یوں تو ہندوستان بھر میں آئے دن زنا بالجبراورجنسی درندگی کے بیسیوں واقعات پیش آتے رہتے ہیں اوراپنے وقت کے اس جنت نشاں میں اب یہ کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے ۔ ہماراملک تاریخ کے تمام ادوار میں عظیم الشان تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے ، ہردور میں یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اقوام عالم کے لیے دل چسپی اور کشش کا باعث رہی ہے؛ لیکن افسوس آج مغرب کی اندھی تقلید اور اباحیت پسندی کے سیل رواںنے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تقدس کو پو ری طرح پامال کر دیا ہے ، جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشیت فروغ پاتی جا رہی ہے ، زنا کا ری اور عصمت دری کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ہندوستان میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور جنسی آوار گی کے اس سیلاب بلاخیز پر قابو نہیں پا یا گیا تو یہاں کی تہذیب و ثقافت کا حال بھی یو نان و روم سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔
آج ایک طرف چیختی ،چلاتی عورتوں،سسکتی، بلکتی دوشیزاؤوں، معصوم ونابالغ بچیوں کے دامن عفت کو تار تار کردیاجاتاہے اوردوسری طرف رسمی تعزیتی الفاظ اور روایتی قانونی کارروائی کے علاوہ کوئی دادرسی کے لئے تیارنہیںہوتا۔انفرادی عصمت دری کے علاوہ اجتماعی آبروریزی کے لرزہ خیز واقعات نے تو دلوں کو دہلا کررکھ دیا ہے ،بالخصوص ابھی حال ہی میں پیش آمدہ ریاست و ملک کے متعددسانحات نے تو شرم وحیا کی ساری حدوں کو پارکردیاہے۔
تفصیلات کے مطابق اترپردیش ضلع ہاتھرس کے چندپا نامی دیہات میں رہنے والی انیس سالہ دلت لڑکی ۱۴؍ستمبر کو کسی کام سے جارہی تھی کہ گائوں کے اعلیٰ ذات کے چار لڑکوں نے اس کا اغوا کرلیا اور پاس کے ایک کھیت میں لے جاکر اس کے ساتھ حیوانیت ودرندگی کامظاہرہ کیا۔ متاثرہ کے ساتھ درندوں نے کس طرح کا وحشیانہ سلوک کیا تھا،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے متاثرہ کو اغو اکرکے ایک کھیت میں لے جایا گیا جہاںاس کی اجتماعی آبروریزی ہوئی،اس کے بعددلت لڑکی کی زبان کاٹ دی گئی تاکہ وہ ملزمین کا نام اپنی زبان سے نہ لے سکے۔ بدمعاشوں نے صرف اتنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس مظلوم کی کمر کی ہڈی بھی توڑ دی تاکہ وہ خود اپنے قدموں سے چل کر اسپتال تک نہ پہنچ سکے۔ اس معاملے میں پولیس نے متاثر ہ کے گھر والوں کی شکایت پر پہلے صرف چھیڑ چھاڑ اور مار پیٹ کا معاملہ درج کرنے کے بعد اسے علی گڑھ کے جے این ہاسپٹل میں علاج کیلئے بھیج دیا۔ معاملے نے جب طول پکڑا اور عوام احتجاج کرنے لگے تو آٹھ روز بعد پولیس نے اپنی’لکھا پڑی‘ میں عصمت دری کا بھی اضافہ کردیا۔اجتماعی عصمت دری کا شکار ہونے والی متاثرہ نے پندرہ روز تک موت سے جنگ کے بعد منگل کو بالآخر دم توڑ دیا۔اس نے دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں آخری سانس لی۔ دو روز قبل ہی اسے علی گڑھ سے دہلی علاج کیلئے لایا گیا تھا۔اس موت پر پورا ملک غمزدہ ہے۔ دہلی سے لے کر یوپی تک لوگ سڑکوں پر اُتر آئے اور ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے میں ہاتھرس پولیس نے چاروں نامزد ملزمین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم، پولیس کا رول اس معاملے میں مشکوک رہا ہے کیونکہ اس نے پہلے عصمت دری کی دفعہ کے تحت معاملہ درج ہی نہیں کیا تھا۔
