تم نے دیکھی ہے کبھی
عشق کے مست قلندر کی دھمال
درد کی لے میں پٹختا ہوا سر اور تڑپتا ہوا تن من
پیر پتھر پہ بھی پڑ جائیں تو دھول اٹھنے لگے
اور کسی دھیان میں لپٹا ہوا یہ ہجر زدہ جسم
رقص کرتا ہوا گر جائے کہیں
تو زمیں درد کی شدت سے تڑپنے لگ جائے
ہجر کی لمبی مسافت کا رِدھم گھوڑوں کی ٹاپوں میں گندھا ہے
رقص دراصل ریاضت ہے کسی ایسے سفر کی
جسے وہ کر نہیں پایا
تم نے دیکھے ہیں کبھی
شہر کے وسط میں گھڑیال کے روندے ہوئے پل
جن میں چاہت کے ہزاروں قصے
عشق کے سبز اجالے میں کئی زرد بدن
اپنے ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں
تم نے دیکھے نہیں شاید
عشق میں ہارے ہوئے جسم
جسم ایسے جو کبھی پوریں بھی کٹ جائیں
توپھر خوں کی جگہ اشک نکلتے ہیں وہاں
حسرتیں دل میں چھپائے ہوئے کچھ لوگ یہاں
دم بدم بہتی ہوئی آنکھوں سے لکھتے ہیں کہانی
یہ نئی بات نہیں
واقعہ ایک ہے کردار بدل جاتے ہیں
ایک تیشہ ہے مگر وار بدل جاتے ہیں
Tag: