خالد مبشر
چشم و دریا ہم سخن ہے ، عشق ہے
کیا دوآبے کا ملن ہے ، عشق ہے
آگ جتنی ہے ، ہوس ہے سب مگر
ہڈیوں میں جو اَگَن ہے عشق ہے
میں کہاں ہوں میرے اندر اب تو بس
وحشتوں کی انجمن ہے ، عشق ہے
اور کیا ہو مختصر یہ داستاں
پھول بَن سے مَن لگن ہے ، عشق ہے
مفت شہرت مل گئی فرہاد کو
اصل میں جو کوہ کَن ہے، عشق ہے
اب تو خالد نے بھی کھل کر کہہ دیا
یہ جو سارا فکر وفن ہے ، عشق ہے