دے کر پولیس اس کیس کو پہلے ہی مرحلے پر کمزور کردیتی ہے،ممکن ہے ایک دو روز بعد کپل گجر کو ذہنی طور پر پاگل قرار دے کر اس کا کیس بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر میں پہلے بھی کافی کہہ چکا ہوں اور اس کی پوری کرونولوجی بھی بیان کرچکا ہوں۔ لیکن جس طرح 48 گھنٹوں کے اندر جامعہ اور شاہین باغ میں سانحے ہوئے، ان دونوں میں ایک مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں حملہ آوروں کا مقصد شاید کسی کوگولی مارنا نہیں بلکہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرنا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں کاروائیاں شاہین باغ کی عورتوں کو محض ڈرانے کے لیے تھیں تاکہ ان میں افراتفری پھیلے، وہ اپنی جان اور آبرو بچانے کے لیے گھر لوٹ جائیں یا ان میں سے بیشتر کے شوہر اور ان کے گھر والے ان عورتوں پر گھر لوٹنے کا دباؤ ڈالیں، اس طرح سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ یہ سب اس دن ہوا جب پارلیامنٹ میں مودی سرکار بجٹ پیش کرتے ہوئے "بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ” کے منصوبے کے گذشتہ ایک سال کے فائدے گنوا رہی تھی۔ مجال ہے جو ذرا بھی زبان کانپی ہو، مجال ہے گذشتہ سال میں عورتوں اور طالبات پر ہونے والے مظالم کے اعداد و شمار کا خیال بھی سرکار کے ذہن میں آیا ہو اور مجال ہے کہ ہندوستان بھر میں لاکھوں شاہین باغوں میں بیٹھی عورتوں کے درد اور ان پر پولیس کے مظالم اور بدزبانیوں کو یاد کرکے پیشانی پر پسینے کے کچھ قطرے ہی جھلملائے ہوں۔ چونکہ سرکار کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا مرد اب تک عورتوں کو ان کی برسوں پرانی امیج کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور مطمئن ہے کہ بھلا چھپکلی اورجھینگروں سے ڈرنے والی عورتوں کی اتنی مجال کہاں کہ وہ ان سے سوال کر سکیں، ان سے حساب کتاب مانگ سکیں۔ یہی خود اعتمادی انھیں لے ڈوبی اور لے ڈوبے گی، چونکہ موجودہ صورت حال بالکل شفاف اور واضح ہے۔جب کسی ملک کا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ اس کی پوری پلٹن اپنی سیاست کا مرکزی نقطہ شاہین باغ میں بیٹھی کچھ عورتوں پر مرکوز کردیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب سرکار ان سے ڈرنے لگی ہے لیکن چونکہ صدیوں پرانا مردانہ غرور عورتوں سے شکست مان کر اپنی وراثت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو وہ کبھی کرنٹ لگانے کی بات کرتا ہے، کبھی گوپال شرما کو بھیجتا ہے تو کبھی کپل گجر کو اور کبھی "ہندو سینا” کے ذریعہ 2 فروری کو شاہین باغ اکھاڑنے کا اعلان کراکے انھیں ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن افسوس انھیں پتہ ہی نہیں کہ شاہین باغ میں بیٹھی عورتیں مذہبی صحائف اور تاریخ کے صفحات سے نکل کردرگا، کالی، رضیہ سلطان، جھانسی کی رانی،لکشمی بائی جیسے کردار کے روپ میں مجسم ہوچکی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی: دہلی کے جامعہ کے علاقے میں فائرنگ کے دو دن بعد شاہین باغ میں پولیس بیریکیڈ کے قریب فائرنگ ہوئی ہے۔ ملزم نے جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے فائرنگ کی۔ پولیس بیریکیڈ کے قریب فائرنگ کرنے والے شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور اس سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔قابل ذکرہے کہ شاہین باغ میں تقریبا ڈیڑھ ماہ سے شہریت کے نئے قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ ملزم کا نام کپل گجر بتایا جارہا ہے اور وہ مشرقی دہلی کے دلوپورہ گاؤں کا رہائشی ہے۔ شاہین باغ پولیس اسٹیشن لے جاکر کپل گجر سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔ دہلی پولیس کے ڈی سی پی چنمے بسوال نے بتایا کہ یہ شخص ہوا ئی فائرنگ کر رہا تھا ، جسے فوراگرفتار کرلیا گیاہے۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ پولیس کے قریب کھڑے شخص نے دو یا تین بار فائرنگ کی۔ اس نے بتایا’ ‘ہم نے اچانک گولی کی آواز سنی، اس وقت ، وہ ‘جئے شری رام کے نعرے بھی لگارہاتھا۔ اس کے پاس سیمی آٹومیٹک بندوق تھی اور اس نے دو راؤنڈ فائر کیے۔ پولیس اس کے پیچھے کھڑی تھی‘۔ اس نے مزید بتایا کہ جب اس کی بندوق جام ہوگئی تو وہ بھاگنے لگا۔ اس نے دوبارہ فائرنگ کی کوشش کی اور بندوق جھاڑیوں میں پھینک دی۔ اس کے بعد ہم نے اسے کچھ پولیس اہلکاروں کی مدد سے پکڑ لیا۔ جب اسے پولیس پکڑکرلے جارہی تھی تووہ سرعام یہ کہہ رہاتھاکہ ہمارے دیس میں صرف ہندووں کی چلے گی، اورکسی کی نہیں چلے گی ـ واضح رہے کہ اس سے قبل جمعرات کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا پر ایک شخص نے گولی چلائی تھی ، جس سے سے شاداب نامی طالب علم زخمی ہوگیاتھا۔
موجودہ سرکار اور حکمراں جماعت کے لیڈر اور کارندے ساورکر اور گوڈسے کے پجاری اور عقیدت مند ہیں؛ لیکن عوام سے داد لینے کیلئے یہی لوگ ڈاکٹر امبیڈکر اورمہاتما گاندھی سے بھی عقیدت کا اظہار کرتے رہتے ہیں؛ حالانکہ گاندھی اگر مقتول ہیں تو گوڈسے اور ساورکر ان کے قاتل ہیں۔ امبیڈکر ذات پات کے خلاف ہیں او ر انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور دستور ساز ہیں۔ ساورکر یا ان کے ماننے والے امبیڈکر کے اصولوں اور ان کے تیار کردہ دستور ہند کے مخالف ہیں،ذات پات کے حامی اور پرچارک ہیں۔ مودی-شاہ یا ان کے پیروکار گاندھی اور امبیڈکر کا نام محض اس لئے لیتے ہیں کہ عوام کو جھانسے میں ڈال سکیں، گمراہ کرسکیں لیکن اب ان کے چہرے سے نقاب اٹھ رہا ہے،خواہ کتنا ہی نقاب پوشی اور پردہ پوشی کامظاہرہ کریں۔ گزشتہ جمعہ کوصدر جمہوریہ رام ناتھ کویند نے حکومت کی تحریر کردہ تقریر کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں پڑھ کر شرکا کو سنایا، جس میں لکھا ہوا تھاکہ ”آج کے ماحول میں گاندھی جی کے خوابوں اور آرزوؤں کو پورا کرنے کی مودی حکومت کوشش کر رہی ہے، انھوں نے کہاکہ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے تقسیم ہندکے سنگین ماحول میں کہا تھا کہ ہندو اور سکھ جو پاکستان میں نہیں رہ سکتے،اگر وہ ہندستان آنے کی خواہش ظاہر کریں،تو حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ان کے بسانے اور ان کی راحت رسانی کا انتظام کرے“۔ اس پر حکمراں جماعت کے ایم پی بشمول شاہ اور مودی میزوں کو تھپتھپانے لگے،جبکہ اپوزیشن کے ممبران نے اپنا احتجاج درج کرایا۔ صدر جمہوریہ نے جو کچھ پڑھا وہ در اصل گاندھی جی کی تقریر کا پورا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس حصے سے گاندھی جی کی تقریر یا باتوں کا مقصد یا مدعا پورا ہوتا ہے۔
10جولائی 1947ء کو گاندھی جی نے اپنی ایک پرارتھنا سبھا میں کہا تھا ”اگر سندھ یا دوسرے علاقوں سے چھوڑ کر لوگ ہندستان آئیں، تو ان کو ہم باہر نہیں کرسکتے، اگر ہم ایسا کریں گے، تو ہم اپنے آپ کو کیسے ہندستانی کہہ سکتے ہیں اور ہم کس منہ سے جئے ہند کا نعرہ بلند کرسکتے ہیں۔ نیتا جی نے کس لئے لڑائی لڑی تھی۔ ہم سب ہندستانی ہیں، خواہ دہلی میں رہتے ہوں یا گجرات میں، وہ لوگ ہمارے مہمان ہیں۔ ہم ان لوگوں کا خیر مقدم کریں گے کہ ہندستان ان کا ملک ہے جیسے پاکستان، اگر نیشنلسٹ مسلمان پاکستان چھوڑ کر ہندستان آئیں گے،تو ہم ان کا بھی سواگت کریں گے، ہم سب ہندستان میں برابر کے شہری ہیں“۔ گاندھی جی نے 25جولائی 1947ء کو اپنی ایک پرارتھنا سبھا میں کہا تھا کہ ”یہاں مسلمان، پارسی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہندستان اب ہندوؤں کا ملک ہے تو غلط ہے، ہندستان ان تمام لوگوں کا ہے، جو ہندستان میں رہتے ہیں“۔ مہاتما گاندھی نے 9ستمبر 1947ء کو کمیونسٹ لیڈر پی سی جوشی سے کہا تھا کہ ”یہ ہمارے لئے باعث ندامت ہے کہ ہندستان میں مسلمان افسردہ خاطر ہیں“۔ 25اگست 1947ء کو ایک دوسری پرارتھنا سبھا میں کہا تھا کہ ”تمام اقلیتیں ہندستان میں اسی درجے کی شہری ہیں، جس درجے کے شہری اکثریت کے لوگ ہیں“۔گاندھی جی نے 26ستمبر 1947ء کو ایک پریئر میٹنگ میں کہا تھا کہ ”اگر ہم تمام مسلمانوں کو وطن دشمن سمجھیں گے،تو پاکستان میں بھی ہندوؤں اور سکھوں کو وطن دشمن سمجھا جائے گا، ہم لوگوں کو ایسا نہیں سمجھنا چاہئے، ہندو اور سکھ اگر وہاں نہیں رہ سکتے تو ہندستان آسکتے ہیں۔ ان کیلئے ہماری حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ ان کو ہم روزگار سے لگائیں اور ان کی راحت رسانی میں مدد کریں، لیکن اگر وہ پاکستان میں رہتے ہیں اور ہمارے لئے کام کرتے ہیں اور پاکستان کیلئے نہیں کرتے ہیں تو ایسا نہیں ہونا چاہئے اور میں اسے ہر گز پسند نہیں کروں گا“۔
گاندھی جی کی تقریروں اور کارگزاریوں پر مشتمل جو مجموعہ ہے، اس میں مذکورہ باتیں درج ہیں۔ حکومت نے گمراہ کرنے کیلئے گاندھی جی کی نامکمل باتیں پیش کی ہیں۔ اگر گاندھی جی کی مکمل باتیں پیش کرتے، تو اس سے ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا،جس سے وہ ہندستانیوں کو گمراہ کرسکتے تھے، لیکن ان کی بیوقوفی اور نادانی کی حد ہے کہ ایک چیز جو اظہر من الشمس ہے،آخر اسے وہ کیسے چھپا سکتے ہیں؟ گاندھی جی کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے۔ گاندھی جی کا قصہ تمام اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ مودی،شاہ اور موہن بھاگوت کے خوابوں کے ہندستان کے خلاف تھے۔ گاندھی جی ہندستان میں ہندو مسلمانوں کا اتحاد چاہتے تھے، ان کے پرکھوں نے گاندھی جی کو نہ صرف مسلمانوں کا حامی قرار دیا؛ بلکہ ان کو محمد گاندھی کہہ کر پکارتے تھے، گاندھی جی کو پاکستان کا حامی قرار دیتے تھے، آج تک ان کی کتابوں میں درج ہے کہ ملک کی تقسیم کے ذمہ دار گاندھی ہیں، آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں جہاں مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کی تعلیم دی جاتی ہے،وہیں گاندھی دشمنی کا پاٹھ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ جو لوگ اس وقت حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، ان میں سے نوے فیصد لوگ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں، گاندھی دشمنی ان کی رگ رگ میں پیوستہ ہے۔
اس وقت جو سارے ملک میں احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں،جن سے حب الوطنی کا اعلان اور اظہار ہورہا ہے، ہندو اور مسلمانوں کے اتحاد کا بھی مظاہرہ ہورہا ہے، اس سے ان کی دیش بھکتی یا وطن پرستی کی اجارہ داری نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ ختم ہورہی ہے۔ شاہین باغ کے مظاہرے یا لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے مظاہرے یا ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں سے ان کی دشمنی اس لئے بڑھتی جارہی ہے کہ جو ان کی وطن پرستی کا ناٹک تھا اس کا پردہ چاک ہوتا جارہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یا شاہین باغ سے ان کی دشمنی کچھ زیادہ ہی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ہندو مسلم انتشار میں رکاوٹ ہورہی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دہلی میں الیکشن کا موسم ہے۔ حسب عادت اور حسب معمول بی جے پی ہر الیکشن کو پولرائز کرنا چاہتی ہے۔ شاہین باغ یا جامعہ ملیہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے؛اس لئے بھی حکومت پریشان ہے، مودی، شاہ اور ان کے لوگ شاہین باغ کو منی پاکستان کہہ رہے ہیں۔ طرح طرح کے الزامات تراش رہے ہیں۔ کبھی سدھیر اور چورسیا (گودی میڈیا کے لوگ) کو بھیج کر اپنا مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں اور کبھی نوجوانوں کے ہاتھ میں پستول دے کر بھیج رہے ہیں؛ تاکہ مظاہرین کے حوصلے پست ہوں، مگر اس میں انھیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ مودی سے لے کر کپل مشرا تک دنگے اور فساد پر اتر آئے ہیں۔
گزشتہ سال 15دسمبر کو نریندر مودی نے کہا تھا کہ مظاہرین کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جاسکتا ہے اور ان کے دست راست امیت شاہ نے دہلی میں کہاکہ 8 فروری کو اس طرح ووٹ مشین کا بٹن دبایا جائے کہ شاہین باغ میں بیٹھی خواتین کو کرنٹ لگے۔ 27جنوری کو انوراگ ٹھاکر نے نعرے بازی کی تھی کہ ”دیش غداروں کو“ تو بھیڑ کا جواب تھا”گولی مارو سالوں کو“۔ 28جنوری کو پرویش سنگھ ورما نے شاہین باغ کے بارے میں کہاکہ ”یہ لوگ لاکھوں کی شکل میں جمع ہوں گے اور ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری بہنوں، عورتوں کا بلاتکار کریں گے“۔ یہ سب بیانات یا نعرے بازیاں کیا باپو نے سکھائی ہیں؟ یہ سب باتیں تو صاف صاف ساورکر اور گوڈسے کے زبان اور بیان سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لئے صدر جمہوریہ کا یہ کہنا کہ ’سی اے اے‘ سے گاندھی جی کی عزت افزائی ہورہی ہے یا ان کے خوابوں کی تعبیر کی جارہی ہے، گاندھی جی کے ساتھ کھلا ہوا مذاق ہے اور اسی طرح کا سفید جھوٹ ہے، جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے رام لیلا میدان میں کہا تھا کہ ’این آر سی‘ کا کبھی ذکر ہی نہیں ہوا تھا۔ پورے ہندستان میں کہیں حراست کیمپ بھی نہیں ہے۔ صدر جمہوریہ کو بھی حکومت نے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا۔ ان کے جھوٹ کی قلعی اسی وقت کھل گئی، جب اپوزیشن کے لیڈروں نے اعتراض جتایا کہ ملک بھر میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ ہورہا ہے اور ملک کے آدھے سے زیادہ لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں، ایک ایک جگہ کئی مہینے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کہا جارہا ہے کہ گاندھی جی کے خواب کو پورا کیا جارہا ہے اور اس سے ملک کی عزت افزائی ہورہی ہے، جبکہ دنیا بھر میں اس کالے قانون کی وجہ سے ملک کی رسوائی ہورہی ہے۔ مودی سرکار یا ان کی پارٹی جتنا بھی چاہے کہ گاندھی اور امبیڈکر سے اپنے آپ کو جوڑے؛ لیکن مشرق اور مغرب کو جوڑنا، کالے اور سفید کو ایک کہنا، حق اورباطل کو ایک بتانا ہنسی، کھیل اور تماشہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ زندہ گوڈسے جو اب گوپال کے روپ میں نظر آیا اس کے فیس بک وال میں لکھا ہوا ہے کہ شاہین باغ کا کھیل ختم۔ شاہین باغ کا کھیل تو ختم نہیں ہوا لیکن اس کا کھیل ختم ہوگیا۔ ایک دن آئے گا مودی سرکار کی گاندھی بھکتی کا دن بھی ختم ہوجائے گا۔ ایک روز ایسا بھی آئے گا کہ کرنٹ شاہین باغ کی باعزت اور قابل احترام خواتین کو تو نہیں لگے گا لیکن شاہ اوران کے صاحب پر بجلی گرسکتی ہے،کرنٹ لگ سکتا ہے؛کیونکہ جو لوگ انسانیت اور انصاف کے دشمن ہوتے ہیں،وہ زیادہ دنوں تک لوگوں کو نہ گمراہ کرسکتے ہیں اور نہ دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
مرکزی وزیر نے ٹوئٹ کرکے کہاکہ مودی حکومت مظاہرین سے بات چیت کے لیے تیارہے
نئی دہلی: مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے آج مظاہرین کے ساتھ سی اے اے کے ایشوپر بات چیت کی تجویز پیش کی ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ وہ طے شدہ فریم ورک کے مطابق شاہین باغ کے مظاہرین سے بات کریں گے۔ اس دوران CAA پران کے شکوک و شبہات کو بھی دور کیا جائے گا۔واضح رہے کہ شاہین باغ میں گزشتہ 15 دسمبر سے ہی شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج جاری ہے۔اس سے قبل وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی میں انتخابی جلسے کے دوران شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف جاری احتجاج پر ایک اشتعال انگیزبیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بابرپور میں ای وی ایم کے بٹن کو اتنے غصے سے دباؤکہ اس کا کرنٹ شاہین باغ پہنچ جائے۔ اسی کے ساتھ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرویش ورما نے کہا تھاکہ اگر اقتدار میں آئے تو ہم سرکاری اراضی پر تعمیر مساجد کو مسمار کردیں گے اور ایک گھنٹے میں شاہین باغ کو بھی صاف کردیا جائے گا۔قابل ذکر ہے کہ دہلی میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہونے والے مظاہرے دہلی میں 20 مقامات تکپہنچ چکے ہیں۔ گیٹ 7 جامعہ یونیورسٹی ، شاہین باغ روڈ نمبر 13جنوب مشرقی ضلعے میں لالہ لاجپت رائے مارگ نظام الدین ، جنوبی ضلع کے ڈانڈی پارک ،حوض رانی، مالویہ نگر ، وسطی ضلع میں ترکمان گیٹ ، نارتھ ضلع میں اندرلوک میٹرو اسٹیشن کے قریب ، ڈیری والا پارک آزاد مارکیٹ جنگل والی مسجد ، شاہی عیدگاہ کے مشرقی دروازہ پراحتجاجات مسلسل چل رہے ہیں۔
سی ا ے اے کیخلاف مظاہرے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو ایک ایک لاکھ روپے کی مالی امداد
نئی دہلی: اترپردیش میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہو نے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے جمعےۃ علماء ہند کے ایک موقر وفد نے ان کی مالی مدد کی ہے۔جمعےۃ علماء ہند کے وفد نے رام پور، سنبھل، مظفرنگر، میرٹھ او ربجنور میں مغموم اہل خانہ کے گھر پہنچ کر ان کی خدمت میں جمعےۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایک کو مبلغ ایک ایک لاکھ روپے کا چیک بطور تعاون پیش کیا۔واضح ہو کہ ۲/جنوری ۰۲۰۲ء کو جمعےۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف احتجاجات میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کو مالی تعاون اور قانونی پیروی کا فیصلہ کیا تھا، نیز سی اے اے کے خلا ف سپریم کورٹ میں مقدمہ سمیت کئی محاذوں پر جد وجہد کے خاکے کو منظوری دی تھی۔جمعےۃ علماء ہند کے متذکرہ وفد میں شریک مولانا حکیم الدین قا سمی ناظم جمعےۃ علماء ہند نے بتایا کہ اب تک ہمارے وفد نے مظفر نگر میں کھالہ پار کے رہنے والے نور محمد، بجنور میں محمد سلیمان، محمد انس (نہٹور) سنبھل میں محمدشہروز، محمد بلال،میرٹھ میں محمد آصف بن حکیم محمد سعید،محمد محسن،محمد ظہیر،عبدالعلیم،محمد آصف بن عیدو اور رام پور میں محمد فیض کے گھرو الوں سے ملاقات کی ہے اور ان کو مالی مدد دی ہے۔انھوں نے بتایا کہ جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی صاحب کی ایما پر مقدمات کی پیروی کے لیے ہر ضلع میں وکلاء کا پینل بنا یا گیا ہے۔جمعےۃ مغربی اتر پردیش کے سکریٹری قاری ذاکر حسین نے کارگزاری پیش کی کہ ضلع مظفر نگر میں 13 وکلاء پر مشتمل ایک پینل قائم کیا گیا جو جیل میں بند لوگوں کی رہائی کے لئے مستقل کوشاں ہے۔ الحمدللہ اس کے نتیجے میں اکثر افراد کی ضمانت ہو چکی ہے 44 افراد کو ریکوریrecovery))نوٹس دیا گیاتھا جن میں سے 24 افراد کی طرف سے جمعیۃ علماء کے وکلاء نے جواب داخل کرایا ہے۔اس کے علاوہ کثیرتعداد میں لوگوں کو مچلکہ کا پابند کیا گیا تھا جسے علی افسران سے مل کر ختم کرایا گیا۔مذکورہ بالا اضلاع کے دورے پر جمعےۃ علماء ہندکے وفد میں مرکز سے مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعےۃ علماء ہند، مولانا مفتی محمدعفان منصورپوری،مولانا کلیم اللہ قاسمی ہنسوراور مولانا حفیظ الرحمن قاسمی،مولانا محمد جمال قاسمی شریک رہے، جب کہ ان اضلاع کے سفر کے دوران اپنے اپنے اضلاع میں ریاستی و ضلعی ذمہ داران بھی وفد کا حصہ رہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ دہلی الیکشن قریب ہے اور چناوی پرچار کا بازار گرم ہے۔ یہ بھی سبھی کو علم ہے کہ ایک بار پھر کیجریوال کی جیت تقریباً طے ہے چونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں انھوں نے جو کام کیے ہیں، اس بنیاد پر وہ الیکشن میں اترے ہیں جس کی تائید دہلی کی عوام کررہی ہے۔ بی جے پی کے پاس چو نکہ اپنی رپورٹ کارڈ دکھانے جیسا کچھ نہیں ہے، بلکہ اس وقت پورا ملک اس کے خلاف سڑکوں پر اترا ہوا ہے، اس لیے امیت شاہ اور بی جے پی نے اپنا پرانا آزمودہ کارڈ استعمال کرنا شروع کردیا یعنی انھوں نےوہی ہندو مسلمان، پاکستان، دیش بھکتی وغیرہ کا راگ الاپنا شروع کردیا جو بھکتوں پر تو اب بھی اثر انداز ہو سکتا ہے لیکن عام جنتا اس سے بیزار ہوچکی ہے۔ لہٰذا جب یہ پتّہ بھی کام نہ آیا تو امیت شاہ نے اپنے پرچار کی سمت”شاہین باغ” کی طرح مقرر کردی تاکہ بھکتوں کو تھوڑا تازہ دم کیا جا سکے۔ جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب ہوتے گئے، امیت شاہ اور ان کے نیتاؤں کا شاہین باغ پر حملہ بڑھتا چلا گیا چونکہ اس وقت پورے ہندوستان میں جاری احتجاج کا یہ مرکزی استعارہ بن چکا ہے۔ پہلے تو امیت شاہ کے آئی ٹی سیل نے شاہین باغ میں بیٹھی عورتوں کو ‘بکاؤ’ کہا، پھر ان کے ایک نیتا نے کہا کہ پاکستان جانے کا راستہ شاہین باغ سے ہوتا ہوا جاتا ہے، پھر بی جے پی کے ایک اور لیڈر نے کہا کہ یہ الیکشن بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ کی طرح ہے، پھر خود امیت شاہ نے ووٹروں سے کہا کہ ایک طرف بھارت ماتا ہے تو دوسری طرف شاہین باغ ہے۔ گویا شاہین باغ یا دہلی بھارت کا حصہ نہیں اور جو سرکارکی مخالفت کرے وہ پاکستانی ہے۔ امیت شاہ کی زبان میں اتنی تیزی آگئی کہ انھوں نے اپنے عہدے کی عظمت کو ایک طرف لات مار کر ووٹروں سے یہ اپیل تک کردی کہ اس چناؤ میں ‘کمل ‘ (بی جے پی کا چناوی نشان) کے بٹن کو اتنے زور سے دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ کو لگے۔ یہاں سے جامعہ کی فائرنگ کی کرونولوجی کو سمجھیے۔
27 جنوری کو بی جے پی کے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے سر عام اپنے ووٹروں سے نعرہ لگوایا، "دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو”۔ اس وقت اس اسٹیج پر کئی بی جے پی کے وزیر موجود تھے جن میں مرکزی وزیر گری راج کشور بھی شامل تھے۔ سب خاموش رہے۔ پریس میں ہنگامہ مچا لیکن امیت شاہ، نریندر مودی اور پوری بی جے پی خاموش رہی۔ الیکشن کمیشن نے شکایت پر نوٹس لیا اور انوراگ ٹھاکر پر 96 گھنٹے کے لیے ان کے چناوی پرچار پر روک لگا دی۔ (اس کے بعد وہ اس طرح کے نعرے لگانے کے لیے آزاد ہوں گے۔) لیکن نہ تو دہلی پولیس نے انوراگ ٹھاکر کے خلاف کوئی کاروائی کی جب کہ Hate Speech پر آئی پی سی میں دفعات موجود ہیں اور نہ بی جے پی نے اپنے مرکزی وزیر کے خلاف کچھ بولا۔ ظاہر ہے خاموشی نیم حمایت ہی ہوتی ہے اور کبھی کبھی حوصلہ افزائی کا باعث بھی بنتی ہے۔
لہٰذا اس حوصلہ افزائی نے اپنا کام کردکھایا۔ صرف دو روز پہلے ایک شخص پستول لے کر شاہین باغ میں گھس جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرپاتا، مقامی لوگوں نے اسے دھر دبوچا اور پولیس کے حوالے کردیا۔ اس واقعہ کے دو روز بعد جامعہ ملیہ پر جاری ایک پروٹیسٹ پر رام بھکت گوپال نامی شخص پستول سے حملہ آور ہوجاتا ہے، پولیس کھڑی دیکھتی رہتی ہے جب تک وہ اپنا ‘کام ‘ ختم نہیں کرلیتا۔ ویڈیو بہت صاف ہے وہ احتجاجیوں پر گولی داغ کر ہندوستان زندہ باد اور دہلی پولیس زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہوا دھیرے دھیرے پیچھے کھسکتا ہے ، اور اس کی سمت پولیس ہی کی طرف ہے جہاں وہ چپ چاپ کھڑی ہے۔ جب گوپال اور پولیس کے درمیان فاصلہ کم ہوجاتا ہے تو ایک افسر دو چار قدم بڑھ کر اس کی گردن میں اپنی بانہیں اس طرح حمائل کردیتا ہے جس طرح عموماً ایک عاشق اپنی معشوقہ کو بغلگیر کرتا ہے۔ میں نے ایسی دلبرانہ گرفتاری اس سے پہلے نہیں دیکھی۔ خیر پھر اس دہشت گرد کو پولیس کی وین میں بٹھا کر لے جایا جاتا ہے۔ جو طالب علم زخمی ہوا تھا، اسے اسپتال لے جانے کے لیے پولیس بیری کیڈ تک نہیں کھولتی، حتیٰ کہ اسے اپنے زخمی بازؤں کے ساتھ دوسر ے طلبا کی مدد سے بیری کیڈ پر چڑھ کر دوسری طرف جانا پڑتا ہے۔ اس حملے کے لیے جو تاریخ چنی گئی، کیا وہ محض اتفاق ہے یا وہ ناتھو رام گوڈسے کی تقلید میں کیا گیا۔ 30 جنوری کو ہی اس نے گاندھی جی کو گولی ماری تھی اور اسی تاریخ کو جامعہ میں گوڈسے کے ایک بھکت نے گولی چلا کر گوڈسے کو شردھانجلی دی۔ گاندھی نے گولی کھا کر زمین پر گرتے ہوئے ‘ہے رام’ کہا تھا جب کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا پر ‘جے شرمی رام’ کا نعرہ لگا کر رام بھکت گوپال نے گولی چلانے کا پنیہ کام کیا۔
یہ منظر نامہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے۔ ہم اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جے این یو اور خود جامعہ ملیہ میں یہ سب دیکھ چکے ہیں۔ امیت شاہ ٹوئٹ پر وہی رٹا رٹایا فقرہ دہراتے ہیں کہ انھوں نے دہلی پولیس کو حکم دے دیا ہے کہ اس متشددانہ کاروائی سے سختی سے نمٹا جائے اور مجرم کو بخشا نہ جائے۔شاید ان کی مراد یہ ہو کہ بالکل اسی طرح جس طرح جے این یو کے نقاب پوشوں کو آج تک بخشا نہیں گیا یا پھر اس سانحہ کے ‘پریرک’ انوراگ ٹھاکر کو بخشا نہیں گیا۔ واضح رہے کہ امیت شاہ اس دہلی پولیس کو حکم دے رہے ہیں جو اس وقت کچھ ہی فاصلے پر کھڑی ہاتھ باندھے یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس پر ہنسا جائے یا تھوکا جائے، میں فیصلہ نہیں کرپا رہا ہوں؟ اس لیے اب پولیس کاروائی کے نام پر جو کرے گی، وہ بھی عیاں ہے، چلیے اس کی بھی کرونولوجی سمجھ لیتے ہیں:
(1) رام بھکت گوپال کو ذہنی مریض ڈکلیئر کردیا جائے گا۔
(2) بی جے پی پلہ جھاڑ لے گی کہ اس حادثے کا تعلق انوراگ ٹھاکر سے نہیں ہے۔
(3) پولیس کہے گی کہ اس پر جو الزام لگایا جارہا ہے وہ غلط ہے، حادثے کے وقت ہم کافی دور تھے۔
(4) پولیس گوپال کے ساتھ جامعہ کے زخمی طالب علم کے خلاف بھی مقدمہ ٹھوک دے گی کہ وہ گولی کے راستے میں آگیا تھا۔
(5) گودی میڈیا جامعہ ملیہ کے طلبا کو ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ میں شامل کرلے گی اوراس پر حملہ بول دے گی۔
(6) کچھ دنوں بعد یہ کیس بھی جامعہ، جے این یو اور علی گڑھ کی طرح ٹھنڈے بستے میں چلا جائے گا اور ایک نئی جگہ نئی کاروائی ہوگی۔
مجھے شک ہے کہ جامعہ میں ہونے والا یہ سانحہ دو روز پہلے شاہین باغ میں ہونے والا تھا جو ان کی بدقسمتی سے فلاپ ہوگیا ، لہٰذا اسی کے قریب جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں اس ادھورے کام کو انجام دیا گیا۔ خیر، دہلی کا الیکشن جیسے جیسے قریب تر ہوتا جائے گا، اس طرح کے حملوں میں تیزی آتی جائے گی۔ بہرحال انھیں دہلی کا الیکشن جیتنا ہے چونکہ بات صرف دہلی کی نہیں بلکہ ان کی مونچھ کا مسئلہ ہے۔ یہ جھاڑکھنڈ جیسی شکست نہیں ہوگی بلکہ دہلی میں ہارنے کا مطلب ہے پورے ملک میں شاہین باغوں سے ہارنا ہے جس سے ان کے بھکتوں کے حوصلے پست ہوں گے۔ لہٰذا اس وقت بی جے پی اور امیت شاہ کیجریوال سے نہیں، شاہین باغوں کی عورتوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس لیے میری شاہین باغ کی عورتوں اور بطور خاص ان کے والنٹیئرز سے گزارش ہے کہ وہ شاہین باغ میں ان عورتوں کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ سخت کردیں، کچھ ایسا بندوبست کیجیے کہ اس میں باہر سے شامل ہونے والے ہر شخص پر آپ چوبیس گھنٹے نظر رکھ سکیں، خواہ وہ کوئی عورت ہو یا داڑھی ٹوپی والا کوئی بندہ ہی کیوں نہ ہو۔ ممکن ہو تو کچھ CCTV لگا کر اس کے مانیٹر پر کچھ لوگوں کو معمور کردیں۔ اسی طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبا کو بھی مزید محتاط اور چوکنے رہنے کی ضرورت ہے۔
خیر، اب آئیے اس پرانے منظر نامے پر ایک نئے رنگ کے کچھ چھینٹے دیکھتے ہیں۔ پرانی کہاوت ہے کہ گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ اس منظر نامے میں گیڈر جامعہ ملیہ کی طرف بھاگا اور اس نے خود کشی کرلی۔ کیسے؟ میں بتاتا ہوں۔
اس سانحے کے بعد میں نے فوراً رام بھکت گوپال کے فیس بک پروفائل کو چیک کیا۔ظاہر ہے وہاں اس کے کارنامے پر بھکتوں کا مجمع لگا ہوا تھا، یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں۔ جو بات مجھے غیر متوقع لگی، وہ یہ تھی کہ بی جے پی اور CAA کے سپورٹربھی ایک اچھی خاصی تعداد میں اسے لعنت ملامت کررہے تھے۔ وہ صاف اور واضح انداز میں اس کی پروفائل میں کہہ رہے تھے کہ وہ بے شک شاہین باغ کے خلاف ہیں، سی اے اے کے سپورٹر بھی ہیں لیکن تم نے ہم سب کا سر جھکا دیا اور ہمارے کام کو بگاڑ دیا۔ ٹوئٹر میں بھی مجھے یہی نظارہ نظر آرہا تھا۔ گوبر بھکتوں کو چھوڑیے، وہ کبھی نہیں سدھریں گے لیکن جامعہ فائرنگ نے کئی بھکتوں اور ساتھ ہی بے جے پی ووٹروں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہی حال گودی میڈیا کا بھی ہے، ارنب گوسوامی کے ‘ریپبلک ‘ کو کنال کامرا پر چھوڑیے، اب تو ارنب گوسوامی جہاز پر چڑھنے سے پہلے مسافروں کی لسٹ بھی چیک کرے گا کہ اس میں کنال کامرا تو شامل نہیں ہے۔ ‘انڈیا ٹوڈے’ چینل کے راہل کنول نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں امیت شاہ کے بیان کا جواب دیتے ہوئے وہ تصویر لگائی جو اس پوسٹ میں شامل ہے۔ یہی وہی راہل کنول ہیں جنھوں نے اپنے چینل میں جے این یو پر نقاب پوشوں کے حملے کی نقاب کشائی کی تھی اور بھکتوں سے پیٹ بھر کے گالیاں سنی تھی۔ میں زیادہ خوش فہمی میں نہیں ہوں، لیکن اتنا تو ہے کہ جامعہ فائرنگ بی جے پی کو دہلی جیتنے کا موقع تو کیا اس کا راستہ مزید مسدود کردے گی چونکہ اس کا وار الٹا پڑ گیا۔ امیت شاہ اور بی جے پی آج اسی گڑھے میں نظر آ رہے ہیں جو انھوں نے شاہین باغ کی عورتوں، احتجاجیوں اور کیجریوال کے خلاف کھولا تھا۔ اب تو بس ان کے پاس اس ذلت آمیز شکست سے بچنے کا ایک ہی راستہ باقی ہے کہ وہ کسی طرح اس الیکشن کو ملتوی کرادیں تاکہ بچی کھچی عزت محفوظ رہ جائے اور ممکن ہے کہ وہ عنقریب یہ ‘جگاڑ’ لگا بھی دیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
2016 میں جاٹ تحریک نے زور پکڑا،اس نقصان کا اندازہ ان اخباروں اور صحافیوں کو نہیں ہے جو شاہین باغ کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، شاہین باغ والوں کے پاس ملک بچانے ، آئین و دستور کی حفاظت اور صبر و تحمل کے سوا کچھ بھی نہیں،2016 میں ملک کا ایک بڑا حصہ ریزرویشن کی ‘آگ’ میں جل رہا تھا ۔ جاٹ ریزرویشن کے مطالبہ کے دوران پیش آنے والے شدید تشدد اور لوٹ مار کے واقعات تشویشناک تھے۔ کچھ اس تحریک کی حمایت میں تھے، کچھ مخالفت میں اور مودی امت شاہ کی حکومت تماشہ دیکھنے اور جاٹوں کو خوش رکھنے میں مصروف ۔ اس تحریک کے مضر اثرات پر ایک نظر ڈالیں۔
5 سے 7 ریلوے اسٹیشن تباہ! میڈیا رپورٹس کے مطابق تشدد کے واقعات میں 5-7 اسٹیشنوں کو نمایاں نقصان پہنچا،جس میں تقریبا 200 کروڑ کا نقصان ہوا،اندازہ لگائیے ، دوسوکروڑ کا نقصان!
800 کے قریب ٹرینیں منسوخ ہوئیں، اس سے ریلوے کو ہونے والے محصولات کے نقصان کا تصور کرسکتے ہیں۔
بہت سے بس اسٹینڈ اور سرکاری دفاتر کو نذر آتش کردیا گیاـ
بہت ساری سڑکیں کھوددی گئیں، یہاں تک کہ فوج کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے داخل ہونا پڑا۔ ریاست کا پورے ملک سے رابطہ ٹوٹ گیا،نودن تک یہ تحریک چلی،زیادہ چلتی تو پتہ نہیں کیا ہو جاتاـ
1000 سے زائد گاڑیاں اور 500 سے زیادہ دکانیں نذر آتش کی گئیں ـ (آج تک ، کیشو کمار کی رپورٹ دیکھئے، 22فروری 2016)انڈسٹری بورڈ کے مطابق سیاحت کے شعبے، ٹرانسپورٹ اور مالی خدمات سمیت 18 ہزار کروڑ روپے نقصان ہوا۔صنعتی اور زرعی کاروباری سرگرمیوں ، بجلی ، اور کھانے پینے کی اشیاکو پہنچنے والے نقصان سے 12 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا۔ نیز سڑک ، ریستوراں ، بس اسٹینڈ ، ریلوے اسٹیشن اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کو نقصان پہنچنے سے چار ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا،اس طرح جاٹ احتجاج کی وجہ سے مجموعی طور پر 34 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا، یعنی ملک پر 34000کروڑ کا بوجھ پڑا،
2014میں مودی کی حکومت بنی، اور 2016میں جاٹوں کی تحریک نے ملک کا نقشہ بدل دیا،جبکہ یہ تحریک ان کی ذاتی تحریک اور ریزرویشن کو لے کر تھی اور شاہین باغ تحریک پورے ملک کے لئے ہے، اس تحریک میں ہر قوم و ملت کے لوگ شامل ہیں ـ
تین طلاق کی پول تو اسی وقت کھل گئی تھی جب مودی حکومت نے مسلم عورتوں سے ہمدردی دکھاتے ہوئے انتہا پسندی کی حد کر دی تھی ـ آئین ، ملک ، دلت اور مسلم مخالف حکومت کو وہی مہرہ چلنا پسند تھا ، جو تاناشاہی کی جڑوں کو مزید مضبوط کرے، شاہین باغ کے پر امن احتجاج سے پریشان امت شاہ نے دلی انتخاب کو لے کر جو بیان دیا، اس کی شدت اور انتقام میں ہر حد سے گزر جانے والے لہجے کو محسوس کیا جا سکتا ہے،یہ بیان ہے کہ بٹن اتنے غصّے میں دباؤ کہ کرنٹ شاہین باغ تک پہچے – انتخاب کا بٹن غصّے میں کون دباتا ہے؟ کیا شاہ یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ووٹ دینے غصّے میں جاؤ اور شاہین باغ کی عورتوں کو کرنٹ لگا دو؟ کرنٹ لگنے سے جان بھی جاتی ہے،اگر غور کیا جائے تو یہ بیان شاہین باغ کی مخالفت میں بھی ہے اور عورتوں کی مخالفت میں بھی، ان میں ان عورتوں کو نشانہ بنایا گیا جو مسلمان ہیں، تین طلاق کا بل پاس کرتے ہوئے ان عورتوں کے لئے زبان بدل گئی تھی، اب ان مسلم عورتوں کے ساتھ ہر قوم کی عورتیں اور بیٹیاں بھی احتجاج کا حصّہ بن چکی ہیں،کرنٹ کہاں کہاں دوڑے گا ؟ اب تو پورا ہندوستان شاہین باغ ہےـ
کپل مشرا جو کبھی عام آدمی پارٹی میں تھے ، مودی کی مخالفت میں ہر حد سے گزر جاتے تھے، اب بی جے پی میں ہیں تو دلی انتخاب کو ہندوستان اور پاکستان کی جنگ سمجھ رہے ہیں، اس نادر خیال کے پیچھے بھی شاہین باغ ہے،ابھی حال میں منیش سسودیا نے آجتک چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اقرار کیا کہ شاہین باغ کے ساتھ بھی ہیں، جے این یو کے ساتھ بھی ـ اتر پردیش احتجاج میں بھی ہر قوم کے لوگ شامل ہیں لیکن یوگی کی گندی زبان پر صرف مسلمانوں کے نام ہیں، کوڑے صرف مسلمانوں پر برس رہے ہیں،
کیا احتجاج شروع ہونے تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہندوستان میں اب تک کا سب سے بڑا آندولن شروع ہوگا اور یہ آزادی کے بعد کا سب سے بڑا آندولن مسلم عورتوں کی قیادت میں شروع ہوگا ؟ اور جب یہ ملک گیر تحریک شروع ہوئی،اس وقت بھی کسی کو یقین نہیں تھا کہ آنے والے وقت میں ملک کا ہر چوراہا ، ہر گلی شاہین باغ میں تبدیل ہو جائے گی، فسطائی طاقتوں کو روند ڈالنے والی آواز اس قدر بلند ہوگی کہ آسمان میں شگاف پڑ جائے گا، بابری مسجد شہادت سے تین طلاق اور ہجومی تشدد سے ہلاکت کی نئی نئی کہانیوں تک مسلمان خاموش رہا لیکن جب آئین ، جمہوریت اور ملک کے تحفظ کا خیال آیا تو گھروں میں رہنے والی عورتوں نے بھی ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں مورچہ سنبھال لیا، ٹھٹھرتی سردی میں ماؤں کے ساتھ ننھے بچے بھی ، بزرگ عورتیں بھی ساری ساری رات احتجاج میں مصروف رہیں، نہ انہیں گولیوں کا ڈر ستا رہا تھا، نہ انہیں ہلاکت کی پرواتھی ، مائیں ، بہنیں بیٹیاں اور ہمارے نوجوان سب نے سر سے کفن باندھ لیا، کیا حکومت کے بیانات یہ واضح نہیں کرتے کہ حکومت احتجاج سے خوف زدہ ہے؟ ممکن ہے حکومت احتجاج کو کچلنے میں کامیاب ہوجائے، مگر اس کا کیا کیجئے کہ جمہور پسند ہر شہری نے اپنے سینے پر شاہین باغ کا نام لکھ لیا ہے، اب اس نام کو مٹانا آسان نہیں ـ
کوئی بھی عوامی تحریک یک سُری یا مکمل نظم و ضبط کی پابند نہیں ہوتی اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ جیتے جاگتے انسانوں کی جدوجہد سے عبارت ہوتی ہے؛ وہ انسان جس کا چہرہ ایک نہیں، رنگ ایک نہیں، پس منظر ایک نہیں، معاشی حالات ایک نہیں، تعلیمی و فکری سطح ایک نہیں، جذبات ایک سے نہیں، قوت برداشت مساوی نہیں، نفسیات ایک نہیں اور نہ ہی ان کا ردعمل یکساں ہوتا ہے تو پھر آپ اس سے یہ کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ مقصد ایک ہونے کے باوجود اس کا طریقہ کار بھی یکساں ہو؟ مثلاً تحریک آزادی کو ہی لے لیں، یہاں بھی ‘نرم دَل’ اور ‘گرم دَل’ موجود تھے۔ آزادی کی داستان میں صرف گاندھی، نہرو، پٹیل اور مولانا آزاد وغیرہ جیسے مدبر کردار ہی نہیں ہیں، بلکہ اس میں سبھاش چندر بوس، چندر شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو جیسے سرفروش بھی شامل ہیں جو انگریز سرکار کے نزدیک باغی،غنڈے اور تخریب کار تھے لیکن ہمارے لیے وہ گاندھی اور نہرو کی طرح ہیرو ہیں۔اسی طرح کیا آپ پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ 1974 میں اندراگاندھی کی سرکار کے خلاف طلبا تحریک بھی پوری طرح منظم اور یک سُری تھی؟ کوئی عوامی تحریک ہو بھی نہیں سکتی۔ منزل ایک ہوتی ہے لیکن اس تک پہنچنے کا راستہ مختلف ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ ہم ان راستوں کے راہی نہ بننا چاہیں لیکن آپ ان کی نیک نیتی اور جذبے کو غلط قرار نہیں دے سکتے چونکہ ہر عوامی تحریک کئی سطحوں پر کام کرتی ہے، صرف اوپری پرت کو ‘سمپورن کرانتی’ مان لینا تاریخ اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔جلیاں والا باغ ہو یا شاہین باغ؛ اس پر بھی مختلف ردعمل سامنے آیا اور آئے گا۔ ممکن ہے کہ میری اور آپ کی قوت برداشت مضبوط ہو، ممکن ہے ہم موجودہ سرکار کی بے حسی کو برداشت کرجائیں، ممکن ہے کہ ہم سرکار کی آئی ٹی سیل کی طرف سے ان عورتوں کو ‘بکاؤ’ کہنے پر خون کا گھونٹ پی کر رہ جائیں، ممکن ہے ہم جامعہ ملیہ میں لڑکیوں اور بے گناہ طلبا پر برسنے والی لاٹھی کے خلاف ترنگا ہاتھ میں لے کر سڑک پر اترنے کو کافی سمجھیں، ممکن ہے ہم جے این یو میں نقاب ڈالے غنڈوں کی داداگیری پر، پولیس اور سرکار کی یک طرفہ کاروائی پر سرکار کے خلاف نعرے لگانے کو ہی درست راستہ قرار دیں، ممکن ہے ہم یوگی سرکار کے وزیر کو جلسہ عام میں یہ بولتے سنیں کہ قبرستان میں دفن مسلم عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان کا بلاتکار کرنا چاہیے، پھر بھی ہم دستور ہند کا ابتدائیہ پڑھ کر پُرامن احتجاج کرنا اپنی حکمت عملی کا اہم جزو سمجھیں، ممکن ہے کہ 26 جوان لاشوں کو دفن کرنے کے باوجود ہم اپنے سینوں کو ظالم کے آگے پیش کرنے کا جذبہ سلامت رکھیں، ممکن ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے جسموں پر پولیس کی لاٹھی سے پڑے نیلے داغوں کو چوم کر اپنے راستے پر آگے بڑھ جائیں، ممکن ہے کہ 24 گھنٹے گودی میڈیا کا انڈیلا ہوا زہر پی پی کر ہم نیل کنٹھ کہلانے کا اعزاز حاصل کرلیں؛لیکن ضروری نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص اس اگنی پریکشا سے صحیح سلامت گزر جائے، ضروری نہیں کہ سب کی قوت برداشت ہم جیسی ہو، ضروری نہیں کہ سب کے جسم میں دوڑنے والا خون یکساں رفتار سے دوڑتا ہو، ضروری نہیں کہ سب کے پاؤں میں باٹا کا 9 نمبر کا جوتا ہی آتا ہو، ضروری نہیں کہ سب آپ کی امامت میں آپ ہی کی طرف رفع یدین کریں، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس بھیڑ میں سب گاندھی وادی نہ ہوں، ان میں سے کچھ بھگت سنگھ اور سکھ دیو بھی ہوسکتے ہیں جن کا مقصد ایک ہونے کے باوجود طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ان کے طریقہ کار سے آپ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ان کی نیک نیتی پر آپ سوالیہ نشان نہیں جڑ سکتے اور نہ ہی آپ کو ایسے سرفروشوں کو جسٹیفائی کرکے اپنے خانہ میں فٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے چونکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کے ہیرو صرف گاندھی اور نہرو ہیں، چند شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ جیسے جیالوں کی آپ کو ضرورت نہیں۔
ایک ادبی جلسہ میں ساحرلدھیانوی کی شاعری کا تذکرہ کرتے ہوئے جاوید اختر نے کام کی بات کہی۔کہا ’کام کوئی چھوٹا نہیں ہوتا۔ کام کرنے والے کچھ لوگ چھوٹے ضرورہوسکتے ہیں۔ بڑآدمی چھوٹے کام کو ہاتھ لگالیتا ہے تو وہ بڑا ہوجاتا ہے۔‘ان کی اس بات کی اتنی وضاحت کردوں کہ آدمی کام سے ہی بڑاہوتا ہے۔ نام اورمنصب سے نہیں۔اس کی ایک تازہ مثال شہریت قانون کے خلاف جاری تحریک ہے۔ ڈھونڈو تو کوئی بڑانام نہیں نظرآتا،کام دیکھو تو اتنا بڑا جس کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اصل میں بڑے تووہی ہیں جواس کام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ تل تل مل کر پہاڑ بن گیا۔ اورپہاڑ تھے وہ بونے نظرآنے لگے۔
سنئے سب سے بڑا کام یہ ہوتا ہے کہ عوام کے دلوں سے جابراورظالم حکمراں کا خوف نکال دیا جائے اورخودسرحکمراں اپنی صفائی دیتا پھرے۔ اس اندولن میں نہ کوئی گاندھی ہے، نہ جے پی اور ہزارے۔ یہ بڑاکام ہماری باشعور گھریلو خواتین ،تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں اورلڑدکوں نے کردکھایا۔اس کی دھمک سے دانشورطبقے کی توجہ اس طرف گئی۔ نوٹ کیجئے کہ تحریک میں شریک خواتین اوران کی مدد میں مستعدافراد میں سے کسی کونام ونمود کی چاہ نہیں۔ ان سب کو ہ ملک کے مستقبل کو بربادی سے بچانے کی مبارک فکر متحرک کئے ہوئے ہے۔ان کیلئے مبارکباد کا لفظ چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ اس کا صلہ انشاء اللہ اس دنیا میں بھی جلد ملے گا اورآخرت میں بھی اپنی نیک نیتی کا اجر سے کوئی محروم نہیں رہے گا۔
اندرون ملک پچھلے چار، چھ سال سے پروپگنڈاکیا جارہا تھا کہ مسلم خاتون بہت مظلوم ہیں۔ مردکے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی فریب کے ساتھ تین طلاق قانون لایا گیا،لیکن بقول عارفہ شیروانی،جامعہ کی دو لڑکیوں نے اوراس کے بعد ملک کی بھر کی سڑکوں پرخواتین کے ہجوم نے اس جھوٹ کو تارتارکردیا۔ یہ خواتین اتنی بڑی تعداد میں اورلگاتارسوا ماہ سے اس مہم میں شامل نہیں رہ سکتی تھیں اگر گھروں میں ان کی نہ چلتی ہوتی،ان کوخاندان بھرکی دعائیں نہیں ملی ہوتیں یاان کو مردوں کے جبرکا سامنا ہوتا۔ یہ منظردستک دے رہاہے کہ اگلا دورخواتین کا دور ہوگا۔ یہ وہ بات ہے جو یہ کالم نویس گزشتہ کئی سال سے نوجوان طلبااورطالبات کے جلسوں میں کہتا رہا ہے۔ لڑکیاں تعلیم میں بھی آگے ہیں اور احساس ذمہ داری سے کام کرنے میں بھی، توپھرزمانے کی نکیل ان کے ہاتھوں میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟اللہ ان کے حوصلوں کوسلامت رکھے۔
مجھے یاد ہے جب محترمہ اندراگاندھی نے گیانی ذیل سنگھ کو منصب صدارت کا امیدواربنایا توکسی انگریزی اخبار نے ایک اداریہ میں لکھا تھاکہ ’کبھی آدمی کرسی کو بڑا بنا دیتا ہے اورکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کرسی آدمی کو بڑابنادیتی ہے۔‘گویا منصب کی ذمہ داری آداب حکمرانی سکھا دیتی ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ کبھی اس کا الٹا بھی ہوتا ہے۔بی جے پی نے سیاست میں جس کلچر کو فروغ دیا ہے اس نے زبان کی شائستگی کومٹادیا ہے اورسیاست دانوں کی زبانوں سے’بھائیوں ’اور ’موالیوں‘ جیسے جملے زیادہ سنائی دیتے ہیں۔ زیادہ تکلیف تب ہوتی ہے جب کوئی وزیر غیرمحتاط زبان استعمال کرتا ہے، اور پارٹی وحکومتی ذمہ دار اس کا نوٹس نہیں لیتے۔خاص طورسے حیرت محترم وزیرداخلہ امت شاہ کی بولی پرہوتی ہے۔انکا تعلق بنیا برادری سے ہے جو ہرلفظ تول تول کر بولتی ہے اورمیٹھا بولتی ہے۔ اول فول نہیں بکتی۔ ان کے دادا ایک ریاست کے نگرسیٹھ(ناظم مالیات) تھے۔ والدصنعت کارتھے۔ خودبھی ان پڑھ نہیں، بایوکیمسٹری میں بی ایس سی کیا ہے۔ لیکن گزشتہ 21جنوری کو انہوں نے لکھنؤ میں جو کچھ کہا وہ ان کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔
شاید پارٹی صدارت سے سبکدوشی کے صدمہ نے ان کوبوکھلادیا ہے کہ ان کا لہجہ اوربھی درشت ہوگیا ۔ پوری قوم کو ان کی یہ دھمکی، ”میں لکھنؤ کی سرزمین سے ڈنکے کی چوٹ کہنے آیا ہوں کہ جسے مخالفت کرنی ہے وہ کرتا رہے، سی اے اے قانون واپس نہیں ہوگا۔“ کچھ اورکہتی ہے۔شاید ان کا مقصد اپنے کورچشم ہمدردوں کی منھ بھرائی کرنا تھا، تاکہ وزیراعظم کے منصب کیلئے ان کمر مضبوط ہوسکے۔ اس پر ہم بس اتنا ہی کہیں گے۔ ہائے رے آرزو۔مودی جی چاہتے توپارٹی صدرکے منصب پران کی توسیع کچھ مشکل نہیں تھی۔ جس کو دیش کے دستور کی پرواہ نہیں، اس کیلئے پارٹی کا دستورکیا چیز ہے!اب توپی ایم کا ایک لائن کانوٹ ان کو گھرواپس بھیج سکتا ہے۔
ان کی یہ بولی اوریہ اندازخطاب ایک عظیم جمہوری ملک کے وزیرداخلہ کے منصب کی شان کے خلاف ہے ۔دیش کے موجودہ ماحول میں دھمکیاں دینا،سیاسی تدبر اور دانائی کی ضد ہے۔ جمہوریت بات چیت سے اورایک دوسرے کیلئے گنجائش سے چلتی ہے، دھونس اوردھمکی سے نہیں۔ آپ کو تین ممالک کے ہندوبھائیوں کی توفکرہے، لیکن اپنے ملک کے باشندوں سے آپ کا یہ مغرور انداز جمہوریت کی بھی توہین ہے اور ان تین چوتھائی ہندستانیوں کی بھی جو اس کالے قانون کے خلاف سڑکوں پراترآئے ہیں۔ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اورذمہ دار سابق وموجودہ منصب داربھی ہیں، نوجوان طالب علم بھی ہیں اور ہر طبقہ ومذہب کے عوام بھی۔ آپ ان کی آواز کو مسترد کرکے کس کی توہین کر رہے ہیں؟ سب سے زیادہ یہ عورت ذات کی توہین ہے، جو اس مہم کی طاقت بنی ہوئی ہیں۔ ایسی شدید سردی میں اپنے آرام اورچین کی قربانی دےکرکوئی کسی کے بہکانے سے باہر نہیں آتا۔لیکن ان کے جذبہ اورقربانی کی قدرآپ کو کیا ہوسکتی ہے جب نظریہ ملک پر ایسا نظام مسلط کرنے کا ہو جس میں دیویوں کی مورتیوں اورتصویروں کی پوجا تو ہو، مگردیوی جیسی خواتین کو ہرروز اگنی پریکشا سے گزاراجائے۔ عصمت دری کے گناہگاروں کو اونچے منصبوں پر بٹھادیا جائے،جو بناطلاق جوان بیوی کے جیون کو سوگواربنادے اور80 سال کی ماں کولائن میں لگوادے اس کو اپنا آئیڈیل بنا لیاجائے توعورت ذات کی قدر کیسے ہوگی؟
افسوس کہ رہی سہی کسرآپ کے مندرآندولن نے پوری کردی۔ ہم اپنے بچپن سے ’جے سیارام‘ کی گونج سنتے تھے ۔ سیتا جی کا نام پہلے اوررام جی کا بعدمیں۔ اس اندولن نے جو نیا نعرہ دیا ہے اس میں سیتاجی کا نام ہی اڑادیا گیا اور’جے سیارام‘ کے بجائے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ حالانکہ سیتا جی کے بنا نہ رامائن مکمل ہے اورنہ رام چندرجی اورلکشمن جی کا مثالی کردار پورا ہوتاہے۔ برانہ مانئے، آپ کی پارٹی کے لیڈر اور نام نہاد سنتوں سے اچھاتو راون کا ہی تھا، جس کے قبضے میں سیتا جی اتنے دن تک رہیں اوران کو چھوا تک نہیں۔ آپ کے پسندیدہ اور چنے ہوئے لیڈراپنی پڑوس کی بچیوں کے ساتھ اورسنت لوگ اپنے آشرم کی بچیوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟بتانے کی ضرورت نہیں۔
خواتین کی بااختیاری کے معاملہ میں بھی بھاجپا کا ریکارڈدوغلے پن کاہے۔جب تک یوپی اے سرکار رہی ایک تہائی ریزرویشن کا مطالبہ کیا جاتا رہا اوراب سانپ سونگھ گیا ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے شاہ کا یہ لکھنؤ والا بیان آگ پر تیل کا کام کریگا۔ ان کی اس دھمکی سے شاید ہی کوئی ڈرا ہو۔بلکہ جوش اوربڑھے گا۔ا ن لیڈروں کو اندازہ نہیں کہ عورت جب کچھ ٹھان لیتی ہے توہماری ہربیٹی اوربہن رضیہ سلطانہ اورلکشمی بائی بن جاتی ہے۔
امت شاہ جی! نہایت ادب کے ساتھ اپنی اس دھمکی کا جواب بھی سن لیجئے۔ جمہوری نظام میں جو سرکار عوام کی بولی کو نہیں سمجھتی اس کو عوام کوڑے دان میں ڈالدیا کرتی ہے۔ اگرزبان نہیں سنبھلی، جھوٹ، فریب اوردھمکیوں کو سلسلہ بند نہیں ہوا،تو ساڑھے چارسال گزرتے دیر نہیں لگتی۔
مجھے یہ یاد دلانے میں تکلف نہیں کہ دیگرمذاہب کی طرح ہندو دھرم بھی بڑبولے پن اور گھمنڈکی کی سخت مذمت کرتا ہے۔ ہندودھرم جابجا ’ادنڈتا‘ کے خلاف خبردارکرتا ہے۔لیکن ہندتووا کا نعرہ لگانے والوں کی بولی ٹھولی اورسرگرمیوں سے جو ماحول بن رہاہے اس نے اس دیش کی آدھیاتمکتا (روحانیت) کو سخت نقصان پہنچ رہاہے۔دھن،دولت، دھونس، دھمکی اوردکھاوا دھرم کی آتما کے قاتل ہیں۔ کسی پڑوسی کی آڑ زیادہ دن کام نہیں آیا کرتی۔
خورشیداکبر
ایک تیرا نظام چل رہا ہے
ساری دنیا میں کام چل رہا ہے
ایک تو شاہ چل رہا ہے یہاں
ایک اس کا غلام چل رہا ہے
ایک سے شہر صاف ہو گئے ہیں
جانے کیا اہتمام چل رہا ہے
اک محبت تھی ختم ہو گئی ہے
اور اک انتقام چل رہا ہے
ایک تلوار تھی سو کھو گئی ہے
صرف خالی نیام چل رہا ہے
ایک دنیا ٹھہر گئی ہے مگر
ایک وہ تیزگام چل رہا ہے
ایک بیٹا : بلند ہے اتنا
باپ انگلی کو تھام چل رہا ھے
ایک سکہ اندھیر گردی کا
رات دن صبح و شام چل رہا ہے
اک چھری سے حلال ہر گردن
سب کا جینا حرام چل رہا ہے
ایک خورشید روز اگتا ہے
روز قصہ تمام چل رہا ہے
مِلان کندرا ایک جگہ لکھتا ہے’a man’s struggle against power is the struggle of memory against forgetting‘ یعنی ’اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدو جہد فراموشی کے خلاف یاد داشت کی جدوجہد ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر آپ طاغوتی مقتدرہ کے جبروتی نظام کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اسے یاد رکھیں، فراموش مت کریں، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ارض موعود کو یاد رکھا تھا اور دانتوں سے زمین پکڑے اِنچ بہ اِنچ چلتے ہوئے ’منزل مرام‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، آپ بھی جنونی اقتدار کی ہذیانی نرگسیت میں بدمست مودیوں، شاہوں، یوگیوں اور مردودوں، کو مت بھولئے گا، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ہٹلر کے’مرگ انبوہ‘ کو اقوام عالم کی آشوب گاہ ثابت کرتے ہوئے دنیا کو مظلومیت کا نیا بیانیہ عطا کیا۔ اب دنیا میں کوئی بھی ملک اپنی رعایا یا اقلیت پر خواہ آگ کی ہی بارش کیوں نہ کرے اس کے بیان کی شدت ’ہولوکاسٹ‘ پر جاکر دم توڑ دیتی ہے۔ اگر آپ کی پوری کمیونٹی کے سر پر آسمان آتش فگن ہے، نیچے ’ جُبِّ الْحَزَن‘ہے، آگے موت کا دوزخ اور پیچھے ذلتوں کا برزخ ہے تو کوئی بات نہیں کہ یہ ہولوکاسٹ نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر اب مابعد جدید و متمدن دنیا آپ کی مدد کے لئے آگے نہیں آنے والی ہے، ایسے ہی جیسے فلسطین، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، روہنگیا اور اویغور میں شرمندگانِ خاک بوند بوند لہو پی رہے ہیں، اقوام مغرب کشتوں کے پشتے دیکھ رہی ہیں اور سر مژگاں تک نم نہیں ہورہی ہے ۔وجہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کشتگان ستم ، یہ صاحبانِ خار و خس، یہ سگانِ تیرہ شب، یہ شہیدانِ آمد سحر کوئی اور نہیں ہم ہیں، یعنی کہ مسلمان ہیں، افتگادگان خاک ہیں۔ ہم ’ہولوکاسٹ‘ نہیں ہیں اور ہوں گے بھی نہیں۔اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دل سے نکال دیں کہ کشمیر جیسی ایک چھوٹی سی ریاست کو 9 لاکھ جواں شیر فوجوں کی بکتر بند گاڑیاں تاخت و تاراج کرنے میں ناکام رہیں، آہنی بوٹوں کی جگر فگار چاپ دشتِ دہشت میں جوان ہونے والوں کو بھی اپنا مطیع و فرمانبردار نہیں بنا سکی، اور جب کوئی صورت بن نہیں پائی تو بہشت کو اٹھا کر دوزخ میں ڈال دیا تو پھر یہ ایک کروڑ کشمیریوں کا نہیں پچیس سے تیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اگر روز آپ پانچ ہزار مسلمانوں کو جان سے ماریں گے تو کل پچاس ہزار دن لگیں گے اور جہاں تک حراستی مراکز کی بات ہے تو یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہوگا کہ مسلمان ایک طرح سے حراستی مراکز میں ہی رہتا ہے اور پھر کتنے حراستی مراکز قائم کریں گے اور کیا وہ محفوظ بھی رہ پائیں گے، کیا ایک دن خوف کی طاقت ان تمام آہنی دیواروں کو مسمار نہیں کرے گی؟
ہمارا وزیراعظم ’اربن نکسل‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے یوں گویا ’رورل نکسل‘ کا ’آتنک‘ ختم ہوگیا ہو۔ تاریخ سے نابلد ناہنجاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ’اربن‘ لفظ ہی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ نکسلزم دیہات کو فتح کرتا ہوا شہر و قصبات میں داخل ہوچکا ہے۔ ہندوتو کی بھانگ پینے والے دونوں کور بھکتوں کو اگر ’گھر گھر مودی‘ کے علاوہ کچھ اور دکھائی دے تو انہیں معلوم ہوکہ ’رورل نکسل‘ نکسلی علاقوں میں نہ صرف اپنے بنیادی تصورات کے ساتھ زندہ ہے بلکہ آج بھی حکومت کے لئے اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ وہ چارو مجمدار کے وقت تھا۔ نکسلزم اب صرف آدیواسیوں اور قبائلیوں کے حقوق کی لڑائی تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک نظریے میں تبدیل ہوچکا ہے، ایک ایسا نظریہ جو اب اربن نکسل کی شکل میں ’بھگوائیوں‘ کے لاشعور میں کابوس کی صورت جاگزیں ہوگیا ہے۔ شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں چینیوں سے مشابہ چپٹی ناک والوں نے تو آزادی کے وقت سے ہی ہندوستان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ دو سال قبل ڈوکلاہام کا واقعہ آپ کیسے بھول سکتے ہیں، چین اندر گھستا چلا آرہا ہے اور ہمارا وزیراعظم خیالی پروجیکٹوں کے فیتے کاٹ رہا ہے؟ ہندوستان جغرافیائی اور تہذیبی اعتبار سے ایک بڑا و اعلیٰ ظرف ملک ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلقات پڑوسیوں کے ساتھ کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ مغرب میں پاکستان، مشرق میں بنگلہ دیش، شمال میں چین اور جنوب میں سری لنکا کے ساتھ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ٹھنی رہی ہے۔ ایک بڑا ملک جب اپنی تہذیبی اقدار کا احترام کرنے کے بجائے پڑوسیوں کے ساتھ ’بگ بردر‘ کا سلوک اپنانے کی کوشش کرے اور علت ہائے نافرجام کہ ایک سطح پر اندرونی شورش کا شکار بھی ہو تو اسے کمزور ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ ’بھگوائیوں‘ اور ان کے دونوں مائی باپ کو یہ بات آج نہیں تو کل سمجھ میں آجائے گی کہ وہ امریکہ نہیں، ہندوستان میں رہتے ہیں اور اقتدار کا نشہ مثال قطرہ شبنم بہت جلد اتر جاتا ہے، برطانیہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، عہد جدید کے جیوپولیٹیکل منظرنامے میں دنیا اسے ’کتے کا دُم‘ سمجھتی ہے جس کے پاس بین الاقوامی مسائل میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رہ گیا ہے۔ سرمایہ داروں کے لئے صارفین کی کھیپ تیار کرکے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سپرپاور بن گئے ہیں تو اس سوچ پر صرف رحم ہی کیا جاسکتا ہے۔
سماجی،سیاسی اور معاشی بحران کے اس دور میں این آر سی اور سی اے اے کے نام پر ہندوستان کے پچیس سے تیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف’ بھگوائیوں‘ کا اعلان جہاد نشے میں مست ہونے کی حماقت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ ابھی تو یہ تحریک ابتدائی مرحلے میں ہے، اس آغاز کو اختتام نہ سمجھا جائے، یہ ممکن ہے کہ اگلے کچھ وقتوں میں تحریک سمٹ کر صرف مسلم شاہینوں تک محدود ہوجائے، دلت، پسماندہ و دیگر روشن خیال سیکولر طبقہ تاخیر کی سیاست’delay tactics‘ سے عاجز ہوکر واپس اپنے اپنے گوشہ عافیت کے اسیر ہو جائیں لیکن جیسا کہ کہاوت ہے ’phoenix rises from the ashes‘ یعنی ققنس اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لیتا ہے، ہر ققنس اپنی تین سو چونچوں میں ابابیلوں والی کنکریاں لے کر اپنی اسی راکھ سے جنمے گا۔ امت شاہ کی توند، مودی کی کوٹ، یوگی کی لنگوٹ سب ٹھاٹ پڑے رہ جائیں گے۔ یہ سچ ہے کہ ابھی ہم خوف میں ہیں لیکن ابھی ہم نے اپنے خوف کی طاقت کو استعمال نہیں کیا ہے جیسا کہ کافکا نے کہا ہے۔ ’ “My ‘fear’ is my substance, and probably the best part of me‘۔ یہ ہمارا خوف ہے جو ہماری غیرت و انانیت کو مجروح ہونے سے بچاتا ہے، یہ بقا کا خوف ہے جو ہمیں مسترد اور رائیگاں ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ ہمارا خوف ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ خوف کی طاقت یہ ہے کہ سانپ کے حملہ کرنے سے قبل ہی اس کا سر کچل دو جو اس وقت بھگوائی حکومت کررہی ہے۔ابھی اس طاقت کو ہم نے استعمال نہیں کیا ہے۔اس مصاف میں اگر جان سے جانا ہی شرط ٹھہرا تو پھر وہ بھی ہوگا۔ بے فکر رہیں، ہم قانون کو ہاتھ میں لینے والے نہیں لیکن ہاں قانون کا نوالہ بھی بننے والے نہیں ہیں۔
کہاصرف اپنے من کی بات کرتے رہیں گے، احتجاج پربیٹھی خواتین کے من کی بات کب سنیں گے؟
نئی دہلی: دیرشام شاہین باغ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بھیم آرمی چیف چندرشیکھرآزادنے وزیراعظم مودی پرجم کرحملہ بولاـ انھوں نے کہاکہ اگرمودی اپنے من کی بات کرسکتے ہیں توانھیں شاہین باغ کی عورتوں کے من کی بات بھی سننی چاہیےـ انھوں نے کہاکہ وہ عوام سے خیانت نہیں کریں گے اور سی اے اے واین آرسی کے خلاف ہماری تحریک جاری رہے گی ـ انھوں نے کہاکہ ہماری تحریک کی کامیابی کے لیے پورے ملک میں ایسے ایک لاکھ شاہین باغ کی ضرورت ہےـآزادنے شاہین باغ احتجاج کوکمزورکرنے کی بی جے پی کی کوششوں پربھی نشانہ سادھاـ انھوں نے کہاکہ مجھے کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ وزیراعظم اوردستورہندااحترام کروں، مگروزیراعظم کوبھی توعوام کی آوازسننی چاہیےـ واضح رہے کہ چنددن قبل جیل سے رہاہونے کے بعدآج پہلی بارچندرشیکھرآزادشاہین باغ مظاہرین کے بیچ پہنچے تھے، جہاں ان کاپرجوش استقبال کیاگیاـ
خلیجی ممالک میں قیام کے دوران جمعہ کے روز خطبے سن کر دل و دماغ روشن ہو جاتے تھے اس لئے کہ ” دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے”۔ پھر ٩/١١ ٹریجڈی اور پورے عالم اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں اس قدر تیز ہوئیں کہ بڑے بڑے اثر ورسوخ والے حکمران بھی دہشت گردی کے اس بے بنیاد الزام اور چند افراد کی مجرمانہ حرکتوں کو عمومیت دینے کا دفاع کرنے کے بجائے اپنی حیثیت اور اپنے ملک کی حفاظت کی فکر کی تدابیر کرنے لگے۔
ان کے مغربی آقاؤں کا دباؤ اس قدر بڑھا کہ حساس مقامات پر بھی کسی نہ کسی شکل میں ان کی نگرانی ہونے لگی،بینکوں پر نظر رکھی جانے لگی کہ کہیں ان کے توسط سے دہشت گردوں کو فائنانس تو نہیں کیا جاتا۔ اسی نگرانی کی زد میں مساجد بھی آ گئیں اورخطیب حضرات کو حکومت کی جانب سے خطبے لکھ کر دیے جانے لگے تاکہ زبان ان کی ہو مگر مواد اور نظریہ حکومت کاـ اب تقریباً ١٨ سالوں کے بعد امریکی ایجنسیوں کے سابق ذمہ داروں نے اعتراف کیاہے کہ اس پوری مدت میں اسلام اور مسلمانوں کےدہشت گردی میں ملوث پائے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور یہ کہ ساری کوششوں کا حاصل فقط ضیاع وقت اور ضیاع مال تھا۔
جب چند متعصب عناصر عام لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اتنی صفائی اور تسلسل کے ساتھ جھوٹ پھیلاتے ہیں اور ہم خیال یا زر خرید ذرائع ابلاغ کے توسط سے بے بنیاد اور من گھڑت جھوٹ کے لئے مصداقیت حاصل کرتے ہیں،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ ان ہی باتوں کو سچ اور مبنی بر حقیقت ماننے لگتے ہیں۔ اس کا اثر اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ خوف کے ماحول میں کنارہ کشی اختیار کیے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ انسان کی تعریف ” سماجی حیوان social animal ہے، لوگوں سے ملنا جلنا لین دین کرنا خوشی اور غم میں شریک ہونا اس کی فطرت ہے،وہ دوسروں کی پھیلائی ہوئی افواہوں کی بنیاد پر اپنی اس جبلت کی مدافعت کب تک کرتا رہے گا، چنانچہ چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد وہ اپنے آپ کو مصنوعی خوف کے حصار سے باہر نکالتا ہے اور جانچنے کے ارادے سے پھر سے لوگوں سے ملنا جلنا شروع کرتا ہے، تو وہ ان مسلمانوں کو اپنی ہی طرح پاتا ہے، پھر وہ اپنی اس نئی دریافت،تازہ کھوج اپنے متعلقین کے ساتھ شیئر کرتا ہے اور اس طرح وہ اس انسانیت دشمن گروہ کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے اس ملک عزیز میں بھی اس طرح کے عناصر سرگرم ہیں، جو برادران وطن کو اس خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمان اس ملک پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ وہ اس ملک کو افغانستان عراق سوڈان،سیریا اور یمن بنانا چاہتے ہیں۔ اس لئے اس ملک میں ہندو مذہب اور تہذیب کی حفاظت کے لئے ان قوانین کی تائید کریں،بی جے پی کی حمایت کریں وقتی فائدے پانی بجلی سڑک اسکول اور بنیادی ترقیاتی کاموں سے زیادہ اہم اس دیش کو بچانا ہے۔اس لئے بے روزگاری اور اقتصادی بحران پر حکومت سے سوال نہ کریں۔ جن بے بنیاد مفروضوں پر وہ عام برادران وطن ہندوؤں کو ڈرا رہے ہیں، وہ وقتی طور پر ذہنوں کو اپیل کر رہے ہیں، مگر ان میں سے ہی بہت سے ایسے ہیں جو خوف دلانے والے ان دلائل کو عقلی اور نقلی طور پر خارج کر رہےہیں۔ اس خوف کو پھیلانے میں وقت اور پیسے لگ رہے ہیں،اس کا وقتی طور پر اثرانداز ہونا بھی منطقی ہے؛لیکن میل جول interaction اور socialization ہی فرقہ وارانہ منافرت کے اس زہر کے لئے مجرب تریاق ہے۔ موجودہ احتجاج نے اس کا موقع بھی دیا ہےاور اس کی ضرورت،اہمیت اور افادیت کا احساس بھی دلا یاہے؛ اس لئے ہم سب اپنے اپنے حلقۂ احباب میں اس کوشش کو لے کر آگے بڑھیں۔