ؑ
حقانی القاسمی
Cell: 9891726444
Email : [email protected]
ہر فکر انگیز کتاب سوالات کے نئے سلسلے قائم کرتی ہے ۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کتاب ’غالب معنی آفرینی ‘ جدلیاتی وضع ‘ شونیتا اور شعریات ‘ نے بھی سوالات کے نئے منطقے روشن کر دیے ہیں ۔
(الف ) کیا یہ سابقہ غالب تنقید کا تتمہ یا تکملہ ہے ؟
(ب)پرانی اینٹوں پر ایک نئی عمارت کی تعمیر ہے ؟
(ت) حالی کے یادگار غالب کی توسیعی شکل ہے ؟
یا
(الف)غالب تنقید کی یکسانیت کے جبر کو توڑنے کی سعی تو نہیں ؟
(ب) یہ غالب کے قدیم شارحین اور ماہرین کا رد یا تخالف تو نہیں ؟
(ت)یہ غالب کو ما بعد جدید شاعر ثابت کر نے کے لئے تنقیدی تگ و دو تو نہیں ؟
(ج) یہ غالب کی شعریات میں ساختیاتی فکر کی جڑ یں تلاش کرنے کی تنقیدی منطق تو نہیں ‘؟۔
یہ اور اس نوعیت کے کئی سوالات غالب پر لکھی گئی اس نئی کتاب کے حوالے سے سامنے آسکتے ہیں ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ تقریبا چار ہزار چار سو چالیس کتابوں کی بھیڑ میں آخر کون سا ایسا’ وصفِ خاص‘ ہے کہ اس کتاب کی معنویت پر مکالمہ کیا جائے اور اسے غالبیات پر نکتہ نو یا حرفِ آخر سمجھا جائے؛ اس لئے اس کتاب کے امتیازات کا تعین کئے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ سو اس کتاب کے بنیادی مباحث اور متعلقات پر غور و فکر کرنے سے بادی النظر میں جو خوبیاں سامنے آتی ہیں، وہ یوں ہیں :
(۱)غالب شعریات پر از سرِ نو تفکر
(ٗ۲)غالب کی تخلیقیت میں جدلیاتی تفاعل
(۳)بیدل کی سریت سے شعریاتِ غالب کی ہم رشتگی
(۴)غالب کی شعریات میں شونیتا کے جدلیاتی جوہر کی جستجو
(۵) متونِ غالب کی نئی تعبیرات
(۶)کلامِ غالب میں مروجہ تعینات کی تقلیب
(۷)غالب کے لا شعوری افتاد ذہنی اور اضطراری کیفیت کی تلاش
ان کے علاوہ اور بھی محاسن ہیں جن کی بنیاد پر اس کتاب کو ممتاز اور منفرد قرار نہ دینا نا انصافی ہوگی ۔
یہ کتاب بین علومی نقادپروفیسر گوپی چند نارنگ جیسے تجسس آشنا ذہن نے نئے زاویے سے نہ لکھی ہوتی، تو سوالات کے سیلِ بلا خیز میں یہ کتاب دم توڑدیتی اور ڈسکورس کے دروازے کھلنے سے پہلے ہی بند ہو جاتے، مگر اس کتاب نے غالب کے تعلق سے ایک نئے کلامیہ کی تشکیل کی ہے ؛اس لئے یہ کتاب انبوہِ غالبیات میں اپنی انفرادیت کا جواز قائم کر رہی ہے کہ یہ غالب کی نئی پڑھنت ہے اور تفہیمِ غالب کے لئے متن کی قرائت کے نئے طریقِ کار کا تعین بھی۔ یہ کتاب غالب کی تطویر اور تطور کے تناظرات کو نئی قرائت کی روشنی میں واضح کرتی ہے ،مگر یہ حالی ، بجنوری یا آزاد کا رد نہیں ہے ۔نارنگ کسی سابقہ تنقید کی تنسیخ کے بجائے ایک نئی کھوج میں نکلتے ہیں ۔تنقید کی اس راہ میں اختلاف کے کئی مقامات بھی آتے ہیں، مگر نارنگ اس منزل سے بھی مع التحیات و الاحترامات گزر جاتے ہیں ۔ کسی خیال کو رد کرنے پر نہ زور دیتے ہیں، نہ اصرار کرتے ہیں؛ بلکہ منطقی اور معروضی طور پر اپنے خیال یا مقدمہ کی ترسیل کرتے ہیں ۔ ان کا یہی شستہ اور شائستہ انداز ان کے تنقیدی مقدمات کو قاری کے ذہن میں نقش کر دیتا ہے ،وہ کسی کی تضحیک یا تمسخر کے لئے الگ را ستہ اختیار نہیں کرتے؛ بلکہ ا پنے نکات اور نتائج کی تصدیق کے لئے نئی منزلوں کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔نارنگ جب یہ کہتے ہیں کہ :
’’ہمارا سفر الگ نوعیت کا ہے اور ہماری سعی و جستجو کی جہت دوسری ہے،غالب کے تخلیقی سفر، ذہن و زندگی اور فکر و فن کے بہت سے گوشے ایسے ہیں اور بہت سے پیچیدہ سوال اس نوعیت کے ہیں کہ ان کے جواب ہنوز فراہم نہیں کئے جاسکے، غالب کے گنجینۂ معنی کے طلسم کے بھی کئی در ایسے ہیں ،جو ہنوز وا نہیں ہوئے ،تو غالب پر ایک نئی کتاب کی اشاعت کا جواز بھی سمجھ میں آ جاتا ہے ۔
گوپی چند نارنگ اسی طلسم کے بند دروازوں کو وا کرنے کے لئے مدتوں تنقیدی مراقبے میں رہے اور میڈی ٹیشن کے اس عمل نے انہیں غالب کے مخفی جہات سے روشناس کرایا ۔ جس غالب سے ان کی مراقبہ میں ملاقات ہوئی، وہ بیسویں صدی کے دریافت کردہ حالی، بجنوری ،شیخ محمد اکرام، نظم طباطبائی، سہا مجددی، ترقی پسندوں ، جدیدیت پرستوں کے غالب سے مختلف تھے اور غالب کی یہی نئی دریافت نارنگ کے نگینۂ نقد کا تاج ہے ۔اس نئی جستجو کے حوالے سے نارنگ لکھتے ہیں :
’’ہر شخص نے اپنے اپنے غالب کو پڑھا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک شارح دوسرے سے اتفاق نہیں کرتا، جیسے کلاسیکیت پرستوں یا رومانیت کے شیدائیوں کو اپنے اپنے غالب مل گئے تھے ، ترقی پسندوں اور جدیدیت والوں نے بھی غالب کی اپنی اپنی تعبیریں وضع کر لی تھیں،ان میں کوئی تعبیر غیر منصفانہ یا بے جواز بھی نہیں تھی ؛ اس لئے غالب کے متن کی معنیاتی ساخت اور جد لیاتی وضع مستقبل کی تعبیروں اور باز قرائت کے امکانات کو مسدود نہیں کرتی ‘‘۔
غالب کی باز قرائت کے امکانات کو بروئے کار لا کر نارنگ نے جستجو کا یہ سفر شروع کیا اور غالب کی شاعری میں’ ورائے شاعری چیزے دگر است‘ کی تلاش کرتے کرتے کچھ ایسے نکات تک پہنچ گئے ،جو غالب تنقید میں تحیرات کے در کھولتے گئے ۔
بہت مشہور تنقیدی مفروضہ کے مطابق بیسویں صدی کا غالب تشکیک کا شاعر تھا، مگر نارنگ نے جس غالب کی جستجو کی:
’وہ : تشکیک نہیں، عقیدوں کے ؛بلکہ مہابیانیوں کے رد در ردِ لا متناہی کا شاعر ہے ‘۔ ص 502
’جس کا تخلیقی معنیاتی نظام جدلیاتی تفاعل پر قائم ہے ‘۔ص491
’ جس کے یہاں معنی کی صہبائے تند وتیز اکثر جدلیات نفی کی مینائے گداز میں ملتی ہے‘۔ ص 490
’جس نے فکرِ بیدل کے ڈسکورس یعنی کلامیہ کے محیطِ اعظم کو جذب کیا ‘۔ص 249
’جس کی مجتہدانہ فکر ہر نوع کی کلیت پسندی ، جبر اور ادعائیت کے خلاف ہے ‘۔ص654
’جس کی جدلیاتی فکر اکیسویں صدی کے ما بعد جدید مزاج سے خاص مناسبت رکھتی ہے ‘۔ ص653
’جس کی شعریات طلسم کدۂ حیرت ہے ‘ ۔ ص489
غالب کی شاعری گنجینۂ معنی کا طلسم نہ ہوتی اور ان کا کلام جام جہاں نما نہ ہوتا ،تو نارنگ کی تنقید بھی پرانے محور پر ہی گھومتی نظر آتی ۔ غالب کی غزل میں شونیتا،جدلیات نفی کی دریافت اسی طلسم کا فیض ہے ۔ اس میں نارنگ نے تقلید نہیں، اجتہاد سے کام لیا ہے ۔ غالب کے غیر روایتی طرزِ احساس و اظہار کو غالب تنقید کی عمومی روش سے ہٹ کر پیش کیا ہے ۔ غالب کے تخلیقی تموج کو اپنے تنقیدی تلاطم میں جذ ب کر کے نارنگ نے اس غالب کی تلاش کی ہے ،جو مروجہ و معمولہ تصورات سے الگ تصور کا حامل تھا ۔ یہ تنقید مرزا کے شعور نہیں،لا شعور کی تہوں میں اتر کر اس اسرار کو تلاش کرتی ہے، جو غالب کو اوروں سے الگ کرتا ہے ۔ یہ غالب کے لا شعور کی راہ سے اس جدلیات تک پہنچتی ہے، جو غالب تنقید کا حصہ بننے سے رہ گئی یا ذہنوں کی سہل پسندی اس جدلیات غالب کی جستجو میں نا کام رہی ۔ غالب کے ذہن کی جدلیاتی وضع اور حرکیات نفی اس تنقید کا مرکزہ ہے :
’’جدلیاتی تفاعل غالب کی تخلیقیت اور ان کے سوچنے کے طور اور تشکیل شعر کے عمل میں رچا بسا ہے اور موج تہ نشیں کی طرح معنیاتی و ملفوظی نظام میں جاری و ساری ہے ۔ غالب کی کوئی تفہیم اس سے صرف نظر کرکے موضوعی تو ہو سکتی ہے ،منصفانہ نہیں ‘‘۔
’’بہت سے اعلی اشعار میں جو برقی تخلیقی رو معنی کا چراغاں کرتی ہے، اس کا گہرا رشتہ غالب کے ذہن کی اسی جدلیاتی وضع اور حرکیات نفی سے ہے ،چونکہ اس کے نشانات ابتدائے عمر یعنی پندرہ برس کے کلام ہی سے ملنے لگتے ہیں ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ غالب کی سائیکی ‘ ان کی افتاد و نہاد اور ان کے لا شعوری تخلیقی عمل کا نا گزیر حصہ ہے اور جد لیات نفی کا یہ تفاعل غالب کے ذہن و مزاج میں بطور جوہر کے جا گزیں ہے ۔ گویا غالب کی خیال بندی اور معنی آفرینی میں جہاں دوسرے شعری لوازم و وسائل بروئے کار آتے ہیں ۔ جدلیاتی وضع کا دستور تخلیقی اعتبار سے دستور خاص ہے ۔‘‘
’’موصولہ و معمولہ یا پیش پا افتادہ کا استرداد یا معنی کو انوکھا یا نایاب بنانے کا عمل نیز معنی کو دھندلانے یا اس کو لا مختتم یا لا متناہی کرنے ‘یا تخلیقی طور پر معنی کی طرفوں کو کھولنے یا معنی کے طلسماتی نیرنگ نظر کو قائم کرنے کا عمل و تعامل وغیرہ کچھ بھی بغیر حرکیات نفی کے ممکن نہیں ۔ دانش ہند کا صدیوں سے یہ موقف رہا ہے اور اب دریدائی رد تشکیل بھی ( جس کی اساس افتراقیت اور التوائی جدلیات پر ہے ) نفی کی حرکیت کو زبان اور معنی کی کنہ قرار دیتی ہے ۔ جدلیاتی فکر کی جیسی تخلیقی تعبیریں بغیر کسی معلوم رشتے کے غالب کے کلام میں نظر آتی ہیں نہ صرف تعجب خیز ہیں بلکہ چشم کشا ہیں ‘‘۔
ان اقتباسات سے گوپی چند نارنگ کے ان مقدمات سے آگہی ہوتی ہے ،جو کلام غالب کے اکسراتی مطالعہ کے بعد ان کے ذہن نے قائم کئے ہیں اور یہ مقدمات مدلل ہیں اور مستند بھی ۔
نارنگ نے جدلیاتی وضع کے ذیل میں غالب کے بہت سے اشعار سے استشہاد پیش کئے ہیں، ان میں سے کچھ شعر یہ ہیں :
جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
یعنی ہمارے جیب میں اک تار بھی نہیں
چلتا ہوں تھوڑی دیر ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
اس آخری شعر کے تعلق سے نارنگ کہتے ہیں :
’’جدلیات نفی کا بڑے سے بڑا مفکر بھی اس سے بڑھ کر کیا کہہ سکتا ہے کہ کوئی نظریہ ، کوئی تصور،کوئی عقیدہ، کوئی مسلک محکم نہیں ہے ؛کیونکہ راہبر محکم نہیں ہے ۔ تیز روی کو بطور دلیلِ رہبری لیا ہے کہ تیز روی باعث ترغیب ہے ، ہر تیز رو کے ساتھ ہو لیتا ہوں کہ شاید یہ منزل کا راز جانتا ہو؛ لیکن نتیجہ صفر ہے ، ہر چیز بے اصل ( شونیہ ) ہے، کوئی راہبر قابل قبول نہیں یا رہبر کی پہچان ممکن نہیں،رہبری کے معمولہ تصور کی اساس اس توقع پر ہے کہ راہ دکھائی جاسکتی ہے ، یعنی فلاں راہ نجات کی راہ ہے، غالب کا شعر ایسی ہر توقع کے رد میں ہے اور ہر توقع کا رد منتج ہے کلی آزادی کے تصور پر ‘‘۔
نارنگ نے غالب کی شاعری کا رشتہ اس شونیتا سے بھی جوڑا ہے، جو بودھی فکر میں بہت ہی معنویت کا حامل ہے ۔ یہی وہ نقطۂ افتراق ہے جہاں سے نارنگ دوسرے ناقدین غالب سے الگ مقام پہ نظر آتے ہیں اوران کی سوچ ایک نئی سمت یا دشتِ امکاں کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔نارنگ شونیتا کی معنویت، فکری خدو خال اور اس کے مختلف ابعاد کا انشراح کرتے ہوئے اس منتہائے دانش کو فقط سوچنے کا ایک طور بتاتے ہیں اور قدیم فلسفوں کی روشنی میں اس کا تجزیہ کرتے ہوئے غالب کی معنیاتی تشکیل میں جد لیات نفی کے تفاعل کا اثبات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’شونیتا میں کلپنا (معمولہ تصورات ) اودیا ہیں ، یہ شونیہ بے اصل ہیں ، غالب کے یہاں بھی رائج خیالات ،اعتقادات،نظریے ، مسالک ، معمولہ تصورات سب پاوں کی بیڑیاں ہیں‘ ‘۔ نارنگ شونیتا جیسی ہمہ گیر حرکیاتی قوت کی شناخت کی منزلوں سے گزرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ :
’’غالب کا تخلیقی وفکری عمل شونیتا کی نفی اساس جدلیت سے ملتا جلتا اس لئے ہے کہ شونیتا فقط ایک تخلیقی طور ہے ۔معمولہ کی دھند کاٹنے کا جیسے سان کا کام دھار لگانا ہے، سان خود نہیں کاٹتی ‘‘۔
تعینات کی نفی کا جو عمل شونیہ کہلاتا ہے، اس کے وافر عناصر کلام غالب میں موجود ہیں ۔ غالب تحدیدات کے قائل نہیں تھے ۔بہت سے شعر بطور شواہد پیش کئے جاسکتے ہیں ۔
طاعت میں تار ہے نہ مئے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
بندگی میں وہ آزاد وخودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
آخر الذکر شعر کی وضاحت کرتے ہوئے نارنگ لکھتے ہیں :
’’اس شعر سے بھی غالب کی آزادگی و خود بینی کی جو تصویر ابھرتی ہے اردو شاعری میں دور دور تک اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ بندگی اور آزادگی میں رشتہ نفی ہے اور مزید تفاعل نفی یہ ہے کہ شعر بندگی ہی سے آزادگی کی راہ نکالتا ہے‘‘ ۔
نارنگ نے اسی نوع کے نفی تعینات کو غالب کے تخلیقی ذہن و ضمیر میں تلاش کیا ہے :
’’غالب نے اپنی نئی شعری گرامر اور اپنے تخلیقی سگنیفائر سے نہ صرف سابقہ تصورات پر ضرب لگائی بلکہ انسان ‘ خدا ‘ کائنات ‘ نشاط و غم ‘ جنت و جہنم ‘ سزا و جزا ‘ گناہ و ثواب کے بارے میں پہلے سے چلے آرہے تمام تعینات کو منقلب کر دیا ‘‘۔
یہاں نارنگ کے اس بیان سے اختلاف ممکن ہے کیونکہ غالب سے قبل دانشوروں کی ایک معتد بہ تعداد ہے جن کا یہی طرز فکر رہا ہے اور جنہوں نے مسلمات اور مفروضات کا بطلان کیا ہے اور تعینات کی تقلیب کی ہے اور غالب سے کہیں زیادہ ریڈیکل کشادگی ان کے یہاں ملتی ہے ۔ نکولاز کوپر نیکس ‘ گلیلیوکے نام اس تعلق سے پیش کئے جاسکتے ہیں ۔انہوں نے مذہبی مقتدرہ اور معتقدات کو چیلینج کیا ۔ مذہبی تعینات کی مخالفت کی جس کی پاداش میں عقوبتیں بھی ملیں ۔ چرچ نے ان کے نظریات پر مزاحمت کی ۔Galileo کے تصور کو چرچ نے مہمل قرار دیا اور انہیں روم کیinquisition کے سامنے پیش ہونا پڑا۔Giordano Bruno اورLucilio Vanini کو صرف تعینات کی مخالفت کی وجہ سے زندہ جلا دیا گیا ۔ تعینات سے انحراف کی روش پرانی ہے ۔ خردافروزی کا سلسلہ نیا نہیں ہے ۔ تعینات کی تقلیب یا انحراف کو غالب کے فکری تشخص سے جوڑ کر دیکھنا صحیح نہیں ہوگا ۔
غالب نے صرف احساس نہیں اظہار میں بھی انحراف کی روش اختیار کی تھی ۔ اس نکتہ کو نارنگ نے یوں روشن کیا ہے :
’’غالب نے شروع ہی سے روایتی طرز اظہار سے بہ شدت عمدا گریز کیا اگرچہ انہیں بہت کچھ سننا اور سہنا پڑا لیکن خداداد ذہانت اور طباعی سے اس نکتہ کو انہوں نے پا لیا تھا کہ معمولہ معانی رسمی یا حاضر معانی ہیں اور حاضر معانی نادر و نایاب یا انوکھے معانی نہیں ہو سکتے ۔ معانی جتنے حاضر ہیں یا رواج عام سے سامنے ہیں اتنے غیاب میں بھی ہیں اور ان کی پرتیں یا سوچ کا عمل بھی فقط اتنا نہیں جو فہم عام کا عمل ہے ۔ فہم عام کا عمل میکانکی یا منطقی عمل ہے ۔ اور تخلیقی عمل میکانکی عمل نہیں ۔سامنے کی زبان میکانکی طور پر سوچتی اور دیکھتی ہے اور فقط عام قاری کے لئے قابل قبول ہو سکتی ہے لیکن پر تموج متخیلہ یا داخلی واردات یا تجربہ و احساس کی وہ پرتیں جو اندھیرے یا تجرید یا غیاب میں ہیں زبان کے روایتی منطقی اظہار اور رواج عام سے باہر ہیں چنانچہ جب تک فہم عام کی پامال راہ سے انحراف نہ کیا جائے گا یا روایتی منطقی زبان کے بندھے ٹکے طور طریقوں کو پاش پاش نہ کیا جائے گا ‘جدت ادا یا طرفگی خیال کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا ‘‘۔
احساس اور اظہار کی سطح پر عمومی راہ و روش سے انحراف کو غالبیات میں نئے نکتے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کہ اس نوع کی اشارتیں اور وضاحتیں بہت سی تنقیدی تحریروں میں مل جاتی ہیں ۔ نارنگ کا اصل ارتکاز اس بات پر ہے کہ غالب کے یہاں خموشی کی زبان ملتی ہے :
’’غالب اکثر و بیشتر تخلیقی تجربے کے استغراق کی اس وادی میں ملتے ہیں جہاں آسمان پر ابر کا ایک ٹکڑا بھی دکھائی نہیں دیتا اور پورا آکاش باطن کی جھیل میں جھانکنے لگتا ہے ۔ جہاں سے فہم عامہ کا تکلم قریب قریب نا ممکن ہو جاتا ہے ۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا غالب کی شاعری بے صدا خاموشی کی بے لوث زبان کی بحالی کی شاعری نہیں ۔۔غالب کی شاعری اس خاموشی کی زبان یا شرف انسانی یا معصومیت کی ازلی زبان کی بحالی کی سعی کا درجہ رکھتی ہے ‘‘۔
’’شونیتا کی رو سے خاموشی ایک حرکیاتی قوت ہے ۔ آواز سے کہیں زیادہ طاقتور ‘ اظہار و معانی کے ان گنت امکانات سے بھر پور ۔ گہرے رہسیہ یا بھید یا انسانی مقدر کے عمیق رازوں میں اترنے کئے لئے شونیہ یعنی خاموشی سے بہترپیرایہ ممکن نہیں ‘‘۔
