شہریت سے متعلق نئے قانون کے راجیہ سبھا سے منظور ہوجانے کے بعد جو کچھ ہوا وہ انتہائی تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت میں بسنے والی عوام کے لیے باعث شرم بھی ہے۔حفاظتی دستوں کے ہاتھوں جامعہ ملیہ میں جو انہونی ہوئی اس کا تصور بھی کسی مذہب معاشرے میں نہیں کیا جاسکتا۔جامعہ اور اے ایم یو کے طلبہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس پر ملک و بیرون ملک میں بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے۔ ملک بھر سے موصول اطلاعات کے مطابق موقر تعلیمی اداروں میں طلبہ نے احتجاجاً جلوس اور مظاہرے کیے۔ان واقعات میں اگر چہ میڈیا کے ایک غالب طبقے نے اپنے اپنے طور پر رنگ آمیزی کی کوشش کی تاہم بین الاقوامی سطح کے مشہور اخبارات نے اس پر جس انداز سے روشنی ڈالی ہے اور عوامی میڈیا ، فیس بک ،واٹس اپ، ٹویٹر کے ذریعہ جو کچھ سامنے آیا اس کو کسی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔احتجاج کی پہل کرنے والے یقیناً نوجوان طلبہ ہی تھے اور بعد میں بھی ان ہی جیسے دیگر یونیورسٹیز کے طلبہ وطالبات نے اس میں شرکت کی تاہم ہر جگہ ان کی آواز کے ساتھ ہزاروں لاکھوں لوگوں نے اپنی آواز ملانے کو وقت کا تقاضا سمجھا۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ آخر ان نوخیزوں نے ایسا کون سا ساز چھیڑ دیا ہے جس کی ہم نوائی اتنے وسیع پیمانے پر ہورہی ہے کہ ہر طرف شور ہی شور ہے۔ اس تصویر کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ذرا گزشتہ انتخابات کی یادوں کو تازہ کیجیے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ 2014 میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں نے بدعنوانی سے نجات،خوش حالی،عمومی ترقی ،سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے پر کشش نعروں کی کس قدر تشہیر کی تھی۔ پٹنہ کی ہنکار ریلی میں تو نریندر مودی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ "کب تک مسلمانوں سے لڑوگے، اب غریبی سے لڑو”۔
واقعہ یہ ہے کہ این ڈی اے کو اپنے اس مشن کی کامیابی کے لیے عام آدمی کے ساتھ ساتھ ملک کے نوجوان طبقے سے خاص سپورٹ ملا تھا۔ نوجوان جو کہ اپنی تعلیم ، روزگار اور اپنے کیرئر کو لے کر بجا طور پر فکرمند رہتا ہے اسے لگا تھا کہ شاید دو کڑور نوکریوں میں کسی ایک آدھ میں کہیں وہ بھی کھپ سکتا ہے۔ مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان نوجوانوں کو جو سبز باغ دکھائے گئے تھے اور جو خواب انھوں نے خود دیکھے تھے ان کی تعبیر سے انھیں دن بہ دن مایوسی ہوتی گئی اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سرے سے خواب دیکھنا بھی ایک جرم قرار پا چکا ہے۔ اس خلش کو جب انھوں نے محسوس کیا اور کوئی حرف شکایت ان کی زبان پر آیا تو ادھر جھٹ سے انھیں ملک سے غداری کا طعنہ دے دیا گیا۔ انھیں جیلوں میں ڈالا گیا، ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی ،ان پر لاٹھی لارچ ہوئے اور بڑے پیمانے پر میڈیا ہاؤسز میں ان کے کردار کو داغدار کرنے کے سبھی پینترے اپنائے گئے۔ یہ تماشہ خوب ہوا ہے اور اس کے فریقین میں چپقلش روزافزوں رہی ہے۔ ایک طرف ناخواندہ ، سادہ لوح اور فریب خوردہ لوگ تھے تو دوسری طرف با حوصلہ، تعلیم یافتہ ارباب دانش اور اہل قلم حضرات کا معتد بہ طبقہ تھا۔ ثانی الذکر طبقے نے جب کبھی طلبہ کی حمایت میں کچھ لب کشائی کی تو ان کو اربن نکسل کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کی گئی۔ اربن نکسل کی جامع اصطلاح سن کر شاید آپ کو بھی خوشگوار حیرت ہو۔ اس لفظ کو تراشنے میں جو ذہنیت اور ذہانت کارفرما ہے اس پر داد نہ دینا تو ظلم ہوگا۔
کوئی کسی بھی سیاسی پارٹی کا حامی ہو یا مخالف مگر اس صورت حال سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ این ڈی اے 1 میں نوٹ بندی، تین طلاق ،لو جہاد، کامن سِول کوڈ اور جے این یو جیسے مسائل چھائے رہے ہیں۔ جن دنوں مودی سرکار اپنا پہلا دوارنیہ مکمل کر رہی تھی انھیں دنوں میں ان کے ہم خیال لوگ آڑٹیکل 35 اے پر دھواں دھار تقریریں کر رہے تھے اور انھوں نے ایک خاص طبقے کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے پڑوس میں بسنے والے لوگوں پر بھی تبصرے کیے۔ پاکستان میں اقلیتیں کس حال میں ہیں ، روہنگیائی مسلمان کو کیا بھارت میں شہریت ملنی چاہئے ، کشمیر کے مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے وغیرہ جیسے مسائل پر ان لوگوں نے بڑی حد تک ایک منفی ماحول بنایا۔اور رفتہ رفتہ نفرت کی یہ کاشت اتنی سر سبز وشاداب ہوتی چلی گئی کہ بی جے پی کی سرکردہ شخصیات اپنے انتخابی جلسوں میں ان متوقع مسائل کا حوالہ دینے لگے اور بی جے پی صدر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایک ایک گھسپیٹیے کو چن چن کر ملک سے نکالیں گے۔ اس کے بعد دوبارہ حکومت سازی کے دنوں میں جو افتتاحی خطاب وزیر اعظم نے کیا اس میں بڑے ڈرامائی انداز میں اقلیتوں کی جانب خصوصی توجہ کا ذکر کیا گیا۔مگر یہ وعدے بھی لفاظی کی حد سے آگے نہ بڑھ سکے۔ مرکزی حکومت ایک کے بعد ایک بل پیش کرتی گئی اور انھیں پاس کرانے کے لیے اس نے قانونی تقاضوں اور اخلاقی حدود تک سے تجاوز کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ مرکزی حکومت نے قانون سازی کے مراحل میں دانستہ یا نادانستہ آمریت کا سا رکھ رکھاؤ اپنایا۔ ان کے وزراء کے لب ولہجہ سے خود اعتمادی اور خیر خواہی سے زیادہ تحّکم اور ضد کی بو آتی ہے۔ان کی انتظامیہ میں فرض شناسی اور جواب دہی کے احساس کے بجائے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے تیور زیادہ نمایاں ہیں۔ آر ، ٹی آئی ، قانون سے چھیڑ چھاڑ ، بابری مسجد جیسے معاملوں میں اس کی جھلک محسوس کی جاسکتی ہے۔ خواہ کشمیر کا مسئلہ ہو ، یا کوئی اور مسئلہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت نے عوامی رائے کے مقابلے میں اپنی کثرت تعداد پر زیادہ بھروسہ کیا۔ ظاہر ہے کہ حکمرانی کا یہ ڈھب کسی دستوری جمہوریت میں کب تک کھپ سکتا تھا۔ ایک عوامی جمہوریہ کی فطرت اس آمریت آمیز رویے کو زیادہ دیر ہضم نہیں کرسکتی۔ آج ملک میں جو منظر ہمارے سامنے ہے اس کے پیچھے فرقہ واریت کی جڑیں تلاش کرنا بے سود ہے۔ شہریت کی ترمیم کا مسئلہ یا این ،آر ، سی کا مسئلہ کسی مخصوص فرقے سے متعلق نہیں ہے۔ این ،آر،سی کا جو حشر ہم آسام میں دیکھ چکے ہیں اسے دیکھ کر یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ ملک کا سواد اعظم اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرجائے گا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جامعہ میں ہونے والے واقعے نے ایک ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کرلی اور اس میں لوگ بلا تفریق مذہب و ملت محض ایک مقصدیت کے تحت شریک ہوئے چلے جارہے ہیں۔ کوئی بھی حکومت جسے عوام نے چنا ہو یا جو خود کو منتخب اور لائق تر سمجھتی ہو اس کا یہ فرض ہے کہ وہ عوامی جذبات کو طاقت کے بل پر کچلنے میں احتیاط اور ہوش سے کام لے۔ کہاں تو جناب وزیر اعظم غریبی سے لڑنے کی گزارش کررہے تھے اور کہاں وہ آج شر پسند عناصر کو ان کے کپڑوں سے پہچاننے کا دعوی کررہے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری، جنسی تشدد ، صحت کے مسائل ، تعلیمی ادروں کے مسائل جیسے سینکڑوں مسائل ہیں جن کے لیے عوام نے حکومت کے نمائندوں پر اعتبار کیا تھا۔ وزیر اعظم نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ملک کے لوگوں نے فقیر کی جھولی بھر دی ہے اب ملک کے لوگ ان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ یا ان کی سرکار ان جھولی بھرنے والے لوگوں کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکانے کی کوشش نہ کرے۔