علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صدی تقریبات کے تناظر میں یہ خبر دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ اس کے کئی شعبوں اور کالجوں کو ملک کی معروف میگزین آئوٹ لُک نے اپنی سالانہ رینکنگ میں اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن شعبہ کو آئوٹ لُک -آئی سی اے آر ای کی 2020 رینکنگ میں ملک کے تمام ماس کمیونیکیشن اداروں کے درمیان چوتھا مقام دیا گیا ہے جو اپنے آپ میں باعث فخر امر ہے۔ واضح ہو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ماس کمیو نیکیشن شعبہ گذشتہ کئی برسوں سے کاموشی کے ساتھ ترقی کے منازل طے کرتا رہا ہے اور اس کے کئی طلبہ و طالبات نے پرنٹ اور ٹی وی میڈیا میں اپنے لیے باوقار جگہ بنائی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں اس شعبہ کے بنیادی ڈھانچے میں نمایاں ترقی ہوئی ہے اور شعبہ میں تین کیمرہ اسٹوڈیو اور فرینک اینڈ ڈیبی اسلام آڈی ٹوریم کی تعمیر کے ساتھ ہی اس کے تعلیمی معیار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اے ایم یو کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کو ملک کے تمام میڈیکل کالجوں کی رینکنگ میں پانچویں مقام پر رکھا گیا ہے جو اس کالج کی بہتر کارکردگی کا ثبوت ہے۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران کووِڈ19-تعدی کے پھیلنے کے بعد جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کو پورے مغربی اتر پردیش میں ایل2-درجہ کا اسپتال بنایا گیا اور اس کے ساتھ میڈیکل کالج میں کئی اہم ترقیات بھی ظہور میں آئیں جن میں وائرولوجی لیب اور پلازما تھیراپی کی مشین کی ایستادگی کے ساتھ ہی کارڈیالوجی شعبہ میں ڈی ایم کورس کی شروعات شامل ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک سرجری شعبہ میں پہلے سے ایم سی ایچ کورس کی تعلیم جاری ہے۔ حال ہی میں ملک کے وزیر تعلیم شری رمیش پوکھریال نے نشنک نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ جے این میڈیکل کالج میں امتحان مرکز کا افتتاح کیا جو یونیورسٹی کے بنیادی ڈھانچے میں مزید اضافہ ہے۔اس رینکنگ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی لا فیکلٹی کو قانون کی تعلیم کے تمام اداروں میں چھٹا مقام دیا گیا ہے جبکہ سوشل ورک شعبہ کو نویں مقام پر رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے تمام سرکاری انجینئرنگ کالجوں کے درمیان ذاکر حسین انجینئرنگ کالج کو 28واں درجہ دیا گیا ہے۔ مذکورہ اداروں کی بہتر رینکنگ پر اظہار خیال کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ یہ یونیورسٹی برادری کے لیے مسرت کا مقام ہے اور اس سے ہمیں اور بہتر کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے گذشتہ کچھ برسوں میں انفرا اسٹرکچر، نئے کورسز کا تعارف، نصابات پر نظر ثانی اور تحقیق میں یہاں کے اساتذہ کی قومی و بین الاقوامی سطح پر بہتر کارکردگی کی وجہ سے ادارے کے معیار میں اضافہ ہوا ہے اور نئے تعلیمی میقات میں اس میں مزید بہتری متوقع ہے۔رینکنگ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ایم سالم بیگ نے کہا کہ اس رینکنگ سے یونیورسٹی میں تدریس و تحقیق کے اعلیٰ معیار ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ یونیورسٹی نے رینکنگ کے لیے متعین مختلف معیارات پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اوراس سے یونیورسٹی کے بارے لوگوں کی رائے مزید بہتر ہوگی۔
amu
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کمیونٹی میڈیسن شعبہ کی ڈاکٹر سائرہ مہناز نے صحت عامہ کے موضوع پر منعقدہ آن لائن کانفرنس 2020میں ’’کووڈ سے پیدا شدہ حالات میں مہاجر مزدوروں کی صورت حال : ہندوستان کے تناظر میں‘‘ موضوع پر افتتاحی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مہاجر مزدور مختلف صوبوں کے معاشی نظام کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، اس کے باوجود اس کے ثمرات سے وہ خود فیضیاب نہیں ہو پاتے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ کووڈ حالات میں ملک گیر تالا بندی کے ابتدائی دنوں میں مہاجر مزدوروں کو سب سے زیادہ اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور انہیں روزگار کھونے کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں ہجرت کے منفی اثرات برداشت کرنے پڑے۔ڈاکٹر مہناز نے کہا کہ کورونا تعدی سے پیدا شدہ حالات نے مہاجر مزدوروں کوسب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کی بازآبادکاری اور روزگار کے لئے خصوصی اقدام کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کے لیے صحت خدمات کے نظام کو بھی مستحکم کیا جائے۔ڈاکٹر سائرہ مہناز کو ان کے خطبے کی بنیادپر آئندہ 14-15ستمبر کو بینڈنگ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے اسکالر شپ سے سرفراز کیا گیا ہے۔
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کی فیکلٹی آف لاء کے سابق ڈین اور شعبۂ قانون کے موجودہ چیئرمین پروفیسر ظہیر الدین کو اے ایم یو کا پرووائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے ان کی تقرری ان کی معمول کی ذمہ داریوں کے ساتھ تا حکم ثانی کی ہے۔ وہ اے ایم یو کے چوبیسویں پرو وائس چانسلر ہیں۔ پروفیسر ظہیرالدین کا تدریس و تحقیق کا تجربہ تیس برسوں پر محیط ہے۔ ان کے اختصاص کا میدان لیبر لاء، کمرشیل لاء، ایڈمنسٹریٹیو لاء، ٹرانسفر آف پراپرٹی لاء اور ضابطۂ دیوانی ہے۔ انھوں نے تین کتابیں اور تقریباً دو درجن تحقیقی مضامین تحریر کئے ہیں۔ حال ہی میں انھیں بھائی گروداس کالج آف لاء، سنگرور، پنجاب کا پروفیسر-پرنسپل اور 2004 میں راجستھان جوڈیشیل سروسیز کا ممتحن مقرر کیا گیا تھا۔ وہ محمد علی جوہر یونیورسٹی، رامپور کے شعبۂ قانون کے بورڈ آف اسٹڈیز کے بھی مستقل ممبرہیں۔ تعلیمی تجربہ کے ساتھ پروفیسر ظہیر الدین اے ایم یو کی کارپوریٹ زندگی میں بھی سرگرم ہیں ۔ وہ اے ایم یو طلبہ یونین کے انتخابات میں چیف الیکشن افسر اور اے ایم یو ایکزیکیٹیو کونسل ، اکیڈمک کونسل اور یونیورسٹی کورٹ کے رکن رہے ہیں۔وہ دو سال آفتاب ہال کے پرووسٹ اور مختلف اقامتی ہالوں کے وارڈن رہے۔ وہ دو سال این آر ایس سی ہال کے بھی وارڈن رہ چکے ہیں۔ پروفیسرظہیرالدین نے چالیس سے زائد تحقیقی مقالوں کی رہنمائی کی ہے ۔ ان کی نگرانی میں 6پی ایچ ڈی ایوارڈ کی گئی ہے اور 8طلبہ فی الحال ان کی زیر نگرانی ریسرچ کررہے ہیں جن میں دو غیرملکی ریسرچ اسکالر شامل ہیں۔ انھوں نے درجنوں کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالات اور کلیدی خطبات پیش کئے ہیں۔ رلیجن اینڈ لاء ریویو، سول اینڈ ملٹری لاء جرنل، جرنل آف لیبر لیجسلیشن، انڈین بار ریویو، کلچرسوسائٹی اینڈ لاء، ڈیلیجریٹیو ریسرچ، علی گڑھ لاء جرنل جیسے علمی رسائل میں ان کے تحقیقی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔پروفیسرظہیرالدین نے 1980 میں اے ایم یو سے ایل ایل بی اور 1983میں ایل ایل ایم کیا۔ پی ایچ ڈی کے ان کے مقالے کا موضوع تھا: ورکرز: ایکسپلائٹیشن اینڈ لیگل سیف گارڈز۔ انھوں نے 1988میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اس سے قبل 1976 میں انھوں نے آگرہ یونیورسٹی سے بی ایس سی اور یوپی بورڈ سے 1974 میں انٹر میڈیٹ اور 1972میں ہائی اسکول کیا۔
اے ایم یو کے مرکز برائے فاصلاتی تعلیم کے مختلف کورسوں میں داخلہ کا عمل شروع
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے مرکز برائے فاصلاتی تعلیم نے تعلیمی سال 2020-21 کے لئے آج سے مختلف کورسوں میں داخلہ کا اعلان کیا ہے۔ مرکز کے ڈائرکٹر پروفیسر محمد نفیس احمد انصاری نے بتایا کہ ڈسٹینس ایجوکیشن بیورو، حکومت ہند کے نوٹیفکیشن کے مطابق 24؍کورسوں میں داخلہ کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ خواہشمند طلبہ و طالبات آف لائن اور آن لائن دونوں طریقہ سے داخلہ فارم جمع کرسکتے ہیںاور فیس بھی آن لائن یا آف لائن جمع کی جاسکتی ہے۔ آف لائن فیس فائننس افسر، اے ایم یو، علی گڑھ کے نام بینک ڈرافٹ کی شکل میں جمع کی جاسکتی ہے۔ سبھی کورسوں میں داخلہ کی آخری تاریخ 31؍اکتوبر 2020 ہے۔
علی گڑھ:مرکزی وزیرتعلیم ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشانک، جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے امتحان سنٹر کا 27؍اگست کو ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعہ افتتاح کریں گے۔ مذکورہ امتحان سنٹر کو وزارت تعلیم کی دو کروڑ روپئے کی گرانٹ سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس میں 150طلبہ کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ یہ نئی عمارت اعلیٰ معیار کی ہے جس میں امتحانات کو بہتر نظم و نسق کے ساتھ منعقد کیا جاسکتا ہے۔ رجسٹرار مسٹر عبدالحمید آئی پی ایس نے بتایا کہ آن لائن افتتاحی تقریب سہ پہر تین بجے شروع ہوگی۔
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے دو سابق طلبہ نے یوپی ایس سی سول سروسیز امتحان-2019 میں کامیابی حاصل کی ہے جس کے نتائج کا حال ہی میں اعلان کیا گیا۔ سفیان احمد (بی آرک، 2009-14 بیچ) نے جنرل کیٹگری میں کل ہندسطح پر303ویں رینک حاصل کی ہے، جب کہ آفتاب رسول 412ویں پوزیشن پر رہے۔ سفیان نے گیٹ (GATE) میں بھی کل ہند سطح پر سولہویں رینک حاصل کی تھی ، دوسری طرف آفتاب نے کپواڑہ (جموں و کشمیر) کے اپنے آبائی گاؤں میں رہ کر سول سروسیز کی تیاری کی۔ اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں سابق طلبہ کی کامیابی سے اے ایم یو کے دیگر طلبہ و طالبات کو بھی تحریک ملے گی اور وہ اس باوقار مقابلہ جاتی امتحان میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں گے اور کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ انھوں نے اس توقع کا بھی اظہار کیا کہ اے ایم یو کے دونوں سابق طلبہ سنجیدگی اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں گے اور سول سروسیز کی اعلیٰ روایات کی پاسداری کریں گے۔ پروفیسر منصور نے طلبہ سے اپیل کی کہ وہ محنت پر یقین کریں اور اعلیٰ مقاصد و اہداف کے حصول کے لئے سنجیدگی کے ساتھ مسلسل کاوشیں کریں گے۔علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے دو سابق طلبہ نے یوپی ایس سی سول سروسیز امتحان-2019 میں کامیابی حاصل کی ہے جس کے نتائج کا حال ہی میں اعلان کیا گیا۔ سفیان احمد (بی آرک، 2009-14 بیچ) نے جنرل کیٹگری میں کل ہندسطح پر303ویں رینک حاصل کی ہے، جب کہ آفتاب رسول 412ویں پوزیشن پر رہے۔ سفیان نے گیٹ (GATE) میں بھی کل ہند سطح پر سولہویں رینک حاصل کی تھی ، دوسری طرف آفتاب نے کپواڑہ (جموں و کشمیر) کے اپنے آبائی گاؤں میں رہ کر سول سروسیز کی تیاری کی۔ اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں سابق طلبہ کی کامیابی سے اے ایم یو کے دیگر طلبہ و طالبات کو بھی تحریک ملے گی اور وہ اس باوقار مقابلہ جاتی امتحان میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں گے اور کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ انھوں نے اس توقع کا بھی اظہار کیا کہ اے ایم یو کے دونوں سابق طلبہ سنجیدگی اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں گے اور سول سروسیز کی اعلیٰ روایات کی پاسداری کریں گے۔ پروفیسر منصور نے طلبہ سے اپیل کی کہ وہ محنت پر یقین کریں اور اعلیٰ مقاصد و اہداف کے حصول کے لئے سنجیدگی کے ساتھ مسلسل کاوشیں کریں گے۔
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینئر سکنڈری اسکول سرٹیفیکٹ حصہ دوئم (بارہویں جماعت) اور سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ دسویں کلاس کے سالانہ امتحان کے نتائج کا اعلان کر دیاگیاہے ۔ بارہویں کلاس کے امتحان میں 2448 طلبہ و طالبات شامل ہوئے تھے جن میں سے 2406 طلبہ و طالبات نے کامیابی حاصل کی۔ بارہویں جماعت کا نتیجہ 98.28 فیصد رہا۔ نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کنٹرولر مسٹر مجیب اللہ زبیری نے بتایا کہ سید حامد سینئر سکنڈری اسکول (بوائز) کے طالب علم سید قائم مہدی 500 میں 484 نمبر حاصل کرکے لڑکوں میں اور سینئر سکنڈری اسکول (گرلس) کی مریم لطیف 483 نمبر حاصل کرکے لڑکیوں میں پہلے مقام پر رہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس امتحان میں 2212 طلبہ و طالبات نے فرسٹ ڈویژن، 192طلبہ و طالبات نے سکنڈ ڈویژن اور دو طالب علموں نے تھرڈ ڈویژن حاصل کیا۔ دسویں کلاس کے امتحان میں 1425 طلبہ و طالبات شامل ہوئے تھے جن میں سے 1369 طلبہ و طالبات نے کامیابی حاصل کی۔ بارہویں جماعت کا نتیجہ 96.07 فیصد رہا۔ ایس ٹی ایس اسکول کے طالب علم عمران علی نے 500 میں 495 نمبر حاصل کرکے لڑکوں میں اول مقام حاصل کیا جبکہ ایس ٹی ایس اسکول کے ہی شہان عثمانی اور اے ایم یو سٹی اسکول کے ستیہ نارائن پاٹھک نے 494نمبر حاصل کرکے مشترکہ طور سے دوسرا مقام حاصل کیا۔لڑکیوں میں اے ایم یو گرلس اسکول کی اسریٰ سہیل 491 نمبر حاصل کرکے لڑکیوں میں پہلے مقام پر رہیں۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کامیاب طلبہ و طالبات کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل وقت میں طالب علموں نے اپنی محنت سے جو شاندار مظاہرہ کیا ہے اس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ وائس چانسلر نے ان کے سنہرے مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
علی گڑھ:رکن پارلیمنٹ راج ویر دلیر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کا ممبر منتخب کیا گیا ہے۔ وہ آئندہ تین برس تک یا لوک سبھا رکن کے طور پر برقرار رہنے تک اے ایم یو کورٹ کے ممبر رہیں گے۔ان کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے 12؍نئے سربراہانِ شعبہ، سینیارٹی کی بنیاد پر اے ایم یو کورٹ میں بطور ممبر شامل کئے گئے ہیں۔ ان میں پروفیسر امتیاز اشرف (چیئرمین، شعبۂ الیکٹریکل انجینئرنگ)، پروفیسر سید نعمان احمد (چیئرمین، شعبۂ اقتصادیات)، پروفیسر نیّر آصف (چیئرمین، شعبۂ آرتھوپیڈک سرجری)، پروفیسر تمکین خاں (چیئرپرسن، شعبۂ امراض خواتین و زچگی، جے این ایم سی)، پروفیسر ملک محمد وامق امین (چیئرمین، شعبۂ علم الامراض)، پروفیسر شگفتہ علیم (چیئرپرسن، شعبۂ امراض جِلد و زہراویہ)، پروفیسر آسیہ سلطانہ (چیئرپرسن، شعبۂ علاج بالتدبیر)، پروفیسر تنزیل احمد (چیئرمین، شعبۂ معالجات)، پروفیسر سید معید احمد (چیئرمین، شعبۂ انستھیسیالوجی)، پروفیسر سرتاج تبسم (چیئرمین، شعبۂ کیمسٹری)، پروفیسر اطہر علی خاں (چیئرمین، شعبۂ شماریات و آپریشنس ریسرچ)، اور مسٹر نسیم احمد خاں (چیئرمین، شعبۂ کیمیکل انجینئرنگ) شامل ہیں۔ مذکورہ اے ایم یو کورٹ ممبران کی مدت کار تین برس یا صدرِ شعبہ کے عہدے پر ان کے فائز رہنے تک ہوگی۔
آصف اقبال کی گرفتاری:ایسی کارروائیاں تحریک کو اور بھی مضبوط کریں گی-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
تاریخ نے اپنے صفحات میں محفوظ کیا ہے کہ آج سے 3 ہزار برس قبل مصر میں ایک بادشاہ گزرا تھا ، جسے ‘فرعون’ کہا جاتا تھاـ یہ اس کا نام نہیں ، بلکہ لقب تھاـ اس کا ظلم و ستم اس قدر عام تھا کہ اس کا یہ لقب جبر وتشدّد اور ظلم و ستم کا استعارہ بن گیاـ اس نے اسرائیلی قوم کے لوگوں کو غلام بنا لیا تھاـ انھیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا تھاـ ان سے بیگار کے کام لیے جاتے تھے اور ہر طرح کا ظلم روا رکھا جاتا تھاـ کسی نجومی نے اسے بتادیا کہ تمھاری مملکت میں بسنے والے ان اسرائیلیوں میں ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تمھاری حکومت کے زوال اور تمھاری سلطنت کے خاتمے کا سبب بنے گاـ بس اس نے حکم جاری کردیا کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائےـ فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری رہاـ اسے اپنے ظالمانہ رویّے پر نظر ثانی اور اس کی اصلاح کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ، بلکہ اس نے مزید ظلم کرکے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کی ـ لیکن اس کی تمام تدبیریں ناکام ہوگئیں ـ جب اس کے ظلم و ستم کا پیمانہ لب ریز ہوگیا تو اسے بحر قلزم میں غرق کردیا گیاـ اس کا لاؤ لشکر اس کے کچھ کام نہ آیاـ آج قاہرہ کے میوزیم میں محفوظ اس کی حنوط شدہ لاش نشانِ عبرت بنی ہوئی ہےـ
ہمارے ملکِ عزیز کے حکم راں آج کل اسی فرعونی روش پر گام زن ہیں ـ وہ ملک کے ایک بڑے طبقے کو محض مسلمان ہونے کی سزا دینے کے لیے انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا دینا چاہتے ہیں _ طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور وہ برابر ایسے قوانین وضع کر رہے ہیں جن کی زد مسلمانوں پر پڑے اور ان کی بے وقعتی میں اضافہ ہوـ ان میں سے ایک شہریت ترمیمی قانون (CAA) ہے، جسے چند ماہ قبل منظور کیا گیا ہے _ اسی وقت سے اس کے خلاف ملک گیر سطح پر زبردست احتجاج چل رہا تھا ، جس میں ملک کے دیگر مذاہب کو ماننے والے انصاف پسند شہری بھی مسلمانوں کی حمایت کررہے تھےـ اس ظالمانہ قانون کی مخالفت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے طلبہ نے سرگرم حصہ لیا تو ملک کی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی دہلی پولیس نے ان کے احتجاج کو کچلنے کے لیے جامعہ کیمپس میں گھس کر لائبریری میں طلبہ کی بُری طرح پٹائی کی _ پولیس کی پُر تشدّد کارروائی کا پختہ ثبوت وہ ویڈیوز ہیں جو سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہیں اور جنہیں جامعہ انتظامیہ کی طرف سے عدالت میں پیش کیا گیا ہے _ لیکن حکومت ظلم و تشدّد برپا کرنے والی پولیس پر کارروائی کرنے کے بجائے الٹا طلبہ ہی کو ہراساں کر رہی ہے _ اِن دنوں جب کووِڈ_19 جیسی مہلک وبا پر قابو پانے کے لئے پورا ملک لاک ڈاؤن سے گزر رہا ہے ، دہلی پولیس سی اے اے مخالف احتجاجی تحریک میں سرگرم جامعہ کے اسٹوڈنٹ لیڈرس کو ایک ایک کرکے گرفتار کر رہی ہے اور بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگاکر انہیں داخلِ زنداں کر رہی ہے _ میران حیدر اور صفورہ گرزر کے بعد اب اس کا تازہ نشانہ آصف اقبال تنہا بنے ہیں ـ آصف اقبال جامعہ میں بی ، اے (فارسی آنرس) کے طالب علم ہیں اور ملک کی اسلام پسند طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) کے فعّال رکن ہیں ـ دہلی پولیس نے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کرکے کہ وہ جامعہ میں 15 دسمبر 2019 کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کے دوران ہونے والے تشدّد میں شریک تھے ، انہیں ساکیت کورٹ میں میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا ، جہاں سے انہیں 31 مئی 2020 تک کے لیے عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہےـ
سی اے اے کے ظالمانہ قانون کے خلاف گزشتہ مہینوں میں پورے ملک میں بیداری آئی ہے _ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بیداری کا سہرا عصری جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان طلبہ و طالبات کے سر جاتا ہے ، جنھوں نے پوری سنجیدگی ، متانت اور بیدار مغزی کے ساتھ اس تحریک کی قیادت کی ہے اور ملک کے تمام طبقات سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ـ کووِڈ_19کی وجہ سے انہوں نے فی الحال اپنی سرگرمیاں معطّل کردی ہیں ، لیکن بہت جلد وہ پھر حسبِ سابق پوری قوت کے ساتھ اپنی احتجاجی تحریک کو ازسرِ نو برپا کریں گےـ اگر ملک کی موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ چند اسٹوڈنٹ لیڈرس کو گرفتار کرکے طلبہ برادری کو خوف زدہ کردے گی اور وہ آئندہ اپنی سرگرمیوں سے باز آجائیں گے تو اس کی خام خیالی ہےـ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے طلبہ نہ پہلے ڈرے ہیں اور نہ آئندہ ڈریں گے ، بلکہ یہ کارروائیاں سی اے اے مخالف تحریک کو اور بھی مضبوط کریں گی ـزنداں و سلاسل کے خوف سے نوجوانوں کا خون نہ پہلے کبھی سرد پڑا ہے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جانی چاہیے _ حکومت کی دانش مندی اسی میں ہے کہ وہ اپنے ظالمانہ قوانین کو واپس لے ، ملک کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دے اور حق و انصاف کا مطالبہ کرنے والوں کی آواز کو دبانے کے لیے اس نے جن بے قصوروں کو گرفتار کیا ہے ، جلد از جلد انہیں رہا کرےـ ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں ـ تین ہزار برس پہلے والے فرعون کے مظالم اسے لے ڈوبے تھےـ اسی طرح ہر فرعون کا انجام ذلت و نامرادی ، زوال اور اقتدار سے محرومی رہا ہےـ یہ اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے اور اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوئی ہےـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:دہلی پولیس کی طرف شرجیل امام کے خلاف جامعہ میں وطن کے ساتھ غداری کرنے اور فسادات بھڑکانے کے الزام میں چارج شیٹ فائل کی گئی۔ شرجیل کو اسی الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے بتایا کہ ثبوتوں کی بنیاد پر، شرجیل پر سیکشن 124 اے اور تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے لگایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مبینہ طور پر ملک مخالف بیان بازی کرنے والے جے این یو طالب علم شرجیل امام کو بہار کے جہان آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ شرجیل امام کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا، جس میں وہ مبینہ طور پر ملک مخالف بیان بازی کرتے نظر آئے تھے۔پولیس کے مطابق وائرل ویڈیو میں شرجیل امام تقریر کرتے نظر آ رہے تھے۔ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ویڈیو 16 جنوری کو اے ایم یو میں ایک عوامی تقریر کے دوران ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویڈیو میں شرجیل کو ملک مخالف بیان بازی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ جس میں امام شمال مشرق ہندوستان کو باقی ہندوستان سے الگ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ شرجیل امام دہلی کے شاہین باغ میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے ابتدائی دور میں اس کے منتظمین میں سے ایک ہیں۔
علی گڑھ:کووِڈ-19 (کورونا وائرس) کے پیش نظر ملک گیر سطح پر نافذ لاک ڈاؤن میں توسیع کئے جانے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا ہے کہ یونیورسٹی خاص طور سے سالِ آخر کے طلبہ و طالبات کے امتحانات کرانے کے سبھی متبادل طریقوں پر غور کررہی ہے جس میں آن لائن امتحانات بھی شامل ہیں ۔وائس چانسلر نے کہاکہ یونیورسٹی سالِ آخر کے طلبہ و طالبات کے امتحانات اور مختلف کورسوں کے داخلہ امتحانات کو اوّلیت دے گی ۔ انھوں نے کہا کہ کووِڈ-19کی وبا کے دوران صحت عامہ کے سبھی پہلوؤں پر دھیان دیتے ہوئے حسب ضرورت فیصلہ کیا جائے گا۔یونیورسٹی کے اساتذہ ، طلبہ ، ان کے سرپرستوں اور اے ایم یو برادری کے نام ایک خط میں پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ وزارت فروغ انسانی وسائل، حکومت ہند نے اس معاملے پر غور و خوض کے لئے دو ایکسپرٹ کمیٹیاں تشکیل دی ہیں ۔ان میں سے ایک کمیٹی آن لائن تدریس کے لئے جب کہ دوسری کمیٹی داخلے اور دیگر امور سے متعلق اکیڈمک کیلنڈر کے سلسلہ میں قائم کی گئی ہے ۔ ان دونوں ایکسپرٹ کمیٹیوں کی رپورٹ جلد متوقع ہے اور اسی کے مطابق اس مشکل گھڑی میں طلبہ کے بہتر مفاد میں فیصلے کئے جائیں گے ۔وائس چانسلر نے کہا’’ یہ بہت مثالی حالات نہیں ہیں اور ان کا حل بھی شاید بہت مثالی نہ ہو، لاک ڈاؤن میں 3؍مئی تک توسیع کی گئی ہے اور 20؍اپریل سے کچھ رعایتیں بھی دی جائیں گی ،ان حالات میں ہم وقفہ وقفہ سے حالات کا مسلسل جائزہ لیں گے اور طلبہ کے مفاد میں بہتر سے بہتر فیصلہ کریں گے ‘‘۔وائس چانسلرنے تدریسی عملے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ چیلنجوں کو مواقع میں تبدیل کریں اور ورچوئل تدریس و تعلیم اور ایویلوئیشن کے نئے ہنر سیکھیں ۔ جو اساتذہ گوگل کلاس روم، گوگل ہینگ آؤٹ ،جِٹسی اور زوم وغیرہ کے توسط سے پڑھارہے ہیں وہ تعریف کے قابل ہیں ، دیگر اساتذہ کو بلاتاخیر یہی طریقہ اپنانا چاہئے ۔انھوں نے کہاکہ موجودہ حالات میں آن لائن ٹیچنگ و لرننگ کے سوا کوئی چارہ نہیں ، اسی طریقے سے نصاب تعلیم کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنا چاہیے۔پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا مسئلہ ہے لیکن ہمیں اسی طریقے کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہے کیونکہ اگلے کچھ وقتوں تک روایتی طریقے سے درجات میں پڑھانا ممکن نہیں ہوگا ۔انھوں نے کہاکہ طلبہ کی بہتری کے لئے اساتذہ کو تھوڑی قربانی دینی پڑے گی، تاکہ خاص طورسے سالِ آخر کے طلبہ کا نقصان نہ ہو ۔وائس چانسلر نے زور دیتے ہوئے کہاکہ کووِڈ-19کی وبا کے دوران سماجی طور پر دوری برقرار کھنا سبھی کے لئے لازم ہے ایسے حالات میں صرف مسائل کی نشاندہی کرنے کے بجائے ہمیں ان کے حل پر کام کرنا ہوگا اور آن لائن تدریس اور امتحانات کے لئے اختراعی طریقے اپنانا ہوگا ۔پروفیسر منصور نے مزید کہاکہ ٹکنالوجی میں جو اساتذہ ماہر ہیں وہ کم مہارت رکھنے والے اساتذہ کی مدد کرسکتے ہیں اور سربراہان شعبہ اپنے اپنے شعبہ میں دو تین اساتذہ کا ایک گروپ بناسکتے ہیں تاکہ جنھیں کم مہارت ہے ان کی مدد ہوسکے ۔ اس سلسلہ میں نوجوان اساتذہ کو آگے آنا چاہئے کیونکہ آنے والے وقتوں میں اعلیٰ تعلیم میں آن لائن ایجوکیشن کا اہم رول ہوگا۔ وائس چانسلر نے یہ بھی اعلان کیا کہ اے ایم یو کے یوجی سی-ایچ آرڈی سنٹر؍کمپیوٹر سنٹر کی جانب سے اساتذہ کے لئے آن لائن ٹیچنگ پر اورئنٹیشن کورس کا بندوبست کیا جارہا ہے جسے سی اے ایس؍ڈائرکٹ کیڈر دونوں کے تحت اساتذہ کی ترقی کے لئے شمار کیا جاسکتا ہے ۔پروفیسر منصور نے کہا کہ ضرورت مند اساتذہ کے لئے ویب سائٹ کمیٹی؍کمپیوٹر سنٹر کی جانب سے ایک ہیلپ لائن چلائی جارہی ہے۔ فیکلٹیوں اور شعبوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ سبجیکٹ کے خاص موضوعات پر ویبینار کا اہتمام کریں ۔ویبینار کی کارروائی اور انویٹیشن لنک کو یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جاسکتا ہے اور سوشل میڈیا فورموں پر ان کی تشہیر کی جاسکتی ہے ۔اس کے علاوہ اساتذہ اور طلبہ دیگر یونیورسٹیوں اور اداروں کی جانب سے منعقد کئے جانے والے ویبینار میں بھی شامل ہوسکتے ہیں ۔ انھوں نے کہاکہ مختلف یونیورسٹیوں میں ان کے حالات ، تقاضوں اور بنیادی سہولیات وغیرہ کے باعث اپنائے جانے والے حل اور طریقے مختلف ہوسکتے ہیں ۔وائس چانسلر نے تدریسی و غیرتدریسی عملے اور طلبہ و طالبات سے سختی کے ساتھ سوشل ڈسٹینسنگ اور لاک ڈاؤن کی رہنما ہدایات پر عمل کرنے، لگاتار ہاتھ دھونے، عوامی مقامات پر ماسک استعمال کرنے اور صفائی برقرار رکھنے کی اپیل کی ۔
اے ایم یو کے سبھی شعبوں میں آن لائن کلاسیز کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی پر زور
علی گڑھ :کووِڈ -19 کی وبا کے پیش نظر حکومت ہند کی جانب سے ملک گیر سطح پر نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے طلبہ و طالبات کے تعلیمی کیریئر کو متاثر ہونے سے بچانے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ سبھی فیکلٹیوں، شعبوں اور سنٹروں میں آن لائن کلاسیز کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے گی اور اساتذہ و طلبہ اس میں بھرپور حصہ لیں گے۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی صدارت میں پیر کو فیکلٹیوں کے ڈین اور پرنسپلوں کی ایک مشاورتی میٹنگ ہوئی جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ طلبہ و طالبات کا تعلیمی کیریئر کم از کم متاثر ہونا چاہئے۔ میٹنگ میں اس اعتماد کا اظہار کیا گیا کہ سبھی اساتذہ اس بحران کے وقت میں طلبہ کے مفاد میں اپنا بھرپور تعاون پیش کریں گے۔ چونکہ یہ صحت عامہ کا مسئلہ ہے اس لئے تعلیمی سرگرمیاں اور کلاسیز یوجی سی؍وزارت فروغ انسانی وسائل کی ہدایات کے مطابق شروع ہوں گی۔ تاہم سبھی فیکلٹیوں اور شعبوں میں آن لائن کلاسیز کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور اساتذہ و طلبہ کو اس بات کی ترغیب دی جائے گی کہ وہ آن لائن کلاسیز میں شامل ہوں۔ اس معاملے کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جائے گا۔
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبۂ کیمسٹری اور کمیونٹی کالج کے دو اسسٹنٹ پروفیسروں نے عالمی صحت تنظیم (ڈبلیوایچ او) کی رہنما ہدایات کے مطابق ہاتھوں کی معقول صفائی کے لئے سینیٹائزر اور کمروں کی صفائی کے لئے جراثیم کش دوا تیار کی ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے کورونا وائرس کی وبا کے موقع پر مذکورہ اشیاء کی بڑھتی ہوئی مانگ کے درمیان یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔اسے ’الما میٹر کورونا سینیٹائزر‘ اور ’الما میٹر کورونا ڈِس انفیکٹینٹ‘ کا نام دیا گیا ہے ۔یہ دونوں مصنوعات وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کو پیش کی گئیں جنھوں نے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے لائق ستائش قرار دیا۔ڈاکٹر انامیکا گپتا (شعبۂ کیمسٹری) اور ڈاکٹر رضوان حسین (کمیونٹی کالج) کی مشترکہ کاوشوں سے انھیں تیار کیا گیا ہے۔ ڈین اسٹوڈنٹس ویلفیئر پروفیسر مجاہد بیگ نے بتایا کہ ان دونوں مصنوعات کو اے ایم یو کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے مائیکروبایولوجی شعبہ نے ٹسٹ کیا ہے اور انھیں مؤثر پایا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے مختلف اقامتی ہالوں اور دفاتر میں مخصوص جگہوں پر 60؍ سینیٹائزرڈِسپینر نصب کئے جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر انامیکا اور ڈاکٹر رضوان سے گزارش کی گئی تھی کہ وہ سینیٹائزر مائعات تیار کریں کیونکہ چور بازاری کی وجہ سے بازاروں میں ان کی سپلائی کم ہوگئی ہے اور بہت مہنگے بھی ہوگئے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ مصنوعات ہاتھوں کو جراثیم اور وائرس سے پاک رکھنے اور کمرے، میز، کرسیوں، لکڑی اور اسٹیل کے دروازوں اور دیگر اشیاء کی سطح سے جراثیم کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔سینیٹائزر اور ڈِس انفیکٹینٹ کو ڈاکٹر انامیکا اور ڈاکٹر رضوان نے مشترکہ طور پر شعبۂ کیمسٹری میں ڈاکٹر انامیکا کی ریسرچ لیبارٹری میں تیار کیا۔
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کووِڈ- 19 (کورونا وائرس) کی جانچ کے لئے 35؍ لاکھ روپے مالیت کی ایک اور مشین خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ کورونا وائرس کی جلد تشخیص کو یقینی بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔یونیورسٹی کے پاس جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج (جے این ایم سی) میں پہلے سے ہی ایک مشین موجود ہے جو ایک دن میں 60 ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نئی مشین کی مدد سے جے این ایم سی میں ایک دن میں 120 ؍ٹیسٹ ہوسکیں گے۔ نوئیڈا، آگرہ اور آس پاس کے دیگر مقامات سے ٹیسٹ کے نمونوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے باعث ایک اور مشین خریدنے کا یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔دریں اثناء ، حکومت ہند کی ہدایات کے مطابق، وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے سبھی ملازمین اور طلبہ سے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرنے کی اپیل کی ہے، اور صرف لازمی خدمات میں شامل ملازمین کو ہی ڈیوٹی پر بلایا جارہا ہے۔ لائبریری کے ریڈنگ ہالوں اور ریسرچ لیبارٹریوں کو بند کئے جانے کے بعد کیمپس میں چہل پہل ٹھپ ہے اور اقامتی ہالوں میں 13000؍میں سے صرف 4500 ؍طلبہ موجودہیں۔
علی گڑھ:کووِڈ-19 کے پیش نظر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے یونیورسٹی اساتذہ سے اپیل کی ہے کہ وہ ای میل اور دیگر الیکٹرانک وسائل کا استعمال کرکے طلبہ کی مدد کریں تاکہ کلاسیز کے نقصان کی تلافی ہوسکے۔وائس چانسلر نے کہا ’’کووِڈ-19 نے اساتذہ کے سامنے بھی ایک چیلنج پیدا کیا ہے ، لہٰذا اے ایم یو کے اساتذہ، تدریسی مواد طلبہ کو آن لائن مہیا کرائیں۔ ہر استاد کو یونیورسٹی ویب سائٹ کے ان کے متعلقہ ویب پیج پر تدریسی مواد کو پی ـڈی ایف کی شکل میں اپلوڈ کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے‘‘۔ انھوں نے اساتذہ سے درخواست کی کہ وہ تدریسی مواد کو مسلسل اپلوڈ کریں اور وہاٹس ایپ یا ای میل کے ذریعہ بھی مہیا کرائیں۔اس کے علاوہ لیکچرز کی پی پی ٹی جو اساتذہ کلاس روم میں استعمال کرتے ہیں اسے بھی طلبہ کو آن لائن دستیاب کرایا جائے۔ پروفیسر طارق منصور نے مزید کہاکہ آن لائن موکس (MOOCs) پورٹل جیسے کہ سویم (swayam.gov.in ) ، نیشنل ریپوزیٹری آف اوپن ایجوکیشنل ریسورسیز (nroer.gov.in) وغیرہ کے ذریعہ فراہم کئے جانے والے اوپن ایکسیز مواد سے متعلق اطلاع بھی یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کی جائے گی۔ وائس چانسلر نے یہ بھی کہاکہ چونکہ کئی کورسوں میں پروجیکٹ؍اسائنمنٹ بھی جمع کرنا ہوتا ہے اس لئے طلبہ کو اجازت دی جانی چاہئے کہ وہ اپنے پروجیکٹ آن لائن جمع کرسکیں۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ سبھی اساتذہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے تازہ ای میل ایڈریس اور فون نمبر، یونیورسٹی ویب سائٹ پر ان کے ویب پیج پر دستیاب رہیں۔
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ہال کی میگزین ”دی سوشل مِرر“ کا اپنے دفتر میں اجرا کیا۔ اس موقع پر ہال پرووسٹ پروفیسر حشمت علی خاں اور وارڈن صاحبان موجود رہے۔ وائس چانسلر نے اس موقع پر کہاکہ ہال میگزین کی اشاعت سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی جلاء ہوتی ہے۔ انھوں نے کہاکہ ہال میگزین کی اشاعت مسلسل ہوتے رہنا چاہیے۔ پرووسٹ پروفیسر حشمت علی خاں نے کہاکہ اس ہال میگزین کو پہلی بار آئی ایس بی این نمبر حاصل ہوا ہے اور اس میں مختلف قانونی و سماجی موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ اس موقع پر جنرل وارڈن ڈاکٹر محمد کلیم اللہ، ڈائننگ ہال انچارج ڈاکٹر محمد احتشام الدین، وارڈن اعظم رحمانی، ایڈیٹر معصوم علی بیرونی اور سب ایڈیٹر معز سمیت دیگر افراد موجودتھے۔
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے مختلف ٹسٹ کورسوں اور نان ٹسٹ کورسوں کے داخلہ فارم، 300/روپئے کی تاخیر فیس کے ساتھ آن لائن جمع کرنے کی تاریخ میں توسیع کردی گئی ہے۔کنٹرولر امتحانات کی طرف سے جاری اطلاع کے مطابق بی ایس سی، بی کام، بی اے، بی اے ایل ایل بی، بی اے (آنرز)فارین لینگویجز، گیارہویں جماعت/ڈپلوما انجینئرنگ، گیارہویں جماعت (ہیومنٹیز)، سی ای ٹی، ڈپلوما جنرل نرسنگ و مڈوائفری، بی ایس سی (ایگریکلچر، سیلف فائننس)، بی ٹیک، بی آرک، ایم بی اے (فائننشیئل مینجمنٹ)، ماسٹر آف ٹورزم اینڈ ٹریول مینجمنٹ، ایم بی اے /ایم بی اے (آئی بی)/ ایم بی اے (آئی بی ایف)، بی ایڈ، ایم بی اے (ایگری بزنس)، ایم ایس سی (بایوٹکنالوجی)، ایم سی اے، بی لِب، ایم اے (ماس کمیونیکشن)، ایم ایس ڈبلیو، بی ای اور سبھی ڈپارٹمنٹل ٹسٹ کورسوں کے داخلہ فارم تین سو روپئے تاخیر فیس کے ساتھ 7/مارچ 2020 ء تک آن لائن جمع کیے جاسکتے ہیں۔ایم ٹیک (فیکلٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی) اور نان ٹسٹ کورسوں کے آن لائن داخلہ فارم، تاخیر فیس کے ساتھ جمع کرنے کی آخری تاریخ 18/اپریل 2020، اور بی یو ایم ایس/پری طب کی آخری تاریخ 12/مئی 2020ء مقرر کی گئی ہے۔
نئی دہلی:دہلی میں ہوئے تشددکی تحقیقات کے لیے خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) کی تشکیل کی گئی ہے۔ یہ ایس آئی ٹی کرائم برانچ کی ہوگی۔ دہلی پولیس کے ایڈیشنل سی پی کرائم بی سنگھ کی قیادت میں یہ ایس آئی ٹی کام کرے گی۔ کرائم برانچ کی ایس آئی ٹی کی دوٹیمیں بنائی گئی ہیں جو مل کر نارتھ ایسٹ دہلی میں تشدد کی تحقیقات کریں گی۔دہلی میں ہوئے تشددمیں اب تک مرنے والوں کی تعداد 38 ہو گئی ہے۔تشددکے معاملات میں اب تک 48 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 اورکیسزدرج کیے جارہے ہیں۔تقریباََایک ہزار سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ کی جا رہی ہے۔ایس آئی ٹی (خصوصی تفتیشی ٹیم) کی جانچ ٹیموں کے سربراہ دوڈپٹی کمشنر ہوں گے۔ایک ٹیم کے سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوں گے اور دوسری ٹیم کے سربراہ ڈپٹی کمشنر راجیش دیوہوں گے۔ دونوں ٹیموں میں چار چار اے سی پی ہوں گے۔یعنی کل آٹھ اے سی پی شامل ہوں گے۔ ان ٹیموں میں تین تین انسپکٹر، چار چار سب انسپکٹر اور پولیس اہلکار شامل رہیں گے۔دہلی پولیس کے ترجمان ایم ایس رندھاوا نے بتایاہے کہ دہلی میں ہوئے تشدد کے معاملے میں اب تک 48 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 اور کیسز درج کیے جارہے ہیں۔انہوں نے بتایاہے کہ ایک ہزار سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ کی جا رہی ہے۔رندھاوا نے بتایا کہ شمال مشرقی دہلی میں حالات کنٹرول میں ہیں اورحالات بالکل عام ہیں۔ پہلے کے مقابلے پی سی آر کال بہت کم آ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امن کمیٹی کے ساتھ مل کر امن کی اپیل کی جا رہی ہے۔ہر زاویہ سے تشدد کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔کئی جگہ چھاپے ماری چل رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ تشددکی مکمل تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی سے ہوگی۔ یہ ایس آئی ٹی کرائم برانچ کی ہوگی۔
(وائس چانسلرنلسار یونیورسٹی آف لا،حیدرآباد)
ترجمہ:نایاب حسن
بتیسویں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے ایک بارکہاتھاکہ ”ایسی جمہوریت زیادہ دن باقی نہیں رہ سکتی،جواپنی اقلیتوں کے حقوق کے اعتراف کواپنے وجودکی بنیادنہیں سمجھتی“۔دہلی کے حالیہ فسادات میں تیس سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں،گھروں کونذرِ آتش کیاگیااور ایک پوری مارکیٹ کوجلادیاگیاہے،مگر جو منظرلمبے عرصے تک لوگوں کے ذہن و دماغ کودہشت زدہ رکھے گا،وہ اشوک نگرکی بڑی مسجد کی شہادت کا منظر ہے،اس نے6دسمبر1992میں بابری مسجد کی شہادت کی یادیں تازہ کردی ہیں۔
سپریم کورٹ نے پروفیشنلزم کے فقدان پر دہلی پولیس کوڈانٹ پلائی ہے،دہلی ہائی کورٹ نے بھی کہاہے کہ وہ دہلی میں دوسرا1984نہیں ہونے دے گا۔مسلمانوں نے بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کوتسلیم کیا، حالاں کہ اس فیصلے میں کئی خامیاں تھیں۔اب دیکھیے کہ اس فیصلے پر چار ماہ سے بھی کم کا عرصہ گزراہے کہ دہلی میں ایک اور مسجد شہید کردی گئی۔عہدِ وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں نے مندروں کو منہدم کیاہوگا،مگر اُس وقت اِس ملک میں وہ آئین نہیں تھا،جوکہ اب ہے۔
دستورسازی میں شامل ہمارے ملک کے دوراندیش رہنماؤں کواقلیتوں کے اندیشوں کا ادراک تھا؛اسی وجہ سے انھوں نے ان کواپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے اوراس کی تشہیر وتبلیغ کا حق دیا اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی۔مہاتما گاندھی نے تو اس سے آگے بڑھ کریہ کہاتھاکہ ایک ملک کے مہذب ہونے کے دعوے کی صداقت اس میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسابرتاؤ کرتاہے۔دستور ساز اسمبلی میں بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق پر ایڈوائزری کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں تجویز پیش کرتے ہوئے جی بی پنت نے کہاتھا”اقلیتوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کااطمینان بخش حل ہی آزاد ہندوستان کی صحت،ترقی اور مضبوطی کو یقینی بنائے گا،جب تک کہ ملک کی اقلیتیں پوری طرح مطمئن نہ ہوں،ہم ترقی نہیں کرسکتے؛بلکہ ہمارے لیے اچھی طرح ملک میں امن و امان قائم رکھنا بھی مشکل ہوگا“۔
دستورکے آرٹیکل25سے30تک کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیاجائے۔اس کے باوجود گزشتہ کم ازکم پانچ سالوں کے دوران ایک کے بعد دوسرے الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران ملک کے مسلمانوں کو”اینٹی نیشنل“ اورملک کے لیے خطرہ بناکر پیش کیاگیا۔2014کے جنرل الیکشن میں ”گلابی انقلاب“کا حوالہ دینا،2016میں آسام الیکشن کے دوران تمام بنگلہ دیشی مہاجرین کو ملک سے باہر کرنے کی بات کرنا،انھیں دیمک قراردینااور حالیہ دہلی الیکشن کے دوران”گولی مارو…“جیسے نعرے لگانا سب اسی منظم نفرت انگیز مہم کا حصہ ہیں۔مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر وارث پٹھان بھی اشتعال انگیز بیان دینے کے مجرم ہیں،گرچہ انھوں نے بعد میں اپنے بیان پر معافی مانگی اوراسے واپس لے لیا،جبکہ انوراگ ٹھاکر یا کپل مشرانے ایسانہیں کیا۔
منگل کے دن الہ آباد ہائی کورٹ نے بنارس کی ایک نچلی عدالت کو ایک کیس پرآگےکارروائی سے روکاہے،جس میں یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ گیان واپی مسجد1664میں اورنگ زیب کے ذریعے کاشی وشوناتھ مندر کوتوڑکربنائی گئی تھی۔حتی کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کہاگیاہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ(1993)میں ”عدمِ رجوع کا تحفظ“ملک کے سیکولر اقدار کا ایک لازمی جز ہے۔ کورٹ نے تبصرہ کیاتھاکہ”عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ بنیادی طورپرایک سیکولرسٹیٹ کے فرائض کاحصہ ہے۔یہ تمام مذاہب کی برابری کے تعلق سے ہندوستان کے عہد کی عکاسی کرتاہے۔اس سب سے اوپر عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ اس پختہ ذمے داری کا اعتراف ہے جوکہ ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ وہ لازمی دستوری قدر کے طورپرتمام مذاہب کی برابری کا تحفظ کرے،یہ ہمارے دستورکاایک بنیادی وصف ہے“۔
اس ایکٹ میں تمام عبادت گاہوں کی صورتِ حال کو15اگست1947کی حالت پر برقراررکھنے کی بات کی گئی ہے۔اسی وجہ سے کورٹ نے تبصرہ کیا کہ”قانون تاریخ اور قوم کے مستقبل سے خطاب کرتا ہے، تاریخی غلطیاں ان لوگوں کے ذریعے نہیں ٹھیک کی جاسکتیں،جو قانون کواپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔عوامی عبادت گاہوں کے تحفظ کے سلسلے میں پارلیمنٹ نے واضح طورپر کہاہے کہ تاریخ اور تاریخی غلطیوں کو حال اورمستقبل کوبربادکرنے کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا“۔
سپریم کورٹ نے22-23دسمبر1949کاحوالہ بھی دیاتھا،جب کچھ بیراگی زبردستی بابری مسجد میں جاگھسے اور مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے خفیہ طورپررام کی مورتیاں نصب کردی تھیں۔کہاجاتاہے کہ مورتیوں کی تنصیب ہی”مسجدکے انہدام اور کسی قانونی کارروائی کے بغیر مسلمانوں کو اس سے بے دخل کرنے کاسبب بنی“۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاتھا کہ اس وقت بی جے پی کے ریاستی وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کی مسجد کے تحفظ کے سلسلے میں یقین دہانی کے باوجود اسے منہدم کردیا گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ کورٹ اب تک عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے کلیان سنگھ کو کوئی سزانہیں دے سکاہے۔اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی پانچ رکنی بنچ نے صاف طورپر کہا تھا کہ”مسجد کا انہدام اوراسلامی ڈھانچے کو گراناقانون کی حکمرانی(rule of law)کی شرمناک خلاف ورزی تھی“۔
بابری مسجد شہادت کے دوملزمین اب نئے رام مندر ٹرسٹ کے ممبرہیں،اگریہ مسجد کومنہدم کرنے کاانعام نہیں توکیاہے؟حقیقت یہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے متعلق مجرمانہ کیسز میں عدالتِ عظمیٰ کی ہدایت کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ایک حقیقت جس پر زیادہ بات نہیں ہوتی،وہ یہ ہے کہ خود سپریم کورٹ نے بارہااُس کارسیواسے منع کیاتھا،جوبابری مسجد کے انہدام پر منتج ہوا۔یہ اطلاعات تھیں کہ مسجد کو منہدم کرنے کے آلات بڑی تعداد میں ایودھیا پہنچائے جارہے ہیں،مگرایسالگتاہے کہ فیصلہ سازی میں غلطی ہوئی۔2017میں سپریم کورٹ نے ریاستِ گجرات بنام آئی آرسی جی کیس میں 2002کے گجرات فسادات کے دوران 567 مذہبی مقامات،مساجد،درگاہوں اور خانقاہوں کوہونے والے نقصانات کی بھرپائی کی ذمے داری حکومتِ گجرات پر ڈالنے سے منع کردیا،جبکہ گجرات ہائی کورٹ نے نہ صرف ریاستی حکومت کوان مقامات کی مرمت اور تعمیرِ نوکا حکم دیاتھا؛بلکہ یہ بھی کہاتھاکہ اگر ان جگہوں کے متولی اور دیکھ ریکھ کرنے والوں نے ان کی تعمیر یا مرمت کروالی ہے،تواس پر ہونے والا خرچہ حکومت اٹھائے۔اس کیس میں جسٹس دیپک مشرااورجسٹس پی سی پنت کی دورکنی بنچ نے پرائیویسی فیصلے میں نو ججوں کی بنچ کے اس نظریے کو نظرانداز کردیاکہ بنیادی حقوق کوایک ساتھ پڑھنا چاہیے، گودام میں بند ہوکر نہیں۔دوججوں کی بنچ نے یہ بھی کہاتھاکہ معاوضہ صرف اس صورت میں دیاجائے گا،جب زندگی اور شخصی آزادی کا حق تلف کیاجائے،دیگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر معاوضہ نہیں دیاجاسکتا،حالاں کہ اصل بات یہ تھی کہ معاوضہ اس لیے دیاجاناتھاکہ ریاستی حکومت مذہبی مقامات کے تحفظ میں ناکام رہ گئی تھی۔
کورٹ نے یہ بھی کہاتھاکہ اگرمذہبی مقامات کی مرمت کے لیے سرکار کی طرف سے پیسہ دیاجائے،تواس سے سیکولر سٹیٹ کے دستور کے آرٹیکل27کی خلاف ورزی ہوگی،مگر ایسا لگتاہے کہ یہ موقف تجاہلِ عارفانہ کے ساتھ اختیارکیاگیا گیا؛کیوں کہ کیرالا حکومت آرٹیکل290Aکے تحت تراونکور دیوسوم فنڈ کو سالانہ46.5لاکھ روپے دیتی ہے اور تمل ناڈوحکومت دیوسوم فنڈکومندروں کی دیکھ بھال کے لیے سالانہ13.5لاکھ روپے دیتی ہے،اس کے علاوہ متعدد حکومتیں مندرسمیت مساجد، مدارس اور چرچوں پر بہت ساراپیسہ خرچ کرتی ہیں۔
سی اے اے کی دستوری حیثیت کے سلسلے میں دائر پٹیشن کو نہ سن کراورطلبہ کے ساتھ دہلی پولیس کی زیادتی پر توجہ نہ دے کرعدالتِ عظمیٰ نے صورتِ حال کی حساسیت کے تئیں غفلت کا اظہار کیاہے۔سپریم کورٹ نے اوبی سیز کے ریزرویشن کے تعلق سے منڈل کمیشن کی سفارشات ماننے سے اس لیے انکارکردیاتھاکہ اونچی ذات کے ہندواحتجاج کریں گے،اسی طرح اگرسی اے اے پر روک لگادیاجاتا،توملک بھر میں جاری احتجاجات بھی ختم ہوجاتے۔آج اقلیتیں خوف کے سایے میں ہیں،دستور کے آرٹیکل25سے 30میں ان سے جو وعدے کیے گئے ہیں،ان کی بے رحمی کے ساتھ خلاف ورزی ہورہی ہے۔سینٹ زویرس کالج،احمد آباد فیصلے (1974)میں جسٹس ایچ آرکھنا کے الفاظ میں ”یہ قوانین اقلیتوں کے حق میں ایک پختہ عہد کی طرح ہیں…جب تک دستور اپنی موجودہ حالت میں باقی رہے گا،ان حقوق کونظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔اگر ایسی کوئی بھی کوشش کی جائے،تویہ نہ صرف اس عہد کی خلاف ورزی ہوگی؛بلکہ یہ قانونی طورپر ایک ناقابلِ معافی عمل ہوگا“۔لہذاعدالتِ عظمی اور حکومت کوچاہیے کہ وہ اقلیتوں کا اعتماد بحال کریں؛ تاکہ یہ حقوق محض دستورِ ہند کے صفحات کی زینت بن کرنہ رہ جائیں۔
(بہ شکریہ روزنامہ انڈین ایکسپریس)
ایسے ماحول میں جب مذہبی نفرت کا بول بالا ہو، وہاں لاشوں کا مذہب طے کرکے امن نہیں قائم کیا جا سکتا۔ لیکن افسوس یہی ہو رہا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ اپنی اپنی لاشوں کو گننے اور انھیں دوسرے سے زیادہ مظلوم قرار دینے میں مصروف ہیں۔ ویڈیو اور تصویروں کو شیئر کرتے ہوئے اس بات کو دھیان میں رکھا جارہا ہے کہ کسے مظلوم دکھانا اور کسے ظالم؟ کس کی جارحیت پر پردہ ڈال دینا ہے اور کس کے حملے کو فوٹو شاپ کی مدد سے ایک خاص قوم کے سر پر منڈھنا ہے؟ حملہ آور کا نام شاہ رخ ہے یا انوراگ مشرا؟ سوشل میڈیا ہی نہیں، بیشتر اردو ہندی اخبار بھی یہی کررہے ہیں، ظاہر ہے انھیں اپنے قارئین کے مذہب اور اس مذہبی نفسیات کا خوب اچھی طرح علم ہے، اس لیے وہ بھی نیوز چینلوں کی طرز پر اپنا اپنا خیمہ منتخب کرچکے ہیں۔ نتیجتاً عوام کے درمیان سنسنی، مایوسی، دل گرفتگی، بیچارگی، بے بسی اور ساتھ ساتھ غصہ بڑھ رہا ہے۔ یہ غصہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے، اس سے یہ اخبار خوب اچھی طرح واقف ہیں لیکن انھیں بھی اپنا رزق حلال کرنا ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ خبریں پیش نہ کی جائیں لیکن سنسنی خیز خبریں کیسے پیش کی جائیں، سرخیاں کیسے لگائی جائیں، کالم کیسے طے کیے جائیں، تجزیے کس طرح کے ہوں، اس آرٹ سے بیشتر پروفیشنل اردواور ہندی صحافی بے خبر ہیں۔ معاف کیجیے گا، سوائے ایک خاص قوم یا فرقے کے جذبات سے یہ اخبارات اسی طرح کھیلتے ہیں جس طرح ہمارے قومی لیڈر۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندی اور اردو صحافت میں جری اور انصاف پسند صحافیوں کی کمی ہے، لیکن اس ٹرینڈ کے لوگ اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب وہ اپنے موقف یا تحفظات کے خلاف سننا ہی نہیں چاہتے۔ میں اس سلسلے میں صرف ایک مثال دیتا ہوں۔”ممبئی اردو نیوز” کے ایڈیٹر شکیل رشید کے قلم سے جب جب ایسی تحریریں نکلیں جو ہماری قومی لیڈرشپ کا محاسبہ کرتی نظر آتی ہیں یا مذہبی قیادت کے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کے مداح بھی ان کے خلوص کو طعنہ مارتے نظر آئے، گویا ایک اردو اخبار کو صرف مسلمانوں کا دفاع کرنا چاہیے نہ کہ حقائق کی گرفت کرنی چاہیے، یا ایک اردو اخبار کو مسلمانوں کی کمزوریوں اور غلطیوں کی جواز جوئی کرنی چاہیے نہ کہ ان پر تنقید کرکے ان کی صفوں کو درست کرنا چاہیے۔
کیا وجہ ہے کہ دہلی فسادات میں مرنے والے ہندوؤں کی فہرست اردو اخباروں میں نظر نہیں آتی؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مارنے والوں کی قوم کے نام پر بٹہ لگتا ہے جسے بچانے کا کام اردو اخباروں کا ہے؟ اسی لیے میں نے شروع میں کہا تھا کہ فساد اور بربریت کا مذہب بھی اب طے ہوچکا ہے، جب کہ ابھی کچھ دنوں پہلے تک ہم یہ سنتے آئے تھے کہ دہشت گردی اور فسادی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اس جملے کا استعمال حسب ضرورت اور حسب مصلحت جگہ جگہ بدلا بھی جا سکتا ہے؟ بلاشبہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کا ہی زیادہ نقصان ہوا یا مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن پھر یہاں سوال کرنے کا جی چاہتا ہے کہ کیا ایک جان کی قیمت نہیں ہے؟ کیا اب ترازو کے دونوں پلڑوں پر لاشوں کو رکھ کر تول کر فیصلہ کیا جائے کہ کس قوم کی لاشوں کا پلڑا بھاری ہے؟ کیا اب تعداد کے اعتبار سے مظلوم اور ظالم طے کیے جائیں گے؟ اگر 85 سال کی بوڑھی اکبری کو زندہ جلانے کی خبرسنسنی خیز ہے تو کیا 19 سالہ وویک چودھری جس کے بائیں طرف ڈرلنگ مشین گھسیڑ دی گئی، وہ کم خوفناک ہے؟ اگر 22 سالہ اشفاق کی گردن میں دو بار وار اور اسے پانچ گولیوں کا نشانہ بنایا جانا ہمارے دلوں کو مٹھیوں میں جکڑنے کے لیے کافی ہے تو کیا دوسری طرف 25 سالہ نتن کمار اور اس کے ضعیف والد پر جنونی بھیڑ کا حملہ ہمارے دل و دماغ دونوں کو نہیں جھنجھوڑتا؟ اگر ایک طرف اسحاق خان (24)، محمد مدثر (30)، محمد مبارک حسین (28)، شان محمد (35)، مہتاب (22)، شاہد (25)، محمد فرقان (30)، دلبر محسن علی (24)، اور معروف علی (30) وغیرہ جیسے مرنے والوں کے نام ہیں تو دوسری طرف دیپک کمار (34)، ویر بھان (50)، پرویش (48)، راہل سولنکی (26)، راہل ٹھاکر (23)، رتن لال (42)، انکت شرما (26)، ونود کمار (50) اور امن (17) جیسے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں تو کیا آپ ان لاشوں کو گنیں گے کہ اس میں کتنے مسلم ہیں اور کتنے ہندو؟ اور پھر الیکشن میں جس طرح ووٹنگ کی تعداد پر جیت اور ہار طے کی جاتی ہے، کیا اسی طرح ظالم اور مظلوم طے کیے جائیں گے؟ آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سامنے جو لاشیں پڑی ہیں وہ مذہبی شدت پسندی اور جارح قوم پرستی کا شکار انسانیت کی لاشیں ہیں اور آپ کو باور کرارہی ہیں کہ نہ ہندو خطرے میں ہے اور نہ مسلمان، اگر کچھ خطرے میں ہے تو صرف انسانیت خطرے میں ہے، جسے بچانا ہمارا کام ہے۔ سرکار، پولیس، سیاسی پارٹی اور نیتا جب بے کار ہوجائیں تو انسانیت حرکت میں آتی ہے اور وہ اپنا کام اپنی صفوں اور اپنے گھر سے شروع کرتی ہے۔ اس کی آنکھوں پر تعصب کا اور قوم پرستی کا چشمہ نہیں ہوتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کو صرف کپل مشرا نظر آتا ہے لیکن وہ ہندو افسر نظر نہیں آتا جس نے اس کے خلاف رپورٹ کی تھی جس کے پاداش میں اسے سسپنڈ کردیا گیا؟ آپ کو گوتم گمبھیر بھی نظر نہیں آتا جسے اب ٹوئٹر میں غدار کہا جارہا ہے؟ آپ کو وہ ہندو بھی نظر نہیں آتا جو 9 مسلم خاندانوں کو بچاتے ہوئے خود فسادیوں کی نذر ہوگیا۔ آپ دہلی بھر کے گردواروں پر نظر کیوں نہیں ڈالتے جن کے دروازے مسلمانوں اور دیگر فسادزدگان کے لیے کھول دیے گئے۔ آپ کو وہ دلت بھی نہیں دکھتے جو حملہ آوروں کو روکنے کے لیے مسلم محلوں کے سامنے بیری کیڈ لگا کر سینہ سپر ہوگئے۔یہ کہانی یک طرفہ نہیں ہے، ہمیں دوسری طرف ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جو مظلوموں کی شناخت ان کے مذہب سے نہیں کرتے۔ کئی مسلمانوں نے ہندو خاندانوں کی جان بچائی، انھیں اپنے گھروں میں پناہ دی اور بعد میں انھیں ان کے لوگوں کے پاس بحفاظت پہنچا دیا۔ ایک ویڈیو تو ایسا بھی میری نظروں سے گزرا جس میں مسلمانوں نے ایک فسادی کی بھی حفاظت کی، اس سے کوئی بدلہ نہیں لیا بلکہ اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ ذرا سوچیے یہ کیسے ہندو اور مسلمان تھے جنھوں نے نفرتوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے بیچوں بیچ محبت کا جزیرہ بنایا تھا۔یہ لوگ لاشوں کو گننے والوں میں سے نہیں تھے، یہ انسانیت کی تسبیح پڑھتے تھے اور انھی کے دم سے یہ ملک قائم ہے اور قائم رہے گا۔ لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب سماج کی ہم آہنگی اور اس کے اعتبار پر چوٹ لگائی جارہی ہو اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس کے تانے بانے کو بکھیرا جا رہا ہو تو ہمارا کیا فرض بنتا ہے؟ کیا ہم بھی اس جلتی ہوئی آگ میں گھی ڈال کر اس کی تپش بڑھاتے رہیں گے یا ہم ٹوٹے بکھرے اور خوفزدہ سماج میں حوصلے اور خود اعتمادی کی شمع روشن کریں گے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نایاب حسن
دہلی میں گزشتہ دوتین دنوں کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا،جو2002میں گجرات میں ہوا تھا،تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور امیت شاہ وہاں کے وزیر داخلہ تھے،اب مودی پورے ملک کےوزیر اعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات،دکانوں اور املاک کو جلایاگیا،لوٹاگیااور محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں،جن میں سے دوتہائی سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔مودی ٹرمپ کے استقبال واعزاز میں مصروف تھے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیند منگل کے دن ٹوٹی جب سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا، میڈیارپورٹس ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں انھوں نے دہلی کے حالات کو قابو کرنے کے لیے تین بار ہائی لیول میٹنگیں کی ہیں،اپنا کیرالہ دورہ منسوخ کردیاہے اور دہلی میں امن وامان کی بحالی کا ذمہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کے حوالے کردیاگیاہے،وہ ڈائریکٹ مودی اور کیبینیٹ کو رپورٹ کریں گے،خبر ہے کہ انھوں نے کل رات اورآج بھی فسادمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لیااور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔یہ سب ہورہاہے مگر حالات اب بھی تقریباًجوں کے توں ہیں،سیلم پور،جعفرآباد،شاہدرہ،کردم پوری،موج پور،کھجوری خاص،گوکل پوری وغیرہ میں تاحال وقفے وقفے سے سنگ باری اور شورش کی خبریں آرہی ہیں۔مودی نے ٹرمپ سے فارغ ہونے کے بعد آج ٹوئٹ کرکے دہلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرکے بڑی مہربانی کی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے وزیر داخلہ سےدہلی میں فوج اتارنے کی اپیل کی تھی،مگر وزارت نے اسے مسترد کردیاہے،البتہ فساد زدہ علاقوں میں مزیدریزروپولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
مختلف میڈیاویب سائٹس اورنیوزچینلوں کے رپورٹرز کے ذریعے فساد متاثرین کی جوروداد سامنے آرہی ہے اور سوشل میڈیاپر جو ویڈیوز،تصاویر اور آڈیوزسامنے آئے ہیں،وہ لرزہ خیز اوردل دہلانے والے ہیں۔باقاعدہ نشان زدکرکے مسلم گھروں اور دکانوں کو نذرِآتش کیاگیا اور بوڑھوں، بچوں، عورتوں سب کو زدوکوب کیاگیاہے۔ابھی خبر بیس لوگوں کے مرنے کی آرہی ہے،مگر فی الحقیقت کتنے لوگ اس قتل و غارت گری کے شکارہوئے اور ہورہے ہیں،اس کاپتانہیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دوماہ سے سی اے اے،این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے تھے اور یہ سارے احتجاجات پرامن تھے،شروع میں سیلم پور کے علاقے میں شورش ہوئی تھی اور جامعہ و شاہین باغ کے مظاہرین پر ہندوشدت پسندتنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی،مگر خود مظاہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا،جس سے ملک کے امن وامان یا قانون و آئین کو ٹھیس پہنچے اورقومی سالمیت کو نقصان ہو،مگر22فروری کی رات کوخبر آئی کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین نے جعفرآباد میٹرواسٹیشن کو گھیرلیاہے،اگلے ہی دن بی جے پی کے شکست خوردہ لیڈرکپل مشرانے پولیس کی پشتیبانی میں دھمکی آمیز انداز میں یہ بیان دیاکہ پولیس جعفرآبادسے مظاہرین کو ہٹائے،ورنہ ٹرمپ کے آنے تک توہم خاموش رہیں گے،مگراس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔اس کے بعد اسی رات(پیر کی رات) شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے،یہ سلسلہ پیر کے دن اور اس کے بعد بھی جاری رہا،شروع میں سی اے اے مخالف و حامی گروپ آمنے سامنے آئے اور ان کے درمیان پتھربازی ہوئی،مگر اس کے بعد یہ ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حملے کی شکل اختیارکرگیا،بعض مخلوط آبادی والے محلوں میں ہندوشدت پسندوں نے مسلمانوں کے مکانات کوباقاعدہ نشان زد کیااور بعد میں انھیں لوٹااور آگ کے حوالے کردیا۔ اشوک نگر کی ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے،جس میں پندرہ بیس سال کے لڑکے ایک مسجدکے مینارپر چڑھ کر بھگواجھنڈالہرارہے ہیں اورنیچے مسجد کے مختلف حصوں کو تہس نہس کردیاگیاہے،ایک مدرسے کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ اسے جلادیاگیا؛بلکہ اس کے کئی طلبہ کوبھی شہید کردیاگیاہے۔ایک ویڈیومیں ایک دس بارہ سال کا لڑکابھجن پورہ کے ایک مزارکوآگ لگاتانظر آرہاہے۔الغرض ایسے دسیوں انسانیت سوز و شرمناک مناظر سامنے آچکے ہیں،مگر کتنے ہی ان سے زیادہ خوفناک مناظر ہیں،جوسامنے نہیں آسکے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مودی حکومت کا رویہ نہایت ہی سردمہری والارہا،مودی کی ناک کے نیچے ملک کی راجدھانی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،مگر وہ پوری بے حسی کے ساتھ سرکاری پیسے بہاکر امریکی صدرسے اپنی دوستی نبھاتے رہے،وزیر داخلہ نہ معلوم کس گپھامیں گم تھے کہ پورے دودن بعد ان کا ری ایکشن آیااور اگر بات کریں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی،توانھوں نے بھی نہایت شرمناک ردعمل کا اظہار کیا۔پہلے تو اس پورے معاملے سے پہلو تہی کرتے رہے کہ لااینڈآرڈرہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،پھر ہلکا پھلاٹوئٹ کرکے کام چلایا،اس کے بعد ڈراماکرنے کے لیے راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور دہلی جلتی رہی،منگل کو وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،اس کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں فوج اتاری جائے،جاننے والے جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کیجریوال ہیں جواپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے گھر کے باہر دھرنابھی دے چکے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں توکیجریوال نے خالص منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیاہواہے۔الیکشن سے پہلے جامعہ و شاہین باغ میں ہونے والی فائرنگ یا سی اے اے واین آرسی کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں؛بلکہ اس پورے معاملے پر ہی گول مول موقف اختیار کیے رکھا،شروع میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے این آرسی پر ایسی باتیں کیں،جن سے مسلمان خوش ہوئے اور بعد میں عام آدمی پارٹی کے لوگ ان کادفاع کرتے رہے کہ اگر وہ شاہین باغ یا سی اے اے پر کھل کر بولیں گے،توانتخابی خسارہ ہوجائے گا،مگر اب جبکہ دوبارہ زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی حکومت آچکی ہے،پھر بھی ان کی زبان میں آبلہ پڑاہواہے،اب تک ایک لفظ ایسا ان کے منھ سے نہیں نکلا،جس سے اقلیتی طبقے کو دلاسہ و تسلی حاصل ہو،امیت شاہ اور مودی سے تو خیر کوئی توقع بھی نہیں کہ یہ دونوں اسی پروفیشن کے لوگ ہیں،مگر کیجریوال کو توایک امید کے ساتھ مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیاہے،پچھلی بار بھی دیاتھا اوراس بار بھی دیاہے،عملاً نہ سہی،زبانی تو اظہارِ ہمدردی کرتے۔فسادمتاثرین سے ملنے کے لیے جی ٹی بی ہسپتال گئے،مگر بیان ایسا دیا، جس کی ایک وزیر اعلیٰ سے ہرگزتوقع نہیں کی جاسکتی، بالکل ڈھیلاڈھالا اور لچر،بزدلانہ،حالاں کہ خودکبھی شیلا دکشت کو بزدلی کے طعنے دیاکرتے تھے۔کیجریوال کی جیت بلکہ اس سے پہلے دہلی الیکشن کے دوران ہی متعدد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھاکہ کیجریوال بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اسی جیسا طرزِ عمل اختیار کررہے ہیں،اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ہوتا،تب تو ٹھیک تھا،مگر ان کے چال چلن سے ایسا لگتاہے کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوتواکااپنا ایک نیا ایڈیشن لانچ کررہے ہیں،رام کے مقابلے میں ہنومان اور بجرنگ بلی کی باقاعدہ سیاست میں انٹری کرواچکے ہیں،دہلی اسمبلی میں ان کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے آئین و دستور کی بجاے بجرنگ بلی کے نام پرحلف اٹھائی،اس کے علاوہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں ہرماہ کے پہلے منگل کو”سندرکنڈ“کے پاٹھ کا پروگرام شروع کرچکے ہیں۔گرچہ ہر شخص کواپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے،مگر ایک سیاسی نمایندہ جب باقاعدہ اس کوایک شوکی شکل دیتاہے،تواس عمل کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔کیجریوال یاان کی پارٹی کے لیڈران اس طرح کی حرکت بس اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بی جے پی کے مذہبی چیلنج کااپنے مذہبی اپروچ سے مقابلہ کیا جائے۔ممکن ہے ان کی یہ حکمت عملی درست ہو،مگرانھیں یہ تو پتاہونا چاہیے کہ ان کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور انھوں نے انھیں ووٹ اس لیے دیاہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کوبھی ایڈریس کیاجائے،کیجریوال عملاً پوری طرح طوطاچشم ثابت ہورہے ہیں۔
حالیہ فسادکاسرامختلف راہوں سے گزرکربھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد تک بھی پہنچتاہے۔اسے سمجھنے سے پہلے 15دسمبر سے لے کر اب تک کے احوال اوران میں اس بندے کی موجودگی کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔15دسمبر کوجامعہ سانحے کے بعد یہ شخص اچانک آئی ٹی اوپر احتجاج کررہے طلبہ و طالبات کے بیچ جاپہنچااور دوچار بھڑک دار جملے بولے کہ جہاں کسی مسلم بھائی کا پسینہ بہے گا،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے اور سب سے پہلے ہم گولی کھائیں گے۔اس بیان کے بعد مسلمانوں نے اسے سرآنکھوں پر بٹھایا،محمودپراچہ جیسے لوگوں نے اسے مسلمانوں کی مسیحائی سونپ دی،19دسمبر کووہ جامع مسجد دہلی پہنچا اور مسجد کی سیڑھیوں سے ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کیا، تب بہت سے جذباتی مسلمانوں نے اندوہناک ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے چندر شیکھر آزاد اور ابوالکلام آزاد کوہم پلہ قراردینے کی کوششیں کیں۔جب دہلی پولیس نے اسے گرفتارکیااور کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوئی،توبعض ضرورت سے زیادہ قابل مسلمانوں نے ٹوئٹرپر ”امام اِزبیک“کے عنوان سے ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی۔اب حالیہ حادثے میں ان کے رول کی طرف آتے ہیں،23فروری کوبھیم آرمی نے بھارت بند بلارکھاتھا اوراس کی شروعات اسی رات سے تب ہوتی ہے،جب سی اے اے مخالف عورتیں (جن میں تقریباً سبھی مسلمان تھیں)جعفرآباد میٹرواسٹیشن پر جمع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیاپر خبریں آنے لگتی ہیں کہ جعفر آباد سے بھارت بند کی شروعات ہوچکی ہے،یعنی خواتین نے جوکچھ کیا،اس میں بھیم آرمی کی کال کا راست دخل تھا،اگلے دن کپل مشراکی زہریلی تقریر ہوئی اور پھر اس کے بعدکی وارداتِ کشت وخون سب کے سامنے ہے۔اس پورے عرصے میں چندرشیکھرآزاد منظرنامے سے غائب رہے،بس ٹوئٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کو ہدایت دیتے اور حکومت پر تنقید کرتے رہے۔حالاں کہ جو لڑکے مزارکو آگ لگاتے،مسجدکومسمار کرتے اور نہتے لوگوں پر لاٹھیاں برساتے نظرآرہے ہیں،یہ یقینی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دلت ہی ہوں گے۔
مسلمانوں کو اپنی خود سپردگی والی ذہنیت پر غوروفکر کرنی چاہیے۔ہمارے حق میں ہمارے ہی بیچ آکرہمدردی و تسلی کے دولفظ بولنے والے لوگ ہمارے ہیروبن جاتے ہیں اور ہم گویاان کے بے دام غلام بن جاتے ہیں،ہمیں ہوش تب آتاہے جب سب کچھ لٹ چکاہوتاہے۔آزادی کو اتنا لمبا عرصہ گزرگیا،مگر ہم تاحال اپنی کوئی سیاسی اسٹریٹیجی نہیں بناسکے،نہ ہم نے اپنی کوئی سیاسی قوت کھڑی کی اور نہ پریشر گروپ کی شکل میں ہندوستانی سیاست میں خود کو سٹیبلش کرسکے،ہمارے افتراق و انتشار نے قومی و ریاستی سطح پر کتنے ہی افراد اورجماعتوں کوآفتاب وماہتاب بنادیا،مگر ہم خود تاحال تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔ہر پانچ دس سال بعد ہماراسیاسی قبلہ بدلتاہے،امیدوں کا مرکز تبدیل ہوتاہے اورناکام ہوکر ہم پھرکسی نئے قبلۂ امید کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔چندرشیکھر آزادمایاوتی کا متبادل بنناچاہتے ہیں اوراس کے لیے انھیں اسٹیج ہم فراہم کررہے ہیں، کنہیا کمارسیاسی کریئر بنانے کے لیے ہمارے بیچ آکر آزادی کے نعرے لگارہاہے اور خود اس کی برادری کے لوگ اسے نجسِ عین سمجھتے اورجہاں کھڑا ہوکروہ تقریرکرتاہے،اس جگہ کی دھلائی،صفائی کرتے ہیں،بائیں بازوکے سیاست دان اور لبرل دانش وران اوردیگر مبینہ سیکولرسیاسی طالع آزما ہماری تحریک کے سہارے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اپنی جان بچانے کی فکرمیں ہیں…تعلیم،ترقی و خوشحالی کی طرف ہمیں دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملایاہم نے خود ایسا موقع پیداکرنے کی فکرنہیں کی!
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عورت کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، عورت کے اندر طاقت نہیں ہے، عورت کے اندر کار آمد صلاحیت نہیں ہے اس لیے کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے تب سے بیشمار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ اس میں عورت کا کردار انتہائی اہم رہا ہے. کیونکہ ایک عورت کے اندر بہت کچھ کر گزرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اگر صبر کے میدان میں دیکھا جائے تو اس میں بھی عورت یعنی حوا کی بیٹیاں کامیاب نظر آتی ہیں صرف کمانے والی عورت کامیاب نہیں ہوتی بلکہ گھر بسانے والی عورت کامیاب ہوتی ہے، ماں باپ کی خدمت کرنے والی اور شوہر کی فرمانبرداری کرنے والی عورت کامیاب ہوتی ہے بچوں کی پرورش کرنے والی عورت کامیاب ہوتی ہے اور جہاں مرد کی آواز کو دبانے اور طاقت کے بل پر کچلنے کا ماحول پیدا ہوجائے تو وہاں ڈھال بن کر کھڑی ہوجانے والی عورت کامیاب ہوتی ہے. فرعون ایک ظالم تھا لیکن اس کی بیوی آسیہ کا مقام بہت بلند ہے، حضرت ہاجرہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپکی اداؤں کو حج کے ارکان میں شامل کر دیا، حضرت خدیجہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ بیوہ ہوتے ہوئے چالیس سال کی عمر میں رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں، حضرت فاطمہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ جنتی خاتون کی سردار ہوں گی جب انکی سواری پل صراط سے گذرنے والی ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ سارے کے سارے لوگ اپنی نگاہیں نیچی کرلو فاطمہ کی سواری گذرنے والی ہے حضرت بی بی رحمت ایک کامیاب عورت ہیں جب حضرت ایوب علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہونے لگی یعنی امتحان ہونے لگا تو سخت مصیبت کے عالم میں جب سبھی لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور بستی سے بھی نکال دیا تب بھی بی بی رحمت نے ساتھ نہیں چھوڑا.
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زندگی کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ سید الکونین کی بیٹی ہو کر چکیاں چلاتے چلات ہاتھوں میں چھالے پڑجایا کرتے تھے پھر بھی دن رات اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں.
حضرت حنظلہ کی شادی ہوئی ہے ابھی پہلی رات ہے بیوی کے ساتھ شب زفاف منارہے ہیں کہ جہاد کا اعلان ہوتا ہے حنظلہ اٹھتے اور جہاد میں شریک ہونے کیلئے نکلنے لگتے ہیں بیوی غسل کرنے کے لئے روکنے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ نہیں رکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنے میں بہت دیر ہو جائے گی اور پھر بیوی سے کہتے ہیں کہ اگر جنگ میں میں شہید ہوجا ؤں تو تمہیں دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے تم دوسری شادی کرلینا بیوی بھی بول تی ہے کہ ائے میرے سرتاج جاؤ رسول اللہ کی جانب سے جہاد کا اعلان ہوگیا ہے تو ضرور جاؤ مگر ایک وعدہ کرو کہ جنگ میں شہید ہوگئے تو کل میدان محشر میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل کریگا تو مجھے بھول نہ جانا بلکہ مجھے بھی ساتھ جنت میں لیجانے کے لیے اللہ رب العالمین سے سفارش ضرور کرنا جنگ میں حضرت حنظلہ کی شہادت ہوئی روایات میں یہی ملتا ہے کہ بیوی نے دوسری شادی نہیں کی.
تعلیم و تربیت کے میدان میں دیکھا جائے تو صحابی ربیع الفروخ کی بیوی حاملہ ہیں اور ربیع الفروخ جہاد کے لیے جارہے ہیں اور چالیس ہزار اشرفیاں بیوی کو دیکر میدان جنگ کیلئے روانہ ہوجاتے ہیں اور واپس آنے میں ستائیس سال لگ جاتے ہیں یعنی ستائیس سال کے بعد جب واپس آتے ہیں تو ڈائریکٹ گھر نہیں آتے بلکہ شریعت پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیوی کو پیغام بھیجتے ہیں کہ میں گھر آرپار ہوں شریعت کا یہی اصول بھی ہے کہ جب تم زیادہ دنوں کے بعد گھر واپس آؤ تو پہلے گھر خبر کردو، بیوی ہو تو اس تک پیغام پہنچا دو تاکہ وہ تمہارے استقبال کی تیاری کرلے چنانچہ جب ربیع الفروخ نے گھر آنے کا پیغام بھیجا تو بیوی نے کہا کہ آپ مسجد میں ٹھہریں عشا کے بعد گھر آنے کی اجازت ہے ربیع الفروخ مسجد میں ٹھہرتے ہیں ظہر، عصر، مغرب، عشا کی نماز ادا کرتے ہیں ایک نوجوان امامت کرتا ہے شاندار قرأت سن کر اور بعد نماز خطاب سن کر ربیع الفروخ نے نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں اور ہاتھ پھیلا کر دعائیں کرتے ہوئے زبان سے یہ کلمات ادا کیا اے اللہ کاش میرے پاس بھی کوئی بیٹا ہوتا تو میں بھی اسے ایسا ہی عالم دین بناتا بعد نماز عشاء بیوی نے پیغام بھیجا اے ربیع الفروخ اب آپ گھر تشریف لاسکتے ہیں پیغام ملنے کے بعد وہ اپنے گھر کیلئے روانہ ہوگئے دروازے پر پہنچ کر دستک دیتے ہیں تو وہی امامت کرنے والا نوجوان آکر دروازہ کھول تا ہے ربیع الفروخ سوچتے ہیں کہ میں کہیں کسی اور کے دروازے پر تو نہیں پہنچ گیا لیکن پھر دل میں یہ خیال آیا کہ یہ گھر تو میرا ہی ہے نوجوان سے بھی کہتے ہیں کہ یہ گھر میرا ہے ان کی بات سن کر نوجوان کہتا ہے کہ یہ گھر آپ کا نہیں ہے بلکہ یہ گھر میرا ہے میں نے آج تک آپ کو اس گھر میں کبھی دیکھا ہی نہیں ہے ساری باتیں سن کر بیوی دروازے پر آتی ہے سلام کرتی ہے استقبال کرتی ہے اور گھر میں داخل ہونے کی دعوت دیتی ہے نوجوان سے کہتی ہے کہ بیٹے یہ تمہارے باپ ہیں جب تم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے میرے پیٹ میں تھے تبھی تمہارے والد جہاد کے لیے چلے گئے تھے اور آج ستائیس سال بعد واپس آئے ہیں اس کے بعد ربیع الفروخ سے بیوی بولتی ہے کہ آپ نے جاتے وقت چالیس ہزار اشرفیاں جو دی تھیں میں نے اس سے تمہارے اس بیٹے کی پرورش کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا بتائیے کیا آپ مجھ سے خوش ہیں تو انہوں نے جواب دیا ائے میری بیوی تم ایک کامیاب عورت ہو حوصلہ مند عورت ہو تم نے میری شریک حیات ہونے کا حق ادا کردیا تم نے امانت میں کوئی خیانت نہیں کی میں تم سے بیحد خوش ہوں.
ایک اور عورت جن کا نام اسما ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہیں اور جب حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کو قتل کر دیا تو اسما بنت ابوبکر کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ میرے پاس آئیں تو حضرت اسما نے حجاج کے دربار میں حاضر ہونے سے انکار کر دیا حجاج بن یوسف نے قتل کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر کا سر لٹکا دیا تو حضرت اسما وہاں پہنچ کر مسکراتی بھی ہیں اور روتی بھی ہیں حجاج بن یوسف یہ ماجرا دیکھ کر ہنسنے اور رونے کی وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ ماں ہونے کی بنیاد پر بیٹے کے قتل پر غم ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ قتل ہونے کے بعد بھی میرے بیٹے کا سر اونچائی پر ہے اور قاتل زمین پر میرے بیٹے کے پیروں کے برابر کھڑا ہے یہ سن کر حجاج بن یوسف غصے میں آگ بگولہ ہوکر بولتا ہے اے عورت اپنے بیٹے کا انجام دیکھ تو حضرت اسما نے جواب دیا کہ دیکھ رہی ہوں تونے میرے بیٹے کی زندگی تباہ کردی لیکن میرے بیٹے نے راہ حق میں شہادت پاکر تیری آخرت تباہ کردی یہ تھا حضرت اسما کا دو ٹوک جواب کہ ظالم کے سامنے بھی حق گوئی و بیباکی کا مظاہرہ کیا.
بلند ترین مقام رکھنے والی عورتوں میں ایک نام حضرت مریم کا بھی ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں وہ حضرت مریم جنہوں نے ملک الموت سے بھی گفتگو کی ہے جب انکی روح قبض کرنے کی غرض سے عزرائیل آئے تو حضرت مریم نے کہا کہ کس لئے آئے ہو انہوں نے جواب دیا کہ روح قبض کرنے کے لئے تو مریم نے کہا کہ میں روزے سے ہوں اور میرا بیٹا جنگل میں پھل لینے کے لیے گیا ہے اسے واپس آلینے دو تو عزرائیل نے کہا کہ تمہارا بیٹا جنگل سے آئے یا نہیں آئے مجھے اس سے مطلب نہیں ہے وقت مقررہ سے ایک لمحہ ادھر اُدھر نہیں ہوسکتا اور ایسا ہی ہوا کہ جب وقت پورا ہوا تو عزرائیل نے روح قبض کرلی حضرت عیسٰی علیہ السلام جنگل سے پھل لیکر واپس آئے تو دیکھتے ہیں کہ والدہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ہے.
عورت یقیناً گھروں کی زینت ہے عورت بذات خود ایک زیور ہے اس لیے ضروری ہے کہ عورت کی خوبیوں پر نگاہ ڈالا جائے خوبصورتی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے بلکہ نیک سیرت ہونا کامیابی کی ضمانت ہے عورت کے اندر صبر کا مادہ بھی زیادہ ہوتا ہے جب اس کا چھوٹا بچہ سخت سردی کے موسم میں بھی بستر پر پیشاب کردیتا ہے تو اس وقت وہ عورت اتنا حصہ لپیٹ کر بچے کو اس پر سلاتی ہے اور خود بغیر بستر کے سوجاتی ہے یہ صبر نہیں تو اور کیا ہے، یہ مضبوط حوصلہ نہیں تو اور کیا ہے آج کے ماحول میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ مرد کو رمضان المبارک کا فرض روزہ گراں گذر تاہے لیکن عورت ہے جو رمضان کے روزے بحسن خوبی رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر ایام میں نفلی روزے کا بھی اہتمام کرتی ہے.
ایک عورت کا حوصلہ اور صبر دیکھنا ہو تو کربلا کی تاریخ کا مطالعہ کرلیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یکے بعد دیگرے لوگ شہادت کا جام پیتے جارہے ہیں اور حضرت زینب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتی جارہی ہیں بلکہ لاشوں کو ترتیب سے خیمے کے اندر رکھتی جارہی ہیں اور وہ وقت بھی آیا کہ اب بھائی کا نمبر آگیا یعنی حضرت زین العابدین بیمار ہیں بستر سے اٹھنے کی طاقت نہیں ہے اب سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ خود میدان کارزار میں جارہے ہیں اور حضرت زینب نے میدان جنگ میں اپنے بھائی حسین کو روانہ کرکے صبح قیامت تک کے لئے پیغام دیدیا کہ ائے حوا کی بیٹیوں جب اسلام پر آنچ آئے تو اپنے بھائیوں کو شہادت کی راہ میں دولہا بنا کر روانہ کر دینا اسی سرزمین کربلا سے حضرت شہربانو نے یہ پیغام دیا ہے کہ اے حوا کی بیٹیوں جب کوئی اسلام کا سہاگ اجاڑنا چاہے تو تم اپنا سہاگ اجاڑ کر مذہب اسلام کا سہاگ اجڑنے سے بچالینا.
اور آج ہندوستان میں بھی عورتوں کا حوصلہ دیکھا جاسکتا ہے جمہوریت ھندوستان کی آن، بان اور شان ہے، دستور ہند ملک کا زیور ہے، امن و رواداری ہندوستان کا سرمایہ ہے اور اس سرمائے کو لوٹنے کی کوشش کی جانے لگی، آئین تحت آئینی منصب پر فائز ہونے کے بعد غیر آئینی قدم اٹھایا جانے لگا، این آر سی، سی اے اے جیسا قانون بنایا گیا تو شاہین باغ، گھنٹہ گھر سمیت بیشمار مقامات پر عورتوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا اور آج دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی شاہین باغ میں خواتین جمہوریت بچانے کی آواز بلند کر رہی ہیں اور متنازعہ شہریت قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں اس دوران انکے اوپر الزامات بھی لگائے گئے، سردی کے موسم میں بچوں کی موتیں بھی ہوئیں، انہیں توڑنے کی اور منتشر کرنے کی بار بار کوشش کی گئی لیکن وہ ملک اور ملک کے آئین کو اصلی حالت میں برقرار رکھنے کے لئے شیشہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہیں اور آج ملک کے کسی بھی حصے میں شہریت قانون سے متعلق احتجاج ہوتا ہے تو اس میں شاہین باغ کا ذکر ضرور ہوتا ہے آئے حوا کی بیٹیاں تمہارے حوصلوں کو سلام !
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
احمد علی برقی اعظمی
ہے سبھی کے ان دنوں ورد زباں شاہین باغ
ہے جہاں میں مظہر عزم جواں شاہین باغ
جامعہ نے ملک وملت کو دکھائی جس کی راہ
بن گیا ہے اس کا میر کارواں شاہین باغ
ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، نے آج کی ہے جو رقم
ولولہ انگیز ہے اک داستاں شاہین باغ
محو ہو سکتا نہیں جو صفحہ تاریخ سے
حریت کا ہے وہ نقش جاوداں شاہین باغ
گونجتی ہے ہر طرف جس کی صدائے احتجاج
پوچھتے ہیں لوگ ہے آخر کہاں شاہین باغ
آج تک جن کا نہ تھا کوئی کہیں پرسان حال
ایسے مظلوموں کی ہے تاب و تواں شاہین باغ
اپنے حق کی بازیابی کی بصد جوش و خروش
لڑ رہا ہے جنگ بے تیر وکماں شاہین باغ
ہندو مسلم سکھ عیسائی ہیں سبھی اس میں شریک
آج جس تحریک کا ہے ترجماں شاہین باغ
دیکھ کر سب کچھ جو برقی اعظمی خاموش تھے
آج ہے ان بے زبانوں کی زباں شاہین باغ
جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگاہم خاموش بیٹھنے والے نہیں، ممبئی میں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں مولانا سید ارشدمدنی کا اعلان
نئی دہلی:مذہب کی بنیادپر تفریق کرنے والے قانون سی اے اے، این آرسی اور این پی آرکی موجودہ شکل کو ہم مستردکرتے ہیں، ہمیں ایسا کوئی قانو ن منظور نہیں جو آئین کی بنیادکو زدپہنچاتا اورشہریوں کے حقوق کو صلب کرتاہو، ہندومسلم اتحاد جمعیۃعلماء ہند کی بنیاد ہے اور آج انسانوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمند رمیں بھی ہندومسلم اتحاد کا عملی مظاہرہ ہورہا ہے، جمعیۃعلماء ہند اسی اتحادکے سہارے ان قوانین کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلائے گی ہم اب رکنے والے نہیں جب تک حکومت ان تینوں کو واپس نہیں لیتی ہماری تحریک جاری رہے گی ہم جھکنے والے نہیں، جس طرح ملک کے ہندواور مسلمانوں نے متحدہوکر انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا تھا ہم اس حکومت کو بھی جھکنے پر مجبورکردیں گے یہ الفاظ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی اس تقریر کا ابتدائیہ ہیں جو انہوں نے مجلس منتظمہ کے اجلاس کے اختتام پر ممبئی کے تاریخی آزادمیدان میں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہی، تقریر کیاتھی ایسامحسوس ہورہا تھا کہ سامعین کے دلوں کی آواز تھی اورلوگ ہمہ تن گوش تھے، انہوں نے اس پس منظرمیں آسام کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں کے ہندواور مسلمان اس امتحان سے گزرچکے ہیں جمعیۃعلماء ہند پچھلے پچاس برس سے اس مسئلہ میں ان لوگوں کے ساتھ عملی طورپر شریک رہی ہے،نشانہ وہاں کے 70۔80لاکھ مسلمانوں کو ریاست سے دربدرکردینے کا تھا چنانچہ شہریت کے حصول کے عمل میں ان کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکائے گئے، جمعیۃعلماء ہند نے اس کو لیکر مسلسل قانونی جدوجہد کی یہاں تک کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جب 48لاکھ خواتین کے سروں پر شہریت کھونے کی تلوار لٹکی تویہ جمعیۃعلماء ہندہی تھی جو سپریم کورٹ گئی اور اس فیصلہ کے خلاف کامیابی حاصل کی، پنچایت سرٹیفیکٹ کو قانونی دستاویز تسلیم کرلیا گیا ان 48لاکھ میں تقریبا 20لاکھ ہندوخواتین تھیں، جمعیۃعلماء ہند نے یہ کام اس لئے کیا کیونکہ وہ ہندواور مسلمان میں کوئی تفریق نہیں کرتی اپنے قیام سے لیکر اب تک وہ ہندومسلم اتحادکے راستہ پر چل رہی ہے، مولانامدنی نے آگے کہا کہ اس جماعت کو قائم کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے اس کے منشورمیں ہندومسلم اتحادکو ہی اولیت دی تھی تب سے یہ جماعت ہندومسلم اتحاد کی راہ پر گامزن ہے اور آئندہ بھی وہ اسی راہ پر چلتی رہے گی انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سی اے اے کے ذریعہ کسی کو شہریت دیتی ہے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں لیکن مذہب کی بنیادپر آپ اس ملک میں صدیو ں سے آبادلوگوں کی شہریت چھین لیں یہ ہمیں منظورنہیں، جمعیۃعلماء ہند ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض صوبائی حکومتوں نے اسمبلی میں تجویز پاس کرکے کہا ہے کہ وہ این پی آرکولاگونہیں کریں گی اس میں وہ کامیاب ہوں گی یانہیں یہ سوال بعد کاہے، اہم بات یہ ہے کہ عوام نے بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو مستردکردیا ہے، پہلے جھارکھنڈاوراب دہلی میں اسے دھول چاٹنی پڑی ہے، یہ تنہامسلمانوں کا کارنامہ نہیں ہے اگر ہندومسلم اتحادنہ ہوتاتو اس طرح کا نتیجہ کبھی نہیں آسکتاتھا ہم اسے اس لئے خوش آئند سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، بی جے پی نے ان دونوں ریاستوں میں جیتنے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی انہوں نے جو کچھ مسلم مخالف فیصلے کئے تھے اسے الیکشن میں ہر طرح سے کیش کرنے کی کوشش بھی کی دہلی میں تو ملک کے وزیر داخلہ نے سڑکوں سڑکوں گلیوں گلیوں گھوم کر ووٹ کی بھیک بھی مانگی، لیکن انہیں نہ تو ہندووں نے ووٹ کی بھیک دی اور نہ مسلمانوں نے، مولانا مدنی نے کہا کہ اسی لئے میں کہا کرتاہوں کہ ہندومسلم اتحاد ہی ہندوستان کی اصل طاقت ہے، اللہ نے چاہاتو بہار اور بنگال میں بھی ان کا یہی حشرہونے والا ہے اس کے لئے ہندومسلم اتحاد بہت ضروری ہے آپ تنہااس لڑائی کو جیت نہیں سکتے اس اتحادکو مضبوط کرنے کے لئے ہم پورے ملک میں کام کریں گے کیونکہ ہمارایہ یقین ہے کہ اگر ہندومسلم اتحادرہے گا تو یہ ملک چلے گا اور اگر یہ ٹوٹا تو ملک ٹوٹ جائے گا، انہوں نے حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جس طرح 1951 سے 2010 تک مردم شماری ہوتی رہی ہے اگر اسی طرز پر مردم شماری کراؤ گے توہم تمہارے ساتھ ہیں مگر موجودہ شکل میں این پی آرکو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں عوام کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے ہماراووٹ حکومت بناتاہے اور یہی ووٹ حکومت گرابھی سکتاہے، حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے مولانامدنی نے کہا کہ تمہیں ہماری طاقت کے آگے جھکنا پڑے گا، یہ طاقت ہندومسلم اتحادکی طاقت ہے، سی اے اے،این پی آراور این آرسی کے خلاف پورے ملک میں ہورہے تاریخی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مظاہرہ کررہی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پردہ دار مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سڑکوں پر سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے کئی مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں ہم ان کے جذبے اور حوصلہ کو سلام کرتے ہیں، وزیراعظم نریندرمودی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی جی دیکھ لویہ وہی خواتین ہیں جنہیں کل آپ اپنی بہن کہتے تھے اورجن کو انصاف دینے کے نام پر آپ نے ہماری شریعت میں مداخلت کی،طلاق کا قانون لائے اور تب آپ نے کہا تھا کہ ہم نے صدیوں سے ظلم کا شکارمسلم بہنوں کو انصاف دیا ہے آج وہی بہنیں آپ کے ذریعہ لائے گئے سیاہ قانون کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں اور آپ ان کی آوازتک سننے کو تیارنہیں ہیں اس سے ثابت ہوا کہ آپ مسلم خواتین کے ہمدردنہیں بلکہ مسلم دشمنی میں آپ نے طلاق کو قابل سزا جرم بنایا ہے انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ ہرگز نہ دیں بلکہ اسے ہندومسلم ملاجلااحتجاج بنائیں انہوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ دیں گے تواس کامطلب ہوگا کہ آپ بی جے پی کے نظریہ کو تقویت دے رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آگ کو آگ سے نہیں پانی سے بجھایا جاتاہے اس لئے منافرت کی اس آگ کو محبت کی بارش سے بجھانے کی ضرورت ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی اے اے، این پی آراور این آرسی کی صورت میں جو مصیبت ملک پر مسلط کی گئی ہے یہ تنہامسلمانوں کیلئے مصیبت نہیں بلکہ یہ سب کی لڑائی ہے کیونکہ اس سے دلت اور دوسرے کمزورطبقات بھی متاثرہوں گے انہوں نے آخرمیں ایک بارپھرحکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اوراعلان کیا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوتاوہ خاموش نہیں بیٹھیں گے انہوں نے کہا کہ ہم اسی طرح کے جلسے پورے ملک میں کریں گے ہندوّں اورمسلمانوں کو ایک ساتھ لاکر تحریک چلائیں گے اور حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبورکردیں گے۔
دوسرے دن بھی مذاکرات کار شاہین باغ پہنچے
نئ دہلی:دہلی کے شاہین باغ میں راستہ کھلوانے کے لیے آج پھر ثالث سادھنا رام چندرن اور سنجے ہیگڑے پہنچے۔ انہوں نے مظاہرین سے بات چیت کی۔سادھنا رام چندرن نے کہاہے کہ آپ نے بلایا تو ہم واپس آئے ۔کل ہمیں حوصلہ ملا۔ہم سب ہندوستان کے شہری ہیں۔ہم سمجھ کرچلے جائیں گے۔آپ کوسمجھنا ہوگا کہ سی اے اے کامسئلہ سپریم کورٹ کے سامنے آئے گا۔انہوں نے بند سڑک کے معاملے پر بات چیت شروع کی۔ سنجے ہیگڑے نے کہاہے کہ کسی کو تکلیف ہورہی ہے توسب مل جل کر راستہ نکالیں۔کچھ ہی دیر بعد سادھانا رام چندرن نے میڈیا کی موجودگی پراعتراض کیا۔ اس کے بعدمیڈیاکے نمائندے دھرناکی جگہ سے باہرچلے گئے۔غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے شاہین باغ کے بند راستے کو کھلوانے کے لیے مظاہرین سے بات چیت کے لیے ثالثوں کی تقرری کی ہے۔جب کہ نوئیڈاکی طرف سے دوکلومیٹردورسے ہی متبادل راستوں کوپولیس نے ہی بندکررکھاہے۔مذاکرات کارسنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن نے بدھ کو بھی شاہین باغ میں دھرنا دے رہے لوگوں سے بات چیت کی تھی لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔دونوں ثالث جمعرات کو بھی دھرناکی جگہ پرپہنچے اور لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ سادھنا رام چندرن نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے وہ مسئلہ ہے، ہم اس پر بات نہیں کریں گے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مظاہرہ کرنے کاحق سب کوہے۔ ہمیں سڑک بند ہونے کے معاملے پر بات کرنے کے لیے بھیجاگیاہے۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شاہین باغ برقرار رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ شاہین باغ میں ہی رہیں اور لوگوں کو پریشانی نہ ہو، تو آپ کو منظورہے؟ اس پر وہاں موجود لوگوں نے کہا، نہیں، سڑک نہیں چھوڑیں گے۔اس کے بعد سادھنا رام چندرن نے کہا کہ ہم ہندوستان کے شہری ہیں، ایک دوسرے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔ہمارا ایمان ہے کوشش کرنا۔پوری کوشش کے بعد اگر یہ مسئلہ نہیں سلجھا تو یہ کیس واپس سپریم کورٹ جائے گا، پھر حکومت جو کرنا چاہے گی کرے گی۔ہر مسئلے کا حل ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ حل نکلے اورشاہین باغ کو برقرار رکھ کر نکلے، تو صحیح رہے گا۔سنجے ہیگڑے نے کہاہے کہ سپریم کورٹ یہ دیکھ رہا ہے کہ شاہین باغ ایک مثال ہوناچاہیے۔ یہ ہوکہ کسی کو تکلیف ہوئی تو سب نے مل جل کر راستہ نکالا۔ہم سن رہے تھے کہ دوماہ سے بیٹھے ہیں، کہ آپ کیامصیبت ہے۔ہم ایک دوسرے کی مددکرنے کے لیے ہیں۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مظاہرے کا حق برقرار رہے۔شاہین باغ برقرار رہے پر کسی کو پریشانی نہ ہو۔اس کے بعد مظاہرین نے اختلاف کیا۔سنجے ہیگڑے نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں سے ہٹیں گے کو کوئی سننے والا نہیں آئے گا؟ یہی تو کہہ رہے ہیں نہ آپ۔ہم کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ہم آپ کی آوازاٹھائیں گے۔ہم آپ کے درمیان آکر آپ کی بات سنیں گے، ہم پر یقین رکھیں۔اس کے بعدسادھنارام چندرن نے کہاکہ مذاکرات کارنہیں چاہتے کہ وہاں میڈیا موجود رہے۔ اس کے بعد میڈیا اہلکار دھرناکی جگہ سے باہرچلے آئے۔ذرائع کے مطابق بعد میں سنجے ہیگڑے نے کہا کہ سپریم کورٹ کے لیے بہت آسان تھا کہ پولیس کو بول کر ہٹوا دے، لیکن کورٹ نے ایسانہیں کیاہے۔کورٹ بھی آپ کی بات سمجھتا ہے۔ شاہین باغ میں اور کہیں بھی لوگوں کو تکلیف ہو تو مظاہرہ ہونا چاہیے لیکن کورٹ کہتا ہے کہ کل نوئیڈا والے ڈی این ڈی جام کرکے بیٹھ جائیں تو ایسے ملک نہیں چلے گا۔ سپریم کورٹ بھی سمجھتا ہے کہ چھوٹے سے کورٹ روم میں سب کونہیں سناجاسکتا، اس لیے ہمیں بھیجاگیا۔انہوں نے کہاہے کہ آپ کے ہاتھ میں تاریخ ہے، آپ کے ہاتھ میں فیصلہ ہے۔جہاں عورتوں کا غلبہ ہوتا ہے وہی ملک آگے بڑھتاہے۔ ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے، یہ میں مانتا ہوں۔آپ کے ہاتھوں میں طاقت ہے، سب کے لیے سوچیے۔آپ سے گزارش ہے کہ آپ یہ بتائیے کہ آگے معاملہ کس طرح بڑھ سکتا ہے؟
نئی دہلی :جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تشددسے منسلک ویڈیوز کو لے کر پولیس اور طالب علموں میں جاری کشیدگی کے درمیان دہلی پولیس کی ایس آئی ٹی کی ٹیم جامعہ پہنچ گئی ہے۔ایس آئی ٹی سربراہ ڈپٹی کمشنر راجیش دیو اور اے سی پی (نائب پولیس کمشنر) سندیپ لامبا اوردیگر کئی افسران موقع پر موجود ہیں۔کرائم برانچ کی ٹیم کے ساتھ 2 ویڈیوگرافی کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ظاہر ہے دہلی پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ دہلی پولیس کے خصوصی کمشنرپی رنجن نے پیر کو بتایا کہ جامعہ میں 15 دسمبر کو ہوئے تشدد میں بہت سی ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔معاملے کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی کی تشکیل کر دی گئی ہے۔ہم واقعات کو جوڑ کر تلاش کر رہے ہیں۔جامعہ لائبریری میں جو بھیڑ نظر آرہی ہے اس میں طالب علم کے ساتھ بیرونی لوگ بھی شامل ہیں، جانچ جاری ہے۔سوشل میڈیا میں وائرل ویڈیو پر جامعہ ملیہ اسلامیہ انتظامیہ نے اتوار کو صاف کیا کہ 15 دسمبر کی رات کے واقعہ کا سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ویڈیو جامعہ انتظامیہ کی جانب سے جاری نہیں کیا گیاہے۔ اس پورے معاملے سے جامعہ انتظامیہ نے خود کو الگ کر لیا ہے۔
علی گڑھ :علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج (جے این ایم سی) اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد ڈینٹل کالج کے مختلف ایم ڈی کورسوں میں 26؍ سیٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اے ایم یو کے صدی سال میں یہ کامیابی یونیورسٹی اور علیگ برادری کے لئے باعث مسرت ہے جس میں وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی کوششوں کا خاص دخل ہے۔ میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) کی منظوری کے مطابق تعلیمی سال 2020-21 سے ایم ڈی (جنرل میڈیسن) میں 21؍سیٹیں ہوں گی۔ اس کورس میں سن 1965 ء سے 12؍سیٹیں تھیں۔ اسی طرح ایم ڈی (کمیونٹی میڈیسن) میں سیٹوں کی تعداد بڑھاکر ایم سی آئی نے 11 کردی ہیں جو پہلے 6تھیں۔ اس کے علاوہ ایم ڈی (فارماکولوجی) میں سیٹوں کی تعداد بڑھاکر چار سے بارہ اور ایم ڈی (ریڈیو ڈائیگنوسس) میں نو سے بارہ کردی گئی ہیں۔ ڈینٹل کونسل آف انڈیا نے بھی ایم ڈی (اورل و میکسیلوفیشیئل سرجری) اور ایم ڈی (پروستھو ڈانٹکس) میں ایک ایک سیٹ کا اضافہ کیا ہے۔وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اس حصولیابی پر اپنا ردّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ اے ایم یو میں سہولیات کو بہتر بنانا ان کا نصب العین ہے۔ انھوں نے کہاکہ صدی سال میں پیشہ ورانہ کورسوں میں سیٹوں کا اضافہ ہمارے لئے حوصلہ بخش ہے اور یہ بانیٔ درسگاہ سرسید احمد خاں کو خراج عقیدت ہے جو تازندگی جدید سائنسی تعلیم کی اشاعت و ترویج پر زور دیتے رہے ۔وائس چانسلر نے اس سلسلہ میں میڈیکل کونسل آف انڈیا، ڈینٹل کونسل آف انڈیا ، وزارت صحت و کنبہ بہبود اور حکومت ہند کا بھی شکریہ ادا کیا۔
ایم ڈی (جنرل میڈیسن) کی سیٹوں میں اضافہ کو میڈیکل کونسل آف انڈیا کی منظوری
علی گڑھ:جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے میڈیسن شعبہ میں 55؍سال کے بعد ایم ڈی (جنرل میڈیسن) کورس میں تعلیمی سال 2020-21ء سے اب 21؍طلبہ کا داخلہ ہوگا ۔ اس شعبہ میں سن 1965ء میں ایم ڈی کی 12؍سیٹیں تھیں جس میں تقریباً دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ میڈیسن شعبہ کے سربراہ پروفیسر مجاہد بیگ گزشتہ ڈھائی برس سے سیٹوں میں اضافے کے لئے فکر مند تھے۔ انھوں نے کہاکہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی کاوشوں سے یونیورسٹی کے صدی سال میں یہ ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے کہا ’’شعبۂ میڈیسن اب علی گڑھ اور آس پاس کے اضلاع جیسے ہاتھرس، کاس گنج، ایٹہ، بلند شہر، امروہہ، مرادآباد، سنبھل وغیرہ سے آنے والے مریضوں کو مزید بہتر طبی سہولیات فراہم کرسکے گا۔ شعبہ میں پی جی کرنے والے طلبہ وطالبات کو بھی بہتر سہولیات میسر ہوں گی‘‘۔پروفیسر بیگ نے یونیورسٹی رجسٹرار، فائننس افسر، ڈین فیکلٹی آف میڈیسن اور پرنسپل جے این ایم سی کا بھی شکریہ ادا کیا جنھوں نے چار مختلف مواقع پر میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) کے معائنہ کے دوران بھرپور تعاون کیا۔ پروفیسر بیگ نے بتایا کہ فیکلٹی آف میڈیسن کے ڈین اور جے این ایم سی کے پرنسپل دفتر کو میڈیکل کونسل آف انڈیا، وزارت صحت و کنبہ بہبود، حکومت ہند کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر راکیش کمار وتس کی جانب سے سیٹوں میں اضافہ کا مکتوب موصول ہوگیا ہے۔وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اس سلسلہ میں کہاکہ ایم ڈی کی سیٹوں میں اضافہ بانیٔ درسگاہ سرسید احمد خاں کی جدید سائنسی تعلیم کی فکر کو ایک شاندار خراج عقیدت ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں میں سائنسی رجحان، معروضیت اور ناقدانہ فکر کی ترویج کے لئے وقف کردی تھی۔ وائس چانسلر نے اے ایم یو کے صد سالہ جشن کے موقع پر ایم ڈی کی سیٹوں میں اضافے کے لئے وزارت صحت و کنبہ بہبود کا بھی شکریہ ادا کیا ۔
کنہیا کمار کا طنز، ہر پیلی چیز سونا نہیں ہوتی، اسی طرح ہر گجراتی گاندھی نہیں ہو سکتا
بہارشریف:جے این یوطالب علم یونین کے سابق صدر اور سی پی آئی لیڈر کنہیا کمار نے مودی اور شاہ پر جم کر طنزکسے ہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ جس طرح ہر پیلی چیز سونا نہیں ہوتی، اسی طرح ہر گجراتی گاندھی نہیں ہو سکتا۔کنہیا نے مرکزی حکومت پر لوگوں کوبانٹنے کا الزام لگایا ہے۔کنہیا کمارنے کہاہے کہ ہم مودی شاہ کے منصوبے کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔بھارت میں جمہوریت ہے لیکن مودی شاہ ظالم کی طرح ملک کو چلانا چاہ رہے ہیں۔مرکزی حکومت سی اے اے لاکرملک کو توڑنے کا کام کر رہی ہے۔آج کمانے والے غریب اور لوٹنے والے امیرہورہے ہیں۔ یہ لڑائی کسی سے رکنے والی نہیں ہے۔ اتوار کو کنہیا اپنے جن گن من یاترا کے تحت نالندہ پہنچے اور سوگرا کالج میدان میں اجتماع سے خطاب کیا۔کنہیا نے کہا کہ نالندہ کی زمین بابوکنور سنگھ، جے پی، کرپوری، سوامی کی سرزمین رہی ہے۔تمام لوگوں نے ملک کے مفاد میں جنگ لڑی ہے۔ہم ملک کی آزادی کو بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ جمہوریت ہے اور یہاں عوام بہت سخت ہوتی ہے۔کنہیاکمار نے 27 فروری کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں ہونے والی ریلی کے لیے لوگوں کومدعوکیاہے۔
ملک کے ظالمانہ قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے _ نوجوانوں کے جو مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے شروع ہوئے تھے وہ بہت سی دیگر یونی ورسٹی میں بھی ہوئے ، اس کے بعد پورے ملک میں پھیل لگے _ جلد ہی جنوبی دہلی کے ‘شاہین باغ’ میں خواتین نے محاذ سنبھالا ، جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور اس کے طرز پر ملک میں جگہ جگہ ‘شاہین باغ’ قائم ہو گئے _ ان مظاہروں کی شدّت میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے اور امید ہے کہ یہ ابھی کچھ اور عرصہ جاری رہیں گے _
مظاہروں کا ایک فائدہ تو یہ سامنے آیا کہ حکم راں جماعت کی جو ہیبت عوام کے دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی اس میں بہت حد تک کمی آئی ، مظاہروں میں ظلم اور نا انصافی پر مبنی حکومتی پالیسیوں کا کھل کر تجزیہ کیا گیا ، جس سے عوام میں بیداری آئی اور وہ اپنے بھلے بُرے کی تمیز کرنے لگے _ ان کا دوسرا فائدہ یہ دکھائی دیا کہ نوجوانوں کی قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ، مسائل کا ادراک اور تجزیہ کرنے اور ان پر پورے اعتماد کے ساتھ اظہارِ خیال کرنے کی ان کی صلاحیت بڑھی _ مختلف چینلس اور نیوز پورٹلس نے ان مظاہروں کو کَوَر کرنے کی کوشش کی تو ان کے اینکرس اور رپورٹرس کے سوالات کے جوابات نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے جس خود اعتمادی اور مہارت کے ساتھ دیے ہیں اس سے ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں محفوظ ہونے کی امید بندھتی ہے _ ان مظاہروں سے حاصل ہونے والے کچھ اور فائدے بھی بیان کیے جاسکتے ہیں ، لیکن امّت کے باشعور طبقے کو ان نقصانات کی بھی فکر کرنی چاہیے جو ان مظاہروں سے مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پہنچ سکتے ہیں _ ممکنہ نقصانات کے کچھ اشارے ملنے لگے ہیں _ ان کے تدارک کی ابھی سے فکر کرنی ضروری ہے _ اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی اور غفلت برتی گئی تو بعد میں بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اس وقت کفِ افسوس ملنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا _
جاری مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی غالب اکثریت مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہے ، اگرچہ مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی قلیل تعداد میں شریک ہیں _ ان میں اظہارِ خیال کرنے والے وہ تمام لوگ ہیں جو حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے نالاں ہیں اور انہیں ظالمانہ و جابرانہ سمجھتے ہیں _ مقرّرین کی بڑی تعداد کمیونسٹ فکر و فلسفہ والوں کی ہے ، جو اگرچہ ہندوتوا کے سخت خلاف ہیں ، لیکن وہ تمام مذاہب سے فاصلہ بناکر رکھتے ہیں اور ان پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے _ اسلام کا بھی اس سے استثنا نہیں ہے _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مظاہروں کو مذہبی شناخت کے اظہار سے دور رکھا جاتا اور سب مل کر صرف اصل مقصد (ظالمانہ قوانین کی مخالفت) پر فوکس کرتے ، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے ، چنانچہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسے کام کیے جانے لگے اور ایسی سرگرمیاں انجام دی جانے لگیں جو وحدتِ ادیان تک لے جانے والی ہیں _ تمام مذاہب کے مراسم سب مل کر انجام دیں ، یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مظاہرہ کا درست طریقہ نہیں ہے _ اسلام عقائد اور طرزِ معاشرت کے معاملے میں بہت حسّاس ہے _ وہ اپنے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ نام نہاد ہم آہنگی کے اظہار کے لیے آنکھ بند کرکے شرکیہ نعرے لگائیں اور دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرلیں _ ظلم کے خلاف مشترکہ جدّوجہد کی متعدد مثالیں سیرت نبوی سے پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن یہ دوسروں کی شرائط پر اور ان کے ہرکارے اور پیادے بن کر نہیں ، بلکہ اپنی شرائط پر اور اپنے دین کی بنیادی قدروں کی رعایت کرتے ہوئے ہونا چاہیے _
اس سلسلے میں وہ لوگ زیادہ مفید نہیں ہوسکتے جو ان مظاہروں میں عملاً شامل نہیں ہیں اور محض دور کے تماشائی ہیں ، بلکہ وہ نوجوان لڑکے ، لڑکیاں اور خواتین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو ابتدا سے ان مظاہروں کو منظّم کررہے ہیں ، ان میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اور انھیں صحیح سمت دینے پر قادر ہیں _ انہیں ابھی سے اس کی فکر کرنی چاہیے کہ کچھ عرصے کے بعد جب یہ مظاہرے ختم ہوں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کا اغوا ہوچکا ہو اور غیر اسلامی افکار و نظریات ان کے ذہنوں میں گھر کر چکے ہوں _
میں بہ خوبی جانتا ہوں کہ ان مظاہروں میں شامل نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کی خاصی تعداد اسلام پسند ہے _ وہ بغیر کسی تکلّف اور جھجھک کے دینی شعائر پر برملا عمل کرتے ہیں _ اس موقع پر ان کی ذمے داری بڑھ کر ہے _ انہیں ابھی سے ان اندیشوں کا تدارک کرنے کی فکر کرنی چاہیے جو ان کے ساتھیوں پر مستقبل میں ان مظاہروں کے پڑنے والے اثرات کے سلسلے میں لاحق ہیں _ اللہ تعالیٰ انھیں توفیق مرحمت فرمائے ، آمین _
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)