نارنگ نے شونیتا پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے بودھی فکر ‘ غالب اور بیدل کے نقطہ اتصال کو دریافت کیا ہے ۔ اس سے فکر کی لا زما نیت، لا مکانیت کے ساتھ اس تسلسل کا بھی پتہ چلتا ہے جو ازل سے ابد تک جاری و ساری ہے ۔ نارنگ لکھتے ہیں :
’’بودھی فکر اور بیدل و غالب کی تخلیقی فکر کا ایک اہم نقطہ اتصال یہ ہے کہ یہ زبان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ زبان ایک تشکیل محض ہے جو رواج عام یا عامیانہ پن کا شکار ہے اور فقط ایک حد تک ہی جاسکتی ہے ۔ زبا ن ثنویت میں قید ہے اور آزادی مطلق کو نہیں پا سکتی یا حقیقت کی کنہ کو بیان نہیں کر سکتی ۔ زبان شفاف میڈیم نہیں یہ حقیقت کو آلودہ کرتی ہے یعنی اپنے رنگ میں رنگ دیتی ہے ۔ مراد ہے موضوعیت یا ثنویت کے رنگ میں جو یکسر آلودگی اور تعین ہے ۔ زبان اور خاموشی میں سے خاموشی افضل ہے ‘‘۔
اس حوالے سے بھی بہت سے اشعار ہیں جن سے شونیتا کے شواہد ملتے ہیں ۔ خاص طور پر یہ اشعار تو نارنگ کے مقدمہ کو مزید مدلل کرتے ہیں :
بسان سبزہ رگ خواب ہے زباں ایجاد
کرے ہے خامشی احوال بیخوداں پیدا
از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے
موج غبار سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے ترے سرمہ سا نکلتی ہے
ہوں ہیولائے دوعالم صورت تقریر اسد
فکر نے سونپی خموشی کی گریبانی مجھے
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
نشونما ہے اصل سے غالب فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
گدائے طاقت تقریر ہے زماں تجھ سے
کہ خامشی کو ہے پیرایہ بیاں تجھ سے
ادب نے سونپی ہمیں سرمہ سائی حیرت
زبان بستہ و چشم کشادہ رکھتے ہیں
اس نوع کے اور بھی شعری شواہد کے حوالے سے نارنگ اپنے مقدمہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’غالب جدلیاتی وضع سے خاموشی کے اس محاورہ کو خلق کرتے ہیں جس کو ان کا عہد بھول چکا تھا ۔ غالب کی شاعری اس احساس کی گواہی دیتی ہے کہ نیرنگ معنی کے طلسمات کے رو برو ہونے کا واحد ذریعہ وہ زبان ہے جو عامیانہ یا معمولہ کو رد کرتی ہے یا جہاں بظاہر لفظ بے صدا ہو جاتا ہے ۔ فرہنگوں اور لغات میں ہزاروں مصطلحات اور الفاط ہیں لیکن طلسمات حقیقت فقط خاموشی کی گرفت میں آتا ہے اور اس کی کلید یہی متناقضات کی زبان یا بے زبانی کی زبان ہے ‘‘۔
خاموشی کے تعلق سے نارنگ نے بہت عمدہ بحث کی ہے ۔ قدیم الایام سے خاموشی کی ایک مستحکم روایت رہی ہے ۔ خاص طور پر روحانیات اور مذہبیات سے اس کا گہرا رشتہ ہے ۔ مسیحی دینیات میں خاموشی بھی عبادت کی رسم کا ایک عصہ ہے ۔ کبالائی روایت میں تو باضابطہ ایک مقدس متن ہے ،جس میں خاموشی کا آرٹ سیکھنے کی تلقین اور ترغیب دی گئی ہے ۔ ان روایتوں کے بموجب خاموشی عرفان و آگہی کا پہلا قدم ہے اور یہی ہر لفظ کا منبع و مصدر ہے ۔ خود کائنات کے مظاہر کا حسن آفریں سکوت اس کا ثبوت ہے ، اس خاموشی کی مختلف سطحیں اور تنوعات ہیں ،یہ ایک مثبت روحانی قوت ہے ۔ غالب نے اس خاموشی کی روح اور رمز کو سمجھا تھا؛اس لئے ان کے کلام میں خاموشی کی زبان ملتی ہے ۔ گوپی چند نارنگ نے کلام غالب میں خاموشی کے آہنگ کے ذریعے بہت سے فکری ابعاد روشن کر دیے ہیں خاص طور پر غالب کے اس مصرعہ کی معنویت مزید روشن ہو گئی ہے :