یہ توملکی میڈیاکے ذریعہ منظر عام پر آنے والے افسوس ناک واقعے کی روداد غم تھی۔ ریاست تلنگانہ میں بھی عصمت دری کے واقعات میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ابھی چند ماہ قبل عصمت ریزی کیس کے ملزمین کا انکاونٹر کیا گیا تھا اس وقت سوائے چند گوشوں کے سارے ملک کے عوام نے خیر مقدم کیا تھا اور یہ رائے عام ہوگئی تھی کہ عصمت ریزی کے ملزمین کے ساتھ اسی طرح کی کارروائی ہونی چاہئے۔
ایسے معاملات میں ایک اور قابل فکر بات یہ دیکھی جا رہی ہے کہ کسی کسی کیس کو میڈیا میں پوری شدت کے ساتھ اچھالا جاتا ہے اور کسی معاملہ میں میڈیا کی جانب سے مکمل سردمہری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ معین آباد عصمت ریزی کیس میں بھی ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔جب تک عصمت ریزی اور قتل کے ملزمین کے ساتھ یکساں نوعیت سے کارروائی نہیں ہوگی اور ملزمین کو کیفر کردار نہیں پہونچایا جائے گا اس وقت تک ان سنگین واقعات پر قابو پانا مشکل ہے۔
ان واقعات کو پڑھ کر یا سن کرہم ہیں کہ صرف کڑھتے ہیں، کلبلاتے ہیں اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتے ہیں؛جب کہ یہ ایک اجتماعی افتاد ہے جو اجتماعی کوششوں سے ہی ٹالی جا سکتی ہے ۔ درج ذیل تحریر اگرچہ حالیہ پیش آمدہ واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے؛ مگر ہمارے یہاں بھی ہر روز اسی طرح کے دلخراش اور دل سوز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں،لہذا ہمیں ان جرائم کے اصل اسباب کو سمجھنا ہوگا اور ان کے سدباب کی کوشش کرنی ہوگی۔قبل اس کے کہ ان دل دوز سانحات کے اسباب و سد باب پر روشنی ڈالی جائے اس حوالے سے دنیابھر کے مختلف ممالک کے اعدادو شمار بھی ملاحظہ فرمائیں !
اعداد وشمار:
میرے پیش نظر آبروریزی اور جنسی تشدد کے حوالے سے ٹاپ 10 ملکوں کی ایک فہرست ہے ؛جس میں دسویں نمبر پر ملک ایتھوپیا ہے جہاں کی ساٹھ فیصد خواتین کو سیکسوئیل وائلنس کا سامنا کرنا پڑتاہے اور ہر سترہ میں سے ایک خاتون ریپ کا شکار ہوتی ہے۔عصمت دری کے حوالے سے نوواں بڑا ملک سری لنکا ہے جہاںزنی کے تعلق سے پیش آنے والے صرف چارفیصد معاملات کی شنوائی ہوتی ہے؛ جب کہ ۹۶ ؍فیصدمعاملات سردخانہ میں ڈال دیے جاتے ہیں۔خواتین سے بدسلوکی اور بے حرمتی کی فہرست میں آٹھواں بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں 2,516,918 ریپ کیسز دو ہزار ایک سے اب تک رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہاں کے سرکاری محکموں کا یہ مانناہے کہ یہ رجسٹرڈ کیسز ٹوٹل کا چھ فیصد بھی نہیں ۔ساتواں نمبر فحاشی و زناکاری میں سرفہرست ملک فرانس کا ہے، معلوم ہوناچاہیے کہ 1980 سے پہلے تک تو یہاں ریپ کوئی جرم ہی نہیں سمجھا جاتا تھا ، اس کے سدباب کا کوئی قانون سرے سے موجودہی نہیں تھا، عورت پر جنسی اور جسمانی تشدد پہ قانون بنایا ہی 1992 کے بعد گیا،فرانس جیسے لبرل ملک میں سالانہ 75000 ریپ کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں۔چھٹے پر ٹیکنالوجی کے بادشاہ جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک 6505468 کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں یاد رہے ان میں سے 240000 سے زیادہ متاثرہ خواتین خودکشی و تشدد سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں ، ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتے اس ملک میں انسانیت اتنی ہی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے ۔پانچواں نمبر انگلینڈ کا ہے جہاں 16 سال سے 56 سال کی عمر کی ہر پانچ میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرح سالانہ چار لاکھ خواتین انگلینڈ میں اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں ۔چوتھے نمبر پر ہندوستان آتا ہے , جہاں ہر بائیس منٹ بعد ریپ کا ایک کیس رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، یاد رہے اعداد و شمار کے ماہرین کے نزدیک یہ تعداد اصل تعداد کا دس فیصد بھی نہیں؛ کیوں کہ پسماندگی کی وجہ سے نوے فیصد خواتین رپورٹ درج ہی نہیں کرواتیں ،تیسرے نمبر پہ سویڈن ہے جہاں ہر چار میں سے ایک عورت ریپ اور ہر دو میں سے ایک عورت جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے ۔دوسرے نمبر پرساؤتھ افریقہ ہے جہاں بلحاظ آبادی سالانہ 65000 سے زائد کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں ۔ پہلے نمبر پر دنیاکا مہذب ترین ملک امریکہ ہے جہاں ہر چھ میں سے ایک عورت تو ریپ کا لازمی شکار ہوتی ہے پر ہر 33 میں سے ایک مرد بھی عورتوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوتا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین میں چھ سا ل کی بچی سے لے کر ساٹھ سال تک کی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں،ان میں سب سے زیادہ تعداد ہمسایوں اور رشتہ داروں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی ہے ۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیوروکی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر تین لاکھ ستائیس ہزار تین سو چورانوے معاملات درج کرائے گئے ؛جن میں عصمت دری کی کوشش کے چار ہزار چارسو سینتیس معاملات شامل تھے ۔رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم کی شرح کے لحاظ سے قومی دارالحکومت نئی دہلی سر فہرست رہا، جب کہ آسام دوسرے نمبر پر ہے۔
عمومی اسباب:
عام طور پر دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت ایسے واقعات کے وجود میں آنے کا سبب ہوتی ہے ۔نگرانی اور تربیت کے حوالے سے والدین کی بے توجہی اور لاپرواہی بھی اس کی اہم ترین وجہ ہے،علاوہ ازیں نکاح جیسی آسان سنت کو ایک مشکل مسئلہ بنادینابھی اس کی بنیادی وجوہ میں سے ہے ۔جہیز اور گھوڑے جوڑے کے اخراجات سے گھبراکر والدین شادی میں تاخیر کرتے جاتے ہیں؛جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ نوجوان نسل ناجائزراستوں سے اپنی ضروریات کی تکمیل پر مجبورہوجاتی ہے، حالانکہ دین نے بچوں کی شادی کی جو عمر مقرر کی ہے اگر اسی عمر کو سامنے رکھ کر شادی کردی جائے تو بہت سے جنسی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔
ان کے علاوہ زنا کا ری اور عصمت دری کے اسبا ب و محر کات کا اجمالی خاکہ بھی پیش کیاجاتاہے ۔چناں چہ فحش اور عریاں فلمیں، ٹی وی سیریل،گندی اور مخرب اخلا ق کتب اور رسائل،نائٹ کلبوں اور ہو ٹلوں میں نیم عریاں رقص، شہوت انگیز سنیما پوسٹراور تصاویر،جنسی اشتعال پیدا کر نے والے اشتہارات، جسم کی ساخت کو نما یاں اور عریاں کر نے والے مختصر اور تنگ زنانہ لباس، مخلوط تعلیم،بازاروں، کلبوں، کالجوں، اسکولوں اور تفریح گا ہوں میں مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل ملاپ، نیز شراب اور دیگر منشیات کا بے دریغ استعمال۔وغیرہ
عصمت دری اور زنا کاری کے بڑھتے واقعات پر قا بو پانے کے لیے ان امور پر کنٹرول کی سخت ضروت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور ضروری اقدام یہ بھی ہونا چاہیے کہ معاشرے میں نکاح کو آسان اور سہل بنا یا جا ئے ، تاکہ جنسی تسکین کا جائز ذریعہ مہیا ہو۔
عام طور پر زانی کے تعلق سے سزائے موت یا عمر قید کا پرزور مطالبہ کیاجاتاہے ؛مگرغورکرنے کا مقام ہے کہ اگر صرف سزائیں ہی مسئلہ کا حل ہوتیں تو مجرمین کو پھانسی چڑھانے کے بعدجرائم میں نمایاں کمی واقع ہوجانی چاہیے تھی؛ جبکہ جرائم کی رفتار میں بھیانک اضافہ ہورہا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے سب سے پہلے معاشرہ کی تطہیر اور مناسب تعلیم پر زور دیا ہے تاکہ خواتین کو صرف جنسی تسکین کا ذریعہ نہ سمجھتے ہوئے انہیں ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں عزت دی جائے ،پھر جنسی جرائم کے تدارک کے لئے حجاب کو لازم قرار دیا ہے جو عورت کی عزت و حرمت کی بہترین علامت ہے ۔ ساتھ ہی اسلامی اصولوں کے مطابق جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے والا لٹریچر، فلمیں، وہ تمام پیشے اور ذرائع جن میں عورت کی بے حرمتی ہوتی ہے ممنوع ہیں۔ اس کے بعد آخری تدبیر کے طور پر سخت سزائوں کا مرحلہ آتا ہے تاکہ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی جو لوگ جرم کے مرتکب ہوں انہیں سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ دیگر ساری احتیاطی تدبیروں کو بالائے طاق رکھ کر صرف سخت ترین سزا کا مطالبہ ایک واردات کے مجرم کو کیفرِ کردار تک تو پہونچا سکتا ہے ، مشتعل عوام کے جذبات کی تسکین بھی کر سکتا ہے لیکن اس نوعیت کے سنگین جرائم کے دوبارہ ارتکاب کو روک نہیں سکتا۔
سدباب:
آج کی اس بڑھتی ہوئی درندگی کے روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے دامن عفت میں پناہ لی جائے ؛کیوں کہ عورت کی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیے دین اسلام نے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے اور جو قوانین وضع کئے ہیں وہ ہرقوم و ملت کے لئے قابل دید اور لائق تقلید ہیں ۔چناں چہ خانہ نشینی سے لے کرپردہ وحجاب تک ،مردو زن کے مابین تقسیم کار سے لے کرادائے فرائض وواجبات تک سب میں خواتین کی عزت وآبرو کا تحفظ کیا گیا اور گام بہ گام انہیں پاکدامنی کی تعلیم دی گئی ؛ تاکہ صنف نازک کے شکاریوںکو شکار کا پتہ نہ چلے بلکہ اس کی بھنک بھی معلوم نہ ہو۔
