مکالمہ شکیل الرحمن سے ادبی مکالمہ by قندیل 27 ستمبر, 2019 written by قندیل حقانی القاسمیشکیل الرحمن سے ادبی مکالمہ حقانی القاسمی شکیل الرحمن ان نقادوں میں سے ہیں جنھوں نے تنقید کی نئی زمینوں کو دریافت کرکے ادب کو وسیع ترین آفاق عطا کیے۔ انھوں نے تنقید کی زر خیز ی اور نمو کے عنصر کو تلاش کیا جس سے تنقید کا کینوس کائناتی ہوگیا۔ ان کی تنقید کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے وسعتوں کی جستجو کی اور اپنے ہم عصروں کی طرح محدودیت میں محصور نہیں رہے۔ انھوں نے اردو کو جمالیات کی اس لہر سے آشنا کیا جس کی بدولت اردو کو نئے افکار، اسالیب، تصورات اور تخیلات نصیب ہوئے۔ تخلیقات کی پرکھ کے نئے زاویے اور پیمانے ملے۔ تخلیق کی باطنی جمالیاتی جہتیں روشن ہوئیں۔ شکیل الرحمن کی تنقید بنیادی طور پر باز تخلیق ہے۔ انھوں نے تخلیق اور تنقید کے درمیان کھڑی لسانی ساخت کی دیوار کو منہدم کردیا اور اس طرح تنقید ساخت شکنی کے تجربے سے ہمکنار ہوئی۔ جمالیات شکیل الرحمن کا شناخت نامہ ہے اور اس دشت جنوں میں صرف یہی ایک آبلہ پا ہے جس نے ہندوستان کا نظامِ جمال (تین جلدیں ) مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات۔ ہندوستانی جمالیات (تین جلدیں ) اساطیر کی جمالیات، میرشناسی، منٹو شناسی، امیر خسرو کی جمالیات،مولانا رومی کی جمالیات، جمالیات حافظ شیرازی، محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات، تصوف کی جمالیات، فکشن کے فنکار پریم چند، راگ راگنیوں کی تصویریں اور کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات جیسی تصانیف سے اردو تنقید کو ایک نیا منطقہ عطا کیا۔اور ایک ایسا اسلوب خلق کیا کہ جسے ’تنقید فکشن ‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ شکیل الرحمن اردو کے واحد ایسے ادیب ہیں جنھیں تین یونی ورسٹیوں بہار یونی ورسٹی مظفر پور، کشمیر یونی ورسٹی اور متھلا یونی ورسٹی دربھنگہ کے وائس چانسلر بننے کا شرف حاصل ہوا اور مرکزی حکومت میں کابینہ درجے کے وزیر بھی رہے۔شکیل الرحمن کے شخصی اور ادبی کوائف سے ادبی حلقہ اچھی طرح آگاہ ہے کہ ان کے فن اور شخصیت پر شکیل الرحمن :ایک لیجینڈ(شعیب شمس )تخلیقی تنقید کا ایک منفرد دبستان (اقبال انصاری )تنقید کا ایک نیا وژن (صدیق نقوی) شکیل الرحمن کی غالب شناسی (ارشد مسعود ہاشمی )شکیل الرحمن اور مولانا رومی کی جمالیات (صدیق نقوی) آہنگ جمالیات کے ناقد: شکیل الرحمن ( اظہار خضر ) منٹو شناسی اور شکیل الرحمن (کوثر مظہری) فکشن کے فنکار اور پریم چند (شیخ عقیل احمد) شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان (حقانی القاسمی) جیسی کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور شاعر ممبئی، روشنائی کراچی، انشاکولکاتہ کے گوشے شائع ہو چکے ہیں۔ پیش ہیں شکیل صاحب سے راقم کی گفتگو کے اہم اقتباس: حقانی القاسمی: اپنی زندگی کا وہ ٹکڑا بتائیں جس میں دوسروں کے لیے رشک اور روشنی کا عنصر ہو ؟ شکیل الرحمن: میں عمر بھر کام ہی کرتا رہا۔ کوشش کی کہ اپنے ملک اور قوم کی بہتر خدمت کر سکوں، اپنی زبان کی خدمت کر سکوں۔ 1952 تک پٹنہ یونی ورسٹی میں فارسی اور اردو ایک ہی شعبہ تھا۔ ڈاکٹر اقبال حسین صاحب جو فارسی کے بزرگ استاد تھے،شعبہ کے صدر تھے۔ دونوں شعبوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی جدو جہد جاری تھی۔ غلام سرور صاحب جو طالب علم نہ رہے تھے،حلقہ ادب کے سربراہ کی حیثیت سے اس مہم میں پیش پیش تھے۔ میں نے 1925 میں داخلہ لیا، ترقی پسند تحریک سے وابستگی تھی۔ خوب تقریریں کرتا رہتا تھا، اس وقت ڈاکٹر بھال پٹنہ یونیورسیٹی کے وائس چانسلر تھے۔ پروفیسر کلیم الدین احمد دونوںشعبوں کو علیحدہ کرنے کے زبردست خواہش مند تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر بھال سے بھی گفتگو کی تھی۔ عجب اتفاق کہ انھوں نے مجھے اور سعید اختر مرحوم کو وفد کی صورت وائس چانسلر کے پاس بھیجا۔ میں نے ڈاکٹر بھال کے سامنے تقریر شروع کردی۔ یہ بری لت بعد میں نیک فال ثابت ہوئی۔ انھوں نے ہم دونوں سے کچھ سوالات کیے، ہم نے تشفی بخش جوابات دیے۔ چند دنوں کے اندر ہی شعبہ علیحدہ ہو گیا اور پروفیسر اختر اورینوی صاحب اس کے سربراہ بن گئے۔ دوسری بات جو مجھے یاد ہے وہ یہ کہ میں علی گڑھ یونی ورسٹی کے لیے سفارشات کے واسطے یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کی ایک اعلی کمیٹی میں شامل ہو کر علی گڑھ گیا۔ اس وقت شعبہ اردو میں صرف ایک پروفیسر تھے، خورشید الاسلام صاحب۔ وہ ایک اور پروفیسر شپ چاہتے تھے۔ کمیشن کا رویہ ٹھیک نہیں تھا۔ اردو اور دیگر چند شعبوں کو پروفیسر شپ دینا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے فیکلٹی آف آرٹس کی پوری ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ میں نے ایسا کیا کہ اپنی رپورٹ میں جمالیات کے ایک پروفیسر شپ کی سفارش کر دی اور دس صفحات پر چیرمین کے لیے نوٹ تیار کیے۔ سفارش یہ تھی کہ اردو زبان و ادب کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ طلبا کو ہندوستانی جمالیات سے بھی اچھی طرح آشنا کیا جائے۔اس طرح زبان و ادب کے مطالعے کا دائرہ وسیع ہوگا۔ میری سفارش منظور ہوگئی اور شعبہ اردو میں جمالیات کے لیے پروفیسر شپ مل گئی۔ تیسرا واقعہ یہ ہے کہ میں بہار یونی ورسٹی میں وائس چانسلر ہوا تو ایک بہت پرانی جدو جہد رنگ لائی۔ وائس چانسلر کی حیثیت سے میں نے شعبہ فارسی سے شعبہ اردو کو علیحدہ کر دیا اور اس کے ایک علیحدہ سربراہ مقرر کر دیا۔ اپنی موجودگی میں شعبہ اردو کے لیے نئی عمارت میں جگہ بنوائی۔ کشمیر یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کا وہ پہلا استاد ہوں جس نے اس شعبہ کا بنیادی پتھر رکھا۔ ح الف: کیا یونیورسٹیوں میں ادبی تحقیق کی موجودہ صورت حال سے آپ مطمئن ہیں؟شکیل الرحمن: میری نظر سے ڈگریوں کے لیے جانے کتنے مقالے گزرے ہیں، اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے برسوں پہلے بعض اساتذہ نے تحقیقی مقالوں کے لیے جو خاکے مرتب کر دیے ہیں،ہم اسی پر چل رہے ہیں۔ جو خاکے ٹھیک ٹھاک ہیں،ان میں ابھی تک گہرائی پیدا نہیں ہو سکی ہے۔مثلا ادبی تحقیق کے لیے جس جمالیاتی فکر و نظر اور سچی تنقیدی بصیرت کی ضرورت ہے وہ موجود نہیں ہے۔ جس مصنف پہ کام ہورہا ہے اس کی شخصیت کا تجزیہ بہت ہی کم اور ادھوراہوتا ہے، محقق کی نظر گہرائی میں نہیں اترتی تحقیق صرف مواد سامنے رکھ دیتی ہے۔ جمالیاتی وژن اور تنقیدی بصیرت ادبی تنقید ہی عطا کر سکتی ہے تنقید تحقیق کی روح ہے۔ تحقیق سچائی تک لے جاتی ہے۔ لیکن اس سچائی کی اہمیت اور اس کی قدر قیمت روایت سے اس کے رشتے کی پہچان اور وضاحت صرف بہتر جمالیاتی شعور سے ہو سکتی ہے۔ح الف: اردو کے مطالعے میں وسعت کی بات اکثر کی جاتی ہے، مگر اس کے لیے نہ تو واضح طریق کار اختیار کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی؟شکیل الرحمن: اردو زبان جدید ہند آریائی زبان ہے اس کا رشتہ ہندوستان کے ماضی سے بہت گہرا ہے۔ یہ صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب بھی ہے۔ پالی اور پراکرتوں سے اس کے پراسرار رشتوں پر ابھی تک نظر نہیں گئی ہے اس کا ایک بڑا سبب پالی اور پراکرتوں سے ہماری بے خبری ہے۔ ہمیں ان بولیوں کا علم حاصل نہیں ہے مطالعہ کو وسیع کرنے کے لیے ان کی جانب بھی بڑھنا ہوگا۔ اسی طرح اردو زبان وادب کا جو رشتہ ہندی عجمی روایات سے ہے ہمیں اس کی خبر بھی برائے نام ہے۔ فارسی اور ہند وی بولیوں کی جو آمیزشیں ہوتی رہی ہیں ہم نے اب تک ان پر تحقیق نہیں کی۔ تحقیق کی ہوتی تو کبیر اور جائسی وغیرہ ابھی تک اجنبی بنے نہ رہتے۔ کبیر تو اردو کے سب سے پہلے بڑے شاعر ہیں۔ کبیر اورجائسی کے کلام میں فارسی، ترکی اور ہندوی بولیوں اور پراکرتوں کے جو الفاظ اور استعارے ملتے ہیں ان سے فارسی اور ہندوی کی آمیزشوں کا علم بھی حاصل ہوتا ہے نیز اردو کی تہذیب کے تئیںبھی بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔ اردو کی ادبی اور لسانی تحقیق نے اب تک یہ کام نہیں کیا ہے۔ح الف: آپ نے لکھا ہے کہ تنقید کا نقطۂ عروج فکشن ہے، اس کی وضاحت کی زحمت فرمائیںگے؟شکیل الرحمن: تخلیق جب تک فکشن نہیں بن جاتی، بڑی اور پر عظمت نہیں ہوتی۔ مجسمہ سازی ہو، رقص ہو، فن تعمیر ہو یا شاعری سب کا نقطہ عروج یا کلائمکس فکشن ہے۔ شاعری جب تک فکشن نہیں بنتی، بڑی شاعری نہیں ہوتی۔ ہومر، گوئٹے، ملٹن، شیکسپیئر، حافظ، رومی، غالب اور اقبال، فکشن کی سحر انگیزی ہی انھیں بلندی پر لے گئی۔اسی طرح رقص ،فن تعمیر،مجسمہ سازی کا کلائمکس فکشن ہے۔ فکشن کی سحر انگیزی تاج محل، اجنتا، نٹ راج اور گوتم بدھ کے مجسموں میں ہے۔ کتھاکلی،کتھک اور بھرت ناٹیم کی بنیاد بھی فکشن پر ہے۔ کلاسیکی رقص کا نقطہ عروج بھی فکشن ہے۔ ح الف:کیا جمالیاتی روایات کا سفر، تاریخی روایات کے سفر سے مختلف ہے؟شکیل الرحمن: بڑا فن کار روایات کو اپنے انفرادی شعور اور لاشعور میں جذب کرتا ہے، پھر ادبی قدروں کا تعین کرتا ہے۔ روایتی خیالات، تصورات اور کلاسیکی روایت کے حسن کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ بڑے شاعروں کے لا شعور میں عمدہ اور اعلی روایات کاایک پوشیدہ پارینہ خانہ (secret archieve) ہوتا ہے۔ جس کا وہ استعمال کرتا رہتا ہے۔ شیکسپیئر اور غالب کی مثالیں سامنے ہیں۔ حافظ کی زبان میں جام جم اور کمھاروں کی مٹی کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ ادبی جمالیاتی روایات کا سفر عام روایات اور خصوصا ًتاریخی روایات کے سفر سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ سیدھی لکیر نہیں ہے کہ جس پر ادبی جمالیاتی روایات سفر کرتی ہیں۔ ادب کی تاریخ لکھنے والوں اور نقادوں نے اس موضوع کو جس طرح نظر انداز کیا ہے، اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ادب کی تاریخ میں ادوار کی تقسیم حد درجہ میکانکی ہوتی ہے لہٰذا روایات کے خارجی اور باطنی سفر کی جانب کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ نقادوں کا رویہ بھی کچھ ایسا رہا کہ کبھی روایت سے بغاوت کی بات ہوئی کبھی یہ اندازرہا کہ ولی نہ ہوتے تو میر نہ ہوتے،میر نہ ہوتے تو غالب نہ ہوتے اور غالب نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کہا جارہا ہے کہ بابر نہ ہوتے تو ہمایوں نہ ہوتا۔ ہمایوں نہ ہوتا تو جہانگیر نہ ہوتے۔ جہانگیر نہ ہوتے تو شاہ جہاں نہ ہوتا اور شاہ جہاں نہ ہوتا تو۔ ادبی جمالیاتی روایات کا مطالعہ ہرگزایسا ہونا نہیں چاہیے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا ہے کہ ادبی روایات ہڈیوں کے اندر ہوتی ہیں۔ غالب جن روایات سے متاثر ہوئے اور انھوں نے خود جن روایات کی تشہیر کی، انہیں صرف اس طرح نہیں دیکھ سکتے کہ یگانہ چنگیزی یا کسی اور نے ان کے بعض اشعار میں فارسی کے کلاسیکی شعرا کے خیالات کی بازگشت کا ذکر کیا ہے۔ میں نے اس کا پیٹ بھر جواب غالب، بیدل اور دوسرے فارسی شعرا کے تعلق سے دے دیا ہے۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کتنے سیمینار ہوتے ہیں۔طرح طرح کے موضوعات منتخب کیے جاتے ہیں۔ ادبی روایات پر سیمینار کیوں نہیں ہوتا ح الف: آپ کی اہم ترین کتاب ’ہندوستان کا نظام جمال‘ کو خاطر خواہ پذیرائی کیوں نہیں ملی؟شکیل الرحمن: ایسی کتابوں کی پذیرائی میں بہت وقت لگتا ہے انہی کے بقول اردو میں فنون لطیفہ کی جمالیات پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے برسوں برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے بدھ جمالیات سے جمالیات غالب تک ایک بڑا کینوس ہے ح الف: آپ کی نظر میں اردو کا مستقبل کیا ہے؟شکیل الرحمن: اللہ اس کا مستقبل روشن کردے بابا سائیں کی یہی دعا ہے۔بشکریہ: ماہنامہ ’اردو دنیا‘ ستمبر 2011 27 ستمبر, 2019 0 comment 0 FacebookTwitterWhatsappTelegram