نئی دہلی: دہلی الیکشن کے متوقع نتائج پربی جے پی کے تعلق سے بڑی خبرآئی ہے۔ انتخابی نتائج سے پہلے بی جے پی میں کل دیر رات ایک بڑی میٹنگ چلی ہے۔یہ میٹنگ صبح تین بجے تک چلتی رہی۔اس میں بی جے پی صدر جے پی نڈا، وزیرداخلہ امت شاہ، دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری شامل تھے۔ میٹنگ میں دہلی کی ایک ایک سیٹ کا جائزہ لیاگیاہے۔بتادیں کہ دہلی میں انتخابات ختم ہونے کے بعد تقریباََتمام ایگزٹ پول نے عام آدمی پارٹی کی حکومت بننے کا دعویٰ کیاہے۔ ایگزٹ پول سامنے آنے کے بعد عام آدمی پارٹی مکمل طور پرپر اعتماد نظر آرہی ہے تو بی جے پی ایگزٹ پولز کے برعکس نتائج آنے کی بات کر رہی ہے۔بی جے پی کو اتنا اعتماد ہے کہ دہلی میں ووٹنگ ختم ہونے کے بعد ایگزٹ پول کے اعداد و شمار کو غلط بتا رہی ہے۔بی جے پی کو تو یہ بھی لگتا ہے کہ11 فروری کو دہلی میں انہی کی حکومت بنے گی۔لیکن اگرایگزٹ پول کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو دہلی میں بی جے پی کے ارمان پورے ہوتے نہیں دِکھ رہے ہیں۔ووٹنگ ختم ہونے کے بعد سب کو نتائج کا انتظار ہے۔ ایگزٹ پول صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ دہلی میں تیسری بار عام آدمی پارٹی اقتدارپرقابض ہوگی، لیکن بی جے پی کی جانب سے مسلسل اس سے انکار کیا جا رہاہے۔ دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری نے بھی بی جے پی کی جیت کا دعویٰ کیاہے۔
Amit
گزشتہ روز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قریب کالے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ اور طالبات پر ایک دہشت گرد رام بھکت گوپال نے پستول لہراتے ہوئے حملہ کیا۔ ماس کمیونیکیشن کے ایک طالب علم شاداب فاروق نے جب دہشت گرد کو روکنے کی کوشش کی تو اس نے فائرنگ کرکے اس کے بائیں ہاتھ کو لہولہان کردیا۔ کئی ہفتے سے جامعہ ملیہ اور شاہین باغ کا علاقہ بھاری پولس اور سیکوریٹی کا عملہ تعینات ہے، اس کے باوجود گوپال جیسے نوجوان کا پستول لے کر پولس کی موجودگی میں مظاہرین کے سامنے آنا پولس پہ شک و شبہ پیدا کرتا ہے۔ گزشتہ کل جن لوگوں نے اسے ٹی وی اسکرین پر پستول لہراتے ہوئے دیکھا اور گوپال کے پیچھے پولس کی ٹیم تماشائی بنے ہوئے دیکھا اس کے بعد لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ دہشت گرد پولس اسپانسر اور پولس کے Protection (حفاظت) میں تھا، پولس پر سوالیہ نشان ہے؟ جس طرح پولس ٹیم کا ایک فرد بغیر کسی مزاحمت کے اسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اس سے بھی شک و شبہ میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ جس وقت پولس کو دیکھتا ہے تو دہلی پولس زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پولس سے اس کا ساز باز ہے اور اس ساز باز کو وہ خود اپنے نعرے سے ظاہر کردیتا ہے۔
دہلی پولس مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے یعنی وزیر داخلہ امیت شاہ کے زیر نگرانی ہے۔ جامعہ ملیہ میں گھس کر اسی پولس نے لائبریری میں پڑھتے ہوئے طالبعلموں پر حملہ کیا، انھیں زد و کوب کیا یہاں تک کہ غسل خانہ، کینٹین اور مسجد میں بھی داخل ہوکر پولس نے زیادتی کا بھرپور مظاہرہ کیا لیکن یہی پولس جب گوپال نے پستول کو لہرایا اسے دبوچنے اور پکڑنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی۔ اگر گوپال کے پاس اس سے زیادہ خطرناک قسم کا ہتھیار ہوتا تو اے کے 47 ہوتا تو سیکڑوں طالب علم اس کے ہاتھوں جاں بحق ہوگئے ہوتے۔ شاداب نے اسے شانت کرنے اور مدافعت کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی جب بھی کئی طالب علم جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ صرف اس کے ہاتھ میں گولی لگی۔ جس کے ہاتھ میں گولی لگی، جو زخمی ہوا، لہولہان ہوا پولس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ سے خون بہہ رہا ہے پھر بھی پولس اسے بچانے یا اسپتال لے جانے کیلئے آگے نہیں بڑھی۔ بے رحمی اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا اور اسے اسپتال جانے کا راستہ بھی نہیں دیا۔ اس کے دو دوستوں نے کسی طرح بیریکیڈ پر چڑھ کر اسے اسپتال لے گئے۔ پولس نے دیکھا کہ وہ زخمی ہاتھ سے بیریکیڈ پر چڑھا اور نیچے اترا۔ اسے پولس کی دشمنی اور عداوت نہیں تو کیا کہا جاسکتا ہے۔ دہشت گرد کے ساتھ نہایت مشفقانہ رویہ پولس نے اپنایا۔ اسے جلدی سے گاڑی کے اندر گھسادیا تاکہ مظاہرین اس تک نہ پہنچ سکیں۔ پولس کی ظالم کے ساتھ ہمدردی اور مظلوم کے ساتھ زیادتی اور سنگدلی افسوسناک ہے۔
عام آدمی پارٹی کے لیڈر سنجے سنگھ کا کہنا ہے کہ امیت شاہ نے پولس کا ہاتھ باندھ دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ آزادانہ طور پر کام کرنے سے قاصر ہے۔ وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کا کہنا ہے کہ دہلی پولس خراب نہیں ہے بلکہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اگر اس کو آزادی دے دی جائے تو یہی پولس بہتر کام انجام دے سکتی ہے۔ دونوں لیڈروں کی باتوں میں صداقت ضرور ہے لیکن ہاتھ کتنے ہی بندھے ہوں پولس انسانوں سے الگ کوئی نئی مخلوق نہیں ہے۔ اس کے اندر دل بھی ہوتا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ دہلی کی پولس اپنے آقاؤں کی بات سنتے سنتے نہ صرف سخت دل ہوگئی ہے بلکہ پتھر دل ہوگئی ہے جسے سنگدل کہتے ہیں۔ گزشتہ روز پولس کا یہ سلوک ہر کسی نے دیکھا اور دہلی پولس پر اچھے لوگوں نے لعنت ملامت بھی کی۔ دہلی میں جب بھی بی جے پی کے مخالفین نے مظاہرہ یا احتجاج کیا تو پولس آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی رہی اور بی جے پی کے لوگ ظلم و زیادتی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اسٹوڈنٹس لیڈر کنہیا کمار کو عدالت کے احاطے میں بی جے پی کے وکلاء نے حملہ کیا تو پولس تماشائی بنی رہی۔ چند ہفتے پہلے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بی جے پی کی اسٹوڈنٹس ونگ کے گنڈے اور بدمعاشوں نے نقاب لگاکر یونیورسٹی کے لڑکوں اور لڑکیوں پر حملہ کیا، کئی طلبہ و طالبات زخمی ہوئے۔ اسٹوڈنٹس یونین کی صدر آئشی گھوش کے سر پر شدید چوٹ آئی۔ پولس گیٹ پر کھڑی تماشائی بنی رہی۔ کچھ دنوں پہلے شاہین باغ میں ایک شخص پستول لہراتے ہوئے داخل ہوا اسے بھی پولس گرفتار نہیں کرسکی۔ اس کے برعکس شرجیل امام کے پیچھے پولس پڑی رہی اور اسے بہار کے جہان آباد سے گرفتار کرکے دہلی لائی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرکزی حکومت یا مودی شاہ جس کو چاہتے ہیں اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے اور سخت سے سخت کارروائی ہوتی ہے لیکن جو ان کے پیارے اور دلارے ہوتے ہیں وہ قتل بھی کردیتے ہیں تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی۔ اکبرؔ الہ آبادی نے سچ کہا ہے کہ ؎
’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام …… وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا‘
انوراگ ٹھاکر مودی حکومت میں وزیر ہیں دوچار روز پہلے وہ ایک انتخابی جلسے میں جس طرح گولی مارنے کی بات کہی اور کہلوائی اس پر بی جے پی کے کسی لیڈر نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ ایم پی پرویش ورما نے شاہین باغ کے تعلق سے انتہائی گھٹیا اور غیر اخلاقی اور بددیانتی کی بات کہی کہ شاہین باغ والے اگر کجریوال جیت گئے تو گھروں میں گھس کر بلتکار کریں گے۔ کپل شرما نے شاہین باغ کو منی پاکستان تک کہا۔ پورے علاقے کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ بی جے پی کے یہ تینوں لیڈروں کی تقریروں اور بیانات کے نتیجے میں گاندھی نہیں گوپال ہی پیدا ہوں گے یا گوڈسے جنم لیں گے۔ ٹھاکر، ورما یا شرمایہ سب مودی اور شاہ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ امیت شاہ نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ ووٹنگ مشین کے بٹن کو ایسے دبانا کے شاہین باغ والوں کو کرنٹ لگے۔ مودی جی نے اپنے بھاشن میں کہا تھا کہ مظاہرین کو کپڑے سے پہچانا جاتا ہے۔ مودی جی ذرا یہ بتائیے گوپال کو آپ کس طرح پہچانیں گے؟ اس کی پستول یا اس کے کپڑے سے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جو نوجوان ہیں جو شرپسندی اور دہشت گردی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ مودی شاہ کو محض خوش کرنے کیلئے کر رہے ہیں۔ پرویش ورما نے کجریوال کو اپنی ایک تقریر میں دہشت گرد تک کہہ دیا۔ وہ کجریوال جو کبھی بھی اپنے مخالفین کیلئے کوئی سخت جملہ یا لفظ استعمال نہیں کیا، ان پر کئی بار حملے بھی ہوئے۔ حملہ کرنے والوں کو انھوں نے معاف بھی کردیا۔
اروند کجریوال تو گاندھی جی کو مانتا ہے۔ مودی جی ذرا آپ یہ بتائیے کہ آپ اور آپ کے لوگ گاندھی کو مانتے ہیں یا گوڈسے کو؟ آپ تو کل گاندھی کی سمادھی پر عقیدت کے پھول نچھاور کر رہے تھے اور گاندھی کی تعریف میں نیک کلمات کا اظہار بھی کر رہے تھے لیکن تعریف آپ گاندھی کی کرتے ہیں مگر گوڈسے کے طریقے پر خود بھی عمل کرتے ہیں اور اپنے لوگوں کو بھی عمل کرنے کیلئے اکساتے رہتے ہیں۔ آخر اس فرقہ پرستی اور فسطائیت سے کیا ملک خانہ جنگی اور انارکی کی طرف نہیں جارہا ہے؟ کیا ملک گن کلچر کے رنگ میں رنگا نہیں جارہا ہے؟ آخر ان فساد انگیزی اور فتنہ سازی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ دہلی کا الیکشن جیتنے کیلئے بی جے پی کوئی حربہ نہیں ہے جو اپنانے کی کوشش نہ کر رہی ہو۔ بی جے پی اپنی ہاری ہوئی بازی کو جیتنا چاہتی ہے۔ دہلی میں اس کا کوئی کام نہیں ہے اور اس کے پاس کوئی مدعا بھی نہیں ہے، کوئی لیڈر بھی نہیں ہے جو کجریوال کے سامنے کھڑا ہوسکتاہو۔ مودی جی کا چہرہ دکھایا ضرور جا رہا ہے لیکن مودی جی استعفیٰ دے کر کیا دہلی کے وزیر اعلیٰ بنیں گے؟ ایسے بہت سے سوالوں کا بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اب ان کے پاس تشدد، بربریت، بداخلاقی، بے حیائی، بدتمیزی، بدتہذیبی، بدکلامی اور بدگوئی کے سوا کوئی چیز نہیں ہے۔ دہلی کے رہنے والے عام طور پر کام کو دیکھتے ہیں۔ امید یہ ہے کہ کجریوال کے پانچ سال کے کام پر وہ توجہ دیں گے اور بی جے پی والے جو دہشت گردانہ اور فرقہ پرستانہ ماحول پیدا کرکے، عوام کو گمراہ کرکے ووٹ لینا چاہتے ہیں شاید مودی شاہ کی تمنا اور ان کے چیلوں کی آرزو پوری نہ ہو۔ جھارکھنڈمیں این آر سی، سی اے اے کے بارے میں اور قومی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں بہت سی باتیں شاہ، مودی اور یوگی نے کیں مگر وہاں کے رہنے والوں نے تینوں کو ٹکا سا جواب دیا۔ بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ امید ہے کہ دہلی والے بھی بی جے پی کے تشدد، دہشت گردی اور گن کلچر کا دندان شکن جواب دیں گے۔ دہلی میں جھارکھنڈ سے بھی زیادہ بی جے پی کو ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
سی اے اے،این آر سی اور این پی آر کے خلاف جو احتجاجی مہم شروع ہوئی ہے،اس نے سرکار کی نیند حرام کردی ہے۔چاروں طرف سے قومی یکجہتی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔اس مہم میں ہر روز شدت پیدا ہورہی ہے۔ہر طبقے کے لوگ اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔احتجاجی مظاہرے ہوں یا دھرنے ہر جگہ ترنگا ہی لہرا رہا ہے،جس سے فرقہ پرستی کی سیاست کرنے والے جہاں خوفزدہ ہیں،وہیں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو گمراہ کرنے والے رہنماؤں کے چہرے بھی صاف نظر آنے لگے ہیں۔ دہلی اور جھارکھنڈ کے وزراے اعلیٰ نے ذات پات کی سیاست کرنے والی پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان بدل رہا ہے۔ملک اور سماج کی ہم آہنگی میں رکاوٹ بننے والی قانون کے خلاف ملک کے عوام سڑک پر آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔
مودی سرکار نے جس دھماکہ دار انداز میں دوسرے ٹرم کا آغاز کیا تھا اور یکے بعد دیگرے بل پاس کئے جا رہے تھے سی اے اے کے خلاف ملک گیر مہم نے اس رفتار پر روک لگا دی ہے۔ایسے میں وزیر اعظم کچھ بیان دے رہے ہیں تو وہیں وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے بیانات اس سے جدا ہیں۔بی جے پی کی مرکزی حکومت جس تیز رفتاری سے قدم بڑھا رہی تھی اس کو یقیناً اس بات کا اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ پورا ملک اس کے خلاف سڑکوں پر آجائے گا۔
معاشی میدان میں پوری طرح سے ناکام سرکار اپنے ان ایجنڈوں کے ذریعہ ووٹروں پر اپنی گرفت مضبوط بنا نے میں مصروف تھی،لیکن اس کی یہ تدبیر الٹی ہوگئی۔طلاق ثلاثہ،دفعہ 370،بابری مسجد معاملہ کے بعد این آر سی،سی اے اے اور این پی آر سے لوگوں کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا اور سرکار کی مسلسل مسلم مخالف پالیسیوں نے عوام کو سڑکوں پر اترنے پر مجبور کردیا۔
شاہین باغ دہلی کے طرز پر پورے ملک میں جاری پر امن مظاہروں نے حکومت ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ان مظاہروں سے ایسا لگ رہا ہے کہ واقعی ملک بدل رہا ہے۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب ملک کی معیشت اپنے نچلی سطح پر پہونچ چکی ہے،بے روزگاری کا گراف بہت تیزی سے اوپر چڑھ رہا ہے،نوجوان خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ایسے وقت میں سرکار کا ایسے قوانین کے نفاذ پر زور کیوں؟سرکار اگر اس زعم میں ہے کہ وہ اس تحریک کو اپنی طاقت سے کچل دے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہی کہی جا سکتی ہے۔
ملک بھر میں جاری تحریک کو طاقت سے کچلنا کوئی کھیل نہیں،یہ کوئی مٹی گھرینوں کا کھیل نہیں ہے کہ جب جی چاہے اس کو بگاڑ دے۔ موجودہ حالات میں اگر سرکار کوئی ایسا قدم اٹھاتی ہے تو اس کی بہت بڑی بھول ہوگی۔یہ مودی حکومت کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ ان حالات پر کس طرح قابو اپتی ہے، اگر حکومت کی جانب سے زور و زبر دستی کا طرییقہ اختیار کیا گیا تو اس کا خمیازہ سرکار کو کسی نہ کسی شکل میں بھگتنا ہی پڑے گا۔
انقلابِ فرانس کے دوران ملکہئ فرانس میری انٹونیٹ (Marie Antoinette) کو جب معلوم ہوا کہ لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ہے تو اس نے کہاکہ اگر روٹی نہیں مل رہی ہے تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ ہمارے ملک ہندستان میں اس قدر ابھی ہلچل تو نہیں ہوئی ہے لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں کا تحکمانہ انداز اور گھمنڈ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اس جمہوری ملک میں جہاں دستور کے لحاظ سے سب کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔ سب کے حقوق بھی برابر ہیں۔ جمہوری حکومت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ ”جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جو عوام کی ہوتی ہے، عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کیلئے ہوتی ہے“۔ (Government of the People, by the People, for the People) مگر سنگھ پریوار والے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان کی ہے، ان کیلئے ہے، ان کے ذریعے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مزاج آہستہ آہستہ شاہانہ اور تکبرانہ ہوتا جارہا ہے۔
عوام کے ووٹوں سے حکومت وجود میں آتی ہے اور عوام کی اکثریت کا ووٹ اکثر شامل نہیں ہوتا۔ جیسے گزشتہ جنرل الیکشن میں بی جے پی کو صرف 31% ووٹ ملے تھے۔ اور حالیہ جنرل الیکشن میں 34، 35 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ اگر اس حقیقت کو سنگھ پریوار والے سمجھیں تو ایک بڑی اکثریت ان کی حمایت میں نہیں ہے تو ان کا دل و دماغ صحیح ہوجائے۔ لیکن جمہوریت میں جہاں بہت کچھ خوبیاں ہیں کمیاں بھی کم نہیں ہیں۔ جمہوریت کے ذریعے آنے والے جو لوگ غیر جمہوری مزاج رکھتے ہیں وہ آمر ہوجاتے ہیں اور ان کی حکومت آمرانہ ہوجاتی ہے۔ سنگھ پریوار والوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ جب کوئی آمر کی حکومت ہوتی ہے تو درباریوں اور خوشامدیوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ بد دماغ حکمراں کو خوشامدی اور درباری کچھ زیادہ ہی خراب کر دیتے ہیں۔ نریندر مودی، امیت شاہ یا موہن بھاگوت جس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کررہے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ ان بڑوں کے ساتھ جو ان کے چیلے اور حاشیہ بردار ہیں وہ بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ کبھی کبھی ان سے آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے بہت پہلے کہا تھا کہ ”جب کوئی ظالم حکمراں کسی کے باغ کا ایک پھل توڑتا ہے تو اس کے سپاہی پورے باغ کو تہس نہس کردیتے ہیں“۔ یہ چیز اتر پردیش میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دے رہی ہے جہاں یوگی کا راج ہے۔
یوگی ادتیہ ناتھ کے وزراء اکثر و بیشتر احمقانہ بیان دیتے رہتے ہیں۔ پیاز کی قیمت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور غریب کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ یوگی حکومت کے ایک جونیئر وزیر صحت اتُل گرگ نے کہا ہے کہ ”اگر پیاز کی قیمتیں زیادہ ہوگئی ہیں یا کم دستیاب ہیں تو لوگوں کو پیاز کا استعمال کم کر دینا چاہئے“۔ انھوں نے مزید کہاکہ ”میں سمجھتا ہوں کہ 50 سے 100 گرام پیاز لوگوں کے ٹیسٹ کیلئے کافی ہے“۔ موصوف گاڑی کی کھڑکی سے ہنس ہنس کر رپورٹر کے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ کر چل دیئے۔ اسپتال کے ڈاکٹر اور اسٹاف ان کی باتوں پر ہنستے رہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے کہا ہے کہ یہ ان کا متکبرانہ انداز ہے۔ سماج وادی پارٹی کے مصباح الدین احمد نے کہا ہے کہ حکومت عام آدمیوں کے پلیٹ پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ پیاز کی قیمت ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ ذخیر اندوز زیادہ تر بی جے پی کے حامی ہیں اور بی جے پی کی حکومت کی انھیں سرپرستی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے وزیر صاحب لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ کہہ کر کہ لوگوں کو پیاز کم کھانا چاہئے۔ در اصل مودی اور شاہ کے یہ سپاہی اپنے بڑوں کی ترجمانی کر رہے ہیں اور عوام کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں کہ ان کو کیا کھانا چاہئے، کتنا کھانا چاہئے، عورتوں کو کیا پہننا چاہئے۔ لڑکے اور لڑکیوں کو کس طرح شادی کرنا چاہئے۔ لوگوں کو کہاں جانا چاہئے اور کہاں نہیں جانا چاہئے۔ لوگوں کو کیا پڑھنا چاہئے اور کیا دیکھنا چاہئے۔ لوگوں کو کیا لکھنا چاہئے اور کیسی پینٹنگ کرنی چاہئے۔ کیا کہنا چاہئے اور کیا نہیں کہنا چاہئے۔ ملک اور قوم سے کیسے محبت کرنا چاہئے اور کیسے نہیں کرنا چاہئے؟ ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں کے خون میں یہ چیز پیوست ہوگئی ہے۔ مسٹر گرگ انہی لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
وزیر موصوف نامہ نگار کو پیاز کی کمیوں کی اصل وجہ بتاکر معقول جواب دے سکتے تھے لیکن اس سے ان کے حاکمانہ انداز کی تشنگی باقی رہ جاتی۔ بی جے پی کے لوگ خاص طور پر لوگوں کے کھانے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور کچھ اس طرح ظالمانہ نظر رکھے ہوئے ہیں کہ گوشت اور گائے کے نام پر لوگوں کی جان تک لے لیتے ہیں۔ غیر سبزی غذاؤں (Non Vigetarian Food) کی اکثر و بیشتر یہ لوگ مذمت کرتے رہتے ہیں۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں دو پہر کے کھانے سے اسکولی بچوں کو انڈے سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کھانے پینے میں بھی زعفرانی آئیڈولوجی اور نظریے کو ٹھونسنے یا تھوپنے کی کوشش جاری ہے۔ لیکن یہ وزیر صحت ہیں تو ان کو ڈاکٹروں سے پوچھ کر یا بغیر پوچھے یہ بتانا چاہئے کہ گوشت خوری کے بغیر ایک آدمی کے جسم میں کتنا پروٹینس ہونا چاہئے اور کتنی پیاز استعمال کرنا چاہئے اور کتنی نہیں کرنا چاہئے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ؎ ”زبان بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا“۔ ان زعفرانی لیڈروں کو اپنے زبان و بیان پر لگام دینے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اس خراب ماحول میں اگر رد عمل کا سلسلہ شروع ہوا تو ملک کی کثافت اور آلودگی بڑھتی جائے گی۔ پھر واپسی کا امکان بھی باقی نہیں رہے گا، جسے No point of return کہتے ہیں۔
……………………………………………………
حال ہی میں مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی، دہلی بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کے جو بیانات آئے ہیں وہ ہر گز کسی شریف آدمی کے بیانات نہیں ہوسکتے۔ دلیپ گھوش نے ’سی اے اے‘ کی مخالفت کرنے والوں کو جس طرح کے غلط اور گندے اور گھٹیا قسم کے القاب سے مخاطب کیا ہے اس پر تفصیل سے خاکسار کا ایک مضمون آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ کالے قانون کے مخالفین کو بدکردار، بدگفتار شخص نے کہا کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے ماں باپ پتہ نہیں ہے اس لئے ان کے پاس برتھ سرٹیفیکٹ نہیں ہے۔ کپل مشرا جو کل تک ’عام آدمی پارٹی‘ میں تھے اپنے تازہ بیانات سے ثابت کر رہے ہیں کہ اب وہ آدمی نہیں ہیں کچھ اور ہیں۔ اس لئے کہ وہ عام آدمی پارٹی میں نہیں بی جے پی میں ہیں اور بی جے پی میں جب کوئی آتا ہے تو اس کے زبان و بیان پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور نہ کوئی لگام لگا سکتا ہے، وہ بے لگام ہوجاتا ہے۔ انھوں نے دہلی کے اسمبلی انتخاب کو پاکستان اور ہندستان کا مقابلہ کہا ہے۔ بی جے پی کے مخالفین کو پاکستانی کہا اور جو لوگ ہندستان کو دنیا بھر میں بدنام کر رہے ہیں یعنی بی جے پی والے ان کو ہندستانی بتایا۔ ان کی ہندستانیت یہی ہے کہ غلط بیانی، جھوٹ، فریب اور دغا سے کام لے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ شاہین باغ سے پاکستان داخل ہوا ہے۔ شاہین باغ کے خواتین کے احتجاج کو بھی ایک طرح سے غیر ملکی احتجاج بتاکر اپنے نیچ پن اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا۔ الیکشن کمشنر کی طرف سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرایا گیا ہے۔ امید ہے کہ ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہوگی۔
ادتیہ ناتھ یوگی کی بدزبانی: ادتیہ ناتھ اپنے بیان کیلئے مشہور ہیں۔ لگتا ہے کہ الٹا سیدھا بیان دے کر وہ سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں خواتین کے احتجاج کے حوالے سے یوگی نے کہاکہ مسلمان مرد گھروں میں رضائی (لحاف) اوڑھ کر سورہے ہیں اور اپنی عورتوں کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر اتارے ہوئے ہیں۔ یوگی یا جوگی سنیاسی ہوتے ہیں اور دنیا داری چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ ایسا یوگی ہے جن کو ڈھونگی کہنا شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک ایسا شخص جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر گھر سے برسوں دور رہا ہو جس سے دل میں نہ اپنی ماں کی قدر ہو نہ باپ کی عزت ہو اور نہ بھائی بہن کی محبت ہو آخر وہ عورتوں کی کیسے قدر کرسکتا ہے؟ ایسے لوگ اسی طرح کی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مودی-شاہ نے اپنے ہی جیسے ایک شخص کو اتر پردیش جیسی ریاست کیلئے وزیر اعلیٰ مقرر کیا ہے۔ رہتا ہے وہ لکھنؤ میں لیکن لکھنؤ کی تہذیب و شائستگی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بی جے پی کے لوگ یوگی کی بدزبانی سے خوش ہوئے ہوں کیونکہ ان کے یہاں جو جس قدر بدزبان اور فرقہ پرست ہوگا اسی قدر پارٹی میں اس کی عزت افزائی ہوگی اور اس کو اتنا ہی بڑا عہدہ سونپا جائے گا۔ پہلے بھی یوگی کے بیانات انتہائی گھٹیا قسم کے ہوتے تھے اسی کا انھیں صلہ یا انعام ملا ہے۔ حالانکہ وہ ایم ایل اے چن کر اسمبلی میں نہیں پہنچے تھے۔ ان کو دہلی سے بلایا گیا۔ 300 ایم ایل اے میں کوئی بھی اتنا بدزبان اور بدکردار نہیں تھا اس لئے اتر پردیش میں یوگی کی تاج پوشی کی گئی ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068