ملتا ہے کب مقام جنوں کے حساب سے
سینے سے انتقام سکوں کے حساب سے
دیوار سازشوں میں لگی رہتی ہے مگر
چھت ڈالتی ہے بوجھ، ستوں کے حساب سے
رکتی نہیں نظر، تو کہیں رک ہی جاتی ہے
میں حسن دیکھتا ہوں، فسوں کے حساب سے
چادر وہی ہے عاجزی والی وجود پر
پھیلا ہوں میں غرور میں کیونکہ، حساب سے
تعظیم، قدر، فیض اکڑ تولتے ہوئے
تحقیر، ڈنڈ ناڑ نگوں کے حساب سے
اک خواب آئنہ تھا مرے سامنے، سو میں
تھرّا رہا تھا حال زبوں کے حساب سے
اجداد کے گناہ سفر میں ازل سے ہیں
بٹتی ہے سب میں تیرگی خوں کے حساب سے
اسود تمام ہوتی نہیں شام، صبح تک
ہوتی ہے مجھ میں رات دروں کے حساب سے