اسے زیوروں کی جھنکار کے ساتھ سڑکوں پر چلنے سے منع کیاگیا، بے ضرورت باہر نکلنے اور کمانے کے لیے بازاروں کا رخ کرنے سے روک دیاگیاکہ کہیںکسب معاش کے پردے میں درندہ صفت انسان اس کی آبرو کا سودانہ کرلے ، بال بچوں کے اخراجات؛ بلکہ خود اپنی کفالت اور کسب معاش سے اسے آزاد رکھا گیا تاکہ باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ،اگر کسی بھی اہم ضرورت کے پیش نظر نکلنے کی ضرورت ہی آپڑے تو اپنے چہرے کو ڈھانکنے کی تاکیدکی گئی تاکہ ’’چہرے کی رونق کا اظہار‘‘ اس کی اپنی زندگی کو ’’بے رونق‘‘ نہ بنادے ، اس کی ’’بے لباسی‘‘ اقربا ورشتہ داروں کو ’’ذلت کالباس‘‘ نہ پہنادے ، اگر اپنے سماج اور سوسائٹی سے باہر جانے کی ضرورت پیش آجائے تو اپنی عزت کا سب سے بڑا محافظ ، باپ ، بیٹا ، بھائی، شوہر اور محرم کو ساتھ رکھنے کا حکم فرمایاگیا۔ دوسری طرف مردوں کو بھی نظر یں جھکاکر چلنے کا حکم دیا گیا۔ اجنبیہ کو دیکھنے پر عذاب آخرت اور دہکتی ہوئی آگ سے ڈرایاگیا، انہیں نکاح کی طرف شوق ورغبت دلائی گئی، سن بلوغ کے فوراً بعد نکاح پر ابھارا گیا ، تاکہ پاکدامنی اس کا شیوہ رہے اورجنسی جذبات کووہ اپنے کنٹرول میں رکھ سکے ۔
مہر اور نفقہ کے علاوہ نکاح کو بھاری بھرکم اخراجات اور من مانی خواہشات کے ذریعہ بارگراں نہیں بنایاگیا، نہ تو لمبی چوڑی مجلس اوربڑے مجمع کی نکاح کے انعقاد میں شرط رکھی گئی، نہ ہی محفل عقدمیں قاضی اور جج کی حاضری کو ضروری قراردیاگیا؛بل کہ بہ شرط وسعت ایک بیوی سے اگر تسکین نہ ہوتو چارتک کی اجازت دی گئی، ناموافق حالات پیدا ہوں اور پہلی بیویوں کے ساتھ رہنا دوبھر ہوجائے اور مصالحت بھی رشتہ کو استوار نہ کرسکے تو مردوں کو طلاق اور عورتوں کو خلع کا اختیار دیاگیا۔
یہ اور ان کے علاوہ پچاسوں ایسے احکام ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر عصمت دری کے واقعات پر قابو پایاجاسکتا ہے ۔
عافیت چاہو تو آؤ دامن اسلام میں
یہ وہ دریا ہے کہ جس میں ڈوبتا کو ئی نہیں
عبدالرشید طلحہ نعمانی
عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
مذاہبِ عالم کا منصفانہ اور غیر جانب دارانہ تجزیہ بتاتا ہے کہ اسلام ہی امن و امان کا نقیب اور سلامتی و آشتی کا علم بردار ہے؛اسی لیے ہرمسلمان کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء کرام قابل احترام اور لائق تعظیم ہیں،یہی نہیں؛بلکہ ان پراور ان کی کتابوں پر ایمان لانا بھی لازم و ضروری ہے۔اسلام رواداری کا اس درجہ داعی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو کفارومشرکین حتی کہ ان کے معبودان باطلہ کو بھی بلا وجہ برا کہنے سے صاف طور پر منع کرتا ہے اور زندگی کے ہر موڑپراعتدال و عدم تشدد کا سبق سکھاتاہے؛لیکن جو قومیں اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھتی ہیں وہ مختلف حربوں سے اسلام کو بدنام کرنے، اس کے مبنی بر فطرت قوانین پر اعتراضات کی بوچھار کرنے اوردنیا کے سامنے اس کی پاکیزہ شبیہ کو مسخ کرنے کی ہر آن کوشش کرتی رہتی ہیں،اسی مقصد کے تحت کبھی مسلمانوں پردہشت گردی کا الزام لگایاجاتاہے،کبھی توہین آمیز فلمیں بنائی جاتی ہیں،کبھی ایسے گیمز تیارکیے جاتے ہیں؛جن سے شعائر اسلام کا استہزاء واستخفاف ہوتا ہے اور ان سب کے علاوہ اس مقدس و عظیم شخصیت کی شان میں گستاخی کے ذریعہ انسانیت نما درندگی کا وہ مظاہرہ کیا جاتا ہے جو مغرب کی فکر گستاخ کا غماز اور مادر پدر آزادی کا عکاس ہوتا ہے۔
ادھروطن عزیزمیں جب سے متشدد زعفرانی عناصر برسراقتدار آئے، اقلیتوں خصوصامسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے کا نہ تھمنے والا سلسلہ تشویش ناک رخ اختیار کرگیا۔یوں توآزادی کے بعدسے لے کر آج تک مسلمانوں کی جان ومال،عزت وآبروسے کھلواڑہوتارہا،مسلمانوں کو ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے جو انصاف ملنا چاہیے تھا وہ نہیں مل سکا۔اس پر مستزاد یہ کہ فسطائی طاقتوں کو مسلم اورغیرمسلم شہریوں کا اتحادخار کی طرح کھٹکنے لگا،وہ ہمیشہ نفرت کا زہرگھولنے میں مصروف رہے،جس کے خوف ناک نتائج بہ تدریج ہمارے سامنے ہیں۔وہ ملک جو کبھی مسلم، ہندواتحاد کا گہوارہ مانا جاتاتھارفتہ رفتہ انتشاروافتراق کی راہ پر چل پڑا۔فسطائی طاقتیں اقتدارپر قبضہ جمانا چاہتی تھیں اوران کے اس ہدف کا پوراہونامسلم اور غیر مسلم اقوام کے درمیان نفرت کی دیوارکھڑی کئے بغیر ممکن نہیں تھا؛اس لیے انہوں نے مذہب کی آڑمیں خوب سازشیں رچیں؛جس کا ایک حصہ شان رسالت ماٰب میں گستاخی بھی ہے۔اسی تناظر میں یہ افسوس ناک واقعہ بھی قارئین جانتے ہیں کہ ابھی دوروز قبل بنگلور کے نوین نامی شخص نے نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچائی ہے۔تفصیلات کے بموجب کرناٹک رکن اسمبلی کے قریبی رشتہ دار نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے شانِ رسالتؐ میں گستاخی کی تھی۔ اس پوسٹ کے وائرل ہوتے ہی عوام میں شدید بے چینی اور برہمی پیدا ہوگئی اور وہ رکن اسمبلی کی قیام گاہ پر جمع ہوگئے۔ عوام نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے رکن اسمبلی کی قیام گاہ کے باہر گاڑیوں کو نذر آتش کردیا۔ صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ حالات پر قابو پانے پولیس کو فائرنگ کرنی پڑی۔ فائرنگ میں تین افراد ہلاک؛جبکہ کچھ زخمی بھی ہوئے۔ صورتحال کی سنگینی اور کشیدگی کو دیکھتے ہوئے شہر کے دو پولیس اسٹیشنوں کے حدود میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ اس کے علاوہ شہر میں امتناعی احکام بھی لاگو کردیئے گئے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس کے رویے نے بھی عوام کو مزید برہم کردیا تھا؛ کیونکہ جب رکن اسمبلی کے رشتہ دار نوین نامی گستاخ نے یہ پوسٹ کیا تو کچھ مقامات پر مقامی عوام نے پولیس میں شکایت درج کروانے کی کوشش کی؛تاہم پولیس نے شکایت درج کرنے کے بجائے انہیں باہمی طور پر مسئلہ کی یکسوئی کا مشورہ دیا۔ اس پر عوام برہم ہوگئے اور پرتشدد احتجاج کیا۔ احتجاجیوں کا مطالبہ تھا کہ پولیس فوری کارروائی کرتے ہوئے گستاخ کو گرفتار کرے۔
یاد رکھناچاہیے کہ شان رسالت مآب میں گستاخی کا یہ کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے؛بلکہ دشمنانِ اسلام نے آپﷺ کی شانِ رسالتؐ کو ہمیشہ اپنی کم ظرفی اور کمینگی کے اظہار کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں جان آف دمشقی (700 تا 754ء)وہ پہلا نامراد شخص ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرالزامات واتہامات کا طومار باندھا اور بعد ازاں اکثر وبیشتر مستشرقین نے انہی الزامات کو دہرایا۔(ملخص ازتوہین آمیز خاکے؛ اسلام اور عصری قانون)اس حوالے سے اگر گذشتہ چند برس کی تاریخ کو پیش نظر رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ توہین ِرسالت بعض تشددپسندغیرمسلموں کا ایک نفرت انگیز رویہ ہے، جس کااظہار وقفے وقفے سے کیاجاتاہے؛تاکہ اسلام کے پیروکار مشتعل ہوں اور ان پر جوابی کارروائی کی جاسکے۔
توہین رسالت؛ ایک جرمِ مسلسل:
اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت و عقیدت اسلام کا جزہے،ان کی فرمانبرداری واطاعت تکمیل ایمان کا سبب ہے اور ان سے وفاداری وشیفتگی اسلام کی اساس اور اہلِ اسلام کی شناخت ہے،ناموسِ رسالت کا تحفظ اورعظمتِ رسول کا تصور اربوں مسلمانوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے والا وہ ناقابلِ تسخیر جوہر ہے جو فدائیانِ نبوت اور شیدائیان ِرسالت کے نزدیک ایمانِ کامل کی بنیادی علامت سمجھا جاتا ہے؛جبکہ یہی دولت ِگراں مایہ اور سب سے بڑھ کر قیمتی سرمایہ فریب خوردگانِ مغرب کے یہاں محض مریضانہ جذباتیت ہے؛یہی وجہ ہے کہ آج اسلام سے عناد،تعلیمات ِ اسلامی سے نفرت،مسلم ثقافت کا تمسخر، مسلمانوں کو محکوم رکھنے اور ان پر ہر طرح کی بالا دستی قائم کرنے کا جنون، مسلم ممالک کے مادی وسائل کا استحصال، مسلم نوجوانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے اور ان کو عملی ارتداد کی راہ پر ڈالنے کی شبانہ روز کوششیں،مسلم ممالک کے سیاسی استحکام کے خلاف مکروہ سازشیں اور ان جیسے بے شمار ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے دشمنانِ اسلام،نہ صرف مسلمانوں کاجانی ومالی اتلاف کر رہے ہیں بلکہ زبردست پیمانہ پر ان کے دینی اعمال،تہذیبی اقدار اور مذہبی کردار کو بھی ملیامیٹ کر رہے ہیں۔
جیساکہ سابقہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ حالیہ کچھ عرصہ سے اعداء اسلام نے اپنی یہ پالیسی بنا رکھی ہے کہ آزادی اظہار اور حریتِ رائے کی آڑ میں نبی اکرمﷺ کی ذات وصفات کو نشانہ بنا یا جائے، آپ کی بلند پایہ شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے نت نئی سازشوں کا جال بُنا جائے، توہین آمیز کارٹونوں، فلموں،تصویروں،کتابوں اور اشتھاروں کی اک باڑ لگائی جائے اور پوری امت ِ مسلمہ کے خلاف زبردست قسم کی جارحانہ مہم چھیڑ کر انہیں، اشتعال انگیز ی، قانون شکنی اور آزادانہ احتجاج پر مجبور کیا جائے اور نتیجۃ ً بقائے امن، تحفظ قانون اور ان جیسی دل فریب اصطلاحات کو بنیاد بنا کر خانہ جنگی،قتل وغارت گری اور قید واسیری کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کر دیا جائے؛ تاکہ مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پِس کر رہ جائیں کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔
یوں تو محسن کشی کی بدترین مجرمانہ حرکتوں اور گستاخانہ کار روائیوں سے انسانیت کا دامن ہمیشہ داغ دار رہا ہے، بد نصیب لوگوں نے تو اپنے والدین تک پر ستم ڈھائے، اپنے ہمدردوں، خیر خواہوں، استاذوں، اور رہنماؤں کے ساتھ بھی دشمنوں جیسا سلوک کیا، تلاش وجستجو سے ایسی بے شمار مثالیں ہر قوم ومذہب میں مل جائیں گی، اس لحاظ سے پیغمبر ِ اسلام ﷺ کی شخصیت ان ناہنجاروں اور خدا بیزاروں کا پہلا نشانہ اور اولین ہدف نہیں ہے۔چناں چہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کا مقالہ نگار لکھتا ہے:”بہت کم لوگ اتنے بدنام کئے گئے جتنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کیا گیا، قرونِ وسطی کے عیسائیوں نے ان کے ساتھ ہر الزام کو روا رکھا ہے۔”
اے ہسٹری آف میڈیوال کا مصنف جے جے سانڈرز لکھتا ہے:”اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیغمبر عربی کو عیسائیوں نے کبھی ہمدردی اور توجہ کی نظر سے نہیں دیکھا، جن کے لئے حضرت عیسیٰ کی ہستی ہی شفیق و آئیڈیل رہی ہے۔ صلیبی جنگوں سے آج تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو متنازعہ حیثیت سے ہی پیش کیا جاتا رہا او ران کے متعلق بے سروپا حکایتیں او ربے ہودہ کہانیاں پھیلائی جاتی رہیں۔”(ملخص ازتوہین آمیز خاکے؛ اسلام اور عصری قانون)
کرنے کے چندضروری کام:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ان مواقع پر کیا کرنا چاہئے؟ تاکہ صحیح معنی میں ہم شریعت کے احکام کے مطابق ناموس رسالت کادفاع کرسکیں،اگرہم واقعۃً مسلمان ہیں اور حدو د شریعت میں رہ کرتاج نبوت ورسالت کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں توہمیں قانونی چارہ جوئی کے ساتھ مندرجہئ ذیل امور کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے جنہیں مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحیؔنے قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایاہے:
۱)اسلامی تعلیمات کی مکمل پیروی اورغیراسلامی نظریات،افکار،خیالات، عادا ت اطوار،تہذیب وتمدن،معاشرت،سیاست وغیرہ سے کلی اجتناب کرناہوگا،خاص طورپر فیشن پرستی اورمادی افکارکوپوری ہمت اوراستقلال کے ساتھ چھوڑناہوگااورسادگی کے ساتھ زندگی گذار نی ہوگی،یہی سب سے پہلے کرنے کا کام ہے؛مگراسے چھوڑکرامت دیگرغیرشرعی طریقوں کواختیار کررہی ہے۔
۲)عالمی طور پرتمام مسلمانوں کو متحدہ ہو کریو این اوکوایسے قوانین وضع کرنے پر مجبور کرنا ہوگا، جس میں انبیاء کرام علیہم السلام کی اہانت کرنے والوں کو قتل کی سزا دی جائے۔
۳)یورپ جو ان تمام غلیظ وناپاک حرکتوں کی پشت پناہی کررہا ہے، اسے مندرجہ ذیل طریقوں سے سبق سکھایا جائے:
الف:مسلمان مغربی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔
ب:ڈالر،یورواورپاؤنڈکے ذریعہ معاملہ نہ کرکے اس کی ویلیو کو کم کریں۔
ج:پورے عالم میں دین اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح تعارف پیش کریں۔
۴)ہر گھر میں اسلام اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سیرت کے مطالعے کو عام کرنا چاہیے۔
۵)نمازوں کا مکمل اہتمام کرنا چاہیے۔
۶)زندگی کے ہر موڑ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو معلوم کرکے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
۷)بدعات وخرافات سے بھرپور اجتناب کرنا چاہیے۔
۸)صحابہ سے محبت اوران کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
۹)علماء سے محبت اورہردنیوی ودینی معاملہ میں ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
۰۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو پڑ ھ کر اس کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا چاہیے۔
۱۱)لوگوں کو سیرت سے وابستہ کرنے کے لیے سیرت کے عنوان پرمسابقات رکھنے چاہیے۔
غرض یہ کہ ہم سب پراپنی استطاعت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع لازم ہے۔