رات ہے، دشت ہے، مہتاب اکیلا ہوگا
اور ایسے میں کوئی خواب اکیلا ہوگا
ہے اگر حسنِ جہاں تاب یگانہ بھی تو کیا
عشق بھی ایسا گہر ناب اکیلا ہوگا
تو اُدھر بزم میں ہوگا کہیں شاداں، فرحاں
اور اِدھر تیرا یہ بیتاب اکیلا ہوگا
کوہ وصحرا کے یہ قصے تو ہزاروں ہوں گے
میری وحشت کا مگر باب اکیلا ہوگا
میں کہ تنہائی کا مارا سرِ دریا خالد
میرا ہمسر بھی تہہِ آب اکیلا ہوگا