” عبادات سے روحانی طہارت اور نفس کو فیض یقینا پہنچ سکتا ہے لیکن مادی یا طبعی مسائل کا حل ان میں کھوجنا منطقی عمل نہیں ہے”۔ (کیا کورنا وائرس اللہ کا عذاب ہے ۔ ص: 43) "۔
"اس سماج کی زبان پر اس وقت آبلے پڑ جاتے ہیں جب ریڈ لائٹ ایریا میں کوئی دلال مرد سڑک پر گھوم گھوم کر جسم بھنبھوڑنے والے کسی بھوکے کو تلاش کرتا ہے تاکہ دلالی حاصل ہو سکے۔ یہ اخلاق کی دھن پر ناچ ناچ کر ہلکان ہونے والا معاشرہ چین کی نیند سو رہا ہوتا ہے جب کہ اسی شہر میں طوائف نام کی مخلوق دو وقت کی روٹی کے لیے اپنا جسم بیچ رہی ہوتی ہے۔اتنے بڑے معاشرے میں ساحر ، منٹو اور گرودت کے علاوہ کیا کسی اور کو ان پائمال جسموں کی سسکیاں سنائی نہیں دیتیں؟” (طوائفوں سے میری وہ ایک ملاقات۔ ص: 69)۔
"اسلاف کی دہائی دیکر موجودہ دور میں رائج ہر چیز کو حرف غلط بتا دینا اور داستانی دنیا کے نشے میں چور ہو کر اصلاح کے لیے لاٹھی بلکہ دھماکہ خیز مواد باندھ کر نکل پڑنا ایسا مالخولیا ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔” (احیاء پسندی کی چاہت اور بے گناہ لاشیں ۔ ص: 156)۔
” مہذب معاشروں میں انسان کے بھیس میں بھیڑیے بھی ہوتے ہیں اور کبھی کبھی انسانوں کو پھاڑ کھاتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ جب بھی انسان نما بھیڑیے انسانوں کو پھاڑ کھانے کی کوشش کریں تو سارے انسان ، انسانیت کے رشتے کو نبھاتے ہوئے اس حیوانیت کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہو جائیں”۔ (عبادت گذار مشرق فحش مغرب سے کیا سیکھے؟ ص: 143)۔
یہ اقتباسات کسی بزرگ کی کتاب یا محاضرے سے نقل نہیں کیے گیے ہیں بلکہ نوجوان قلم کار اور صحافی مالک اشتر کے کالموں کے مجموعے "جنوں میں کیا کیا کچھ” سے اخذ کیے گئے ہیں، جو ابھی حال میں چھپ کر منظر عام پر آیا ہے ۔ اہل ذوق کے لیے اس کتاب میں بہت کچھ ہے، میں نے بس یونہی مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر صرف چند اقتباسات نقل کئے ہیں۔ ورنہ کتاب میں ایسے شگفتہ جملے ، کاٹ دار طنز اور عمدہ طرز نگارش کے نمونے بھرے پڑے ہے۔ ہندوستان میں نوجوان اردو لکھاریوں میں جو چند لوگ ہیں ان میں مالک اشتر کا نام بہت نمایاں ہے جو اپنے بے باک قلم اور جرات مندانہ اظہارِ رائے کی وجہ سے اہل علم کے درمیان قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ انتہائی کم عمری میں اپنے انداز ، اسلوب اور بات کہنے کے منفرد طریقے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان انھوں نے جو جگہ بنائی ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وہ بہت سے اردو کے پرانے اور بزرگ صحافیوں کو بھی حاصل نہیں ہے ۔
ان کی کچھ باتوں سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن جس انداز سے وہ اپنی باتیں کہتے ہیں، قاری ان کا اسیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ جدید و قدیم افکار و آرا کا ایک حسین سنگم ہیں، جس میں حوصلہ مندی بھی ہے، جرات اظہار کا ڈھب بھی اور انوکھا انداز و اچھوتا پن بھی، ان کی تحریروں میں پڑھنے والے کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ گذشتہ سال ان کی ایک کتاب "مسلمان : حالات ،وجوہات اور سوالات” منظر عام پر آئی تھی، جو اپنی انفرادیت کے سبب اہل علم کے مابین بحث کا موضوع بنی تھی۔ اب ان کے کالموں مجموعہ آیا ہے جو حالات حاضرہ پر مبنی معلومات ، دانشورانہ فکر اور منطقی طرز نگارش سے عبارت ہے۔ کتاب میں کل پینتالیس مضامین شامل ہیں۔ جن میں روزمرّہ کے سیاسی اور سماجی مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ کتاب کا مقدمہ معروف عالم دین مولانا حیدر عباس نقوی نے لکھا ہے، جو اتفاق سے مالک اشتر کے والد بھی ہیں، اس سے قبل اشتر کی جو کتاب آئی تھی اس پر بھی مولانا کا ہی مقدمہ تھا لیکن اُس میں انھوں نے سخت انداز میں تنقید کی تھی اور کئی جگہ اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا لیکن اس کتاب کی مولانا نے زیادہ تعریف ہی کی ہے، جس پر مجھے حیرانی بھی ہے کہ باپ ہونے کا حق مولانا نے خوب ادا کیا ۔ ایسے اگر سچی بات پوچھیں تو یہ کتاب اس لائق ہے کہ اس کو سراہا جائے ۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر خورشید اکرم جو ایک لمبے عرصے تک معروف ادبی جریدہ ’آجکل‘ کے مدیر بھی رہے ہیں، نے مالک اشتر کی کالم نگاری کے حوالے سے گفتگو کی ہے، جسے ہم کتاب کا تعارف نامہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ "پہلی بات” کے عنوان سے لکھے گئے اپنے اظہاریے میں مالک اشتر نے اس کتاب کو منظر عام پر لانے کے جواز اور اردو کالم نویسی کے حوالے سے گفتگو کی ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سے اشتر کی کالم نویسی اور اردو صحافت کے حوالے سے ان کے نظریے کا پتہ چلتا ہے ۔
مالک اشترکے تمام کالمز ہندوستانی قوم اور امت مسلمہ کا درد لیے ہوئے ہیں۔ آج جب نظریاتی صحافت کے موضوع پر بات کرنے والے بھی کم رہ گئے ہیں اس کتاب میں مالک اشترپورے قد کے ساتھ ایک نظریاتی صحافی کے طور پر کھڑے نظر آتے ہیں، جو ان کی علمی سوچ اور گہرے مطالعے کا غماز ہے ۔ انھوں نے اس کتاب میں اپنے کالموں کو میڈیا، بین الاقوامی مسائل، شخصیات اور سیاسیات تک پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اُن کے ہر کالم میں سچائی اور مقصدیت نظر آ رہی ہے۔ میڈیا کے حوالے سے کالموں میں انہوں نے میڈیا کی بعض خرابیوں پر گرفت کی ہے اور شخصیات کے زیر عنوان آنے والے کالموں جن شخصیتوں پر انھوں نے قلم فرسائی کی ہے ان میں عرفان خان ، رشی کپور،پروفیسر عبید صدیقی آصف فرخی اور گلزار دہلوی جیسے لوگ شامل ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اس کی یادوں سے متعلق لکھا گیا مضمون خاصے کی چیز ہے ۔ جامعہ، دلی اور یادوں کی پالکی کے عنوان سے لکھا گیا مضمون کافی جذباتی اور دلچسپ ہے۔ یوم مادر: امی کی کچھ باتیں اور پرانے دوست کو ایک خط بہت جذباتی انداز میں لکھا گیا ہے، جس کو پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہوئے بنا نہیں رہتیں ۔
ان مضامین میں صحیفہ نگار کے اندر کا قصہ گو زندہ ہو اٹھتا ہے ۔ کاش اشتر اپنی یادوں کے دیگر گوشوں پر بھی ایسے ہی قلم اٹھائیں تو وہ ناسٹلجیا پر مبنی سماج کو عمدہ کہانیاں دے سکتے ہیں ۔ مذہبی امور پر لکھے گئے کالموں میں لہجہ ذرا سخت ہے لیکن میں اس کو جائز سمجھتا ہوں کہ ہمارے بعض مذہبی حلقوں نے معاشرے میں جو گند پھیلائی ہے، اب وہ چھپانے کی چیز نہیں رہی ۔ جب تک ان کی گندگی کو سماج کے سامنے نہیں رکھا جائے گا وہ سماج کو ایسے ہی اپنی گندی سوچ اور حرکتوں سے قعر مذلت میں ڈھکیلتے رہیں گے ۔
خُوب صُورت سرِورق کے ساتھ، کتاب کی طباعت و اشاعت بھی بہتر ہے۔ امید کی جا تی ہے کہ اہل علم اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے ۔ کتاب کے کل صفحات 197ہیں، قیمت دوسو روپے رکھی گئی ہے۔ کتاب علی نگر،نوگانواں سادات،امروہہ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ رابطہ نمبر:9891729185