مولانا رضوان احمد ندوی(معاون مدیر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ،پٹنہ)
بر صغیر ہند وپاک کی ممتاز علمی شخصیت، اسلامی علوم کے رمز شناس اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے مایہ ناز استاذ تفسیر وحدیث اور بالغ نظر فقیہ، مربی ومحسن استاذ محترم حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی 17/ جنوری 2020ء روز جمعہ قبیل عصر رب کائنات سے جا ملے، انا للہ وانا الیہ راجعون
دل کو سکون روح کو آرام آگیا موت آگئی کہ یار کا پیغام آگیا
وفات کے وقت ان کی عمر 83/ سال تھی، ادھر کئی سال سے علالت کا سلسلہ جاری تھا غالبا 2007ء میں ان پر فالج کا حملہ ہوا، جس کی وجہ سے وہ بیحد کمزور ہو گیے، دوا وعلاج مستقل چل رہا تھا، کبر سنی ضعف اور بیماری کی وجہ سے تشویش تو تھی لیکن یہ بالکل اندازہ نہ تھا کہ اتنی جلدی چلے جائیں گے،مگر کیا کیجئے گا کہ وقت موعود آپہونچا تھا، اور اللہ کو پیارے ہو گیے، عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا، زندگی ان کی قابل رشک رہی پھر موت کیوں نہ قابل رشک ہوتی، جمعہ کا دن ملا، عصر کی مبارک گھڑیاں تھیں کہ وہ اپنے رب سے جا ملے، البتہ قحط الرجال کے اس دور میں مولانا کا سانحہ ارتحال عظیم نقصان ہے، انہوں نے نصف صدی سے زیادہ تک تعلیم وتدریس، تصنیف وتالیف، فکری وعملی تربیت اور دین کی تشریح وتعبیر میں گذاری اور اس کا حق ادا کیا اور اس حیثیت سے ملک وبیرون ملک ایک متبحر عالم دین، وسیع النظر محقق، تجربہ کار ماہر تعلیم بے مثل استاذ اور پر وقار شخصیت کی حیثیت سے مشہور ومعروف ہوئے۔
مولانا محمد برہان الدین سنبھلی 5/ فروری 1937ء کو یوپی کے ضلع سنبھل کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت بزرگوں کے سایہ میں سنبھل میں ہوئی، جہاں انہوں نے ابتدائی عربی دینیات کے ساتھ حفظ قرآن پاک مکمل کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے دار العلوم دیو بند تشریف لے گئے اور اس وقت کے ماہر فن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہہ کرکے درجہ کمال حاصل کیا اورباقاعدہ 1957ء میں سند فراغت پائی اور علوم دینیہ میں عبور حاصل کیا، تحصیل علم کے بعد دہلی کے مدرسہ امینیہ مسجد فتح پوری میں درس وتدریس سے منسلک ہوگیے اور ۱۱، 12/ سال تک امہات الکتب کی تعلیم دی، قرآن مجید کے مطالعہ کا شوق انہیں شروع سے ہی تھا اس لئے انہوں نے دہلی کے مختلف مساجد میں درس قرآن کا بھی سلسلہ شروع کیا، جو بہت ہی کامیاب وبافیض رہا، اس سے لوگوں کے اندر قرآن فہمی کا ذوق وشوق اور جذبہ ابھرا، ان کی خدا داد صلاحیت اور علمی کمالات کی خوشبوبوئے گل کی طرح پورے ملک میں پھیلتی چلی گئی، چنانچہ 1970ء میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی دعوت وتحریک پر دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنوسے وابستہ ہو گیے، جہاں تادم مرگ تفسیر وحدیث، فقہ واصول فقہ کی معیاری کتابیں پڑھائیں، مسلم شریف، ابو داؤد شریف، حجۃ اللہ البالغہ آخر عمر تک پڑھاتے رہے، پھر حضرت مولانامحمد اویس ندوی نگرامی کی وفات ۶۷۹۱ء کے بعد یہاں کے شیخ التفسیر کے منصب پر فائز ہوئے، آپ حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒکے معتمدلوگوں میں سے تھے، اس لئے حضرت مولانا آپ کا ہر لحاظ سے احترام واکرام فرماتے تھے، اور انہیں ”رفیق فاضل“ سے خطاب فرماتے، انہوں نے ایک جگہ لکھا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے رفیق فاضل مولانا محمد برہان الدین سنبھلی استاذ حدیث وتفسیر کا حدیث وفقہ پر مطالعہ وسیع بھی ہے اور گہرا بھی، انہوں نے دار العلوم دیو بند سے بڑے امیتاز کے ساتھ فراغت حاصل کی، پھر سالہا سال مدرسہ فتح پوری دہلی میں تدریس کی خدمت انجام دی، اس زمانے میں فقہ سے ان کی مناسبت اور اصابت رائے اور اعتدال وتوازن کا اظہار ہوا، پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تدریس کے لئے ان پر نظر انتخاب پڑی اور وہ دا رالعلوم میں آگیے، اب کئی سال سے وہاں حدیث وتفسیر کی اونچی کتابوں کی تدریس کا فرض انجام دیتے ہیں، ان کے اس امتیاز کو دیکھ کر ان کو مجلس تحقیقات شرعیہ کا ناظم بھی بنایا گیا، اس عرصہ میں رویت ہلال پر ان کا فاضلانہ رسالہ شائع ہو کر منظر عام پر آیا اور اس نے اہل علم واہل نظر سے داد تحسین حاصل کی۔ (مقدمہ معاشرتی مسائل ۲) انہوں نے دار العلوم ندوۃالعلماء میں طویل عرصہ تک تعلیم وتدریس کے فرائض انجام دیے ان سے استفادہ کرنے والے شاگردوں کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ یہاں اس کی مختصر سے مختصر فہرست بھی پیش نہیں کی جا سکتی، اور یہ سب ان کے اخلاص وللہیت کا ثمرہ ہے،ان کا ظاہر وباطن علم ومعرفت کا حسین سنگم تھا، جب انہوں نے ملک کی روحانی شخصیت شیخ طریقت حضرت مولانا طلحہ کاندھلوی بن شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا ؒ سے اصلاح باطن اور راہ سلوک کے منازل طے کئے تو دل بھی مجلیٰ ومصفیٰ ہو گیا، اب ایسے لوگ کم ہیں جو حکیمانہ دماغ کے ساتھ چشم بینا بھی رکھتے ہوں، ساتھ ہی آپ کو قومی وملی معاملات ومسائل سے بھی خاصی دلچسپی تھی، مولانا سنبھلی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سرگرم رکن اساسی تھے اور جب تک صحت وتوانائی قائم رہی اور طبیعت بحال رہی پابندی کے ساتھ اس کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے اور اپنی آراء سے بورڈ کے کاز کو قوت پہونچاتے رہے، وہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے بھی نائب صدر تھے، اس لئے اس کے سیمیناروں اور فقہی اجتماعات میں بھی برابرتشریف لاتے اور صاف گوئی کے ساتھ اظہار خیال فرماتے، جن فقہی جزئیات میں اپنی انفرادی رائے رکھتے اس کو بھی پورے اعتماد ویقین اور مستند دلائل کے ساتھ فقہاء کے سامنے رکھتے تھے، جنہیں بسا اوقات تجویز کا حصہ قرار دیا جاتا، حضرت مولانا دار القضاء اتر پردیش کے بھی صدر تھے، اور وہاں بھی شریعت کا واضح موقف رکھتے، 85،86 میں شاہ بانو مقدمہ کے موقعہ پر امیر شریعت رابع حضرت مولاناسید منت اللہ رحمانیؒ نے مسلم پرسنل لا کے موضوع پر ایک جامع اسلامی قانون کے مدون کرنے کا فیصلہ کیا، اس کے لئے چند علماء اور فقہاء امت کی ایک کمیٹی تشکیل دی اس میں مولانا مرحوم کو بھی شامل کیا،انہوں نے پوری دلجمعی اور فکر مندی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا، اور ان کاوشوں کے نتیجہ میں کتاب ۲۰۰۲ء میں طبع ہو کر منظر عام پر آئی، اللہ ان کے اس عظیم خدمات کو قبول فرمائے، حضرت مولانا سنبھلی کی پوری زندگی علم وتحقیق، درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں گذری، ان کے قلم سے کئی وقیع علمی وتحقیقی مضامین اور معیاری کتابیں شائع ہوئیں، ان میں معاشرتی مسائل دین فطرت کی روشنی میں اور متاع علم وفکر دونوں کتابیں ان کی قوت تحریر اور وسعت مطالعہ کے اعتبار سے ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں، اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ نے لکھا کہ کتاب معاشرتی مسائل کا ایک ایک حرف دل میں اتر تا گیا اور ہر پہلا حصہ اگلے حصہ کے مطالعہ کے لئے شوق کو مہمیز کرتا گیا، تعبیر ما شاء اللہ نہایت سلیس،واضح اور بلیغ، تحقیق اور تنقید کا طرز انتہائی شائستہ، کتاب ہر پہلو سے علم وتحقیق سے بھر پور نور علی نور ہے، مولانا کی بہت ساری خوبیوں میں ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بہت بڑے مہمان نواز بھی تھے، ان کے دستر خوان پر انواع واقسام کی اشیا خوردنی کی بہتات ہوتی اور با ذوق اس دعوت شیراز سے لطف اندوز ہوئے، جس کا میں نے ذاتی طور پر مشاہدہ بھی کیا، ویسے تو مولانا میرے شفیق استاذ تھے میں نے ان سے مسلم شریف اور ابو داؤد شریف کی تعلیم حاصل کی ان کے پڑھانے کا انداز بھی بڑا نرالا اور اچھوتا تھا، ان کے درس میں نہ تو اکتاہٹ محسوس ہوتی اور نہ بے توجہی، وہ علمی لطائف اور حکیمانہ اسرار ورموز سے کتابوں کی پیچیدہ عبارتوں کو بڑی آسانی سے سلجھا دیا کرتے تھے، حاضر جوابی سے درسگاہ باغ وبہار بنی رہتی تھی، ان کے مزاج میں سادگی بھی تھی اور بے تکلفی بھی،اکثر درسگاہ میں ان کے پر لطف فقروں سے طلبہ بڑے محظوظ ہوتے تھے، اس لئے ہم طلبہ ان سے حد درجہ مانوس ہو گیے تھے، جب میں امارت شرعیہ سے وابستہ ہوا تو مجھے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کانفرنسوں میں خادمانہ شرکت کا موقعہ ملتا رہا، یہاں سے قربت وموانست میں مزید استحکام پیدا ہوا، جب بھی اس حقیر سے ملاقات ہوتی وہ حد درجہ شفقت ومحبت کے ساتھ پیش آتے، اپنائیت کی وجہ سے دل میں گھر کرجاتے اور احساس وجذبات میں شریک ہوجاتے، چونکہ وہ امارت شرعیہ کے قدر دانوں میں سے بھی تھے اس لئے اور بھی دست شفقت پھیرتے، بلا شبہ ان کے وصال سے ایک بڑا علمی خلا پید اہوا۔ اللہ اس مجموعہ کمالات اور اخلاق کی مرقد کو پر نور فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کرے، دوستوں، قدردانوں اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)