لداخ کے لیہہ قصبہ کے مکین بزرگ نوانگ زیرنگ ایک چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا تھے۔ دس سال قبل جب لہیہ میں ان سے ملاقات ہوئی، تو وہ اپنی عمر نوے سال بتارہے تھے۔ چند برس قبل ان کا انتقال ہوا۔ اس پیرانہ سالی میں وہ 1962ء کی بھارت،چین جنگ کے قصے کچھ ایسے بیان کرتے تھے ، جیسے کل کے واقعات ہوں۔ ان کی بات چیت تاریخ کے کچھ ایسے دریچے کھول دیتی تھی، جو صفحات پر آنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس جنگ کے دوران انہوں نے دولت بیگ اولدائی کے مقام پر بھارتی فوج کیلئے پورٹر اور گائیڈ کا کام کیا۔ ہمالیہ اور قراقرم کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے درمیان دولت بیگ اولدائی ایک وسیع و عریض بے آب و گیاہ سرد ریگستان ہے۔ موسم گرم کے بس چند ماہ اس میدان میں گھاس اور پھول دکھائی دیتے ہیں، ورنہ اس کی سطح کہر اور برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ سولہویں صدی میں جب کشمیر اور وسط ایشیا کے درمیان روابط عروج پر تھے، تو یارقند کے اولدائی قبیلہ کے ترک امیر سلطان سعید خان عرف دولت بیگ اور اسکا قافلہ جب کشمیر اور لداخ پر فوج کشی کے بعد واپس جا رہا تھا کہ اس مقام پر برفانی طوفان نے ان کو آگھیرا۔ چار صدی بعد برطانوی سرویئر جنرل والٹر لارنس پیمائش کیلئے اس علاقہ میں پہنچا تو وہاں انسانوں اور جانوروں کی ہڈیاں بکھری نظر آئیں۔ مقامی افراد نے اس کو بتایا کہ یہ دولت بیگ اولدائی کے قافلہ کی باقیات ہیں۔ ان کو دفن کرنے کے بعد لارنس نے اس وسیع و عریض میدان اور اسکے اطراف کا نام دولت بیگ اولدائی رکھا۔ اس علاقہ میں جاڑوں میں درجہ حرارت منفی 55 ڈگری تک گر جاتا ہے۔ یہاں سے چینی سرحد بس آٹھ کلومیٹر کی دوری پر ہے اور سب سے قریبی انسانی آبادی سوکلومیٹر دور مورگو گاوٗں ہے، جہاں بلتی نسل کی آبادی ہے اور بھاری تعداد میں بھارتی فوج ہے۔
خیر زیرنگ کا کہنا تھا کہ کہ 1962ء میں وہ اس علاقہ میں 14جموں و کشمیر ملیشیا (اب اس کا نام جموں و کشمیر لائٹ انفینٹری ہے) اور پانچویں جاٹ رجمنٹ کے ساتھ بطور گائیڈ و پورٹر منسلک تھا۔ اس علاقہ میں بھارتی فوج کا بٹا لین ہیڈ کوارٹر بھی تھااور اس کے آس پاس 21فوجی چوکیاں قائم کی گئی تھیں۔ اکتوبر میں جنگ چھڑ چکی تھی، مگر دولت بیگ کا علاقہ ابھی تک محفوظ تھا۔ 20اکتوبر کے آس پاس دوری پر قزال ، جلگا اور چاپ چپ وادی میں چینی فوج کے داخل ہونے کی خبریں موصول ہوئی۔ ابھی تک دولت بیگ کی طرف ان کے کوچ کی کوئی خبر نہیں تھی۔ مگر 23اکتوبر کی ٹھنڈی صبح جب زیرنگ بیدا ہوا ، تو دیکھا کہ پورا بٹالین ہیڈ کوارٹر ہی خالی ہے۔ کسی جنگ کے بغیر ہی لیفٹنٹ کرنل نہال سنگھ اور میجر ایس ایس رندھاوا کی قیادت میں فوج نے پسپائی اختیار کی تھی۔ ان کو اندازہ تھا کہ چپ چاپ وادی کے بعد چینی فوج دولت بیگ تک ضرور آجائیگی۔ تاہم وزارت دفاع کی ہسٹری ڈویژن میں 480صفحات پر مشتمل اس جنگ پر مبنی دستاویز (جس پر ابھی بھی محدود اور اسکرٹ کا ٹھپہ لگا ہوا ہے)میں لکھا ہے کہ اس علاقہ پر چینی فوجوں نے حملہ کیا اور کئی چوکیوں پر قبضہ بھی کیا۔ پھر بھارتی فوج کی بٹالین نے سبھی جنگی آپریٹنگ طریقہ کارں کو روبہ عمل لاتے ہوئے راشن ، بھاری ہتھیار اور امیونیشن ڈپو کو تباہ کرتے ہوئے بہادری کے ساتھ 22 اکتوبر کی رات پسپائی اختیار کی۔ بزرگ زیرنگ کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ پسپائی کی کچھ ایسی جلدی تھی ، کہ کسی نے بھی اس پورٹر اور گائیڈ کو جگانے کی زحمت نہیں کی۔ اور تو اور جن ٹرکوں پر و ہ فرار ہورہے تھے، چند میل کے فاصلہ پر رات کے اندھیرے میں وہ ایک برفانی جیل میں پھنس گئے۔دن کا انتظار کرکے ان کو ٹھیک کرنے کے بجائے ، فوج نے پیدل ہی مورگو کی طرف مارچ کیا، جہاں سے ان کو لہیہ لے جایا گیا۔ نہال سنگھ اور رنڈھاوا نے وہاں بیان درج کروایا کہ دولت بیگ پر چینی فوج کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اگلے سات ماہ تک زیرنگ نے اس علاقہ میں اکیلے زندگی گذاری۔ چونکہ راشن اور ایندھن وافر مقدار میں تھا، اسلئے کھانے پینے کی کوئی دقت نہیں تھی۔ اکیلے پن اور کسی انسانی وجود کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ کسی وقت دعا مانگتا تھا کہ کاش چینی فوج آکر اسکو جنگی قیدی ہی بنا ڈالے۔
موسم بہار کی آمد تک جب کسی نے اس علاقہ کے سدھ بدھ نہیں لی، تو اس نے پیدل مارچ کرنا شروع کیا۔ شاید دو دن متواتر پیدل مارچ کرنے کے بعد نیچی پرواز کرتا ہوا ایک ہیلی کاپٹر نظر آیا، جس کو و ہ اپنی موجودگی کا احس دلانے میں کامیاب ہوا۔ ہیلی کاپٹر میں موجود بھارتی فضائیہ اور خفیہ محکمہ کے افراد بھی اکتوبر 1962میں ہوئی جنگ میں چینی دراندازی اور علاقہ پر قبضہ کی نوعیت کا پتہ لگانے کے مشن پر تھے۔ زیرنگ کی اطلاع پر وہ بھی حیران تھے، کیونکہ سرکاری فائلوں میں دولت بیگ پر چینی قبضہ دکھایا گیا تھا، جبکہ پورٹر کے بیان کے مطابق اس علاقہ میں چینی فوج آئی ہی نہیں تھی۔ آخر چینی افواج نے دولت بیگ کو اپنے قبضہ میں کیوں نہیں لیا ہنوز ایک معمہ ہے۔ یہ وسیع و عریض میدان ایک طرح کا قدرتی ہوائی مستقر ہے۔ بھارت فوج اب اس کو ہوائی پٹی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بہر حال آج کل ایک بار پھر بھارتی اور چینی افواج لداخ اور شمال مشرق میں سکم و اروناچل پردیش کے علاقوں میں آمنے سامنے ہیں۔2013ء کے دیپ سانگ واقعہ کے بعد اس طرح کے واقعات متواتر پیش آرہے ہیں۔ برف پگلنے کے بعد دونوں ملکوں کی افواج پیٹرولنگ کیلئے نکلتی ہیں۔
چونکہ علاقے میں بارڈر کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے، اس لئے فوجیں متنازعہ علاقوں کی پیٹرولنگ کرکے اس پر علامتی حق جتاتی ہیں۔ چند برسوں سے جیسے 2014ء میں چمور اور 2017ء میں ڈوکلام کے مقام پر چینی افواج نے صرف پیٹرولنگ کے بجائے باضابط ڈیرا ڈال کر چوکیاں بنائی۔ بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار بھی چینی دراندازی کا انداز بالکل مختلف ہے اور وہ کسی بھی صورت میں واپس جانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ 2013ء کے بعد سے چینی برتاو میں تبدیلی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ہے کہ چالیس سال سے جاری مذاکرات کا کوئی سرا نظر نہیں آتا ہے، اور اس سے بھی بڑی وجہ جولائی 2011ء میں کاشغر میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکے ہیں، جن کے تار بھارت میں پائے گئے۔ بھارتی کابینہ میں موجودہ وزیرجنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ جب 2010ء میں من موہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے دور میں فوجی سربراہ مقرر ہوئے ، تو انہوں نے ایک انتہائی خفیہ یونٹ ’ٹیکنیکل سروسز ڈویژن‘(ٹی ایس ڈی) تشکیل دیا۔ مئی 2012ء میں وی کے سنگھ کی سبکدوشی کے فوراً بعد جب نئے آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے ٹی ایس ڈی کو تحلیل کرکے اس یونٹ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک محکمانہ انکوائری کا حکم دیا، تو حکومت کے ہوش اڑ گئے۔ ملٹری آپریشن کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ونود بھاٹیہ کی قیادت میں تقریباً ایک سال کی عرق ریزی کے بعدانکوائری کمیٹی نے ہوش رْبا انکشافات پر مشتمل ایک رپورٹ جولائی میں آرمی چیف کے سپرد کی اور اسے انتہائی خفیہ رکھنے کی تاکید کی۔
سابق آرمی چیف نے ریٹائر ہونے کے بعد حکمران کانگریس کے خلاف سیاسی محاذکھولا تھا، حتّٰی کہ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا۔اس وجہ سے کانگریسی زعما کا خیال تھا کی اس رپورٹ کے کچھ اقتباسات افشا کرکے جنرل سنگھ کو ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پرت در پرت ظاہر ہونے والی ٹی ایس ڈی کی سرگرمیاںفارن آفس کے ہوش اڑا دیںگی اور ہمسایہ ممالک کے بارے میں بھارت کی فوجی اور خارجہ پالیسی کے تضاد کو بے نقاب کردیں گی۔ رپورٹ کے افشا کے فوراً بعد حکومتی حلقوں نے خم ٹھونک کر اعلان کیا تھاکہ جنرل سنگھ اور ان کے قائم کردہ خفیہ یونٹ کی سرگرمیوں کی مزید جانچ مرکزی تفتیشی ایجنسی(سی بی آئی) سے کروائی جائے گی اور تفتیش کے اختتام پر ایک چارج شیٹ بھی کورٹ میں پیش کی جائے گی۔ تب تک جنرل سنگھ کے خلاف الزامات کا دائرہ کشمیر میں سیاستدانوں کو رقوم کی فراہمی اور وزارت دفاع کے افسروں اور فوج میں اپنے مخالفین کی فون کالزٹیپ کرنے تک محدود تھا،مگر جب یہ رپورٹ وزیراعظم کے دفتر پہنچی تویہ ہوش رْبا انکشاف ہوا کہ نہ صرف اس فوجی یونٹ نے پاکستان کے اندر آپریشن ’ڈیپ اسٹرائیک‘ کے کوڈ نام کے تحت کارروائیاں کی ہیں بلکہ چینی صوبہ سنکیانگ تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے ۔کاشغر میں ہوئے دھماکے اور چین کے دیگر علاقوں میں افراتفری کیلئے بھی اسی یونٹ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ تو اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا کہ جامع تحقیقات سی بی آئی کے بجائے انٹیلی جنس ایجنسی (آئی بی) کے سپر د کی جائے تاکہ تحقیقات خفیہ رہے۔
جنرل بھاٹیہ کمیٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس خفیہ یونٹ نے ایک ہمسایہ ملک میں آٹھ بم دھماکے کرنے کے لیے وسائل فراہم کیے اور ایک دوسرے ہمسایہ ملک میں سیاسی اور مذہبی بے چینی کو ہوا دی۔ اس یونٹ نے ہمسایہ ملک میں سرگرم علیحدگی پسندوں کو نہ صرف وسائل فراہم کیے بلکہ انہیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی تحریک بھی دی۔ دراصل جنرل سنگھ کے پیش روجنرل دیپک کپور نے اس طرح کاایک ڈویژن قائم کرنے کی تجویز اس وقت کے وزیر دفاع اے کے انٹونی کو پیش کی تھی جس پر کابینہ کی سلامتی سے متعلق کمیٹی میں بحث بھی ہوئی۔ فوج کے ایک حلقے کاکہنا ہے کہ انٹونی نے جنرل سنگھ سے پہلے ہی اس یونٹ کے قیام پر اپنی مہر ثبت کردی تھی ، مگر انٹونی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ یونٹ سیاسی منظوری کے بغیر قائم کیاگیاتھا۔ حقائق جو بھی ہوں،اس یونٹ نے اپنا کام باضابطہ طور پرجنرل سنگھ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد مئی2010 سے شروع کیا اور40 افراد ،جن میں آٹھ افسران اور32 دوسرے رینکس کے اہلکارتھے ،کو اس کے کورگروپ میں شامل کیا گیا۔ یہ افراد براہ راست آرمی چیف کو رپورٹ کرتے تھے جبکہ انتظامی طور پر ان کو ملٹری انٹیلی جنس کے ایم ون 25 یونٹ کے ماتحت رکھا گیا۔ اس مدت کے دوران کئی مقامات ،خصوصاً جموں، سرینگر، احمدآباد، گوہاٹی اور ممبئی میں اس یونٹ نے کئی خفیہ ٹھکانے بنائے اور انتہائی جدید ٹیلی فون ریکارڈنگ مشینیں درآمد کیں۔اس پیشرفت کے بعد انٹیلی جنس بیورو کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے سویلین انتظامیہ کو متنبہ کیاکہ فوج غیرقانونی طور پر افسروں اور سیاسی قیادت کے فون ٹیپ کررہی ہے۔ چند مشینوں کے سوا ،جنہیں لائن آف کنٹرول اور چینی سرحد پر متعین کیا گیا تھا، باقی مشینوں کو آئی بی نے 2013ء میں ناکارہ بنادیا اور ان میں سے ایک کو سرینگر میں دریائے جہلم کی نذر کردیاگیا۔
اس یونٹ کا ہیڈکوارٹر دہلی کی فوجی چھائونی کے اندردومنزلہ عمارت میں بنایاگیا تھا جو جلد ہی فوجیوں میں Butchery یعنی ’قصاب خانہ‘کہلانے لگا۔ڈویژن کی کمان جنرل سنگھ نے اپنے ایک دیرینہ رفیق کار کرنل مہیشور ناتھ بخشی المعروف ھنی بخشی کے سپرد کی تھی۔ مینڈیٹ کے بارے میں آرمی افسروں کا کہنا ہے کہ اس کا ہدف بھارت کی سکیورٹی پر اثر انداز ملکوں کے اندر آپریشن کرنا، عسکریت کے منبع کا قلع قمع کرنااور اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے ان ملکوں میں علیحدگی پسندعناصرکو وسائل فراہم کرنا اور ملک میںجاری شورش ختم کرنا تھا۔ فوجی افسروں کے مطابق یہ سارے اہداف صرف 20سے30 کروڑ روپے سالانہ خرچ کرکے حاصل کئے گئے تھے۔ 2012ء میں اس پوری یونٹ کو تحلیل کرنے کے بعد کرنل ہنی بخشی کو ملٹری پولیس نے حراست میں لیکر اسکے کورٹ مارشل کے احکامات صادر کئے۔ دہلی چھائونی میں اسی قصاب خانہ میں ہی ان کو زیر حراست رکھا گیا ۔
مگر مئی 2014میں نریندر مودی کے برسراقتدار آتے ہی ، کورٹ مارشل کی کارروائی ختم کر دی گئی۔ جنرل وی کے سنگھ کو وزارت میں شامل کرکے وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنایا گیا۔ فی الوقت و ہ زمینی ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے وزیر ہیں۔ کرنل ہنی بخشی کی مراعات بحال کرکے ان کو بریگیڈئر کا درجہ دیکر ریٹائرڈ کر کے پوری تحقیقات ہی داخل دفترکی گئی۔ گو کہ من موہن سنگھ حکومت چینی ہم منصبوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی ، کہ اس یونٹ کی سرگرمیوں کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور کورٹ مارشل کی کارروائی کرکے اس نے چینی حکومت کو کسی طرح قائل بھی کردیا تھا ۔ مگر مودی نے آتے ہی جس طرح اس یونٹ کی کارروائیوں کو سراہا ہے ، ظاہر ہے کہ بیجنگ میں اس سے خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ شاید چین کسی اور ایشو کو صرف نظر بھی کرتا، مگر کاشغر میں ہوئے بم دھماکوں اور کئی دیگر علاقوں میں ہوئی تخریبی کارروائیوں کیلئے وہ غلطیوں کو بخشنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ چینیوں کی ناراضگی کی ایک دوسری وجہ سرحدی علاقوں میں بھارتی فوجیوں کی بڑھتی ہوئی نقل و حرکت ہے۔
چندسال قبل بھارتی کابینہ کی سلامتی سے متعلق امورکی کمیٹی نے چین کو سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مشرقی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پانچ سو ارب روپے کی منظوری دی جس کے تحت اس خطے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور ایک نئی فوجی سٹرائیک کور کا قیام شامل ہے۔پچھلے سال 66روڈ پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی۔ جس میں ایک نیپال کی سرحد سے ملحق تبت میں موجود ہندو تیرتھ استھان کیلاش مانسرور جانے کا راستہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح بھارت‘ شمالی صوبہ ہماچل پردیش کو لداخ سے ایک ٹنل کے ذریعے جوڑنے کے لیے ایک خطیر رقم بھی مختص کر چکا ہے۔ ان اقدامات کے بعد چین کا رد عمل لازمی تھا۔
تیسری وجہ ہے کہ سفارتی سطح پر بھارت کسی بھی طرح سے سرحدی تنازعات کو سلجھانے میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ بھارت جوں کی توں پوزیشن برقرار رکھنے میں بضد ہے، اسلئے مذاکرات کو طول دے رہا ہے۔ 1988ء میں راجیو گاندھی نے بیجنگ جاکر نئے تعلقات کی داغ بیل ڈالی تھی۔ چینی راہنما صدر یانگ شانگ کن ، وزیر اعظم لی پنگ اور ملٹری کمیشن کے سربراہ دنگ زیائو پنگ اسوقت چین کو ایک تجارتی اور مینوفیکچرنگ مرکز بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوتے تھے ۔
اپنے اردگرد 14میں سے 13ممالک کے ساتھ چین سرحدی تنازعہ سلجھانے کی تگ و دو کررہا تھا ، تاکہ اسکی پوری توجہ معاشی ایشوز کی طرف مرکوزرہے۔ صرف بھارت واحد ملک تھا ، جس کے ساتھ سرحدی تنازعات کے سلسلے میں کوئی میکانزم موجود نہیں تھا۔ راجیو گاندھی کے دورہ کے دوران سرحدی تنازعات کو سلجھانے کیلئے دونوں ملکوں کے فارن دفاتر میں مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دئے گئے۔ 1993ء میں وزیر اعظم نرسہما راوٗ نے اس سعی کو اورآگے لیجاکر سرحدوں کو پرامن رکھنے کے ایک معاہدہ پر دستخط کئے۔ اس کے مطابق دونوں ملکوں کی فوجی پارٹیاں ہتھیاروں کے بغیر پٹرولنگ کرکے واپس اپنے کیمپوں میں چلی جائیگی اور متنازعہ علاقوں میں جانے سے قبل ایک دوسر ے کو مطلع کرینگی۔اسکے علاوہ ان علاقوں میں کوئی انفراسٹرکچر کھڑا نہیں کیا جائیگا۔ 2003ء میں چین نے شکایت کی کہ فارن دفاتر کے ورکنگ گروپ تنازعہ کو سلجھانے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی بیجنگ آمد پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ اس مسئلہ کو فارن آفس سے لیکر بھارتی وزیر اعظم اور چینی صدر کے قریبی معتمدوں کے حوالے کیا جائے۔ اس طرح خصوصی نمائندو ں کا تقرر ہوا۔ بھارت کی طرف سے طے ہوا کہ قومی سلامتی مشیر ، چونکہ ہمہ وقت وزیر اعظم کے رابطہ میں رہتا ہے، وہ چینی ہم منصبوں کے ساتھ گفت شنید کریگا۔ پچھلے سال تک دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں نے 22ادوار کے مذاکرات کئے ہیں۔
دو سال قبل سابق قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن نے راقم کو بتایا کہ خصوصی نمائندو ں کا رول اب ختم ہو چکا ہے۔ مینن ، جنہوں نے پانچ سال تک یہ فریضہ انجام دیا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب دائی بنگو کے ساتھ مل کر لو اور دو کے فارمولہ کے تحت ایک حل ترتیب دیا ہے۔ اور اب اعلیٰ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اسکو باضابط میز پر لائے، جو وہ کرنے سے کترارہی ہے۔ دائی بنگو نے اپنے منصب سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایک چینی جرنل میں لکھا تھا کہ انہون نے بھارت کو تجویز دی تھی کہ گراونڈ پوزیشن کا احترام کرتے ہوئے، دونوں ممالک یعنی بھارت لداخ میں اکسائی چن پر اور چین شمال مشرق میں اروناچل پردیش پر دعویٰ واپس لی لیں اور پھر باقی سیکٹریز میں جو بارڈر پر تقریباً پانچ کلومیٹر کا تفاوت ہے اسکو بھی مختلف سیکٹرز میں لو اور دو کے اصول کے تحت حل کرلیں۔ مگر بھارت کی طرف سے اس تجویز کا کوئی جواب نہیں آیا اور وہ ہر سال خصوصی نمائندوں کی میٹنگ کبھی بیجنگ اور کبھی دہلی میں طلب کرتا ہے۔
2016ء میںچینی فارن آفس کی دعوت پر دہلی میں کام کرنے والے تین صحافیوں نے تبت کا ایک تفصیلی دورہ کیا۔ میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔ تبت اور یننان صوبہ کے شنگریلا علاقے سے واپسی پر بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے سینیر افسران نے ہمیں بریفنگ میں بتایا کہ ان کا ملک مذاکرات برائے مذاکرات کا قائل نہیں ہے۔ اگر مذاکرات حل کی طرف گامزن نہ ہوں، تو وہ وقت اور قومی وسائل برباد نہیں کرسکتے ہیں۔ یعنی ہمارے ذریعے ایک براہ راست وارننگ پہنچائی جا ررہی تھی کہ مذاکرات کے سلسلے میں چین کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے۔ چین کی ناراضگی کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ حالیہ عرصے میں جو دستاویزات سامنے آئے ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت۔چین سرحدی تنازعہ بس ایک مفروضہ ہے، جس سے پچھلے 70سالوں سے بھارتی حکومت عوام و میڈیا کو بیوقوف بنارہی ہے۔
اسی وجہ سے 58سال گذرنے کے باوجود بھی 1962ء کی جنگ پر مبنی جنرل ہینڈرسن بروکس اور برگیڈیر پریم بھگت کی تصنیف شدہ رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جا رہی ہے۔ معروف صحافی کلدیپ نائر نے اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کیلئے کئی بار پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھایا۔ بعد میںحق اطلاعات قانون کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ایک پیٹیشن دائر کی۔ جس کو اس وقت کے چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ نے کئی پیشیوں کے بعد خارج کردیا۔ اس دوران میں نے کئی بار انفارمیشن کمیشن کی کاروائی کو کور کیا۔ حبیب اللہ نے فیصلہ صادر کرنے سے قبل وزارت دفاع سے رپورٹ منگوا کر اسکا مطالعہ کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ اسکی بس ایک ہی کاپی ہے اور و ہ سیکرٹری دفاع کے کمرے میں ایک تجوری میں بند رہتی ہے اور اسکی کنجی صرف سیکرٹری کے پاس ہی ہوتی ہے۔ حال ہی میں حبیب اللہ نے راقم کو بتایا کہ وہ اس رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے اور کلدیپ نائر کی پیٹیشن کو خارج کرنے کے اپنے فیصلہ پر قائم ہیں، کیونکہ اس رپورٹ میں بھارتی فوج پر خاصے برے کمنٹ کئے گئے ہیں اور وہ ابھی بھی ان کے مورال کو ڈاون کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے نقشوں میں اس قدر تفاوت ہے کہ چین اس کو ایشو بنا کر بارڈر مذاکرات میں برتری حاصل کر سکتا ہے۔
بھارت کے ایک معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ سرحدی تنازع ایک مفروضے کے سوا کچھ نہیں ، جس کو بھارتی سفارت کاری نے گزشتہ تین دہائیوں سے فریب اور دھوکہ دہی کے ذریعے بڑی کامیابی سے دنیا کے سامنے پیش کررکھا ہے۔ اس جھوٹے پروپیگنڈہ کا آغاز کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے خود کیا تھا۔ لیکن اب دستاویزی ثبوتوں اور تاریخی حقائق سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ یہ تنازع دنیا کے سامنے تاریخ اور پھر سرحدی نقشوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے کے پیش کیا گیا ہے۔ جو حقائق سامنے آئے ہیںان سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بھارتی رہنمائوں اور سفارت کاروں نے 1959ء میں تاریخی حقائق کو میڈیا اورتحقیقی اداروں سے دور رکھا ‘ جس کے انتہائی نقصان دہ اور دوررس مضمرات رونما ہوئے۔ حد یہ ہے کہ کشمیر میں آزادی پسند رہنما بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوکر بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے چین‘ پاکستان سرحدی معاہدے پر انگلیاں اٹھاتے رہے۔بھارت کے سیاسی لیڈراکثر اس الزام کو دہراتے رہتے ہیں اور میڈیا ان بیانات کو آسمانی فرمان سمجھ کرقبول کرلیتا ہے۔27اکتوبر1947ء کو جس وقت بھارتی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئی، تو ریاست جموں و کشمیر کا رقبہ 82,258 مربع میل دکھایا گیا۔
بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل نے جب ریاستوں سے متعلق ایک وائٹ پیپر جاری کیا، تو اس میں بھی یہی رقبہ دکھایا گیا۔ 1891ء میں پہلی مردم شماری کے وقت ریاست کا رقبہ 80,900 مربع میل دکھایا گیا تھا۔مگر 1911ء کی مردم شماری میں رقبہ بڑھا کر 84,258مربع ریکارڈ کیا گیا۔مردم شماری کے کمشنر کی رائے پر 1941میں اس رقبہ کو گھٹا کر 82,258مربع میل کردیا گیا۔1951ء میں پہلی مردم شماری کے وقت اسی کو دہرایا گیا۔ البتہ 1961ء کی مردم شماری میں ریاست کے رقبہ کو بڑھا کر 86,024 مربع میل دکھایا گیا۔یہ جغرافیہ کہاں سے حاصل ہوا، ایک سیسپنس ہے۔ اس دوران کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی تھی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت نے جموں و کشمیر کے رقبہ میں 3,766مربع میل کا اضافہ 1960ء میں پاکستان کے صدر ایوب خان کے ساتھ کراچی میں تاریخی سندھ طاس آبی معاہدہ پر دستخط کرکے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے وطن لوٹنے کے فوراََ بعد کیا۔ ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ مری کے مرغزاروں میں ایک غیررسمی بات چیت کے دوران وزیر اعظم نہرو نے معلوم کیا کہ کیا پاکستان چین کے ساتھ سرحدی تنازع کے سلسلے میں کسی طرح کی بات چیت کررہا ہے۔ جب ایوب خان نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے اس کے نقشے کوایک نظر دیکھنے کی درخواست کی۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ یہ ایک بالکل ہی غیررسمی ملاقات تھی۔ ایوب خان نقشے کی ایک نقل بھیجنے کے لیے راضی ہوگئے لیکن پنڈت نہرو نے دہلی لوٹتے ہی اس پر سفارتی ہنگامہ مچا دیا۔ انہوں نے ایک سفارتی نوٹس جاری کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ آفیشیل چینل کے ذریعے مذکورہ نقشہ بھارت کے حوالے کرے۔ نہرونے اسے پاکستان اور چین کی تیار کردہ سازش تک قرار دے دیا۔
قدرت اللہ شہاب کی تقریباََانہیںباتوں کی تصدیق کرتے ہوئے اے جی نورانی نے اپنی کتابIndia-China Boundry Problem-1846-1947: History and Diplomacy میں لکھا ہے کہ وزارت خارجہ نے کس طرح پرانے نقشوں کو جلا دیا اور یک طرفہ طور پر ایک نیا موقف اپنایا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے صدر دفتر ساوتھ بلاک میں رات بھر چلے ایک آپریشن میں تمام نقشے جلائے گئے اور نئے نقشے ترتیب دئے گئے۔ وزیراعظم جواہر لال نہرو کی طرف سے سترہ پیراگراف پر مشتمل ایک میمورنڈم جاری کیا گیا جس میں تمام پرانے نقشوں کی نفی کرنے کی ہدایت دی گئی۔ دستاویزی ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جو نئے نقشے تیار کئے گئے ان میں شمالی اورشمال مشرقی سرحدوں کوکسی لائن کے حوالے کے بغیر دکھایا گیا۔ پنڈت نہرو نے ان نقشوں کوبیرونی ملکوں میں تمام سفارت خانوں کو بھیجنے کا بھی حکم دیا اور مشورہ دیا کہ انہیں عوامی طور پر شائع کیا جائے اور اسکولوں اور کالجوں میں استعمال کیا جائے۔ انہوں نے حکام کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ان سرحدوں کو ٹھوس اور حتمی سمجھا جائے اورکسی کو ان پر بحث کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس میمورنڈم میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’’کچھ معمولی نکات پر بات چیت ہوسکتی ہے لیکن ہم اسے اپنی طرف سے نہیں اٹھائیں گے۔ یہ ضروری ہے کہ پورے سرحدی علاقوں پر چیک پوسٹ کا سسٹم پھیلا دیا جائے خاص طور پرا ن علاقوں میں جنہیں متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے‘‘۔وزیر اعظم نہرو کے اس ہدایت نامہ نے سرحد کے متعلق بات چیت کے دروازے ہی بند کردیے۔ مغربی(کشمیر) اور وسطی سیکٹر(اترپردیش) میں ’غیر واضح سرحد‘ کا جو نشان 1948ء اور 1950ئکے سرکاری نقشے میں تھا اسے 1954ء کے نئے نقشے میں ختم کردیا گیا۔مزید برآں حکومت نے یہ تاثر بھی پیش کیا ‘ جسے کشمیری لیڈروں نے بھی بڑی حد تسلیم کرلیا ‘کہ پاکستان نے کچھ علاقہ چین کے حوالے کردیا ہے۔
تاہم دستاویزی ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت اسکے برعکس تھی۔ دراصل 3مارچ1963ء کو پاک‘ چین معاہدہ کے تحت چین نے ا پنا 750مربع میل کا علاقہ پاکستان کے حوالے کیا تھا۔ تھا۔یونیورسٹی آف کلکتہ اینڈ نارتھ بردوان کے ڈاکٹر بی این گوسوامی کا بھی یہی خیال ہے کہ ’’محدود ہی سہی لیکن عوام کا ایک قابل ذکر طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ معاہدہ مناسب اور درست تھا ‘‘۔ بیرون ملک کے غیر جانبدار مبصرین اوراس موضوع کے ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ بھارت کے اس دعوے میں کوئی زیادہ زور نہیں ہے کہ پاکستان نے اپنا علاقہ چین کے حوالے کردیا ہے۔ نورانی ایک منقسم کابینہ‘ غیر ذمہ دار اپوزیشن ‘لاعلم پریس اور غیر مستحکم پارلیمنٹ کو سرحد کے مسئلہ کو پیچیدہ بنانے کے لیے ذمہ دار گردانتے ہیں۔وہ مزید انکشاف کرتے ہیں کہ وزارت خارجہ میں شعبہ تاریخ کے ڈائریکٹر کے زکریا نے 1953ء میں جو جامع اور معروضی مطالعہ پیش کیا تھااس پر اب تک رازداری کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تاریخی حقائق اور سرحدی تنازع سے متعلق بھارتی پالیسی میں کوئی میل دکھائی نہیں دیتااور سفارت کاری نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنادیاہے۔چینی وزیر اعظم چو این لائی بھی 1960ء میں نئی دہلی کے دورہ کے دوران مسئلے کے کسی حل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے جب کہ چینی رہنما دنگ زیائو پینگ نے بھی 1978چین کے دورے پر گئے اس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی سے سرحدی تنازع کو حل کرنے کی بات کہی تھی۔ نورانی کا خیال ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان گہرے ہوتے اختلافات کے سفارتی نقصانات لامحدود ہیں بالخصوص ایسی صورت حال میں جب کہ بھارت کے اپنے پڑوسیوں اور خاص طور پر پاکستا ن کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)