توصیف القاسمی
8860931450
مہندر نام کا ایک شخص ہمارے گاؤں پیراگپور میں مسلمانوں کے درمیان رہتا تھا اس کو دین اسلام پسند آیا تو اس نے 1990 میں اسلام قبول کر لیا اور عبد الرحمن بن گیا ۔ مہندر پر قبول اسلام کی وجہ سے وہی مظالم ہوئے جو اس راہ کے ہر مسافر پر ہوتے ہیں ، راقم نے ان سے ‘کیے گئے مظالم’ کی تفصیل پوچھنی چاہی تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ "صحابہ پر بھی تو ظلم ہوئے تھے اس لئے مجھے ان کا کوئی احساس و افسوس نہیں ” ان پر کیے گئے مظالم کی داستان گاؤں کے بزرگوں کی زبان پرعام ہے ، جب کبھی کسی چوپال میں مہندر جو کہ اب "عبدالرحمن” بن چکے کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہر بڑا بوڑھا عبدالرحمن پر کیے گئے مظالم کا عینی گواہ معلوم ہوتا ہے اور عبدالرحمن کی استقامت بھی چٹان محسوس ہوتی ہے ۔ عبد الرحمن اب بھی ہمارے گاؤں میں ہی رہتے ہیں ، بڑھئی کا کام کرتے ہیں مگر پوری طرح سے اپنے فن میں ماہر نہیں ہیں ، گاؤں کے مسلمان ان کی غربت و بے چارگی کو دیکھتے ہوئے اپنا چھوٹا موٹا کام ان سے کروا لیتے ہیں تین بچے ہیں بلال ، حسین ، اویس ۔ جن میں سے حسین ماشاء اللہ حافظ قرآن ہے اور اویس ابھی حفظ قرآن کر رہا ہے ۔ گھر بار انتہائی غربت و بیچارگی کا مظہر ہے جب کبھی مہندر تھا تو مندروں میں گھنٹہ بجاتا ہو گا ، مگر اب عبدالرحمن ہونے کے بعد اذان دیتا ہے ، رمضان میں سحری کے لئے مسلمانوں کو اٹھاتا ہے ۔ کفر کی دولت اور مستیوں کو ترک کرکے صرف اللہ کے لئے فقر وفاقہ پر راضی ہو گیا ، اپنا سب کچھ لٹا دیا ، ماں باپ ، بھائی بہن احباب ، اجداد کی دولت وغیرہ ۔ سچ کہا ہے :
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
عبدالرحمن عید و بقرہ عید کے موقع پر مسلمانوں کے پاس آ جاتا ہے شرماتے ہوئے ، زبان سے کچھ نہیں بولتا لیکن چہرے کی اداسی ، دھنسی ہوئی آنکھیں سادہ سے کپڑے ، بتکلف چہرے کی مسکراہٹ عبد الرحمن کے اس مقصد کو چیخ چیخ کر بتلادیتی ہے ، جو اخوت اسلامی کی وجہ سے ہر مسلمان پر فرض تھی یعنی اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرنا اور ہم مجرمانہ طور پر اس "فرض” کو بھولے ہوئے ہیں ، جس نے جو دے دیا عبد الرحمن نے بخوشی لے لیا نہ زیادتی کے لیے کوئی لجاجت نہ عدم تعاون پر کوئی حسرت ، گویا زبان حال سے یوں کہتا ہوا لوٹ جاتا ہے "دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک” ۔
نو مسلموں کا سنگین مسئلہ:
مسلمان اگر ذات پات اور برادری واد کے غیراسلامی "ظالم نظام” سے توبہ کرلیں اور مکمل طور پر سماج کو”محمود و ایاز” کے سانچے میں ڈھال دیں تو آج بھی "نسل پرستی” اور "برہمن ازم” کے مارے ہوئے کروڑوں لوگ اسلام قبول کرلیں ۔
یہ تبصرہ صرف میرا ہی نہیں ، بلکہ ہر اس اسلامی مصلح مفکر اور داعی کا ہے جس نے ہندو پاک ، بنگلہ دیش کے پس منظر میں یہاں کے مسلمانوں ، اسلام اور ہندو ازم کا تحقیقی جائزہ لیا ہے ۔ ہم مسلمان اپنی یہ خوش فہمی دور کر لیں کہ مسلمانوں میں سب برابر ہیں ، "مساوات” کی بات اسلام میں ضرور کی گئی ہے مگر مسلمانوں میں "مساوات” عملاً موجود نہیں ہے ۔ مسعود عالم فلاحی نے اپنی کتاب "ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان” میں اس مسئلے کا گہرائی سے جائزہ لیا اور اس کے اثرات پر بڑی کڑی تنقید کی ، اس کے نقصانات سے بحث کی اور بڑے بڑے "حضرتوں” کے فتوؤں کی بنیادوں پر چوٹ کی ۔ مفتی سعید صاحب پالنپوری مرحوم نے دوران سبق یہ بات بتلائی تھی کہ کتنے ہی دبے کچلے غیر مسلم اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن مسلم سماج ان کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ، ان نو مسلموں کا ان کے بچوں کی بیاہ شادی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہو جاتا ہے مسلمانوں میں برادری واد کی ظالم جڑیں ایسی ہی گہری ہیں جیسی برہمن ازم میں ، اس فرق کے ساتھ کہ یہ باقیات جاہلیہ ہمارے یہاں مسلم معاشرے کا حصہ ہیں جبکہ غیر مسلموں میں انکے مذہب کا ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ مسلمان بیاہ شادی رشتے ناطے حتیٰ کہ مساجد و مدارس بھی برادری کو بنیاد بنا کر طے کرتے ہیں نہ کہ اسلام کو بنیاد بنا کر ۔ اس صورتحال میں نو مسلموں کے لئے مسلم سماج میں کوئی گنجائش نہیں نکل پاتی ، جبکہ یہ صورتحال سراسر غیر اسلامی اور حرام ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کی فطری رفتار کے لیے زبردست رکاوٹ ہے ۔آخر ایک شخص ماضی کے تمام رشتوں سے کٹ کر مستقبل کی تنہائی کیسے گزارے گا ؟
جب کہ اسلام کی شروع کی تاریخ میں ہم کو مواخات کی اصطلاح ملتی ہے جس کے ذریعے رنگ و نسل جغرافیہ اور برادری کے فرق کو ختم کرکے اسلامیت کے رشتے کی بنیاد پر سب کو ایک خاندان بنا دیا گیا تھا ۔ اسی مواخات کا اثر تھا کہ شروع اسلام میں کسی بھی نو وارد شخص کے لیے مذکورہ چیزیں ( رنگ و نسل جغرافیہ قبیلہ برادری حسب نسب وغیرہ پر فخر و غرور ) اجنبیت کا سبب نہیں بنتی تھی اسی مواخات سے یہ دستور نکلا کہ جو نومسلم جس مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرے تو وہ اسی کے قبیلے اور برادری کا مانا جائے گا حتی کہ بعض صورتوں میں مال وراثت کا حقدار بھی ہوگا فقہ اسلامی میں اس قسم کے مسائل "کتاب الولاء” کے تحت آتے ہیں ۔ امام بخاری کے اجداد میں سے ایک بزرگ نے بخارا کے حاکم یمان جعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا "جعف ” ایک عربی قبیلہ تھا جبکہ امام بخاری عجمی النسل ہیں ، مذکورہ مواخات اسلامی کا ہی اثر تھا کہ امام بخاری کے نام کے ساتھ بھی الجعفی لگنے لگا ۔
کرتا پاجامہ ، داڑھی ٹوپی ، کھانے پینے کی سنتوں پر طویل مباحثہ کرنے والے علماء "اسلامی مواخات” کو سماج میں کب نافذ کریں گے ؟ کب کوئی لائحہ عمل طے کریں گے ؟ مسلم معاشرے سے یہ باقیات جاہلیہ کب ختم ہونگی ؟