اردو انٹرنٹ کی دنیا میں اس وقت ریختہ ڈاٹ کام ایک بہت بڑا نام ہے، اور اردو کے علمی وادبی ورثہ کی حفاظت کے لیے اس نے جو کام کیا ہے اس کی حدوں کو چھونا اس میدان میں کام کرنے والے بہتوں کے لئے ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔
اس کے مالک ہندوستان کے ایک غیر مسلم تاجر سنجیو صراف ہیں،جنہوں نے مطبوعہ اردو لٹریچر کو محفوظ کرنے اور آئندہ نسل تک پہنچانے کے اس پر کروڑوں روپئے لگادئے ہیں،اور چھپائی کے آغاز سے ابتک شائع شدہ اردو لٹریچر اور نایاب مجلات کو معیاری اسکیننگ کے ذریعہ نہ صرف ضائع اور گمنام ہونے سے بچایا ہے، بلکہ اپنی ویب سائٹ کے ذریعہ اس سے استفادہ کو عام کردیا ہے۔اس کے لیے ان کے ساتھ اردو کے بہترین اساتذہ اور فنی ماہرین کی ٹیم لگی ہوئی ہے، جو گھر گھر اور دور دراز مقامات میں واقع غبار زدہ گوداموں اور لائبریریوں اور اداروں میں جاکر کتابوں کی اسکیننگ کررہی ہے، جس کے لیے لاکھوں قیمت کی اسکین مشینیں غیر ممالک سے لائی گئی ہیں، یہ کام صرف ٹیم اور مشینوں کی فراہمی سے ممکن نہیں ہوسکتا بلکہ علمی ذخیروں کے مالکان سے اجازت کا حصول اہم مرحلہ ہے، اطلاع کے مطابق یہ کام خالص فنی اور قانونی طریقے پر انجام جارہا ہے، اور ان ذخیروں کے مالکان سے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا جارہا ہے کہ اس مواد کی اشاعت سے ریختہ کو آئندہ مادی فائدہ حاصل ہوتو اس میں ان کا بھی حصہ ہوگا۔ اطلاع کے مطابق چھتر ہزار مجلات اور کتابوں کی ابتک اسکیننگ ہوچکی ہے،جس میں نولکشور لکھنو کی ہزاروں نایاب کتابیں شامل ہیں جو ابتک بے اعتنائی سے گودام میں غبار سے اٹی پڑی تھیں۔
دوسال قبل اطلاع آئی تھی کہ صراف صاحب نے ریختہ کے اسٹاف سے کہدیا ہے کہ پروجکٹ پر جتنا خرچ کرنا تھا میں نے کردیا ہے، اب ریختہ کے ذریعہ اس کے اخراجات پورا کرنے اور پروگرام کو آگے بڑھانے کی ایسی کوشش کریں، جیسا کہ دنیا بھر میں اس قسم کے ادارے کرتے ہیں، اس مقصد سے دو سال قبل دبی میں ایک جشن کے انعقاد کا اعلان بھی آیا تھا، لیکن کورونا کی وبا کے ساتھ یہ پروگرام چوپٹ ہوگیا۔
یہ کام بنیادی طور پر اردو والوں کا تھا،خاص طور اس ملک کی سرکار اور کشادہ دست لوگوں کا جن کی سرکاری اور قومی زبان اردو ہے، لیکن بد قسمتی سے آج کل کے کمپوٹراور سوفٹ ویر کے زمانے میں ایسے پروجکٹ کی سرپرستی کے بجائے سرکاری اور انفرادی طور پر انہیں ان سے نقصان پہنچانے اور دوسروں کی محنت اپنانے ہی کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
ریختہ والوں نے اپنے حقوق کی حفاظت اور اس پروجکٹ کو مادی طور پر مضبوط کرنے کے لیے کئی ایک پروجکٹ کیے ہیں، ان میں ایک تو کتابوں کی مفت ڈون لوڈنگ کو روکنا ہے، اور دوسرے اسکرین شاٹ کے ذریعہ اساتذہ و محققین کو مطلوبہ مواد فراہم کرنا اور ویزیٹرس کی تعداد کے ذریعہ اس کی مادی قدروقیمت بڑھا کراشتہارات وغیرہ کے وسائل پیدا کرنا ہے، لیکن فیس بوک، ٹیلگرام، واٹس اپ وغیرہ پر خاص طور پر پڑوس سے ان کی محنتوں کو اپنے نام کرنے، اور ریختہ کے ویزیٹرس کی تعداد کم کرنے کے ذریعے ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا جارہا ہے اردو حلقوں سے اس کی بھر پور انداز سے ہمت شکنی ہونی چاہئے۔ کیونکہ اس صورت میں اردو فنی طور پر ٹکنیکل میدان میں بہت پس ماندہ ہوجائے گی۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے، نصف صدی سے زیادہ کی محنت سے اردو لغت کبیر کے نام سے جو کارنامہ انجام پایا تھا، وہ نہایت ہی قابل قدر تھا، لیکن اب جن لوگوں کو اپنے آباء کی محنتوں کی قدر ومنزلت او اس کے ترویج کرنی چاہیے تھی وہ خود پیچھے ہٹ گئے ہیں، لغت بورڈ کی خود مختارحیثیت ختم کرکے اب اسے کسی وزارت کا ماتحت غیر اہم سیکشن بنادیا گیا ہے، اب ان میں اتنی بھی صلاحیت نہیں ہے کہ ایک معیاری اسکین شدہ نسخہ تیار کرکے شائقین تک اسے پہنچانے کا بندوبست کریں، یہ کتاب عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے، اور ریختہ والوں نے اسکین کرکے اپنی ویب سائٹ پر لگایا ہے ، لیکن اسے ڈون لوڈ کرنے کا آپشن وہاں نہیں دیا ہے، البتہ وہاں سے استفادہ ممکن ہے،اپنے ادارہ سے اس کی معیاری اسکین شدہ کاپی فراہم کرنے کے بجائے دہلی کے ریختہ ڈاٹ کام سے اسکرین شاٹ لے کر سرکاری طور پر اس کی ڈی وی ڈی فراہم کی گئی ہے،واضح رہے لغت بورڈ کے ایک باذوق سابق سربراہ کی اس کارگزاری پر ہمیں شکایت نہیں ہے، ان کے سامنے کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا، لیکن یہ ایک سرکاری ادارے اور اس رویہ کوقبول کرنے والوں کے لئے عیب کی بات ہے، نصف صدی سے زیادہ عرصے کی محنت اور کروڑوں کے صرفہ سے اردو زبان کے چنندہ اساتذہ کی محنت کی اس طرح بے قدری کی جائے۔ کہ ایک غیر معیاری نسخہ دوسروں سے کاپی کرکے اپنے نام سے شائع کیا جائے کتنا عجیب لگتا ہے؟۔ اردو لغت کی معیاری اسکیننگ تھوڑی سی دلچسپی اور معمولی مبلغ خرچ کرنے سے ہوسکتی تھی،آج جس طرح واٹس اپ اور ٹیلگرام پر ریختہ سے پرنٹ شاٹ سے لیا ہوا ناقص اور غیر واضح نسخہ نظر آتا ہے تو دل دکھنے لگتا ہے۔
آج ہماری علم وکتاب گروپ پر ریختہ سے کتابوں کی کاپی کرنے کے طریقہ کو پوسٹ نہ کرنے کی اپیل کے پس پردہ مندرجہ ذیل جذبات تھے۔
۱۔ ہمیں ریختہ ڈاٹ کام کے ویزٹرس کو کم کرنے والے ہر عمل سے پرہیز کرنا چاہیے،ریختہ کے نادر علمی مواد جس بے قدری سے سوشل میڈیا پر شیر ہورہے ہیں، اس کا نقصان ناقابل تلافی ہوسکتا ہے، اردو کے اس طرح کےدوسرے پرجکٹوں کی ہمت افزائی ہونی چاہیے۔ اب تن آسانی کے لئے ایسے سستی شہرت پانے والوں کی ہمت افزائی ہوتی رہے، اور ریختہ کے وزیٹرس کم ہوتے گئے تو پھر اس میدان میں نئے آنے والے تو درکنار اسے بھی باقی رکھنا مشکل ہوجائے گا۔
۲۔ ریختہ پر جو مواد پوسٹ ہوا ہے، ان کی اشاعت کے حقوق اس کے پاس ہیں، اور ریختہ اس کی مالک ہے، انہوں نے ویزٹ کے ذریعہ استفادہ کی راہ آسان کردی ہے، اب ان کی مرضی کے خلاف اس کی کتابوں کو پی ڈی یف فورمیٹ میں اور اپنے نام سے عام کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔
۳۔ ہمیں کسی ایسے کام کی ہمت افزائی نہیں کرنی چاہیے جس سے اردو زبان کی مختلف علمی تحقیقی اور فنی میدانوں میں ترقی رک سکتی ہو۔
ذہن میں اور بھی کئی ایک باتیں ہیں، لیکن بحث کو الجھانے کے خوف سے ان چند باتوں پر اکتفا کرتے ہیں۔
Tag: