مصنف: مختار لوبیس
تبصرہ نگار: سیف علی سیف
” آزاد لوگ جنگ شروع نہیں کرتے لیکن جب جنگ شروع ہو جائے تو وہ شکست کی حالت میں بھی لڑتے رہتے ہیں۔ ہجوم ہمیشہ لڑائیاں جیتتا ہے جب کہ آزاد لوگ ہمیشہ جنگیں جیتتے ہیں "۔ (آرڈن)
یہ اُس وقت کی بات ہے جب انڈونیشیا نیدرلینڈ اور جاپان کے ساتھ آزادی کا معاہدہ کر چکا تھا۔ انڈونیشیا کو جغرافیائی لحاظ سے تو آزاد کر دیا گیا تھا مگر غیر ملکی مسلسل اس کی تہذیب کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے تھے۔ ملک کہنے کو تو آزاد تھا لیکن جکارتہ سمیت دیگر بڑے شہر اب بھی ولندیزی ملٹری کے ہاتھوں میں تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب چند نوجوانوں نے ملک گیر انقلابی مہم کا آغاز کیا۔ گو اس مہم نے زیادہ لوگوں کو متاثر نہیں کیا، لیکن یہ کسی حد تک خوف کی دیوار گرانے میں ضرور کامیاب رہی۔
انسانی فطرت میں قدرت نے آغاز سے ہی ماحول کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار قدرت کے اسی اصول کا عکاس ہے۔ عیسی جیسا شریف النفس استاد کس طرح حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے ہی شاگردوں کی کاپیاں چوری کرتا ہے اور پھر کس طرح انقلابی تنظیم کا لیڈر بن جاتا ہے۔ شروع سے آخر تک ہیرو خوف کی کیفیت میں رہتا ہے۔ یہ خوف کسی چیز کا خوف نہیں بلکہ فیصلہ نہ کر پانے کی صلاحیت کا نہ ہونا ہے۔ اسی خوف کی وجہ سے وہ جنسی طاقت کھو دیتا ہے اور شادی کے چھ ماہ بعد ہی بیوی اسے غیر مرئی مخلوق دکھائی دینے لگتی ہے۔
ناول کا دوسرا مرکزی کردار موسیقی کی سوجھ بوجھ رکھنے والا نوجوان حاضل ہے۔ یہ نوجوان ہی عیسی کو انقلابی تحریک کی طرف راغب کرتا ہے اور پھر اس کی نامردی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی بیوی سے ناجائز تعلقات قائم کر لیتا ہے۔
آخر پر ایک سینما پر گرینڈ پھینکنے کے جرم میں حاضل گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ تشدد کی وجہ سے وہ نہ صرف خود اقبالِ جرم کر لیتا ہے بلکہ عیسی کا نام بھی بتا دیتا ہے۔ عیسی گرفتاری کے بعد تشدد سے بچنے کیلئے اقبال جرم کا سوچتا ہے،مگر خوف کی وجہ سے اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دیتی۔ بالآخر تشدد بھی اس پر کارگر ثابت نہیں ہوتا اور اس کے خوف کی دیوار ٹوٹ جاتی ہے اور وہ یہ تاریخی الفاظ کہتا ہے: ” انقلاب صرف ذریعہ ہے حصولِ آزادی کا اور خود آزادی ایک ذریعہ ہے انسانی زندگی کو، مسرت اور شرافت سے بھرپور کرنے کا ” ۔
ویسے ناول رواں ہے اور دلچسپ بھی ہے۔ ناول نگار چوں کہ ایک ادیب سے زیادہ ایک صحافی ہے اس لئے ناول کے اسلوب میں ادبی چاشنی کا فقدان ہے۔ لیکن مجموعی طور پر ناول بائیں بازو کے قارئین کے لیے کسی نایاب تحفے سے کم نہیں۔