عبید الکبیر، جامعہ نگر، نیو دہلی
آج کی رات بہت سرد ہوا چلتی ہے
سہمے سہمے ہوئے سنسان سے گلیاروں میں
خلق کس شوق میں گھر بار کو چھوڑی ہوئی ہے
اتنی رونق تو نہیں ہوتی ہے بازاروں میں
کتنا شوریدہ وافسردہ وہ منظر تھا کہ جب
کوئے جاناں میں سرِ شام چلی باد ِسموم
درس گاہوں میں نظا رہ تھا کسی مقتل کا
شب کے سنّاٹے میں سب دست کشا تھے مظلوم
ماجرا یہ ہے کہ اس قصۂ شب خون کے بعد
ظلم اور جبر کی منحوس صداؤں کے خلاف
ان گنت شمعیں فروزاں ہیں نواح شب میں
احتجاجاً جلی جاتی ہیں ہواؤں کے خلاف
جب کبھی ظلم کے پالے ہوئے فرعونوں نے
خلقت شہر سے مانگا ہے خدائی کا خراج
ہر طرف شور ِانا الحق کی صدا اٹھّی ہے
دست نادار نے چھینے کئی داراؤں کے تاج
یہ کسی قصۂ پارینہ کا آغاز ہے دوست
بجلیاں کوند رہی ہیں جو یہاں شاہوں پر
کانپ اٹھتی ہے زمیں جس کی کڑک سے ہر بار
مست ورقصاں نظر آتا ہے جو چوراہوں پر
اے مری قوم کے خوابوں کی مجسم تعبیر
نعرۂ کوہ شکن میں تری بربط پہ نثار
مرحبا مرحبا اے طائرِ گل بانگِ سحر
آفریں آفریں اے گلشنِ فطرت کی بہار
تیرے سینے میں محبت کی خلش زندہ ہے
تیرے نغموں میں بغاوت کی تپش زندہ ہے