(افسانہ)
فوزیہ مغل
یہ شہر یہ ملک چھوڑ دینا ہی چاہئے جہاں باصلاحیت ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا بس با اختیار ہونا ہی سب کچھ ہے آج ذہن میں عجیب کشمکش جاری تھی بڑی ہمت کے ساتھ زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں کر چل رہی تھی مگر تھی تو اندر سے ایک حساس و نازک انسان آج بے چینی کی وجہ میری اس دور کے ایک بہت ہی بڑے فرعون سے آج کی ملاقات تھی۔
وہ بہت بڑی سرکاری سیٹ پر بیٹھا تھا اس کے سامنے موبلز و ٹیلی فونز سے بھرا میز تھاگردن تو بمشکل تین انچ کی بھی نہیں تھی مگر غرورکا سریا کئی فٹ کا گھڑا تھا چہرا ایسے جانور سے مل رہا کہ اس کا نام بھی لے تو زبان کئی دنوں تک ناپاک رہتی۔کمرے میں سگریٹ کی ایسی بُو پھیلی ہوئی تھی کہ دم گھٹ جائے ، اس پر قیامت کہ وہ فرعون خود کو ایک بہت اعلیٰ و معزز خاندان کا چشم و چراغ سمجھ رہا تھا اوراس جھوٹے دعویٰ کو سچا باور کروانے میں سر سے پیر تک زور لگا رہا تھا۔شاید وہ خود کو اس لئے حق بجانب سمجھتا تھا کیونکہ اس کا والد ہجرت کے بعداتفاق سے ایک ماڈرن علاقے کی مسجد کا اتفاقیہ مولوی بن گیا تھا جہاں ارد گرد میں ہجرت کے مارے دکھی خاندان بھی آباد ہو گئے تھے جو کہ اپنوں کی جدائیوں کے زخم دلوں پر سجائے اپنوں کی مغفرت کی دُعا کے لئے رنگ برنگ پکوان کے چڑھاؤں چڑھاتے اور مولوی اکثر اپنی بے عمل باتوں کے بدلے گھر گھر کے الگ الگ ذائقوں کے پکوانوں ایسے سیر ہو کے کھاتے ہیں کہ انہیں اپنے ارد گرد تو کیا اپنی ناک کے نیچے یعنی ان کے گھروں میں کیا کھیل کھیلا جاتا ہیں انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا ان میں اکثریت لکیر کے فقیروں کی ہوتی ہیں جو رٹی رٹائی تقریروں جیسے خطبے پڑھتے ہیں بے عمل خطبوں کا اثر بھی ویسے ہی ہوتا ہے جیسا اس مولوی ذادے پر ہوا ہے تعجب کی بات تو یہ ہوتی ہے کہ ان پر ختم درود کی روٹیوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا جس کی عملی مثال میرے سامنے موجود تھی ۔انتہائی ڈ ھٹ اور سازشی دماغ کا مالک واقع ہوا تھا اس نے اپنے سازشی سوچ کے ساتھ زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے لفظوں کی نگری میں پناہ ڈھونڈی اور شاعری میں ایک گُرو بنا لیا اور الٹے سدھے منتر جاپنے لگاابھی منتر پکے بھی نہیں ہوئے تھے کہ گُرو کی جگہ لینے کے لئے پر تولنے لگا اور اپنے چیلے بنانے کی جدو جہد میں لگ گیا۔
ان چیلوں میں سے ایک نے ایک دن گاؤں کے حالات پر مبنی ڈرامے کا پلاٹ پر بہت با اثر انداز میں ڈسکس کیا اور کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں اس پر بہت کچھ لکھوں۔ اس کے جانے کے بعدفورا اپنے لئے اس پلاٹ میں رنگ بھرنے کی کوشش میں لگا گیا پھر کچھ ہی ماہ کی کوشش کے بعد وہ ڈرامہ ٹی وی کی زینت بن گیا جس نے اس کی گردن میں پہلا سریا ٹھوک دیاجس میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید دولت اور جھوٹی شہرت کی ہوس نے آتش پکڑا تو ایک سیاسی پارٹی سے وابستہ ہو کر اپنی سازشیوں کو وفاداریوں میں ڈھال کے پیش کیا اور ایسی پارٹیوں کو ایسے دُم ہلانے والے وفاداروں کی اشدت ضرورت ہوتی ہیں بقول منر نیازی کے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو وفاق میں جا کر قالین اپنے دانتوں سے اس مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے کچھ نہ کچھ لے کر ہی چھوڑتے ہے اس طرح یہ فرعون بھی ایک اہم غیر ملکی عہد پر فائز ہوگیا بلکہ مسلط ہو گیا،ایسے دانتوں سے قالین پکڑ کے عہد و اعزازت لینے
والے موسمی گنڈھوں سے زیادہ اہم نہیں ہوتے۔
میں کیوں آج یہ زہر اگل رہی ہوشاید اس لئے کے میری آج اس فرعون سے ملاقات ہوئی اگر وہ فرعون ہی رہتاتو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوتامگر وہ تو شیطان کو بھی مات کر نے والی گفتگو پر اتر آیا تو مجھے بھی فرعونیت دکھانی پڑی شاید وہ بھول گیا تھا کہ میں بھی اسی دروازے سے زندگی کی شاہراہ پر گامزن تھی مگر مری تر جیحات اس سے بہت مختلف تھیں کیونکہ میں سچ کے موسیٰ کو بہت جلد اور بہت پہلے ہی پہچان چکی تھی کچھ دیر تو اس کی باتیں برداشت کی مگر جلد ہی اپنی اصلیت پر اُترنے پر مجبور ہو گئی میرے پاس اپنی اصلیت پر اترنے کی بہت مضبوط دلیل تھی میں کسی کے ٹکڑوں پر نہیں پلتی تھی اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی سے سودہ بازی کی تھی کبھی، جو کچھ بھی ہو ں اپنی ذات کے بل بوتے پرہوں اسی لئے تو آج اسے بھی مجھے اپنے دفتر انوائیٹ کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی اور یہ شاید اس کی زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی مجھے اس کے عہد ے اور مرتبے کی پرواہ کئے بغیراس کو اس کی اصلیت کا احساس دلانا پڑا وہ جو زمین پر قدم نہیں ٹکاتا تھا اسے زمین بوس کرنے میں مجھے کوئی زیادہ مشکل نہ ہوئی ۔
جس ادارے میں وہ آج حکمرانی کرتا پھر رہا ہے اس ادارے کی عمارت بھی اس جیسے تماش بین صاحب اختیارشاعر کی سوچ کا عملی نمونہ تھی وہ مزدور طبقہ کی حمایت حاصل کرنے والا انسان سگار سلگا کر کیسے سٹر ک پر کام کرنے وا ے مزدوروں کا دُکھ سمجھ سکتا تھا اگر سمجھتا تو اس شہر میں جہاں کروڑو روپے کی خطیر رقم سے ایسا ادارہ بنا وہاں کہیں عام مزدور طبقے کے سر چھپانے کی بستی بھی آبا د کرنے کی کوئی کوشش کی ہوتی غریبوں کے نام پر امیروں کے ہی پیٹ بھرتے ہیں اس کا مقصد بھی تو نوبل پرائز کا لالچ تھا وہ بظاہر فیض کا مجسمہ بے فیضی کے کئی در وا کر گیا تھا۔
بات ہو رہی تھی آج کے فرعون کی اس کو تو اس کی اوقات یاد دلائی مگر اپنی اوقات بھی نہیں بھولی تھی دفتر
سے باہر نکل کے پہلے بھر پور نظروں سے زمین کی جانب دیکھا تو دور تک پُرسکون خاموشی تھی اور ماں دھرتی کی آنکھوں میں ستائش تھی میری نسبت اپنی اصلیت سے بڑی مضبوط ہے پھر آسمان کی جانب دیکھا تو سرمئی بادل ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے مجھے یوں لگا میری وقتی جیت میں وہ بھی میرے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
میرے قدم بے اختیار ایک سچی اور سُچی ہستی سے ملاقات کیلئے اس کے احاطے کی جانب بڑھنے لگے گو کہ انہیں رخصت ہوئے ایک مدت ہو چکی ہے مگر آج بھی ان کے ملنے والوں ان کی موجودگی کے احساس سے محروم نہیں ہوتے پتہ ہی نہیں چلا کہ کیسے دس منٹ پیدل سفر طے ہو گیا سر جھکایا تونظارے ہی نظارے تھے ایک ایسا جہان تھا جہاں ایسی روشنی تھی کہ جو روح کے گرد حائل پردے کو بھی چاک کر کے مکاں سے لامکاں تک فاصلہ مٹادے۔
ایسے ہی تو نہیں شاہ محمددرویش کا بیٹا عبداللہ سے بلھے شاہؒ کہلایا اور قیامت تک کے لئے امر ہو گیاکیونکے اس کے مرشدِ کامل نے اسے اس ہنر سے روشناس کروا دیا تھا جس سے مالک و بندے کا آپس میں تعلق مضبوط ہوتا ہے وہ عاجزی کے اس بلند راستہ کا مسافر بن گیا جس کے پاؤں کے نیچے منزل دُھول کی مانند بچھ جاتی ہے۔
حضرت شاہ عنایت قادری شطاریؒ کے مزارمبارک کے نمک سے ہی فرعون کے وقتی لگائے زخموں کی مرہم سازی ہو سکتی تھی۔
افسوس کے فرعون کے پاس توبہ کا وقت بھی نہیں بچے گا مگراس کی فرعونیت ختم کرنے کے لئے عیسیٰ کاانتظار بہت تکلیف دہ ہے مگر نا اُمید نہیں ہوں کیونکہ اوپر والے کے میں رنگ دیکھ چکی ہوں ایک ہی دن میں ایک ہی پہر میں ایک ہی شہر میں شیطان کا غلبہ بھی اور رحمن کا جلوہ بھی شیطان کے غلبے میں مدہوش ایک
فرد اور رحمن کے جلوے میں گُم کائنات جس طرح ہزار نوٹوں میں ایک جعلی نوٹ چل سکتااسی طرح ہزاروں نیک انسانوں میں چھپ کرایک انسان نماں درند بھی کسی بڑی سیٹ پر بیٹھ کراپنا کام کرنے کی کوشش تو کر سکتا ہے اور اگر نشانہ شاہ عنایت ؒ کی مرید کو بنانے کی کوشش کی جائے اور شکاری مولوی ذادہ ہوتو کوئی بعید نہیں کہ شکاری خود شکار ہو جائے۔۔
Tag: