اجودھیا:رام مندر کی بنیاد رکھی گئی ہے،لیکن اب مسجدپر تنازعہ کھڑا کیاجارہا ہے۔طرح طرح کے جملے چھوڑے جارہے ہیں،کبھی بابرکے نام پرکچھ بھی قبول نہیں کہاجاتاہے توکبھی معاملہ لٹکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پرٹرسٹ نے 5 ایکڑ والی مسجدکے لیے اراضی کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس کے درمیان سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائرکی گئی ہے۔جس میں کہاگیاہے کہ مسجد ٹرسٹ میں حکومت کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ایودھیاکے سنت کرونیش شوکلانے اس معاملے میں ایک عرضی دائرکی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے عہدیداروں کے حالیہ بیانات کے پیش نظر ٹرسٹ میں حکومت کی نمائندگی کرنامناسب ہوگا۔ پھر چاہے وہ مسلمان چہرہ ہی کیوں نہ ہو۔درخواست گزارکے وکیل کے مطابق سپریم کورٹ کے نو نومبر کے فیصلے اور وقف ایکٹ کے مطابق حکومت سیکولر کاموں کے لیے اپنی نمائندگی کا تعین کرسکتی ہے۔ وکیل نے کہا ہے کہ ہم نے یہ عرضی صرف آئینی اور قانونی دفعات کی روشنی میں دائرکی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ مندرکی بنیاد کے بعدسے ہی اس مسجد کے بارے میں تبادلہ خیال جاری ہے۔ اس کے لیے انڈواسلامک کلچرل فاؤنڈیشن ٹرسٹ تشکیل دیاگیاہے،جس کی جانب سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ بابرکے نام پر اس مسجد کا نام نہیں رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو مسجد کے سنگ بنیاد کے دوران بھی بلایاجائے گا۔ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ نہ صرف مسجد بلکہ اسپتال یاٹرسٹ کی عمارت کی بنیاد رکھی جائے گی ، ایسی صورتحال میں وزیراعلیٰ کو بلایا جاسکتا ہے۔ ٹرسٹ ایک کمیونٹی سنٹر ، کمیونٹی کچن بنانے کا بھی منصوبہ بنا رہاہے۔
Babri masjid
بابری مسجد اوررام جنم بھومی کا قضیہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے اب قصۂ ماضی بن چکاہے کیونکہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔ اب گلہ کیا جائے تو کس سے ۔شکوہ کریں توکس کا۔مرثیہ وماتم اور فتوےکا کیا حاصل۔ آج کے شور ہنگامے اور ہجومیت میں کس کو فرصت ہے۔
اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہئے کہ بابری مسجد کا مسئلہ مسلمانوں کا سیاسی ایجنڈا کبھی نہیں ہونا چاہئے تھا اور اب ایسا کرنا مزید سیاسی غلطی ہوگی ۔ بلکہ سچ کہا جائے تو جدید ہندوستان یعنی ڈیموکریٹک نیشن اسٹیٹ (جمہوری قومی ریاست)کا سیاسی ایجنڈا بھی اس کو نہیں ہونا چاہئے۔یہ صرف ھندتوا پالیٹکل اسٹریٹیجی یعنی ہندو مسلم قومی کشمکش کو زندہ رکھ کر پاور گیم میں چوکا چھکا مارتے رہنے کا ہتھکنڈا ہے۔ہندتوا پالیٹکل گیم کی یہ عیاری ہے کہ لگاتار ہندو مسلم کشمکش کے ایشوز کو سیاسی ذہانت کے ساتھ نئے نئے تخلیقی عمل سے گزارتی رہے اور ایک بات کو سیاسی اور تاریخی داستان بنادے۔ پھر اس میں مذہبی عقیدت اور تہذیبی رنگ ڈال کر ہندو قوم کے ایک گروہ کے لئے زندگی اور موت، عزت اورذلت،ماضی،حال اور مستقبل کا سب سے اہم ایشو بنادے ۔یہ کام ہندتوا پالیٹکس کے لیڈران نے بہت ہوشیاری سے انجام دیا۔دوسری طرف ملک کے نادان سیکولر سیاست دانوں نے الکشنی جوڑ توڑ کے زاویے سے اس معاملے کو برتا ۔ اپنے ووٹ بینک کے رجحانات اور موڈ کے مطابق اس مسئلے میں مختلف اور متضاد رویہ اختیار کیا۔ بدقسمتی سے مسلمان بھی اس سیاسی چال کو نہ سمجھ سکے اورجذبات سے مغلوب ہوتے رہے چنانچہ اس کو زندہ رکھنے میں ہندتوا فورسیز کے جال میں پھنستے گئے اور اس کو سیاسی سطح پر نن ایشو بنانے کی بھر پور کوشش نہیں کرسکے۔ بیان کی سطح پر کہتےتو یہی رہے کہ یہ سول سوٹ ہے دو ٹرسٹوں اور سوسائٹیوں کی حق ملکیت کی لڑائی ہے۔ لہذا کورٹ کا جو فیصلہ ہوگا اس کو دونوں پکچھ مان لیں گے۔ ہاں ہندتوا فورسیز کا ذہن بہت واضح تھا ،کہ یہ مسئلہ ہندو قومی وقار،ہندو آستھا،پراچین سبھیتا کے احیا ہندو راشٹر ،رام بھکتی اور رام راجیہ کے قیام اور علامتی اظہار کا ہے۔انہوں نے اس مسئلے کو اسی طرح بڑھایا، پھیلایا، متھ گڑھا،راتوں رات مورتی رکھوائی گئی کتنی جانیں ضائع کی گئں ـ پالیٹکل ڈراما ہوا ۔ہندو عوام کے ذہن کو پولوٹ کیا ،رتھ نکالا،حکومت بنائی، گرائی سب کچھ کیا۔
اس تاریخی کشمکش سے یہ بھی تجربہ ہوا کہ ہمارے اندرکچھ لوگ ایسے سادہ بھی تھے جو پنچت اور تصفیہ کے نام پر اس ایجنڈے کی معاونت کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔فیصلے کے بعد یہ بھی پتہ چلا کہ کچھ اور سادہ مزاج لوگ تھے جو اس کیس میں "عدل فاروقی ” کے منتظر تھے۔کسی ادارے سےحسن ظن کی بات دوسری ہے اور اس سے انصاف کا یقین،اطمینان اور اظہار دوسری بات ہے جب کہ اس سے پہلے ہرقدم پرکورٹ نے ہندوتوا کی مدد کی تھی۔کورٹ کے حوالے کرنے کا تو مقصد یہ تھا کہ اس ملک میں اس طرح کے جھگڑے اور مقدمات، اقتدار اور قوت سے حل نہیں کیے جائیں، عدالت ہی اس کے لئےمناسب جگہ ہے۔بہرحال کورٹ کے فیصلے کو دل سے مانیے نہ مانئے عمل تو اسی پر ہوگا۔البتہ آئیے ہم سب اب طئے کرلیں کہ سیاسی میدان میں اس مسئلے پر ایک طرح سے خاموشی کا اجتماعی روزہ رکھیں گے اورآیندہ سیاسی کشمکش میں ہندتوا کو فائدہ اٹھانے نہیں دیں گے۔ عالمی عدالت کی بات فضول ہے۔بھویہ مندر بنے نہ بنے سو اڑچنیں وہ خود پیدا کریں، نہ کریں ، بھومی پوچن میں سب شریک ثواب وگنا ہ ہوں، نہ ہوں پالیٹکل ایشو کی حیثیت سے اب رام مندر کا ایشو ہمارے لئے دفن ہوجانا چاہیے۔یہی اصل کامیابی ہے اور یہ اس وقت ہوگا جب عدالت نہ سہی تاریخ کے فیصلے کو عقل ودل سے مان لیں۔اس کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ نے جس میدان میں شکست دی ہےاس میدان سےپیچھے ہٹ جائیں اور فتح کا جو نیا میدان نظر آرہاہے اس میدان میں کامیابی کے لئے دل وجان سے تیاری کریں’۔یعنی قومی کشمکش اور فرقہ پرستی کی سیاست کےمیدان کوہمیشہ کے لئے ترک کردیں۔ اس کے برعکس سارے انسانوں کی خدمت اور عدل اجتماعی کی عوامی جد وجہد کو اپنا اصل شعار بنائیں۔سچی، عملی، اجتماعی قیا دت اور نظام مشاورت پیدا کریں اسی کے ساتھ کاسہ لیسی وسیاسی گدا گری سے باز آجائیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:بدھ کے روز اجودھیامیں بھومی پوجن کے موقع پر لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بابری مسجد کو یادکیا۔ 1528 میں مسجدکی بنیاد مغل بادشاہ بابر نے ایودھیا میں رکھی تھی ، جسے 6 دسمبر1992 میں شہیدکردیاگیا۔ اویسی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ بابری مسجد تھی ، ہے اور ہوگی۔انھوں نے وزیراعظم کے مذہبی پروگرام میں شامل ہونے پرپھرسوال اٹھایااوریہ بھی کہاہے کہ انھوں نے اپنی حلف برداری کی خلاف ورزی کی ہے۔اویسی نے یہ بھی کہاہے کہ آج ہندوتواکی بنیادرکھی گئی ہے۔مودی کے جذباتی والے بیان پراویسی نے پلٹ وارکرتے ہوئے کہاہے کہ جذباتی ہم بھی ہیں،کیوں کہ ہمارے سارے ثبوت مانے گئے،کورٹ نے تسلیم کرلیاکہ مسجد،مندرتوڑکرنہیں بنائی گئی،1949تک نمازہوتی رہی،مسجدکی شہادت غیرقانونی اورجرم ہے۔رام نمودارنہیں ہوئے۔ان تمام باتوں کوتسلیم کرنے کے باوجودزمین مندرکے لیے دے دی گئی ۔آج پوری دنیااس کودیکھ رہی ہے کہ ثبوتوں کے باوجودمسجدکے لیے یہ زمین نہیں دی گئی ہے بلکہ جوفریق ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا،اسے آستھاکی بنیادپرحوالے کردی گئی ہے ۔پوری دنیااس پرحیرت زدہ ہے۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!
اب یہی دیکھئے کہ بی جے پی کے بزرگ ترین قائد لال کرشن اڈوانی نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کو ممکن بنانے کیلئے سارے ملک میں رتھ یاترا دوڑائی‘ جس کے نتیجے میں مسلم اقلیت کا بھاری جانی ومالی نقصان ہوا‘ دوسرے بے قصور بھی جان سے گیے‘ لیکن اڈوانی ایودھیا میں رام مندر کیلئے بھومی پوجن یا با لفاظ دیگر سنگ بنیاد کی تقریب میں جانے سے محروم کردیئے گئے! مرلی منوہر جوشی بھی‘ وہی مرلی منوہر جوشی جن کے کندھے پر سنیاسن اوما بھارتی اس وقت مار ے خوشی کے چڑھ گئی تھیں جب بابری مسجد کو شہید کرنے کا مذموم عمل شروع ہوا تھا‘ بھومی پوجن سے محروم ہیں۔ اور اومابھارتی نے تو کورونا کے ڈرسے خود ہی یہ کہہ دیا ہے کہ وہ بھومی پوجن میں نہیں جائیں گی۔
کل کے رام مندر کے’ہیرو‘ زیرو‘ بنادیے گئے۔ اور یہ ’زیرو‘ بنانے کا کام ملک کےوزیر اعظم نریندر مودی نے کیا ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جب کورونا کا قہر شدت پر ہےاور یوپی کے تمام علاقوں کی طرح ایودھیا بھی اس کی چپیٹ میں ہے تو مودی کو وہاں بھومی پوجن کی سوجھی ہے‘ انہوں نے لاک ڈاؤن کے سارے اقدامات اور ساری احتیاط کو نظر انداز کردیا ہے! انہیں ایودھیا میں بھیڑ جمع ہونے کے سبب کورونا سے لوگوں کے متاثر ہونے کی بھی فکر نہیں ہے۔
بابری مسجد کی شہادت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا سہرااب مودی سرکار کے سربندھ رہا ہے‘وہ سب جو رام مندر کی تحریک میں شریک تھے کنارے لگادیے گئے ہیں۔۵؍ اگست کا دن مسلم اقلیت کیلئے دعا کا دن ہے اور ملک کی اکثریت کیلئے اس بات پر غور کرنے کا دن کہ کیسے مودی نے ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد جمہوریت اور سیکولر بھارت کے تانے بانے بکھیر دیئے ہیں۔ کیسے آئینی اداروں تک کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے‘ اور ملک کو ایک ایسے مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں سے آگے بس تاریکی ہی نظر آتی ہے۔ سچائی یہی ہے کہ ۵؍ اگست ‘بھومی پوجن کا دن ملک میں جمہوریت اورسیکولرقدروں کے ختم ہونے کا دن ہے۔
۵؍ اگست سے بھارت’ہندوراشٹر کی راہ پر گامزن ہوگا‘ بی جے پی تو اس کی آر کیٹیکٹ ہے لیکن کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جس نے اس کام میں بی جے پی کی مدد نہ کی ہو۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے تالے کھلوا کر اور شیلانیاس کرواکر کانگریس نے بی جے پی اور آج مودی کی راہ ہموار کی ہے۔ اور اب بھی کانگریس کو اپنی غلطی کا احسا س نہیں ہوا ہے‘ پرینکا گاندھی نے بھومی پوجن پر جے سیارام کا نعرہ بلند کردیا ہے۔ ساری سیکولر سیاسی پارٹیاں این ڈی اے کی شکل میں بی جے پی کو طاقت پہنچاتی رہی ہیں۔ اور آج بھی پہنچارہی ہیں لہذا وہ سب بھی بابری مسجد کی اسی طرح مجرم ہیں جیسے اسے شہید کرنے والے مجرم ہیں۔
مسلم قیادت بھی قصوروار ہے ‘ آپسی سرپھٹول اور غلط فیصلوں اور اناکی لڑائی نے بابری مسجد کو شہید کروانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آج مودی جو خواب دکھلاتے ہیں اسے عوام نے سچ مان لیا ہے۔ رافل راکٹ آئے اور مودی نے ایسا سپنا دکھلایا جیسے کہ یہ رافل بی جے پی کے ہیڈ کوارٹر میں اترے ہوں اور وہاں سےچین اور پاکستان پر حملے کیلئے تیار ہوں۔ جب لوگ جھوٹ کو سچ مان لیں تو سمجھو بیڑہ غرق ہورہا ہے۔
آج ۵؍ اگست کا یہ دن مسلمانوں کیلئے دکھ اور افسوس کا دن ہے اور دعا کا بھی دن ہے۔ امید پر دنیا قائم ہے’ اڈوانی اور جوشی کے حشر میں سب کیلئے سبق ہے‘ آسمان اچانک کبھی بھی رنگ بدل سکتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:آئندہ ہفتے رام مندرکی تعمیرکے لیے ’’بھومی پوجن‘‘ کی اطلاعات کے درمیان لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے مرکز میں مودی حکومت کے ساتھ ساتھ کانگریس پر بھی حملہ کیا ہے۔ اویسی نے بدھ کے روز ایک ٹویٹ میں کہاہے کہ بابری مسجدکی شہادت میں کانگریس بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ مسجدشہید کرنے میں کانگریس بھی سنگھ کے ساتھ شامل ہوئی تھی۔اویسی نے ایک میڈیارپورٹ کے ذریعے کانگریس پرحملہ کیاہے جس میں کہاگیا تھا کہ بھومی پوجن کی تقریب میں مدعونہ کیے جانے کی وجہ سے کانگریس ناراض ہے اوربی جے پی نے اس کا سارا سہرااپنے سرلیاتھا۔ اس پر اویسی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہاں جو بھی حقدار ہے اسے کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ آخرکاریہ راجیو گاندھی ہی تھے جنھوں نے بابری مسجد کا تالاکھولا اوریہ پی وی نرسمہارائوہی تھے جنھوں نے وزیر اعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے مکمل شہادت کو دیکھا۔ شہادت کی اس مہم میں کانگریس نے سنگھ پریوار کے ساتھ ہاتھ ملایاتھا۔اس سے پہلے اویسی نے مودی کے اجودھیاجانے کوآئین کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے سیکولرزم کے منافی قرار دیا تھا۔
اجودھیا:سپریم کورٹ نے مسلم فریق کومسجد کے لیے زمین دینے کاحکم تودے یاہے لیکن جورفتارمندربنانے کی ہے،وہ مسجدکے تئیں نہیں ہے۔بلکہ مسجدکے لیے الاٹ کی گئی جگہ پردھان کی فصل لگادی گئی ہے۔اس درمیان کئی رائیں سامنے آرہی ہیں۔جناب ہم مسجد کے بجائے یہاں کوئی اسپتال یا کالج بنانا چاہتے ہیں۔ آس پاس بہت سی مساجد ہیں ، لیکن بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی اچھا اسپتال یا اسکول نہیں ہے۔ تاہم ہماری رائے کا کیا مطلب ہے ، جو ذمہ دار لوگ قبول کریں گے۔یہ کہنا ہے دھنی پور گاؤں کے محمد اسلام کا۔60 سالہ محمد اسلام کا کہنا ہے کہ جب 1992 میں ایودھیاسمیت پورے ملک میں ہنگامہ برپاہواتھا ۔ اس گاؤں میں امن تھا۔ یہاں مسلمان بھائی اورہندوبھائی ایک ساتھ رہ رہے تھے ، اب بھی ساتھ رہ رہے ہیں۔ گاؤں دھنی پورمیں سپریم کورٹ کے حکم کے بعدیوپی حکومت نے مسجدکے لیے 5 ایکڑ اراضی سنی وقف بورڈکودے دی ہے۔ ایودھیاسے گورکھپور ہائی وے کی طرف تقریباََ28 کلومیٹر دورپولیس اسٹیشن کے پیچھے زمین ہے ، پولیس اسٹیشن سے پہلے گاؤں جانے والی سڑک پر بیریکیڈنگ شروع ہوگئی ہے۔ پوچھ گچھ کرنے پر پتہ چلا ہے کہ گاؤں میں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 4 افراد کورونا پوزیٹیو پائے گئے ہیں۔ دوسرا راستہ تھانے سے بالکل آگے تھا۔ اس راہ پر 100 میٹرپیدل چلنے کے بعد محکمہ زراعت کا فارم ہاؤس ہے۔اسی فارم ہاؤس میں سنی وقف بورڈکوزمین دی گئی ہے۔ تاہم اس وقت دھان کی فصل زمین پرہے۔ زرعی فارم ہاؤسز میں کچھ مزدورموجودہیں ، جوکھیتوں میں کھاد ڈال رہے ہیں۔ بات کرنے پر پتہ چلا کہ وہ یہاں مزدور کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔
بابری مسجد ،اتر پردیش ،ایودھیا میں ہے ، گرو کی مسجد، شری ہر گوبند پور، پنجاب میں ہے ۔بابری مسجد 1528 ء میں تعمیر کی گئی تھی ۔آزادی کے بعد اس کے اندر بت رکھ دیے گئے ۔اذان و نماز کا سلسلہ بند کروادیا گیا ۔6دسمبر 1992 ء ایک شرم ناک مجرمانہ کارروائی میں
بابری مسجد شہید کردی گئی ۔اب اس پر رام مندر تعمیر کرنے کی تیاری کی جارہی ہے ۔
ایک جانب تاریخی بابری مسجد کا الم ناک قصہ سامنے ہے ، جو بھارت کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔
دوسری جانب گرو کی مسجد ، ضلع گرداس پور ، پنجاب کی ایک انتہائی روشن اور امید افزا مثال ؛گرو کی مسجد چھٹے سکھ گرو ، گرو ہرگوبند جی نے تعمیر کروائی تھی ۔
اس لئے اس مسجد کو گرو کی مسجد یا گرو کی مسیت کہا جاتا ہے ۔تاریخ کو مسلم دشمنی کا رنگ دینے والے مورخین کیلئے تاریخ کا یہ سچ ان کے منہ پر طمانچہ ہی کہا جا سکتا ہے ، جو اپنے ایجنڈہ کیلئے سماج میں نفرت کا زہر گھولتے ہیں ۔
ایودھیا ، اترپردیش میں بابری مسجد کی جگہ پر بننے والے رام مند کی وجہ سے شر پسندوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی ہوگی ،اور مستقبل میں بھی اس طرح کی جارحانہ
حرکتوں کیلئے اشتعال انگیزی سے باز نہیں آئیں گے ،لیکن اسی دوران پنجاب کے شہر شری ہرگوبند پور میں واقع گرو کی مسجد ملک کے تمام امن پسند عوام کو اتحاد کا پیغام بھی دیتی رہے گی اور یہ مسجد گنگا جمنی تہذیب کی ایک بڑی روشن علامت بن کر سامنے آئے گی ۔
بس ، امن پسند عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے!
آج جبکہ ملک کا جارحیت پسند طبقہ رام مندر کی تعمیر پراپنے سیاسی ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔گرو کی مسجد کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا بھی ضروری ہے ۔دسمبر 1634 ء کی بات بتائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ سکھو ں کے چھٹے گرو ، گرو ہرگوبند جی کا بیاس ندی کے کنارے، ایک بھاری مغل فوج کے ساتھ زبردست معرکہ ہوا تھا ۔اس میں گرو ہر گوبند جی کو فتح حاصل ہوئی ۔گرو صاحب نے کچھ مدت کیلئے وہیں قیام کا فیصلہ کیا ، اسلئے وہاں ایک بستی بھی بس گئی ۔یہ بستی بڑھتے بڑھتے ایک شہر بن گئی ، جو آج شری ہر گوبند پور کے نام سے مشہور ہے ۔
چونکہ مغلوں سے جنگ کا سلسلہ جاری تھا ، اسلئے اس بستی کی حفاظت کیلئے اس کے اطراف
فصیلیں تعمیر کی گئیں اور قلعہ بھی بنایا گیا ۔بیاس ندی کے کنارے تعمیر اس بستی کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا ، اور ہر مذہب کے لوگ یہاں
آکر رہنے لگے ۔ان میں سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی ۔اس طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ تاریخ میں جو
جنگیں ہوئیں ، ان کو مذہب کا لبادہ اڑھانا غلط تھا ۔یہ حرکت برٹش نے کی ، اور برہمن وادیوں ، ہندوتوا وادیوں نے اس نفرت انگیز جھوٹے بیانیہ کو آگے بڑھایا ۔ چھٹے سکھ گرو ہر گوبند صاحب جی اور ان کی تعمیر کردہ گرو کی مسجد سے یہ بات سچ ثابت کی جاسکتی ہے ۔
جب بیاس ندی کے کنارے ایک نئی بستی بس گئی ، تب اس بستی کے سکھوں نے ایک گرودوارہ تعمیر کرلیا ۔البتہ اس بستی میں جو مسلمان تھے ، وہ غریب تھے ، وہ اپنی عبادت کیلئے مسجد نہیں بنا سکتے تھے ، لیکن انہیں اس بستی میں ایک مسجد کی ضرورت محسوس
ہو رہی تھی ۔اس لئے وہ سب گرو صاحب کے پاس گئے ، اور ان سے مسجد کی تعمیر کیلئے مدد طلب کی ۔
گرو صاحب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جہاں وہ سکھ مذہبی رہنماؤں کی عزت کرتے تھے ، وہیں مسلم درویش ، فقیر اور ہندو سادھو ، سنتوں کا بھی احترام کیا کرتے تھے ۔
وہ اپنی حکومت میں ہر دھرم کے عوام کو برابر ی کا درجہ دیتے تھے ، اور سب کے ساتھ انصاف میں یقین رکھتے تھے ۔اس لئے ان کی مسلمان رعایا نے جب ان سے مسجد کی تعمیر کیلئے مدد مانگی ، تو گرو ہر گوبند جی نے اپنے سکھ ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اس بستی میں اپنی مسلم رعایا کیلئے ایک مسجد تعمیر کریں۔
تب گرو صاحب کے حکم پر بیاس ندی کے کنارے ایک خوبصورت اور تاریخی مسجد تعمیر کی گئی ۔
اور اسے مسلمانوں کے حوالے کردیا گیا ۔
تاریخ کا یہ ایک سنہرا باب ہے کہ جہاں ایک طرف مغلوں اور سکھوں میں جنگ جاری تھی ، اسی دوران ایک سکھ گرو نے مسجد تعمیر کی ،
اپنی مسلم رعایا کیلئے ، اور اس طرح یہ ثابت ہوا ، کہ ان جنگوں کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔
دونوں جانب ہر مذہب کی رعایا تھی ۔لیکن اس سنہری تاریخ پر فرقہ پرستی کی کولک پوتی جا رہی ہے ۔
یہ کام انگریزوں کے زمانہ میں شروع ہوا اور آج بھی جاری ہے ۔
ان حرکتوں کی وجہ ملک کا بٹوارہ بھی ہوگیا ۔آزادی تو ملی لیکن ، ملک کے ٹکڑے ٹکڑے بھی ہوگئے ۔ سری ہرگوبند پور میں آزادی سے قبل مٹھی بھر مسلمان رہتے تھے ۔جب تقسیم ہند پر بھیانک فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے ، تو یہ مسلمان بھی ہجرت کر گئے اور گرو کی مسجد کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا ،کوئی وہاں اذان دینے والا ، کوئی نماز پڑھنے والا باقی نہیں بچا ۔برسہا برس یہ مسجد ویران تھی ۔1984 ء میں نہنگ سکھ فرقہ کے ایک مذہبی رہنما
بابا کیرتن سنگھ نے جو وہاں سے بیس کلو میٹر دورڈیرہ پر
رہتے تھے ، اپنے نہنگ سیوا داروں کو بھیجا کہ وہ اس ویران مسجد کی صاف صفائی کاکام کریں ، اس مسجد میں جو لنگر چلتا تھا ، اسے دوبارہ شروع کریں اور مسجد کی دیکھ بھال کریں ۔ان کیلئے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کیونکہ چھٹے سکھ گرو
شری ہرگوبند صاحب نے یہ مسجد تعمیر کی تھی ، اسلئے وہ اس مسجد کا بھی اسی قدر احترام کرتے تھے ،
جیسے کہ وہ کسی گرودوارہ کی احترام کرتے تھے ۔ 1997 ء میں اس مسجد کو یونیسکو نے
HERITAGE – STRUCTRURE قرار
دیا تو اس کی مرمت ، دیکھ بھال ، تعمیر اور آرائش نو کے اخراجات ایک سکھ تنظیم سکھ فاؤنڈیشن نے برداشت کئے ۔
مسجد کے آس پاس غیر قانونی قبضہ ہوچکے تھے ، انہیں ہٹایا گیا ،
کچھ لوگوں نے اس مسجد کی شناخت مٹانے کیلئے اس کے اندر گرو گرنتھ صاحب کی ایک بیر رکھ دی تھی اور باہر ایک نشان صاحب کھڑا کردیا تھا ۔سکھ فاؤنڈیشن اور مقامی سکھوں نے عطیہ دے کر قریب کا ایک مکان خرید لیا ،اور گرو گرنتھ صاحب کو وہاں منتقل کردیا گیا ۔
مقامی ایم ایل اے ، ممبران پارلیمنٹ ، نہنگ سیوادار، رہنما ،
اور مقامی وقف بورڈ کے تعاون سے ایک دن یہ مسجد مسلمانوں کو سونپ دی گئی اور یہاں ساٹھ باسٹھ سال بعد نماز و اذان کا سلسلہ
دوبارہ شروع ہوگیا ۔
ایک طرف بابری مسجد کی شہادت کا اندھیرا چھایا ہوا ہے ، جو دوسری طرف گرو کی مسجد نے امیدوں کے جو روشن چراغ جلادیے ، وہ ایک دن اس اندھیرے کو ضرور ختم کردیں گے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
بابری مسجدشہادت کیس:اڈوانی سے 4 گھنٹے میں 100 سوالات پوچھے گئے،خودکوبے قصوربتایا،الزامات کی تردید
لکھنؤ:بی جے پی کے سینئرلیڈر ایل کے اڈوانی نے آج 1992 کی بابری مسجد شہادت کیس میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے سامنے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنا بیان قلمبند کرایا۔ ایودھیا میں بابری مسجدشہادت سے متعلق کیس کے ملزموں میں 92 سالہ اڈوانی کا نام بھی شامل ہے۔ وہ آج ویڈیو کانفرنس کے ذریعے لکھنؤکی خصوصی سی بی آئی عدالت میں پیش ہوئے۔ 4.5 گھنٹے تک جاری رہی سماعت کے دوران، صبح 11 بجے سے دوپہر 3:30 بجے تک عدالت نے اڈوانی سے100 سے زائدسوال پوچھے۔ اڈوانی کے وکیل نے کہاہے کہ انہوں نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ بدھ کے روز مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اڈوانی سے ملاقات کی۔ دونوں لیڈروں نے تقریباََ 30 منٹ تک بات چیت کی۔بتادیں کہ عدالت کو روزانہ سماعت کے ذریعے کیس مکمل کرنا ہے اور 31 اگست تک فیصلہ دینا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بابری شہادت کیس کی سماعت ایودھیا میں رام مندرکے لیے 5 اگست کو بھومی پوجن کے انعقاد سے چند دن پہلے رکھی گئی تھی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق رام مندر تحریک کے اڈوانی سمیت دیگر رہنماؤں کوبھی مدعوکیاجائے گا۔ اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی اس معاملے میں مسجد کی شہادت کی سازش میں ملزم رہے ہیں۔ 86 سالہ جوشی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے جمعرات کو عدالت کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
بابری مسجدشہادت:اڈوانی،جوشی،اومابھارتی اور کلیان سنگھ کے خلاف مقدمے کی سماعت میں توسیع
نئی دہلی:بابری مسجدشہادت کیس میں سپریم کورٹ نے سماعت مکمل کرنے کے لیے 31 اگست 2020 تک کا وقت دیاہے۔ عدالت نے کہاہے کہ لکھنؤمیں سی بی آئی کی خصوصی عدالت اگست کے آخر تک اس کیس کو مکمل کرے اور اپنا فیصلہ دے۔ سی بی آئی عدالت اگست کی آخری تاریخ کی خلاف ورزی نہ کرے۔ سی بی آئی عدالتوں کو ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولیات کا استعمال کرناچاہیے۔بی جے پی کے سنیئرلیڈروں ایل کے اڈوانی،مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ اور دیگرکے خلاف مقدمہ چل رہا ہے، جس میں سپریم کورٹ نے مزیدتوسیع کردی ہے۔ خصوصی جج ایس کے یادو نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر توسیع کی درخواست کی تھی۔ 20 اپریل کو، 9 ماہ کی تحدیدمکمل ہوچکی ہے۔19 جولائی کو لکھنؤ کی سپریم کورٹ بابری مسجد انہدام کیس کی سازش کی سماعت ایل کے اڈوانی، ایم ایم جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ اور دیگر کے خلاف کررہی ہے۔ سی بی آئی عدالت کے خصوصی جج کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ نوماہ میں مقدمے کی سماعت مکمل کریں اور فیصلہ دیں۔ اس کے ساتھ ہی، بینچ نے سی بی آئی جج ایس کے یادوکی ریٹائرمنٹ کی میعاد 30 ستمبر کو مقدمے کی تکمیل تک بڑھانے کا حکم جاری کیا تھا۔ فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس آر ایف نریمن کی سربراہی میں بنچ نے ہدایت کی تھی کہ جج 6 ماہ میں سماعت مکمل کریں گے اور تین ماہ میں فیصلہ لکھیں گے۔در حقیقت، خصوصی جج ایس کے یادونے مئی میں لکھے گئے خط میں عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا تھا کہ وہ 30 ستمبر 2019 کوریٹائر ہو رہے ہیں، جب کہ اس مقدمے کی سماعت میں 6 ماہ کا وقت لگے گا۔ بنچ نے کہاتھاکہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے اور اس مقدمے کی سماعت اسی جج کے ذریعہ ہونی چاہیے۔
نئی دہلی:رام جنم بھومی ٹرسٹ کی پہلی میٹنگ 19 فروری کو دہلی میں ٹرسٹ کے دفتر میں ہوگی، میٹنگ شام پانچ بجے بلائی گئی ہے،میٹنگ کے ایجنڈے میں ٹرسٹ کے صدر، جنرل سکریٹری اور خزانچی کا انتخاب ہے۔ اس کے علاوہ ٹرسٹ میں اندراج کے لیے دو ارکان کا انتخاب اکثریت کی بنیاد پر ہو گا۔مانا جا رہا ہے کہ ٹرسٹ کی میٹنگ میں ہی رام مندر کی تعمیرکے لیے سنگ بنیاد کی تاریخ بھی طے کی جاسکتی ہے۔ حکومت نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایات کے تحت نئے ٹرسٹ کی تشکیل کا اعلان 6 فروری کو کیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں دہلی کی انتخابی مہم کے دوران اس کااعلان کیا تھا۔رام للا کا کیس لڑنے والے وکیل کے پاراشر کے علاوہ پانچ مذہبی شخصیات کو شری رام جنم بھومی ٹرسٹ کا رکن نامزد کیا گیا ہے، اتر پردیش کی حکومت کے 2 اور مرکزی حکومت کے 3 نمائندے اس میں شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک سے منسلک کچھ ناموں کو بھی ٹرسٹ میں جگہ دی گئی ہے۔