جس قوم کی قیادت ہی مرعوبیت کا شکار ہوجائے، تنزلی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے اور اس وقت ہندوستانی مسلمان بھی قیادت کے اسی بحران سے گزر رہے ہیں ـ ہندو مسلم اتحاد بحال کرنے، امن و امان قائم رکھنے اور آپسی منافرت کو ختم کرنے کیلیے کیا ضروری ہےکہ ہمیشہ ہم ہی سرِ تسلیم خم کرتے رہیں! تین طلاق بل ہمارے سروں پر تھوپ دیا گیا ہم خاموش رہے، کشمیر سے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کردیا گیا ہم امن کا مظاہرہ کرتے رہے، بابری مسجد ہم سے چھین لی گئی اور ہم ملک کی فضا خراب کرنے سے باز رہے….. اب اگر موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ ”ہر ہندوستانی ہندو ہے؛ گرچہ مسلمان اپنے دین و مذہب پر عمل کرتے رہیں، سکھ اور عیسائی بھی اپنے دھرم کو مانتے رہیں؛ لیکن سب ہندوستانی ہونے کی بنیاد پر ہندو ہیں“ تو بجائے اس کےکہ ہم ان کی دکھائی ہوئی بھول بھلیوں میں کھوتے چلے جائیں اور ان کی باتوں کی بے جا تاویلیں کرنے میں سر گرمِ عمل ہوجائیں، اول وہلہ میں ہمیں ان کی مخالفت کرنی چاہیے اور بڑی مضبوطی کے ساتھ ان کی تجویز کو ٹھکرا دینا چاہیے ـ
اگر ”ہندو“ میں واؤ نسبتی ہے اور اسکا مطلب ہندوستان کا رہنے والا ہے تو یائے نستبی کے ساتھ لفظ ”ہندی“ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور کثیر الاستعمال ہے نیز ہر طرح کی تشویش اور جھول سے پاک بھی ہے؛ ہمیں چاہیے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی ان کے مطالبے کو اپنے اوپر لازم کرلینے کی بجائے ان کے سامنے اپنی تجویز پیش کریں، اگر وہ اپنے پیش کردہ نظریے میں پختہ اور اپنی باتوں میں سچے اور پکے ہیں،تو اس ترمیم پر آمادہ ہونے میں تامل نہیں کریں گے؛ لیکن اگر وہ اس پر راضی نہ ہوئے اور ہمیشہ کی طرح ہم نے ہی سرِ تسلیم خم کردیا تو ہماری مرعوبیت میں کوئی شک نہیں رہ جاتا اور ہماری بزدلی کی اس سے بڑی مثال نہیں ہوسکتی اور ایسی صورت میں ہم اپنے اور اپنی نسلوں کے مستقبل کی خیر منائیں کہ وہ بالکل بھی محفوظ نہیں؛ کیوں کہ آر ایس ایس کی مسلم دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف اس کے خطرناک عزائم جگ ظاہر ہیں، نیز ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے؛ چناں چہ یہ سب معلوم ہونے کے باوجود ہماراخود کو ”ہندو“ مان لینا کامیابی کی طرف بڑھنے والا انکا اگلا قدم ہوگا اور پھر ہمارے ہندو ہونے سے لے کر ہندوستان کے ہندو راشٹر بننے تک کا سفر کوئی دشوارنہیں رہ جاتا اور یہ ہندوستانی مسلمان کے حق میں بہت بڑی غلطی ہوگی جس کا ازالہ نا ممکن ہوگا؛ مولانا ارشد مدنی کو اپنے فیصلے پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنی چاہیے؛ ماضی میں ہم سے جو غلطیاں سرزد ہوچکی ہیں ان کے بعد اب مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں رہ جاتی، ہمیں ممکنہ خطرات سے متنبہ رہنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ:
مصالحت سے یہ قصہ نمٹ بھی سکتا ہے
لباس صلح کرانے میں پھٹ بھی سکتا ہے
[email protected]
mob: 7253974055