کون نہیں جانتا ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ مجرمانہ ذہنیت کے علمبردار ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھائے جانے سے پہلے بیس سے زائد مجرمانہ مقدمات ان کے خلاف مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھے۔ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد موصوف نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے خلاف مقدمات چلانے کی اجازت دینے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ سارے مقدمات واپس لے لئے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اتر پردیش کے ایسے لوگوں سے بدلہ لے کر رہے گا جو احتجاج اور مظاہرے میں شریک ہوں گے۔ ٹوئیٹر پر جو لکھا ہے وہ بھی ایک ظالم و جابر حکمراں ہی لکھ سکتا ہے ”جس نے بھی احتجاج کیا یا مظاہرہ میں حصہ لیا وہ افسوس کر رہا ہے کہ یوگی حکومت کو چیلنج کرکے بڑی غلطی کی ہے وہ یوگی حکومت کی سختی (بے رحمی) نے سب کو دم بخود کر دیا ہے۔ سب کو احساس ہوگیا ہے کہ اسے قانون کی سختی اور سنگینی سے گزرنا پڑے گا“۔ جب حکمراں اپنی حیوانیت اور سفاکیت کا کرسی پر بیٹھ اعلان کرے تو پھر اس کا راج انسانوں کیلئے بربریت کی علامت بن جاتا ہے۔
پرینکا گاندھی نے ایک پریس کانفرنس میں یوپی کے نوجوانوں اور لڑکوں کے ساتھ یوگی کی پولس کے جبر و ظلم کی دکھ بھری داستان بیان کی جسے سن کر کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ سلمان نامی نوجوان باپ کے منع کرنے کے باوجود احتجاج کے دن (19 دسمبر) دودھ لینے چلا گیا۔ کئی گھنٹے کے بعد پولس والوں نے اس کی ہلاکت کی خبر گھر والوں کو دی مگر لاش دینے یا گھر والوں کو دکھانے سے انکار کر دیا خود ہی پولس رات کے اندھیرے میں گھر سے بیس تیس کیلو میٹر دوری پر دفن کر دیا۔ مظلوم باپ نے داستان غم کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیٹے کی لاش دکھانے سے پولس نے روک دیا۔ اب قبر بھی نہیں دکھا رہی ہے۔ بنارس کے یہ کم سن لڑکے گو گھر سے پولس اٹھاکر لے جاتی ہے اور اس کے ماں باپ کو کہاں لے جارہی ہے اس کی خبر تک نہیں دیتی۔ اس طرح کے بہت سے دلدوز واقعات رونما ہوئے جنھیں مسٹر ہرش مندر اور یوگیندر یادو نے بھی دہلی کی ایک پریس کانفرنس میں زمینی اور تحقیقاتی رپورٹ پیش کی ہے۔ ان دونوں کانفرنسوں کو ’یو ٹیوب‘ میں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔ آج (31 دسمبر) کے ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں سندیپ پانڈے:”Injustice in UP Arresting Md Shoaib, SR Darapuri in UP insults their human rights work legacy.” (اتر پردیش میں نا انصافی- محمد شعیب اور ایس آر دارا پوری کو گرفتار کرکے حکومت نے ان کے انسانی حقوق کے کاموں کی وراثت کی توہین کی ہے)۔
سندیپ پانڈے نے اپنے مضمون میں ان دو دوستوں کے انسانی حقوق کی حفاظت کی اور انسانوں کی بے لوث اوربے غرض خدمات کا ذکر کیا ہے۔ دونوں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ دونوں یوپی کے سوشلسٹ پارٹی سے منسلک ہیں اور برسوں سے مظلوم انسانوں کو جیلوں سے رہائی دلانے جیسے کام کرتے رہے۔ موصوف لکھتے ہیں کہ شعیب ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جو اپنی جواں سالی اور جوان فکری میں سوشلسٹ پارٹی کے نوجوانوں کی تنظیم کا 1965ء میں ممبر تھا۔ وہ سب سے پہلے 1960 میں پس زنداں کیا گیا۔ جبکہ وہ ایک طالب علم تھا۔ دفعہ 144 کو گونڈا ضلع میں خلاف ورزی کی تھی۔ یونیورسٹی میں تقسیم انعامات کے موقع پر اس نے اپنی ڈگری پھاڑتے ہوئے کہا تھا کہ جوانوں کو ڈگری نہیں کام چاہئے۔ کنونشن میں صدر جمہوریہ وی وی گیری بھی موجود تھے۔ اس کیلئے اسے 50 روپئے کا جرمانہ بھرنا پڑا تھا۔ فی الوقت وہ سوشلسٹ پارٹی (انڈیا) کا ریاستی صدر ہے۔ وہ سماجی کاقدروں کا علمبردار ہے۔ وہ ایسے غریب اور مظلوم انسانوں کے مقدمات کی ذمہ داری لیتا ہے جو اپنی مالی کمزوری اور غربت کی وجہ سے کسی وکیل کو انگیز نہیں کرسکتے۔ ایسے لوگوں کے مقدمات کا بوجھ اٹھاتا ہے جن پر دہشت گردی کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں ایسے 13 لوگوں کی رہائی دلانے میں کامیاب ہوا ہے۔ آفتاب عالم انصاری کو بھی رہا کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ کوئی بھی صاف ستھرا نظام یا سوسائٹی اسے غدار ملک یا غدار قوم کا الزام تھوپنے کے بجائے اس کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کرے گی لیکن لکھنؤ میں پولس نے جو اس کے ساتھ ناانصافی کی ہے اسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس پر الزام ہے کہ وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہا تھا۔ اس قدر بیہودہ الزام ایسے ذہن اور حق و انصاف کے علمبردار پر لگانا کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے۔ ایسا شخص جو اپنی نیکی اور بھلائی کیلئے شہر لکھنؤ میں مشہور ہو۔
کالم نگار، رائٹر، میگسیسے ایوارڈ یافتہ مسٹر سندیپ پانڈے آگے کی سطروں میں رقمطراز ہیں ”سب سے زیادہ تعجب اور حیرت کی بات داراپوری کی گرفتاری اور اسیری ہے۔ وہ ایک سابق ریٹائرڈ آئی جی ہیں جو دلتوں اور دیگر طبقوں کی خدمات کیلئے اپنے آپ کو وقف رکھتے ہیں۔ 2004ء میں کلدیپ نیئر کی تشکیل کردہ پارٹی ’راج نیتی منچ‘ کی طرف سے لوک سبھا کے الیکشن میں لکھنؤ سے الیکشن لڑچکے ہیں۔ آل انڈیا پیوپلز فرنٹ کی طرف سے بھی الیکشن میں مقابلہ آرائی کی ہے۔ ایس آر داراپوری سونی بھاندرا ضلع کے قبائلی اور غریب طبقے کیلئے کام کرتے ہیں۔ ہمارے بہت سے دوستوں اور رفقاء کار کو جب بھی کوئی طاقتور شخصیت یا پولس پریشان کرتی ہے تو داراپوری سے ہی ہم رجوع کرتے ہیں۔ ہم دونوں ایک ساتھ بہت مہموں اور تحریکوں میں شرکت کی ہے۔ مثلاً پسماندہ طبقہ، مظلوم دلتوں اور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی حصولیابی کیلئے۔ خوراک کے تحفظ (Security of Food) وغیرہ کی سرکاری اسکیموں کی عمل آوری کیلئے 2008ء میں دونوں کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو پیش کرنے پر شہباز احمد کو لکھنؤ سے بے گناہ اور بے قصور رہائی ملی۔ شہباز کو راجستھان بم بلاسٹ کے کیس میں بھی ملوث کرکے پولس نے اٹھالیا تھا اور اسے پھر ایک نئے کیس میں ملوث کیا گیا ہے۔ سدھارت داراپوری نے جو اسے بچپن سے جانتا ہے، ’فیس بک‘ میں ایک پوسٹ کیا کہ ”شہباز ایک ایسا نوجوان ہے جو اپنے بزرگوں کی عزت و احترام کرتا ہے، اس نے اس وقت بھی اس بدمعاش پر حملہ نہیں کیا جس نے اس پر ایک جیپ سے فائرنگ کی تھی۔ اس نے ایک Gang (مجرموں اور غنڈوں کی ٹولی) کو جس پر انکاؤنٹر ہونے والا تھا اسے ہتھیار ڈالنے پر رضامند کیا اور سب کی زندگی کو ہلاک ہونے سے بچالیا۔ پولس کے ایک گروہ کی جو ذات پات کی بنیادوں پر تقسیم ہوگئی تھی اس کو اپنی انتھک کوششوں سے اصلاح کردی۔ اس نے اپنی سروس ریوالور سے کبھی حملہ نہیں کیا اورنہ کسی کو کسی قسم کی چوٹ پہنچائی۔ میں شعیب اور داراپوری کے بارے میں بغیر کسی لاگ لپیٹ کے حقائق عوامی حلقہ اثر (Public Domain) میں اس لئے حوالے کر رہا ہوں تاکہ لوگ فیصلہ کرسکیں کہ ستر سال کے ان بزرگوں کو کیا جیل کی اندھیری کوٹھری میں بند کیا جاسکتا ہے اور فرضی الزامات عائد کرکے انتقامی کارروائی کی جاسکتی ہے؟ بی جے پی کی کینہ پرور اور انتقامی حکومت نظم و نسق کی کمزوریوں اور ناکامیوں کو چھپانے کیلئے اس طرح کی چھچھوری حرکت کر رہی ہے جس کی وجہ سے دن بہ دن بے نقاب (Expose) ہوتی جارہی ہے“۔ "I’m putting out these facts in the public domain for people to judge whether Shoaib and Darapuri, both septuagenarians, deserve to be in jail. Is the BJP government in UP being vindictive in order to cover up its failure in maintaining law and order?”
سندیپ پانڈے یوپی کی یوگی کی کینہ پرور حکومت کی قلعی کھول دی ہے۔ آج کے ’انڈین ایکسپریس‘ کے حالات پر اداریہ ہے، جس کا عنوان ہے: "Vengeful State UP government’s decision to demand compensation from protesters, arbitrarily targeting one community, is a new low.” (انتقامی جذبات سے بھری ریاست- یوپی کی حکومت کا فیصلہ کہ مظاہرین یا احتجاج کرنے والوں سے معاوضہ کا مطالبہ ایک خاص فرقہ کو نشانہ بنانا ایک قسم کی نئی پستی اور نیچاپن ہے)۔ اداریہ کے آخر میں صاحب تحریر نے لکھا ہے: ” But even by UP’s poor standards, the Adityanath government has touched new lows — from“anti-romeo squads”to the celebration of“encounters”. Now, the chief minister seeks to style the law and order machinery as an agent of revenge. For the government to fulfill its role, law must not be selectively used, or weaponised.”
یوپی جل رہا ہے۔ جنگل راج کا پوری ریاست میں منظر ہے پھر بھی مرکز کی آنکھ بند ہی نہیں ہے بلکہ ملک کی آنکھوں میں یوپی کے متعلق دھول جھونکنے کی کوشش ہورہی ہے۔ جبر و ظلم کی مدافعت کی جارہی ہے مگر اب حالات بد سے بدتر ہوچکے ہیں۔ پولس بدلے کے جذبات سے کام لے رہی ہے۔ مکھیا پولس کو بدلے کی کارروائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ مکھیا جسے مکھ منتری کہتے ہیں بی جے پی کے دو سو ممبران اسمبلی (MLA) ناراض ہیں۔ کچھ دن پہلے مخالفت میں اسمبلی کے اندر ہی بیٹھ گئے تھے۔ پہلے یہ خبر فیس بک میں آئی تھی۔ سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے گزشتہ روز اپنی ایک میٹنگ میں اس خبر کی تصدیق کی اور ببانگ دہل اعلان کیا کہ کیا ایسا نہیں ہوا؟ بی جے پی کے 200 ممبران اسمبلی یوگی کے خلاف اسمبلی ہاؤس میں ناراضگی اور احتجاج میں کئی گھنٹے بیٹھ گئے تھے۔ عوام نے با آواز بلند تصدیق کی۔ امید ہے ظلم کی ٹہنی جو کبھی پھلتی نہیں وہ بہت جلد ٹوٹ کر بکھر جائے گی اور یوگی کو پھر اپنے مٹھ گورکھپور ہی جانا ہوگا۔ خدا سے دعا ہے کیجئے کہ حالت میں جلد سدھار آجائے اور اتر پردیش کے لوگوں کو خاص طور سے معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کو نجات ملے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
Tag: