عبدالمالک بلندشہری
خدا خود مختار ہے،وہ کسی کا محتاج نہیں ہے،جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، جس کے ذریعہ چاہتا ہے ملت کو تقویت پہنچاتا ہے اور جس سے چاہے نقصان پہنچاتا ہےـ
آج علی گڑھ و جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کوٹ پتلون زیب تن کرنے والوں نے ثابت کردیا کہ وہ اہل جبہ و دستار سے زیادہ قومی جذبہ اور ملی درد رکھتے ہیں،انہوں نے اپنے پر عزیمت عمل سے یہ ثابت کردیا کہ ان کا شعور و ادراک دین دار طبقے سے زیادہ پختہ، فیصلہ زیادہ دوراندیشانہ، عزم آہنی اور جذبہ فولادی ہےـ
افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام مذہبی اداروں،ملی تحریکوں،روحانی خانقاہوں پر عجب پرہول سناٹا چھایا ہوا ہے،حق کی آواز لگانے والوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں، سیم وزر کی محبت، عہدوں کی حرص، ہوس اور خواہشات نے سفید پوشوں کو بزدل بناکر رکھ دیا ہےـ
وہ اسلاف جو قوم کے لئے اپنے تن من دھن کی بازی لگانے کے عادی تھے ، جنہوں نے ملت کے تحفظ کے لئے اپنی جان کا بے تکلف نذرانہ پیش کیا تھا ، تختۂ دار پر لٹکنے کو اپنے لئے نعمت عظمی،زنداں کو آرام گاہ اور قید خانہ کو سکون خانہ سمجھا تھاـ
افسوس صد افسوس! ان کے اخلاف مصلحت کوشی کے ایسے دیوانے ہوئے کہ جرات و بصیرت کو فراموش کربیٹھے، ملی غیرت، دینی حمیت اور ایمانی جرات ان کے دلوں سے آخری حد تک نکل گئی اور وہ بے حسی و غفلت کے گہرے دلدل میں پھنس کر رہ گئےـ
اے پتلون والو! ہمیں معاف کرنا،ایسے موقع پر ہم مدرسہ والے، خانقاہ والے، دینی تحریک والے، اسلامی مراکز والے اور مذہبی طبقہ سے وابستہ جملہ افراد آپ کے سامنے شرمندہ ہیں،ہمیں اعتراف ہے کہ ہم محض گفتار کے غازی ہیں، کردار کے اعتبار سے برباد ہوچکے ہیں، ،ہم صرف ماضی کی خوش فہمیوں میں جینے والے لوگ ہیں، ہماری صرف زبانوں پر ٹیپو سلطان، سید احمد شہید، مجدد الف ثانی،حافظ ضامن شہید،محمد علی جوہر، قاسم ناناتوی، ابوالکلام آزاد کے مجاہدانہ کارنامے اور سرفروشانہ واقعات ہیں ـ ہم حقیقت میں ان کی تاریخ، ان کے قصے صرف لطف لینے اور محظوظ ہونے کے لئے پڑھتے ہیں ـ حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر ہمیں ان سے کوئی مناسبت نہیں،ہم ان کے کارہائے نمایاں کو قابل ذکر تو سمجھتے ہیں لیکن قابل عمل نہیں سمجھتےـ
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ کل تک ہم آپ کے رہنما تھے مگر آج سے ہم آپ کی رہبری اختیار کرتے ہیں، ہم آپ کے پیچھے چلنے پر مجبور ہیں کیوں کہ ہماری زبان گنگ ہوکر رہ چکی ہے، ہمارا دماغ ماؤف ہوگیا ہے اور ہم اپنے کو انتہائی شکست خوردہ محسوس کررہے ہیں ـ
خدا تمہارا حامی و ناصر ہو، تاریخ آپ کو ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد رکھے گی، آپ تاریخ سازی کررہے ہیں، کل کے معرکہ میں مولانا قاسم ، مولانا محمود حسن اور مولانا آزاد نے قیادت سنبھالی تھی لیکن آج ہماری نااہلی، بے حسی کی بناء پر قیادت کی ذمہ داری انجینئر فلاں، ڈاکٹر فلاں اور ایڈوکیٹ فلاں کے مضبوط کندھوں پر ڈال دی گئی ہے،ہمیں احساس ہے کہ ہم غنودگی اور نیم خوابی کے عالم میں ہیں، ہم آپ کے سامنے شرمندہ ہیں،بلکہ ہم خود اپنے وجود پر شرمندہ ہیں اور ہم سرِ عام اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہیں کہ آج جبہ و دستار کے مقابلے میں پتلون جیت گئی ہےـ