مؤقر اراکین شوری، محترم مہتمم صاحب اور اساتذۂ عظام، دارالعلوم دیوبند!!
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج عالی بخیر ہونگے!!
ہم طلبۂ دارالعلوم اپنے بڑوں کی خدمت میں ان معروضات کے ذریعے ، دارالعلوم کے داخلی امور تعلیم و تربیت ، اور ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں چند ناگزیر سوالات کو مرکز توجہ بنانا چاہتے ہیں –
اس وقت ملک میں اسلام اور مسلمانوں کو جس شدید ترین بحران کا سامناہے ، آزاد ہندوستان میں اس سے قبل اس قسم کی زہرناک صورت حال کا نہ تو کوئی وجود تھا اور نہ ہی کوئی تصور کرسکتا تھا –
پہلے گائے کے نام پر دن دہاڑے تشدد و بربریت ، موب لنچنگ ، سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد پر انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ ، تین طلاق پر قانون بناکر براہ راست شریعت میں مداخلت، دفعہ 370 اور 35A کی جبری منسوخی ، اور پھر اس کے بعد شہریت ترمیمی بل کا شوشہ چھوڑنا، اور صرف شوشہ ہی نہیں بلکہ اسے دونوں ایوانوں سے پاس کرواکے CAA کے نام سے باقاعدہ قانون کی شکل دے ڈالنا، اس کے بعد NRC کا اعلان کرکے تمام باشندگان ہند کی شہریت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دینا، NPR کے مندرجات میں اضافہ کرکے بے تکے مطالبات کرنا ، اور اب فیملی پلاننگ اور دو بچوں کے قانون ، پرسنل لا کے خاتمے ( طلاق ثلاثہ قانون کو تھوپ کر اس کی جانب ایک قدم بڑھایا بھی جاچکا ہے ) اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا عندیہ دینااور ان سب غیر انسانی اقدامات پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹ جانا ؛ یہ تمام جد و جہد آئین ہند کو کالعدم کردینے اور جمہوریت کی روح کو کچل دینے کی انتہائی منظم کوششیں ہیں ، جو مکمل تسلسل کے ساتھ پچھلی ایک صدی سے جاری و ساری ہیں ؛ اور اب یہ بات پوری شفافیت کے ساتھ منظر عام پر آچکی ہے کہ ہندو مہاسبھا اور اس کے بعد آر ایس ایس کے قیام کے روز اول ہی سے بھگواداریوں کا اصل ہدف ، اسلام اور اہل اسلام کے وجود و بقاء کو چیلنج کرنا ، اپنے مشن میں حائل لوگوں کو شکست و ریخت سے دوچار کرنا اور بالآخر صدیوں پرانا ذات پات پر مبنی انسانیت سوز برہمنی نظام قائم کرنا ہے اور موجودہ حالات میں یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ سیکولر اور جمہوری آئین کو کالعدم کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ کرلیاجائے ، لہذا اس نازک ترین وقت میں بھی اگر ہم نے برادران وطن کے ساتھ مل کر شدید مزاحمت نہ کی تو ہندو راشٹر کا قیام اب کوئی دور کی چیز نظر نہیں آتی ؛ چوں کہ حکومت اور ہندوتو کے وفادار آج اس مقام پر ہیں کہ جمہوریت کے چاروں ستون : عدلیہ ، مقننہ ، انتظامیہ اور صحافت پر انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے ، اور ان چاروں ذرائع کو اپنے مقاصد کی تکمیل کےلئے من چاہے انداز میں استعمال کررہے ہیں –
مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ طاقت کے نشے میں چور بدطینت حکومت کے غیر قانونی فیصلے جب حد سے تجاوز کرگئے تو اس کے خلاف ملک کے دو تاریخی علمی مراکز جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بیک وقت تحریکیں اٹھیں، دیکھتے ہی دیکھتے جس نے ملک گیر صورت اختیار کرلی اور آج نوبت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ سیکولر برادران وطن بھی آئین کے تحفظ کےلیے غیر آئینی اقدامات کرنے والی فاشسٹ مقتدرہ کے اعلان جنگ پر لبیک کہتے ہوئے میدان جنگ میں کود چکے ہیں!
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایسے نازک موڑ پر ، اس قدر فیصلہ کن وقت میں ہماری مذہبی قیادت اور اس کی اقتدا میں مذہبی طبقے کی اکثریت کہاں کھڑی ہے اور کیا کر رہی ہے؟؟ اور اس کا حقیقی کردار کیا ہونا چاہیے؟؟
آئیے ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں!
پہلا سوال : ہمارا مذہبی طبقہ کہاں کھڑا ہے اور کیا کر رہا ہے؟؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ دیوار کے پیچھے کھڑا ہے اور تماشا دیکھ رہا ہے!!
دوسرا سوال : ہمارا حقیقی کردار کیا ہونا چاہیے؟؟
اس کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنی حیثیت کا تعین کریں تاکہ اسی میزان پر اپنے کردار کو تول سکیں ۔
یوں تو دنیا میں تمام ہی اقوام اور جماعتوں کی بہت ساری حیثیتیں ہواکرتی ہیں ، لیکن موجودہ تناظر میں ہم عرض گزاران کی نظر میں ہماری سب سے اہم حیثیتیں دو ہیں ۔
(١) وارثین انبیاء.
(٢) جانشین نانوتوی و شیخ الہند.
جب یہ طے ہوگیا ہے کہ ہماری یہ دو اہم حیثیتیں ہیں تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ دونوں حیثیتیں ہمارے اوپر کیا ذمہ داریاں عائد کرتی ہیں؟؟
سیدھے سادے الفاظ میں وراثت نبوی کا مطلب رسول الله صلی الله علیه وسلم کی ہمہ گیر تعلیمات کو سیکھنا ، اس کا عملی مظہر بننا اور عامۃ المسلمین کو سکھانے کے لیے کوشاں رہنا اور اس پر عمل کے لیے ابھارناہے ۔
اب ذرا سوچیے!!
کیا مسلمانوں کے وجود پر اور آنے والی نسلوں میں اسلام کی بقا پرمسلسل حملوں کے بعد ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے وجود و بقا کے لئے اٹھ کھڑے ہونا، ہرممکن مزاحمت کرنا، ایک ہدف مقرر کرکے نتیجہ خیز تدریجی منصوبہ بندی کرنا اور اس پر پوری تندہی کے ساتھ عمل پیرا ہوجانا، وراثت نبوی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟؟
اگر ہاں! تو آپ لوگوں کی جانب سے بحیثیت وارثین انبیاء ، ملت اسلامیہ اور مذہب اسلام کے دفاع کے لیے اور درپیش خطرات کے مقابلے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟؟
اور اگر ان تمام چیزوں کو وارثین انبیاء کی ذمہ داریوں میں نہیں سمجھتے تو کھل کر اپنا موقف ظاہر فرمائیں!
ہماری دوسری حیثیت حضرت نانوتوی اور حضرت شیخ الہند کے جانشین کی ہے!
سیدنا الامام الکبیر محمد قاسم نانوتوی رحمه اللّٰه قصر دیوبندیت کے مؤسس اعظم ہیں ، اور آپ کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر آپ کے تخیلاتی محل کو تعمیر کرکے حقیقت کا روپ دینے والے آپ کے سب سے اکمل و ارشد جانشین ، شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی رحمه اللّٰہ ہیں!
آئیے! انہی کی زبانی سنتے ہیں کہ دیوبندیت کا نہج اور مقصد کیا ہے؟؟
حضرت شیخ الہند فرماتے ہیں:
حضرت الاستاذ ( مولانا قاسم نانوتوی ) نے اس مدرسے کو کیا درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کے لیے قائم کیا تھا؟مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا جہاں تک میں جانتا ہوں ١٨٥٧ کے ہنگامے کی ناکامی کے بعد یہ ارادہ کیا گیا کہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے زیر اثر لوگوں کو تیار کیا جائے تاکہ ١٨٥٧ کی ناکامی کی تلافی کی جائے!
پھر اس کے بعد فرماتے ہیں:
تعلیم و تعلم اور درس و تدریس جن کا مقصد اور نصب العین ہے میں ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں لیکن خود اپنے لیے تو اسی راہ کا میں نے انتخاب کیا ہے جس کے لئے دارالعلوم کا یہ نظام میرے نزدیک حضرت الاستاذ نے قائم کیا تھا!
( احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن ص ١٧٠/١٧١ ، بعینه یہی عبارت سوانح قاسمی ج ٢ ص ٢٢٦ پر موجود ہے)
اب ذرا اندازہ لگائیے کہ تعلیم وتعلم سے علیحدہ وہ کیا مقصد ہے جوان کے پیش نظر تھا جسکو آپکے سچے روحانی فرزند حضرت شیخ الہند نے آپ کی جانب منسوب فرماکر بیان کیا اور خود بھی اسی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا، اور اسے ٥٧ کی تلافی سے تعبیر کیاـ
٥٧ کا ہنگامہ کیا تھا اور کیوں تھا؟ اور اس کی تلافی کیوں کر ممکن ہے؟؟
غدر ستاون مسلمانوں کے تشخص کی حفاظت کیلئے ایک مزاحمتی تحریک تھی جس کا مقصد اسلامیان ہند کو برٹش ایمپائر کی ذہنی و فکری یلغار سے چھٹکارا دلانا تھا مگر بمشیت ایزدی جب وہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا تو اس کی تلافی کے لیے دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ایک مرکز قائم کیا گیا تاکہ اس میں ایسے افراد تیار ہوں جو ملت اسلامیہ کو غلامی کے اس خطرناک بھنور سے نکالیں ، نیز قیام دارالعلوم کے وقت حضرت نانوتوی کی نقل وحرکت اور دوڑ دھوپ بھی صراحت کے ساتھ آپ کی حقیقی فکر و نظر بیان کرنے کے لیے کافی ہے ، سوانح قاسمی از : مولانا مناظر احسن گیلانی اور تاریخ دارالعلوم دیوبند از : محبوب رضوی کی عبارتیں اور اقتباسات اس پر وضاحت کے ساتھ دال ہیں، طوالت کے خوف سے ہم یہاں نقل کرنے سے قاصر ہیں –
سردست حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کا درج بالا اقتباس تحریک دیوبندیت کی مقصدیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے ۔
نیز قیام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے موقعے پرعلی گڑھ کے خطبۂ صدارت میں موجود آپ کی بعض عبارتیں بھی نہایت حیران کن اور موجودہ حالات میں بڑی معنی خیز ہیں ۔
ملاحظہ فرمائیں! ” میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت و نقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر اس لیے لبیک کہا کیوں کہ میں اپنی ایک گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں، بہت سے نیک بندے ہیں جن کے چہروں پر نماز کا نور، ذکر الله کی روشنی جھلک رہی ہے، لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدارا جلد اٹھو اور اس امت مرحومہ کو کفار کے نرغے سے بچاؤ تو ان کے دلوں پر خوف و ہراس طاری ہوجاتا ہے ، خدا کا نہیں بلکہ چند ناپاک ہستیوں کا اور انکے سامان حرب و ضرب کا!
پھر چند سطور کے بعد فرماتے ہیں!
اے نونہالان وطن!!
جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور سکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں، تو میں نے اورچند مخلص احباب نے ایک قدم علیگڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا۔
(نقش حیات ج ٢ صفحہ ٥٥٦ ، مطبع دارالاشاعت کراچی)
اور جمعیت علمائے ہند کے دوسرے اجلاس عام کے خطبۂ صدارت میں میں آپنے فرمایا: جو لوگ کشمکش زمانہ سے پہلو تہی کرتے ہیں اور مدرسوں اور مسجدوں کے حجروں میں بیٹھے رہنے کو اسلام کی خدمت کے لیے کافی سمجھتے ہیں وہ اسلام کے پاک صاف دامن پر داغ ہیں ـ
مذکورہ اقتباسات سے مزید کھل کر یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ حضرت شیخ الہند رسمی تعلیم و تعلم اور نرے درس وتدریس کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اسی کو سب کچھ سمجھنے والے علماء سے کس قدر مایوس و بدظن ہیں۔
اس کے علاوہ دارالعلوم کے قدیم دستور اساسی میں قیام دارالعلوم کے جو پانچ مقاصد بیان کیے گئے ہیں، ان میں سے بھی کچھ درج ذیل ہیں:
اعمال اور اخلاق اسلامیہ کی تربیت اور طلبہ کے اندر اسلامی روح بیدار کرناـ
اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور دین کا تحفظ و دفاع ـ
حکومت کے اثرات سے اجتناب و احتراز اور علم و فکر کی آزادی کو برقرار رکھناـ
تاریخ دارالعلوم ج ١ ص ١٤٢
نیز حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دارالعلوم دیوبند کے نصب العین کی تشریح کرتے ہوئے جو پانچ نکات بیان فرمائے ہیں ان میں سے بھی چند ہم یہاں ملحق کرتے ہیں۔
اول : مذہبیت ، دارالعلوم دیوبند مذہبی قوت کا سرچشمہ اور اول سے آخر تک اسلام کے دستور و آئین کا پابند ، یہاں ہر شخص اسلام کا نمونۂ کامل ہے۔
دوم: آزادی، جس کے معنی ہیں کہ دارالعلوم دیوبند مکمل طور پر بیرونی غلامی کے خلاف ہے، اس کا نظام تعلیم و تربیت ،اس کا نظام مالیات اور اس کا نظام اجتماعی سرتاسر آزاد ہے ۔
(تاریخ دارالعلوم ج 1 ص 144)
سطور بالا میں کل پانچ نکات موجود ہیں، جن میں سے دو نکات کو ہم نے طوالت کے خوف سے اور موضوع سے خارج ہونے کی بناپر مکمل نقل نہیں کیا ہے!
ہم پانچ پوائنٹس کا نچوڑ سامنے رکھ کر بات آگے بڑھاتے ہیں!
(١) دینی تعلیم و تربیت اور رجال سازی ـ
(٢) اسلام کی اشاعت ، تحفظ اور دفاع ـ
(٣) کسی بھی حکومت ، ادارے یا فرد کے اثرات سے کامل آزادی تاکہ کسی بھی مرحلے پر بے لاگ موقف اختیار کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا دباؤ اور باک نہ ہوـ
(٤) اسلام کے دستور و آئین کی مکمل پابندی ـ
* (١) دینی تعلیم و تربیت اور رجال سازی*
مدارس اسلامیہ کا بنیادی مقصد یقینا تعلیم و تربیت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فراغت کے بعد میدان عمل میں فضلاکو جن مخاطبین سے سامنا ہوتا ہے ، ان میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل ہیں جن کی علمی و عملی استعداد اور ذہنی و فکری کیفیات مختلف و متنوع ہوتی ہیں –
لہذا ابلاغ کا حق صحیح طور پر انجام دینے کے لئے عصری تقاضوں اور متعلقہ افراد و اشخاص کی نفسیات سے آگاہی نہایت ضروری ہے – اور یہی سنت الٰہی بھی ہے کہ وہ ہمیشہ نبیوں اور رسولوں کو انہی کی قوموں کی طرف مبعوث فرماتا رہاہے تاکہ داعی و مدعو دونوں ایک دوسرے کے انداز و اطوار اور زبان و بیان سے واقف ہوں اور مانوس فضا میں ابلاغ کا فریضہ انجام پذیر ہو –
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے فضلا میں اتنی استعداد و اہلیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ملحدانہ و متشککانہ پس منظر رکھنے والے ادبا و مفکرین اور عصری تعلیم یافتہ حضرات کو قائل و مطمئن کرنے والے انداز میں مخاطب بناسکیں، اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو اسلام کی حقانیت کا یقین دلا پائیں؟
ہمارا مدعا یہ بالکل نہیں ہے کہ سائنس و ریاضی جیسے فنون کو داخل نصاب کیا جائے ، فقط اتنی التجاء ہے کہ سائنس دانوں، انجینیروں اور دیگر تعلیم یافتہ حضرات کی ذہنی و فکری ساخت اور موجودہ زمانے کے گمراہ کن نظریات سے اتنی واقفیت ہر طالب علم میں پیدا کرنے کی حتی الامکان سعی کی جائے جس کی بنیاد پر فراغت کے بعد وہ اپنے آپ کو کمتر اور اجنبی محسوس نہ کرے اور تمام باطل و گمراہ کن علوم و فنون کے مقابلے میں علم الہی کی برتری کو مبرہن و مدلل کرسکے اور یہی وجہ ہے کہ صدیوں پہلے ہمارے اسلاف نے حکمت و منطق اور فلسفہ و کلام کو داخل نصاب کیا تھا تاکہ گمراہ لوگوں کے طریقۂ واردات کا ادراک کرتے ہوئے انہی کے ہتھیاروں سے انہیں شکست دی جاسکے ۔
چوں کہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چار پانچ صدیوں سے فلسفہ و سائنس اور سماجیات و سیاسیات پر مغرب کے تسلط کی وجہ سے الحاد و تشکیک اور مادیت کے زہریلے جراثیم ان میں سمودئے گئے ہیں جو غیر شعوری طور پر مگر پوری شدت کے ساتھ انسانی ذہن و فکر پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سب اتنے دلچسپ و پرکشش انداز میں کیا جاتا ہے کہ مغرب پچانوے فیصد اپنے مقصد میں کامیاب و بامراد ہے – لہذا ان زہریلے جراثیم اور ان کی بنت و ساخت سے واقفیت اور ان کا کامیاب توڑ کئے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ حاملین علوم نبوت موجودہ دور کے مخاطبین تک ابلاغ کا فریضہ مطلوب شکل میں انجام دے سکیں ۔
جہاں تک دینی و اسلامی تربیت کی بات ہے تو ظاہر ہے کہ یہ صرف وضع قطع اور نماز و روزہ کی تربیت تک محدود نہیں ہے ؛ چوں کہ یہ چیز تو ایک مکتب میں بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور جماعت دعوت و تبلیغ سالوں سے اس کام کو بحسن و خوبی ایک مشن کے طور پر انجام دے رہی ہے ، لہذا دارالعلوم دیوبند جیسے مرکزی و سرکردہ ادارہ میں اسلامی تربیت کتنی ہمہ گیر اور بامعنی ہونی چاہئے اس کا اندازہ لگانا اس شخص کے لئے ذرا بھی دشوار نہیں جو دارالعلوم دیوبند کی تاریخ اور اس کے بانیان و اکابر قدس سرہم کے علمی و عملی کارناموں سے بہ خوبی واقف ہے – بہت زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے ہم یہاں صرف چند باحوالہ امور ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے تاکہ بات واضح ہوسکے –
حضرات شیخ الہند ، شیخ الاسلام و دیگر اکابر رحمہم اللہ کی تاحیات یہ کوشش رہی کہ طلبہ دارالعلوم میں حالات و سیاسیات حاضرہ کا اس قدر شعور اور ان کے تقاضوں سے اتنی ہمدردی ہمہ وقت ہونی چاہئے کہ ملک و ملت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے وہ بہ خوبی عہدہ بر آ ہوسکیں اور اپنے آپ کو صرف منبر و محراب تک محدود نہ سمجھیں ، بلکہ ہر محاذ پر اپنی فعال موجودگی درج کراتے ہوئے وارثین انبیاکا حق ادا کریں –
یہی وجہ ہے کہ ١٣٦١ھ میں جب برٹش حکومت کے ہاتھوں حضرت شیخ الاسلام کی گرفتاری ہوئی تو بزم سجاد ( انجمن اصلاح البیان) کے تحت طلبہ دارالعلوم نے اپنا سالانہ اجلاس منسوخ کرکے ایک زبردست احتجاجی جلسہ منعقد کرایا ، جب جیل سے رہائی کے بعد یکم ربیع الاول ١٣٦٤ھ کو حضرت مدنی بنفس نفیس بزم سجاد کے معائنہ کے لئے تشریف لائے تو اس موقع پر طلبہ نے ایک عام جلسے کا انعقاد کیا جس میں طلبہ کے پیش کردہ پروگرام کے بعد حضرت مدنی کا صدارتی خطاب ہوا ، جس کے چند اقتباسات یہ ہیں:
(١) آپ حضرات کی عزت افزائی کا شکریہ ، لیکن اس کے ساتھ مجھے آپ سے کچھ شکایتیں ہیں ، گرفتاری کے بعد آپ لوگوں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اتنا کرنے کی ضرورت نہ تھی ، صرف دو ایک جلسے پر اکتفا کرتے اور آپ صبر و سکون سے اپنے کام میں لگے رہتے ، اور اپنے دشمن پر یہ ظاہر کرتے کہ اگر تم نے ہمارے ایک خادم کو گرفتار کرلیا تو ہمیں کچھ پرواہ نہیں ہم میں بہت سے ایسے ہیں جو اس کی قائم مقامی کر سکتے ہیں اگر آپ کا ایک خادم آپ سے جدا ہو گیا تھا تو آپ اس کی جگہ دوسرے کو کھڑا کرتے اور اپنے فرائض انجام دیتے ، اگر فوج کا جنرل مارا جائے تو فوج کو بد دل ہوکر بیٹھ رہنا نہیں چاہیے –
(٢) میری غیر حاضری پر آپ لوگوں نے انجمن کو معطل کردیا اور کام چھوڑ کر دل برداشتہ ہو کر بیٹھے رہے ، ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا-
(٣) آپ کے لئے جس قدر تعلیم ضروری ہے اسی قدر تقریروتحریر میں مہارت حاصل کرنا بھی ضروری ہے اگر آپ دونوں میں سے ایک سے بھی غافل ہوئے تو آپ کامیاب نہیں ہو سکتے ، آپ کو سیاسی معلومات حاصل کرنے چاہیے تاکہ آپ اپنے وطن کو غلامی سے نجات دلا سکیں –
دارالعلوم دیوبند میں طلباکی تربیت عملی طورپر کس طرح ہوتی تھی اس کا ایک اور نمونہ دیکھنے کیلئے تاریخ دارالعلوم از محبوب رضوی صفحہ ٢٦١ تا ٢٦٥ ملاحظہ فرمائیں ! جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ١٣٤١ اور ١٣٤٢ میں جب ایک طرف سوامی شردھانند نے مسلمانوں کی شدھی کا کام شروع کیا اور دوسری طرف ڈاکٹر مونجے نے ایک سنگٹھن قائم کی جو خالص ہندؤوں کی جماعت تھی ، اور دارالعلوم میں خطوط و اخبارات کے ذریعے پے در پے آریہ سماج کی ناگوار فرقہ وارانہ سرگرمیوں اور مسلمانوں کے ارتداد کی خبریں موصول ہوئیں تو اس نازک ترین موقع پر دارالعلوم دیوبند نے وہی فریضہ انجام دیا جو اس کے شایان شان تھا ، یعنی ١٢ جمادی الاخری کو دارالعلوم دیوبند سے مبلغین کا ایک وفد روانہ کیا گیا ، وفد کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ آریہ سماج کی تحریک نہایت منظم اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے ، جس کے ازالے کیلئے مزید اور کافی مبلغین کی سخت ضرورت ہے ، اس پر دارالعلوم کے اساتذہ اور طلباکے پے در پے متعدد وفد روانہ کئے گئے آگرہ کو تبلیغی کاموں کا مرکز قرار دے کر علمائے دیوبند کا دفتر کھولا گیا ، مولانا میرک شاہ صاحب مدرس دار العلوم دفتر کے نگراں بنائے گئے ، موصوف جہاں ضرورت ہوتی مبلغین کو بھیجتے، بحمد للہ مبلغین کی انتھک مساعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بے شمار مرتدین تائب ہو کر اسلام میں واپس لوٹے –
اس کے برعکس ان دنوں طلباسے یہ کہا جاتا ہے کہ دارالعلوم کا مقصد صرف دینی تعلیم و تربیت ہے اور اس تعلیم و تربیت کو صرف درس نظامی کی تکمیل ، وضع قطع اور نماز و روزہ تک محدود کردیا جاتا ہے ،
جب کہ بنیاد گزاران دارالعلوم جس طرح کی تربیت کو مطلوب و مقصود اور ہدف اصلی گردانتے تھے ، اس میں اسلام اور مسلمانوں کے وجود و بقا کو لاحق ہر قسم کے خطرات سے مقابلہ آرائی کی تربیت شامل تھی ، اور سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ تربیت اپنی اساس میں عملی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے نہ کہ علمی ، اور فطری طور پر ایک طالب علم اپنے اساتذہ و مربیین کی شخصیت و کردار کو خود میں جذب کرنا اور ان کے اصول زندگانی کو اپنانا چاہتا ہے لہذا طلباء کو داعی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کے مربی اور اساتذہ بھی داعی ہوں ، انہیں رجال ساز مدرس بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اساتذہ بھی رجال ساز ہوں ، انہیں اصلاح کار اور بہترین سیاستدان بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اساتذہ بھی قوم و ملت کی سیاسی ابتری اور وجودی خطرات سے نمٹنے والے قائد و رہبر ہوں –
اگر حضرت قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوھی خود مجاہدین آزادی اور رجال ساز نہ ہوتے تو کیا شیخ الہند جیسا مجاہد آزادی اور رجال ساز فرد امت کو نصیب ہوسکتا تھا ؟ اور شیخ الہند میدان کار نہ ہوکر صرف درس و تدریس تک محدود رہتے تو شیخ الاسلام، عبیداللہ سندھی، شبیر احمد عثمانی جیسے نبض شناس اور قوم و ملت کی نیا پار لگانے والے نا خدا ہمیں مل سکتے تھے ؟ ظاہر ہے ، ہر گز نہیں –
اس لئے ہمارا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ طلباء کو درس و تدریس سے فارغ کرکے مستقل سیاسی شورش کی نذر کردیا جائے اور اس طرح ان کی شخصیت فکر و نظر کے اعتبار سے ادھوری اور نا پختہ رہ جائے، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ کرام و قائدین عظام حضرات نانوتوی و گنگوہی ، شیخ الہند و شیخ الاسلام قدس سرہم جیسے سرپرستان و معماران دارالعلوم کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے خود بھی درس و تدریس کے ساتھ میدان عمل میں نکلیں ، خصوصا موجودہ ہندوستان میں امت مسلمہ کے وجود کو جس بے باکی و سفاکی کے ساتھ چیلنج کیا جارہاہے، اور بڑے پیمانے پر ارتداد و کفر کی یلغار کا سامنا ہے ، اس کے پیش نظر نہایت منظم و دور رس اثرات کی حامل جد و جہد فرمائیں اور طلبا میں بھی وہ بلندئ فکر و نظر پیدا کرنے کی کوشش ہو جس کے لئے دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا تھا نہ کہ حالات حاضرہ اور سماجیات و سیاسیات سے پہلو تہی برتتے ہوئے طلباکو صرف منبر و محراب تک محدود کردیا جائے اور وہ بھی ناقص شکل میں، وہ شخص آخر کس بنیاد پر امام و خطیب کے فرائض کما حقہ انجام دے سکتا ہے جو نہ تو امت کے حالات سے باخبر ہو اور نہ ہی ان کی نفسیات و ضروریات سے واقف ہو ؟؟
(٢) اسلام کی اشاعت تحفظ اور دفاع
موجودہ حکومت پوری طاقت کے ساتھ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے پرعزم ہے ، جس کی وجہ سے ارتداد کی لہر چلنے کا قوی امکان ہے ، یہ اندیشہ بہت سے مسلم تجزیہ نگار بھی ظاہر کرچکے ہیں. کیا ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے وجود و بقا کا تحفظ و دفاع مذکورہ شق میں داخل نہیں ہے؟؟ پھر اس سلسلے میں ابھی تک کیا پیش رفت ہوئی ہے یا آگے کیا حکمت عملی بنانے کا ارادہ ہے؟
(٣) کسی بھی حکومت ادارے یا فرد سے کامل معاشی تعلیمی ،انتظامی آزادی تاکہ کسی بھی موقع پر کوئی بھی موقف اختیارکرتے ہوئے کسی قسم کا دباؤ اور باک نہ ہو
دارالعلوم دیوبند تاایں دم ہر طرح کے بیرونی اثرات سے مکمل آزاد ہے فلله الحمد ؛لیکن پھر بھی آخر کیوں حکومت کا اتنا دباؤ اور خوف ہے کہ موجودہ صورتحال میں ابھی تک کوئی نتیجہ خیز مثبت قدم نہیں اٹھایا گیا؟ بلکہ معذرت خواہانہ رویہ اور دفاعی انداز اپناتے ہوئے حکومت سے یہ گزارش کی جارہی ہے کہ آپ ہمیں اپنے رسمی تعلیم وتعلم کو براہ کرم جاری رکھنے کا موقع دے دیں ! اس کے علاوہ ہم کوئی قدم آپ کے مفادات کے خلاف نہیں اٹھائیں گے، کیا آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ اگر آپ نے اپنے بانیان کے طرز سے انحراف کرتے ہوئے صرف تعلیم و تعلم پر کفایت کربھی لی تب بھی آپ کا ادارہ اور آپ کی محفوظیت زیادہ دنوں تک برسر اقتدار طاقتوں کی زد سے نہیں بچ سکے گی، کیونکہ جب آئین ہند کو تہ و بالا کرکے قوم مسلم کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جائے گا تو کوئی امکان نہیں کہ ان کے آزاد تاریخی مراکز اور اداروں کو علی حالہ قائم رہنے دیا جائے!
(٤) اسلام کے دستور و آئین کی مکمل پابندی
یعنی ہر آن دل و جان سے اسلام کے ہر مطالبے پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہنا!جب ملت اسلامیہ پر شدید قسم کا چو طرفہ دباؤ ہو اسلامیان ہند کو کچلنے اور مسلنے کے لئے تیار کی گئی پلاننگ ٩٥ سالہ جدوجہد کے بعد اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہو تب قرآن و سنت کا اس سے بڑا مطالبہ کیا ہوسکتا ہے کہ امت مسلمہ کے وجود و تشخص کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو تج دیاجائے؟
گرامی قدر مخاطبین!
اب تک کی تحریر میں آپ کے سامنے مو جودہ حالات کی نزاکت ، برسر اقتدار جماعت کے عزائم اور ان کو سامنے رکھتے ہوئے نبوی وراثت کے تقاضے، اکابر دیوبند حضرت نانوتوی، شیخ الہند ، شیخ الاسلام تغمدھم اللّٰه بغفرانه کی فکر و نہج اور اس کی معنویت ، قیام دارالعلوم کے بنیادی اہداف و مقاصد اور اس کی روشن تاریخ ، یہ سب کچھ بہت مختصر طور پر لیکن خاصی وضاحت کے ساتھ بیان کردیی گئی ہے۔
اب اس کے بعد اس وضاحت کی ضرورت نہیں بچتی کہ وراثت نبوی کے دعوے پر ہم کس قدر کھرے اترتے ہیں؟
اپنے اسلاف کے فکر و عمل کے کس قدر امین ہیں؟
قیام دارالعلوم کے نصب العین کے کس درجہ پاسدار ہیں؟
یہ حقیقت ہے کہ دارالعلوم دیوبند تحریکی اور انقلابی سرگرمیوں میں براہ راست بلاواسطہ شریک نہیں رہا،
لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ دارالعلوم ہی کی فراہم کردہ فکرو نظر اور تربیت کی وجہ سے اس کے فضلا مسلمانوں اور اسلام پر آنے والے خطرات سے مقابلہ کے لیے ، اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف ہمہ جہت طریقے پر سرگرم عمل رہے ہیں, اور ان تمام سرگرمیوں اور تحریکات کا تعلق بالواسطہ اپنے مرکز سے رہا ہے، نیز اساتذۂ دارالعلوم نے بارہا دارالعلوم کو براہ راست آنچ سے بچانے کے لیے علیحدہ پلیٹ فارمز بھی قائم کیے ہیں اور ان کے ذریعے معاصر امت مسلمہ کو پیش آمدہ خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے ہرممکن جدو جہد کی ہیں ، اور اس طرح کی تمام سرگرمیاں دارالعلوم ہی کی تاریخ کا روشن حصہ ہیں، اس کی سب سے واضح نظیر انجمن ثمرۃ التربیت اور جمعیت الانصار کا قیام ہے جس کے روح رواں حضرت شیخ الہند تھے اور جس کے فعال کارکن اس وقت کے ابنائے قدیم تھے، ان دونوں تحریکوں کو ظاہری عنوان چاہے جس چیز کا دیا جائے ، مگر حقیقی منشا جاننے والے جانتے ہیں اور لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا بھی ہے!
تفصیل کے لیے شیخ الہند حیات و کارنامے ، ص ١٣٦ تا ١٤٨ دیکھ سکتے ہیں!
اسی تنظیمی اور انجمنی سلسلے کی کچھ کڑیاں ابھی تک موجود ہیں مگر انکی بھی حالیہ کارکردگی محتاج تبصرہ نہیں ہے ، خصوصاََ موجودہ پر خطر صورت حال میں ان کی منصوبہ بندیوں اور عملی اقدامات کی حقیقت جگ آشکارا ہوچکی ہے ـ
مسؤولین عظام!!
متذکرہ بالا معروضات کی بنیادپر ہم طلبۂ دارالعلوم دیوبند چند مطالبات کو ارباب بست و کشاد کے سامنے رکھنا شریعت اور دارالعلوم کی مقصدیت کی رو سے اپنا فریضہ سمجھتے ہیں:
(١) دارالعلوم دیوبند کو اس کے بانیان و معماران حضرت نانوتوی ، حضرت گنگوہی، حضرت شیخ الہند، حضرت شیخ الاسلام کے نہج پر بحال کیا جائے اور وراثت نبوی کا حق صحیح طور پر انجام دیا جائےـ
واضح رہے کہ موجودہ نہج، نبوی مشن اور حضرات اکابر کے نہج سے ١٨٠ درجہ مخالف ہےـ
(٢) فکری اور عملی تربیت کو اسی ہمہ گیریت کے ساتھ شروع کیاجائے جس طرح حضرت نانوتوی نے اپنے تلامذہ اور پھر اسی نقش قدم پر چلتے ہوے حضرت شیخ الہند نے اپنے شاگردوں کی کی تھی؛ جس تربیت میں وضع ،قطع اور صوم و صلاۃ کی پابندی کے علاوہ سیاسی و سماجی مسائل کی تشخیص و علاج سے واقفیت اور معاصر ذہنی و فکری سطح کو مد نظر رکھتے ہوئے کلامی تیاری شامل ہےـ
(٣) ملک کے موجودہ منظرنامے کی ابتری و ہولناکی کے پیش نظر فی الفور مؤثر اقدامات کیے جائیں، اور قرآن وسنت کی بنیاد پر ، ملکی آئین کے تحت ، نہایت مستحکم منصوبہ بندی کی جائے ، اس پر فوری عمل درآمد کیا جائے, اور ان سب میں اساتذۂ دارالعلوم فعال کردار ادا کریں ، جیسے حضرت شیخ الہند ، حضرت شیخ الاسلام، علامہ شبیر احمد عثمانی رحمھم الله نے مسند تدریس پر فائز رہتے ہوے ہرطرح کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، خواہ ان سب چیزوں کے لیے الگ سے پلیٹ فارمز قائم کریں یا موجودہ پلیٹ فارمز ، جن کی سرگرمیاں بے جان پڑ چکی ہیں ، انہیں میں جان ڈالیں!
ہمیں امید ہے آپ حضرات مذہب و ملت کے تئیں ہمارے ان ہمدردانہ مطالبات پر جلد از جلد غور فرماکر عملی میدان میں اتریں گے ۔
ہمیں اکابر کی اس امانت سے حددرجہ محبت اور لگاؤ ہے، اور اس امانت کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، لہذا آپ حضرات نے اگر بہت جلد مؤثر اور سنجیدہ کوششیں نہیں کیں تو ہمیں مجبوراً وراثت نبوی کی حفاظت اور امانت اکابر کی صیانت کی خاطر اگلے اقدامات کرنے پڑیں گے ، جو کہ عملی ہوں گےـ
والسلام.
من جانب: طلبۂ دارالعلوم دیوبند