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
غالب کے یہاں تصوف عرف عام کا صوفیانہ سلوک و طریق نہیں ؛بلکہ وہ دانشِ ہند ہے، جس میں تصوف کے ارتعاشی عناصر ملتے ہیں اور جس کی طرف نارنگ نے بھی ’عرفان اور دانش ہند ‘ میں اشارے کئے ہیں، نارنگ نے ایک جگہ لکھا ہے :
’’غالب کا مسئلہ تصوف یا روحانیت نہیں ۔ تاہم غالب اکثر تخلیقیت کی حدت اور استغراق کے اس عالم میں ملتے ہیں جس پر تصوف اور ماورائیت بھی رشک کر سکتے ہیں ‘‘۔
نارنگ نے غالب کی تمام طرفیں کھولتے ہوئے جس حرکیاتِ نفی کو دریافت کیا ہے، وہ آسان نہیں تھا ۔ مختلف تہذیبوں ، فلسفوں اور روایتوں سے گزر کر ہی یہ گوہر حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ کسی بھی تخلیق میں تصور نو کی تلاش اور پھر اس کا اطلاق ایک دشوار ترین عمل ہے ۔ نارنگ نے پہلے تو شونیتا کے تصور کو اس کے مجموعی مزاج اور ماہیت کے تناظر میں سمجھا ۔ اس کی روح تک رسائی حاصل کی ۔ اس تصور کے مضمرات و ممکنات پر غور کیا اس کے بعد تخلیق میں اس تصور کے اطلاقات کی شکلیں تلاش کیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ جن اشعار میں نارنگ نے شونیتا کے عناصر دریافت کئے وہ ماقبل میں موجود نہیں تھے یا شارحین کی نظروں سے اوجھل تھے ۔ نارنگ نے انہی معروف اور متداول اشعار میں غیر معمولہ معانی تلاش کئے اور شعروں کو نئی فلسفیانہ معنویت عطا کی ۔اور کمال یہی کہلاتا ہے کہ معانی کی بھیڑ سے ایک ایسا معنی نکال لینا کہ دوسرے ششدر رہ جائیں ۔ حیرت و استعجاب میں پڑجائیں کہ آخریہ معانی کیسے نکل آئے ۔ تنقید اگر اس طرح کے تحیر کی کیفیت نہ پیدا کر پائے تو وہ اپنا جواز کھو بیٹھتی ہے ۔ نارنگ نے کلام غالب کے متعینہ معانی کو مسترد کر کے ممکنہ معانی نکالے ہیں جو غالب کی منفرد ذہنی ساخت اور جدلیاتی خواہش سے میل کھاتے ہیں اور التوائے معنی ‘ معنی کی لا متناہیت اور سیالیت کا اثبات کرتے ہیں ۔ اخذ معنی کے باب میں نارنگ غالب کے اساسی استعارہ ’ آئینہ ‘ کی مانند نظر آتے ہیں کہ آئینہ شونیتا کی سب سے بہترین تمثیل ہے اور یہ غالب کی جدلیات کی تفہیم کے لئے ایک کلیدی لفظ کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔
یہ کتاب غالب کے تعلق سے صرف نئے نکات کے اکتشاف سے عبارت نہیں ہے؛ بلکہ یہ تنقید کے پیرا ڈائم شفٹ کی طرف بھی واضح اشارہ ہے ۔ نارنگ نے اس میں نئے تنقیدی toolsکو بروئے کار لا کر یہ بتادیا ہے کہ تنقیدی صنم کدوں کے بت پرانے ہو گئے ہیں ۔ اب تخلیق کو پرکھنے کے پیمانے بدلنے ہوں گے اور نئے معیارات وضع کرنے ہوں گے اور یہ بین علومی منہج سے ہی ممکن ہوگا ۔ کائنات کے نئے فلسفے،جدید لسانیاتی تصورات اور نظریات سے آگہی اور اردو میں اس کے اطلاق کے بغیر اردو تنقید کے رقبہ کو وسیع کرنا مشکل ہوگا ۔ کرۂ نقد کی وسعت کے لئے غالب کی’وسعت میخانہ جنوں‘ سے رشتہ جوڑنا ہوگا ۔ اور اس کے لئے وہی نظری آزادگی اور کشادگی شرط ہے، جو غالب کے یہاں ملتی ہے ۔ نارنگ کے درجِ ذیل اقتباس کے بین السطور سے یہی متبادر ہوتا ہے :
’’نئی علمیات اور شعریات سب سے زیادہ زور معنیاتی تکثیریت ، تجسس اور بو قلمونی پر دیتی ہے اور غالب کی جد لیاتی تخلیقیت کا آزادگی و کشادگی پر زور دینا اور طرفوں کو کھلا رکھنا گویا ما بعد جدید ذہن سے خاص نسبت رکھتا ہے ۔ غالب کی شعریات ‘ اجتہاد ‘ انحراف اور آزادی کی شعریات ہے ۔ اس کا وظیفہ تغیر ‘ تبدل اور تجسس ہے ۔آج کے منظرنامہ میں یہ مماثلت معنی خیز تو ہے ہی ‘ حیران کن بھی ہے کہ جدلیاتی فکر اور متناقضات کی زبان جو غالب کی تخلیقیت کی خاص پہچان ہے ‘ عہد حاضر کی تکثیریت اور عدم تیقن کے محاورہ سے خاص مناسبت رکھتی ہے ۔ ‘‘
غالب کی جدلیاتی فکر اور تکثیری شعریات کے حوالے سے پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بہت جامع اور مدلل بحث کی ہے ۔ اور جدلیات نفی اور شونیتا کے شواہد کلام غالب سے تلاش کئے ہیں مگرغالب کی جدلیاتی وضع صرف شاعری تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کی نثر بھی اسی وضع سے مملو ہے ۔ گوپی چند نارنگ نے غالب کی نثر کے حوالے سے بھی اس نئے نکتہ کا اکتشاف کیا ہے :
’غالب کے تخلیقی ذہن کی جدلیت جس طرح شاعری میں کار گر ہے اور معنی آفرینی و آزادگی ووارستگی کا چراغاں کرتی ہے ۔ویسا ہی تخلیقی تفاعل نثر میں بھی تہ نشین ہے ‘‘۔
انہوں نے ان جدلیاتی نثر پاروں کے حوالے سے بہت مربوط ‘ مبسوط اور معنی خیز گفتگو کی ہے ۔ اور اس طرح خطوط غالب کو بھی ایک نیا فکری تناظر دیا ہے ۔ غالب کے مکاتیب پر تنقیدی تجزیے شائع ہوتے رہے ہیں مگر غالب کی جدلیاتی وضع کی نشان دہی شاید ہی کسی نے کی ہو ۔ نارنگ نے ایسے جدلیات اساس اور آزادگی شعار نثر کے نمونے دیے ہیں اور خاص طور پر و ہ خطوط جن میں جدلیاتی برقیت رواں دواں ہے ۔
یقیناًنارنگ نے ایک نیا جزیرہ دریافت کیا ہے۔اور غالب کے فکری لسانی تفردات ‘ان کے شاعرانہ ابداع اور انفرادیت کے امتیازی نقوش واضح کر دیے ہیں مگر سوال اٹھتا ہے کہ کیا غالب سے پہلے کے ہندوی اردو شاعروں کے کلام میں ان تصورات کی ارتعاشی لہریں نہیں ملتیں ۔ یہ صرف غالب کا ہی اختصاص ہے ۔ نارنگ کے پیش کردہ معروضات سے تعرض کا حق کلاسیکی ادب کے ماہرین کو ہی حاصل ہے ۔۔ مجھ جیسے طالب علم کے لئے تو یہ کتاب گنجینہ گوہر ہے ۔اس کتاب کے مشمولات اور مباحث نے ہماری کم فہمی کو اتنا فہم ضرور دیا ہے کہ :
صد قطرہ و موج محو طوفاں گردد
کز دریا گوہرے نمایاں گردد
اور یہ بھی کہ :
اسد ہر جا سخن نے طرحِ باغ تازہ ڈالی ہے
بارہ ابواب اور چھ سو اٹھتر صفحات پر محیط گوپی چند نارنگ کی’ غالب معنی آفرینی، جد لیاتی وضع ، شونیتا اور شعریات ‘ تنقید کا باغ تازہ ہے :
صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے
( طویل مضمون کا ایک حصہ )
Tag: